Wednesday 31 August 2016

تفسیر احسن البیان سبق نمبر4


      بســـــــــــــــمِ ﷲِالرحمٰنِ الرَّحِيم 
               تفسیر احسن البیان

( ترجمہ:مولانا محمد جونا گڑھی'
تفسیر: مولانا صلاح الدین یوسف)

(سبق نمبر:4)

(پارہ نمبر 1،سورةالفاتحه آیات5تا7)

             1:سورةالفاتحه:آیات7

●إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں (۱)۔
ف۱ عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لیے انتہائی عاجزی اور کمال خشوع کا اظہار اور بقول ابن کثیر شریعت میں کمال محبت خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام ہے، یعنی جس ذات کے ساتھ محبت بھی ہو اس کی ما فوق الاسباب ذرائع سے اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔ سیدھی عبارت ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ مدد مانگنا کسی اور سے جائز ہے۔ ان الفاظ سے شرک کا سدباب کر دیا گیا لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پا گیا ہے وہ ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب استعانت میں فرق کو نظر انداز کر کے عوام کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بیمار ہو جاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں بیوی سے مدد چاہتے ہیں ڈرائیور اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اس طرح وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔ حالانکہ اسباب کے ما تحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے یہ تو اللہ تعالٰی کا بنایا ہوا نظام ہے۔ جس میں سارے کام ظاہر اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں حتی کہ انبیاء بھی انسانوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا (من انصاری الی اللہ) اللہ کے دین کیلئے کون میرا مددگار ہے؟ اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کو فرمایا (ۘوَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى) 5۔المائدہ:2) نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے نہ شرک بلکہ مطلوب و محمود ہے۔ اسکا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق؟ شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے مدد نہ کر سکتا ہو جیسے کسی فوت شدہ شحص کو مدد کے لیے پکارنا اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا اسکو نافع وضار باور کرنا اور دور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اسکا نام ہے ما فوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا اسی کا نام شرک ہے جو بدقسمتی سے محبت اولیاء کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔اعاذنا اللہ منہ۔
توحید کی تین قسمیں۔
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں مختصرا بیان کردی جائیں ۔ یہ قسمیں ہیں ۔ توحید ربوبیت ،توحید الوہیت ، اور توحید صفات
۱۔ توحید ربوبیت کا مطلب ہے کہ اس کائنات کا خالق ، مالک ،رازق ،اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس توحید کو ملاحدہ و زنادقہ کے علاوہ تمام لوگ مانتے ہیں حتی کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں جیساکہ قرآن کریم نے مشرکیں مکہ اعتراف نقل کا ہے۔ مثلا فرمایا اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ تم آسمان و زمیں میں رزق کون دیتا ہے یا (تمہارے ) کانوں اور آنکھوں کامالک کون ہے اور بے جان سے جاندار اور جاندار سے بے جان کو کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے ؟ جھٹ کہہ دیں گے کے اللہ (یعنی یہ سب کام کرنے والا اللہ ہے) (قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ 31 ) 10۔یونس:31) ۔دوسرے مقام پر فرمایا(وَلَىِٕنْ سَاَلْــتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ) 39۔الزمر:38)اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں گے کہ آسمان و زمین کا خالق کون ہے ؟ تو یقینا یہی کہں گے کہ اللہ ۔ ایک اور مقام پر فرمایا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے یہ سب کس کا مال ہے ؟ ساتوں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے ؟ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے ؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں ۔ ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں۔(23۔المومنون :89-84) وغیرھا من الایات۔
۲۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کی مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کے لئے ، یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے ، اس لئے نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ صرف یہی عبادات نہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا و التجاء کرنا ۔ اس کے نام کی نذر ونیاز دینا اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا اس کا طواف کرنا اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں ۔ توحید الوہیت میں شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے ۔
۳۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن وحدیث میں بیان ہوئی ہیں ان کو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں ، مثلا جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے یادور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے کائنات میں ہرطرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے یہ یا اس قسم کی اور صفات الٰہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نبی ، ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں ۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہوگا۔ افسوس ہے کہ قبر پرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کررکھا ہے ۔ اعاذنااللہ ۔

- - - - - - - - - - - - - - - - -

●اهْدِنَا الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾
ہمیں سچی اور سیدھی راہ دکھا (١)۔
ف۱ ہدایت کے کئی مفہوم ہیں، راستے کی طرف رہنمائی کرنا، راستے پر چلا دینا، منزلِ مقصود تک پہنچا دینا۔ اسے عربی میں ارشاد توفیق، الہام اور دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما، اس پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرما، تاکہ ہمیں تیری رضا (منزلِ مقصود) حاصل ہو جائے۔ یہ صراط مستقیم محض عقل اور ذہانت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ صراط مستقیم وہی ‏‏، الاسلام، ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔
- - - - - -- - - - - - - - - - - -

●صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ‌ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا (۱)۔ ان کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کا۔ (۲)
ف۱ یہ صراطِ مستقیم یہ وہ اسلام ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔
ف۲ صراط مُستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا ۔(وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا 69؀ۭ) 4۔النساء:69) اور جو بھی اللہ تعالٰی کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ) سے مراد یہودی اور (وَلاَ الضَّآلِیْن) گمراہوں سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ دونوں کے گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی تھی وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے میں گریز نہیں کرتے تھے حضرت عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے اپنے احبار و رھبان کو حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ کہا حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصارٰی کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں غلو کیا اور انہیں (اللہ کا بیٹا) اور تین خدا میں سے ایک قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں اللہ تعالٰی اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے۔ تاکہ ادبار و نکبت کے برھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکے۔ سورۃ کے آخر میں آمِیْن کہنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی اسلیے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہئے۔ اے اللہ ہماری دعا قبول فرما۔
جاری ہے.....
- - - - - - - - - - - - - -
سوشل میڈیا معاون:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان-
  تمام اقساط کے لیے بلاگ وزٹ کریں:
www.dawatetohid.blogspot.com

تفسیر احسن البیان سبق نمبر 2


                   تفسیر احسن البیان
                     
                       تعارف:راقم

(سبق نمبر:2)

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی اشرف الأنبیاء و المرسلین-
سب تعریفیں اللہ سبحانہ وتعالی کے لیے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، درودو اسلام ہو اشرف المرسلین سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر، ان کی آل پر اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم پر-میں اپنی اس کاوش کو اپنے خالق مالک سبوح و قدوس اور اپنے معبود حقیقی اللہ وحدہ لا شریک کے نام منسوب کرتا ہوں-
جس کا میں بندہ ہوں اور جس کے فضل و کرم اور رحمت و عنایت میں میرے جسم و جاں کا رواں رواں ڈوبا ہوا ہے اور جس کا شکریہ ادا کرنا میرے بس میں نہیں ۔ اور جس اللہ سبحانہ و تعٰالیٰ کی توفیق و عنایت سے اس کی کتاب حکیم کے خدمت اور عظیم الشان سعادت نصیب ہوئی ہے ۔ فَالحَمدُ لَہ قَبلَ کُلِّ٘ شَیۡءٍ وَّ بَعدَ کُلِّ شَیۡءٍ ورنہ کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل نسیم سحر یہ تیری مہربانی ہے۔ پس اسی کے حضور دست بدعا اور سراپا عرض و التجا ہوں کہ وہ محض اپنی شانِ کریمی سے اس بندہ ناچیز کی اس طالب علمانہ کوشش کو شرف قبولیت سے نواز کر اسے نفع عام اور راقم آثم کیلئے دارین کی سعادت و سر خروئی کا ذریعہ بنا دے۔ نیز یہ کہ اس کار عظیم کی ٹائپنگ و ترتیب کے دوران جو بھی کوئی تقصیر و کوتاہی راقم آثم سے سرزد ہوئی ہو ۔ خواہ اس کا تعلق نیت و ارادہ سے ہو یا عمل و اداء سے اس کو  اللہ سبحانہ وتعالی اپنی رحمت و عنایت سے معاف فرما دے کہ وہ غفور بھی ہے ، اور رحیم بھی- اور اس کو اپنی بارگاہِ اقدس و اعلیٰ میں قبول فرما کر اسے راقم آثم کیلئے ، راقم کے والدین،دوست احباب، بہن بھائیوں اور دوسرے تمام رشتہ داروں کیلئے اور مرحومین بالخصوص میری دادی فاطمہ بی بی کی لیے ، خیر و برکت اور دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ ، اور ابدالاباد تک باقی رہنے والا صدقہء جاریہ بنا دے ، آمین ثم آمین ۔۔
نیز اس کو راقم کے اساتذہ و مشائخ ، اہل مسلک اور جملہ اہل حق اور اہل ایمان کیلئے رحمتوں برکتوں اور دارین کی فوز و فلاح اور سعادت و کامرانی کا ذریعہ ، اور اس سے حق اور جملہ اہل حق کا بول بالا ہو ۔ اور ان کے مقابلے میں اہلِ کفر و باطل میں سے جن کے نصیب میں ہدایت ہو ان کو ہدایت و رحمت کے نور سے نوازنے کا ذریعہ بنا دے اور جن کے نصیب میں یہ نور ملنا مقدر نہ ہو ان کو خائب و خاسر اور ناکام و نامراد کر دے ۔ اٰمین ثم اٰمین یا رب العالمین ،
یہ بندہ ناچیز عمران شہزاد تارڑ،ولد محمد زمان تارڑ- جو کہ پاکستان ضلع منڈی بہاؤالدین،تحصیل پهالیہ گاؤں چهوہرانوالہ کے مقام کا رہنے والا ہے-جو کہ خود عالم نہیں لیکن محدثین ، فقہاء اور علماء کی کتب پڑھنے کی الحمدللہ لگن موجود ہے-
برادران اسلام کی خدمت میں عرض پرداز پے کہ قرآنِ حکیم  کے اس مشن عظیم الشان اور جلیل القدر کام کی نیت ایک عرصہ قبل کی تھی وہ اب جا کر پایہء تکمیل کو پہنچ رہی ہے- والحمد للہ رب العالمین۔
اَلَّذِیۡ لَا تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ اِلَّا بِتَوۡفِیقٍ مِّنہُ سُبحَانَہ وَ تَعَالیٰ-
جن معاونین نے یہ کار عظیم سر انجام دیا ہے ان کا سابقہ سبق میں ذکر کر دیا گیا-جن میں بالخصوص مترجم القرآن مولانا محمد جونا گڑھی و مفسر مولانا صلاح الدین یوسف اور خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز  قابل ذکر ہیں- اس لئے اس کے اعادہ و تکرار کی اب یہاں نہ ضرورتے ہے ، اور نہ گنجائش ، اس وقت تو صرف اس عمل جلیل کی قبولیت عند اللہ کی دعا کی اپیل و درخواست ہے اور بس اس دوران جو بھی کوئی کوتاہی راقم اٰثم سے سرزد ہو گئی ہو ۔ خواہ اس کا تعلق ارادہ و نیت سے ہو ۔ یا عمل و اداء سے اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرما کر اس قرآنی خدمت کو اپنی بارگہء اقدس میں قبول فرما لے ۔ اور اس کو پوری دنیا میں نور حق و ہدایت کی اشاعت کا ذریعہ بنا دے اٰمین-
ذہن نشین رہے راقم الحروف نے صرف اس تفسیر احسن البیان کو یونیکوڈ فارمیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر عام کرنے کی ذمہ داری اٹهائی ہے-
جسے اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے قبول فرما کر اس کو جملہ متعلقین کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے باقی رہنے والا ایسا صدقہء جاریہ بنا دے ۔ جس سے دنیا ساری میں نور توحید کا اجالا ہو جائے اور شرک و بدعت کے اندھیرے چھٹ جائیں ۔ اور حق اور اہل حق کا بول بالا ہو جائے اٰمین-

