Saturday 17 December 2016

عصرحاضر کی تشدد پسند تکفیری جماعتوں اور سلفی اصلاحی دعوت کے مابین نظریاتی وعملی تضادات

عصرحاضر کی تشدد پسند تکفیری جماعتوں اور سلفی اصلاحی دعوت کے مابین نظریاتی وعملی تضادات

اہل باطل کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ اپنے فاسد خیالات ،مذموم عقائد،ناپسندیدہ نظریات اور قبیح عادات کے لئے کوئی مضبوط سہارا پاجائیں ،جس کی آڑ میں وہ اپنا کام چلا سکیں،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب یہود کی طغیانی، سرکشی،آوارگی اور شریعت مخالف بدعملی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور ہر جانب سے تھو تھو ہونے لگی تو وہ بھی ادھر ادھر جھانکنے لگے اور جب کچھ نہ پاسکے توان انبیاء کرام کو اپناہدف بنا لیا جنھیں اللہ رب العالمین نے اپنا پیغام انسانوں تک پہنچانے کے لئے چنا تھا،چنانچہ ہر وہ بری عادت جو ان یہودیوںکے اندر موجود تھی اسے انبیاء پر تھوپنا شروع کردیا،کسی پر شراب نوشی ،کسی پر جھوٹ ،کسی پر دھوکہ ،حتیٰ کہ بعض انبیاء پرنعوذباللہ عیاشی وبدکرداری کا الزام بھی عائد کردیاکہ اس طرح وہ اپنے گناہوں کو ہلکاکرکے پیش کرسکیں۔آج کے دور میں بھی بعینہٖ یہی ہورہاہے۔ کچھ تشددپسندتنظیمیںاور خارجیت زدہ تکفیری جماعتیںاس پر آمادہ ہیں کہ وہ اپنے جرائم کاتعلق مایۂ ناز اصلاحی وتجدیدی تحریک سلفی دعوت سے جوڑ سکیں،اس کے لئے وہ ان کی کتابیں چھاپتی ہیں،ان سے استدلال کرتی ہیں،جس کی بنا پر اغیار کوموقع مل گیاہے کہ کتاب وسنت پر مبنی اس اصلاحی وتجدیدی سلفی دعوت کے حاملین ومتعلقین کو شدت پسند کہہ سکیں۔اس رویہ کی خطرناکی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت پر گذشتہ صدیوں میں بھی یہ اعتراضات رہے ہیں کہ یہ دعوت ایک تشدد پسند دعوت ہے، اس دعوت کے حاملین میں سختی پائی جاتی ہے،یہ لوگ رواداری اور محبت کے قائل نہیں،اس تحریک کا بنیادی مقصد ہی یہ تھاکہ سب سے لڑائی کی جائے،استاذمحترم عرفان احمد عبدالواحد صفوی؍أدام اللہ صحتہ اپنے مقالے’’شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت اور قدیم وجدید مستشرقین‘‘میں اس دعوت پر وارد ہونے والے اعتراضات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’یہ ایک تشدد پسند اور متعصب فرقہ ہے،ڈیوڈ کوپر کہتاہے :’’شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ان کے متبعین حنبلی مسلک سے منسوب ہونے کے باوجودعمومی طور پر متشدد واقع ہوئے ہیں‘‘ بورخاردت ،برائجس اور لوئس پلے نے بھی اس دعوت کو متعصب اور متشدد کہا ہے‘‘ دوسری جگہ لکھتے ہیں:یہ دعوت محض لڑائی اور مال غنیمت کے لئے تھی، اس کا مقصد پڑوسی امراء کو اپنا ماتحت بنانا تھا،ولیم گیفورڈپلگریف لکھتاہے :ان دونوں کا مقصد کوئی نیا فرقہ ایجاد کرنا نہیں تھابلکہ حکومت ان کی اصل منزل اور اصل ہدف تھا‘‘، بہرحال تاریخی اعتبار سے ہم دیکھتے ہیںکہ پڑوسی ملک بھارت پر حکومت کرنے والے غاصب انگریزوں نے تمام مجاہدین آزادی کو وہابی نام دے رکھا تھا، بہ لفظ دیگر ان کی نظر میں وہابی اور باغی مترادف الفاظ تھے۔گذشتہ دہائی میں امریکی ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے طیارہ ٹکرانے کے واقعہ کے بعد سے اس الزام میں اورشدت آگئی۔بعض تنظیموں اور حکومتوں نے تو اس فکر اور اس دعوت پر پابندی تک لگانے کی بات کہہ ڈالی ہے۔