Thursday 9 June 2016

روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں

روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں

(مضمون طویل ضرور ہے مگر طب کی حقیقت پرمبنی ہے آخر پر چند نسخے بهی دیے گئے ہیں)

روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں روزہ شوگر لیول ‘کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے’اسٹریس و اعصابی تناؤختم کرکے بیشتر نفسیاتی امراض سے.NO,1چھٹکارا دلاتاہے’ روزہ رکھنے سے جسم میں  خون بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے ‘انسانی جسم سے فضلات اور تیزابی مادوں کا اخراج کرتا ہے ‘موٹاپا اورپیٹ کو کم کرنے میں مفید ہے’ خاص طور پر نظام انہضام کو بہتر کرتا ہے علاوہ ازیں مزید کئی امراض کا علاج بھی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم سحر وافطار میں سادہ غذا کا استعمال کریں۔خصوصاً افطاری کے وقت زیادہ ثقیل اور مرغن تلی ہوئی اشیاء مثلاً سموسے پکوڑے کچوری وغیرہ کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے جس سے روزے کا روحانی مقصد تو فوت ہوتا ہی ہے خوراک کی اس بے اعتدالی سے جسمانی طور پر ہونے والے فوائدبھی مفقود ہوجاتے ہیں بلکہ معدہ مزید خراب ہوجاتا ہے لہذا افطاری میں دنیا جہان کی نعمتیں اکٹھی کرنے اور اس پر ٹوٹ پڑنے کی بجائے افطار کسی پھل ‘کھجور یا شہد ملے دودھ سے کرلیا جائے اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کچھ کھالیا جائے اس طرح دن میں تین بار کھانے کا تسلسل بھی قائم رہے گا اور معدے پر بوجھ نہیں پڑے گا ۔افطار میں پانی دودھ یا کوئی بھی مشروب ایک ہی مرتبہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے استعمال کریں ۔انشاء اللہ ان احتیاطی تدابیر پر عملدر آمد کرنے سے روزے کے جسمانی وروحانی فوائدحاصل کر سکیں NO.2

اونٹ کا گوشت کھانے سے کئی بیماریاں دور ہوجاتی ہیں

اونٹ کا گوشت بخار ‘عرق ا لنساء (شیاٹیکا) کالا یرقان ‘ہیپاٹائیٹس سی اوراعصابی وجسمانی کمزوری کا بہترین علاج ہے

لاہور:اونٹ کا گوشت عام طور پر شاذونادر ہی ملتا ہے لیکن عید قربان پر یہ گوشت بھی وافر مقدار میں ہوتا ہے اور جنہیں یہ گوشت میسر آجائے وہ بہت سی امراض سے بچ سکتے ہیں ۔افادہ ِعام کیلئے مرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنزپاکستان اور یونانی میڈیکل آفیسرحکیم قاضی ایم اے خالد نے اونٹ کے گوشت کے فوائد سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اونٹ کا گوشت پرانے بخار ‘عرق النساء (شیا ٹیکا ) سیاہ یرقان ‘ہیپا ٹائٹس سی اور پیشاب کی جلن میں مفید ہے اعضائے رئیسہ کی طاقت اور تقویت باہ کیلئے بھی مستعمل ہے ۔اعصابی کمزوری اور جسمانی کمزوری میں فائدہ مند ہے ۔ مذکورہ بالا فوائد حاصل کرنے کیلئے اس کی مقدار خوراک ایک سو گرام ہے بواسیر کیلئے اونٹ کی چربی کا لیپ انتہائی مفید ہے ۔ لہٰذاعید الا ضحی پر اگر یہ گوشت مل جائے تو اس سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے……NO.3…دنیا بھر میں طب ِیونانی سے علاج معالجہ کا رجحان بڑھ رہا ہے

طب یونانی جسے طب ِمشرقی اور طبِ اسلامی بھی کہا جاتاہے’ کے تحت جڑی بوٹیوں سے علاج کی افادیت زمانہ قدیم سے مسلمہ ہے۔ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں ممالک ہی اب اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔جدید اینٹی بایوٹک ادویات کی افادیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن ان کے استعمال سے بعض اوقات انسانی جسم پر سخت مضراثرات پڑتے ہیں جن سے تکلیف میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوجاتاہے یا کوئی اور بیماری آلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس ایٹمی دور میں پوری دنیا کے لو گ دوبارہ جڑی بوٹیوں کے فطری اور بے ضرر علاج کی طرف متوجہ ہور ہے ہیں کیونکہ طبِ یونانی( اسلامی )یا ہر بل سسٹم آف میڈیسن میں ادویات کا استعمال موسم’ عمر اور مزاج کو مد نظر رکھ کر کروایاجاتاہے جسکی وجہ سے ان دیسی ادویات کے کسی قسم کے سائیڈ ایفیکٹس نہیں ہوتے۔
ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)کی رپورٹ کے مطابق جدید میڈیکل سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود دنیا کی 86فیصد آبادی ہربل ادویات استعمال کر رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے فنڈبرائے آبادی کے مطابق پاکستان کی 76فیصد آبادی مختلف امراض کے سلسلے میں طب یونانی کی ہربل میڈیسنز کا استعمال کرتی ہے۔اس وقت پاکستان، بھارت، سری لنکا، برما، چین اور بنگلا دیش سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس طریقہء علاج کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے جرمنی میں بچوں کا علاج ہر بل میڈیسنز سے کیا جارہا ہے اس سلسلے میں وہاں سونف کا استعمال کثرت سے کیا جاتاہے۔سعودی عرب میں جڑی بوٹیوں کے دواخانے ”عطارہ” کے نام سے چل رہے ہیں۔ اور مدینہ یونیورسٹی میں طب اسلامی کا ایک باقاعدہ شعبہ تدریس وتحقیق موجود ہے۔برطانیہ میں کئی فرمیں مختلف جڑی بوٹیوں سے دمہ، کھانسی، یرقان، پتھری، گنٹھئے اور بواسیر سمیت کئی اور امراض کے علاج کے لیے ادویات تیار کررہی ہیں۔ روس اور چین میں کینسر، بھگندر، بواسیر، بلڈپریشر، آنتوں ومعدہ کی امراض، اور دل کی شیریانوں میں خون کے انجماد کو روکنے کے لیے ہر بل میڈیسنز کا استعمال کیاجارہاہے۔ان کی مسلمہ افادیت کے پیش نظراب یہ ادویات یورپ میں بھی ایکسپورٹ ہو رہی ہیں۔

