Saturday 17 December 2016

سلفی دعوت کے پانچ اہم اصول

سلفی دعوت کے پانچ اہم اصول

منہج کا معنی و مفہوم ، اس کے قواعد اور امتیازی خصوصیات جان لینے کے بعد یہ معرفت حاصل کرنا کہ سلفی منہج کس چیز کی دعوت دیتا ہے اور اس منہج کی دعوت کے اصول و مبادی کیا ہیں ؟ نہایت اہم ہے ۔ چند اہم امور یہ ہیں :۱)فہمِ سلف کے مطابق کتاب وسنت کی طرف رجوع ۔۲) توحید اور اخلاص عمل کی دعوت ۔۳) مسلمانوں کو شرک سے ڈرانا۔۴) اتباع کی دعوت اور تقلید سے اجتناب۔۵) نفع بخش علم کا حصول ۔مذکورہ بالا پانچوں نکات کی ضروری تفصیل ذیل میں پیش کی جارہی ہے:پہلی بنیاد: فہم سلف کے مطابق کتاب و سنت کی طرف رجوع :اس بنیاد میں دو باتیں ہیں۔ اول: کتاب و سنت کی طرف رجوع اور اس کا فہم ۔ ثانی : کتاب و سنت کے رجوع اور فہم میں صحابہ کرام کا منہج اختیار کرنا۔سلفی دعوت کی یہ اہم ترین اور اصل اساس ہے کہ صحابہ کرام تابعین عظام ائمہ کرام کے فہم کے مطابق کتاب وسنت کی اتباع کی جائے ۔اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ عقائد و عبادات او رمعاملات دین کے تمام شعبوں میں صحابہ کرام کا اتفاق انہیں دونوں مصادر پر رہا ہے اور یہی مومنین کا راستہ ہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :{ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ }’’ اگر یہ لوگ ایمان لائیں جیسا کہ تم لوگوں نے ایمان قبول کیا ہے تو یہ ہدایت یافتہ ہیں اور اگر وہ منہ موڑیں تو صریح اختلاف میں ہیں۔ ‘‘(البقرة :۱۳۷)اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :{ وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِالْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا}’’ اور جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد بھی رسول سے اختلاف کرے اور تمام مومنین کی راہ چھوڑ کر چلے تو ہم اسے اس راستے پر لگا دیں گے جدھر وہ متوجہ ہوگا اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور یہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ‘‘۔(النساء :۱۱۵)ان دونوں آیتوں سے پتہ چلا کہ ہدایت و نجات صحابہ کرام کے منہج کو لازم پکڑنے میں ہے۔حدیث میں ان مومنین کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے ۔فرمایا:’’فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين بعدي، عضوا عليهابالنواجذ‘‘’’ تم میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم کر لینا اور اسے مضبوطی سے دانتوں سے پکڑ لینا۔‘‘(سلسلةالأحاديث الصحيحة – للألباني:۶؍۲۳۴)اسی طرح مومنین کی جس جماعت کو اللہ کے رسول ﷺ نے خیریت سے متصف کیا ہے وہ صحابہ کرام اور تابعین عظام اور تبع تابعین کی جماعت ہے فرمان نبوی ہے :’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘’’سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر جو لوگ میرے بعد ہیں ان کا زمانہ اور پھر جو لوگ ان کے بعد ہیں ان کا زمانہ ‘‘۔ (صحیح البخاری: ۱۱؍۴۸۲)واضح رہے اس حدیث کا قطعاً یہ مفہوم نہیں اور نہ سلف میں سے کسی نے ایسا کہا ہے کہ اس زمانہ میں پائے گئے تمام لوگوں کا فہم لائق اعتبار ہے ۔ نہیں!