  مقیم لبنان بیروت 31 اگست 2016 ء بروز بدھ-

بندۂ عاجز
عمران شہزاد تارڑ
ڈائریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
fatimapk92@gmail.com
facebook:fatima Islamic centre
whatsAp:+96176390670
whatsApp+923462115913
whatsApp:+923004510041
تمام اقساط کے لیے بلاگ وزٹ کریں
http://dawatetohid.blogspot.com

جادو جنات اور علاج قسط نمبر 11

(جادو جنات اور علاج قسط نمبرA11)

*کتاب:شریر جادوگروں کا قلع قمع کرنے والی تلوار*
*مئولف: الشیخ وحید عبدالسلام بالی حفظٰہ للہ*'
*ترجمہ: ڈاکٹر حافظ محمد اسحٰق زاھد*-
             *مکتبہ اسلامیہ*
*یونیکوڈ فارمیٹ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان*

ساتواں طریقہ:
جادوگر ایک نابالغ بچے کو جو بے وضو ہوتا ہے اپنے سامنے بٹھا لیتا ہے، پھر اس کی بائیں ہتھیلی پر ایک مربعہ بناتا ہے،  اور اس کے ارد گرد چاروں طرف جادو والے طلسم لکھتا ہے، پھر اس کے بالکل درمیان میں تیل اور روشنائی رکھ دیتا ہے، پھر ایک لمبے کاغذ پر مفرد حروف کےساتھ جادو والے چند طلسم لکھتا ہے اور اسے بچے کے چہرے پر رکھ کراس کے سر پر ٹوپی پہنا دیتا ہےتاکہ وہ ورقہ گر نہ پائے، اور پھر بچے کو ایک بھاری چادر کے ساتھ ڈھانپ دیتا ہے۔
اس کے بعد وہ اپنے کفریہ وِرد پڑھنا شروع کر دیتا ہے، جبکہ بچے کو اپنی ہتھیلی پر دیکھنا ہوتا ہے حالانکہ اندھیرے کی وجہ سے اسے کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا، اچانک بچہ محسوس کرتا ہے کہ روشنی پھیل گئی ہے اور اس کی ہتھیلی میں کچھ شکلیں حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، چنانچہ جادوگر بچے سے پوچھتا ہے: تم کیا دیکھ رہے ہو؟
بچہ جواباً کہتا ہے: میں اپنے سامنے ایک آدمی کی شکل دیکھ رھا ہوں۔
جادوگر بچے سے کہتا ہے کہ جس آدمی کی شکل تم دیکھ رہے ہو اسے کہو کہ جادوگر تم سے یہ مطالبہ کر رہا ہے، سو اس طرح وہ شکلیں جادوگر کے احکامات کے مطابق حرکت میں آ جاتی ہیں۔
یہ طریقہ عموماً گم شدہ چیزوں کو تلاش کرنے کےلئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں جو کفر و شرک پایا جاتا ہے، وہ بالکل واضح ہے۔
آٹھواں طریقہ:
جادوگر مریض کے کپڑوں میں سے کوئی ایک کپڑا  مثلاً رومال، پگڑی، قمیض وغیرہ جس سے مریض کے پسینے کی بو آ رہی ہو، منگوا لیتا ہے، پھر اس کپڑے کے ایک کونے کوگرہ لگاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی چار انگلیوں کے برابر کپڑا مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے، پھر اونچی آواز  کے ساتھ سورۂ کوثر یا کوئی اور چھوٹی سورت پڑھتا ہے، اس کے بعد آہستہ آواز میں اپنے شرکیہ ورد پڑھتا ہے اور پھر جنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے:
“اگر اس مریض کے مرض کا سبب جنات ہیں  تو کپڑے کو چھوٹا کر دو، اور اگر اسے نظر لگ گئی ہے تواسے لمبا کر دو، اور اگر اسے کوئی دوسری بیماری ہے تو اس کپڑے کو اتنا ہی رہنے دو جتنا اس وقت ہے”
پھر وہ اس چار انگلیوں کے برابر کپڑے کو دوبارہ ناپتا ہے،اگر وہ چار انگلیوں سے بڑا ہو چکا ہو تو مریض سے کہتا ہے کہ تمہیں نظر لگ گئی ہے، اور اگر وہ کپڑا چار انگلیوں سے چھوٹا ہو چکا ہو تو مریض  سے کہتا ہے کہ تم آسیب زدہ ہو، اور اگر وہ کپڑا چار انگلیوں کے برابر ہی ہو تو اسے کہتا ہے کہ تمہیں کوئی بیماری ہے لہٰذا تم ڈاکٹر کے پاس جاؤ۔
