Wednesday 9 March 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،102

⁠⁠⁠⁠,اسلام اور خانقاہی،
 (گزشتہ سے منسلک قسط نمبر102)
 اب ہم دربار کے اندر چلے گئے:ہمارے ساتھ دربار کا خادم ممتاز تھا ،اس نے دربار کا تالا کھولا ،یہ بنوں کا پٹھان ہے ،کہہ رہا تھا:میں دس سال سے یہاں رہ رہا ہوں ،اس کی دی ہوئی معلومات اور اس دربار کی طرف سے شائع ہونے والے ماہنامہ 'المعصوم 'اپریل ۱۹۹۱ء کے مطابق مزار پر بیس لاکھ روپے خرچ کئے گئے ،اس کے نقش پر تین لاکھ مزید خرچ کئے گئے،یہاں پر ایک بات بتاتا چلوں کہ مزارں پر جتنا زیادہ خرچ کر کے ان کی زیب و زینت اور نقش ونگار کیا جائے گا اتنے ہی زیادہ لوگ ان قبروں پرحاضریاں دیں گے اور ان قبروں کے ٹھیکیداروں کو اتنی ہی زیادہ آمدنی ہو گی، بہرحال..!میرے سامنے مسلم کی حدیث ہے جس میں آپ ﷺ نے پکی قبر بنانے سے منع فرمایاہے(مسلم:۹۷۰)مگر یہاں ۲۳لاکھ خرچ کر کے فرمان رسول ﷺ کا مذاق اڑایاگیاہے،یہ بات۱۹۹۱ء کی ہے اب تو مزید لاکھوں روپے خرچ کر کے اس مزار کو عالی شان بنا دیا گیا ہے،میرے نبی ﷺ نے قبرکی مجاوری سے منع فرمایا ہے(مسلم:۹۷۱)لیکن اس مزار پر مجاوروں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں،قرآن مجید نے فضول خرچی سے منع کیا اور ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا:بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان لعین کے بھائی ہیں(بنی اسرائیل :۲۷)تو اس مزار پر مینار پاکستان جیسا بیش قیمت عمارت والا ڈیزائن بنا دیا گیا ،ہمارے دین اسلام میں تو قبروں پر چراغ تک جلانا جائز نہیں تو یہاں میں دیکھ رہا تھا کہ انتہائی قیمتی اور نفیس فانوس درمیان میں لٹک رہا ہے،بقول شاعر:ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی۔گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن، اللہ کے رسول ﷺ نے قبر پر لکھنے سے منع فرمایاہے (ابن ماجہ:۱۵۶۳)مگر یہاں پر کتبہ لگا کر وہ مبالغہ آرائی کی گئی کی جس مبالغے سے اللہ کے رسول ﷺ نے خود اپنے بارے میں بھی منع فرمایا:میری تعریف میں مبالغہ نہ کرو جس طرح عیسیٰ ابن مریم ؑ کی تعریف میں عیسائیوں نے مبالغہ کیا،بس بات یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں،لہٰذا مجھے اللہ تعالیٰ کا بندہ اور رسول کہو(البخاری:۳۴۴۵) دربارپر لگے ہوئے کتبہ کی مبالغہ آمیز عمارت:صاحب دربار کی قبر پر کتبے کی انتہائی مبالغہ آمیز عبارت کچھ یوں لکھی ہوئی ہے:محبوب سبحانی ،قطب ربانی ،غوث صمدانی ،مطلع انوار ربانی۔شاہباز لا مکانی ،شیخ المشائخ ،قبلہ عالم ،زریں بخت،سلطان الاولیاء ،اعلیٰ حضرت،عظیم البرکت،والا درجات،الحاج خواجہ صوفی نواب الدین ،ان القاب کا مطلب کچھ اس طرح ہے کہ مسمی نواب دین 'اللہ' کا محبوب ہے ،رب کی طرف سے قطب ہے،اللہ کی طرف سے غوث ہے،رب انوار پھوٹنے کی جگہ ہے،عالم اخروی کا اڑتا ہواطشاہباز ہے،اہل دنیا کا قبلہ عالم ہے،سنہری بختوں والا،ولیوں کا سلطان ،بڑی برکتوں اور درجوں والا،بڑا بلند پایہ حضرت ،کئی حج کرنے والا صوافی اور خواجہ ہے،یہ سب کچھ جو اس حضرت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے،ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ یہ سب کچھ واقعی اللہ نے دیا ہے...؟ اللہ کی طرف سے کسی کو یوں اعزازات و القابات دینے کی خبر تو بذریعہ الہام ہی ہو سکتی ہے جبکہ وحی جو محمد ﷺ پر اتاری گئی ،اس سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ اللہ اس قسم کی باتوں کو سرے سے مانتے ہی نہیں،بلکہ وہ تو تردید فرمارہے ہیں،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:تم لوگ اللہ کے سوا محض بناوٹی ناموں کی عبادت کرتے ہو جنھیں تم نے اور تمھارے باپ دادا نے تجویز کر رکھا ہے،اللہ تعالیٰ نے اس پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی(یوسف:۴۰) اللہ تعالیٰ نے انکار کر دیا ہے ،یہ غوث ،قطب ،قبلہ ،وغیرہ کے جو القاب ہیں،ماننے والوں نے خود ہی بزرگوں کو دے رکھے ہیں،اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں کہا کہ فلاں میرا غوث ہے فلاں میرا قطب یا قلندر ہے،الغرض دربار پر ایک ایک شے اور عمل اللہ کے رسولﷺ کے فرامین کے الٹ دکھلائی دے رہا ہے،جیسے یہ سب کام کسی ضد میں پورے منصوبے کے ساتھ کئے گئے ہوں، کھدی ہوئی قبر:صوفی نواب دین کی قبر کے ساتھ ایک قبر کی جگہ خالی تھی ،میں نے مجاور ممتاز سے پوچھا :یہ خالی جگہ کس کے لئے ہے؟تو وہ انتہائی عقیدت کے ساتھ کہنے لگا:یہ جگہ خواجہ محمد معصوم کیلئے ہے،یہ بالکل تیار ہے ،خواجہ صاحب جونہی پردہ فرمائیں گے تو اس جگہ تشریف لائیں گے،لہٰذا اب خواجہ مرنے کے بعد یہاں دفن ہو چکے ہیں،اس کے پیچھے دیوار پر عبارت کچھ یوں لکھ دی گئی ہے:پیر طریقت قیوم پنجم خواجہ خواجگان الحاج خواجہ محمد معصوم صاحب، صوفی نواب دین کا صاحبزادہ خواجہ معصوم تو زندگی میں ہی 'قیوم 'بن بیٹھا آئیے تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں کہ ان سے پہلے جو' قیوم' ہو گزرے وہ کون ہیں. .؟حضرات مجددیہ چار بزرگوں کی قومیت کے قائل ہیں،قیوم اول:حضرت مجدد الف ثانی،قیوم ثانی:خواجہ محمد معصوم ،قیوم ثالث:خواجہ محمد زبیر اورطان کے بعد بھی بعض بزرگوں مثلاً شاہ احمد ابو سعید حالات میں تفویض قیومیت کا ذکر ملتا ہے،لیکن عجیب بات ہے،کہ'قیوم 'کو صفات نبی سے نہیں صفات الہٰیہ سے متصف کیا جاتاہے(روضۃ القیومیہ بحوالہ رود کوثر ۲۹۸،ازشیخ محمد اکرم )صفات الہٰیہ سے متصف کیوں نہ کریں کہ انھیں شوق ہی' الہ' بننے کا ہے،میں نے ممتاز سے پوچھا :خواجہ معصوم' قیوم'. کیسے بنا؟تو وہ کہنے لگا خواجہ محمد معصوم حضرت مجدد الف ثانی کے بیٹے تھے اور وہ' قیوم' دوم تھے،انھیں کے نام پر حضرت نواب دین نے اپنے بیٹے کا نام خواجہ محمد معصوم رکھا ہے،پھر یہ اپنے بیٹے کو لے کر سر ہند شریف گئے ،وہاں سے انھیں امر ہوا اور حضرت نے کہا :اسے شہباز طریقت اور' قیوم پنجم' کا لقب دیتا ہوں،تو اب یہ ہمارا 'قیوم پنجم ہے، جاری ہے

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...