Friday 25 March 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,108

'اسلام اور خانقاہی نظام'
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر108)
یہاں میں ایک اپنی آپ بیتی ضرور بتانا چاہونگا کہ آج سے کافی عرصہ پہلے جب میری عمر بمشکل9-10 سال ہو گی ہمارے محلے میں ایک دو گھروں میں ٹی وی ہوا کرتا تھا میں بھی ان کے گھر اتوار کے دن انڈین فلم دیکھنے جاتا تھا اُس دن جو فلم دیکھی اس میں ہندو ہیرو  نے ہیرؤئین کو ایک میلے میں دیکھا بالکل ایسا ہی میلہ تھا جیسا ہمارے پاکستان میں درباروں پر میلہ لگتا ہے ایسے ہی گانے چل رہے تھے، عورتیں، مرد ڈانس کر رہے تھے، جوئے کے اڈوں پر جوا لگ رہا تھا سرکس اور موت کے کنوے چل رہے تهے وغیرہ وغیرہ جب فلم ختم ہوئی اور میں واپس گھر کی طرف جا رہا تھا تو راستے میں ہی میرے دل کو ایک بات پریشان کیئے جارہی تھی کہ اگر ہندؤ لوگ بھی میلے لگاتے ہیں جیسے ہم لوگ لگاتے ہیں تو ہم میں اور ہندؤوں میں کون صحیح ہے؟؟؟یعنی یا تو ہم اپنے دین کے خلاف کام کر رہے ہیں اور یا پھر ہندو اپنے مذہب کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اور یہاں ایک بات اور بھی بتا دوں کہ میں ۱۵ سال تک میلوں میں شرکت کرتا رہا ہوں اس کے بعد اللہ نے ہدایت عطاء فرمائی الحمدللہ۔اور جب بڑا ہوا تو اس معاملے میں تحقیق کی تو الحمدللہ، اللہ نے حق بات کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ یہ عرس و میلے اسلام میں بالکل بھی نہیں ہیں بلکہ یہ اصل میں کفار ہندؤوں کی دیکھا دیکھی بعض جاہل قسم کے لوگوں نے اسلام میں داخل کرنے کی ناکام کوشش کی ہے صرف اپنے پیٹ کی دوزخ بھرنے کے لئے۔ اللہ ان کو بھی ہدایت دے کہ وہ اصل دین قرآن و سنت کی طرف آ جائیں آمین۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ میلہ وغیرہ کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟نبی ﷺ کی ایک حدیث پیش کرتا ہوں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے گھروں کو قبریں اورمیری قبر کو عید "خوشی کا دن" جمع ہونے کا دن"مت بنانا بلکہ مجھ پر درود بھیجنا تم جہاں بھی ہو گے وہیں سے تمھارا درود مجھ تک پہنچ جائے گا۔سنن ابودائود:جلد۲:حدیث نمبر۲۰۲۴​اس میں نبیﷺ کا واضح ارشاد مبارک ہے کہ میری قبر کو میلہ گاہ یعنی جمع ہونے والی جگہ نہ بنانا، اگر ایسا عمل نبیوں کے امام محمدﷺ کی قبر مبارک پر منع فرما دیا گیا ہے تو کسی غیر نبی کی قبر پر تو کسی قیمت پر جائز نہیں ہوسکتا ہے مگر ہمارے ہاں بہت سے لوگ اس ممنوع عمل کو بڑی باقاعدگی سے بجا لاتے ہیں اور نام بھی اس کو اسلام کا دیتے ہیں مگر وہ اس پر کوئی ایک بھی قرآن و صحیح حدیث سے دلیل نہیں دے سکتے ہیں، میلہ کے متعلق ایک اور حدیث بھی ہے کہ
حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرے گا۔ وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میں نے بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ کیا بوانہ میں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی وہاں پوجا کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں پھر آپﷺ نے پوچھا کیا وہاں کفار کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ تو اپنی نذر پوری کر کیونکہ گناہ میں نذر کا پورا کرنا جائز نہیں ہے اور اس چیز میں نذر لازم نہیں آتی جس میں انسان کا کوئی اختیار نہ ہو۔سنن ابودائود:جلد۲:موضوع کتاب:قسم کھانے اور نذر (منت ) ماننے کا بیان: اس کا بیان کہ نذر کا پورا کرنا ضروری ہے اس حدیث شریف سے واضح ہوا کہ یہ میلہ لگانا کفار اور مشرکین کا عمل ہے اور دوسرا ایک اور بات بھی معلوم ہوئی کہ کسی ایسی جگہ جہاں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہو وہاں اللہ کی عبادت کرنا بھی منع ہے کیونکہ نبیﷺ نے اس کو واضح ارشاد فرما کر پوچھا کہ کبھی وہاں کسی بت کی پوجا پاٹ تو نہیں ہوتی تھی؟جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب نفی میں دیا تو آپﷺ نے نذر پوری کرنے کی اجازت مرہمت فرمائی اور اگر جواب اثبات میں ملتا تو یقیناً آپﷺ نے نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دینی تھی کیونکہ کوئی یہ غلط فہمی سے سمجھ سکتا تھا کہ دیکھو جی فلاں بت کی یاد تازہ کی جارہی ہے۔اب ایک اور حدیث پیش کرتا ہوں جس میں قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے نہیں ہوئے (یعنی دوبارہ تندرست نہیں ہوئے) اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر آپ کو اس بات کا خیال نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قبر مبارک کو ظاہر کر دیتے سوائے اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔صحیح مسلم:جلد۱:باب:قبروں پر مسجد بنانے اور ان پر مردوں کی تصویریں رکھنے اور ان کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت کا بیان.
