Monday 12 December 2016

مسلم دنیا میں ذہنی ، فکری و نفسیاتی غلامی

مسلم دنیا میں ذہنی ،فکری ونفسامتی غلامی

(ازقلم:محمدمبشر نذیر،ترتبک:عمران شہزاد تارڑ)

مضمون 4: نفسیاتی غلامی کا سدباب
ہمارے ہاں نفسیاتی غلامی اس درجے میں پھیلی ہوئی ہے کہ مذہبی افراد کا کوئی طبقہ اور کوئی فرقہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کہیں کسی راہنما کو 'حضرت' کہا جاتا ہے، کہیں وہ 'شیخ' کہلاتا ہے، کہیں اسے 'استاذ' قرار دیا جاتا ہے اور کہیں اس کا لقب 'پیر یا مرشد' ہے۔ جو لوگ دوسروں کو کسی کی نفسیاتی غلامی سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اس کے لئے بالعموم مناظرے اور بحث مباحثے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔
ہماری ناقص رائے میں نفسیاتی غلامی کو ختم کرنے کا یہ طریقہ نہایت ہی غیر موثر اور بے کار ہے۔ اس طریقے سے کسی شخص کو نفسیاتی غلامی سے نکالا تو نہیں جا سکتا البتہ اسے اپنی روش پر مضبوط ضرور کیا جا سکتا ہے۔ بحث مباحثے کے ذریعے صرف اور صرف اس شخص کو تبدیل کیا جا سکتا ہے جو کسی دوسرے کا فکری غلام نہ ہو بلکہ صرف اور صرف دلائل کی بنیاد پر اپنا نقطہ نظر تشکیل دیتا ہو۔ جو شخص کسی کا فکری غلام بن چکا ہو، اسے اس گڑھے سے نکالنے کے لئے ایک طویل اور صبر آزما عمل کی ضرورت ہے جسے علم نفسیات میں "ڈی کنڈیشنگ (Deconditioning)" کہا جاتا ہے۔
نفسیاتی غلامی کے سدباب کے لئے جن بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے، انہیں ہم ان عنوانات کے تحت بیان کر سکتے ہیں:
•آزادی فکر کی تحریک
•مخلص اور مفاد پرست راہنماؤں میں فرق کرنے کی صلاحیت
•دینی تعلیم میں درکار اصلاحات
•ڈی کنڈیشنگ کا عمل
ان میں سے پہلے تین اقدامات کا تعلق اس بات سے ہے کہ جو افراد ابھی نفسیاتی غلامی سے محفوظ ہیں، انہیں مستقبل میں کسی بھی راہنما کا فکری غلام بننے سے روکا جائے۔ چوتھے اقدام کا تعلق ان افراد سے ہے جو کسی شخصیت کی نفسیاتی غلامی کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔
آزادی فکر کی تحریک
ہر قسم کی غلامی کے مکمل خاتمے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشروں میں آزادی فکر کو ایک مثبت قدر بنا کر پیش کریں۔ ہمارے ہاں سیکولر طبقات پہلے ہی فکری آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ ان کے ہاں یہ تحریک علی وجہ البصیرت نہیں بلکہ مغرب کی اندھی تقلید پر مشتمل ہے۔ موجودہ دور میں مذہبی طبقے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ صحابہ و تابعین کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے فکری آزادی کی تحریک شروع کریں۔ جیسا کہ ہم پچھلے باب میں بیان کر چکے ہیں کہ اسلام میں آزادی فکر کا تصور، مغربی تصور سے کافی مختلف ہے۔
اسلامی اور مغربی آزادی فکر میں فرق
موجودہ مغرب کی آزادی فکر کا نظریہ بنیادی طور پر ایک "بے خدا" کائنات کے تصور کی بنیاد پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں کسی چیز کے "مقدس" ہونے کا تصور موجود نہیں ہے۔ اسلامی نظریے کے مطابق یہ کائنات ایک خدا نے تخلیق کی ہے۔ ہمارے لئے اس خدا کی کتب، اس کی عطا کردہ اخلاقیات اور اسی کی عطا کردہ شریعت مقدس ہیں۔ شریعت کے مقدس ہونے کا معنی یہ نہیں ہے کہ اس کے بارے میں غور و فکر کرنا ہی ممنوع ہے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں شریعت پر غور و فکر اور اس کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی ایک مضبوط روایت موجود رہی ہے۔
اللہ تعالی کی دی ہوئی شریعت بہت مختصر اور آسان ہے۔ اس پر کوئی اعتراض کرنا انسانی عقل کے لئے سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔ موجودہ دور میں مستشرقین اور مسلمانوں کے سیکولر ذہن رکھنے والے افراد کی جانب سے شریعت پر جو عقلی اعتراضات کئے جاتے ہیں، وہ دراصل اللہ کی شریعت پر نہیں بلکہ انسانوں کے کام پر کئے گئے ہیں۔
علم فقہ، جسے اسلامی قانون بھی کہا جاتا ہے، پورے کا پورا اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت نہیں ہے۔ یہ خدائی شریعت کو سمجھنے کی انسانی کاوشوں کے نتیجے میں وجود پذیر ہوا جس میں بہرحال غلطی کا امکان موجود ہے۔ میں نے خاص طور پر ان اعتراضات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے اور ان کی تفصیل انشاء اللہ میں کسی اور کتاب میں بیان کروں گا۔ جن نتائج پر میں پہنچا ہوں، مختصراً ان کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی فقہی قانون پر عقلی اعتراض صرف اور صرف اسی صورت میں کئے جا سکتے ہیں جب:
•کوئی قانون قرآن و سنت کی بجائے کسی مجتہد کے ذاتی اجتہاد پر مبنی ہو۔
•قرآن مجید کی کسی آیت کو اس کے سیاق و سباق سے کاٹ کر یا کسی حدیث کو اس کے موقع و محل اور سیاق و سباق سے ہٹا کر سمجھنے کے نتیجے میں کوئی قانون اخذ کیا گیا ہو۔
•شریعت کے کسی حکم پر غلط طور پر قیاس کرتے ہوئے کوئی قانون اخذ کر لیا جائے۔
•رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث کی بجائے فقہاء کی آراء کو ترجیح دیتے ہوئے قانون سازی کی جائے۔
اسلامی شریعت کے بارے میں بھی قرآن مجید مسلمانوں کو غور و فکر کرتے رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ مختصر سی شریعت کے اس دائرے کے علاوہ دنیا جہان کے موضوعات سے متعلق مسلمانوں کو مکمل آزادی دی گئی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اپنی فکر کے گھوڑوں کو دوڑائیں۔ قرآن مجید نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ بار بار اسی کی تلقین کرتا ہے۔
مغرب کی "آزادی اظہار" اور اسلام کی عطا کردہ "آزادی اظہار" میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام کی آزادی اظہار کا تصور اخلاقی حدود کا پابند ہے۔ آزادی کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ہر شخص اس حد تک آزاد ہے کہ وہ دوسرے کی آزادی میں مداخلت نہ کرے۔ اہل مغرب کے ہاں آزادی اظہار کے نام پر دوسروں کی آزادی میں مداخلت کی جاتی ہے جس کا اظہار ان کے ہاں دوسرے مذاہب اور ان کی مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اسلام میں کسی بھی فکر پر علمی تنقید اور جرح و تعدیل کی اجازت تو ہے لیکن کسی مذہب یا فلسفے اور اس کی مقدس شخصیات سے متعلق کسی بدتمیزی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
