Monday, 5 December 2016

مسلم دنیا میں ذہنی، فکری و نفسیاتی غلامی


مسلم دنیا میں ذہنی ،فکری ونفسالتی غلامی

(ازقلم:محمدمبشر نذیر،ترتیب:عمران شہزاد تارڑ)
(مضمون نمبر:1)
انسان نے انسان پر جو ظلم کیے ہیں، ان میں سب سے بڑا ظلم غلامی ہے۔ نسل انسانیت پر اتنے ظلم کسی اور مخلوق نے نہ کیے ہوں گے جتنے خود انسانوں نے دوسرے انسانوں پر کیے ہیں۔ دور قدیم ہی سے انسان کو غلام بنانے کا رواج رہا ہے۔ ایک گروہ جب طاقت اور توانائی کے نئے ذخائر دریافت کر بیٹھتا تو وہ اپنے بھائیوں ہی کے دوسرے گروہوں پر حملہ کر کے انہیں غلام بنا لیتا۔ جہاں طاقت کام نہ آتی، وہاں مختلف ہتھکنڈوں سے اپنے ہی بھائیوں کو ذہنی اور نفسیاتی غلام بنا لیا جاتا۔
موجودہ دور میں اگرچہ جسمانی غلامی کی لعنت کا خاتمہ ہو چکا ہے مگر ذہنی اور نفسیاتی غلامی کا معاملہ اب بھی موجود ہے۔ خاص طور پر مسلم دنیا میں یہ مسئلہ اتنی گھمبیر صورت اختیار کر چکا ہے کہ مذہبی اور غیر مذہبی مسلمانوں کا بڑا حصہ اس لعنت کا شکار نظر آتا ہے۔ 
اس تحریر کے پہلے مضمون میں نفسیاتی غلامی سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین کا طرز عمل بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے مضمون میں نفسیاتی غلامی کے تاریخی ارتقاء پر بحث کی گئی ہے۔ تیسرے مضمون میں موجودہ دور میں نفسیاتی غلامی کی صورت حال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چوتھا مضمون نفسیاتی غلامی کے خاتمے سے متعلق ہے۔ 
ان مضامین  میں بھرپور کوشش کی  گئی ہے کہ ہر قسم کی معلومات کا تجزیہ بالکل غیر جانبداری سے کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں قرآن مجید میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی بھی قوم کے بارے میں بھی ناانصافی سے کام نہ لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مقامات پر ہم نے مسلمانوں کی تاریخ اور قوانین پر بھی کڑی تنقید کی ہے اور جہاں جہاں غیر مسلم اقوام کے ہاں کوئی مثبت اقدام ملا ہے تو اس کی تعریف بھی کی ہے۔ یہ چاروں مضامین کسی قوم، مذہب یا نقطہ نظر کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کا مقصد معروضی طور (Objectively) پر چند سوالات کا جواب حاصل کرنا ہے۔
جو احباب ان مضامین کو پڑھیں، وہ بلا تکلف اس سلسلے میں اپنے تاثرات، آراء اور سوالات لکھ کر بھیج سکتے ہیں تاکہ ان کی روشنی میں ان مضامین کو مزید بہتر بنا دیا جائے،اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

اسلام اور نفسیاتی آزادی:

نفسیاتی غلامی: اسلام سے پہلے
اسلام سے پہلے بھی دنیا بھر میں مذہبی طبقے کو اقتدار حاصل تھا۔ دنیا کے کم و بیش تمام ممالک ہی میں مذہبی طبقہ اس درجے میں موجود تھا کہ وہ حکومتی اور معاشرتی معاملات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرز حکومت کو تھیو کریسی کہا جاتا تھا۔ اس دور میں دنیا کا غالب مذہب "شرک" تھا۔ کم و بیش دنیا بھر کے ممالک میں دیوی دیوتاؤں کی دیو مالا (Mythology) تخلیق کی گئی تھی۔ ریاست کے ہر شہری کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس دیو مالا پر ایمان لائے۔ اگر کوئی شخص مخصوص مذہبی عقائد سے مختلف نظریہ رکھنا چاہتا تو اسے مذہبی جبر کا شکار ہونا پڑتا اور اسے اس کے انحراف کے درجے اور شدت کے مطابق کوئی بھی سزا دی جا سکتی تھی۔