لیکن حقائق کا مشاہدہ کرتے ہوئے انصاف پسندی سے جوکام لے گا اس پر یہ حقیقت طشت ازبام ہوجائے گی کہ سلفی دعوتی فکر اور باغیانہ خارجی وتکفیری طرزفکر میں بعدالمشرقین ہے،دونوں کا ایک دوسرے سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔زیر نظر تحریر اسی سلسلے کی ایک ہلکی اور مختصر کوشش ہے جس میں دونوں قسم کے مکاتب فکر میں پائے جانے والے عملی ونظریاتی فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔موجودہ تشدد پسندانہ نظریے اور سلفی ودعوتی فکر میں فرق:جوبھی شخص شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور ان کے معاونین آل سعود کی زندگیوں کا گہرائی سے مطالعہ کرے گاوہ سلفی تجدیدی دعوت اور ان تکفیری وخارجی نظریات میں نمایاں فرق دیکھے گا بلکہ اگر اسے دونوں کے مابین فرق واضح کرنے کے لئے کہا جائے تو اس کی طبیعت مکدر ہوجائے گی۔دونوں کے مابین اس طرح موازنہ کرنا درحقیقت سلفی تجدیدی فکر کی توہین اور تنقیص ہے۔کیوںکہچہ نسبت خاک را بہ عالم پاکبہرحال دونوں قسم کے نظریات میں جو واضح فرق ہے اسے اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہاہے۔پہلا فرق:دعوت کی حقیقت :شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت پورے دین کی طرف دعوت پرمحیط تھی، خصوصاً توحید کی دعوت۔ یہ چیز روزاول سے اس سلفی تجدیدی فکر کے مؤسس ،ان کی اولادواحفاد ،متبعین اور آل سعود کے تمام بیانات ،دستاویزات اور اقدامات سے ظاہرہے۔اس دعوت کے مؤیدین وانصار نے کبھی دین خصوصاً توحید سے سمجھوتہ نہیں کیا۔حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ دعوت پورے دین کی طرف دعوت پر مرکوزہے، ہاں وہ بھی انسان ہیں، غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں،خامیاں ان کے اندر موجود ہیں، اس سے کسی کوانکار نہیں۔پورا عالم اسلام اسے مملکت توحید اوردولۃ التوحید کے خطاب سے نوازتاہے،یہی اس دعوت کا طرۂ امتیازہے۔شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’قد قدمنا أننا لا نکفر بالذنوب وإنا نقاتل ونکفر من یشرک باللہ وجعل للہندا یدعوہ کما یدعو اللہ ویذبح لہ کما یذبح للہ‘‘(الدرر السنیۃ فی الأجوبۃالنجدیۃ۱؍۳۱۱)۔ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم گناہوں کی بنیاد پر کسی کو کافر نہیں کہا کرتے، ہم اسی سے قتال کرتے ہیں اور اسی کو کافر کہتے ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک کرتاہے اور اللہ کے لئے کسی کو شریک ٹھہراتاہے،اسے اسی مانند پکارتاہے جس طرح اللہ کو پکارتاہے اور ذبیحہ پیش کرتا ہے جس طرح اللہ کے لئے کرتا ہے۔اس کے برعکس ہم فی زماننا تشدد پسند جماعتوںکو دیکھتے ہیں ،ان کی دعوت محض زمین پربرتری قائم کرنا،فساد مچانا،قتل وغارت گری کرنااورجو ان کے طرزفکر سے میل نہ کھائے اسے کافر قرار دینا ہے۔دوسرافرق:دونوں نظریات میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ سلفی دعوت کے حاملین ،مؤیدین،اور معاونین علماء پر مشتمل ہیں ،دعوت وتبلیغ جن کا اوڑھنا بچھوناہے،تصنیف وتالیف جن کا مشغلہ ہے اور وعظ وارشاد جن کا کھانا پیناہے ،انھوں نے شریعت کے ہر فن سے متعلق بے شمار کتابیں لکھ ڈالی ہیں، خواہ وہ تفسیر ہو، حدیث ہو، عقیدہ ہو، سیرت ہو،فقہ ہو، یا کچھ اور،یہ عمل مسلسل جاری ہے، ان کی صفوں سے آئے دن نابغۂ روزگار علماء پیدا ہورہے ہیں،پوری دنیا جن کی صلاحیتوں کی معترف ہے،ان کی تحقیق پر داد دیتی ہے،فتاویٰ پر اعتماد کرتی ہے۔اس کے برعکس دوسری تنظیموں میں کوئی عالم نہیں،نہ تو ان کا قائد ہی عالم ہے ،نہ کوئی اور۔ بلکہ بعض تنظیموں نے تو برملا اعتراف کیا ہے کے ان کی صفوں میں کوئی عالم نہیں۔