Wednesday 8 June 2016

جادو جنات اور علاج قسط نمبر37

 (جادو جنات اور علاج قسط نمبر:37)
 قرآن مجید میں قصۂ  ابلیس کے تکرار کی حکمتیں

 ابلیس کا قصہ قرآن پاک میں سورۂ بقرہ، سورۂ اعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل، سورۂ کہف، سورۂ طہ اور سورۂ ص میں آیا ہے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف اسلوب اور پیرائے میں قصۂ ابلیس کو دہرایا گیا ہے۔ اس میں بہت سی حکمتیں اور بہت سے فوائد ہیں۔ چند کو ہم ذکر کر تے ہیں:

(١)حکم الہی کی مخا لفت کا نتیجہ

ابلیس مردود کے قصہ سے سب سے اہم فائدہ ہم کو یہ ملتا ہے کہ حکم الہی کی مخالفت کا نتیجہ بہت بھیانک ہے۔انبیاء کی تعلیم رب کی جانب سے ہو تی ہے۔ جو لوگ انبیاء کی تعلیمات اور ان کی سنت اور ا حا دیث کے مقابلے میں اپنی رائے وقیاس یااپنا فکر وفلسفہ یا اپنے تجر بات یا قصے کہا نیاں یا خواب وغیرہ پیش کرتے ہیں وہ اسی ابلیس کی راہ پر چل رہے ہیں۔اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔

اللہ تعا لی نے قرآن مجید میں یہ قصہ بار بار دہرایا ہے تا کہ ہم اس پر غور کریں اور یاد رکھیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم آجائے تو اس کے مقابلہ میں ہم اپنی رائے وقیاس اور اپنی عقلی مثالیں نہ پیش کریں بلکہ کتاب وسنت کے آگے اپنا سر تسلیم خم کردیں۔

  کتاب وسنت کے نصوص احکام الٰہی ہیں۔ ان کی مخالفت سے آدمی دین حق سے برگشتہ ہو کر مختلف فتنوں کا شکار ہو جائے گا جو اسے کفر وشرک اور بدعات وخر افات تک پہنچا کر دم لیں گے۔ارشادباری ہے: ترجمہ [سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرماں برداری کے ساتھ قبول کرلیں -النساء: ٦٥ ]

 (٢)اولاد آدم سےابلیس اور اس کی نسل کی  دشمنی

  ابلیس نے اپنی فضیلت کے زعم باطل میں آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا, اور پھر جب راندۂ درگاہ کردیا گیا تو آدم اور ان کی اولاد کا بدترین دشمن بن گیا,  اس نے یہ ٹھان لی کہ اپنے ساتھ ان کو بھی جہنم میں لے جائے گا۔ اسی خاطر اس نے ﷲتعالی سے قیامت تک کے لئے لمبی عمر مانگی,  ﷲتعالیٰ نے بہت سی حکمتوں کے پیش نظر اس کی یہ طلب قبول فرمائی۔ لیکن ﷲتعالی نے اولاد آدم کو ان کے اس بدترین دشمن سے محتاط رہنے اور بچتے رہنے کی تاکید وتلقین کی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:ترجمہ : (اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے-النساء: ٦٥- ١٦٨)
ابلیس اللہ کے حکم کے سامنے اکڑ گیا۔ اللہ کی بات نہیں مانی اور آدم علیہ السلام کا سجدہ کر نے سے انکار کر دیا اور دعوی کیا کہ وہ آدم علیہ السلام سے بہتر ہے اور پھر اس عزم کا اعلان کیا کہ وہ اولاد آدم کو جنت میں نہیں جانے دے گا۔ انھیں مختلف طریقوں سے راہ حق سے گمراہ کرے گا۔ اللہ تعالی نے اسے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے-
 ترجمہ [شیطان نے کہا: تیر ی عزت کی قسم! میں ان سب کو یقینا بہکاؤں گا بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں- ص: ٨٢ - ٨٣ ]

نیز ا رشاد ہے: ترجمہ [ابلیس نے کہا: بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا،پھر ان پر حملہ کروں گا، ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی، اور ان کی دا  ہنی جانب سے اور ان کے بائیں جانب سے بھی، اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیے گا -الاعراف: ١٦ – ١٧ ]

