Saturday 17 December 2016

منہج سلف کے اصول و قواعد


منہج سلف کے اصول و قواعد

منہج کی تشریح اور منہج سلف کے تعارف کے بعد یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اس کے اصول و قواعد کیاہیں کیونکہ کسی بھی فکر یامنہج کے صحیح اورخراب ہونے میں اس کے اصول و قواعد کا غیر معمولی کردار ہوتا ہے۔پہلا قاعدہ: سلف کا استدلال تمام مسائل میں عام طور پر اور عقائد میں خاص طور پر کتاب وسنت سے ہوا کرتا ہے ۔آپ کوئی بھی دور پیش نظر رکھیں علماء سلف کی تحریروں سے یہ انداز لگانا مشکل نہ ہوگا کہ یہ حضرات کوئی چیز خواہ وہ عقائد سے متعلق ہوتشریع سے ہو اور سلوک سے ہوغرض ہر شۓ میں کتاب و سنت سے استدلال کرتے ہیں ۔ سلف ہر شۓ میں کتاب و سنت پر اعتماد اور اس سے استدلال کیوں کرتے ہیں ؟کیا اسباب ہیں اس کے؟ وہ درج ذیل ہیں ۔(۱) سلف کا کتاب وسنت کے تمام نصوص پریہ ایمان ہے کہ جو کچھ اس میں ہے صحیح ہے اور جو بھی چیز اس سے ٹکراتی ہے وہ لغو اور باطل ہے ۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’وأما خبر الله ورسوله فهو صدق موافق لما الأمر عليه في نفسه لا يجوزأن يكون شيء من أخبار باطلا ولا مخالفا لما هو الأمر عليه في نفسه ويعلم من حيثالجملة أن كل ما عارض شيئا من أخباره وناقضه فإنه باطل من جنس حججالسوفسطائية‘‘۱ وإن كان العالم بذلك قد لايعلم وجه بطلان تلك الحجج المعارضةلأخباره وهذه حال المؤمنين للرسول الذين علموا أنه رسول الله الصادق فيما يخبر بهيعلمون من حيث الجملة أن ما ناقض خبره فهو باطل. (درء تعارض العقل والنقل لابنتيمية:۵؍۲۵۵)’’۱ سو فسطائیت : فلاسفہ یونان کی ایک جماعت ہے جس کا پیش رو بروتاجو راس ہے یہ ۴۸۰ ق م پید ا ہو ا، اس کا نظریہ یہ ہے کہ جو ہمارے ذہنوں میں ہے وہی سب کچھ ہے اس کے سوا کسی مستقل خارجی شیٔ کا وجود نہیں ، انسان جس چیز کو دیکھ رہا ہے وہ اس اعتبار سے حقیقت ہے جیسے وہ سراب کو پانی شمار کرتا ہے اور وہی اس کے نزدیک پانی کی حقیت ہے ۔(التعريفات للجرجاني (ص:۱۳۱)، والمعجم الفلسفي:۱؍۶۵۸ )اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خبراس امرکے عین موافق ہے جس کا حکم دیا گیا ہےیہ بالکل ممکن نہیں ہے کہ اس میں سے کوئی بھی خبر باطل یا مخالف ہو ،بس مختصر طور پر یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ خبر کے مخالف جو بھی چیز ہوگی اسے باطل اور سوفسطائیت کا پرتو جانا جائے گا۔ گرچہ دنیا نہ جان سکے کہ اخبار سے معارض دلائل کن اسباب کی بنا پر باطل ہیں ۔رسول ﷺ پر ایمان لانے والوں کا حال ٹھیک ایسا ہی ہےمطلب یہ کہ ان کا یقین یہ ہے کہ رسولﷺ جن تمام چیزوں کی بابت خبر دے رہے ہیں اس میں سچے ہیں اورجو بھی چیز ان کی خبر سے معارض ہے وہ باطل ہے ۔۲) سلف کا اس بات پرایمان تھا کہ یہ دین کامل ہے اور دین کے اصول و فروع بنیادی طور پر انتہائی وضاحت کے ساتھ کتاب و سنت میں موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَدِينًا}(المائدة :۳)اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﭽ :{وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِينَ }(النحل :۸۹)اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللّٰهِ نُورٌ وَّكِتَابٌ مُبِينٌ}(المائدة :۱۵)ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے:’’ومثل هذافي القرآن كثيرممايبين الله فيه أن كتابهم بين للدين كله موضحلسبيل الهدى كافل من اتبعه لايحتاج معه إلى غيره يجب اتباعه دون اتباع غيره منالسبل‘‘(درء تعارض العقل والنقل لابن تيمية:۱۰؍۳۰۴)اس طرح قرآن میں بہت سی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ یہ کتاب دین کومکمل طور پر بیان کرتی ہے اور ہدایت کے راستوں کی وضاحت کرتی ہے جو شخص اس کی اتباع کرتا ہے وہ اس کے لئے کافی ہے اس کے سواکسی دوسر ے راستے کی قطعی ضرورت نہیں اسی کی اتباع واجب ہے ۔ایک جگہ اور لکھتے ہیں :’’ إن رسول اللهﷺ بيَّن جميع الدين أصوله وفروعه ، باطنه وظاهره، علمهوعمله ، فإن هذا الأصل هو أصل أصول العلم والإيمان ، وكل من كان أعظم اعتصاما بهذاالأصل كان أولى بالحق علماً وعملاً۔(مجموع الفتاوى لابن تيمية:۱۹؍۱۵۵۔۱۵۶)’’بلا شبہ رسولﷺ نے دین کے تمام اصول و فروع ،دین کا ظاہر و باطن دین کا علم اور دین پرعمل سب کچھ بتادیا ہے۔ درحقیقت یہ چیز علم وایمان کے اصولوں کی اصل ہے ، جو اس اصل پرجتنی زیادہ مضبوطی اختیار کرےگا وہ علم وعمل کے اعتبار سے حق سے اتنا ہی قریب ہوگا‘‘۔مزید لکھتے ہیں : ’’إنَّ الشارع عليه الصلاة والسلام نص على كل ما يعصم من المهالك نصا قاطعا للعذر‘‘(درء تعارض العقل والنقل لابن تيمية:۱؍۷۲) ’’بلاشبہ شارع علیہ السلام نے ہر ایسی چیز کی وضاحت فرمادی ہے (نص بیان کردیا ہے) جو ہلاکتوں سے بچانے اوربہانوں کو کاٹ دینے والی ہے‘‘ ۔(۳) عبادات ، معاملات اور عقوبات تمام باتوںمیںمسائل کا استنباط کتاب و سنت سے ہوتا ہے نوعیت خواہ حلال و حرام کی ہو ، واجب و مستحب کی ہویا کراہت کی ہو بہر اعتبار کوئی بھی مسئلہ دوسری جگہ سے اخذ نہیں کیا جا تا ۔(۴) اختلاف و تنازع کے موقع پریہ ہدایت ہے کہ معاملات انہیں کی طرف لوٹائے جائیں۔ کیونکہ یہ نور وہدایت، حکم وعدل کا مشعل اور حق و صواب کا پیمانہ ہیں۔{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْتَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَالِکَ خَيْرٌوَّأَحْسَنُ تَأْوِيلًا}(النساء :۵۹)محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ وأما إذا اختلفوا لم يكن قول أحدهم حجة على الآخر، بل يجب الرد عندالتنازع إلى الله والرسول كما قال الله تعالى:{ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِوَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَالِکَ خَيْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِيلًا} (النساء :۵۹)جوابأهل السنة النبوية (ص:۸۶ )’’جب وہ باہم اختلاف کر بیٹھیں تو ان میں سے کسی کا قول کسی کے لئے حجت نہیں رہے گا بلکہ واجب یہ ہے کہ تنازعہ کے وقت اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیاجائے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِوَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَالِکَ خَيْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِيلًا}(النساء :۵۹)یاد رہے اللہ کی طرف لوٹانے کا مطلب اس کی کتاب کی طرف لوٹنا اور رسول اللہ کی طرف لوٹانے مطلب ہے نبی ﷺ کی زندگی اور ان کی وفات کے بعد جو نبی ﷺ کی سنت میں سے صحیح ہے اس کی طرف لوٹنامرادہے۔(المنهج السلفي د. وفرح بن سليمان القوسي (ص:۳۶۱ )دوسرا قاعدہ : صحابہ اور تابعین کے فہم سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے ،اور جوعلماء زمانہ ان کے منہج پر جمے ہیں ان سے مددلینا ضروری ہے عامۃ الناس کو آزادنہ عمل کی اجازت نہیں ہے۔سلفی منہج کے اصول کا یہ حصہ ہے کہ کتاب وسنت کے نصوص کو سمجھنے کے لئے صحابہ اور تابعین کی فہم کی طرف رجوع کرنا ہوگا اسی طرح ان علمائے سلف کے فہم سے مدد لینی ہوگی جو صحابہ اور تابعین کے منہج پر جمے ہوئے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ؟ کیوں ہم صحابہ اور تابعین کی فہم پر اعتماد کریں ؟ اس کے دو اہم اسباب تحریر کئے جارہے ہیں ۔(۱) کتاب وسنت اور اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ نصوص کے سمجھنے میں منہج صحابہ کی جانب رجوع کیا جائے ۔ےاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{ وَكَذَالِکَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُعَلَيْكُمْ شَهِيدًا}(البقرة:۱۴۳)ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’وسط‘‘ ’’عدل‘‘ کے معنی میں ہے۔( تفسير القرآن العظيم لابن كثير:۱؍۴۵۵ )، اور صحابہ اس امت میں اپنے قول ، عمل،ارادہ ، نیت غرض ہر اعتبار سے سب سے زیادہ عادل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ قیامت کے دن رسولوں کی امتوں پر گواہ ہوں گے ۔ےصحابہ خیرالقرون میں سے ہیں جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا ’’خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم‘‘۔(الجامع الصحيح للبخاري كتاب الشهادات، باب لا يشهد على شهادة جور إذا أشهد: رقم:۲۶۵۲)’’بہتر لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں پھروہ لوگ جو ان سے ملے پھر وہ جو ان ملنے والوںسے ملیں گے‘‘۔ےابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اہل السنۃ و الجماعۃ کے تمام فرقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اعمال ،اقوال ، اعتقاد بلکہ ہر فضیلت میں اس امت کا سب سے بہتر زمانہ پہلا زمانہ ہے پھر جو اس کے بعد ہے اور جو اس کے بعد ہے ۔۔۔۔۔۔