دین شرک کے مقابلے میں دین توحید کے علمبردار اہل کتاب تھے جو یہودیوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھے۔ یہ لوگ اگرچہ توحید ہی کے پیروکار تھے اور شرک کو ایک برائی ہی قرار دیا کرتے تھے لیکن غیر محسوس طریقے پر شرک ان کے اندر شخصیت پرستی کی صورت میں سرایت کر چکا تھا۔ یہودیوں نے سیدنا عزیر علیہ الصلوۃ والسلام کو اور عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا کا بیٹا قرار دے کر شرک کو اپنے مذہبی عقائد میں جگہ دے رکھی تھی۔
اہل کتاب کے ہاں بھی ان کے مذہبی علماء اور صوفیاء کو وہی مقام حاصل ہو چکا تھا جو کہ اہل شرک کے ہاں ان کے مذہبی راہنماؤں کو حاصل تھا۔ ان کے ہاں مذہبی راہنماؤں کا یہ مقام اب بھی برقرار ہے البتہ ان کی سیاسی قوت کمزور پڑ چکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں اس ذہنی غلامی کی کیا صورت موجود تھی، اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے:
حدثنا الحسين بن يزيد الكوفي حدثنا عبد السلام بن حرب عن غطيف بن أعين عن مصعب بن سعد عن عدي بن حاتم قال :  أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وفي عنقي صليب من ذهب فقال يا عدي اطرح عنك هذا الوثن وسمعته يقرأ في سورة براءة { اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله } قال أما إنهم لم يكونوا يعبدونهم ولكنهم كانوا إذا أحلوا لهم شيئا استحلوه وإذا حرموا عليهم شيئا حرموه. (ترمذی؛ کتاب التفسیر؛ حدیث 3095)
سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس آیا تومیرے گلے میں سونے کی ایک صلیب لٹک رہی تھی۔ آپ نے فرمایا، "اے عدی! اس بت کو اتار دو۔" میں نے آپ کو سورۃ توبہ کی یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا، "ان (اہل کتاب نے) اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور صوفیاء کو اس کا شریک بنا لیا تھا۔" اور فرمایا، "یہ لوگ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے مگر جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو اسے حلال سمجھنے لگتے اور جب حرام قرار دیتے تو اسے حرام سمجھنے لگتے۔"
اگر یہودی اور عیسائی حضرات کے اپنے مذہبی لٹریچر، خاص طور پر ان کے اولیاء کرام (Saints) کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو بعینہ یہی تصویر سامنے آتی ہے۔
فکری آزادی  کے معاملے میں اسلام کی اصلاحات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے ذہنی آقا و غلام کے تعلق کی بجائے دوستانہ تعلق قائم فرمایا۔ جن معاملات میں اللہ تعالی کی جانب سے وحی نازل ہو جایا کرتی تھی، اس میں تو صحابہ سنتے اور اطاعت کرتے لیکن جہاں معاملہ دین کے کسی حکم کا نہ ہوتا، وہاں ان کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتی رائے سے مختلف رائے پیش کرنا بھی کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔

غور و فکر کی قرآنی دعوت:

اللہ تعالی کی جانب سے نازل کردہ وحی کے معاملے میں بھی یہ معاملہ نہ تھا کہ لوگ اندھا دھند اس حکم کی پیروی میں لگ جائیں بلکہ انہیں اس پر کھلے ذہن سے غور و فکر کرنے کا حق حاصل تھا۔ قرآن مجید بار بار مسلمانوں کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اللہ کے احکامات کی حکمتیں جاننے کی تلقین کرتا ہے۔
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمّاً وَعُمْيَاناً. (الفرقان؛ 25:73)
جب انہیں اللہ کی آیات سے نصیحت دلائی جاتی ہے تو وہ ان پر اندھے بہرے ہو کر نہیں گرتے۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لأُولِي الأَلْبَابِ۔  الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَاماً وَقُعُوداً وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. (اٰل عمران 3:190-191)