اس طریقہ کار میں تین باتیں قابل ملاخطہ ہیں:
1۔ مریض کو دھوکہ دیا جاتا ہے، چنانچہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا علاج قرآن کے ذریعے ہو رہا ہے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کے علاج کا اصل راز ان شرکیہ وِردوں میں ہوتا ہے جنہیں جادوگر آہستہ آواز میں پڑھتا ہے۔
2۔ اس طریقے میں جنوں کو مدد کےلئے پکارا جاتا ہے جو شرک ہے۔
3۔ جنات اکثر و بیشتر جھوٹ بولتے ہیں اور خود جادوگر کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ جن سچا ہے یا جھوٹا، سو اس کی بات پر کس طرح اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اور ہم نے خود کئی جادوگروں کا تجربہ کیا ہے، ان میں سچے کم اور جھوٹے زیادہ تھے، اور کئی مریض ہمیں آ کر بتاتے ہیں کہ جادوگر کے کہنے کے مطابق انہیں نظر لگ گئی ہے، پھر ہم جب ان پر قرآنِ مجید پڑھتے تو معلوم ہوتا کہ ان پر جنوں کا اثر ہے، نظر نہیں لگی۔ سو اس طرح سے ان کا جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے۔
مندرجہ بالا آٹھ طریقوں کے  علاوہ کئی اور طریقے بھی ہو سکتے ہیں جو مجھے معلوم نہیں ہیں۔
جادوگر کو پہچاننے کی نشانیاں
مندرجہ ذیل علامات میں سے کوئی ایک علامت اگر کسی علاج کروانے والے شخص کے اندر پائی جاتی ہو تو یقین کرلینا چاہئے کہ یہ جادوگر ہے۔
1۔ جادوگر مریض سے اس کا اور اس کی ماں کا نام پوچھتا ہے۔
2۔ جادوگر مریض کے کپڑوں  میں سے کوئی کپڑا مثلاً قمیض، ٹوپی، رومال وغیرہ منگواتا ہے۔
3۔ جادوگر کبھی کوئی جانور بھی طلب کر لیتا ہے جسے وہ ‘بسم اللہ’ پڑھے بغیر ذبح کرتا ہے، پھر اس کا خون مریض کے جسم پر ملتا ہےاور پھر اسے غیر آباد جگہ پر پھینک دیتا ہے۔
4۔ جادو والے طلسم (منتر) کو لکھنا۔
5۔ جادو والے طلسم (منتر) کو پڑھنا جو کسی عام آدمی کی سمجھ بوجھ سے بالا تر ہوتا ہے۔
6۔ مریض کو ایسا حجاب دینا جس میں مربعات (ڈبے) بنے ہوئے ہوں اور ان کے اندر چند حروف یا نمبر لکھے ہوئے ہوں۔
7۔ مریض کو یہ حکم دینا کہ وہ لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر ایک معینہ مدت کےلئے کسی ایسے کمرے میں چلا جائے جہاں سورج کی روشنی نہ پہنچتی ہو۔
8۔ مریض سے کبھی اس بات کا مطالبہ کرنا کہ وہ ایک معینہ مدت کےلئے جو عموماً چالیس دن ہوتی ہے، پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ اور یہ علامت اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ یہ جادوگر جس جن سے مدد لیتا ہے، وہ عیسائی ہے۔
9۔ مریض کو کچھ ایسی چیزیں دینا جنہیں زمین  میں دفن کرنا ہوتا ہے۔
10۔ مریض کو کچھ ایسے کاغذ دینا جنہیں جلا کر ان کے دھوئیں سے دھونی لینی ہوتی ہے۔
11۔ ایسے کلام کے ساتھ بڑبڑانا جسے سمجھا نہ جا سکے۔
12۔ جادوگر کبھی مریض کو اس کا نام، اس کے شہر کا نام اور جس وجہ سےوہ اس کے پاس آتا ہے، اس کے متعلق آتے ہی اسے بتا دیتا ہے۔
13۔ جادوگر مریض کو ایک کاغذ میں یا پکی مٹی کی پلیٹ میں چند حروف لکھ کر دیتا ہے جنہیں پانی میں ملا کر مریض کو پینا ہوتا ہے۔
اگر آپ کو ان علامات میں سے کوئی ایک علامت کسی شخص میں نظر آئے اور یقین ہو جائے کہ یہ جادوگر ہے تو اس کے پاس مت جائیں، ورنہ آپ پر آپﷺ کا یہ فرمان صادق آ جائے گا:
“جو آدمی کسی نجومی کے پاس آیا، پھر اس کی باتوں کی تصدیق کی تو اس نے
محمدﷺ پر نازل کیے گئے دین سے کفر کیا۔” (صحیح الجامع:5939)
جاری ہے.......