مغرب کی آزادی اظہار نے خاص طور پر مرد و زن کے تعلق سے متعلق بے جا افراط سے کام لیا ہے جس کے مظاہر ان کے ہاں ساحلوں پر ملتے ہیں۔ اس قسم کی آزادی اظہار کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں کیونکہ یہ معاملہ اب ان کا پرائیویٹ معاملہ نہیں بلکہ دوسروں کی آزادی میں مداخلت بن جاتا ہے۔ اسی حقیقت کو سنگاپور کے عظیم راہنما 'لی کو آن یو' انے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ "اگر کوئی مرد و زن سرعام ازدواجی تعلق قائم کریں تو یہ ان کا پرائیویٹ معاملہ نہیں رہتا بلکہ پبلک معاملہ بن جاتا ہے۔" ملحدین کی آزادی اظہار کی اپروچ کی غلطی بنیادی طور پر یہ ہے کہ وہ اس کا اندھا دھند استعمال کرتے ہوئے دوسروں کی آزادی میں مداخلت کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔
آزادی فکر کے لئے درکار عملی اقدامات
موجودہ نفسیاتی غلامی کے خاتمے اور آئندہ اس کے احیاء سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے معاشروں میں آزادی فکر کے اسلامی تصور کو فروغ دینا ہو گا۔ اس ضمن میں جو اصلاحات درکار ہیں، وہ بنیادی طور پر یہ ہیں:
•آزادی فکر کو ایک بڑی قدر (Value) کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔
•مذہبی راہنما، سماجی مفکرین اور میڈیا آزادی فکر کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
•پورے شعور کے ساتھ یہ تسلیم کر لیا جائے کہ نفسیاتی غلامی ایک برائی ہے جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ نفسیاتی غلامی کے خاتمے کے لئے معاشرے کا ذہین طبقہ متحرک ہو جائے۔
•نئی نسل کی تربیت اس طریقے سے کی جائے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرنے والی بنے۔ اس کے لئے تعلیمی نظام میں زبردست اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔
اپنے وسائل کی حد تک ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان اقدامات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ جن قارئین نے میری دیگر تحریروں کا مطالعہ کیا ہے، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ میں اپنی ہر تحریر میں قارئین کی نفسیاتی آزادی کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ یہی کوشش اگر دوسرے لوگ بھی کرنا شروع کر دیں تو نفسیاتی و فکری آزادی کا یہ عمل تیز ہوتا چلا جائے گا۔
مخلص اور مفاد پرست مذہبی راہنماؤں میں فرق کرنے کی صلاحیت
سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام الناس میں مخلص اور مفاد پرست مذہبی راہنماؤں میں فرق کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ اس ضمن میں ہمارے ہاں مذہبی حلقوں کی جانب سے بہت ہی کم لکھا اور بولا گیا ہے۔ بعض سیکولر ذہن کے افراد نے ایسا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے مقاصد مختلف ہونے کی وجہ سے عام لوگوں میں ان کا اثر بہت ہی محدود رہا ہے۔
یہاں پر ہم مخلص اور مفاد پرست مذہبی راہنماؤں میں فرق کرنے کے کچھ طریقے بیان کر رہے ہیں۔ جو احباب عام لوگوں کو نفسیاتی غلامی سے نجات دلانے میں دلچسپی محسوس کرتے ہوں، ان سے گذارش ہے کہ اگر وہ ان طریقوں کو درست سمجھتے ہوں تو انہیں جس طریقے سے بھی ممکن ہو، دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔
مخلص اور غیر مخلص مذہبی راہنماؤں میں بنیادی فرق یہی ہے کہ مفاد پرست راہنماؤں کے برعکس مخلص راہنما کسی پیروکار کا کبھی جذباتی، نفسیاتی، سماجی اور معاشی استحصال نہیں کرتے بلکہ اپنی زندگی کو انہیں فائدہ پہنچانے کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
•مفاد پرست راہنما ایک ظاہری اور ایک خفیہ ایجنڈا رکھتے ہیں۔ ان کی کاوشوں کا محور خفیہ ایجنڈا ہوا کرتا ہے۔ مخلص راہنما کے تمام مقاصد واضح اور متعین ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں پایا جاتا۔ وہ جو بات کرتے ہیں، صاف انداز میں کرتے ہیں اور ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔
•مفاد پرست راہنما اپنے پیروکاروں کو اپنا فکری غلام بنانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جن کی تفصیل ہم بیان کر چکے ہیں۔ اس کے برعکس مخلص راہنما کبھی کسی شخص کو اپنا غلام بنانے کے لئے کوئی ہتھکنڈا استعمال نہیں کرتے بلکہ وہ انہیں آزادی فکر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
•مفاد پرست راہنما خود یا ان کے مقربین کی ٹیم، اپنے پیروکاروں کو فکری غلام بنانے کے لئے ہمیشہ انہیں یہی تلقین کرتے ہیں کہ وہ کسی مختلف نقطہ نظر رکھنے والے عالم کی تقریر نہ سنیں اور نہ ہی ان کی تحریریں پڑھیں ورنہ وہ گمراہ ہو جائیں گے۔ مخلص راہنما اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ لوگوں کو دونوں نقطہ ہائے نظر کو سمجھنا چاہیے اور جو نقطہ نظر انہیں قرآن و سنت کے قریب لگے، اسے اختیار کر لینا چاہیے۔
•مفاد پرست راہنما اپنی بات کو خدا کے حکم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس سے اختلاف کرنے کو گمراہی، کفر اور الحاد قرار دیتے ہیں۔ مخلص راہنما اپنی بات کو، اگرچہ وہ واقعتاً خدا کا حکم ہی ہو، اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ "میری سمجھ کے مطابق خدا کا حکم یہی ہے۔ اگر آپ بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں تو اس پر عمل کیجیے۔"
•مفاد پرست راہنماؤں کے گرد مفاد پرست "مقربین خاص" کی ایک ٹیم ہوتی ہے جو ہر ہر موقع پر اپنے شیخ کی پروموشن میں مشغول ہوتی ہے۔ مخلص راہنماؤں کے گرد ایسی کوئی ٹیم موجود نہیں ہوتی۔ ان کے شاگرد اور پیروکار بھی انہیں بس "ایک انسان اور ایک عالم" سمجھتے ہیں اور ان کی شخصیت کو کبھی حق و باطل کا معیار قرار نہیں دیتے۔
•مفاد پرست راہنماؤں کے گرد مقربین خاص کو حلقہ انہیں عوام سے دور رکھتا ہے۔ ان کی شخصیت کے گرد پردے ڈال کر انہیں پراسرار بنا دیا جاتا ہے۔ مخلص راہنماؤں کے گرد ایسا کوئی حلقہ نہیں ہوتا اور یہ حضرات عوام سے گھل مل کر رہتے ہیں۔
•مفاد پرست راہنما بعض اوقات کسی بڑی شخصیت کی روح سے اپنے روحانی تعلق کا دعوی کرتے ہیں جبکہ مخلص راہنما ایسا کوئی دعوی نہیں کرتے۔ وہ بڑی شخصیات سے صرف حسی ذرائع جیسے ان کی کتب کے مطالعے وغیرہ کے ذریعے استفادہ کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔
•مفاد پرست راہنماؤں کی کرامتوں کو بھرپور پراپیگنڈا کیا جاتا ہے لیکن مخلص راہنماؤں کے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔
•مفاد پرست راہنماؤں کے حلقوں میں عقل کی بہت مخالفت کی جاتی ہے اور جذبات کو ہر طریقے سے ابھارا جاتا ہے۔ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی عقل پر اعتماد کرنے کی بجائے راہنما کی عقل پر اعتماد کریں۔ مخلص راہنماؤں کے ہاں عقل کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ لوگوں کو علم سے وابستہ کر کے انہیں اس ذہنی سطح پر لایا جاتا ہے کہ وہ خود اپنی عقل کو استعمال کر کے صحیح و غلط کا فیصلہ کریں۔
•مفاد پرست راہنماؤں کے ہاں کسی مخصوص شخص یا گروہ کو مخالف قرار دے کر اس کی تردید، تفسیق اور تکفیر میں ساری توانائیاں صرف کی جاتی ہیں۔ مخلص راہنما کسی مخصوص شخص یا گروہ کو نہیں بلکہ ان نظریات اور اعمال کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو ان کے خیال میں غلط ہوتے ہیں۔
•مفاد پرست راہنماؤں کے ہاں "واقعات" کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ مخلص راہنماؤں کے ہاں دلائل کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے تاکہ عام لوگوں کی ذہنی سطح کو بلند کر کے انہیں اپنی عقل استعمال کرنے کی عادت ڈالی جا سکے۔
•مفاد پرست راہنما کبھی پوری معلومات نہیں دیتے۔ ان کے ہاں تصویر کا صرف ایک رخ پیش کیا جاتا ہے اور دوسرے رخ کو اس طرح سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ مخلص راہنماؤں کے ہاں تصویر کے دونوں رخ پیش کئے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ تصویر کا دوسرا رخ چھپانے کی بجائے اسے عوام کے سامنے پیش کر کے دلائل کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس میں کیا غلطی پائی جاتی ہے۔
•مفاد پرست راہنماؤں کے ہاں اختلاف رائے ایک جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ مخلص راہنماؤں کے ہاں اختلاف رائے ایک قدر (Value) کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
•مفاد پرست راہنماؤں کے کسی پیروکار سے کسی غلطی کی صورت میں شدید ردعمل سامنے آتا ہے اور راہنما کی ناراضی سے لے کر برادری سے اخراج تک ہر ذریعے سے اس شخص کو صحیح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مخلص راہنماؤں کے ہاں کسی پیروکار کی غلطی کی صورت میں اسے نرمی اور محبت سے توجہ دلائی جاتی ہے، دلائل دیے جاتے ہیں اور اگر پھر بھی معاملہ درست نہ ہو تو اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
•مفاد پرست راہنما اپنے پیروکاروں سے محبت کا مصنوعی سا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کسی انحراف کی صورت میں اسے بھرپور انداز میں جذباتی طور پر بلیک میل کرتے ہیں۔ یہ محبت اس وقت اڑنچھو ہو جاتی ہے جب راہنما سے کسی مسئلے پر اختلاف کر لیا جائے۔ مخلص راہنما کا اپنے پیروکاروں سے تعلق محض خلوص پرمبنی ہوتا ہے۔ ان کے ہاں جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کا تصور موجود نہیں ہوتا۔
•مفاد پرست راہنماؤں کے حلقوں میں جذباتیت پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ مخلص راہنما بالعموم جذباتیت سے پرھیز کرتے ہیں۔ اگر ان کے ہاں کبھی جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی بھی جاتی ہے تو ایسا بالعموم کسی ثابت شدہ نیکی جیسے نماز، زکوۃ وغیرہ کی ترغیب کے لئے کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں خاص طور پر اختلافی امور میں صرف دلائل کا تبادلہ کیا جاتا ہے اور جذباتیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
•مفاد پرست راہنما اپنے پیروکاروں کو مکمل کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تربیتی نشستوں میں بالخصوص اور عام زندگی میں بالعموم پیروکاروں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ کھانے، پینے، سونے، جاگنے، اٹھنے، بیٹھنے، لباس پہننے، استنجا کرنے غرض ہر قسم کے معاملات میں راہنما کی دی گئی ہدایات کی پیروی کریں۔ مخلص راہنما کبھی اپنے پیروکاروں کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
•مفاد پرست راہنماؤں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کا پیروکار اپنی پرانی شناخت بھلا کر نئی شناخت کو قبول کر لے۔ اسی وجہ سے وہ اکثر اوقات اپنے پیروکاروں کا نام بھی تبدیل کر دیتے ہیں۔ مخلص راہنما کبھی ایسا نہیں کرتے۔ ہاں اگر کسی شخص کے نام میں کوئی اخلاقی خرابی موجود ہے، تب وہ اسے مشورہ دے دیتے ہیں کہ وہ خود اپنا نام تبدیل کر لے۔
•مفاد پرست راہنما اپنے پیروکاروں کو معاشرے سے کاٹ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ انہیں ایک خاص وضع قطع اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پیروکاروں کے ذہن میں یہ بات اتاری جاتی ہے کہ راہنما روحانی باپ ہے اور اس کا درجہ حقیقی باپ سے بھی زیادہ ہے۔ حقیقی بھائیوں کی جگہ روحانی بھائیوں کا رشتہ زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ مخلص راہنما ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ دلوں کو ملانے کا کام کرتے ہیں۔
•مفاد پرست راہنماؤں کے ہاں چونکہ جذباتیت کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اس وجہ سے ان کے حلقوں میں ایک تصوراتی (Fantastic) سا ماحول موجود ہوتا ہے۔ لوگ عموماً حقیقت سے فرار حاصل کر کے اس تصوراتی ماحول میں خوش ہو جاتے ہیں۔ مخلص راہنما لوگوں کو حقیقت پسند بناتے ہیں۔
•مفاد پرست راہنما لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے بالعموم اپنی مجلسوں میں فلموں کے سیٹ کی طرز پر مصنوعی سا ماحول تشکیل دیتے ہیں۔ سینئر پیروکاروں کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ جونیئر پیروکاروں کے سامنے متاثر کن طرز عمل کا مظاہرہ کریں۔ مخلص راہنماؤں کے ہاں مصنوعی چیزوں کی بجائے عام طور پر دلائل سے متاثر کیا جاتا ہے۔
•مفاد پرست راہنماؤں کے ہاں سوالات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جبکہ مخلص راہنماؤں کے ہاں سوالات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
•مفاد پرست راہنما اپنے الفاظ یا عمل کے ذریعے خود کو خدا اور بندے کے درمیان ایک واسطہ قرار دیتے ہیں جبکہ مخلص راہنما خود کو اللہ کا ایک حقیر بندہ قرار دیتے ہوئے محض ایک معلم یا استاذ کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