کیونکہ ہر ایک کو اس بات کا بخوبی علم ہے اس عہد میں بھی بہت سے خواہشات کی پیروی کرنے والے ، اہل بدعت اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام اور اسلامی تعلیمات کو گزند پہنچانے والے منافقین کا وجود رہا ہے۔خوارج اور روافض کا وجود اس امر کی زندہ مثال ہے لہٰذا اس سلسلے میں علامہ سفارینی کا حزم و احتیاط قابل داد ہے:فرماتے ہیں:’المرادبمذهب السلف ماكان عليه الصحابة الكرام رضوان الله عليهم۔ وأعيانالتابعين لهم بإحسان وأتباعهم وأئمةالدين ممن شهدله بالإمامة،وعرف عظم شأنه فيالدين،وتلقى الناس كلامه مخلف عن سلف،دون من رمي ببدعة،أوشهربلقبغيرمرضي مثل الخوارج والروافض والقدريةوالمرجئةوالجبريةوالجهميةوالمعتزلةوالكرامية‘‘’’ مذہب سلف سے مراد وہ طریقہ ہے جس پر صحابہ کرام ، تابعین عظام ، اتباع تابعین اور بعد میں آنے والے وہ ائمہ دین گامزن تھے جن کی دینداری اعلیٰ درجہ کو پہنچی ہو ئی تھی اور جن کی امامت امت کے نزدیک مسلم ہے اور جن کے اقوال و افعال لوگوں کے نزدیک مقبول ہیں ۔ نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جو بدعت کے کاموں میں ملوث ہیں لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ القاب سے یاد کئے جاتے ہیں جیسے خوارج ، روافض ، قدریہ ، جبریہ ، مرجئہ ، جہمیہ اور معتزلہ وغیرہ۔(لوامع الانوار البھمیۃ وسواط الاسرار البهيةوسواطع الأسرارالأثريةلشرحالدرةالمضيةفيعقدالفرقةالمرضية السفاريني – ۱؍۲۰، سلفیت کا تعارف ص :۱۷۔ ا۸ )حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’إن ناسايجادلونكم بشبيه القرآن،فخذوهم بالسنن،فإن أصحاب السننأعلم بكتاب الله تعالى‘‘’’کچھ لوگ تم سے قرآن کی متشابہ آیات کے ذریعہ جھگڑیں گے تم سنت کے ذریعہ ان کی گرفت کروکیونکہ سنتوں والے کتاب اللہ کا زیادہ علم رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ‘‘(الشريعة الآجري:۱؍۱۰۳)شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’وَإِذَاتَأَمَّل اللَّبِيبُ الْفَاضِلُ هٰذِهِ الْأُمُورَتَبَيَّنَ لَهُ أَنَّ مَذْهَبَ السَّلَفِ وَالْأَئِمَّة فِيغَايَةِ الِاسْتِقَامَةِ وَالسَّدَادِ وَالصِّحَّةِ وَالِاطِّرَادِ وَأَنَّهُ مُقْتَضَى الْمَعْقُولِ الصَّرِيحِ وَالْمَنْقُولِالصَّحِيحِ وَأَنَّ مَنْ خَالَفَهُ كَانَ مَعَ تَنَاقُضِ قَوْلِهِ الْمُخْتَلِفِ الَّذِي يُؤْفَک عَنْهُ مَنْ أُفِک خَارِجًا عَنْمُوجَبِ الْعَقْلِ وَالسَّمْعِ مُخَالِفًا لِلْفِطْرَةِ وَالسَّمْعِ‘‘’’ایک عقل مند ،دوراندیش اور صحیح سالم انسان جب بدعتی ٹولوں کے اعتقادی اختلافات و اضطرابات اور حیرانی میں غور کرے گا تو اس کے لئے یہ چیز بالکل واضح ہو جائے گی کہ سلف صالحین اور ائمہ دین کا منہج ہی درستی اور صحت پر قائم ہے۔عقل سلیم اور نقل صریح و صحیح کے عین موافق ہے ۔ اور جو ان کی مخالفت کرتا ہے وہ سوچنے،سمجھنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہے‘‘۔(مجموع الفتاوى -لابن تيمية:۵؍۲۱۲)دوسری بنیاد : توحید اور اخلاص عمل کی دعوت :توحید اور عمل میں اخلاص کی دعوت وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کی وجہ سے زمین وآسمان قائم ہیں ، یہی وہ فطرت سلیمہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا ، یہی وہ عظیم دولت ہے جس پر ملت کی بنیاد رکھی گئی ، قبلہ کی تعیین عمل میں جہاد کے لئے تلواریں بے نیام ہوئیں یہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کاوہ پختہ عہد وپیمان اور عظیم حق ہے جو تمام بندوں پر عائد ہے ۔ یہی جنت میں داخلے اور جہنم سے خلاصی کا ذریعہ اور لوگوں کی نیک بختی وبد بختی کا پیمانہ ہے ۔ چنانچہ نصوص کے حوالے سے توحید کی اہمیت مسلم ہے جس سے انکار کا کوئی راستہ نہیں۔ تمام رسولوں کو اللہ رب العالمین نےاسی ایک مر کز پر متفق کیاہے ۔فرمان ربانی ہے:{وَلَقَدْبَعَثْنَافِي كُلِّ أُمَّةٍرَسُولًاأَنِ اعْبُدُوااللّٰهَ وَاجْتَنِبُواالطَّاغُوتَ}’’ اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو اس بات کا حکم دیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (کی عبادت )سے بچو ‘‘۔(النحل :۳۶)اس بنا پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس امریعنی توحید کے لئے انس و جن کی تخلیق ہوئی ، جس امر کی وضاحت کے لئے تمام انبیاء ورسل کی بعثت عمل میں آئی اورتمام کتابوں کا نزول ہوا خود قرآن ابتداء تا انتہاء توحید کی دعوت پر مشتمل ہے ۔اسی امر اور توحید کے بارے میں کوئی کسی قسم کی لچک روا رکھتا ہو ظاہر ہے یہ لچک داروہ منہج محض باطل ہوگا ۔ منہج حق وہی ہوگا جو توحید اور اخلاص عمل میں بے لچک ہو ۔اللہ کا ارشاد ہے :{فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا }’’جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے‘‘۔(الكهف:۱۱۰)تیسری بنیاد : مسلمانوں کو شرک سے ڈرانا:جس طرح توحید تمام اعمال کی اساس ہے اور اس کی فضیلت اور مرکزیت مسلم ہے اسی طرح شرک کی قباحت اور ہلاکت و خطرناکی بھی نا قابل برداشت ہے ۔ شرک توحید کی نقیض اور ضد ہے جو نہ صرف توحید بلکہ تمام نیک اعمال کو برباد کر دیتاہے اس لئے اہل السنۃ و الجماعۃ نے جب توحید کی دعوت کو اپنا اصل بنایا تو وہیں شرک سے ڈرانا بھی لازم تصور کرتے ہوئے اپنی دعوت کے اصول میں بنیادی مقام دیا اور ایسا اس لئے ہے کہ شرک اکبر الکبائر اورایک ناقابل معافی جرم ہے : اللہ کا فرمان ہے :{إِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُّشْرَکَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَالِکَ لِمَنْ يَّشَاءُ}’’اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائےاس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف فرما دے گا ‘‘۔(النساء:۴۸) ( شرک کی مزید خطرناکیا ں کتب عقائد میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں) ۔چوتھی بنیاد: اتباع کی دعوت اور تقلید سے اجتناب:سلف صالحین کی دعوت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصل یہ بھی ہے کہ وہ اتباع کی دعوت دیتے ہیں اور تقلید سے روکتے ہیں ۔ اور منہج سلف صالحین کا یہ دعوتی اصول نصوص قرآن و سنت کے عین موافق ہے ۔ کیونکہ اتباع کا معنی ہی یہی ہے ۔جیسا کہ امام احمد بن حنبل بیان کرتے ہیں :’’اَلِاتِّبَاعُ أَنْ يَّتْبَع َالرَّجُلُ مَاجَاءَعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنأَصْحَابِهِ،ثُمَّ هُوَمِنْ بَعْدٍفِي التَّابِعَيْنِ مُخَيَّر ‘‘’’ انسان اس چیز کی پیروی کرے جو اللہ کے نبی ﷺ لیکر آئے اور جو صحابہ کرام سے منقول ہے اور ان کے بعد تابعین کے سلسلے میں انسان کواختیا ر ہے ‘‘۔