Wednesday 9 March 2016

، اسلام اور خانقاہی نظام،103

⁠⁠⁠⁠ ⁠⁠⁠، اسلام اور خانقاہی نظام،
 (گزشتہ سے منسلک قسط نمبر103)
 الغرض:یہ القابات تفویض کرنے اور ان بزرگوں میں اختیاراتقسیم کرنے کا یہ ایسا گورکھ دھندا ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:یہ تقسیم تو بڑی دھاندلی والی ہے ،یہ سارا دھندا اس کے سوا"کچھ نہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں،اللہ نے ان کیلئے کوئی دلیل نہیں اتاری،حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم وگمان کے پیچھے لگے ہوئے اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں۔حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے(النجم:۲۲تا۲۳) مگر طریقت کے کوچے میں اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی دلیل اور آجانے والی ہدایت کو پوچھتا کون ہے!یہاں تو کشف اور خوابوں پر کام چلتا ہے،سینہ بسینہ منتقل ہونے والے علم اور امر سے سلسلہ ہائے تصوف میں بیعت کے نام سے لوگوں کو جکڑا جاتا ہے،تصوف وطریقت کے نام یہ جکڑ بندیاں نہ ہوتیں تو بھلا ان بزرگوں کو پانچ قیوم یعنی پانچ رب ماننے کی کون جسارت کرتا؟مگر لوگ ہیں کہ مانے چلے جا رہے ہیں!جبکہ اللہ اپنی کتاب ہدایت میں لوگوں کو ہدایت کی طرف یوں بلا رہے ہیں:اگر زمین و آسمان میں ایک اللہ کے سوا کئی اور' الہ ' ہوتے تو زمین و آسمان کا نظام بگڑ جاتا۔لہٰذا عرش کا مالک اللہ تعالی پاک ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں(الانبیاء:۲۲) اب غور فرمایے!اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ میں عرش کا رب ہوں اور قیوم کہہ رہا ہے کہ نہیں بلکہ کرسی اور لوح و قلم بھی میرے سائے کے نیچے ہیں...۔تو جھگڑا تو برپا ہو گیا جبکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو سمجھا رہا ہے کہ اگر میرے علاوہ کوئی' الہ'یعنی مشکل کشا اور قیوم وغیرہ ہوتے تو یہ کائنات کب کی برباد ہوگئی ہوتی،یہ جو'جعلی قیوم 'اپنی جگہ مستحکم اور اپنی قبر کی دیکھ بھال کیلئے لوگوں کے محتاج ہیں،تو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی' الحی' اور' القیوم 'ہے ،اورطزمین وآسمان کی وہ اکیلا ہی حفاظت کر رہا ہے اور انھیں تھامے ہوئے ہے،اس دربار کی طرف سے صاحبزادہ محمد حفیظ الرحمان معصومی اپنا ماہنامہ رسالہ' المعصوم 'پوسٹ کرتے ہیں،میں نے یہ رسالہ لیا اور پڑھنے لگا ،اس رسالے کا وہ مضمون جس کی تحقیق کیلئے میں یہاں آیا تھا ،وہ تفصیل کے ساتھ اس رسالہ میں موجود تھا،اس مضمون کی سرخی کچھ اس طرح تھی:دربارعالیہ موہری شریف میں؛53ویں سالانہ عرس مبارک رسول ؐ.... لوگو!ذرا ایک لمحہ کیلئے سوچو تو سہی ،عقل آخر کس کام کیلئے ہے!رسول اللہﷺ کا روضہ مبارک مدینے میں ہے ،اور آپﷺ کا عرس ہو رہا ہے پاکستان کے ایک قصبے موہری میں...