علم وایمان ، عقل ودین ، بیان اور عبادت ہر طرح کی فضیلت میں وہ بعد والوں سے افضل ہیں ، اور ہر مشکل کی وضاحت میں سب سے زیادہ بہتر ہیں۔ (مجموع فتاوىٰ ابن تيمية:۱۴؍۱۵۷۔۱۵۸)(۲) قرآن وسنت کو امت میں ان سے زیادہ کو ئی نہیں سمجھتا ۔صحابہ کرام قرآن کو سب زیادہ سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے قرآن کوبراہ راست نبی ﷺ سے سنا تھا ، اس کے نزول کے وقت وہ موجود تھے ، بلکہ بعض قرآنی آیات ان کی موافقت میں بھی نازل ہو ئیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں مجھے معلوم ہے کہ کون سی آیت کس کے بارے میں اور کہاں نازل ہوئی ہے ، اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی اس بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے تو اس تک میں سفر کرکےجاتا۔ (مجوع الفتاوى:۱۳؍۳۶۵)امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان کی رائے ہمارے لئےخو ہماری اپنی رائے سے بہتر ہے۔(إعلام الموقعين لابن القيم:۲؍۲۰۵) مجاہد بن جبیر سے مروی ہے: کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نےابن عباس رضی اللہ عنہ کے یہاں سورہ فاتحہ سے لے کر آخر قرآن تک تین بار عرض کیا (یعنی انہیں پڑھ کر سنایا) میں ہر آیت پر رک کر ان سے اس کی بابت پوچھا کرتا تھا۔ (مجموع الفتاوى:۱۳؍۳۳۲)ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : اسی لئے امام ثوری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ جب تمہارے پاس مجاہد کی تفسیر آجائے تو بس کرو ، یہی وجہ ہے کہ امام شافعی ،امام بخاری اور ان کے علاوہ اہل علم نے مجاہد کی تفسیر پر اعتماد کیا ہے ، اور اسی طرح امام احمد اور دیگر وہ لوگ بھی کرتے تھے جو تفسیر کے باب میں صاحب تصنیف ہیں۔ (مجموع الفتاوى )تیسرا قاعدہ : کسی چیز کو قبول یا رد کرتے وقت کتاب وسنت کو پیمانہ بنانا چاہئے۔سلف کے نزدیک کتاب وسنت ہی وہ میزان ہے جس سے تمام اقوال و افعال اور عقائد کو ناپایا تولا جاتا ہے ، انسانی اقوال ، آراء اور اجتہادات میں بشریت کے تقاضے کےسبب غلطیوں کا امکان ہے اس لئے اگر وہ کتاب وسنت کے موافق ٹھہرےتو قبول ہوں گے ورنہ رد کرئے جائیں گے ۔امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’إنما أنا بشر أخطي وأصيب، فانظروا في رأيي، فكل ما يوافق الكتابوالسنة فخذوه، وكل مالم يوافق الكتاب والسنة فاتركوه‘‘( جامع العلوم والحكم: )’’بیشک میں انسان ہوں خطا بھی کرتا اور صواب پر بھی رہتا ہوں ، لہٰذا میری رائے میں غور کرو اگر کتاب وسنت کے موافق ہے تو اسے اپنا لو اور اگر کتاب وسنت کے موافق نہیں ہے تو چھوڑ دو۔امام اصبھانی کہتے ہیں:’’وأما أهل الحق فجعلوا الكتاب والسنة إمامهم ، وطلبوا الدين من قِبَلَهما،وما وقع لهم من معقولهم وخواطرهم عرضوه على الكتاب والسنة ، فإن وجدوه موافقالهما قبلوه وشكروا الله حيث أراهم الله ذلك ووفقهم عليه، وإن وجدوا مخالفا لهما تركواما وقع لهم وأقبلوا على الكتاب والسنة ورجعوا بالتهمة على أنفسهم ‘‘۔(الحجة في بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة ، تحقيق : محمد بن ربيع المدخلي :۲؍۲۲۴)جہاں تک اہل حق کی بات ہے تو وہ کتاب وسنت کو اپنا اصل رہنما مانتے ہیں یہ لوگ دین یہیں سے اخذ کرتے ہیں اور اپنی ذہنی اپچ ، افکار وخیالات کو کتاب و سنت کی میزان سے پرکھتے ہیں۔ اگرموافق ہوا تواسے قبول کرلیتے ہیں اوراس بات پر اللہ کے شکر گزارہوتے ہیں کہ اللہ نے رہنمائی اور توفیق بخشی، اور اگر اس کے خلاف پاتے ہیں تو اسے چھوڑ کر کتاب وسنت کی جانب پلٹ جاتے ہیں اور خود اپنی ذات کو متہم گردانتے ہیں ۔ (یعنی اپنی کوتاہی اور غلطی ٹھہراتے ہیں)ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’جماع الفرقان بين الحق والباطل والهدى والضلال والرشاد والغي وطريقالسعادة والنجاة وطريق الشقاوة والهلاك، أن يجعل ما بعث الله به رسله وأنزل به كتبههو الحق الذي يجب اتباعه ، وبه يحصل الفرقان والهدي والعلم والإيمان فيصدق بأنهحق وصدق ، وما سواه من كلام سائر الناس يعرض عليه، فإن وافقه فهو حق، وإنخالفه فهو باطل‘‘۔(مجموع الفتاوى:۱۳؍۱۳۵۔۱۳۶)ويقول أيضا:’’ إن جعل القرآن إماما يؤتم به في أصول الدين وفروعه هو دين الإسلام ،وهو طريقة الصحابة والتابعين لهم بإحسان وأئمة السلمين‘‘۔(مجموع الفتاوى:۱۶؍۴۷۱۔۴۷۲)فرقان (قرآن)میں حق وباطل ، ہدایت وضلالت، نیکی بدی ، سعادت و نجات اور بدبختی و شقاوت سب راہیں اکٹھی واضح کر دی گئی ہیں ۔