(أضواءالبيان في إيضاح القرآن بالقرآن:۷؍۳۵۲(۱۱)بلا شبہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں رسول ﷺ کی اتباع کا حکم دیا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:{ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللّٰهَإِنَّ اللّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}’’اور رسول تمہیں جو کچھ دیں اسے لے لواور جس چیز سے منع کریں اس سے باز آجاؤ اور اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ تعالیٰ سخت سزاؤں والا ہے۔ ‘‘(الحشر :۷)علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :’’مهماأمركم به فافعلوه،ومهمانهاكم عنه فاجتنبوه،فإنهإنمايأمربخيروإنماينهى عن شر‘‘’’ جس چیز کا اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے اس کو بجا لاؤ اور جس چیز سے روکا ہے اس سے رک جاؤ کیونکہ آپ ﷺ صرف بھلائی کا حکم دیتےاوربرائی سے روکتے ہیں ۔‘‘(تفسيرالقرآن العظيم – ابن كثير:۸؍۶۷)عَنْ أَبِي هُرَيْرَة أَنّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْه ِوَسَلَّمَ قَالَ كُلّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَالْجَنَّةَإِلَّامَنْ أَبٰى قَالُوايَارَسُولَ اللّٰهِ وَمَنْ يَأْبٰى قَالَ مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَوَمَنْ عَصَانِيفَقَدْأَبٰى۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا : ’’ میری امت کے تمام لوگ جنت میں داخل ہوں گے سوائے اس کے جس نے انکا ر کیا ۔صحا بہ کرام نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ کون انکا ر کرتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی تو یقیناً اس نے انکار کیا‘‘۔(صحيح البخاري:۲۲؍۲۴۸)یہ اور اس طرح کی بے شمار قرآنی آیات و احادیث اس امر کی رہنمائی کرتی ہیں کہ عقائد و اعمال کے تمام مسائل میں رسول ﷺ کی پیروی لازم اور ضروری ہے ، زندگی کے تمام شعبوں اور دین کے تمام امور میں طریقہ نبوی کی اتباع کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ لیکن افسوس امت میں جب فتنہ رونما ہوا اور حزبیت اور طائفہ پرستی نے جڑ پکڑی تو شخصیت پرستی شروع ہوئی پھر چوتھی صدی ہجری میں ( الرد علی من اخلد الی الارض : ۱۳۳)جمود اور کتاب وسنت سے دوری کا دور آیا اوراندھی تقلیدیعنی ’’کسی کے قول کو دلیل کی معرفت کے بغیر قبول کرنے کا رواج عام ہوا۔( مجموع الفتاوى – ابن تيمية:۴؍۱۹۷ )لیکن سلف صالحین ، اہل السنۃ والجماعۃ نے اسے ہرگز قبول نہیں کیا اور اسی وقت سے لیکر آج تک سلفی منہج نے نصوص کتاب و سنت کی روشنی میں تقلید سے اجتناب کرتے ہوئےاتباع کتاب و سنت کی دعوت کو اپنا اصول بنایا ۔ چنانچہ عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں:’’وقال ابن مسعود: لايقلدن أحدكم دينه رجلاإن آمن آمن وإن كفركفرفإنهلاأسوۃ في الشر‘‘’’ خبردار تم میں سے کوئی شخص اپنے دین کے معاملے میں کسی آدمی کی ہرگز تقلید نہ کرے اس طور پر کہ اگر وہ ایمان لاتا ہے تو مومن رہے اور اگر وہ کفر کرتا ہے تو کافر ہوجائے کیونکہ شر میں کسی کو اپنا آئیڈیل نہیں بنایا جاتا ہے ‘‘۔(إعلام الموقعين عن رب العالمين – ابن القيم:۲؍۱۹۵)ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’ويل للأتباع من عثرات العالم قيل: وكيف ذاك ياأباالعباس؟