Thursday 9 June 2016

آٹھ رکعات تراویح اور غیر اہلِ حدیث علماء

آٹھ رکعات تراویح اور غیر اہلِ حدیث علماء


تحریر:حافظ زبیر علی زئی

رمضان میں عشاء کی نمازکے بعد جو نماز بطورِ قیام پڑھی جاتی ہے ، اسے عرفِ عام میں تراویح کہتے ہیں۔ راقم الحروف نے “نور المصابیح فی مسئلۃ التراویح” میں ثابت کردیا ہے کہ گیارہ رکعات قیامِ رمضان (تراویح) سنت ہے۔

نبی کریم ﷺ عشاء کی نمازسے فارغ ہونے کے بعد فجر (کی اذان) تک (عام طور پر) گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ آپ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے تھے اور (آخر میں) ایک وتر پڑھتے تھے۔ دیکھئے صحیح مسلم ( ۲۵۴/۱ ح ۷۳۶)

نبی کریم ﷺ نے رمضان میں (صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جماعت سے) آٹھ رکعتیں پڑھائیں ۔ دیکھئے صحیح ابن خزیمہ (۱۳۸/۲ ح ۱۰۷۰) و صحیح ابن حبان (الاحسان ۶۲/۴ ح ۲۴۰۱، ۶۴/۴ ح ۲۴۰۶) اس روایت کی سند حسن ہے ۔

سیدنا امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (نماز پڑھانے والوں) سیدنا ابی بن کعبؓ اور سیدنا تمیم داریؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو (رمضان میں نمازِ عشاء کے بعد ) گیارہ رکعات پڑھائیں۔ دیکھئے موطأ امام مالک (۱۱۴/۱ ح ۲۴۹) و السنن الکبریٰ للنسائی (۱۱۳/۳ ح ۴۶۸۷)

اس روایت کی سند صحیح ہے اور محمد بن علی النیموی (تقلیدی) نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ دیکھئے آثار السنن (ح ۷۷۵، دوسرانسخہ: ۷۷۶)

صحابہ و تابعین اور سلف صالحین کا اس پر عمل رہا ہے ۔

اب اس مضمون میں حنفی و تقلیدی علماء کے حوالے پیشِ خدمت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک بھی آٹھ رکعات تراویح سنت ہے ۔

۱: ابن ہمام حنفی (متوفی ۸۶۱؁ھ) لکھتے ہیں: “فتحصل من ھذا کلہ أن قیام رمضان سنۃ احدیٰ عشرۃ رکعۃ بالوتر في جماعۃ”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیامِ رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر ، جماعت کے ساتھ سنت ہے.(فتح القدیر شرح الہدایہ ج ۱ ص ۴۰۷ باب النوافل)

۲: سید احمد طحطاوی حنفی (متوفی ۱۲۳۳؁ھ) نے کہا:

“لأنّ النبي علیہ الصلوۃ و السلام لم یصلھا عشرین، بل ثماني“
کیونکہ بے شک نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بیس نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھیں۔(حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختارج ۱ ص ۲۹۵)

۳: ابن نجیم مصری (متوفی ۹۷۰؁ھ) نے ابن ہمام حنفی کو بطورِ اقرار نقل کیا کہ

“فإذن یکون المسنون علی أصول مشایخنا ثمانیۃ منھا والمستحب اثنا عشر“پس اس طرح ہمارے مشائخ کے اصول پر ان میں سے آٹھ (رکعتیں) مسنون اور بارہ (رکعتیں) مستحب ہوجاتی ہیں۔ (البحرالرائق ج ۲ ص ۶۷)

تنبیہ: ابن ہمام وغیرہ کا آٹھ کے بعد بارہ (۱۲) رکعتوں کو مستحب کہنا حنفیوں و تقلیدیوں کے اس قول کے سراسر خلاف ہے کہ “بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہے اور اس سے کم یا زیادہ جائز نہیں ہے “

۴: ملا علی قاری حنفی (متوفی ۱۰۱۴؁ھ) نے کہا:

“فتحصل من ھذا کلہ أن قیام رمضان سنۃ إحدیٰ عشرۃ بالوترفي جماعۃ فعلہ علیہ الصلوۃ و السلام“ اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیامِ رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے ، یہ آپ ﷺ کا عمل ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح ۳۸۲/۳ ح ۱۳۰۳)

۵: دیوبندیوں کے منظورِ نظر محمد احسن نانوتوی (متوفی ۱۳۱۲؁ھ) فرماتے ہیں:
“لأن النبي ﷺ لم یصلھا عشرین بل ثمانیاً“کیونکہ بے شک نبی ﷺ نے بیس (۲۰) نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ (۸) پڑھیں۔ (حاشیہ کنز الدقائق ص ۳۶ حاشیہ : ۴)