وہ اس طور پر کہ اللہ تعالیٰ نے جس کے ساتھ اپنے رسولوں کو بھیجا ہے اس کو واجب الاتباع حق قرار دے دے اسی کے ذریعہ حق،ہدایت اورایمان حاصل ہوتا ہے ،اسی سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ یہ حق اور سچ ہے ،قرآن کے سوا لوگوں کے کلام کو اس کے ذریعہ تولا جائے گا اگر موافق ہے تو حق ہے اور اگر مخالف ہے تو باطل ہے ۔آگے لکھتے ہیں : اگر قرآن کو ہی دین کے اصول و فروع میںامام بنایا جائے اور اس کی اتباع کی جائے تویہی دین دراصل اسلام ہے ، اور یہی صحابہ تابعین اور ائمۃ المسلمین کا طریقہ ہے ۔چوتھا قاعدہ : عقلی دلائل سے استدلال کرنادرست ہے تاہم عقل کی اہمیت صرف اتنی ہے جتنی ہونی چاہئے ،غیبی امور میں عقل کواہمیت نہیں دی جا سکتی ۔سلف کے یہاں حق وباطل کا پیمانہ کتاب وسنت ہی ہیں البتہ اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ وہ عقل کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیںکیونکہ خود کتاب و سنت کو پیمانہ بنانا بھی عقل ہی سے ممکن ہے۔بہر حال وہ عقل کو اس کا مناسب مقام دیتے ہیں۔عقل کےبارےمیںان کی رائے یہ ہے کہ :’’ إن صحيح المنقول لا يعارض صريح المعقول‘‘ جو بات صحیح ہوتی ہےوہ درست اورصریح عقل کے مخالف نہیں ہوتی ہے ۔ لیکن یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ عقل بذات خود رہنمائی نہیں کر سکتی بلکہ وہ شریعت کی پابند ہے اگر ایسانہیں ہوتا تو رسولوں کے بھیجنے کی ضرورت تھی نہ کتابیں اتارنے کی ۔ بنابریں جب شریعت اور عقل میں تعارض محسوس ہو تو شریعت کو ترجیح دینا واجب ہےایسا اس لئے کرنا ہوگاکہ شریعت کو عقل کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہے۔وہ تمام باتیں جن کی خبر دی گئی ہے ان سے متعلق رسولوں کی تصدیق معلق ہو سکتی ہے اور نہ ہی کسی مانع اورانتفاءپر موقوف ہو سکتی ہے ،لہٰذا اگر کوئی یہ کہے کہ جس چیز کی خبر کتاب و سنت سے مل رہی اسے جب تک میری عقل جان نہ جائے میں نہیں مان سکتا بالکل غلط چیز ہوگی ۔اہل حق تمام عقلی دلائل پر نقد نہیں کرتے اور نہ ہی ان دلیلوں پر طعن کرتے ہیں جن کی معرفت صحیح طریقے سے عقل کو حاصل ہوسکتی ہو ان کا طعن دراصل ان دلائل پر ہوتاہے جو کتاب وسنت کے خلاف ہوتے ہیں ۔کتاب و سنت کے مخالف دلائل کی مثال غیبی امور میںعقل کا غور وخوض کرنابھی ہے ۔جیسے اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال ، عذاب قبر اور اس کی نعمتیں ، جنت وجہنم وغیرہ کو صاف صاف عقل کے دائرے میں لاکر سمجھنا قابل نقد بات ہوگی ۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’متى تعارض في ظن الظان الكتاب والميزان – أي العقل- فأحد الأمرين لازم،إما فساد دلالة ما احتج به النص بأن لا يكون ثابتاعن المعصوم ، أو لا يكون دالا على ماظنه ، أو فساد دلالة ما احتج به من الميزان ( القياس) بفساد بعض مقدماته أو كلها، لمايقع في الأقيسة من الألفاظ المجملة المتشبهة ‘‘(درء تعارض العقلوالنقل لابن تيمية:۱؍۱۴۸ ) جب کسی گمان کرنے والے کے گمان کے اعتبار سے کتاب ومیزان (یعنی عقل) معارض ہوں تو دو میں سے ایک بات لازم ہو گی ۔۱۔ یاتو جس نص سے دلیل پکڑی جارہی ہے اس کی دلالت فاسد ہویعنی دلیل معصوم ﷺ سے ثابت نہ ہو یا جو معنی گمان کرنے والا اخذ کررہا ہے دلیل اس معنی پر دلالت نہ کرتی ہو۔۲۔وہ میزان اور قیاس ہی فاسد ہو جس سے دلیل پکڑی جارہی ہے کیونکہ اس کےبعض یا تمام مقدمات کے فساد کی بنا پر فاسدہے ، ایسا اس لئے کہ قیاسات میں الفاظ مجمل اور متشابہ ہوا کرتے ہیں۔پانچواں قاعدہ: مسئلے سے متعلق تمام نصوص کوجمع کرنا۔سلف کا یہ طریقہ کار تھا کہ وہ ایک مسئلہ سے متعلق تمام نصوص کو جمع کرتے کیونکہ جمع نصوص ایک باحث کے سامنے کسی مسئلہ کی پوری تصویر سامنے رکھ دیتا ہے ،پھر ایسا لگتا ہے کہ ان نصوص میں کوئی تناقض نہیں بلکہ سب ایک دوسرے کو تقویت پہنچا رہے ہیں ۔موقع کی مناسبت سے ایک نکتہ کی وضاحت نہایت ہی ضروری ہے وہ یہ کہ شرعی دلائل اصلاًباہم متعارض ہوتے ہی نہیں ہیں۔ امام شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’أدلة الشريعة لا تتعارض في نفس الأمر، ولذلك لا تجد البتة دليلين أجمعالسلف على تعارضهما ، بحيث وجب عليهم الوقوف، لكن لما كان أفراد المجتهدين غيرمعصومين من الخطأ أمكن التعارض بين الأدلة ‘‘(الاعتصام للشاطبي:۱؍۳۳۰)درحقیقت شرعی دلائل باہم متعارض نہیں ہوا کرتےیہی وجہ ہےکہ آپ کوئی دو ایسی دلیلیں نہیں پا سکتے کہ ایک طرف ان کی معرفت بھی ضروری ہواور پھران کے تعارض پر بھی سلف کا اجماع ہو۔