،انھیں نام' محمد'ﷺسے عرس منانے کا کس نے کہا ہے،مدینے میں یہ عرس نہ تو صدیق اکبرؓنے منایا،نہ فاروق اعظمؓ نے،نہ عثمان غنیؓ نے ،نہ علی مرتضیٰؓنے،نہ دیگر صحابہ کرام نے،نہ بنو امیہ نے اور نہ بنو عباس نے،حتیٰ کہ ترکوں کی خلافت عثمانیہ کہ جن کے دور میں مزاروں اور عرسوں کا رواج ہوا انھیں بھی ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوئی ،کیونکر ہو گی....کہ رسول اللہ ﷺ نے فوت ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے یوں فریاد کہ:اے اللہ میری قبر کو میلہ گاہ نہ بننے دینا کہ اس کی پوجا ہونے لگے(موطاامام مالک:۸۵)علامہ البانی ؒ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے،پھر اپنے امتیوں کو مخاطب کر کے فرمایا:میری قبر پر عرس نہ لگانا(مسند احمد:۲/۶۷)مگر یہ قبروں کی کمائیاں کھانے والے، عالی شان محلوں کے مالک !اس پیارے نبی ﷺ کو کہ جو نبیوں کے امام ہیں کس جائے ظلم و شرک پر لے آئے ہیں،مقام نبوت سے اپنی قبر پرستانہ ولایت پر لے آئے ہیں،بھلا اس سے بڑھ کر کوئی اور گستاخی ہو سکتی ہے....؟موہری دربار پر جم غفیر ہے ،خواجہ معصوم ولایت کا بادشاہ بن بیٹھا ہے،زرق برق لباس کے ساتھ اپنے روحانی تخت پر جلوہ افروز ہے،اس دوران انتہائی قیمتی تاج سر پر رکھ کر اسی طرح تاج پوشی کی جاتی ہے ،جس طرح اکبر و جہانگیر وغیرہ کی تاج پوشی ہوتی تھی،ایک خطیب علامہ علی قادری تقریر کرتے ہوئے آخر پر کہتا ہے:حضور اکرم ﷺ کا قرب تلاش کرنا ہو تو کہاں جاؤ گے؟ان کا نور تو ہر شے میں موجود ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضور کا نور دیکھنا ہو تو مرشد کا چہرہ دیکھا کرو،دوسری طرف صحابہ کرامؓ کو بھی اللہ کے رسول سے سب سے بڑھ کر محبت تھی وہ بھی قرب کے متلاشی تھے،جیسا کہ ربیع بن کعب الاسلمیؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں:میں نبی ﷺ کے ہاں رات گزراکرتا تھا چنانچہ میں آپ ﷺ کیلئے پانی اور ضرورت کی کوئی چیز لایاتو آپ ﷺ نے مجھے کہا :کچھ مانگو !تو میں نے عرض کی:اے اللہ کے رسول !میں آپ ؐسے جنت میں آپؐکا ساتھ چاہتا ہوں ،آپ ﷺ نے فرمایا:اس کے علاوہ بھی کچھ مانگتا ہے؟میں نے کہا:میرے لیے جنت میں آپ کی مرافقت (رفاقت)ہی کافی ہے،چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:پھر بہت زیادہ سجدے کر کے میری معانت کر(تاکہ تو کثرت سجود کی وجہ سے جنت میں میرا پڑوس حاصل کر لے)(مسلم:۴۸۹)یعنی حضور کا قرب جنت میں آپ ﷺ کا قرب ہے اور یہ حضور کی سنت پر عمل کر کے اور صرف اور صرف اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر ملتا ہے،یہی خطیب ذرا آگے چل کے اپنی تقریر میں کہتا ہے :اللہ اکبر!کس کا عرس ہے...؟اللہ ! اللہ !جس کا ذکر جہاں ہوتا ہے وہ وہاں موجود ہوتا ہے،حضور اکرم کا ذکر کر رہے ہیں اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضور پر نور محمد مصطفیٰﷺمشاہدہ فرمارہے ہیں،یعنی شرکت فرما ہیں،اللہ کے رسول ﷺ کا ذکر تو پوری دنیا میں ہر وقت ہوتا رہتا ہے ،تو اہل دربار کے عقیدے کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ دنیا میں ہر جگہ ہر وقت موجود ہوتے ہیں،پھر ان کا عقیدہ یہ بھی کہ حضور ﷺ مختار کل ہیں،یعنی جو چاہیں کریں...!