نیز دیکھئے شرح کنز الدقائق لابی السعود الحنفی ص ۲۶۵

۶: دیوبندیوں کے منظورِ خاطر عبدالشکور لکھنوی (متوفی ۱۳۸۱؁ھ) لکھتے ہیں کہ:

“اگرچہ نبی کریم ﷺ سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی۔ مگر …..” (علم الفقہ ص ۱۹۸، حاشیہ)

۷: دیوبندیوں کے دل پسند عبدالحئی لکھنوی (متوفی ۱۳۰۴؁ھ) لکھتے ہیں:

“آپ نے تراویح دو طرح ادا کی ہے (۱) بیس رکعتیں بے جماعت…… لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے …. (۲) آٹھ رکعتیں اور تین رکعت وتر باجماعت….” (مجموعہ فتاویٰ عبدالحئی ج ۱ ص ۳۳۱،۳۳۲)

۸: خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (متوفی ۱۳۴۵؁ھ) لکھتے ہیں:

“البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھاہے سو یہ قول قابل طعن کے نہیں” (براہین قاطعہ ص ۸) خلیل احمد سہارنپوری مزید لکھتے ہیں کہ “اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے ” (براہین قاطعہ ص ۱۹۵)

۹: انور شاہ کشمیری دیوبندی (متوفی ۱۳۵۲؁ھ) فرماتے ہیں:

“ولا مناص من تسلیم أن تراویحہ علیہ السلام کانت ثمانیۃ رکعات ولم یثبت في روایۃ من الروایات أنہ علیہ السلام صلی التراویح و التجھد علیحدۃ في رمضان…. وأما النبيﷺ فصح عنہ ثمان رکعات و أما عشرون رکعۃ فھو عنہ علیہ السلام بسند ضعیف و علیٰ ضعفہ اتفاق….“اور اس کے تسلیم کرنے سے کوئی چھٹکارا نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور روایتوں میں سے کسی ایک روایت میں بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھے ہوں…… رہے نبی ﷺ تو آپ سے آٹھ رکعتیں صحیح ثابت ہیں اور رہی بیس رکعتیں تو وہ آپ علیہ السلام سے ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے ۔ (العرف الشذی ص ۱۶۶ ج ۱)

۱۰: نمازِ تراویح کے بارے میں حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی حنفی (متوفی ۱۰۶۹؁ھ) فرماتے ہیں: “(وصلوتھا بالجماعۃ سنۃ کفایۃ) لما یثبت أنہ ﷺ صلّی، بالجماعۃ اِحدیٰ عشرۃ رکعۃ بالوتر..“ (اور اس کی باجماعت نماز سنت کفایہ ہے ) کیونکہ یہ ثابت ہے کہ آپﷺ نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعتیں مع وتر پڑھی ہیں ۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح ص ۹۸)

محمد یوسف بنوری دیوبندی (متوفی ۱۳۹۷؁ھ) نے کہا:

“فلا بد من تسلیم أنہ ﷺ صلّی التراویح أیضاً ثماني رکعات“
پس یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپﷺ نے آٹھ رکعات تراویح بھی پڑھی ہے ۔

(معارف السنن ج ۵ ص ۵۴۳)

تنبیہ (۱): یہ تمام حوالے ان لوگوں پر بطورِ الزام و اتمام حجت پیش کیے گئے ہیں جو ان علماء کو اپنا اکابر مانتے ہیں اور ان کے اقوا ل کو عملاً حجت تسلیم کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان بعض علماء نے بغیر کسی صحیح دلیل کے یہ غلط دعویٰ کر رکھا ہے کہ “مگر حضرت فاروق اعظمؓ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا اور جماعت قائم کردی ” اس قسم کے بے دلیل دعووں کے رد کے لئے یہی کافی ہے کہ سیدنا عمرؓ نے گیارہ رکعات پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ (دیکھئے موطأ امام مالک ۱۱۴/۱ و سندہ صحیح)
تنبیہ(۲): امام ابوحنیفہ، قاضی ابو یوسف ، محمد بن الحسن الشیبانی اور امام طحاوی کسی سے بھی بیس رکعات تراویح کا سنت ہونا باسند صحیح ثابت نہیں ہے ۔ وما علینا الا البلاغ (۱۷ رجب ۱۴۲۷؁ھ)
http://dawatetohid.blogspot.com/2016/06/blog-post_7.html

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...