تیسرا فرق:سلفی دعوتی فکر کے مؤسسین ،معاونین اور حاملین روزاول سے آج تک اپنی طرف سے جنگ کی ابتداء کے قائل نہیں رہے،ان کی لڑائی ہمیشہ دفاعی رہی،انھوں نے ہتھیار اس وقت اٹھایا جب لوگوں نے انھیں مجبور کردیا ۔استاذ محترم عرفان احمد عبدالواحد صفوی ؍أدام اللہ صحتہ اپنے مذکورہ مقالہ میں لکھتے ہیں:بورخاردت،برائجس،پلگریف اور لوئس پلے کے اس الزام کی کوئی حقیقت نہیں کہ شیخ کی دعوت کا ہدف محض لڑائی،غنیمت کا حصول اور دوسروں پر حکومت کرنا تھا،حقیقت یہ ہے کہ شیخ کی دعوت ایک خالص دینی دعوت تھی ،جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر قائم تھی،شیخ خود ایک رسالہ میں لکھتے ہیں:’’وأما القتال فلم نقاتل أحدا إلی الیوم إلا دون النفس والحرمۃ وہم الذینأتونا فی دیارنا ولا أبقوا ممکنا ولکن قد نقاتل بعضہم علی سبیل المقابلۃ {وجزاء سیئۃسیئۃ مثلہا} (الشوری:۴۰)۔جہاں تک جنگ کی بات ہے تو ہم نے آج تک قصاص اور حرمات دین کی پامالی کے علاوہ کسی اور بات پر کسی سے بھی جنگ نہیں کی ، سچائی یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو ہمارے گھروں تک چڑھ دوڑے ہیں ، کوئی امکان باقی نہ چھوڑا ،ہاں! ہم بعض لوگوں سے علیٰ سبیل المقابلۃ جنگ کرتے ہیں،اللہ کا فرمان ہے:’’برائی کا بدلہ تو اسی جیسی برائی ہے‘‘۔اس کے بر عکس موجودہ تکفیری وخارجی جماعتوں نے کبھی بھی توحید کے لئے لڑائی نہیں کی،ان کی بیشتر لڑائیاں مسلمانوں سے ہیں اور اس کے دو اسباب ہیں:(۱)یہ لوگ عام مسلمانوں اور ان کے حکام کو کافرسمجھتے ہیںاور انھیں مرتد قرار دیتے ہیں،جیسا کہ ان کے روزمرہ بیانات سے ظاہر ہے۔(۲)یہ تمام مسلمانوں کو اپنی حکومت کی ماتحتی میں لانا چاہتے ہیں،جو ان کی موافقت نہ کرے اسے کافر قرار دے کر اس سے جنگ کرنا شروع کردیتے ہیں، داعش تو اس معاملہ میں سب سے آگے ہے۔چوتھافرق:سلفی دعوت کے حاملین نے کبھی بھی لوگوں کو اپنی ماتحتی قبول کرنے کا حکم نہیں دیا ،نہ ہی ایسے لوگوں کو کافر کہا جو ان کے دائرہ حکومت سے باہرہوں، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اس کی بابت فرماتے ہیں:’’وکیف نکفر من لم یشرک باللہ إذا لم یہاجر إلینا أولم یکفرو یقاتل، سبحانک ہذا بہتان عظیم‘‘ (الدررالسنیۃ فی الأجوبۃ النجدیۃ۱؍۱۰۴)محض اس بات پر ہم کسی کو کافر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ہماری طرف ہجرت نہیں کی ہے، جب کہ اس نے شرک کا ارتکاب نہ کیا ہو ،کفر نہ کیاہو اور قتال بھی نہ کیا ہو،اللہ کی ذات پاک ہے ،یہ تو واضح بہتان ہے۔اس کے برعکس آج کی داعش کو دیکھ لیجئے وہ سب کو اپنے دائرہ حکومت میں لانا بھی چاہتے ہیںاور جو ان کی ماتحتی نہ قبول کرے اس کو کافر بھی گردانتے ہیں۔پانچواں فرق:عورتوں اوربچوں کا قتل :سلفی دعوت کے افراد عورتوں اور بچوں کے قتل کو جائز نہیں سمجھتے،کیوںکہ ان کے سامنے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت رہتی ہے’’إن ا مرأۃ وجدت فی بعض مغازی النبی ﷺمقتولۃ فأنکر النبی ﷺ قتلالنساء والصبیان‘‘(متفق علیہ) نبی اکرم ﷺ کے کسی غزوہ میں ایک عورت مقتول پائی گئی تو نبی کریم ﷺ نے عورتوں اور بچوںکے قتل پر نکیر فرمائی۔شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’لانری قتل النساء والصبیان‘‘(الدررالسنیۃ فی الأجوبۃ النجدیۃ۱؍۲۲۹)ہم عورتوں اور بچوں کے قتل کو جائز نہیں سمجھتے۔اس کے برعکس آج کی تکفیری وخارجیت زدہ جماعتوں کو دیکھ لیجئے وہ کون سا دھماکہ ہے جس میں بوڑھے ،بچے اور عورتیں قتل نہ کی جاتی ہوں۔