•مفاد پرست راہنما اپنی ذاتی حیثیت بنانے کے لئے مذہب کا استعمال کرتے ہیں جبکہ مخلص راہنما ایسا نہیں کرتے۔
•مفاد پرست راہنما نفسی علوم جیسے جادو ٹونے کو رعب جمانے کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ مخلص راہنما اس سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔
•مفاد پرست راہنماؤں کے ہاں ان کے کسی پیروکار کی دینی یا دنیاوی کامیابی کو "حضرت کا کرم" قرار دیا جاتا ہے جبکہ مخلص راہنماؤں کے ہاں اسے صرف اور صرف "اللہ کا کرم" قرار دیا جاتا ہے۔
یہاں یہ بیان کرنا بہت ضروری ہے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک آدھ بات استثنائی طور پر اگر کسی راہنما میں پائی بھی جائے تو اس پر فوری طور پر مفاد پرست ہونے کا فتوی نہیں لگا دینا چاہیے۔ ہمیں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس راہنما کو اس طرف توجہ دلا دینی چاہیے کہ اس معاملے میں اس کا طرز عمل مفاد پرست لیڈروں جیسا ہے۔ اگر اس کے پاس اس طرز عمل کی کوئی معقول توجیہ موجود ہو اور وہ خوشدلی سے اپنے طرز عمل میں تبدیلی کا فیصلہ کر لے تو یقیناً وہ راہنما، مخلص ہی ہوگا۔ اس کے برعکس اگر وہ بھڑک اٹھے اور توجہ دلانے والے کو بے نقط سنائے تو پھر جان لینا چاہیے کہ وہ لیڈر مخلص نہیں ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص اپنی ابتدا میں مخلص ہو اور بعد میں وہ کسی وجہ سے مفاد پرستانہ کردار ادا کرنے لگ جائے۔ اس وجہ سے مذہبی راہنماؤں پر، خاص طور پر، نظر رکھنی چاہیے اور ان کی غلطیوں پر انہیں تنہائی میں بروقت توجہ دلانی چاہیے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر سکیں۔ اس مسلسل چھان بین کی وجہ یہ ہے کہ ایک عام آدمی کی غلطی کا نقصان تو صرف اسے ہی پہنچے گا جبکہ مذہبی راہنما کی غلطی کا اثر بہت سے لوگوں تک پہنچے گا۔
اس میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ہمیں اجتہادی غلطی اور کردار کی غلطی میں فرق کرنا چاہیے۔ اگر مذہبی راہنما درست نیت کے ساتھ، دلائل کی بنیاد پر کسی مسئلے کے بارے میں کوئی غلط رائے قائم کر بیٹھتا ہے تو یہ اجتہادی غلطی ہے۔ اجتہادی غلطی کا موجود ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مشہور حدیث کے مطابق مجتہد کو اس غلطی پر بھی اجر ملے گا۔ کردار کی غلطی سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص ایسے ہتھکنڈے اختیار کرنے لگ جائے جس کے نتیجے میں لوگ اس کے فکری غلام بننا شروع ہو جائیں۔ ایسی صورت میں اس راہنما کو فوراً توجہ دلانی چاہیے کیونکہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔
نظام تعلیم میں درکار اصلاحات
ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس اللہ تعالی کی صحیح ہدایت قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی جاری کردہ سنت کی صورت میں موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عطا کردہ ہدایت کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہمارے پاس حدیث کی صورت میں موجود ہے۔ ان احادیث کے بارے میں ہمارے پاس ایسا معیار بھی موجود ہے جس کی مدد سے صحیح و موضوع یعنی اصلی اور جعلی احادیث میں فرق کیا جا سکے۔
اس کے بعد قرآن و سنت کو سمجھنے کی کاوشوں کے سلسلے میں چودہ سو سال کے اہل علم کے علمی کام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے۔ ان سب وسائل کے ہوتے ہوئے کمی صرف اس بات کی ہے کہ دین کے طالب علموں اور عام لوگوں کو اس ذخیرے تک صحیح معنوں میں رسائی فراہم کر دی جائے۔ ظاہر ہے جو لوگ دین کا علمی مطالعہ کرنے کا ذوق رکھتے ہوں، ان میں یہ کام زیادہ اچھے طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ عام لوگوں کو بالعموم غیر رسمی (Informal) طریقے سے دین کی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ اس میں بھی کچھ اصلاحات کو نافذ کیا جا سکتا ہے۔
قرآن و سنت کی صحیح تعلیم کے لئے ہمیں دینی تعلیم کے رسمی اور غیر رسمی نظام میں ہمہ جہت تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ تعلیمی نظام میں مجوزہ تبدیلیوں پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ یہاں پر ہم دیگر اہل علم کی تجاویز پر اعتماد کرتے ہوئے کوئی نئی بات کرنے کی بجائے صرف انہی مجوزہ تبدیلیوں کا ذکر کریں گے جن کا تعلق ذہنی غلامی کے خاتمے سے ہے۔ وہ تبدیلیاں یہ ہیں:
•عربی کی تعلیم
•قرآن کو دینی تعلیم کا محور بنانے کی ضرورت
•حدیث کی تعلیم میں نقد حدیث کی اہمیت
•تقابلی مطالعے کا طریق تعلیم
•جدید دنیاوی علوم کی تعلیم
•دینی تعلیم کی سرٹیفیکیشن کا آن لائن نظام
عربی کی تعلیم
نفسیاتی غلامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض مذہبی راہنما قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث کی عربی عبارت سنا کر اس کے ترجمے میں من پسند تبدیلیاں کر کے عام لوگوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ علوم دینیہ کے طلباء کے اندر عربی زبان میں اعلی درجے کی مہارت پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے کے لٹریچر کا مکمل مطالعہ کروانے کی ضرورت ہے۔
عام لوگوں کو بھی عربی زبان سے اتنی واقفیت کروا دینا ضروری ہے کہ کوئی شخص انہیں کم از کم دھوکا نہ دے سکے۔ اس مقصد کے لئے صرف و نحو (گرامر) کے ذریعے زبان سکھانے کا طریقہ ہمارے نزدیک بالکل ہی بے کار ہے۔ اس طریقے سے نہ صرف بوریت پیدا ہوتی ہے بلکہ زبان کی ذخیرہ الفاظ (Vocabulary) اور اسالیب (Styles) کو بھی احسن انداز میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ بہترین طریقہ وہ ہے جس پر عرب ممالک میں عربی زبان کی تعلیم جاتی ہے۔ اس کے مطابق عربی زبان کو بحیثیت ایک زبان کے پڑھایا جائے اور لٹریچر کا مطالعہ کرواتے ہوئے گرامر کے قواعد ذہن نشین کروائے جائیں۔
قرآن کو دینی تعلیم کا محور بنانے کی ضرورت
ہمارے ہاں بدقسمتی سے دینی تعلیم کے نظام میں قرآن مجید کو محور کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ مدارس میں تعلیم کا آغاز صرف و نحو سے کروایا جاتا ہے۔ اس کے بعد قرون وسطی کے منطق اور فلسفے کی تعلیم پر کئی سال ضائع کر دیے جاتے ہیں۔ فقہ کے کسی مخصوص مسلک کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز عام طور پر دوسرے سال میں کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ چھ سات سال تک چلتا رہتا ہے۔ قرون وسطی کے علم کلام کی بحثیں بھی عام طور پر تیسرے یا چوتھے سال میں پڑھا دی جاتی ہیں۔ قرآن مجید کی تعلیم کا آغاز عام طور پر پانچویں سال میں کیا جاتا ہے۔