ہاں چونکہ مجتہدین حضرات غلطیوں سے معصوم نہیں اس لئے ان کے یہاں دلائل میں تعارض ہوسکتا ہے۔ (یعنی دلائل میں تعارض فی الحقیقت تعارض نہیں بلکہ مجتہد کی غلطی سے اسے تعارض جان لیا جاتا ہے)ابن خزیمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ إن النبي – صلى الله عليه وسلم – لا يقول خلاف الكتاب، ولا يكون الكتاب خلاف خبر النبي – صلى الله عليه وسلم – أبداً وإنما يكون موافقا لكتاب الله لا مخالفا لشيء منه، ولكن قد يكون لفظ الكتاب لفظا عاما مراده خاص من الكتاب والسنة ‘‘۔ (التوحید لابن خزیمۃ:ص:۲۰۸). ’’بیشک نبی ﷺ کتاب اللہ کے خلاف نہیں کہہ سکتے اور نہ کتاب اللہ خبر رسول کے کبھی خلاف ہو سکتی ہے بلکہ سنت کتاب اللہ کے موافق ہےکتاب اللہ کی کسی بھی چیز کی مخالف نہیں ہاں ممکن ہے کہ کتاب کا لفظ عام لفظ ہو مگر اس کی مراد کتاب وسنت میں خاص طرح سےہو ۔اول تو نصوص میں کوئی تعارض نہیں ہوتا لیکن بظاہر ایک باحث کو کچھ تعارض نظر آتا ہےتو اس کے اسباب درج ذیل ہو سکتے ہیں ۔اول : یہ تعارض مجتہد کی فہم و نظر کے اعتبار سے ہوتاہے کیونکہ یہ اس کی نظر کی کوتاہی اور سمجھ بوجھ پر اس کی عدم قدرت کی دلیل ہو سکتی ہے ،بہت ممکن ہے کہ نصوص کے درمیان عموم وخصوص کا معاملہ ہو یا اطلاق و تقیید جیسی کوئی بات ہو یا استثناءات کی قبیل سے کوئی چیز ہو اور مجتہد ان باتوں کا ادراک نہ کرسکا ، یہ بھی ممکن ہے کہ مجتہد کو عربی زبان پر پوراعبور نہ ہو ۔(پورا عبور نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زبان کی تمام جزئیات تک رسائی ہر مجتہد کی نہیں ہوتی بلکہ کوئی نہ کوئی جزئیہ ہر کسی کی گرفت سے باہر ہو جایا کرتا ہے ۔ع) کیونکہ عرب بسااوقات عام ظاہر بول کر خاص مراد لیتے ہیں ۔دوم : ممکن ہے کہ نبی ﷺ کی طرف حدیث کی نسبت غلط ہو ، ہو سکتا ہے وہ حدیث موضوع ہو یا پھر راوی سے وہم ہو گیا ہو ۔سوم : نبی ﷺ سے خبر نقل کرنے کے طریقے میں اختلاف ہوسکتا ہے کوئی نبی ﷺ سے مفصل نقل کرتا ہو ، اور کوئی مختصر نقل کرتا ہو اور کو ئی ایسابھی ہو جو بعض معانی کو بیان کرتا ہو اور بعض کو چھوڑ دیتا ہو۔چہارم : نصوص کے مابین نسخ کا معاملہ ہو جو مجتہد کے علم میں نہ ہو اور نسخ کی وجہ سے مجتہد کو تعارض نظر آرہا ہو ۔ اسی لئے امام شافعی کہتے ہیں:’’ ولم نجد عنه- صلى الله عليه وسلم –شيئا مختلفا فكشفناه إلا وجدناه له وجها يحتمل به ألا يكون مختلفا‘‘۔ (الرسالة للشافعي:ص:۲۱۶ )ہمیںجب بھی آپ سے منسوب کوئی مختلف چیز ملی اور ہم نے اس کا پتہ کیا تو ایسی صورت واضح ہوکر سامنے آئی کہ کوئی اختلاف ہی باقی نہ رہ گیا ۔چھٹا قاعدہ : متکلمین کے تاویلات کاانکار ۔متکلمین اور اہل کلام ( فلاسفہ ) کتاب وسنت کے نصوص میں تاویلیں کرتے ہیں ان کا اصول یہ ہے کہ وہ عقل کو نقل پر ترجیح دیتے ہیں اور شرعی و اعتقادی مسائل میں عقل کو اساس قرار دیتےہیں ان کے بقول اس کے ذریعہ انہیںقطعی اور یقینی علم حاصل ہوتا ہے ، ان کے یہاں حق وہی ہے جسے انہوں نے عقل کے ذریعہ جانا یا اپنے خود ساختہ پیمانوں کے ذریعہ دریافت کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب شرعی نصوص اور ان کے فرض کردہ عقلی اصولوں کے مابین تعارض پیدا ہوتا ہے تو وہ محض عقل پر اعتماد کرتے ہوئے شرعی نصوص کو راجح معنی سے مرجوح معنی کی طرف پھیر دیتے ہیں ۔یعنی نص کاجو معنی ظاہر میں نظر آتا ہے عقل سے ٹکراؤ کے سبب اس معنی کو رد کردیتے ہیں ۔ اور کوئی دوسرا معنی جو راجح اور ظاہر نہیںہوتا ہے عقل سے موافق ہونے کے سبب تسلیم کرلیتے ہیں ۔ذیل میں ہم تاویل سے متعلق بحث کو ذرا تفصیل سے بیان کرنا چاہتے ہیں ۔اعراض اور تاویل کا مفہوم ۔اعراض کا مفہوم : اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کے کلام میں تدبر کی بجائے یونانی فلسفہ ، نظریات و خیالات میں مشغول ہونے کو اعراض کہتے ہیں ۔واضح رہے اصل شۓ اللہ و رسول کے کلام سے اعراض ہے مشغولیت اور دل چسپی کے امور ہر زمانے میں مختلف ہو سکتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمٰى}’’ ﭼجو میرے ذکر سے اعراض کرے گا تو اسے تنگ زندگی مل جائےگی اور ہم قیامت کے دن اسے اندھا اٹھائیں گے ‘‘۔