قال: يقول العالممن قبل رأيه ثم يسمع الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم فيدع ماكان عليه وفيلفظ: فيلقى من هوأعلم برسول الله صلى الله عليه وسلم منه فيخبره فيرجع ويقضيالأتباع بماحكم‘‘’’ عالم کی لغزشوں کی پیروی کرنے والے متبعین کے لئے تباہی ہے ان سے پوچھا گیا یہ کیسے اے ابو العباس ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک عالم اپنی رائے کی بنیاد پر کوئی بات کہتا ہے پھر وہ اللہ کے رسول ﷺ سے کوئی حدیث سنتا ہے اور جو اس کی رائے تھی اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اور دوسرے الفاظ میں یوں ہے کہ وہ ایسے شخص سے ملاقات کرتا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کی احادیث کے بارے میں زیادہ جانتا ہے پھر وہ اسے آگاہ کرتا ہے یوںوہ عالم اپنی رائے سے رجوع کرلیتا ہے جبکہ پیروکاراس کے (پچھلے)حکم پر ہی باقی رہتے ہیں ‘‘۔ (إعلام الموقعين عن رب العالمين – ابن القيم:۲؍۱۹۳)اجتناب تقلید کے ضمن میں خود ان ائمہ کے اقوال مشعل راہ ہیں جن کی فی زماننا تقلید ہو رہی ہے ۔چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے:’’لايحل لأحدأن يقول بقولناحتى يعلم من أين قلناه‘‘۔’’ کسی کے لئے درست نہیں کہ وہ میرے کسی قول کو اختیار کرے جب تک اسے یہ نہ معلوم ہو کہ اس قول کو ہم نے کہاں سے لیا ہے ‘‘۔(إعلام الموقعين عن رب العالمين – ابن القيم:۲؍۲۱۱)اسی طرح مزید کہتے ہیں :’’إِذَاصَحَّ الحَدِيْثُ فَهُوَمَذْهَبِي‘‘’’ جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہے ‘‘۔(سيرأعلام النبلاء :۱۰؍۳۵)امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’إنماأنابشرأخطيْ وأصيب،فانظروافي رأيي،فكلماوافق الكتابوالسنةفخذوابه،وماخالف فاتركوه‘‘’’ میں ایک انسان ہوں مجھ سے غلطی ہوتی ہے اور درستی کو بھی پہنچتا ہوں لہٰذا میری رائے میں غور وفکر کر لیا کرو جو کتاب وسنت کے موافق ہو اسے لے لو اور جو اس کے مخالف ہو ا سے چھوڑ دو‘‘۔(تاريخ الإسلام – للذهبي:۳؍۳۲۹)امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’كُلُّ مَاقُلْتُهُ فَكَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- خِلافُ قَوْلِيمِمَّاصَحَّ،فَهُوَأَوْلَى،وَلَاتُقَلِّدُوْنِي‘‘’’ جو کچھ بھی میں نے کہا ہے اگر اللہ کے نبی ﷺ سے میرے قول کے بر خلاف صحیح حدیث ثابت ہے تو نبی کی حدیث اولیٰ ہے۔میری تقلید نہ کرو ‘‘۔(سيرأعلام النبلاء:۱۰؍۳۳)امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ لاتقلدني ولاتقلدمالكاولاالثوري ولاالأوزاعي وخذمن حيثأخذوا‘‘’’ نہ میری تقلید کرو نہ مالک ، شافعی اور اوزاعی اور نہ ثوری کی بلکہ وہیں سے لو جہاں سے ان ائمہ کرام نے اخذ کیا ‘‘۔(إعلام الموقعين عن رب العالمين: لابن القيم :۲؍۲۰۱)واضح رہے تقلید کے سلسلے میں کچھ شبہات پیش کئے جاتے ہیں سو وہ ہمارا موضوع نہیں البتہ اتنا عرض ہے کہ کسی سے مسئلہ دریافت کرنا ، علم حاصل کرنا تقلید سے مختلف چیز ہے لوگ ان باتوں کو گڈ مڈ کردیتے ہیں ۔ اسی طرح کسی عالم کے فتوے پر مطمئن ہوکر عمل کرلینا اورکسی کی تقلید کرنا یہ دونوں دو باتیں ہیں انہیں بھی لوگ مختلط کردیا کرتےہیں ۔ سو عرضـ ہے کہ علماء کا احترام ان سے استفادہ ان کے علم سے فیضیاب ہونے کے سلف قائل ہیں اور سلفیت اس پر کاربند ہے ۔