اس پورے عمل کے نتیجے میں طالب علم جب تک قرآن کے مطالعے پر پہنچتا ہے، اس وقت تک وہ فقہ یا علم کلام کے کسی مسلک کے بارے میں اچھا خاص متعصب ہو چکا ہوتا ہے۔ اب وہ قرآن مجید کو اپنے مخصوص نظریات کی عینک سے دیکھتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ قرآن مجید کی حقیقی راہنمائی سے محروم ہو جاتا ہے۔ عام طور پر طالب علموں کو قرآن پڑھانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس سے اپنے فقہی یا کلامی مسلک کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔
اس طرز تعلیم کا نقصان یہ ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم میں قرآن مجید کو معاذ اللہ ثانوی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ اس کے برعکس منطق اور فقہ کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ ظاہر ہے اس طرز عمل کے نتیجے میں نفسیاتی غلام جنم نہیں لیں گے تو اور کیا ہو گا۔
ہمیں قرآن مجید کو دینی تعلیم کا محور بنانے کی مہم شروع کرنا ہو گی۔ قرآن کی بنیادی تعلیم کا آغاز ابتدائی جماعتوں ہی میں ہو جانا چاہیے اور صرف اس کی عبارت کو بے سوچے سمجھے بغیر پڑھ لینے کی بجائے سوچ سمجھ کر پڑھنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔ عربی زبان کی تعلیم میں قرآن کو بطور ایک شہ پارہ ادب پڑھایا جانا چاہیے۔ فقہ کی تعلیم میں قرآن کو اولین ماخذ کی حیثیت سے پڑھایا جانا چاہیے اور احکام سے متعلق آیات پر خاص توجہ دی جانی چاہیے۔ علم کلام کی تعلیم میں بھی قرآن کو یہی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ حدیث کی تعلیم میں سنت اور حدیث کو قرآن کے عملی اطلاق کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ اس طریقے سے قرآن ہی کو تمام علوم پر میزان، فرقان اور مھیمن کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیے۔
عام لوگوں کو ان کی اپنی زبانوں میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیم یعنی عقائد، اخلاقیات اور شریعت سے آگاہ کروایا جانا ضروری ہے۔ اس بنیادی قرآنی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں عربی زبان سکھانے کے لئے بھی قرآن کا استعمال کیا جانا چاہیے۔
حدیث کی تعلیم میں نقد حدیث اور سیاق و سباق کی اہمیت
ہمارے معاشروں میں نفسیاتی غلامی کا ایک بہت بڑا سبب موضوع یعنی جعلی احادیث کی نشر و اشاعت ہے۔ ہماری تاریخ میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب بڑے پیمانے پر ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جعلی احادیث گھڑ گھڑ کر انہیں معاشرے میں پھیلانے کی مذموم کوشش کی۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ احادیث کے ذریعے لوگوں کو اپنے فرقے کا نفسیاتی غلام بنایا جا سکے۔ اللہ تعالی اپنی رحمت فرمائے محدثین پر جن کی غیر معمولی کاوشوں کے نتیجے میں احادیث کی جانچ پڑتال اور ان کو پرکھنے سے متعلق معلومات کا ایسا ذخیرہ وجود میں آیا جس کی مثال کسی قوم کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حدیث اور اس سے متعلقہ علوم کو دین کے طالب علموں کو تفصیل سے پڑھایا جائے، ان کی عملی مشق کروائی جائے اور دورہ حدیث کی شکل میں خانہ پری کرنے سے گریز کیا جائے۔ الحمد للہ بہت سے دینی مدارس میں اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ عام لوگوں کو حدیث کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اس سے خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کن کن جعلی احادیث کو استعمال کر کے لوگوں کو اپنا نفسیاتی غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
احادیث کو سمجھنے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اکثر اوقات راوی پوری حدیث کا صرف ایک حصہ بیان کر دیتے ہیں جس کے باعث ایک بات جو کسی مخصوص صورتحال کے لئے کہی گئی ہوتی ہے، کا قیامت تک کے لئے عمومی اطلاق کر دیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کو سمجھنے کے لئے اس کا سیاق و سباق اور موقع محل نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ کسی حدیث کے تمام طرق (یعنی مختلف ذرائع سے پہنچنے والی حدیث) کو اکٹھا کر کے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
تقابلی مطالعے کا طریق تعلیم
ہمارے ہاں علم فقہ اور علم الکلام کی تعلیم کا طریق کار بالعموم یہ ہے کہ ہر مدرسے کا تعلق کسی مخصوص فقہی اور کلامی مسلک سے ہوتا ہے۔ دوران تعلیم ابتدائی سالوں میں اسی مسلک کی کتب پڑھائی جاتی ہیں اور برین واشنگ کے ذریعے طلباء کو اسی مسلک کا عادی بنا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے مسالک کے کچھ مباحث اس مسلک کے اپنے علماء کی کتب کی بجائے، ان کے رد میں لکھی گئی کتب کے ذریعے پڑھائے جاتے ہیں جس سے ان مسالک کی کمزوریاں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ اس طریق کار سے تنگ نظر اور متعصب اسکالرز کی فوج تیار کر لی جاتی ہے جن کا مقصد عملی زندگی میں اپنے مسلک کا دفاع اور دوسرے مسلک کی تردید ہی ہوتا ہے۔
تعلیم کا بہترین طریقہ وہ ہے جو غیر متعصب اداروں میں رائج ہے۔ اس طریق کار کے مطابق تمام قابل ذکر فقہی اور کلامی مسالک کی تعلیم ان کی اپنی کتب کے ذریعے "جیسا کہ وہ ہیں" کی بنیاد پر دی جائے اور ہر مسلک کے مضبوط اور کمزور پہلوؤں کو بلاتعصب بیان کر دیا جائے۔ طالب علموں کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ دلائل کی بنیاد پر مختلف مسالک کا ایک دوسرے سے موازنہ کر سکیں اور جس معاملے میں جو نقطہ نظر بہتر ہو، اسے اختیار کر سکیں۔
اس معاملے کو صرف مسلمانوں کے اندر کے مسالک تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ دیگر مذاہب اور ان کے مختلف مکاتب ہائے فکر کے علاوہ سیکولر نظام ہائے حیات کا تقابلی مطالعہ بھی اسے طریقے پر کیا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کیا جائے بلکہ جو جیسا ہے، اسے اسی طرح سمجھا جائے۔ اس طرح ہمارے اندر وسعت نظری پیدا ہو گی اور تعصب اور جہالت کا خاتمہ ہو سکے گا۔
