منہج سلف اختیار کرنے کے اثرات و فوائد
ہر مثبت فکر کو اپنانے میں بہت سے فوائد وثمرات ہیں ٹھیک اسی طرح منہج سلف کے اپنانے کے بھی بہت سارے فوائد ہیں ۔(۱) دین کی تکمیل کے ساتھ نعمتیں اور حجتیں تمام ہو جاتی ہیں ۔اس منہج کے اختیار کامطلب اس بات کا حقیقی اعتراف ہے کہ آدمی اس بات کا قائل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو مکمل کردیا ، رسول ﷺ جو دین اور پیغام الہٰی لے کر آئے تھےاسے آپﷺ نےکما حقہ امت تک پہنچادیا ، اس میں اگر کچھ بھی پیچیدگی تھی تو آپﷺ نے اسےسمجھا دیا۔ حجتیں قائم ہوچکی ہیں اور صحابۂ کرام نے علمی اور عملی طور پر اس دین کو قائم کرکے اس کا پورا نقشہ سامنے رکھ دیا ہے قول کے ساتھ ساتھ انہوں نے دین کی عملی تبلیغ بھی انجام دے دی ۔سلفی عقیدہ کا حامل شخص یہ کبھی بھی نہیں کہہ سکتا اور نہ تو اپنے عمل سے ایسا کچھ ظاہر کر سکتا ہے کہ دین میں کچھ کمی رہ گئی ہے جیسا کہ آج کے اہل بدعت کا معاملہ ہے جو اپنے عمل سے دین کو ناقص بتاتے ہیں یا الحاد سے متأثر لوگوںکا نظریہ ہے کہ یہ اپنے قول سے بھی دین کو مکمل تسلیم نہیں کرتے ۔(۲) آدمی تمام نصوصِ شرعیہ کی تصدیق کرتا ہےاور جب تک ان میں نسخ نہ ہو سب سے استدلال کرتاہے کیونکہ سب ایک ہی چراغ کی روشنیاں ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ ،وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ}(الزمر : ۳۲)’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے اور سچا دین جب اس کے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے ۔ کیا ایسے کفار کے لئے جہنم ٹھکانا نہیں ہے ؟ اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ پارسا ہیں ‘‘۔(۳) اس منہج کا التزام ایک مسلمان کو کتاب و سنت پر ثابت قدم رکھتا ہے کہ یہ نصوص جن معانی کو شامل ہیں سب حق اور درست ہیں ۔چند دلیلیں درج ذیل ہیں:أ: جناب عبد اللہ بن مغفل سے مروی ہے : انہوں نے ایک آدمی کو کنکریاں پھینکتے ہو ئے دیکھا تو منع کیا اور کہا کہ اللہ کے رسولﷺ نے اس سے منع کیا ہےیا یہ کہ آپ اسے نا پسند کرتے تھے ، پھر فرمایا کہ اس سے تو شکار کیا جاسکتا ہے نہ کسی دشمن کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے لیکن اس سے دانت ٹوٹ سکتا ہے اور آنکھ جاسکتی ہے۔ پھر یہی کام انہوں نے دوبارہ دیکھا تو کہا کہ میں نے تم سے بیان کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کنکری مارنے سے منع کیا ہے یا ناپسند کیا اور تم کنکری مارےجارہے ہو میں اب تم سے بات نہیں کروں گا ۔ب: سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ انہوں ایک آدمی کو دیکھا وہ طلوع فجر کے بعد دو رکعت سے زیادہ پڑھ رہا تھا جس میں رکوع اور سجود بھی کثرت سے کررہا تھا،چنانچہ سعید بن مسیب نے اسے منع کیا منع کرنے پر اس نے کہا اے ابو محمد کیا اللہ تعالیٰ مجھے نماز پڑھنے پر سزا دے گا ۔توسعید نے کہا نہیں بلکہ تمہیں سنت کی مخالفت پرعذاب دے گا ۔ت: سالم بن عبد اللہ بن عمر اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ جب تم جمرات کی رمی کرلو اور ذبح کرلو حلق کر لو تو تمہارے لئے عورت اور خوشبو کے سوا سب حلال ہے ۔