پانچویں بنیاد : نفع بخش علم کا حصول :سلفی دعوت کے اصولوں میں سے پانچویں اصل علم نافع کا حصول ہے حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ اس علم کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’فالعلم النافع من هذه العلوم كلها ضبط نصوص الكتاب والسنة وفهممعانيها والتقيد في ذلك بالمأثور عن الصحابة والتابعين وتابعيهم في معاني القرآنوالحديث. وفيما ورد عنهم من الكلام في مسائل الحلال والحرام. والزهد. والرقائق.والمعارف. وغير ذلك والاجتهاد على تمييز صحيحه من سقيمه أولا. ثم الاجتهاد علىالوقوف في معانيه وتفهمه ثانياً. ‘‘ان تمام علوم میں علم نافع کا معنی ہے کتاب و سنت کے نصوص کو ضبط کرنا ان کے معانی صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین سے منقول طریقہ پر سمجھنا ، اسی طرح سے حلال و حرام اور زہد و رقائق اور معارف میں ان کے کلام کی معرفت حاصل کرنا ،اور اول صحیح کو ضعیف سے الگ کرنے کی اہلیت پیدا کرنا۔ثانیاً ان کےمعانی کی آگاہی اور فہم کی کوشش کرنا ‘‘۔(فضل علم السلف على الخلف – لابن رجب :۱؍۶ )حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ وَالْمُرَادُ بِالْعِلْمِ الْعِلْم الشَّرْعِيّ الَّذِي يُفِيد مَعْرِفَة مَا يَجِب عَلَى الْمُكَلَّفمِنْ أَمْر عِبَادَاته وَمُعَامَلَاته ، وَالْعِلْم بِاللّٰهِ وَصِفَاته، وَمَا يَجِب لَهُ مِن الْقِيَام بِأَمْرِهِ ، وَتَنْزِيههعَنْ النَّقَائِض ، وَمَدَار ذَالِکَ عَلَى التَّفْسِير وَالْحَدِيث وَالْفِقْه‘‘۔’’ علم سے مراد در حقیقت علم شرعی ہی ہے جس سے مکلف کو اس کے دینی اموراور عبادات و معاملات میں فائدہ حاصل ہو اور اللہ رب العالمین کے اسماءو صفات اور جو چیزیں حکم الٰہی کی انجام دہی کے لئے ضروری ہیں اسی طرح اللہ کو نقائص سے پاک کرنے کا علم حاصل ہو اور اس علم کا مدار تفسیر ، حدیث اور فقہ پرہے‘‘۔(فتح الباري شرح صحيح البخاري – ابن حجر:۱؍۹۲)اللہ رب العالمین نےا سی علم کے تعلق سے فرمایا :{شَهِدَ اللّٰهُ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَالْعَزِيزُ الْحَكِيمُ}’’اللہ تعالیٰ ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے ، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ‘‘۔(آل عمران :۱۸)امام شو کانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’والمراد بأولي العلم هنا : علماء الكتاب ، والسنة ‘‘’’اولو العلم سے مراد کتاب و سنت کے علما ءہیں ‘‘۔(فتح القدير – للشوكاني :۱؍۴۴۲)اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{ يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ}’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگو ں کو جو ایمان لائے ہیں اور علم دئے گئے ہیں ان کے درجات بلند کرے گا‘‘۔(المجادلة :۱۱)اس آیت کی تفسیر یوں کی جاتی ہے کہ’’قِيلَ فِي تَفْسِيرهَا : يَرْفَع اللّٰه الْمُؤْمِن الْعَالِم عَلَى الْمُؤْمِن غَيْر الْعَالِم .