(طٰہ:۱۲۴)ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’ أي :خالف أمري، وما أنزلته على رسولي، أعرض عنه وتناساه وأخذ من غيره هداه’’ فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا ‘‘أي: في الدنيا، فلا طمأنينة له، ولا انشراح لصدره، بل صدره ضيق حرج لضلاله، وإن تنعم ظاهره، ولبس ما شاء وأكل ما شاء، وسكن حيث شاء، فإن قلبه ما لم يخلص إلى اليقين والهدى، فهو في قلق وحيرة وشك، فلا يزال في ريبة يتردد ( تفسير القرآن العظيم:۵؍۳۲۲)’’جس نے میرے حکم کی مخالفت اور رسول ﷺ پر ناز ل شدہ امر کی مخالفت کی اس سے اعراض کیا ، دوسری چیزوں سے مانوس ہوا ، اس کی ہدایت کے سواکسی دوسری چیزسے رہنمائی طلب کی تو ہم اس کی زندگی تنگ کردیں گے پھر اس کو اطمینان نصیب ہوگا نہ اس کا سینہ کھلے گا بلکہ وہ گمراہی کی وجہ سے تنگی محسوس کرے گا خواہ وہ ظاہری طور پر کتنی ہی نعمتوں میں کیوں نہ ہو۔جو چاہے پہنے ، جہاں چاہے رہے اس کا دل ہمیشہ قلق ورنج اور شک وشبہ میں مبتلا رہے گا جب تک کہ وہ یقین اور ہدایت حاصل نہیں کرلے گا ۔تاویل کا مفہوم : تاویل کے مفہوم میں علمائے سلف اور اصولیوں کے یہاں اختلاف ہے۔ےسلف کے نزدیک : اس حقیقت کا نام تاویل ہے جس کی جانب امورومعاملات لوٹائے جاتے ہوں۔ قرآن میں اکثر تاویل اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا قول:{وَقَالَ يَاأَبَتِ هٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا}ترجمہ: ’’اور کہا اےمیرے ابا جان یہ اس سے پہلے میرے خواب کی تاویل ہے اسے میرے رب نے حق ثابت کردیا ‘‘۔(یوسف:۱۰۰)وجہ استدلال: گویا خواب ایک قابل وضاحت چیزتھی جب مصر میں ان کے بھائی تعظیم یوسف میں سجدہ ریز ہوئے تو حضرت یوسف نے اس خواب کو موجود واقعے کی طرف لوٹا کر خواب کا معنی واضح فرمایا۔اور ایک دوسرا معنی ہے کلام کی تفسیر کرنا اور اس کامعنی بیان کرنا جیسے نبی ﷺ کا ابن عباس کے لئے کہنا ’’ اللهم فقه في الدين وعلمه التأويل‘‘.’’ اے اللہ اسے دین کی سمجھ عطا کردے اور اسے تاویل سکھلادے۔ےاصولیوں کے نزدیک : لفظ کو کسی عقلی دلیل کی بنا پرراجح احتمال سے مرجوح احتمال کی طرف پھیر دینا ۔نوٹ: صحیح تاویل وہی ہے جس پر کتاب وسنت کے نصوص دلالت کرتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہو وہ تاویل فاسد ہے ۔اصولیوں کے یہاں تاویل کی اصطلاح کا ظہور:یہ اصطلاح اصولین کے یہاں متقدمین سلف کے بہت بعد میں ظہور میں آئی ہے ، اور تقریباً مسلمانوں میں اختلاف رونماہوجانے کے بعد آئی ہے ساتویں صدی کے آس پاس سب سے پہلے رازی نے یہ اصطلاح ظاہر کی۔ ( أساس التقديس :ص:۲۱۱۔۲۲۲)کلامی تاویل کا بطلان ۔سلف نے عقیدے کے باب میں جوبھی ثابت کیا ہے اسے اللہ نے ثابت کیا ہے اس کی کتاب وسنت میں دلیل موجود ہے جب کہ تاویل کرنے والے جس چیز کی نفی کرتے ہیں اس کی ان کے یہاں کوئی دلیل نہیں ہے ۔کتاب و سنت کے ثابت شدہ معانی کی منفی میں تاویل کرنے والوں کو حق پر مان لیا جائے تو گویا اس کا مطلب یہ ہوگیا کہ اللہ ،رسول اور صحابہ نے جوکچھ کیا وہ حق کے خلاف کیا وہ اپنی اولاد ، عورتوں اور باندیوں کو باطل، کفر اور تشبیہ جیسی چیزیں سکھاتے رہے یہاں تک کہ صابئہ اور فلاسفہ کے تلامذہ آئے جنہوں نے واضح کیا کہ حق کیا ہے ۔ نعوذ باللہ من ذالک۔سبحانك هذا بهتان عظيم.اگر تاویل کا مذہب صحیح مان لیا جائےتو دو میں ایک بات لازم آئے گی ۔اول: صحابہ اور سلف حق نہیں سمجھ سکے اور جملہ نصوص کے ظاہری معانی باطل ہیں۔ دوم : انہوں نے حق جاناتو لیکن حق چھپالیا اور مسلمانوں کے لئے خیر خواہی نہیں کی ۔ اور یہ دونوں کی دونوں باتیں غلط ہیں۔وہ تمام چیزیں جو نصوص سے ثابت ہوتی ہیں تاویل کرنے والوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان چیزوں کو عقل اورمحسوسات کے تابع کردیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایمان بالغیب کی حقیقی اور ظاہری صفات بیان کرنے سے وہ قاصر رہتے ہیں۔مؤلہ یعنی تاویل کرنے والوںکے جتنے فرقے ہیں ان کے پاس کو ئی معیار نہیں ان کے پاس جو اصول ہیں خودانہیں کے بنائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ واضح دلالت کے باوجودنص کورد کردیتے ہیں ۔ چند فرقوںکو ذیل میں ذکر کیا جارہا ہے :ے رافضہ : ان کے یہاں صحابہ سے عداوت اصل ہےاس لئے ان تمام دلائل کا رد کردیتے ہیںجن سے صحابہ کے فضائل ظاہر ہوتے ہیںاور رب کی رضا مندی کی سند ملتی ہے۔ےجہمیہ : ان کے یہاں اصل چیز تجسیم کے ساتھ مزعومہ تشبیہ کی بھی کی نفی ہے۔