ہمارے پیارے نبی محمدﷺ کا رُتبہ تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ بلند و بالا ہے امتیوں کی تو بات ہی نہ کی جائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے معاشرے میں قبروں پر سجدے  رکوع کیئے جا رہے ہیں  اور کوئی بھی ان کو روکنے والا نہیں ہے اگر ان کو روکا جائے تو کہتے ہیں کہ ہم تو تعظیمی سجدہ کرتے ہیں اور جب کہ اسلام میں تعظیمی سجدہ بھی حرام ہے اس پر حدیث پیش کرتا ہوں۔
حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حیرہ میں آیا (حیرہ کوفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے) تو میں نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ اپنے سردار کو (تعظیم کے طور پر) سجدہ کرتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ ان کے مقابلہ میں تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (تعظیماً) سجدہ کیا جائے۔ پھر جب میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے کہا۔ میں حیران رہ گیا تھا اور میں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکے مقابلہ میں اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا بھلا کیا تو جب میری قبر پر آئے گا تو سجدہ کرے گا؟ میں نے کہا نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ (تو پھر زندگی میں بھی کسی کو سجدہ نہ کرو) (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا) اگر میں کسی کے لیے سجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں۔ اس حق کی بنا پر جو اللہ تعالی نے ان پر مقرر کیا ہے۔سنن ابودائود:جلد:۲:موضوع کتاب:نکاح کابیان،
عورت پر شوہر کا حق کیا ہےاس حدیث سے ہمیں بہت سے سبق ملتے ہیں ان میں سے دو یہ ہیں کہ ایک تو کسی کو بھی تعظیمی سجدہ نہیں کیا جاسکتا یہ قطعی حرام ہے اور دوسرا کسی قبر پر بھی سجدہ نہیں کیا جاسکتا بے شک وہ قبر نبیﷺ کی ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اس سے ہمیں نبیﷺ نے منع کیا ہے اگر ہم واقعی اللہ اور نبیﷺ سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اللہ اور نبیﷺ سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے اور جو ایسا کرے گا اس کا انجام اللہ کی ناراضگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسولﷺ کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالٰی سننے والا، جاننے والا ہے۔الحجرات:۱
اللہ اور رسولﷺ سے آگے بڑھنا یہی ہے کہ ان کے احکامات کو پسِ پشت ڈال دیا جائے اور اپنی من مانی کی جائے یا کسی غیر نبی کی بات کو اللہ اور نبیﷺ کی بات کے مقابلے پر قبول کیا جائے۔اللہ ہمیں صرف قرآن و سنت کی ہی پیروی کرنے کی توفیق دے آمین۔
جو کچھ خرافات شرک و بدعت میلوں میں سرانجام دی جاتی ہیں جو کہ مکمل طور پر قرآن و سنت کے خلاف امور ہیں اگر میں ان خرافات پر تفصیل سے بات لکھنے بیٹھ جاؤں تو مضمون بہت لمبا ہو جائے گا اس لیے مختصر بات کر رہا ہوں۔اگر کسی بھائی ، بہن کو ان خرافات کے خلاف دلائل چاہیے ہوں تو وہ  مجھ سے میری اس ای میل پر رابطہ کرکے منگوا سکتا ہے۔ (fatimapk92@gmail.com) اور بعض لو گ کہتے ہیں کہ ہم وہاں ان گناہ والے کاموں کے لئے نہیں جاتے بلکہ ہم تو فاتحہ خوانی کے لیئے جاتے ہیں،اس کا حل یہ ہے کہ اگر فاتحہ خوانی ہی کرنی ہے تو میلہ کے دن سے پہلے یا بعد میں بھی جاکر کی جاسکتی ہے لازمی اس دن جاکر ایک برُائی کے کام کی رونق بڑھانی ہے اگراس وقت اللہ کا عذاب نازل ہوجائے تو وہ بھی انہی میں شمار نہیں ہوگا کیا؟اب ہم دیکھتے ہیں کہ مشرکینِ مکہ کی عبادت کیسی ہوا کرتی تھی۔
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَةً ۭ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
اور خود ان کی نماز بیت اللہ کے پاس سیٹیاں بجانے، اور تالیاں پیٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتی، سو اب چکھو تم لوگ عذاب اپنے اس کفر کے بدلے میں جو تم کرتے رہے تھے،(الانفال:۳۵)
اس آیت مبارکہ میں تالیاں بجاناں اور سیٹیاں مارنا عبادت بتایا گیا ہے بالکل ایسے ہی جیسے آجکل لوگ قوالی کو ثواب کا کام سمجھ کر سنتے ہیں اور میلوں میں ایسے ایسے بیہودہ کام کیئے جاتے ہیں کہ ایسے کام مشرکینِ مکہ نے بھی نہیں کیئے ہوں گے اس لیے بھائیو اور بہنوں اپنے ایمان کی حفاظت کریں اور ایسی سبھی رسومات و رواجوں کا بائیکاٹ کریں اور لوگوں کو بھی ان برُی رسومات سے روک کر اپنا دینی فریضہ ادا کریں۔ جزاکم اللہ خیرا
جاری ہے.....
www.ficpk.blogspot.com
تالیف:عمران شہزاد تارڑ'ڈئریکٹرفاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...