نیز ارشاد ہے : ترجمہ[شیطان نے کہا: اچھا دیکھ لے، اسے تونے مجھ پر بزرگی تو دی ہے لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز بہت تھوڑے لوگوں کے اپنے بس میں کرلوں گا۔ارشاد ہوا کہ جا، ان میں سے جو بھی تیرا تابعدارہو جائے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو پورا پورا بدلہ ہے۔ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا اور ان کے مال اور اولاد میں سے اپنا بھی سا جھا لگا اور انھیں جھوٹے وعدے دے لے۔ ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہیں۔ ميرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں۔تیرا رب کا رسازی کرنے والا کافی ہے- الاسراء: ٦٢ – ٦٥ ]

(٣)کبر وحسد کا انجام
حسد اور تکبر وہ گناہ ہیں جن کا ارتکا ب دنیا ئے انسانیت میں سب سے پہلے کیا گیا اور اس کا مر تکب ابلیس تھا۔ ابلیس نے کبر وحسد کی بنیاد ڈالی، اس نے اسی بنا پر آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا اور اس بر ے انجام سے دوچار ہوا۔ ابلیس کا قصہ بیان کرکے خبر دار کیا گیا ہے کہ انسان کبر وحسد سے بچے۔یہ کبر وحسد ہی تو تھا جس نے کفار مکہ کو اسلام قبول کر نے سے روکا پھر وہ دنیا وآخرت دونوں جگہ نا کام ونا مراد ہوئے۔قصۂ ابلیس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تکبر والے کو اس کی نیت سے الٹی سزا ملتی ہے۔ متکبر کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسے بڑا مانا جائے تو اسے حقیر اور ذلیل کر دیا جا تا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ترجمہ [حق تعالی نے فرمایا تو آسمان سے اتر۔تجھ کو کوئی حق نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے، سو نکل تو بے شک ذلیلوں میں سے ہے -الاعراف: ١٣ ]

(٤) اتباع حق پر ثابت قدمی

ابلیس کی زندگی سے عبرت لیتے ہو ئے ہمیں دین پر ثابت قدم رہنا چاہئے۔ اللہ کی نافرمانی اور اس کی شریعت کی خلاف ورزی سے ڈرنا چاہئے۔ ابلیس ہمیں راہ حق سے منحرف کرنے کے لئے شب وروز لگا ہو ا ہے لیکن اگر ہم اللہ پر سچا ایمان لاکر اس کے رسولوں کی تصدیق کر کے اس کی شریعت کے پابند رہیں گے تو ابلیس اور اس کی اولاد شیاطین ہما را کچھ نہیں بگاڑ سکتے جیسا کہ ارشاد باری ہے:ترجمہ [میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں۔ تیرا رب کارسازی کرنے والا کافی ہے- الاسراء: ٦٥ ]

نیز ارشاد ہے: ترجمہ [اے اولادآدم علیہ السلام! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے باہر کر دیا۔ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتر وا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرمگاہیں دکھائے۔ وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طو ر پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو۔ ہم نے شیطانوں کو ان ہی لو گو ں کا دوست بنا یا ہے جو ایمان نہیں لاتے- الاعراف: ٢٧ ]

 شیطان کے جال بڑے حسین اور دلفریب ہو تے ہیں جن سے بچنے کے لئے بڑی کا وش ومحنت اور ہر وقت اس سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

(٥) گناہ ہو جانے پر تو بہ واستغفار,نہ کہ اصرار

 ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اس کے بعد وہ نہ صرف اس پر اڑ گیا بلکہ اس کے جواز واثبات میں عقلی وقیاسی دلائل دینے لگا نتیجۃ وہ راندۂ درگاہ اور ہمیشہ کے لئے ملعون قرار پایا۔ اس کے برخلاف آدم علیہ السلام نے اپنی غلطی پر ندامت و پشیمانی کا اظہار اور بار گاہ الہی میں تو بہ واستغفار کا اہتمام کیا تو اللہ کی رحمت ومغفرت کے مستحق قرار پائے۔یوں گویا دونوں راستوں کی نشاندہی ہو گئی۔شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی۔ گناہ کرکے اس پر اترانا اور اسی کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلائل کے انبار فراہم کرنا شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندامت سے مغلوب ہو کر بار گاہ الہی میں جھک جانا اور تو بہ واستغفار کا اہتمام کرنا بندگان الہی کا راستہ ہے۔