اس طریق کار کی طرف روایتی علماء کے متوجہ نہ ہونے کے اسباب ہمارے خیال میں دو ہیں۔ ایک وجہ تو وہ مسلکی تعصب ہے جس نے دین مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں "نامعلوم چیز کا خوف (Xenophobia)" بہت وسیع پیمانے پر پھیلا جاتا ہے۔ بہت سے علماء اس بات سے خوف محسوس ہیں کہ اگر انہوں نے دیگر مذاہب اور سیکولر نظام ہائے حیات کا مطالعہ شروع کر دیا تو نجانے کیا ہو جائے؟ کہیں ہمارے لوگ دوسرے نقطہ نظر کی طرف نہ چلے جائیں۔
جن اہل علم نے یہ تقابلی مطالعہ کیا ہے، وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ایسا کرنے سے کوئی مضر اثرات پیدا نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام بڑے مذاہب اپنی اصل میں اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ مذاہب ہی ہیں۔ چونکہ ان مذاہب میں بعد کے مختلف ادوار میں تحریف اور تغیر و تبدیل کیا جاتا رہا ہے، اس وجہ سے ان میں بہت سی ایسے عقائد و اعمال شامل ہو چکے ہیں جو سراسر نامعقولیت پر مبنی ہیں۔
اسی طرح سیکولر نظام ہائے حیات میں بہت سے ایسے خلا موجود ہیں، جن کی بدولت انہیں کبھی اسلام پر فوقیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین اسلام خدائی فکر (Divine Intellect) پر مبنی ہے جبکہ یہ نظام ہائے حیات انسانی عقل (Human Intellect) پر مبنی ہیں۔ اس وجہ سے ہم پورے وثوق اور اطمینان سے کہہ سکتے ہیں ان فلسفوں کے مطالعے سے انسان کا اسلام پر اعتماد پختہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس لئے ہمیں ہر خوف کو دل سے نکال کر سب چیزوں کا تقابلی مطالعہ کرنا چاہیے۔
جدید دنیاوی علوم کی تعلیم
دنیاوی علوم اگرچہ مذہب سے براہ راست تعلق نہیں رکھتے ہیں لیکن یہ مذہب کے دنیاوی معاملات پر اطلاق کرنے میں بڑے ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمارا دین ہمیں سود سے منع کرتا ہے۔ اب اگر ہم دنیا میں ایسا نظام رائج کرنا چاہتے ہیں جو سود سے پاک ہو تو ہمیں معاشیات کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ ہمارے قدیم اہل علم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے دور کے دنیاوی علوم منطق اور فلسفہ کو نصاب میں داخل کر رکھا تھا۔
موجودہ دور میں دین کے طالب علموں کے لئے جو دنیاوی علوم انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، ان میں عمرانیات، معاشیات، سیاسیات، نفسیات اور جدید فلسفہ شامل ہیں۔ یہ سب علوم قدیم نصاب میں "فلسفہ" کے عنوان کے تحت پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں ان علوم کو درمیانی سطح تک دین کے طالب علموں کو پڑھا دیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی اور ریاضی کی مبادیات کو ان کے نصاب میں داخل کیا جانا چاہیے۔ دور جدید میں دعوت دین کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس وجہ سے اس علم کے تازہ ترین مباحث کو بھی دین کے طالب علموں کے نصاب کا حصہ بنا دیا جانا چاہیے۔
ان علوم کو پڑھنے سے ذہن میں وسعت پیدا ہو گی، نامعقول تصورات کا خاتمہ ہو گا اور اس کے نتیجے میں طالب علموں کو تعصبات اور نفسیاتی غلامی سے نجات مل سکے گی۔
دینی تعلیم کی آن لائن سرٹیفیکیشن کا نظام
دنیا بھر میں مختلف پیشوں کے ماہرین تیار کرنے کے لئے بہت سی سرٹیفیکیشنز کا سلسلہ موجود ہے۔ یہ سرٹیفیکشنز پروفیشنل باڈیز جاری کرتی ہیں۔ اس کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ طلباء کو انٹرنیٹ کے ذریعے نصابی مواد مہیا کر دیا جاتا ہے۔ طلباء اپنے طور پر اس مواد کا مطالعہ کر لیتے ہیں یا پروفیشنل باڈی ان کے لئے مختلف شہروں میں باقاعدہ کلاسز کا سلسلہ شروع کر دیتی ہے۔
دنیا بھر کے مختلف شہروں میں پروفیشنل باڈی  کے زیر انتظام آن لائن امتحان منعقد کیا جاتا ہے۔ امتحان میں کامیابی کے ساتھ ساتھ کچھ عرصے کے لئے کسی ادارے میں پروفیشنل تربیت بھی ضروری ہوتی ہے۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد طلباء کو سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے اور انہیں پروفیشنل باڈی کا ممبر بنا لیا جاتا ہے۔ اپنے ممبران کے علم کو اپ ٹو ڈیٹ رکھنے کے لئے پروفیشنل باڈیز ان سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ مسلسل تعلیم و تربیت (Continuous Professional Education) کے ذریعے اپنے علم کو اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔
یہ طریقہ ابھی تک اسلامی علوم کی تعلیم کے لئے وسیع پیمانے پر استعمال نہیں کیا گیا۔ بحرین میں اسلامک بینکنگ انڈسٹری کے لئے ماہرین تیار کرنے کی غرض سے "ھیئۃ المحاسبۃ و المراجعۃ للمؤسسات  المالیۃ الاسلامیۃ" یعنی “Accounting & Auditing Organization for Islamic Financial Institutions (AAOIFI)”  کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اس تنظیم کے تحت Certified Islamic Professional Accountants  اور Certified Sharia Auditor & Advisor کے پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔ یہ پروگرام بھی تادم تحریر بحرین تک ہی محدود ہیں۔ اسی طرح لندن میں Academy for International Modern Studies نے بھی اسی قسم کے کچھ پروگرام شروع کئے ہیں۔
ضروری ہے کہ تمام اسلامی علوم کے لئے اسی طرز کی سرٹیفیکیشنز کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اگر کوئی ادارہ اس سلسلے میں پیش رفت کرنا چاہے تو راقم الحروف کی خدمات بغیر کسی معاوضہ کے حاضر ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ علم کے فروغ  کے ساتھ ساتھ جہالت اور تعصبات کا خاتمہ ہوگا، فاصلے ختم ہوں گے اور نفسیاتی غلامی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
ڈی کنڈیشنگ کا عمل
نفسیاتی غلامی کے خاتمے کی جو تجاویز ہم نے اوپر بیان کی ہیں، ان تجاویز کا تعلق نئی نسل کے ان افراد سے ہے جو ابھی تک نفسیاتی غلامی میں مبتلا نہیں ہوئے۔ یہ تجاویز ان افراد کو نفسیاتی غلامی میں جانے سے روکنے کے لئے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو کسی بھی قسم کی نفسیاتی غلامی کا پہلے ہی شکار ہو چکے ہیں، انہیں اس سے نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے، جو بعض ماہرین نفسیات کی اصطلاح میں "ڈی کنڈیشنگ (Deconditioning)" کہلاتا ہے۔
ڈی کنڈیشنگ سے ہماری مراد ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے کسی بھی ایسے شخص کو جو کہ نفسیاتی طور پر غلام بنایا جا چکا ہو، ایک طویل عرصے میں اس کی نارمل آزاد حالت تک لانے کی کوشش کی جائے۔ اب ہم اس عمل کی تفصیل بیان کرتے ہیں:
