Wednesday 1 June 2016

جادو جنات اور علاج قسط نمبر34


(جادو جنات اور علاج، قسط نمبر34)
کفر ابلیس کی نوعیت:

ابلیس اللہ کے سامنے کھڑا تھا، اللہ سے گفتگو کررہا تھا، اللہ کو اپنا رب تسلیم کر رہا تھا، مردود قرار دیئے جانے کے بعد اللہ تعالی سے مہلت بھی طلب کی اور مہلت پا بھی گیا، ان سب کے باوجود وہ کافر کیسے ہو گیا؟ اس کے کفر کی نوعیت کیا ہے؟ ان سب باتوں کو سمجھنے کے لئے کفر اکبر کی قسموں کا جاننا ضروری ہے، یاد رہے کہ کفر اکبر کی چار قسمیں ہیں:

(١)کفر تکذیب: کفر تکذیب یہ ہے کہ دل سے رسولوں کے جھوٹا ہونے کا عقیدہ رکھا جائے اور زبان سے بھی انھیں جھٹلایا جائے۔ چنانچہ ماضی کی بعض امتوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:ترجمہ[جن لوگوں نے کتاب کو جھٹلایا اور اسے بھی جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجا انھیں ابھی ابھی حقیقت حال معلوم ہو جائے گی- غافر: ٧٠ ]

(٢)کفر جحود: کفر جحود یہ ہے کہ دل میں حق کا اعتراف ویقین ہونے کے باوجود حق کو چھپانا اور اس کے آگے سر تسلیم خم نہ کرنا، نہ زبانی شہادت دینا اور نہ عملی طور پر اتباع واطاعت کرنا جیسے فرعون اور اس کی قوم کا موسی علیہ السلام کا انکار اور یہودیوں کا ہمارے نبی محمدﷺ کا انکار۔ارشاد باری ہے : ترجمہ [انھوں نے انکار کردیا حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر ؛النمل: ١٤]

(٣)کفر عناد وتکبر: کفر عناد وتکبر یہ ہے کہ دل وزبان دونوں سے حق کا اقرار کرنا، نہ ہی اسے جھٹلانا اور نہ ہی اس کا انکار کرنا لیکن عناد وتکبر کی بنا پر اطاعت سے باز رہنا اور سرکشی کرناجیسے کفر ابلیس۔ ارشاد باری ہے:ترجمہ[تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیااور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہو گیا البقرة:٣٤]

(٤)کفر نفاق: کفر نفاق یہ ہے کہ لوگوں کے دکھاوے کی خاطر بظاہر اطاعت وفرماں برداری اختیار کرلینا اور دل کا پوری طرح ایمان وتصدیق سے خالی ہونا جیسے منافقین: عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کا گروہ وغیرہ-
ابلیس  کی  سزا:
ابلیس کو اس کے عناد وتکبر اور سرکشی کی بنا پر آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں اتار دیا گیا، اس پر ذلت وخواری مسلط کر دی گئی، اس پر تاقیامت لعنت برستی رہے گی، صرف وہی نہیں بلکہ جو بھی اس کی پیروی کریں گے سب اس کے ساتھ جہنم کی خوراک بنیں گے۔
اللہ کا ارشاد ہے:ترجمہ [حق تعالی نے فرمایا تو آسمان سے اتر'تجھ کو کوئی حق نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے، سو نکل تو بے شک ذلیلوں میں سے ہے- الاعراف: ١٣]
نیز ارشاد ہے:ترجمہ [اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہاں سے ذلیل وخوار ہوکر نکل جا، جو شخص ان میں سے تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھردوں گا- الاعراف: ١٨]
ابلیس  کو صفائی کا موقعہ:
اللہ تعالی نے ابلیس کو سزا دینے سے پہلے اسے اپنی صفائی دینے کا پورا موقع دیا، قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ترجمہ[حق تعالی نے فرمایا تو جو سجدہ نہیں کرتا تو تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟ جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکا۔ کہنے لگا:میں اس سے بہتر ہوں۔آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اوراس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا ہے -الاعراف: ١٢ ]
چونکہ ابلیس کا عذر پوری طرح غیرمعقول اور غیر مقبول تھا جیسا کہ پچھلے صفحات میں اس کی تفصیل گذر چکی ہےلہٰذا اسے رد کر دیا گیا، ابلیس کے پاس موقعہ تھا کہ توبہ کر لے اور اللہ سے معافی مانگ لے لیکن اس نے معافی مانگنے کے بجائے قیامت تک کے لئے مہلت مانگی تاکہ بزعم خویش جس آدم کی وجہ سے ملعون ٹھہرا ہے ان سے بدلہ لے سکے، جوش انتقام میں ابلیس نے کہا جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بیان کیا ہے: ترجمہ [ابلیس نے کہا کہ مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دیجئے، اللہ تعالی نے فرمایا:تجھ کو مہلت دی گئی الاعراف: ١٤ – ١٥ ]
اور ابلیس کا مطالبہ منظور ہوگی-ا