آسمان و زمین کی تخلیق اور شب و روز کے فرق میں اہل عقل کے لئے نشانیاں ہیں۔ (اہل عقل وہ ہیں جو ان نشانیوں کو دیکھ کر) کھڑے، بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، "اے ہمارے رب تو نے یہ سب بے کار نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔"
قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر یہ بیان ہوا ہے کہ نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو "اولوا الباب" یعنی صاحب عقل اور سوچنے سمجھنے والے لوگ ہیں۔
آزادی اظہار سے متعلق رسول اللہ کا طرز عمل
اختلاف رائے کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا طرز عمل یہ ہوا کرتا تھا کہ آپ مختلف رائے کو دبانے کی بجائے اس پر مثبت انداز میں غور و خوض فرماتے اور کئی مرتبہ ایسا ہوتا کہ اپنی رائے کی بجائے کسی صحابی کی رائے کو ترجیح دے دیا کرتے تھے۔ اگر آپ صحابہ کی رائے سے متفق نہ ہوتے تو انہیں مثبت انداز میں متفق کرنے کی کوشش فرماتے۔ اظہار رائے کی اس آزادی کی کچھ مثالیں ہم یہاں بیان کر رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے صحابہ کو یہ واضح طور پر بتا دیا کہ صرف اور صرف دینی احکام سے متعلق ان پر آپ کی پیروی کرنا لازم ہے۔ دنیاوی امور میں وہ اپنے معاملات جیسے چاہے چلا سکتے ہیں بشرطیکہ اس سے دین کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔
حدثنا عبدالله بن الرومي اليمامي وعباس بن عبدالعظيم العنبري وأحمد بن جعفر المعقري. قالوا: حدثنا النضر بن محمد. حدثنا عكرمة (وهو ابن عمار). حدثنا أبو النجاشي. حدثني رافع بن خديج قال:  قدم نبي الله صلى الله عليه وسلم المدينة. وهم يأبرون النخل. يقولون يلقحون النخل. فقال "ما تصنعون؟". قالوا: كنا نصنعه. قال "لعلكم لو لم تفعلوا كان خيرا" فتركوه. فنفضت أو فنقصت. قال فذكروا ذلك له فقال "إنما أنا بشر. إذا أمرتكم بشيء من دينكم فخذوا به. وإذا أمرتكم بشيء من رأي. فإنما أن بشر، انتم أعلم بأمر دنياكم" (مسلم، کتاب الفضائل، حديث 6127)
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کھجوروں کی پیوند کاری کیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا، "تم لوگ یہ کیا کرتے ہو۔" وہ بولے، "ہم تو یہی کرتے آ رہے ہیں۔" آپ نے فرمایا، "اگر تم یہ نہ کرو تو ہو سکتا ہے کہ بہتر ہو۔" انہوں نے پیوند کاری چھوڑ دی جس کے نتیجے میں پیداوار کم ہو گئی۔ انہوں نے جب آپ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا، "میں تو ایک انسان ہوں (مگر اللہ کا رسول ہوں۔) اگر میں تمہیں دین سے متعلق کوئی حکم دوں تو اس پر عمل کرو اور اگر اپنی رائے سے تمہیں کوئی بات کہوں تو میں انسان ہی ہوں۔ تم اپنے دنیاوی امور کو خود بہتر جانتے ہو۔"
اس سے اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ بات محض عجز و انکسار کی وجہ سے ارشاد فرمائی۔ بہت سے دیگر واقعات سے یہ علم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپ اور آپ کے صحابہ کا یہی معمول رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جنگی پلاننگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورے سے کیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن مجید میں آپ کو اسی کا حکم دیا گیا تھا۔
فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ۔ (آل عمران 3:159)
ان سے درگزر کرتے رہیے، ان کی بخشش کی دعا کرتے رہیے اور معاملات میں ان سے مشورہ کرتے رہیے۔