(۶) تقدیر کو حجت بنانے کا انسانی اور شیطانی طریقہ

ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو یہ کہنے لگا کہ اے اللہ تونے مجھے گمراہ کیا ہےکیونکہ تونے میری تقدیر میں ایسا لکھ دیا تھا لہٍٰذا اب میں آدم کی اولاد کو گمراہ کروں گا جیسا کہ ارشاد ہے:ترجمہ [شیطان نے کہا کہ اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی سوائے تیرے ان بندوں کے جو منتخب کر لئے گئے ہیں- الحجر:٣٩ - ٤٠ ]

 یہ تھا تقدیر کو حجت بنانے کا شیطانی طریقہ ، شیطان کو سجدہ کا انکار کرتے وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کی تقدیر میں کیا ہے، شیطان کے سامنے دونوں راستے کھلے ہوئے تھے، جیسا کہ سجدہ نہ کرنے کے بعد اس کے سامنے دو راستے کھلے ہوئے تھے؛  ایک توبہ کا راستہ اور دوسرا وہ راستہ جسے اس نے اختیار کیا، کسی نے اس کو مجبور نہیں کیا تھا کہ وہ اولاد آدم کو گمراہ کرنا اپنی طویل زندگی کا مقصد بنالے۔

   تقدیر کو حجت بنانے کا انسانی طریقہ وہ ہے جسے آدم علیہ السلام نے اختیار کیا، صحیح بخاری ومسلم میں نبی کریم ﷺ سے مروی حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: «احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسى, فَقَالَ لَهُ مُوسى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا، خَيَّبْتَنَا، وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ, قَالَ لَهُ آدَمُ: يَا مُوسى اصْطَفَاكَ اللّٰهُ بِكَلاَمِهِ، وَخَطَّ لَكَ بِيَدِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَ اللّٰهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً, فَحَجَّ آدَمُ مُوسى, ثَلاَثًا». «آدم اور موسیٰ علیہم السلام میں گفتگو ہوئی،  موسیٰ u نے آدم uسے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ نے ہمیں نامراد کردیا، آپ نے ہمیں جنت سے نکلوادیا۔ آدمu نے موسیٰ u سے کہا: اے موسیٰ! اللہ نے آپ سے کلام کرکے آپ کو منتخب کیا، آپ کے لئے اپنے ہاتھ سے توریت لکھ کردیا، کیا مجھے ایسی بات پر ملامت کررہے ہیں جو میری تخلیق سے چالیس سال قبل ہی اللہ تعالیٰ نے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا، چنانچہ آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر حجت میں غالب ہوگئے۔ یہ بات نبی ﷺ نے تین بار فرمائی»۔
آدم علیہ السلام سے جب جنت کا ممنوعہ پھل کھانے کی غلطی ہوئی تھی تو آپ نے اس وقت بارگاہ الٰہی میں توبہ کیا تھا ، اس وقت تقدیر کو حجت نہیں بنایا تھا کیونکہ گناہ کے بعد توبہ کرنا اللہ کا حکم ہے، اللہ کے حکم کو ٹالنے کے لئے تقدیر کو حجت بنانا شیطانی طریقہ ہے ، گناہ ہوجانے کے بعد توبہ کرنا اللہ کے حکم کی تعمیل ہے، البتہ توبہ کے بعد کسی کی ملامت سے بچنے کے لئے تقدیر کو حجت بنانا آدم علیہ السلام اور ان کی نیک اولاد کا انسانی طریقہ ہے۔

(۷)بشر کو حقیر سمجھنا ایک شیطانى فلسفہ

ابلیس نے سجدہ سے انکار کی وجہ آدم علیہ السلام کا خاکی اور بشر ہو نا بتلایا جیساکہاللہ تعالی  کا ارشاد ہے : ترجمہ [ابلیس نے کہا:میں ایسا نہیں کہ اس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے کا لی اور سڑی ہو ئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے- الحجر: ٣٣ ]

   جس سے معلوم یہ ہوا کہ انسان اور بشر کو اس کی بشریت کی بنا پر حقیر اور کمتر سمجھنا شیطان کا فلسفہ ہے جو اہل حق کا عقیدہ نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے اہل حق انبیاء علیہ السلام کی بشریت کے منکر نہیں ہیں۔اس لئے کہ ان کی بشریت کو خود قرآن کریم نے وضاحت سے بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں بشریت سے ان کی عظمت اور شان میں کوئی فر ق نہیں پڑتا۔جاری ہے....
whatsApp:0096176390670
Whatapp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
http://islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
https://www.facebook.com/fatimaislamiccentr

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...