دماغی امراض کے لیے لہسن سے ”روسی پنسلین” نامی دواتیار کی گئی ہے۔امریکہ میں جگہ جگہ نیچرل فوڈز کے اسٹور قدرتی جڑی بوٹیاں بھی فراہم کر رہے ہیں۔ان میں ملٹھی، تلسی اور گائوربان سے کف سیرپ تیار کئے جاتے ہیں۔جو امریکہ میں ایلوپیتھک کف سیرپ کی بہ نسبت زیادہ مقبول ہیں۔پیٹ کے امراض کے لیے سونف، الائچی، اور پودینہ سے تیار کردہ”ہربل ٹی” کا استعمال امریکہ کے گھر گھر تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح جو کی ہر بل ٹی بہت پی جاتی ہے۔ سوئٹرز لینڈ میں نزلہ وزکام کے لیے بنفٹہ کی جائے بہت پی جاتی ہے گائوزبان، میں گائوزبان سے دل کے امراض کا علاج کیاجارہا ہے۔فلپائن اور ویت نام میں جڑی بوٹیوں کو صحت کے لیے مفید اور لازمی قرار دے کر ان سے دوائیں بنانے کاکام شروع کر دیا گیا ہے اور ہر ویت نامی کوتاکید کی گئی ہے کہ وہ کم از کم دس جڑی بوٹیوں کی پہنچان رکھے تاکہ انہیں گھریلوعلاج میں دشواری پیش نہ آئے۔میرے چائنہ کے مطالعاتی دوروں کی تعداد چار ہے اس دوران میں نے وہاں نوے فیصد چائنیز کو ہر بل میڈیسنز سے علاج کرواتے دیکھا مشہور زمانہ جڑی بوٹی ”جن سنگ” وہاں کو لڈڈرنکس، پائوڈر اور چائے کی شکل میں بے انتہا استعمال ہوتی ہے اسی طرح اس کے کیپسول، ایمپوئل اور دیگر ادویات کی بے شمار ورائٹی ہے۔ اس وقت چین میں کم وبیش دوسو سے زائد لیبارٹریز میں جڑی بوٹیوں پر تحقیق ہو رہی ہے اور ان کی کاشت کے لیے ہر گائوں میں ایک قطعہ زمیں مخصوص کیا گیا ہے اس طرح چین نے ہر بل ادویات کے لیے خام مال یعنی دیسی جڑی بوٹیوں کی پیداوار میں اپنے ملک کو مکمل طورپر خودکفیل بنالیا ہے۔چائنہ میں سرکاری سطح پر ہربل سسٹم آف میڈیسن کے باقاعدہ بیسیوں ہسپتال، طبی تعلیم کے بے شمار کالج اور تحقیقی مراکز قائم کئے جاچکے ہیں۔ چینی طب اور طب اسلامی میں گہری مماثلت ہے اسکا مشاہدہ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹومرحوم کی پاکستان طبی کانفرنس کے ایک وفد کو کہی ہوئی باتیں یاد آئیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”میں غریبوں کا بڑاہمدرد ہوں اور چونکہ طب اسلامی سے زیادہ غریب لوگ استفادہ کرتے ہیں،لہٰذا میں طب اسلامی کی ترقی اور تحقیق میں پورا تعاون کروں گا میری زندگی غریب عوام کے لیے وقف ہے چینی طب، طب اسلامی سے ملتی جلتی ہے لہٰذا چین اور پاکستان اس سلسلے میں بھی تعاون کریں گے۔” لہسن جیسی کم خرچ قدرتی دوا سے پچیدہ امراض بلڈپریشر، شوگر، کینسر، انجائنا اور انجماد خون وغیرہ جیسے کئی امراض کی ادویات چائنہ تیار کررہا ہے چینی ماہرین اور ہربل فزیشنز نے ملک میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں پر ریسرچ کرنے کے بعد مختلف بیماریوں کاکامیاب علاج دریافت کرکے اور یورپی ایلوپیتھک ادویات کی کھپت کم سے کم کرکے صحت کے شعبہ میں خود انحصاری کی راہ اپنائی ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)نے بھی تمام ملکوں کی حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں مقامی جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں ترقی دے کر اپنا مسئلہ صحت حل کریں۔عالمی ادارہ صحت کی اس اپیل کے جواب میں چین، روس، کوریا، ملائشیا، سعودی عرب، کویت، انڈونیشیا، مصر، سری لنکا، برما، سوڈان، نیپال اور ہندوستان نے جڑی بوٹیوں سے آراستہ روائیتی طریقہ علاج کو اپنے پرائمری ہیلتھ کیئرپروگراموں میں شامل کیا ہوا ہے ان ممالک میں ملکی طب سے استفادہ کے لیے حکومتی سطح پر طبی تعلیمی ادارے، تدریسی ہسپتال اور دیسی جڑی بوٹیوں کے تحقیقی ادارے قائم ہیں اور مفت میں ملنے والی ملکی جڑی بوٹیوں پر ریسرچ کرکے مسئلہ صحت کو حل کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔اس سلسلے میں عالمی ادارئہ صحت کے مرکزی آفس میں دیسی طب کا ایک الگ شعبہ باقاعدہ طورپر دن رات کام کر رہاہے۔یورپی اور ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا بھر کے ایلوپیتھک اور دیگر طریقہ ہائے علاج کے ڈاکٹرزاب جڑی بوٹیوں کی افادیت کے قائل ہو چکے ہیں اور خود بھی ہربل میڈیسنز پر ریسرچ نیز ان کی پریکٹس بھی کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ٹریڈ یشنل میڈیسن طب یونانی کو 1976ء میں (WHO) نے مسلمہ طریق علاج کی حیثیت سے تسلیم کیا اس وقت چھوٹے بڑے شہروں میں سینکڑوں سرکاری و غیر سرکاری اور نجی ایلوپیتھک ہسپتالوں اور کلینکس قائم ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان کے دور دراز علاقو، دیہاتوں کی واضح اکثریت (عالمی اداروں کے مطابق 76%)عام اور پچیدہ ومہلک /امراض مثلاََ یرقان، کالایرقان (ہیپاٹائیٹس بی، سی وغیرہ) جگر کے امراض’ دمہ، کالی کھانسی، السر اور معدہ کے دیگر امراض وغیرہ کے لیے اطبائے کرام سے رجوع کرتی ہے اگرچہ ملک کے طول وعرض میں میں ایسے نام نہادحکماء بھی موجود ہیں جو ان کو الیفائیڈ ہونے کے باوجود لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں یہ عطائی حکماء قانون میں سقم کی وجہ سے گرفت میں نہیں آتے۔ بہرحال ملک میں کوالیفائیڈ اور سند یافتہ اطباء کی بھی کمی نہیں۔