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ۔  (شوری 42:38)
(اہل ایمان تو وہ ہیں) جو اپنے رب کی پکار کا جواب دیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے معاملات کو مشورے سے چلاتے ہیں۔
جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک مقام پر قیام کرتے ہوئے ایک جنگی حکمت عملی ترتیب دی لیکن اس کے بعد آپ نے ایک صحابی سیدنا حباب بن  منذر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر اس جنگی حکمت عملی میں تبدیلی فرمائی۔
قال الحباب بن المنذر يا رسول الله إن هذا المكان الذي أنت به ليس بمنزل انطلق بنا إلى أدنى ماء إلى القوم فإني عالم بها وبقلبها بها قليب قد عرفت عذوبة مائه لا ينزح ثم نبني عليه حوضا فنشرب ونقاتل ونعور ما سواه من القلب فنزل جبريل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال الرأي ما أشار به الحباب فنهض رسول الله صلى الله عليه وسلم ففعل ذلك۔ (طبقات ابن سعد، غزوہ بدر)
حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کہنے لگے، "یا رسول اللہ! جس مقام پر آپ ٹھہرے ہوئے ہیں، مناسب نہیں ہے۔ ہمیں نیچے پانی کی طرف چلنا چاہیے۔ میں اس جگہ سے واقف ہوں اور جانتا ہوں کہ یہ میٹھا پانی ہے۔ ہم پانی کا بہاؤ تبدیل کر کے اسے ایک حوض کی شکل دے لیں گے اور اس سے پانی پئیں گے، جنگ کریں گے اور صرف ہم ہی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ جبریل اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس اترے اور کہنے لگے کہ حباب کی رائے درست ہے۔ آپ اٹھے اور آپ نے اسی رائے پر عمل کیا۔
جنگ احد کے موقع پر آپ نے اپنی رائے کے خلاف نوجوان صحابہ کی رائے کے مطابق شہر سے باہر نکل کر مقابلہ فرمایا۔
فكان رأي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن لا يخرج من المدينة لهذه الرؤيا فأحب أن يوافق على مثل رأيه فاستشار أصحابه في الخروج فأشار عليه عبد الله بن أبي بن سلول أن لا يخرج وكان ذلك رأي الأكابر من المهاجرين والأنصار فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم امكثوا في المدينة واجعلوا النساء والذراري في الآطام فقال فتيان أحداث لم يشهدوا بدرا فطلبوا من رسول الله صلى الله عليه وسلم الخروج إلى عدوهم ورغبوا في الشهادة وقالوا اخرج بنا إلى عدونا فغلب على الأمر الذي يريدون الخروج۔ (طبقات ابن سعد، غزوہ احد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی رائے یہ تھی کہ مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ نہ کیا جائے۔ آپ کے خواب کے مطابق یہی رائے پسندیدہ تھی۔ آپ نے اپنے صحابہ سے نکلنے کے بارے میں مشورہ کیا۔ عبداللہ بن ابی کا مشورہ یہ تھا کہ باہر نکل کر مقابلہ نہ کیا جائے اور مہاجرین و انصار کے بزرگوں کی رائے بھی یہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "مدینہ میں ٹھہرے رہو اور بچوں اور خواتین کو محفوظ مقام پر چھوڑ دو۔
نئے نوجوان لڑکے جنہوں نے بدر کی جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔ یہ لوگ شہادت کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ وہ بولے، "ہم دشمن کی طرف نکل کر چلیں۔" باہر نکل کر مقابلہ کرنے والوں کی رائے (کثرت رائے کے باعث) غالب ہو گئی (اور باہر نکل کر ہی مقابلہ کیا گیا۔)
جنگ خندق میں ایک سابقہ غلام، سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے خندق کھودنے کا فیصلہ فرمایا۔ جنگ کا یہ طریق کار سن کر صحابہ بہت حیران ہوئے کیونکہ جنگ کرنے کا یہ طریقہ عرب میں رائج نہیں تھا۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے صحابہ کو اظہار رائے کی آزادی کس حد تک حاصل تھی  اور اس میں آزاد، غلام اور مولی ہر شخص کو رائے دینے کا برابر حق حاصل تھا۔