وَرِفْعَة الدَّرَجَات تَدُلّ عَلَى الْفَضْل ، إِذْ الْمُرَاد بِهِ كَثْرَة الثَّوَاب ، وَبِهَا تَرْتَفِع الدَّرَجَات ،وَرِفْعَتهَا تَشْمَل الْمَعْنَوِيَّة فِي الدُّنْيَا بِعُلُوِّ الْمَنْزِلَة وَحُسْن الصِّيت ، وَالْحِسِّيَّة فِي الْآخِرَةبِعُلُوِّ الْمَنْزِلَة فِي الْجَنَّة ‘‘’’اللہ تعالیٰ نے مومن عالم کو غیر عالم مومن پر بلند کیا ہے اور درجات کی بلندی اس کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس سے مراد ثواب کی کثرت ہے جس کے ذریعے درجات کو بلند کیا جاتا ہے او ر اس کی بلندی کا مطلب دنیا میں بلند مرتبہ اور اچھی شہرت سے پیدا شدہ معنویت بھی ہے اور آخرت میں جنت کے اندر علو منزلت کے ذریعے حسی بدلہ بھی ہے ۔‘‘(فتح الباري شرح صحيح البخاري – ابن حجر:۱؍۹۲)صحیحین کی روایت ہے :عن مُعَاوِيَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يُّرِد اللّٰهُ بِهِ خَيْرًايُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا :’’اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرماتا ہے‘‘۔(صحيح البخاري :۱۰؍۳۵۸)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے ضمن میں لکھتےہیں : ’’ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے دین میں سمجھ حاصل نہیں کی یعنی دین کے بنیادی اصول و ضوابط نہیں سیکھ سکا جن کے ذریعہ انسان فروع تک بھی پہنچے تو ایسا انسان بھلائی سے محروم رہ گیا کیونکہ جو انسان اپنے دین کے امور نہیں جانتا ہے وہ فقیہ ہے نہ وہ سمجھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اس کو اس بات سے متصف کرنا درست ہے کہ اس کے ساتھ خیر کا ارادہ نہیں کیا گیا ہے۔ اور ایسی صورت میں علما ءکی دیگر تمام لوگوں پر فضیلت ظاہر ہے، اور دین میں فقہ حاصل کرنے کی فضیلت دوسرے تمام علوم پر واضح ہے‘‘۔حضرت ابو الدرداءرضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’مَنْ سَلَکَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَکَ اللّٰهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّالْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمٰوَاتِ وَمَنْفِي الْأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِعَلٰى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَرَّثُواالْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِر‘‘’’حصول علم کے راستے پر جوچلتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میںسے کسی راستے پر لگا دیتا ہے ، اورفرشتے طالب علم کے لئے اس کےکارناموں سے خوش ہوکر اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں اور عالم کے لئے زمین و آسمان کی تمام مخلوق یہاں تک کہ پانی کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں ۔اور ایک عالم کی ایک عابد پر ایسے ہی فضیلت ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کو دیگر تمام ستاروں پر ہے ، اور علما ءانبیاء کے وارث ہیں ، انبیا ءنے درہم و دینا ر کی وراثت نہیں چھوڑی بلکہ علم کی وراثت چھوڑی۔ جس نے علم حاصل کیا اس نے وافر حصہ حاصل کیا ‘‘۔(سنن أبى داؤد :۱۰؍۴۹)علامہ آجری اپنی کتاب ’’اخلاق العلما ء‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:’’فإن الله عز وجل ، وتقدست أسماؤه ، اختص من خلقه من أحب ،فهداهم للإيمان ، ثم اختص من سائر المؤمنين من أحب ، فتفضل عليهم ،فعلمهم الكتاب والحكمة وفقههم في الدين ، وعلمهم التأويل وفضلهم علىسائر المؤمنين ،وذلك في كل زمان وأوان ، رفعهم بالعلم وزينهم بالحلم ،بهم يعرف الحلال من الحرام ، والحق من الباطل ، والضار