تشبیہ کی نفی کا ان کے یہاں مفہوم یہ ہے کہ وہ حقیقت بیانی اور بیان صفات کو اپنی طرف سے اولاً تشبیہ ثابت کرتے ہیں پھر اسے رد کرتے ہیں ۔ اس لئے وہ ان تمام دلائل کا رد کردیتے ہیں جن سےکمال اور جلال کی صفات ثابت ہوتی ہیں ۔ے قدریہ :ان کے یہاں اصل چیز عدل ہے اور عدل کرنا یہ واجب جانتے ہیںقدر اور مشیت ان کے نزدیک عدل کے خلاف ہیں اس لئے یہ لوگ قدر اور مشیت والےنصوص کی تردید کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جبریہ ہیں جن کے یہاں اصل چیز قدر اور مشیت ہے اس لئے وہ ان تمام نصوص کا رد کردیتے ہیں جو بندے کی قدرت اور اختیار پر دلالت کرتی ہیں ۔ واضح رہےقدرت و اختیار کا تعلق اللہ کی حکمت اور عدل سے ہے۔ے وعیدیہ : ان کے یہاں اصل چیز وعید کی تنفیذ ہے اور یہ کہ جو جہنم میں داخل ہو گیا و ہ دوبارہ نہیں نکالا جائے گا تو وہ ان نصوص کا رد کرتے ہیں جس میں گناہوں کو معاف کرنےاور شفاعت کی بات ملتی ہے ۔قارئین: تاویل کی نحوست نے دین کی شبیہ بگاڑدی ، اسلام کے شیرازہ کو بکھیرا، لوگ باہم ایک دوسرے کے چاک گریباں کے مرتکب ہوئے ، ایک دوسرے کی تکفیرہونے لگی عزت وآبرو مال سب مباح جانے گئے ۔خوارج نے پر پرزے نکالے ، معتزلہ کاظہور ہوا ، روافض کی رافضیت رنگ لائی اور یہ سب تاویل کی دین ہے۔ ارتداد کی جنگ ، عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت، جنگ صفین اورجنگ جمل بہت حد تک تاویل کی کارستانیوں میں شمار ہیں۔ عہد زبیر رضی اللہ عنہ اور عہد قرامطہ میںکعبۃ اللہ پر منجنیق سے یلغار تاویل کے سبب ہی ممکن ہوا ، مالک بن انس اور احمد بن حنبل پر کوڑے صرف اور صرف تاویل کے تحفظ میں لگائے گئے ،امام بخاری کی جلا وطنی مؤلین کے اشارےپر کی گئی ، بتائیے کو ن سے ستم ہیں جسے مؤلہ نے اہل اسلام کے ساتھ روا نہ سمجھا۔کلامی تاویل سے متعلق سلف کا موقف ۔امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ کہتے ہیں :’’إن الأخبار في صفات الله موافقة لكتاب الله تعالى، نقلها الخلف عنالسلف قرنا بعد قرن من لدن الصحابة والتابعين إلى عصرنا هذا ، على سبيل الصفاتلله تعالى والمعرفة والإيمان به والتسليم لما أخبر الله في تنزيله ونبيه الرسول- صلىالله عليه وسلم – عن كتابه ، مع اجتناب التأويل والجحود وترك التمثيلوالتكييف‘‘.( ذم التأويل لابن قدامة :ص:۱۸ )’’اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں وارد خبریںکتاب اللہ کےموافق ہیںان باتوںکو خلف سلف سے عہد بہ عہد صحابہ اور تابعین کے دور سے موجود ہ زمانے تک نقل کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت، صفات پرایمان رکھنا ،جو کچھ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اور حدیث میںرسولﷺ نے اللہ کی کتاب کے بارے میں بتلایاہے اسے تسلیم کرنا سب کچھ عہد بہ عہد نقل ہوتا رہا ہے ۔ نقل کا طریقہ یہ رہا ہے کہ تاویل ، انکار ، تمثیل (یعنی مثال بیان کرنے )اور تکییف( یعنی کیفیت بتلانے )سے سبھوں نے گریز کیا ہے۔ابن تیمیہ کہتے ہیں :’’أهل السنة متفقون على إبطال تأويلات الجهمية ونحوهم من المنحرفينالملحدين. والتأويل المردود : هو صرف الكلام عن ظاهره إلى ما يخالف …، وليس هذامذهب السلف والأئمة، وإنما مذهبهم نفي هذه التأويلات وردها‘‘( شرح الطحاوية (ص:۱۶۱ ) اہل سنت جہمیہ اور ان کے مماثل منحرف ملاحدہ کی باطل تاویلات کے بطلان پر متفق ہیں ۔اور مردود تاویل کا مطلب ہے کلام کو اس کے حقیقی اور ظاہری معنی سے پھیر کر مخالف معنی مراد لیا جائے۔سویہ اسلاف اور ائمہ کرام کا مسلک نہیں رہا ہے ۔ ان کا مسلک دراصل ان تاویلات کے انکار و تردید پر مبنی ہے۔آگے کہتے ہیں :’’إن جميع ما في القرآن من آيات الصفات فليس عن الصحابة اختلاف فيتأويلها…لم أجد – إلى ساعتي هذه- عن أحد من الصحابة أنه تأول شيئا من آياتالصفات أو أحاديث الصفات بخلاف مقتضاه المفهوم المعروف، بل عنهم من تقرير ذلكوتثبيته- وبيان أن ذلك من صفات الله ما يخالف كلام المتأولين – مالا يحصيه إلا الله…‘‘(مجموع الفتاوىٰ لابن تيمية:۶؍۳۹۴)قرآن میں صفات کی جتنی بھی آیات ہیں ان کی تاویل میں صحابہ کے یہاں کسی کا ا ختلاف نہیںہے ۔ مجھے ابھی اس وقت تک یہ بات نہ مل سکی کہ کسی صحابی نے صفات کی آیتوں اور صفات کی حدیثوں میں معروف مفہوم کے تقاضے سے صرف نظر کرتے ہوئے کسی قسم کی کوئی تاویل کی ہو۔