چھٹا فرق: تکفیر: اس دعوت کے ماننے والے دوسرے مسلمانوں کو کافر نہیں کہا کرتے ،صرف ان چیزوں پہ تکفیر کے قائل ہیں جو نواقض اسلام میں شامل ہیں ۔امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’إنا لا نقاتل إلا علی ماأجمع علیہ العلما ء کلہم وہوالشہادتان بعد التعریفإذاعرف ثم أنکر‘‘،ہم صرف انھیں باتوں پر تکفیر کے قائل ہیں جن پر علماء کا اجماع ہے ،یعنی جاننے کے بعد شہادتین کا اقرار، جب انسان اسے جان لے پھر انکار کردے۔اس کے برعکس یہ تنظیمیں ہر اس شخص کو کافر قرار دیتی ہیںجو ان کا ہم نوا نہ ہویا جو ان کا مخالف ہو،خارجی نظریات کے حاملین ہر اس شخص کی تکفیر کے قائل ہیں جس نے کسی گناہ کا ارتکاب کرلیا ہو۔ساتواں فرق:اما م محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے کسی معین جماعت یا شخص کو اس وقت تک کافر نہیں کہا گرچہ وہ صراحتاً مجمع علیہ کفر کا ارتکاب کررہا ہوجب تک تکفیر سے مانع کوئی چیز پائی جائے، مثلاً جہالت،لاعلمی اور تنبیہ کرنے والوں کا نہ پایا جاناوغیرہ۔اما م محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے فرزند فرماتے ہیں:’’لانکفر إلا من بلغتہ دعوتنا للحق ووضحت لہ الحجۃ وقامت علیہالمحجۃ،وأصر مستکبرا معاندا‘‘(الدررالسنیۃ فی الأجوبۃ النجدیۃ:۱؍۲۳۴)ہم اس وقت تک کسی کی تکفیر کے قائل نہیں ،یہاں تک کہ اس کو ہماری حق کی دعوت پہنچ جائے،دلیل واضح ہوجائے،حجت قائم ہوجائے،پھر بھی وہ استکبار اور دشمنی پر آمادہ رہے۔حرف آخر:یہاں شبہہ ہوسکتاہے کہ جب دونوں مکاتب فکر میں اتنا نمایاں فرق ہے تو پھر دونوں کو آخر کیسے جوڑ دیا گیا،اس کی علت کیا ہے !اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ محض لاعلمی اور جہالت ہے جس کی وجہ سے بعض لوگ غلط فہمی کا شکار ہوگئے،اور دونوں کو ایک سمجھ لیا ۔غلط فہمی اس طرح ہوئی کہ لوگوں نے دیکھا شیخ الاسلام اپنے زمانے میں لوگوں سے قتال کرچکے ہیں،انھوں نے موجودہ تنظیموں کو بھی جنگ کرتے دیکھا،بس غلط فہمی کا شکار ہوگئے،یہ نہیں خیال کیا کہ شیخ نے کتاب وسنت کی روشنی میں مستحق لوگوں سے شرعی اصول کی بنیاد پر جنگ کی تھی جبکہ یہ تنظیمیںہرکس وناکس سے لڑائی پر آمادہ نظر آتی ہیں۔ غلط فہمی اس وقت مزید بڑھ گئی جب ان میں سے بعض تنظیموں نے شیخ کی مایۂ ناز کتاب ’’کتاب التوحید‘‘چھاپ کر تقسیم کرنا شروع کردیاحالانکہ محض لڑائی وجنگ میں مماثلت کی بنیاد پردونوں کو ایک نہیں سمجھاجاناچاہئے،کہ اس طرح کی شرعی لڑائیاںپوری تاریخ اسلام میں بھری پڑی ہیں،اس طرح ان کی کتابوں سے استدلال کرنے پر بھی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کیوںکہ یہ تنظیمیں اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے قرآن مجید کی آیات کوبھی نہیں چھوڑتیں،سیاق وسباق سے کاٹ کرآیات الٰہیہ کو اپنا معنی پہنادیتی ہیں۔مختصر یہ کہ سلفی دعوت ان تمام اتہامات والزامات سے پاک ہے ،اس کا موجودہ تکفیری تشدد پسند جماعتوں سے کوئی لینا دینا نہیں،وہ ان جماعتوں سے اسی طرح اپنی براء ت کا اظہار کرتی ہے جس طرح بھیڑیا یوسف علیہ السلام کے خون سے بری تھا۔سلفی دعوت کا منہج بھی سلفی ہے جبکہ زیر بحث جماعتوں کا منہج خارجی اور تکفیری ہے یہ اہم اور بنیادی فرق ہے جسے ملحوظ رکھنا از بس ضروری ہے۔
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان اینڈ اعتدال ڈاٹ کم

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...