ڈی کنڈیشنگ: نفسیاتی غلام کی آزادی کا عمل
ڈی کنڈیشنگ کے عمل کے نتیجے میں صرف انہی افراد کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کروانے کی کوشش کی جا سکتی ہے جو اپنے اندر آزاد ہونے کا پوٹینشل رکھتے ہوں۔ جس شخص میں یہ پوٹینشل موجود نہ ہو، اسے آزاد کروانا بہت مشکل ہے۔ آزاد ہونے کے پوٹینشل کا معنی یہ ہے کہ کسی ایسےشخص میں، جو اگرچہ عارضی طور پر نفسیاتی غلامی کا شکار ہو چکا ہو، کچھ خصوصیات پائی جاتی ہوں:
•اس شخص میں حق پرستی کے لئے ایک خاص حمیت اور غیرت پائی جاتی ہو۔ وہ حق سے وابستہ رہنا چاہتا ہو۔ وہ کسی فکر سے وابستہ صرف اسی لئے ہوا ہو کہ یہ فکر اس کے خیال میں 'حق' ہو۔
•وہ شخص اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنا چاہتا ہو۔ اس کے برعکس مکمل طور پر ذہنی غلام شخص، اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ وہ بیک وقت متضاد باتوں کو مانتا رہتا ہے اور اپنے ذہن کو مختلف خانوں میں بانٹ کر رکھتا ہے۔ اگر اس کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہو تو اسے شیطان کا وسوسہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے۔
•اس شخص کے لئے اپنے افکار میں تضاد قابل برداشت نہ ہو۔ مثال کے طور پر وہ یہ نہ مان سکتا ہو کہ کوئی چیز ایک ہی وقت میں بالکل سیاہ اور بالکل سفید بھی ہو سکتی ہے۔ عملی زندگی میں اس کی مثال یہ ہے کہ اس کے لئے یہ ماننا بہت مشکل ہو کہ اس کے راہنما میں کوئی اخلاقی خرابی بھی پائی جاتی ہے اور اس کے باوجود اسے اپنے راہنما کی پیروی کرنا چاہیے۔
جس شخص میں آزاد ہونے کا یہ پوٹینشل پایا جائے، اس کا نفسیاتی غلامی سے آزاد ہونا ممکن ہے۔ اس کی عملی صورت عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ یا حادثہ پیش آ جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ذہن میں ایک تضاد پیدا ہو جاتا ہے۔ تضاد کی یہ کیفیت اس کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ وہ اس تضاد کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب اس میں ناکام رہتا ہے تو وہ فکری غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس بات کی وضاحت ہم ایک مثال کے ذریعے کرتے ہیں۔
ایک صاحب کسی بڑے پیر کے مرید تھے اور اس سے نہایت عقیدت رکھتے تھے۔ یہ عقیدت اتنی انتہا تک پہنچی ہوئی تھی کہ اس کے باوجود، کہ ان کے پیر کو بدکاری کی عادت تھی اور اس معاملے میں وہ اپنی کسی مریدنی کو بھی نہیں چھوڑتا تھا، وہ صاحب اس پیر سے عقیدت رکھتے تھے۔ ان کے پیر نے ان کے ذہن میں یہ ڈال رکھا تھا کہ اللہ والے جو کچھ بھی کریں، ان کے لئے جائز ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ پیر نے انہی صاحب کی بہن کو، جو خود اس کی مرید تھی، ورغلا کر اس کے ساتھ بدکاری کا ارتکاب کر لیا۔ اب ان صاحب کو کچھ ہوش آیا۔ وہ ایک عالم دین کے پاس آئے اور ان کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ عالم نے انہیں بتایا کہ تمہارا پیر تو کھلا شیطان ہے۔ اب ان صاحب کے ذہن کی دھند چھٹنا شروع ہوئی اور ان کے ذہن کی ڈی کنڈیشنگ کے عمل کا آغاز ہوا۔ غلامی ان کی نفسیات میں اس حد تک رچ بس چکی تھی کہ ڈی کنڈیشنگ کا یہ عمل کئی ماہ جاری رہا اور اس کے بعد انہوں نے پیر کی بیعت توڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
بسا اوقات کوئی شخص، اپنے راہنما کی ذات کی بجائے اس کے تصورات اور دعوت میں موجود کسی خامی کے بارے میں یہ جان لیتا ہے کہ یہ واقعتاً خامی ہی ہے۔ اس سے پہلے وہ اس خامی کو خامی نہیں سمجھ رہا ہوتا۔ اس کے بعد اس کے ذہن میں راہنما کی ذات پر جو اعتماد قائم تھا، وہ باقی نہیں رہتا۔ اب وہ راہنما کے ایک ایک نظریے کو لے کر اس کا تجزیہ کرنا شروع کرتا ہے، اس کا تقابل دوسرے راہنماؤں کے نظریات سے کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اپنے راہنما کی غلطیوں سے واقف ہوتا چلا جاتا ہے۔
اس عمل میں آہستہ آہستہ غلامی کا خول ٹوٹنا شروع ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی جال کی گرہیں یکے بعد دیگرے کھلتی چلی جا رہی ہیں۔ پرانے تصورات کی شکست و ریخت کا عمل شروع ہوتا ہے اور ان کی جگہ نئے تصورات پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس عمل میں وہ کچھ عرصے میں وہ نفسیاتی غلامی سے آزاد ہوتا چلا جاتا ہے۔
ڈی کنڈیشنگ کا یہ عمل آسان نہیں ہوتا۔ جو شخص ڈی کنڈیشنگ کے عمل سے گزر رہا ہو، بسا اوقات اس کی کیفیت ایک ایسی خاتون کی سی ہوتی ہے جو درد زہ میں مبتلا ہو۔ اسے بیک وقت دو متضاد باتوں کا ماننا پڑتا ہے۔ بعض لوگ اس اذیت سے بچنے کے لئے اپنے ذہن کو خانوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ ایک بات ایک جگہ اور اس کی متضاد دوسری بات دوسری جگہ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں ان باتوں کے تضاد پر زیادہ سوچنا نہ پڑے۔ عارضی طور پر تو اس طریقے سے کام چلانا ممکن ہوتا ہے لیکن طویل عرصے تک اس کیفیت کو برداشت کرنا ناممکن ہوتا چلا جاتا ہے۔
بعض لوگ تو ان کیفیات کو برداشت نہ کر سکنے کے باعث مستقل نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ جن افراد میں قوت برداشت زیادہ ہوتی ہے، وہ بالآخر اس مہم سے سرخرو ہو کر نکلتے ہیں جس کے انعام کے طور پر انہیں نفسیاتی آزادی نصیب ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص شعوری طور پر ڈی کنڈیشنگ کے عمل سے گزر رہا ہو تو وہ اس کیفیت سے بھرپور لطف اندوز ہوتا ہے۔
ڈی کنڈیشنگ کا اس عمل کا دورانیہ ہر شخص میں مختلف ہوتا ہے۔ مجھے اپنی زندگی میں چونکہ اس عمل سے دو مرتبہ گزرنے کا موقع ملا ہے، اس وجہ سے میں اپنا تجربہ بیان کر سکتا ہوں کہ پہلی مرتبہ اس عمل میں مجھے چھ سال اور دوسری مرتبہ پانچ سال کا عرصہ لگا۔ پہلی مرتبہ کی ڈی کنڈیشنگ بہت تکلیف دہ ثابت ہوئی جبکہ دوسری مرتبہ میں نے اس عمل کو بھرپور انجوائے کیا تھا۔
ڈی کنڈیشنگ کے عمل کے اختتام پر انسان اپنے بہت سے سابقہ تصورات سے دست بردار ہو جاتا ہے۔ اس کی جگہ نئے تصورات قائم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پرانے دوستوں سے رشتے ٹوٹنے لگتے ہیں اور نئے دوستوں کے ساتھ رشتے استوار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پرانی اقدار ایک ایک کر کے بکھرتی چلی جاتی ہیں اور نئی اقدار جنم لینے لگتی ہیں۔ مختلف واقعات کی توجیہ کرنے کا پرانا طریقہ ختم ہوتا چلا جاتا ہے اور اب واقعات کو نئے تناظر میں دیکھا جانے لگتا ہے۔