سالم کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول ﷺ کو ان کے احرام کے لئے احرام سے پہلے اور ان کی حلت کے لئے رمی جمار کے بعد اور زیارت کعبہ سے پہلے خوشبو لگائی ۔ سالم کہتے ہیں کہ رسول ﷺ کی سنت اتباع کی زیادہ حق دار ہے ۔ان تمام دلائل میں جو بات ہے وہ یہ ہے کہ انسان نبی کی سنت کا حریص نظر آرہا ہے اس کے مقابلے میں کیسی ہی حسین بات اور کیسا ہی دل کش عمل کیوں نہ ہوخاطر میں نہیں لاتا ۔(۴) یہ منہج نئی مسلم نسل کو سلف صالح اور علمائے ربانی سے جوڑتا ہے ۔یہ بدیہی بات ہے کہ سلف صالحین اور علمائے ربانین ہی وہ واسطہ اور ذریعہ ہیں جن سے اسلام کی صحیح معلومات نئی نسل تک پہنچتی ہے جب نئی نسل اس منہج سے جڑے گی تو اسے اس شخص کی تلاش ہو گی جس نے اس کی توضیح اور تشریح کی ہے اس طرح نئی نسل اور اسلاف کے درمیان ایک رشتہ قائم ہو گا جس کا سبب دین کی صحیح معرفت ہے ، اور ان کے ذہن میں یہ بات جا گزیں ہو گی کہ سلف کا طریقہ اسلم بھی ہے اعلم بھی ہے اور احکم بھی ہے ۔یعنی سلف کا طریقہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ اور محتاط ، زیادہ علم والا اور زیادہ محکم و مستحکم ہے ۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : لقد كذّبُوا على طريقة السلف ، وضلُّوا في تصويب طريقة الخلف، فجمعوا بين الجهل بطريقة السلف في الكذب عليهم ، وبين الجهل والضلال بتصويب طريقة الخلف(مجموع الفتاوى لابن تيمية:۵؍۹ )۔ انہوں نے منہج سلف پر جھوٹ بات کہی اور و ہ منہج خلف کے درست قرار دینے میں بے راہ روی کے شکار ہوئے اس طرح انہوں نے منہج سلف پر جھوٹ باندھ کر اور منہج خلف کو درست مان کر دو جہالتوں کا ارتکاب کیا ۔(۵) جہاں سلف خاموش رہے وہاں خاموش رہنے سے انسان خواہ مخواہ گفتگو کی جرأت سے محفوظ رہتا ہے:توہر وہ مسئلہ جس میں صحابہ اور سلف صالحین خاموش رہےخاموش رہنا چاہئے بعد والوںنے اس طرح کے مسائل میں کلام کیا خصوصاً عقائد اور ایمان کے باب میں حالانکہ یہاںخاموشی ہی بہتر تھی۔عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو عدی بن ارطاۃ جو وصیت کرتے ہیں اس میں کہتے ہیں: فإن السنة إنما سنها من قد عرف ما في خلافها من الخطأ والزلل، والحمق والتعمق، فارض لنفسك بما يرضي به القوم لأنفسهم ، فإنهم عن علم وقفوا، وببصر قد كفُّوا، وهم كانوا على كشف الأمور أقوى- بفضل- لو كان فيه أجر، فلئن قلتم : “أمر حدث بعدهم ما أحدثه بعدهم إلا من اتبع غير سنتهم، ورغب بنفسه عنهم، إنهم لهم السابقون فقد تكلَّموا فيه بما يكفي، ووصفوا منه ما يشفي، فما دونهم مقصر، وما فوقهم محسر، لقد قصر عنهم آخرون فضلوا، وإنهم بين ذلك لعلى هدى مستقيم۔ (الشريعة للآجري:ص:۲۳۳ )۔سنت کو ان لوگوں نے رواج دیا ہے جنہیں اس کے خلاف چیزوں میں غلطی اور جادہ حق سے انحراف ، اور انتہائی درجہ کی بیوقوفی ملی ، سو توبھی اپنے نفس کو اس پرراضی کرلے جس سے قوم راضی ہوئی ، کیونکہ انہیں علم پر واقفیت اور معاملات میں بصیرت تھی اگر کچھ بھی اجر و ثواب ہوتو ان پر امور کی حقیقت زیادہ آشکار تھی ، اگر تم یہ کہو کہ کچھ امور بعد میں نئے آئے جو ان کے بعد ایسے لوگوں نےایجاد کئے جو سنت کے پیرو کار نہ تھے اور سلف سے بیزارتھے ۔ سلف نے اس معاملے میںان پر سبقت حاصل کی ہے انہوں نے جو کچھ کہا کافی ہے جو بھی بیان کیا تشفی بخش ہے۔ جو ان کی راہ سے پیچھے رہ جائے وہ مقصر یعنی کوتاہ عمل ہے ۔ اورجو ان سے آگےبڑھ جائے وہ محسّر ہے چنانچہ کچھ لوگ ان کی راہ سے پیچھے رہ گئے تو گمراہ ہوگئے اور وہ لوگ یعنی سلف ان راہوںکے درمیان سیدھی ہدایت پر ہیں ۔(۶)آدمی حق پر مضبوطی سے کاربند رہتاہے اور تردّد سے محفوظ رہتا ہے۔منہج سلف کے التزام کا فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان موت تک حق پر قائم رہتا ہےاور اس کے عقائد و افکار میں کوئی اضطراب ، تشویش اور تبدیلی نہیں پیدا ہوتی ۔ ﭽ ﭭ ﭮ ﭯ ﭰ ﭱ ﭲ ﭳ ﭴ ﭵ ﭶ{يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاءُ}(ابراہیم :۲۷)علامہ سعدی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندوں کوجو ایمان پر قائم ہیں ان کو ثابت قدم رکھتا ہے ۔اوردنیاکی زندگی میں شبہات کے موقع پر اللہ ان کو ثبات عطا کرتا ہے اور ہدایت سے یقین کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کو حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:{ فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ} (ھود:۱۱۲)اللہ تعالیٰ کی تثبیت کے بعد سب سے اہم سبب جس سے ثبات پیدا ہوتا ہے انبیاءکے وہ قصے ہیں جو بھر پور رہنمائی کرتے ہیں۔اور تقلّب فی الاصل اہل بدعت کی پہچان ہے حذیفہ بن یمان کہتے ہیں : إن الضلالة حق الضلالة – أن تعرف ما كنت تُنكر، وتنكر ما كنت تعرف، وإياك والتلون في الدين فإن دين الله واحد‘‘.صریح گمراہی یہ ہےکہ جسے تم منکرجانتے تھے اسے معروف جاننے لگو اور جسے معروف سمجھتے تھے اسے منکر سمجھنے لگو، دین میں تلوّن مزاجی سے بچنا چاہئے کیونکہ اللہ کا دین ایک ہے ۔عیسیٰ بن معن کہتے ہیں ایک دن امام مالک ہمارے سہارے مسجد سے آرہے تھے اسی درمیان ایک آدمی جسے ابو جویریہ کہا جاتا تھاجن پر ارجاءکی تہمت بھی لگائی جاتی تھی آپ سے ملا اور کہنے لگا کہ اے ابو عبد اللہ مجھے آپ سےکچھ بات کرنی ہے دراصل میں آپ کو اپنی رائے سے آگاہ کرنا اور حجت کرنا چاہتا ہوں امام مالک نے کہا کہ اگر تم مجھ پر غالب آگئے تو؟ کہا تو میری اتباع کر لینا ۔امام مالک نے کہا کہ اگر کوئی دوسرا آدمی آئے اور حجت کرے اور ہم پر غالب آجائے تو؟ کہا تو ہم اس کی اتباع کر لیں ۔امام مالک نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو ایک ہی دین دے کر بھیجا ہے اور میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ ایک دین سے دوسرے دین کی طرف منتقل ہورہے ہو ۔عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کہتے ہیں جس نے دین کو خصومات کا نشانہ بنا دیا وہ بہت زیادہ ادھر ادھر ہوتاہے۔(المسند للدارمي:۱؍۳۱۲؍۳۴۲، و الشريعة للآجري:۱؍۱۲۲؍۱۸۹)۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں مجموعی طور پر اہل الحدیث اور اہل سنت کے یہاں اہل کلام اور فلاسفہ کے مقابلے استقرار ویقین زیادہ ہوتا ہے۔(۷) مسلمانوں کی جماعت میں اتحاد قائم ہوتا ہے۔