نیشنل کونسل فارطب وفاقی وزارتِ صحت حکومت پاکستان سے رجسٹرڈاطباء کی تعداد 55455ہے جن میں سے پنجاب میں 34850، سندھ میں 16800صوبہ سرحد میں 2850بلوچستان میں 475اور آزار کشمیر میں بھی 475اطباء پریکٹس کررہے ہیں ملک میں خاتون طبیبائوں کی تعداد 5500ہے اس وقت وطن عزیز میں کل رجسٹرڈ مطب 44200ہیں جبکہ 2550افراد کے لیے ایک رجسٹرڈ طبیب موجود ہے نیشنل کونسل فارطب سے منظور شدہ اکتیس (33)طبیہ کالجز میں کم وبیش 7000سے زائد طلباء وطالبات طب یونانی’ اسلامی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان طبیہ کالجز سے ہرسال 1200سے 1500طبیب اور لیڈی طبیبائیں فارغ التحصیل ہوتے ہیں جن میں سے 60فیصد 6ماہ ہائوس جاب کرکے کونسل سے رجسٹریشن کرواتے ہیں نیشنل کونسل فارطب کو ان 31طبیہ کالجز کے لیے سالانہ پندرہ لاکھ کی گرائٹ ملتی ہے جو اوئٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق اور صرف تین ایم بی بی ایس ایلوپیتھک ڈاکٹر بنانے کے خرچ کے مطابق ہے۔
یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ ملک میں موجود میڈیکل کالجز وزارتِ تعلیم کے تحت ہیں جبکہ طب یونانی اسلامی کی تعلیم وفاقی وزارت صحت کے دائرہ انتظام میں ہے پاکستان میں سالانہ طب یونانی کی ادویات اور جڑی بوٹیوں کی فروخت کی مالیت کا اندازہ 150ملین روپے ہے جبکہ یورپی ممالک میں 6500ملین ڈالر سالانہ، ایشیاء میں 2300ملین ڈالر، شمالی امریکہ میں 1500ملین ڈالر اور امریکہ میں سالانہ 40ملین ڈالر مالیت کی ہر بل میڈیسنز کا استعمال کیاجاتاہے پاکستان میںطب یونانی کی ہر بل میڈیسنز تیار کرنے والے چھوٹے بڑے 400ادارے کام کررہے ہیں۔جن میں سے 86ادارے پاکستان طبی فارماسیوئیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن (PTPMA)سے رجسٹرڈ ہیں جن میں سے پنجاب میں 61، سندھ میں 23سرحد میں ایک اور بلوچستان میں بھی ایک ادارہ کام کررہا ہے۔ جبکہ ان ادویات پر ریسرچ کرنے والے اداروں کی تعداد 8ہے پاکستان میں ہر سال تقریباََ 29ملین روپے کی یونانی ادویات اور جڑی بوٹیاں قانونی اور غیر قانونی طریقہ سے درآمد کی جاتی ہیں جبکہ 245ملین روپے سالانہ کی ہر بل میڈیسن اور جڑی بوٹیاں قانونی اور غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر جاتی ہیں۔یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ طب یونانی کو فروغ دے کر اور طبی ادویات کی قانونی طورپر برآمد سے پاکستان کروڑوں ڈالر کارزمبادلہ کما سکتاہے جس سے وطن ِعزیز معاشی طورپر مستحکم ہوگا۔لہٰذا اس سلسلے میں حکومت صنعت طبی دواسازی کی سرپرستی کرے اور اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون بعنوان ”طب یونانی’آریوویدک’ ہومیوپیتھک’ہربل اور نان ایلوپیتھک میڈیسن ایکٹ ” جوکہ پارلیمنٹ میںقانون سازی کا منتظرہے’ میں جوترامیم اور تنسیخ عوامی مفاد نیز صنعت طبی دواسازی کے مفاد میں اطبائے پاکستان اور دیگر طبی تنظیموں نے پیش کی ہیں انہیں اس مسودہ میں شامل کیا جائے تاکہ یہ قانون سہل اور قابل ِعمل بن جائے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔…NO..4..
طب نبوی کی اہمیت و افادیت

تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے تندرستی کی بقا اور بیماریوں کے علاج سے متعلق بڑی اہمیت کی لازوال ہدایات ارشاد فرمائی ہیں۔ محدثین نے کتاب الطب کے عنوان سے حدیث کی ہر کتاب میں علیٰحدہ ابواب مزین کئے ہیں۔ عبدالملک بن حبیب اندلسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے امراض سے متعلق ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الطب النبوی کے نام سے دوسری صدی ہجری میں علیٰحدہ مرتب کیا۔ ان کے بعد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد محمد بن ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہمعصر ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے تیسری صدی کے اوخر میں طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے مجموعے مرتب کئے جن کی اکثر روایات انہوں نے راویوں سے خود حاصل کیں۔ آئمہ اہل بیت میں علی بن موسٰی رضا اور امام کاظم بن جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے اسی موضوع پر رسائل لکھ کر شہرت دوام پائی۔
چوتھی صدی میں محمد بن عبداللہ فتوح الحمیدی، عبدالحق الاشیلی، حافظ السخاوی رحمہم اللہ اور حبیب نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ نے طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مجموعے اپنی ذاتی کوششوں سے مرتب کئے مگر ناقدری علم سے یہ سارے مجموعے اب ناپید ہیں۔ البتہ ان کے حوالے اس زمانے کی دوسری کتابوں میں ملتے ہیں۔
ساتویں سے نویں صدی ہجری کے دوران ابی جعفر المستغفری، ضیاء الدین المدسی، السید مصطفٰی للتیفاشی، شمس الدین البعلی، کحال ابن طبر خان، محمد بن احمد ذہبی رحمہم اللہ تعالٰی علیہ، جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور عبدالرزاق بن مصطفٰی الانطاکی نے ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے گلدستے بنائے۔ ان سب کی کاوشیں اب زیور طبع سے آراستہ ہوکر موجودہ دور میں موجود ہیں۔ البتہ ابن قیم کا مجموعہ سب سے ضخیم، ثقہ اور مقبول ہے۔
حالیہ برسوں میں طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی اہم تصانیف منظر عام پر آئی ہیں۔ ان میں بڑی محنت اور عقیدت کے ساتھ احادیث کے معنی و مفہوم کو بیان کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے علاج کے طریقوں کو اپنانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ کتابیں مسلمانوں کیلئے یقیناً اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ایسی کتب ایمان کو تقویت اور علم میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہیں۔
یورپ کے غیر مسلم مؤرخین کا خیال ہے اور جسے سائنس کی تاریخ کی بیشتر کتابوں میں پڑھا جا سکتا ہے کہ ساتویں صدی سے دنیائے اسلام میں طبی سائنس سے دلچسپی اور زبردست فروغ کی اصل وجہ تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ طبی ہدایات تھیں جو انہوں نے عام مسلمانوں کو دیں اور جن پر پوری امت نے صدق دل سے عمل کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ساتویں صدی اور اس سے قبل کے مروجہ جھاڑ پھونک اور جادو ٹونا جیسے علاجوں سے ہٹ کر مسلمان دوا پر اتنا زور کیونکر دیتے اور دنیا کے بہترین ہسپتالوں کی بنیاد بغداد، دمشق، قاہرہ، غرناطہ، قرطبہ، اشبلییہ وغیرہ میں کیوکر پڑتی اور یونانی طب کی بنیادوں پر اسلامی طب کی اہمیت کو ساری دنیا ماننے پر کیونکر مجبور ہوتی اور مسلمان اطباء کی “القانون“ اور “الحاوی“ جیسی تصنیفات کو یورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں چھ سو سال سے زیادہ عرصہ تک کیونکر پڑھایا جاتا۔
ساتویں صدی اور اس سے قبل افریقہ اور ایشیا کے سارے علاقوں میں جہاں رومیوں یا بازنطینیوں کا اقتدار تھا، طب سے شدید نفرت پائی جاتی تھی اور دینی اعتبار سے کسی مرض کے لئے دوا کے استعمال کو نامناسب تصور کیا جاتا تھا۔ مرض پر قابو پانا یا اس سے چھٹکارا دلانا طبیب کا کام نہ تھا بلہ یہ فریضہ کاہنوں، جادوگروں یا پھر عبادت گاہوں میں رہنے والے دینی رہنماؤں کا تھا۔
علاج معالجہ کے سلسلے میں یورپ کا حال فارس، عراق، شام اور مصر سے زیادہ خراب تھا۔ وہاں تو سوائے جادو ٹونا اور گنڈہ تعویذ کے مرض سے نجات پانے کا کوئی دوسرا طریقہ ہی نہ تھا۔ طبعی علاج کرنے والے سزا کے مستحق قرار دئیے جاتے۔
امراض کیلئے کسی طبعی علاج کو غیر ضروری سمجھنا ایک ایسا طرز فکر تھا جو رومن سلطنت میں عام تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہی منفی طرز عمل اس کے زوال کا سبب بنا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک زبردست ملیریا کی وباء نے رومن سلطنت کی کافی آبادی کو موت سے ہمکنار کر دیا۔ لاکھوں افراد دماغی اور جسمانی اعتبار سے مفلوج ہوگئے۔
سلطنت کا ڈھانچہ گرنے لگا لیکن صورتحال پر قابو پانے کیلئے کوئی طبعی طریقہ نہ اپنایا گیا کیونکہ ایسا کرنے سے دین کی مخالفت سمجھی جاتی تھی۔
غرضیکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث فرما ہوئے تو اس دور میں سارا عالم بالعموم اور عرب دنیا بالخصوص طب یا طبی علم سے بے خبر ہی نہ تھی بلکہ اس پر اعتقاد کو دین کی ضد تصور کرتی تھی۔ پانچویں صدی عیسوی قبل مسیح کا یونانی علم تاریکیوں میں کھو چکا تھا۔ بقراط کا کوئی نام لیوا نہ تھا۔ ایسے دور میں نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طب، دوا اور امراض کے تدارک کیلئے طبعی طرز علاج کو اپنانے کا حکم صادر فرمایا۔ بامعنی دعاء کا اجازت عطا فرمائی لیکن بے معنی جھاڑ پھونک کی مخالفت فرمائی۔ دعاء سے قبل مناسب دوا کا راستہ اپنانے کی نتلقین فرمائی۔ مرض کو اور مرض کے علاج دونوں کو تقدیر الٰہی سے تعبیر فرمایا۔…NO..5,,, عرق گلاب اس دور میں سکون کی نعمت ہے
موجودہ دور میں انسان قدرتی اشیاء کے استعمال سے دور ہوتا ہے جا رہا ہے۔ کھلی فضا میں سانس لینے کے بجائے بند کمرے میں اے سی کی ٹھنڈک کو ترجیح دیتا ہے۔مختلف بیماریوں میں مصنوعی طور پر تیار کردہ ادویہ کا سہارا لیتا ہے ‘جن سے وقتی سکون تو مل جاتا ہے مگر ان ادویہ کے نتائج جب ظاہر ہوتے ہیں تو سارا جسم بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔

جدید سائنس نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیاہے۔ خوبصورتی کے لئے خوا تین مصنوعی اشیا پر منحصر رہتی ہیں۔ بازار میں نت نئے صابن ، پر فیومز ،لوشنز ، موئزچرائزرز ،دلکشی کے چند مناظر دکھانے کے بعد مختلف جلدی امراض میں مبتلا ہو جا تا ہے کہ کیونکہ حسن و زیبائش کی بیشتر ایشا کیمیائی اجزا سے تیار کی جاتی ہیں۔

آج سے تقریبابیس پچیس سال پہلے جب آرائش حسن کی اشیا کا رجحان نہین تھا تو خوا تین اپنے چہرے کے تروتازہ ،خوبصورت رکھنے کے لیے قدرتی اجزا سے بنی ہوئی اشیااستعمال کرتی تھیں ،جن سے ان کا حسن ڈھلتی جوانی میں بھی برقرار رہتا تھا۔ وہ (خواتین )قدرتی اشیا جڑی بوٹیوں سے جلد اور بالوں کی نگہداشت کرتی تھیں۔ چہرے کی جلد کے لئے عرق گلاب اور لیموں کا استعمال کرتی تھیں۔

بعد میں طب یونانی نے ان دونوں اشیا کو دلکش اور جلد کی صحت کا امین قرار دیا۔ دیکھا جائے تو عرق گلاب کے متعدد فوائد ہیں۔ مثلاعرق گلاب جلد میں پانی کی مناسب مقدارقائم کرنے میں مددکرتا ہے گرمیوں میں ہماری جلد پر پسینہ آتا ہے۔ عرق گلاب کا استعمال پسینے کی بدبو سے نجات دلاتا ہے۔ روئی کے پھوئے پر عرق گلا ب لگا کر چہرہ اور گردن صاف کریں آپ کی جلد کے مسام نائٹ ہو جائیں گے۔پسینے کا اخراج کم ہو جاتا ہے ،نتیجتاً کیل مہاسے بھی نہیں ہوتے۔