ڈی کنڈیشنگ سے متعلق داعی حق کا کردار
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کسی شخص میں ڈی کنڈیشنگ کا عمل شروع کرنے کے لئے بحث و مناظرے کا طریقہ کار بالکل ہی بے کار اور لایعنی ہے۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا شخص ہو جس کے ذہن میں مناظرے کے ذریعے ڈی کنڈیشنگ کا عمل شروع کیا جا سکے۔ دین کے بہت سے پرجوش داعی، جن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا مخاطب چند گھنٹوں میں تبدیل ہو کر ان کا نقطہ نظر قبول کر لے، مناظرے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اور جب وہ اس میں بری طرح ناکام رہتے ہیں تو پھر مخاطب سے لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں۔ میری رائے میں ایک ایسا شخص (جسے ہم داعی کہیں گے)، جو کسی کا نفسیاتی غلام نہیں ہے، کو اپنے کسی نفسیاتی غلامی کے شکار بھائی (جسے ہم مخاطب کہیں گے) کو اس سے نکالنے کے لئے ان راہنما اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
•داعی حق کے لئے اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس کی دعوت کا مقصد کسی شخص کو گھیر گھار کر اپنے نقطہ نظر پر قائل یا لاجواب کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ جس بات کو وہ درست سمجھتا ہے، اسے احسن انداز میں اپنے دوسرے بھائی تک پہنچا دے۔ داعی کو اپنے مخاطب کا خیر خواہ ہونا چاہیے۔
•داعی کو اپنے آپ کو اس بات کے لئے تیار رکھنا چاہیے کہ اگر اس کی بجائے اس کا مخاطب ہی حق بات پر ہو تو وہ اسے ماننے کے لئے کھلے ذہن سے تیار ہو۔
•داعی حق کو پہلے اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کہیں خود تو کسی اور راہنما کا نفسیاتی غلام تو نہیں ہے۔
•داعی کو کبھی بھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ ڈی کنڈیشنگ کا عمل بسا اوقات سالوں پر محیط ہوتا ہے۔
•داعی کو کبھی بھی اپنے مخاطب یا اس کے راہنما کو ڈائرکٹ تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ضد کے سوا اور کچھ پیدا نہیں ہوتا۔ ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی کے نتیجے میں مخاطب کی نفسیاتی غلامی کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
•داعی کو چاہیے کہ وہ مخاطب کی شخصیت میں حق پرستی کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ بہت سے لوگ حق پرستی کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ اپنے راہنما اور اس کے نظریات سے چمٹے ہوئے رہتے ہیں۔ ان ڈائرکٹ مثالوں کے ذریعے، جن کا زیر بحث راہنما اور اس کے نظریات سے کوئی تعلق نہ ہو، داعی کو مخاطب کی شخصیت میں حق پرستی کا حقیقی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب حق پرستی کا جذبہ بیدار ہو جائے گا تو پھر خود بخود وہ شخص اپنے راہنما کی نفسیاتی غلامی سے آزاد ہونا شروع ہو جائے گا۔
•ڈی کنڈیشنگ کے عمل کو شروع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مخاطب کے سامنے ان ڈائرکٹ طریقے سے کچھ ایسے سوالات رکھے جائیں جس سے اس کے ذہن میں برف پگھلنے کا عمل شروع ہو سکے۔ سوالات کو مخاطب کے سامنے براہ راست رکھنا مناسب نہیں ہے۔ اس کی بجائے ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ داعی، اپنے مخاطب کو آزاد ذہن کے حامل علماء کی کتب پڑھنے کے لئے دے۔ اس ضمن میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ کتاب کے مصنف بذات خود کسی اور راہنما کے فکری غلام نہ ہوں۔
•ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر مخاطب کی ملاقات کسی ایسے تیسرے شخص سے کروا دی جائے جو مخاطب کے کسی نظریے کے باعث شدید قسم کی مشکلات کا شکار ہوا ہو تو وہ شخص خود ڈی کنڈیشنگ کا عمل شروع کروا سکتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک صاحب اپنے فرقے کے شدید نفسیاتی غلام تھے۔ ان کے فرقے میں طلاق کا قانون بہت سخت تھا۔ ایک مرتبہ ان کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو جذبات میں اپنی بیوی کو طلاق دے چکا تھا اور اب اس کے بچوں کا مسئلہ اس کے سامنے تھا۔ اس شخص کے احساسات نے ان صاحب کے اندر ڈی کنڈیشنگ کا عمل شروع کر دیا جس کی بدولت وہ آہستہ آہستہ اپنے فرقے سے بیزار ہوتے چلے گئے اور بالآخر آزاد طرز فکر کی منزل تک پہنچ گئے۔
•ڈی کنڈیشنگ کا عمل شروع ہو جانے کے بعد داعی کو اپنے مخاطب کے سر پر مسلط نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ اسے مخاطب کو تبدیل ہونے کے لئے طویل وقت دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر امور میں دوستی اور خلوص کا تعلق استوار رکھنا چاہیے۔
ڈی کنڈیشنگ کے بعد کے نفسیاتی اتار چڑھاؤ
جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ ڈی کنڈیشنگ کسی بھی نفسیاتی غلام کے لئے ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ جب یہ عمل مکمل ہوتا ہے تو مخاطب کسی بھی بات کو تسلیم کر لینے سے پہلے ایک "خالی پیریڈ" سے گزرتا ہے۔ اس عرصے میں اس کے نظریات بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد اس کے نظریات میں ایک ٹھہراؤ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
ایک حق پرست کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ اگرچہ اس کے نظریات میں کسی وقت ٹھہراؤ بھی پیدا ہو جائے لیکن اگر اس کے بعد کبھی بھی اسے اس کی غلطی کی طرف توجہ دلائی جائے تو اسے ہر حال میں حق کو قبول کر لینا چاہیے۔
اگر ان امور کا خیال رکھا جائے تو ہم اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کی بڑی حد تک مدد کر سکتے ہیں جو کسی بھی درجے میں نفسیاتی غلامی کا شکار ہیں۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ نفسیاتی غلامی کے خاتمے کی جدوجہد میں ہر قدم پر ہماری مدد فرمائے۔ آمین۔
                                                                              بشکریہ اسرا ایجوکیشن اینڈ فاطمہ اسلامک سنٹر
http://iisra.net   
www.dawatetohid.blogspot.com                                                                            

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...