رب کریم ابلیس کا بھی رب ہے، اس کی شان ربوبیت نے ابلیس کو بھی محروم نہ کیا، ابلیس نے اللہ کے حکم کی تعمیل سے سرتابی کی مردود ٹھہرا، لیکن جب اس نے اللہ تعالی سے قیامت تک کے لئے مہلت مانگی تو اسے مہلت دی گئی، اسے قیامت تک کی طویل عمر سے نوازا گیا۔

ابلیس کی فتنہ سامانی:
ابلیس نے آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جانے کی خاطر اللہ سے روز قیامت تک کے لئے طویل مہلت طلب کی اور اسے یہ مہلت حاصل بھی ہو گئی، اسی دن سے ابلیس اپنی فتنہ سامانیوں کے لئے منصوبہ بندی کرنے لگا، اپنی ہر ممکن قوت وطاقت کو ابن آدم کی گمراہی کے لئے ابلیس بروئے کار لاتا ہے۔

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ:    «ابلیس پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور (لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے) اپنے لشکر بھیجتا ہے۔ابلیس کے نزدیک سب سے بڑا رتبہ اس شخص کو ملتا ہے جس کا فتنہ سب سے عظیم ہوتا ہے۔ایک شیطان آ کے کہتا ہے کہ میں نے ایسا اور ایسا کیا۔ابلیس کہتا ہے تو نے کچھ نہیں کیا۔ پھر ایک شیطان آتا ہے اور کہتا ہے: میں اس کے پیچھے لگا رہا اور اسے نہیں چھوڑا یہاں تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کردی۔ ابلیس اسے اپنے سے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے تو بہت اچھا ہے اور پھر اسے گلے لگا لیتا ہے»۔

حدیث مذکور سے یہ بات واضح طور پر کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ابلیس انسانوں کے خلاف اپنی جنگ کے لئے پوری طرح منصوبہ بندی کرتا ہے۔ مختلف سمتوں میں اپنے لشکر بھیجتا ہے۔ میٹنگ کر کے ان کی رپورٹ سنتا ہے اور سب کی کار کردگی کا جائزہ لیتا ہے۔جس نے لوگوں کو گمراہ کرنے میں جس قدر محنت کی ہے اسی اعتبار سے ان کی تعریف کرتا ہے۔ انھیں اپنے سے قریب کرتا ہے اور بلند درجات سے نوازتا ہے۔ ابلیس کو لوگوں کے گمراہ کرنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔دادا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر آج تک وہ زندہ ہے اور فتنہ پھیلانے اور سچائی کے خلاف جھوٹ کی تبلیغ کرنے میں مصروف ہے اور کسی تھکاوٹ کے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔لیکن یاد رہنا چاہئے کہ رسول اللہﷺ نے فر م یا ہے:
«شیطان نے اللہ سے کہا: اے اللہ! تیری عزت کی قسم میں تیرے بندوں کو اس وقت تک گمراہ کرتا رہوں گا جب تک ان کے جسم میں جان باقی رہے گی, اللہ تعالی نے فرمایا: میر ے عزت وجلال کی قسم ! میں اپنے بندوں کی اس وقت تک مغفرت کرتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے مغفرت اور بخشش مانگتے رہیں گے»۔  (رواہ احمدو الحا کم وحسنہ اللبانی۔ صحیحہ ٣١ح١٠٤)
جاری ہے......
ہماری دیگر اسلامی سروس حاصل کرنے کیلئے رابطہ:
whatsApp:0096176390670
Whatapp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
http://islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
https://www.facebook.com/fatimaislamiccentr
 طالب دعا: فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...