آپ نے جب سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو ایک فوجی مہم کا امیر بنا کر بھیجا تو اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا۔ آپ نے انہیں کافر و مشرک یا گستاخ رسول قرار دینے کی بجائے انہیں مثبت انداز میں قائل فرمایا۔
حدثنا إسماعيل: حدثنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث بعثا، وأمر عليهم أسامة بن زيد، فطعن الناس في إمارته، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فقال: (إن تطعنوا في إمارته فقد كنتم تطعنون في إمارة أبيه من قبل، وايم الله إن كان لخليفا للإمارة، وإن كان لمن أحب الناس لي، وإن هذا لمن أحب الناس إلي بعده). (بخاری، کتاب الفضائل، حديث 3730)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا امیر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بنا کر بھیجا۔ لوگوں نے ان کے امیر ہونے پر اعتراض کیا تو نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا، "تم لوگ ان کی امارت پر اعتراض کر رہے ہو جبہ تم نے اس سے پہلے ان کے والد کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ خدا کی قسم وہ امارت کے سب سے زیادہ اہل تھے۔ وہ مجھے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ پسند تھے اور ان کے بعد اسامہ مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب بریرہ رضی اللہ عنہا کو خرید کر آزاد کیا تو اس موقع پر انہیں اسلامی قانون کی حیثیت سے یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے خاوند سے علیحدگی حاصل کر لیں۔ وہ اپنے خاوند کو سخت ناپسند کرتی تھیں جبکہ ان کے خاوند ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان سے شادی کو باقی رکھنے کی سفارش کی جسے انہوں نے قبول نہیں کیا۔
حدثنا محمد: أخبرنا عبد الوهاب: حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس: أن زوج بريرة عبد أسود يقال له مغيث، كأني أنظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليهوسلم  لعباس: (يا عباس، ألا تعجب من حب مغيث بريرة، ومن بغض بريرة مغيثا). فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (لو راجعته). قالت يا رسول الله تأمرني؟ قال: (إنما أنا أشفع). قالت: لا حاجة لي فيه. (بخاری، کتاب الطلاق، حديث 5283)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بریرہ کے خاوند ایک سیاہ فام غلام تھے جن کا نام مغیث تھا۔ میں گویا اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ بریرہ کے پیچھے پیچھے روتے ہوئے پھر رہے ہیں اور ان کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا، "عباس! کیا آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ مغیث بریرہ سے کس قدر محبت کرتا ہے اور وہ اس سے کتنی نفرت کرتی ہے۔" آپ نے بریرہ سے فرمایا، "کاش تم علیحدگی کا یہ فیصلہ بدل دو۔" وہ پوچھنے لگیں، "یا رسول اللہ! کیا یہ آپ کا حکم ہے؟" آپ نے فرمایا، "نہیں میں تو سفارش کر رہا ہوں۔" وہ بولیں، "پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔"
بعض افراد نے قرآن مجید کی ایک آیت سے یہ مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم زیادہ غور و فکر کرنے اور سوالات کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ وہ آیت یہ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ. (المائدہ؛ 5:100)