جلد کے خشک ہو جانے کی وجہ سے ہم مختلف اقسام کی کولڈ کرم ،موئسچرائزر وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ مگر عرق اور گلیسرین کا مرکب سب سے سستا اور مفید موئسچرائزر رہے اور اس کے روزانہ استعمال سے جلد سے خوشبو آتی ہے اور جلد کی خشکی بھی دور ہو جا تی ہے۔ خو اتین جھایؤں ، جھریوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے مہنگی سے مہنگی کریمیں آزماتی ہیں۔ اس کے بجائے عرق گلاب میں شہد اور لیموں کا عرق ملا کر لگائیں ،پھر فائدہ دیکھیں۔رنگت گوری کرنے کے لیے بیس ملی گرام ،عرق گلاب ،دس ملی گرام گلیسرین اور ایک لیموں کا رس ملا کر روزانہ رات کو سوتے ووقت لگائین تو مطلوبہ نتائج بر آمد ہوں گے۔ گھریلو کاموں سے بیشتر خواتین کی انگلیاں ، ہاتھ اور ناخن کھر درے ہو کر پھٹ جاتے ہیں۔

ایسے میں عرق گلاب اور پیرافین لیکوئڈ ہم وزن ملا کر لگائیں۔ اسے کے علاوہ پھٹے ہوئے پیروں پر عرق گلاب ، پیرافین لیکویڈ اور شہد لگائیں ،پیر نرم ہو جائیں گے۔ ایگزیما سے متاثر افراد اگر علاج کے ساتھ روزانہ عرق کا گلاب کا استعمال کریں تو مرض میں افاقہ ہوتاہے۔ آنکھوں میں چمک پیدا کرنے کے لئے روزانہ عرق کا گلاب چند قطرے ڈالیں۔ آنکھیں انسان کے جسم کا اہم عضو ہیں انہیں بھی صاف اور خالص خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ ہم نیند پوری لیں ، آنکھوں کو سادہ پانی سے دھوئیں اور عرق گلاب کا استعمال مستقل رکھیں۔ کمپیوٹر پر کام کرنے والے روزانہ آنکھوں میں عرق گلاب کے چند قطرے ڈالیں ، مضر اثرات سے محفوظ رہیں گی

عموماً ذہنی اور جسمانی مشقت کرنے والے مختلف وٹامنز اور آئرن کی گولیاں ، سیرپ وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں مگر عرق گلاب ، شہد اور اسپغول ان ادویہ سے زیادہ توانائی بخش ہیں۔ اگر ان کو خوراک کا حصہ بنا لیں ، تو بیشتر بیماریوں سے دور رہیں گے۔ ناخنوں پر دھبے پڑ جائیں تو عرق گلاب میں لیموں کے چند قطرے ہم وزن ملا کر ناخن ملا کرناخن دھو لیں۔ ایسا کرنے سے دھبے ختم ہو جا تے ہیںاور ناخنوں کی قدرتی چمک اور افزائش برقرار رہتی ہے۔
ہونٹوں کی تروتازگی پر چہرے کی رونق کا انحصار ہوتا ہے۔ جن خوا تین کے ہونٹ خشک اور پھٹے ہوئے رہتے ہیں ، انہیں کھانے پینے اور بولنے تک میں دشواری ہوتی ہے۔ ایسے میں ایک چائے کا چمچہ عرق گلاب میں ایک لیموں کا رس اور آدھا چائے کا چمچہ زیتون کا تیل ملا کر لگائیں اگر زیتون کا تیل دستیاب نہ ہوتو عرق کا گلاب میں ہموزن شہد ملا کر لگا لیں۔ عرق گلاب دانتوں اور منہ کی بیماریوں میں نہایت سستی اور پر اثر دوا ہے۔ منہ کے چھالوں کے لئے نیم گرم عرق گلاب کی کلیاں کریں ، چھالے ختم ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ مسوڑھوں کی سوجن میں بھی اس سے آرام ملتا ہے۔

اگر آپ کے دانتوں میں درد ہے تو ایک کھانے کا چمچہ کالی مرچ لیں۔ انہیں پیس کر عرق گلاب میں ملا کر دانتوں پر لگائیں تو درد سے فوراً نجات مل جائے گی۔ برصغیر میں عرق گلاب کے عطر کا استعمال قدیم روایت ہے، مگر امریکہ اور انگلینڈ سمیت دوسرے یورپی ممالک کا گلاب بطور پرفیوم بھی استعمال ہو رہا ہے۔ ان ممالک میں عرق گلاب نہایت مہنگا ہو تا ہے، جب کہ ہمارے ہاں خالص عرق گلاب کی بوتل سستی ملتی ہے۔ عرق گلاب ایک خوشبو ،دوا ،غذا اور مشروب ہے۔ گرمیوں میں گلاب کیشربت دستیاب ہیں مگر یہ تسلی کر لیں کہ جو عرق گلاب آپ نے خریدا ہے وہ خالص ہے یا نہیں۔ خالص عرق گلاب اپنی خوشبو سے پہچان لیا جاتا ہے جب کہ نقلی عرق گلاب کی خوشبو تلخ اور بد مزہ ہو تی ہے۔(یو این این,,,NO,,,6,,,پینٹ سے مردانہ بانجھ پن میں اضافہ

پینٹ میں شامل جلیکول سے مردوں کی تولیدی صلاحیت متاثر ہوتی ہے
تحقیق کارروں کے مطابق ایسے تمام اشخاص جو پینٹ یا گھروں کی اندرونی زیبائش کرتے ہیں وہ پینٹ میں شامل جلیکول کیمیکل سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی تولیدی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف مانچسٹر اور شیفیلڈ کی مشترکہ ریسرچ کے تولیدی مرکزوں کا دورہ کرنے والے دو ہزار ایسے لوگوں پر ریسرچ کی گئی جو مردانہ بانجھ پن کا شکار ہیں۔

تحقیق کارروں کے مطابق ایسے اشخاص جو پینٹ کرتے ہیں ان میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ڈھائی فیصد کم ہوتی ہے۔

تحقیق کارروں کے مطابق مردانہ بانجھ پن کی دوسری وجوہات، تمباکو نوشی، انتہائی جست پاجامے پہننے اور خصیہ کی سرجری کے علاوہ پینٹ میں شامل کیمیکل سے متاثرہ لوگوں کی تولیدی صلاحیت کو کم کر دیتا ہے۔