منہج سلف کے التزام کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں اتحاد پید ا ہوتا ہے اور اختلاف ختم ہو جاتاہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ سلف کے یہاں جو بھی علمی یا عملی اختلاف ہے اس کے نوعیت تنوّع کی ہے اوران کے یہاں علم وایمان میں تفاوت بھی ہے یعنی ان کا اختلاف حقیقی نہیں ہے ۔لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ تمام مسائل کی تفصیل اور اس کی باریکیوں میں بہر طوراتفاق ہے اصحاب رسولﷺ کا دین کے بعض احکام میں اختلاف بہر حال تھا تاہم ان میں اختلاف کے سبب فرقہ بندی اور گروہ بندی نہیں تھی اختلاف کے با وجو د ایک دوسرے کو نصیحت کرتے تھے اوران کے مابین اسلامی بھائی چارہ باقی رہا۔ کیونکہ اختلاف اصلاح اور محبت کے ساتھ سلف اور اصحاب حدیث کی پہچان رہی ہے ۔جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جناب ابن عباس سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ امت کیسے اختلاف کر سکتی ہے جب اس کا نبی ایک قبلہ ایک ۔ تو ابن عباس کہتے ہیں اے امیر المؤمنین قرآن ہم پر نازل ہوا تو ہم نے اسے پڑھا اور جانا کہ کس بارے میں نازل ہوا، عنقریب ہمارے بعد کچھ قومیں آئیں گی وہ قرآن پڑھیں گی مگر انہیں پتہ نہ ہوگا کہ کس کے بارے میں نازل ہوا ہے تو رائے زنی کریں گے جب وہ رائے زنی کریں گے تو اختلاف کریں گے اور جب اختلاف کریں گے تو باہم قتال کریں گے ۔گو یا منہج سلف کے ترک سے اختلاف پیدا ہوگا۔(۸) منہج سلف کے التزام سے ہدایت ،مدد،دنیا میںخلافت اور آخرت میں کامیابی ا ور نجات ملے گی ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللّٰهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ}امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ لن يصلح آخر الزمان إلا بما صلح به أوله ‘‘ آخری زمانے کی اصلاح بھی اسی چیز سے ممکن ہے جس سے پہلے لوگوںکی اصلاح ہوئی ہے ۔منہج سلف کا فائدہسلف کے راستے کی صورت میںدراصل ہمیں بہت سی غیر ضروری محنت اور تردد سے کفایت کردی گئی ہے ۔ فہم سلف کی صورت میں ہمیں جو چیز حاصل ہے وہ حق بھی ہے اور شریعت کے معانی کے تعین کی ایک ایسی بنیا د بھی کہ جس پر قوموں اور معاشروں کی ایک دور رس اور طویل المیعاد تعمیر ہو سکے ۔اس کے علاوہ آپ کو اور کیا چاہئے ؟ اصول اور مسلمات جو قوموں کی ایک بنیادی ـضرورت ہواکرتے ہیں کہ جن پر آپ پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ لیں اور جن پر چلتے ہوئے قدم قدم پر پیچھے مڑکر دیکھنا اور فکر میں پڑجانا اور فلسفیانہ بحثیں کرنا آپ کے لئے ضروری نہ ہو ، آپ کی بنیادی ضرورت ہے ۔ سلف کا چلا ہوا راستہ آپ کے اسی درد کا مداوا تو ہے ۔ پھر دوسری بات یہ ضروری ہے کہ آپ کے وہ مسلمات جن پر آپ اپنے دور اور معاشرے میں فکر و عمل کی ایک بلند وبالا عمارت اٹھانا چاہتے ہیں ، عین حق اور درست ہو اور ان کے درست ہونے پر مطمئن رہنے کی آپ کے پاس کوئی ٹھوس بنیاد ہو۔ سلف کا راستہ آپ کے اس دکھ کا علاج بھی ہے ۔ اس کے علاوہ اور آپ کو کیا چاہئے ؟ محض چلنا رہ جاتا ہے اور وہ ظاہر ہے کہ آپ کو خود ہی چلنا ہے ۔
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان اینڈ اعتدال ڈاٹ کم