اے ایمان والو! ان چیزوں کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرو جو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں، لیکن اگر تم ایسے وقت میں یہ سوالات کرو گے تو وہ تم پر واضح کر دی جائیں گی۔ اب تک جو تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کر دیا اور وہ معاف کرنے والا اور بردبار ہے۔
اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ دین اسلام میں غور و فکر ممنوع ہے، بالکل ہی غلط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث سے یہ بالکل ہی واضح ہے کہ اس آیت میں جن سوالات سے روکا گیا ہے، وہ ایک مخصوص نوعیت کے سوالات ہیں۔
حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ: حدثنا سعيد: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (إن أعظم المسلمين جرماً، من سأل عن شيء لم يُحرَّم، فحُرِّم من أجل مسألته). (بخارى؛ كتاب الاعتصام؛ حديث 7289)
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، "سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جو حرام نہیں تھی لیکن اس کے سوال کرنے کی وجہ سے وہ حرام کر دی گئی۔"
وعن أبي ثعلبة الخشني قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله فرض فرائض فلا تضيعوها وحرم حرمات فلا تنتهكوها وحد حدودا فلا تعتدوها وسكت عن أشياء من غير نسيان فلا تبحثوا عنها . (مشکوۃ؛ كتاب الاعتصام؛ حديث 197)
سیدنا ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اللہ نے کچھ فرائض لازم کئے ہیں، انہیں ضائع مت کرو۔ اس نے کچھ کام حرام قرار دیے ہیں، ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اس نے کچھ حدود مقرر کی ہیں، ان کی خلاف ورزی مت کرو۔ لیکن اس نے کچھ چیزوں کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے، ان کے بارے میں تفتیش میں نہ پڑو سوائے اس کے کہ بھول کر کچھ کر گزرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مثبت غور و فکر سے کبھی نہیں روکا۔ قرآن مجید کے نزول کے وقت ایسے سوالات سے منع فرمایا گیا جن کے نتیجے میں کوئی کام حرام ہو جائے اور امت مشکل میں پڑ جائے۔ اللہ تعالی نے جہاں خاموشی اختیار کی ہے، اس میں خاموش ہی رہنا چاہیے تاکہ لوگوں کے لئے انتخاب (Choice) کی آزادی برقرار رہے اور وہ اللہ تعالی کے ہاں اس معاملے میں مسئول نہ ہوں۔
رہے مثبت سوالات، تو ان کے بارے میں قطعی کوئی ممانعت نہ تھی۔ احادیث کے پورے ذخیرے کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حلال و حرام کے مخصوص دائرے کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے بکثرت سوال کیا کرتے تھے اور آپ انہیں ہر طرح سے مطمئن کر دیا کرتے تھے۔
آزادی اظہار سے متعلق خلفاء راشدین کا طرز عمل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد آپ کے خلفاء راشدین کا طرز عمل بھی یہی رہا۔ اس کی تفصیل کے لئے خلفاء راشدین کے طرز عمل کی کچھ مثالیں ہم بیان کر رہے ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ نے پہلے خطبے میں اپنی پالیسی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
أخبرنا عبيد الله بن موسى قال أخبرنا هشام بن عروة قال عبيد الله أظنه عن أبيه قال لما ولي أبو بكر خطب الناس فحمد الله وأثنى عليه ثم قال أما بعد أيها الناس قد وليت أمركم ولست يخيركم ولكن نزل القرآن وسن النبي صلى الله عليه وسلم السنن فعلمنا فعلمنا اعملوا أن أكيس الكيس التقوى وأن أحمق الحمق الفجور وأن أقواكم عندي الضعيف حتى آخذ له بحقه وأن أضعفكم عندي القوي حتى آخذ منه الحق أيها الناس إنما أنا متبع ولست بمبتدع فإن أحسنت فأعينوني وإن زغت فقوموني. (طبقات ابن سعد، ذکر ابوبکر)
جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے لوگوں سے خطاب فرمایا۔ اس میں انہوں نے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا، "اے انسانو! مجھے آپ کے امور کا ذمہ دار بنا دیا گیا ہے اور میں اس کی خواہش نہیں رکھتا تھا۔ قرآن نازل ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سنت قائم فرمائی تو ہمیں دین کا علم ہوا۔ جان رکھیے کہ سب سے بہترین لباس، اللہ سے خبردار رہنے کا لباس ہے۔ تمام بے وقوفیوں میں سے سب سے بڑی بے وقوفی گناہ کرنا ہے۔
آپ میں سے جو شخص سب سے زیادہ طاقتور ہے، وہ میرے نزدیک اس وقت تک سب سے زیادہ کمزور ہے جب تک کہ میں اس سے (اس کے ذمے عائد) حق وصول نہ کر لوں۔ آپ میں سے جو شخص سب سے زیادہ کمزور ہے وہ میرے نزدیک اس وقت تک سب سے زیادہ طاقتور ہے جب تک میں اسے اس کا حق پہنچا نہ دوں۔ اے انسانو! میں تو (دین کی) پیروی کرنے والا ہوں نہ کہ کوئی بدعت پیدا کرنے والا۔ اگر میں اچھا کام کروں تو آپ میری مدد کیجیے گا اور اگر غلط راستہ اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دیجیے گا۔"
اس خطبے کی آخری بات محض عجز و انکسار ہی نہ تھی بلکہ صحابہ کا عمل یہی تھا۔ ارتداد کے خلاف جنگی کاروائی ہو یا لشکر اسامہ کی روانگی، روم و ایران سے جنگ کا معاملہ ہو یا اپنے بعد آنے والے خلیفہ کی تقرری، ہر ہر معاملے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابہ کے مشورے سے ہی معاملات چلایا کرتے تھے اور تمام صحابہ کو کھلے عام اپنی رائے کے اظہار کی آزادی حاصل تھی۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی یہی مثال قائم فرمائی۔ لوگوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ جمعے کے خطبے کے دوران کھڑے ہو کر بھرے مجمع میں آپ کا احتساب کر سکیں۔ مشہور واقعہ ہے کہ آپ دو چادروں پر مشتمل لباس پہن کر جمعہ کے خطبے کے لئے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ کے پاس دو چادریں کہاں سے آ گئیں جبکہ ہم سب کو تو مال غنیمت میں سے ایک ایک چادر ملی ہے۔ آپ نے خود جواب دینے کی بجائے اپنے بیٹے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جواب دینے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے اٹھ کر بتایا کہ میں نے اپنے حصے کی چادر اباجان کو دے دی ہے۔ آپ نے اعتراض کرنے والوں کو گستاخ قرار نہیں دیا۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے خواتین کے حق مہر کی رقم کی ایک حد مقرر کرنے کا ارادہ کیا۔ نماز جمعہ میں ایک خاتون نے اس سے سخت اختلاف کیا اور ان کی رائے کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔ آپ نے ان خاتون کو بھی گستاخ قرار نہیں دیا۔
زمینوں کا انتظام کرنا ہو، جنگی تیاریاں کا معاملہ ہو، عوام کی فلاح و بہبود پر رقم خرچ کرنا ہو، مال غنیمت کی تقسیم ہو، ہر معاملے میں لوگوں کو اپنی رائے پیش کرنے کا حق حاصل تھا۔ جو شخص صاحبین مجلس کی اکثریت کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتا، اسی کی رائے پر حکومتی فیصلہ نافذ ہو جاتا۔ آپ دوسروں کو اپنا احتساب کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔
أخبرنا محمد بن عمر قال حدثني قيس بن الربيع عن عطاء بن السائب عن زادان عن سلمان أن عمر قال له أملك أنا أم خليفة فقال له سلمان إن أنت جبيت من أرض المسلمين درهما أو أقل أو أكثر ثم وضعته في غير حقه فأنت ملك غير خليفة فاستعبر عمر. (طبقات ابن سعد، ذکر عمر)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: "کیا میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ؟" سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "اگر آپ مسلمانوں کی زمین میں سے ایک درہم یا اس سے کم یا زیادہ وصول کرے اور اسے ناحق خرچ کریں تو آپ بادشاہ ہیں خلیفہ نہیں ہیں۔" عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رونے لگے۔
أخبرنا محمد بن عمر قال حدثني عبد الله بن الحارث عن أبيه عن سفيان بن أبي العوجاء قال قال عمر بن الخطاب والله ما أدري أخليفة أنا أم ملك فإن كنت ملكا فهذا أمر عظيم قال قائل يا أمير المؤمنين إن بينهما فرقا قال ما هو قال الخليفة لا يأخذ إلا حقا ولا يضعه إلا في حق فأنت بحمد الله كذلك والملك يعسف الناس فيأخذ من هذا ويعطي هذا فسكت عمر۔ (طبقات ابن سعد، ذکر عمر)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "مجھے یہ پتہ نہیں چلتا کہ میں خلیفہ ہوں یا بادشاہ۔ اگر تو میں بادشاہ ہوں تو یہ بہت بڑا معاملہ ہے۔" کسی شخص نے کہا، "اے امیر المومنین! ان دونوں میں فرق ہے۔ خلیفہ وہ ہے جو سوائے حق کے (ٹیکس) وصول نہیں کرتا اور نہ ہی اسے ناحق خرچ کرتا ہے۔ الحمد للہ آپ ایسے ہی ہیں۔ بادشاہ تو لوگوں پر ظلم کر کے ٹیکس لیتا ہے اور اسے اپنی مرضی سے خرچ کرتا ہے۔" عمر یہ سن کر خاموش ہو گئے۔
خلیفہ بننے کے بعد طویل عرصے تک آپ نے تنخواہ نہیں لی بلکہ اپنے مال سے خرچ کرتے رہے۔ جب آپ کا اپنا مال ختم ہو گیا تو پھر صحابہ سے مشورہ کیا کہ میں اپنے گھر کے خرچ کا کیا کروں؟ سیدنا عثمان اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما کے مشورے کے مطابق آپ نے کھانے اور لباس کے لئے رقم بیت المال سے لینا شروع کی۔ ابراہیم کہتے ہیں کہ اپنے دور خلافت میں عمر روزانہ دو درہم تنخواہ لیتے تھے اور میری تنخواہ ایک سو اسی درہم ہوا کرتی تھی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں انہی کے مقرر کردہ جج قاضی شریح رحمہ اللہ کی عدالت میں ایک یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر دعوی کر دیا۔ آپ نے اپنے حق میں دو گواہ سیدنا حسن و قنبر رضی اللہ عنہما کو پیش کیا۔ جج نے ان دونوں کی گواہی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ایک ان کا بیٹا تھا اور دوسرا آزاد کردہ غلام اور فیصلہ یہودی کے حق میں سنا دیا۔ یہودی نے یہ فیصلہ سن کر اسلام قبول کر لیا کہ انصاف کا یہ عالم ہے کہ قاضی ایک غیر مسلم کے حق میں خلیفہ وقت کے خلاف فیصلہ دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب خلیفہ وقت کے معاملے میں آزادی رائے کا یہ عالم تھا تو پھر دیگر بزرگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا؟
اس تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام نے آباء پرستی، شخصیت پرستی اور فکری غلامی کے دیگر تمام بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کر دیا۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ تین چار سو سال کے بعد امت مسلمہ اسی نفسیاتی غلامی کا بڑے پیمانے پر شکار ہو گئی جس سے نکالنے کی کوشش اسلام نے کی تھی۔ اس کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔
جاری ہے...
پی ڈی ایف اور ورڈ فائل لوڈ کرنے کے لیے لنک وزٹ کریں

https://www.dropbox.com/sh/eic0n34arpjeaoz/AAAoD2nG9ubMqaezgtPxlOHDa?dl=0

www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...