تو اب اس عالمی مبلغ خواجہ معصوم سے کوئی غیر مسلم یا کوئی مسلم سوال کرے!کہ امت خیر الانام ہر جگہ رسوا ہو رہی ہے فلسطین میں یہود کے ہاتھوں،کشمیر میں ہندوکے ہاتھوں ،برما میں بدھ متوں کے ہاتھوں،افغانستان ،عراق میں عیسائی اور یہود کے ہاتھوں،اور دنیا میں بیشتر جگہ صلیبیوں کے ہاتھوں تو رسول اللہ ﷺ ہر جگہ موجود ہیں اور مختار کل بھی ہیں ان سب ہاتھوں کو توڑ کیوں نہیں دیتے ؟آپ ﷺ تو بیگانوں پر ظلم برداشت نہیں کرتے تھے ،واقعہ فاجعہ پر غور کریں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے وہ جاں نثار صحابہ جو معلم انسانیت کے شاگرد تھے،کفار کا ایک گروہ اللہ کے رسول ؐسے یہ کہہ کر انھیں اپنے ساتھ لے گیا کہ یہ ہمیں دین کی تبلیغ کریں گے،ہم نئے نئے مسلمان ہوئے ہین،اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے شاگردوں کو بھیج دیا،کفار اپنے دھوکے میں کامیاب ہوگئے ،انھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو راستے میں شہید کر دیا،آپ ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ ؐدھوکے باز کافروں کیلئے کئی دن بدعاکرتے رہے(البخاری:۴۰۸۶)اے حب رسول ﷺ کا دعویٰ کرنے والو!اس واقعہ کے بارے آپ کا عقیدہ کیا کہتا ہے؟کیا اللہ کے رسولؐ کو علم تھا کہ میرے صحابہؓ کے ساتھ یہ ظلم ہو گا؟اگر پتا تھا تو پھر جانے کیوں دیا ؟اور کیا سفر میں صحابہ کرامؓ کے ساتھ نہ تھے ؟تمہارے خواجہ کے میلے میں تو آگئے مگر کیا آپ ﷺ اپنے صحابہ کرامؓ کے پاس نہ تھے جب انہیں شہید کیا جا رہا تھا؟حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے حاضر وناظر اور مختار کل ہونے کا وہ عقیدہ گھڑا ہے جو قرآن مجید کے خلاف ہے،بلکہ ان درباروں پر ہونے والا ایک ایک عمل نبی ﷺ کی پوری زندگی کے خلاف ہے ،اور پیغمبر ﷺ کی عظمت کے منافی ہے،اور پھر اس سے بڑھ کر گستاخی کیا ہوگی کہ جہاں ڈھول کی تھاپ پر دھمال ،آتش بازی ،تالیوں کی گونج،ناچ گانے،جوئے کے اڈے،شرک وبدعت،بے حیائی اور ایسی بے ہودگیاں اور نا فرمانیاں ان مزاروں پر ہوںِ پھر کہنا کہ سیدنا محمد ﷺ دیکھ رہے ہیں اور شرکت فرما ہیں،اور ان قبروں کے ٹھکیداروں نے ان عرسوں پر حاضریاں دینے والوں کو مختلف اعمال وافعال کے فضائل اور اجروثواب متعین کئے ہوئے ہیں، حالانکہ کسی عمل پر ثواب دینا یا ثواب کا تعین کرنا کہ فلاں کام کرنے پر اس قدر ثواب ہو گا،اتنا اجر و ثواب ملے گا،یہ تو صرف اورصرف اللہ کا کام ہے،اور اللہ تعالیٰ جب بھی حکم دیتے ہیں تو اپنے پیغمبر کے ذریعے حکم دیتے ہیں،تو کسی جگہ کوکوئی مقام دینا کسی عمل پر ثواب کا اعلان کرنا ،یہ مقام نبوت ہے،اور مرتبہ رسالت کا ہے،ذراغور کریں!تو یہ لوگ کن کو سند بنا کر کیسے لوگوں کو دلیل بنا کر اپنے خانقاہی نظام کو دین اسلام ثابت کرنے کی ناکام کو شش کرتے ہیں،اور اہل توحید پر لعن طعن کرتے ہیں،
 جاری ہے www.ficpk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...