ہماری پوسٹس پڑھنے کیلئے ہمارا بلاگ یا ہمارا گروپ جوائن کریں-

whatsApp:00923462115913
whatsApp: 00923004510041
fatimapk92@gmail.com
www.facebook.com/fatimaislamiccenter
http://www.hamariweb.com/articles/userarticles.aspx?id=229348
http://www.dawatetohid.blogspot.com/

Tuesday 30 August 2016

       تفسیر احسن البیان، سبق نمبر:1

بســـــــــــــــمِ ﷲِالرحمٰنِ الرَّحِيم

               تفسیر احسن البیان 

(قسط نمبر:1)

                        مقدمہ
الحمد للّٰہ رب العالمین ،القائل فی کتابہ الکریم (قَدْ جَآءَ کُم مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ)
والصلاۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین ،نبینا محمد القائل:خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ۔
اما بعد:
خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ نے کتاب الٰہی کی خدمت کے
سلسلہ میں جو ہدایات دی ہیں ان میں قرآن مجید کی طباعت ،وسیع پیمانے پر مسلمانان عالم میں اس کی تقسیم کے اہتمام اور دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ وتفسیر کی اشاعت پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے۔
"وزارۃ الشوون الاسلامیۃ والاوقاف والدعوۃ والارشاد"کی نظر میں عربی زبان سے نا واقف مسلمانوں کے لئے قرآن فہمی کی راہ ہموار کرنے اور تبلیغ کی اس ذمہ داری سے عہدہ برآہونے کے لیے جو رسول اکرم ﷺ کے ارشاد گرامی"بلغوا عنی ولوآیہ"(میری جانب سے لوگوں تک پہنچاؤ خواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو-البخاری)میں بیان کی گئی ہے،دنیا کی تمام اہم زبانوں میں قرآن مجید کے مطالب کو منتقل کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔
خادم الحرمین الشریفین کی انہی ہدایات اور وزارت برائے اسلامی امور کے اسی احساس کے پیش نظر 'مجمع الملكَ فھد لطباعہ المصحف الشریف بالمدینہ المنورہ'اردو داں قارئین کے استفادہ کے لیے قرآن مجید کا یہ اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔
یہ ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی کے قلم سے ہے اور تفسیری حواشی مولانا صلاح الدین یوسف کے تحریر کردہ ہیں۔مجمع کی کی جانب سے نظر ثانی کا کام ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس اور ڈاکٹر اختر جمال لقمان ہر دو حضرات نے انجام دیا ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اس عظیم کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق دی ۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ خدمت قبول فرمائے اور لوگوں کے لیے اسے نفع بخش بنائے ۔یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ قرآن مجید کا کوئی بھی ترجمہ خواہ کیسی ہی دقت نظر سے انجام پایا ہو ،ان عظیم معانی کو کما حقہ ادا کرنے سے بہرحال قاصر رہے گا جو اس معجزانہ متن کے عربی مدلولات ہیں۔نیز یہ کہ ترجمہ میں جن مطالب کو پیش کیا جاتا ہے وہ دراصل مترجم کی قرآن فہمی کا ماحصل ہوا کرتے ہیں۔چنانچہ ہر انسانی کوشش کی طرح ترجمہ قرآن میں بھی غلطی ،کوتاہی اور نقص کا امکان رہتا ہے۔
اس بنا پر قارئین سے ہماری درخواست ہے کہ انھیں اس ترجمہ میں کسی مقام پر کوئی فروگذاشت نظر آئے تو 'مجمع الملكَ فھد لطباعہ المصحف الشریف بالمدینہ النبویہ 'کو ضرور مطلع فرمائیں تا کہ آئندہ اشاعت میں اس استدراکات سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
واللہ الموفق ،و ھو الھادی الی سواء السبیل اللھم تقبل منا انكَ انت السمیع العلیم۔
نوٹ: الحمدللہ! اس تفسیر کو پیش کرتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس با برکت اور اہم کام کے لیے منتخب کیا۔چونکہ یہ تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی) انٹر نیٹ پر پی ڈی ایف فارمیٹ میں دستیاب ہے جس کو پڑھنے کے لئے قارئین کرام کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑھتا ہے ،اس لئے فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان نے خصوصی محنت سے یو نیکوڈ فارمیٹ کو واٹس اپ ،فیس بک،بلاگ،ویب سائٹ وغیرہ پر اشاعت کی ابتداء کی ہے تا کہ وہ قارئین کرام جو مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں ،وہ اس تفسیر سے با آسانی مستفید ہو سکیں ۔یہ تفسیر صحیح احادیث کی روشنی میں ایک مختصر مگر جامع تفسیر ہے،جو ہر مسلمان کے لیے ایک قیمتی تحفہ اور ہر مومن کے لیے ایک گلدستہ ہے۔
ہم ان شاء اللہ روزانہ ایک مختصر سبق ارسال کیا کریں گے ،جس کو قارئین کرام مطالعہ کے بعد اپنے عزیز واقارب ،دوست احباب تک پہنچا کر اس کار خیر میں حصہ ملا کر اپنے لیے صدقہ جاریہ بنا سکتے ہیں۔
آخر میں ان سب موڈیڈیٹر حضرات کا احسان مند اور مشکور ہوں جنہوں نے اس کار خیر کی اشاعت میں میرے ساتھ تعاون کی پیش کش کو قبول کیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس سلسلہ کو ہر خاص وعام کیلئے نافع بنائے ،اس کے مرتب اور اس کی نشرواشاعت میں معاون ہر فرد کو جزائے خیر سے نوازے ۔آمین
بندۂ عاجز
عمران شہزاد تارڑ 
ڈائریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
fatimapk92@gmail.com
www.dawatetohid.blogspot.com
facebook:fatima Islamic centre
whatsAp:+96176390670
whatsApp+923462115913
whatsApp:+923004510041

جادو جنات اور علاج قسط نمبرA9

(جادو جنات اور علاج قسط نمبرA9)