ان سے جو بھی ملاوہ یہی کہ انہوں نے ان باتوں کو ثابت کیا ہے اور یہ کہ ان چیزوں کا تعلق اللہ کی صفات سے ہےاور یہ بات تاویل کرنے والوں کی باتوں کے خلاف ہے جسے صرف اللہ ہی شمار کرسکتا ہے۔ساتواں قاعدہ : اخبار احاد کو قبول کیا جائے گا ، اور ان پر عمل بھی ہوگا ۔اس قاعدے پر چند اہم نکتوںکی روشنی میں بات کرنا مناسب ہے :(۱) اخبار احاد کی تعریف۔اصل میں ایک ہی حدیث متعدد لوگوں اور متعدد سندوں سے آتی ہے کبھی بعض حدیثوں کی سندوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہےبعض کی کم اور بعض کی دو یا تین بلکہ بعض کی ایک ہی سند ہوتی ہے اصطلاح میں ان چیزوں کو’’ تعدد طرق‘‘ کہتے ہیں ۔تو تعدد طرق کے اعتبار سے حدیث کی دوقسمیں ہیں۔اول: متواتر جس کے رواۃ کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ ان کا کسی جھوٹ پر یک زبان ہونا محال ہو۔دوم : دوسری قسم آحاد ہے ۔آحادیعنی جس میں تواتر کی شرط نہ پائی جائے ۔اور یہ تین طرح کی ہوتی ہے ۔(۱) مشہور : وہ حدیث ہےجس کے رواۃ کی تعداد ہر طبقہ میں تین یا تین سے زیادہ ہو مگر یہ زیادتی تواتر کی حد تک نہ پہنچی ہو۔(۲) عزیز : وہ حدیث جس کے رواۃ کی تعداد ہر طبقہ میں دو سے کم نہ ہو ۔(۳) غریب: وہ حدیث جس کی روایت کرنے میں راوی اکیلا ہو ۔جب اخبار آحاد بولا جائے تو اس میںان تینوں قسموں کا شمار ہوتا ہے ۔(۲) اخبار آحاد کے بارے میں سلف کا موقف ۔عام سلف ، امت کے فقہاء ، جمہور محدثین اور اصولی حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ اخبار آحاد علم کا فائدہ دیتی ہیں اور ان سے یقین حاصل ہوتا ہےبشرطیکہ قرائن میں سےکوئی ایک یا ایک سے زائد قرینہ پایا جائے ۔عام سلف کا قاعدہ ہےخبر آحاد پر عمل کیا جائے گا اور اس سے عقائد اور احکام میں حجت پکڑی جائے گی ، اس مسئلے پر صحابہ تابعین اور تبع تابعین اور اہل علم کا اجماع ہے ۔امام خطیب بغدادی لکھتے ہیں خبر واحد کے متعلق تمام تابعین اور ان کے بعد آج تک تمام مسلم شہروں کے فقہاءاس بات پر متفق ہیں کہ اس پر عمل کیا جائے گا ۔ ان میں سے کسی کا انکار یا اعتراض ہم تک نہیں وارد ہوا ہے جس سے ثابت ہو تا ہے کہ ان تمام کے یہاں اس پر عمل واجب ہے اگر ان میں سے کوئی ایسا ہوتا جو اس پر عمل کرنا درست نہیں سمجھتا تو اس کا مذہب ہم تک منقول ہوتا۔ ( الكفاية في علم الرواية:ص:۷۲)ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں: جیسا کہ مجھے معلوم ہے تمام شہروں کے علمائے فقہ و اثر کااس بات پر اجماع ہے کہ عادل کی خبرِ واحد مقبول ہے ، اگر وہ ثابت ہے تو اس پر عمل کرنا واجب ہے اسےا ثر یا اجماع سے منسوخ نہیں کیا جاسکتا ہے ، اس رائے پر خوارج اور بدعتی جماعتوں کو چھوڑ کر ہر زمانے میں آج تک تمام فقہاء قائم ہیں ۔( التمهيد لابن عبد البر:۱؍۲ ،و جامع العلم وفضله:۲؍۴۲ )۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ہمارے اصحاب کا مذہب یہ ہے کہ وہ اخبار احاد جنہیں قبولیت حاصل ہے ان سے دین کے اصول ثابت کرنا صحیح ہے۔ ( المختصر الحثيث في بيان أصول منهج السلف أصحاب الحديث . د. مفرح بنسليمان القوسي :ص:۴۰۳،وهو ينقل عن المسودة )ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں ہمیشہ صحابہ ، تابعین ،تبع تابعین اور اہل الحدیث و السنہ صفات ،قدر ،اسماء اور احکام میں اخبار آحاد سے حجت پکڑتے رہے ہیں ان میں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ انہوں نے احکام میں اسے حجت مانا اور اسماء و صفات میں نہ مانا ہو ۔( مختصر الصواعق المرسلة:۲؍۴۱۲)شیخ شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تحقیق شدہ بات تو یہ ہے کہ اس بات سے صرف نظر نہیں کر سکتے کہ صحیح اخبار آحاد اسی طرح اصول میں قبول ہیں جس طرح فروع میں ہیں ، اور جس کا یہ خیال ہے کہ اخبار آحاد یقین کا فائدہ نہیں دیتیں اور عقائد میں یقین کا ہونا ضروری ہے تو یہ باطل خیال ہے اورقطعی ناقابل توجہ ہے اس کے بطلان کو یہی کافی ہے کہ اس سے نبی ﷺ سے ثابت اکثر صحیح روایات کا رد لازم آتا ہے اور یہ محض عقل کو فیصل ماننے پر لازم آرہاہے۔( مذكرة في أصول الفقه للشنقيطي: ص:۱۰۴۔۱۰۵)حدیث ذو الیدین اور تحویل قبلہ اور اس طرح کی روایات اخبار احاد کے قبول کرنے کی اہم مثالوں میں سے ہیں۔-
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان اینڈ اعتدال ڈاٹ کم

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...