من النافع ،والحسن من القبيح . فضلهم عظيم ، وخطرهم جزيل ، ورثة الأنبياء ،وقرة عين الأولياء ، الحيتان في البحار لهم تستغفر ، والملائكةبأجنحتها لهم تخضع ، والعلماء في القيامة بعد الأنبياء تشفع ،مجالسهم تفيد الحكمة ، وبأعمالهم ينزجر أهل الغفلة ، هم أفضل من العباد ،وأعلى درجة من الزهاد ، حياتهم غنيمة ، وموتهم مصيبة ، يذكرون الغافل ،ويعلمون الجاهل ، لا يتوقع لهم بائقة ، ولا يخاف منهم غائلة ،۰۰۰۰۰فهم سراج العباد ، ومنار البلاد ، وقوام الأمة ، وينابيع الحكمة ،هم غيظ الشيطان ، بهم تحيا قلوب أهل الحق ، وتموت قلوب أهل الزيغ ،مثلهم في الأرض كمثل النجوم في السماء ، يهتدى بها في ظلمات البر والبحر ،إذا انطمست النجوم تحيروا ، وإذا أسفر عنها الظلام أبصروا: ’’پاکیزہ ناموں والے اللہ عزوجل بلند و بالانے اپنے بندوں میں سے جسے پسند کیا اسے چن لیا اور انہیں ایمان کی ہدایت دی پھر تمام مومنین میں سے جسے پسند کیا ان پر بڑا فضل کیا اور انہیں کتاب و حکمت سکھلائی ، دین میں فقہ عطا کی اور تاویل سکھلائی اور انہیں تمام مومنین پر فضیلت عطا کی ،اور یہ چیز ہر زمان و مکان میں ہوتی رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم سے بلندکیا اور عقلمندی و برد باری سے زینت عطا کی، انہیں کے ذریعہ حرام کے مقابلے حلال، باطل کے مقابلے حق ، نقصاندہ کے مقابلے نفع بخش اور برے کے مقابلے اچھی شۓ کی معرفت حاصل ہوتی ہے ان کی بڑی فضیلت ہے اور ان کی فکر بہت عمدہ ہے ، وہ انبیاء کے وارث اور اولیاء کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں،مچھلیاں سمندروں میں ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتی ہیں ، ملائکہ ان کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں ، قیامت کے دن انبیا ء کے بعد علما ءسفارش کریں گے ، ان کی مجلسوں میں حکمت کی باتیں ہوتی ہیں ،انکے اعمال سے غافلوں کو ڈانٹ پڑتی ہے یہ عبادت گزاروں سے افضل اور تارکین دنیا سے درجے میں بلند و برترہیں ،ان کی زندگی غنیمت اور ان کی موت مصیبت ہے ، وہ غافلوں کو تنبیہ کرتے اور گنواروں کو سکھلاتے ہیں ، ان سے کسی ہلاکت کا اندیشہ نہیںہوتا ہے اور نہ کسی تباہی کا خوف ۔۔۔۔(یہاں تک کہاکہ) وہ بندوں کے لئے چراغ اور قوموں کیلئے روشنی ، امت کے لئے قوام اور حکمت کے چشمے ہیںوہ شیطان کو مبتلائے غضب کرنےوالے ہیں ، انہیں کے ذریعہ اہل حق کے دل زندہ اور اہل باطل کے دل مردہ ہوتے ہیں ان کی مثال زمین میں ستاروں کی ہے جس طرح ستاروں سے خشک و تر کی تاریکی میں رہنمائی لی جاتی ہے اسی طرح اہل علم سے زمیں میں رہنمائی لی جاتی ہے ۔ جب ستارے بے نور ہو جاتے ہیں تو لوگ حیران اور جب اس سے تاریکی ہٹ جاتی ہے تو لوگ دیکھنے لگتے ہیں ‘‘۔(أخلاق العلماء – للآجري:۱؍۱)چنانچہ علماء سلف صالحین نے حصول علم اور اس کی نشر و اشاعت میں اپنی پوری زندگیاں وقف کردیں اسلامی تراث اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اور اس بنیاد پر حصول علم کی دعوت کو اپنے دعوتی مناہج کا ایک رکن قرار د ے کر لوگوں کو شریعت کا علم حاصل کرنے کی ترغیب سلف صالحین کا خاصہ ہے ۔
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان اینڈ اعتدال  ڈاٹ کم

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...