*کتاب:شریر جادوگروں کا قلع قمع کرنے والی تلوار*
*مئولف: الشیخ وحید عبدالسلام بالی حفظٰہ للہ*'
*ترجمہ: ڈاکٹر حافظ محمد اسحٰق زاھد*-
             *مکتبہ اسلامیہ*
*یونیکوڈ فارمیٹ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان*
چوتھا حصہ:
جادوگر جنوں کو کیسے حاضر کرتا ہے؟
جادوگر اور شیطانوں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ:
جادوگر اور شیطان کے درمیان اکثر و بیشتر ایک معاہدہ طے پاتا ہے، جس کے مطابق جادوگر کو کچھ شرکیہ یا کفریہ کام چھپ کر یا علیٰ الاعلان کرنا ہوتے ہیں اور اس کے بدلے میں شیطان کو جادوگر کی خدمت کرنا ہوتی ہے یا اس کےلئے خدمت گار مہیا کرنے ہوتے ہیں، کیونکہ جس شیطان کے ساتھ جادوگر معاہدہ کرتا ہے وہ جنوں اور شیطانوں کے کسی ایک قبیلے کا سردار ہوتا ہے، چنانچہ وہ اپنے قبیلے کے کسی بیوقوف کو احکامات جاری کرتا ہے کہ وہ اس جادوگر کا ساتھ دے اور اس کی ہر بات تسلیم کرے چاہے وہ واقعات کی خبریں لانے کا کہے، یا دو آدمیوں کے درمیان جدائی ڈالنے یا ان میں محبت پیدا کر دینے کا حکم دے یا خاوند کو اس کی بیوی سے الگ کر دینے کا آرڈر جاری کرے۔۔۔۔۔(مزید تفصیل کے لئے اس کتاب کا چھٹا حصہ دیکھئے)۔۔۔۔۔ اس طرح جادوگر اس جن کو اپنی پسند کے برے کاموں کے لئےاستعمال کرتا ہے، اگر جن  اس کی نافرمانی کرے تو جادوگر اس کے قبیلے کے سردار سے رابطہ کرتا ہے اور مختلف تحائف پیش کر کے اس کو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس سردار کی تعظیم کرتا ہے اور اسی کو اپنا مدددگار تصور کرتا ہے، چنانچہ وہ سردار اس جن کو  سزا دیتا ہے اور اس کو جادوگر کی خدمت کرنےیا اس کے لئے خدمت گار مہیا کرنے کا حکم صادر کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جادوگر اور اس کی خدمت کے لئے مقرر کئے گئے جن کے درمیان نفرت ہوتی ہے اور یہ جن خود جادوگر کو یا اس کے گھر والوں کوپریشان کیے رکھتا ہے، چنانچہ جادوگر ہمیشہ سردرد اور بےخوابی کا شکار رہتا ہے اور رات کے وقت اس پر گھبراہٹ طاری رہتی ہے، بلکہ گھٹیا قسم کے جادوگر تو اولاد سے بھی محروم ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے خدمت گار جن ان کی اولاد کو ماں کے پیٹ میں ہی مار دیتے ہیں اور یہ بات خودجادوگر اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ اور کئی جادوگر تو صرف اس لئے جادو کا پیشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ ان کو اولاد کی نعمت عطا ہو۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک خاتون کا علاج کیا جس پر جادو کیا گیا تھا، میں نے اس پر جب قرآنِ مجید  کو پڑھا تو جن خاتون کی زبان سے بولا: میں اس سے نہیں نکل سکتا۔
تم کسی ایسی جگہ پر چلے جانا جہاں جادوگر تمہارا پتہ نہ چلا سکے!
وہ میرے پیچھے دوسرے جنوں کو بھیج کر مجھے پکڑوا لے گا۔
اگر تم اسلام قبول کرلو اور سچے دل سے توبہ کر لو اور سچے دل سے توبہ کر لو تو میں  تمہیں ایسی قرآنی آت سکھلا دوں گا جو تمہیں کافر جنات کے شر سے بچا لیں گی۔
نہیں ، میں ہر گز اسلام قبول نہیں کروں گا اور عیسائی ہی رہوں گا۔
چلوخیر، دین میں جبر نہیں ہے، البتہ  اس عورت سے تمہارا نکل جانا ضروری ہے!
میں ہر گز نہیں نکلوں گا۔
میں تمہیں نکال دینے کی طاقت رکھتا ہوں(اللہ کی مدد سے)، ابھی میں قرآن پڑھوں گا اور تم جل جاؤ گے۔
پھر میں نے اسے شدید مارا، اور آخر کار کہنے لگا: میں نکل جاؤں گا!!