یونیورسٹی آف مانچسٹر کے ڈاکٹر اینڈی پووی کے مطابق ان کو پہلے بھی معلوم تھا کہ جلیکول مردوں کی تولیدی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے اور پچھلے دو عشروں سے اس کیمیکل کے استعمال میں کمی واقع ہوئی ہے۔

شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ایلن پیسی نے کہا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پینٹ میں شامل صرف جلیکول کیمیکل ہی تولیدی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے جس سے کئی مردوں کی پریشانیوں میں کمی واقع ہو گی…NO…7..مشروم کا استعمال ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، سرطان اور دیگر کئی بیماریوں کے علاج میں شفا کا ذریعہ بنتا ہے۔ تحریر: نسرین شاہین حضور اکرمﷺ کے مرغوب کھانوں میں کھنبی یعنی مشروم (Mushroom) بھی شامل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ہمارے یہاں رسول اکرمﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ ”جب جنت مسکرائی تو مشروم زمین پر آ گئی اور جب زمین مسکرائی تو کُبر نکل آئی۔“ مشروم ایک خود رُو پودا ہے جس کا تعلق Fungusخاندان سے ہے۔ اس میں نہ تو شاخیں ہیں اور نہ پتے اور کُبر ایک خودرو کانٹوں والی جھاڑی ہے جس کے ساتھ بیر کے مانند پھیکے پھل لگتے ہیں بعض محدثین کے مطابق خود رروں ہونے کے باعث بغیر کاشت کے بنی اسرائیل کی سکونت کے علاقے میں پیدا کر دی گئی یوں یہ تحفہ خداوندی بن گئی اور بعض محدثین کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی مشکلات کے زمانے میں ان پر آسمان سے پکے ہوئے کھانے من و سلویٰ نازل فرمائے اس میں من سے مراد کئی قسم کی سبزیاں ہیں مشروم من کی ایک قسم اور ایک جز ہے اور سلویٰ سے مرادپرندوں کا گوشت ہے۔ حضرت سعید بن زید سے روایات ہے کہ مشروم اس منہ میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے نازل فرمایا تھا اور اس کا پانی آنکھوں کے لئے شفا ہے۔ مشروم کی اقسام: مشروم کی کئی اقسام دریافت ہو چکی ہیں لیکن عام استعمال کے لئے Campestris Agaricusکے خاندان کی مشروم درست ہے۔ مشروم کو چھتری دار ہونے کی وجہ سے ”کماة“ کہا جاتا ہے محاورے میں ”کماة الشہادة“ یعنی گواہی چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے مشروم کی ایک قسم گول سر والی ہوتی ہے جو عام طور پر سالن میں پکا کر کھائی جاتی ہے سفید رنگ کی مشروم سب سے عمدہ غذا ہے مشروم کی ایک اورقسم کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے یہ مہلک ہوتی ہے بعض اطباء نے سرخ کو بھی اچھا کہا ہے مگر سرخ اور سیاہ زہریلی ہوتی ہیں یوں تو مشروم کی کئی قسمیں زہریلی ہیں مگر ایک تحقیق کے مطابق مشروم کی کاشت میں زہریلی مشروم کا اگاؤ خارج از امکان ہے کاشت کی جانے والی مشروم میں اس قسم کا خدشہ یا خوف نہیں ہوتا اس کی کاشت کے لئے جس خاص مشروم کا بیج لگایا جاتا ہے اس سے وہی فصل حاصل ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں ہزاروں اقسام کی مشروم پائی جاتی ہیں، جن میں سے تقریباً ڈھائی ہزار اقسام کھائی جا سکتی ہیں لیکن عام طور پر 20اقسام اگائی جاتی ہیں۔ ”اسٹرا مشروم“ (جسے چائینز مشروم بھی کہا جاتا ہے) بہت مقبول مشروم ہے۔ اس کی کاشت اور فروخت تجارتی بنیاد پر ہوتی ہے اسے تازہ اور خشک دونوں حالتوں میں استعمال کیا جاتا ہے اس کی تین اقسام کو مصنوعی طور پر کاشت کیا جاتاہے اس مشروم میں 206.27mgوٹامن سی پایا جاتا ہے اس مشروم میں لحمیات بھی ہوتے ہیں جو کئی اقسام کے ٹیومر کے خلیوں کوبڑھانے سے روکتا ہے۔ مشروم کی دو اقسام Ganodrma Lucidumاور Trametes Versicolonصدیوں سے دواؤں کی تیاری میں استعمال ہو رہی ہیں۔ مشروم کو مختلف معاشروں میں مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے قدیم یونانی اسے ”خدا کی خوراک“ کہا کرتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ طوفان بادو باراں کے موقع پرسیارئہ عطارد سے زمین پر خاص روشنی آتی ہے جس سے مشروم اگتے ہیں مصرف اسے ”اوسیرس کا تحفہ“کہتے تھے جب کہ چینیوں کا خیال تھا کہ مشروم میں تمام بیماریوں کا علاج پایاجاتا ہے۔ تازہ ترین کیمیائی تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ مشروم کے عرق کی تطہیر سے جو کمپاؤنڈ حاصل ہوتا ہے اس کی تجارتی پیمانے پر خریدو فروخت ہونے لگی ہے، کیونکہ یہ ادویہ کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ Basidiomyceteمشرومز کی بہت سی اقسام حیاتیاتی سطح پر بہت فعال ہوتی ہیں اس میں ٹیومرز کی خلاف مدافعت کی خاصیت پائی جاتی ہے ادویہ کی تیاری میں استعمال کیلئے اگلے جانے والے مشرومزسرطان کے علاج کی ادویہ میں بھی استعمال کئے جاتے ہیں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس (ایک اور دو) اور دیگر کئی بیماریوں کے علاج میں بھی یہ موٴثر ثابت ہوتے ہیں۔ مشروم کے غذائی اجزاء: تحقیق کے مطابق مشروم کے کیمیائی اجزاء کا تناسب کچھ اس طرح سے ہے۔ پروٹین 5فیصد، چکنائی 5فیصد، کاربو ہائیڈریٹس 5فیصد، کیلوریز 2فیصد، سوڈیم 2.6فیصد، پوٹم شیم 33فیصد، کیلشیم 18فیصد، میگنیشیم 2.18فیصد، کاپر 18فیصد، آئرن 29فیصد، سلفر 9.6فیصد، کلورین 24فیصد۔ نبی کریمﷺ کی تجویزکردہ دیگر ادویہ اور غذاؤں کے مانند اس میں سوڈیم کی مقدار کم سے کم اورپوٹاشیم کی زیادہ ہے۔ مشروم میں 30سے 40فیصد لحمیات، حیاتین اور نمکیات پائے جاتے ہیں عالمی ادرئہ صحت اور رائل کالج آف فزیشن انگلینڈ کی ٹیم کی ایک خوراک سے متعلق مستند رپورٹ کے مطابق مشروم میں 16فیصد امینو ایسڈ مختلف تناسب میں پائے جاتے ہیں حیاتین اور نمکیات بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں خصوصاً Bگروپ کے ساتھ D.A.Kاور فولک ایسڈ بھی موجود ہوتے ہیں اس میں موجودBکا گروپ گلو کوز یاتین اور میٹا بولزم خوراک کوجز و بدن بنانے کے لئے بہت ضروری ہے یہ بچوں میں پائے جانے والی بیماری ”ریکٹس“ جس میں ہڈیاں ٹیڑھی ہو جاتی ہیں کا قدرتی علاج ہے مشروم میں پائے جاننے والے نمکیات میں کیلشیم، پوٹاشیم، مینگنیز، فاسفورس اور فولاد خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ طبی فوائد: مشروم میں قدرتی طورپر بے شمار طبی فوائد پائے جاتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ ”کھنبی ”من“ میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کی بیماریوں کے لئے شفا ہے جب کہ ”عجوہ“ کھجور جنت سے ہے اور وہ زہروں کے لئے تریاق ہے۔“ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے تین، پانچ یا سات کھنبیاں لیں اور ان کاپانی نچوڑ کر ایک شیشی میں ڈال لیا پھر میں نے یہ پانی اپنی ایک لونڈی کی آنکھوں میں ڈالاجس کی آنکھیں چندھائی ہوئی تھیں اس پانی سے وہ شفایاب ہو گئی۔ (ترمندی) یہ حدیث مشروم کے پانی سے آنکھوں کی بیماریوں سے شفا کی بہترین مثال ہے۔ مشروم کو آنکھوں میں ڈالنا قعیف بصارت اور سوزش کے لئے از حد مفید ہے اس کی تصدیق فاضل اطباء میں بو علی سینا نے کی ہے اور آنکھ کی متعدد بیماریوں میں مشروم کو اکسیرقرار دیا ہے مشروم کا رس نکال کر اور خاص کر اسے بند دیگچی میں ڈال کر بھوننے پر جو پانی اس میں سے نکلتا ہے آنکھ میں ٹپکانے سے آنکھ کاجالا کٹ جاتا ہے مشروم کے پانی میں سرمے کو گھول کر آنکھ میں لگایا جائے تو بصارت تیز ہوتی ہے۔ بعض اقسام میں مشروم کو سکھا کر، پیس کر کھانے سے اسہال رُک جاتے ہیں۔ مشروم حرارت کو مٹاتی، بلغم کوکم کرتی اور گاڑھا کرتی ہے مشروم کو سریش کے ساتھ کوٹ سرسکے میں حل کرکے بچوں کی بڑھتی ہوئی ناف پر لگانے سے ناف اندر چلی جاتی ہے ہرنیا کیلئے بھی یہی لیپ مفیدہے مشروم سے خون میں اضافہ ہوتا ہے اسے پیس کر بآسانی مند مل نہ ہونے والے زخموں پر لگائیں تو فائدہ ہوگا وید کے مطابق خشک مشروم سر پر ملنے سے بال آگ آتے ہیں مشروم پر تجربات کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت مشروم سے حاصل ہونے والے مرکبات سے علاج کاقوی امکان ہے کیونکہ مشروم میں جراثیم کش ادویہ کی موجودگی ثابت ہو چکی ہے اگر مشروم کوشہدکے ساتھ ملاکر کھایا جائے تو ٹائیفائیڈ اور دوسرے بخاروں میں مفید ہے تپ دق، پرانی کھانسی کے لئے بے حد مفید ہے جونک لگنے کے بعد زخم سے بہنے والا خون اس سے رُک جاتا ہے۔ مشروم کا جوہر Agaricsہومیو پیتھک طریقہ علاج کی ایک مقبول دوا ہے۔ سر کے بھاری پن میں اور خواتین کے بعض امراض میں مشروط مفید ہے۔ بالخصوص مشروم کا عرق بعض امراضِ نسواں میں بے حد فائدہ مند ہے کالی کھانسی، پیٹ کی آنتوں میں درد کی کیفیت میں مشروم کا عرق استعمال کرنا چاہئے جرمن اطباء کے مطابق Muscarineکے جسم پر اثرات کو ختم کرنے والی کوئی دوا نہیں ہوتی البتہ ابتدامیں پتہ چل جائے تو مریض کا معدہ دھو کر اسے جسم سے نکالا جا سکتا ہے۔ چین کے محققین کے مطابق مشروم دورانِ خون کی بہتری اور کولیسٹرول کی سطح کم رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ گلٹیوں کے بڑھنے اور بعض بیماریوں کوپھیلانے والے وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت بڑھاتی ہے ذہنی امراض میں بھی مشروم کے شفا بخش اجزاء مفید ہیں اس کے علاوہ مشروم خشک کرکے پیس کر کھانے سے پیچش میں فائدہ ہوتا ہے مشروم کو حلوے کے ساتھ پکا کر کھانے سے لاغر جسم فربہ ہوتا ہے شوگر اور کولیسٹرول کے لئے قدرتی علاج ہے بواسیر سے محفوظ رکھتا ہے یرقان اور شدید فلو کا موٴثر علاج ہے گردوں کی صفائی کے لئے کارآمد ہے تازہ مشروم اینٹی الرجک دوا کے طورپر پر مفید ہے ادویات میں مشکوم کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے جاپانی طریقہٴ علاج Moxa اسی کو پیش نظر رکھ کر ایجاد کیا گیا ہے۔ زہریلے مشروم: جہاں مشروم کے بے شمار فوائد ہیں وہیں اس کے مضر اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جدید تحقیق کے مطابق مشروم کی زہریلی اقسام میں ایک زہر Muscarinہوتا ہے یہ زہر اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے جس سے پٹھوں میں درد، اعضاء میں اینٹھن اور رشے کی مانند کپکپی ظاہر ہونے لگتی ہے اس کے بعد دماغی اثرات سے فالج اورتشنج ہو جاتا ہے ایک سے زائد مقدار میں مشروم کھانے اور علامات ظاہر ہونے کے باوجود احتیا ط نہ کی جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے لیکن یہ اثرات صرف زہریلی مشروم میں پائے جاتے ہیں۔ مشروم کے زہریلے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے ایک چھوٹا سا تجربہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ دو تین مشروم اور دو تین لہسن کے جوے پانی میں ڈال کر ابال لیں اگر اگر پانی کا لایا براؤن رنگ کا ہو جائے تو سمجھ لیں کہ مشروم زہریلے ہیں وگرنہ پکا کر کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے یہ طریقہ انتہائی سادہ اور آسان ہے اس کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے زیتون کے تیل میں بھوننا زیادہ مفیدہے۔ مشروم کو استعمال کرنے سے پہلے انہیں اچھی طرح صاف ضرور کرلیں۔ خاص طورپر جنگلی مشروم مٹی میں لدھے ہوتے ہیں لہٰذا انہیں اگر تھوڑی دیر کے لئے پانی میں بھگو کر رکھ دیں اور پھر کچھ دیر بعد انہیں صاف کریں تو مشروم اچھی طرح سے صاف ہو جائیں گے جنگلی مشروم کو پانی میں بھگو کر صاف کرنا ضروری ہے پانی میں بھگونے کے بعد مشروم کو اچھی طرح سے خشک کرنا بھی ضروری ہے انہیں کبھی بھی بہت زیادہ دیر تک نہ بھگوئیں ورنہ یہ مرجھائیں جائیں گے۔ عام طور پر مشروم کوچھیلنا ضروری نہیں ہوتاصرف صاف کرلینا ہی کافی ہوتا ہے مشروم ایک ایسی خودروسبزی ہے جو کہ بہت زیادہ عام تو نہیں ہے مگر یہ جہاں جہاں پائی جاتی ہے لوگ اس سے خوب فائدہ حاصل کرتے ہیں ذائقے سے بھرپور مشروم مختلف کھانوں میں استعمال کی جاتی ہیں۔ مشروم کی غذائی اہمیت: مشروم ایک غذائیت سے بھرپور اور ذائقے دار سبزی ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی لوگ اس سے استفادہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مصری تہذیب میں مشروم نفیس ترین غذا کا درجہ رکھتی تھی اور شہنشاہوں اور صف اول کے امرا تک محدود تھی۔ روم میں مشروم کو دیوتاؤں کی خوراک تصور کیا جاتا تھا اہل ثروت تحفتاً اس کا باہمی تبادلہ کرتے اور یہ تحفہ کسی معززشخص کے ہاتھ بھیجا جاتا ادنیٰ درجے کے ملازم کے ہاتھ نہیں بھیجا جاتا تھا اس سے مشروم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مشرق بعید کے بیش تر ممالک میں مشروم روز مرہ غذا میں شامل ہیں۔ مشروم کی غذائی اہمیت مسلم ہے۔ زمانے اور وقت کی رفتار کے ساتھ جہاں اور بہت سی تبدیلیاں آئیں وہاں خواص کے ساتھ عوام کو بھی بعض چیزوں کے استعمال کے مواقع نصیب ہوئے۔ ان میں سے ایک مشروم بھی ہے۔ جب لوگوں کو احساس ہوا کہ مشروم غذائیت سے بھرپور فصل ہے تو وہ اس کی جانب متوجہ ہوئے اورحال یہ ہے کہ اب مشروم ا کثر کھانوں کا لازمی جُزبنتی جا رہی ہے۔ مشروم کو چاولوں کے ساتھ پکاکر پلاؤ بنا کر کھانا جسم میں توانائی کا باعث بنتا ہے۔م نہ تو سردی کی شدت میں پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی یہ گرمی کاپودا ہے بلکہ یہ اس وقت نمو پاتی ہے جس موسم معتدل اور خوشگوار ہو خاص طور پر موسمی بارشوں کے دوران عرب کے لوگ اسے آسانی بجلی کی سبزی ”یعنی نبات الرد“ کا نام بھی دیتے آئے ہیں، کیونکہ یہ بجلی چمکنی اور مینہ برسنے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ عرب کی زمین پر اس کی پیداوار زیادہ ہے۔ عمدہ قسم کی مشروم وہی ہوتی ہے جو ریتلی زمین کی ہو جہاں پانی کم ہو۔ مشروم ایک مقبول غذا ہے۔ یورپی ہوٹلوں میں لوگ بڑے شوق سے مشروم سے بنے پکوان کھاتے ہیں۔ یہ دنیا کے چند مہنگے ترین پکوان میں سے ایک ہے۔ متعدد ملکوں میں اب کافی خوردنی کھنبیاں ڈبو میں بند ہو کر اسٹوروں پر آسانی سے مل جاتی ہیں کیونکہ ان میں ذائقے کے علاوہ لحمیات کی اضافی مقدار ان کو مفید بنا دیتی ہے چینی کھانوں میں مرغی اور مشروم، مرغی اور گائے کا گوشت یا مچھلی کے علاوہ مشروم کا پلاؤ بڑا مقبول ہے مشروم کو کچا بھی کھایا جاسکتا ہے اور پکا کر بھی اس کی سفید شکل کھانے میں بہتر ہے مشروم کا زراعت کے بغیر پیدا ہونا اس کی افادیت کا بہت بڑا ثبوت ہے کیونکہ ایسا کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اپنی طرف سے ایک بیش بہا تحفہ عطا کیا ہے اس لحاظ سے مشروم کا مفید ہونا ایک لازم امر ہے۔    …NO…8.. طب اسلامی -اپنے عہد سے ہزار سال آگے:……..اصغر انصاری
برقیہ چھاپیے

۹ ویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی حکومت میں بغداد ،قاہرہ اور کارڈوبا دنیا میں علم و دانش ،تجربہ و ایجاد ،اختراع ،تدوین ،تفتیش اور اعلی تعلیم کے لئے مشہور مقامات تھے جہاں سارے عالم اسلام سے طالب علم علم و ہنر کے حصول کے لئے یکجا ہورہے تھے ۔مسلمانوں کے خلیفہ کے زیر سر پرستی دنیا کے سارے علوم پر تحقیق و تفتیش کا کام جاری تھا۔ایجادات ،تجربات  اور نئی نئی چیزوں کا اختراع ہو رہا تھا۔آج سے ہزار برس پہلے ان مقامات پر طب نے عملی طورپر وہ مقام حاصل کیا تھا جس کی آج کچھ نقالی کرکےے امریکہ مہذب اور ترقی یا فتہ ممالک میں سرفہرست ہے۔جاری ہے....
- ہماری پوسٹس پڑھنے کیلئے ہمارا بلاگ وزٹ کریں
whatsApp:0096176390670
whatsApp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
http://www.dawat-e-tohid.blogspot.com/
www.facebook.com/fatimaislamiccenter

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...