اور اس طرح وہ الحمدللہ اس خاتون سے نکل کر چلا گیا۔ اور  یہ بات یقینی ہے کہ جادوگر جس قدر زیادہ کفریہ کام کرے گا جن اتنا زیادہ اس کے اَحکامات کو مانیں گے اور بڑی تیزی کے ساتھ ان پر عمل کریں گے، اور وہ جتنا کفریہ  کاموں کے قریب کم جائے گا، جنات اس کی باتوں پر اتنا ہی کم عمل کریں گے۔
جادوگر جنوں کو کیسے حاضر کرتا ہے؟
اس کے بہت سارے طریقے ہیں اور ہر ایک میں شرک یا واضح شرک موجود ہوتا ہے، میں یہاں آٹھ طریقے ذکر کروں گا اور ہر طریقے میں جس طرح سے کفر و شرک موجود ہوتا ہے، اس کی وضاحت کروں گا، البتہ اس ضمن میں شدید اختصار کروں گا اور ہر طریقے کی پوری تفصیلات ہر گز ذکر نہیں کروں گا تاکہ کوئی شخص اسے آزما نہ سکے۔
ہر طریقے میں موجود  کفر و شرک کی وضاحت کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کئی لوگ  قرآنی علاج اور جادو میں فرق نہیں کر پاتے، حالانکہ پہلا طریقۂ علاج ایمانی اور دوسرا شیطانی ہے، اور اس سلسلے میں مزید اِبہام اس وقت پیدا ہو جاتا ہے جب کئی جادوگر اپنے کفریہ تعویذات آہستہ آواز میں اور قرآنی آیات اونچی آواز میں پڑھتے ہیں، چنانچہ مریض یہ سمجھتا ہے کہ اس کا علاج قرآن کے ذریعہ ہو رہا ہے حالانکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ الغرض مندرجہ ذیل طریقے ذکر کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ میرے مسلمان بھائی گمراہی اور شر کے راستوں سے بچ جائیں اور مجرم پیشہ لوگوں کا راستہ کھل کر سامنے آ جائے۔
پہلاطریقہ
جادوگر ناپاکی کی حالت میں ایک تاریک کمرے میں بیٹھ جاتا ہے، پھر اس میں آگ جلاتا ہے اور اس پر دھونی کو رکھ دیتا ہے، اگر اس کا مقصد نفرت پیدا کرنا یا  میاں بیوی میں جدائی ڈالنا ہو تو بدبودار دھونی آگ پر رکھ دیتا ہے، اور اگر اس کا مقصد محبت پیدا کرنا یا جن میاں بیوی پر جادو کیا گیا تھا اور وہ ایک دوسرے کے قریب نہیں جاسکتے تھے، ان سے جادو کے اثر کو ختم کرنا ہو تو وہ آگ پر خوشبودار دھونی رکھتا ہے، پھر شرکیہ تعویذات جو جادوگر کے خاص طلسم ہوتے ہیں، ان کو پڑھنا شروع کر دیتا ہے اور جنوں کو ان کے سردار کی قسم دیتا ہے اور اس کا واسطہ دے کر ان سے مختلف مطالبات کرتا ہے۔۔۔ اسی دوران اسے کتے کی شکل میں یا اژدھے یا کسی اور شکل میں ایک خیالی تصویر نظر آتی ہے جسے وہ اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے اَحکامات جاری کرتا ہے۔  اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اسے کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ اس کے کانوں میں ایک مخصوص قسم کی آواز پڑتی ہے۔ اور کبھی کبھار یوں بھی ہوتا ہے کہ اسے کوئی آواز بھی سنائی نہیں دیتی اور اسے جس شخص پر جادو کرنا ہوتا ہے، وہ اس کے بال یا اس کا کوئی کپڑا منگو لیتا ہے جس سے اس شخص کے پسینے کی بو آ رہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ اور پھر اسے جو کچھ کرنا ہوتا ہے اس کے متعلق وہ جنوں کو حکم جاری کر دیتا ہے۔
اس طریقے میں درج ذیل باتیں نمایاں ہیں:
1۔ جنات تاریک کمروں کو پسند کرتے ہیں۔
2۔ جنوں کو ایسی دھونی کی بو سے غذا ملتی ہے جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو۔
3۔ جنات ناپاکی کو پسند کرتے ہیں اور شیطان ناپاک لوگوں کے بہت قریب ہوتے ہیں۔
جاری ہے.......

ہماری پوسٹس پڑھنے کیلئے ہمارا بلاگ یا ہمارا گروپ جوائن کریں-

whatsApp:00923462115913
whatsApp: 00923004510041
fatimapk92@gmail.com
www.facebook.com/fatimaislamiccenter
http://www.hamariweb.com/articles/userarticles.aspx?id=229348
http://www.dawatetohid.blogspot.com/

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...