Friday 25 March 2016

اسلام اور خانقاہی نظامر,106

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر106)
میرا ایک دوست پیروں، فقیروں کو بہت زیادہ مانتا تھا۔اور وہ اکثر مزاروں پر لگے ہوئے عرسوں میں  شریک ہو کر فیض یابی کے واقعات مجهے سنایا کرتا تها. لیکن مجھے نام نہاد اور بناوٹی پیروں سے کوئی خاص دلچسپی نہ تهی۔البتہ اتنا ضرور سنا ہوا تها کہ وہابی ولیوں کی گستاخی کرتے ہیں. اور لوگوں کو  اولیاءکرام کے مزاروں پر جانے سے بهی روکتے ہیں. اور کہتے ہیں کہ یہ بزرگ مرنے کے بعد کسی قسم کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہوتے.
چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ یہ میرا دوست ہاتھ میں ایک اخبار پکڑ ے میرے پاس آیا اور اصرار کیا کہ حضرت بابا نوری بوری سرکار  کی درگاہ پر فلاں بزرگ کا عرس آ رہا ہے وہاں چلتے ہیں۔اور فیض یاب ہو کر آتے ہیں...دیکهنا میرے مرشد کا کمال و حکمت اور نورانی چہرہ مبارک. ....میں نے پہلے تو انکار کیا لیکن جب اس نے مجهے اخبار پر عرس کے متعلق خبر دکھائی جو کچھ یوں تهی-:
'محفل ذکر حبیب ﷺ'
 ”بزم نور“ کے زیر اہتمام مورخہ 12 جولائی بروز جمعرات  2012ء بعد نماز عشاء محفل ذکر اور نعت خوانی آستانہ عالیہ حضرت قبلہ نوری بوری والی سرکار قلندر پاکؒ بمقام دربار شریف نزدکوٹ عبدالمالک شیخوپورہ روڈ لاہور منعقد ہوگی۔ شرکت فرما کر روحانی انوار سے فیض یاب ہوں۔ صلوٰة وسلام، ختم شریف اور اجتماعی دعا کے بعد حاضرین میں بااہتمام لنگر تقسیم ہوگا۔
جب میں نے یہ خبر پڑھی تو سوچنے لگا کہ اتنی با برکت اور پر رونق محفل سے وہابی آخر کیوں روکتے ہیں.وہابیوں کی اولیاء کرام سے دشمنی کا سبب آخرکار کیا ہے..؟ میں اپنے دوست کے ساتھ بابا نوری بوری سرکار کے مزار پر جانے کیلئے تیار ہو گیا..! میں آج تک کبھی کسی عرس پر نہیں گیا تھا، سوچا چلو دیکھ لیتے ہیں، شاید کوئی خاص بات نظر آ ہی جائے اور اپنی اصلاح بهی ہو جائے۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ جب میں مزار کے صحن میں داخل ہوا تو حیران رہ گیا، اندر تو میلے کا سماں تھا۔جس میں عورتیں بچے بوڑھے جوان سبهی شامل تهے. شہر لاہور اندھیرے میں ڈوبا تھا، مگر ادھر تو جیسے بابا نوری بوری سرکار کی خاص نگاہِ کرم تھی۔ایک روشنیوں کا شہر آباد تها...
قوالیوں کی محفلیں برپا تهیں۔کچھ لوگ  دیوانہ وار ناچ رہے تھے۔ میں نے کہا ناچنے دو، مجذوب لوگ ہیں، مست ہو گئے ہوں گے۔
بہرحال-! میں جیسے ہی مزار کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گیا، تو آنکھیں حیرت زدہ رہ گئیں کیونکہ بہت سی عورتیں گلے چاک کیے بال کهولے دیوانوں کی طرح دھمال ڈال رہی تھیں۔ میں نیچے اتر آیا۔ میں نے سوچا کوئی بات نہیں، خواتین کا بھی حق ہے کہ وہ اپنا وزن کم کریں۔
اللہ اللہ کرکے بابا نوری بوری سرکار کمرے سے برآمد ہوئے۔ سرکار جی نے ایک بوری نما دهوتی پہنی ہوئی تھی.میں نے سمجها شاید گرمی کے سبب بابا جی نے کپڑے اتار ہوئے ہیں. اور ان کے بال اتنے لمبے تھے کہ اس کی چوٹی تین سے چار بندے اٹھائے ہوئے تھے۔ شاید شیمپو بنانے والی کسی کمپنی نے بابا جی کو کسی مشہوری کی کوئی آفر کی ہو۔یا جو عورتیں ناچ رہی تهی انهوں نے بابا جی کی محبت میں اپنے بال سرکار جی کو بطور ہدیہ دیے ہوں. بہرحال-! مجهے ان گندے بالوں اور اس فیشن کی اصل حقیقت معلوم تو نہ ہو سکی-
خیر-! سرکار جی قوالیاں گانے والوں کے پاس جا کر بیٹھ گئے.....اور جاتے ہی سرکار جی نے وہ زبان استعمال کی جو یہاں کا غریب طبقہ صدر یا وزیراعظم کے بارے میں استعمال کرتا ہے۔
یعنی سادہ لفظوں میں گندی اور ننگیاں گالیاں شروع کر دیں... پھر کیا تھا، دھمال اتنی تیز ہو گئی جیسے مکئی کے دانے کڑاھی میں پھوٹ رہے ہوں۔سرکار جی بهی جذبات میں آگئے خود اٹھ کر دهمال ڈالنے سے تو معذور تهے اتنے میں کچھ عقیدت مندوں نے سرکار جی کی پشت(پیٹھ) کے نیچے ہاتھ رکھ کر سرکار جی کو اوپر نیچے کر کے دهمال ڈلوا رہے تهے.سرکار جی مزید جذبات میں آتے ہوئے فرماتے ہیں-:جس کی ترجمانی یہاں کا قوال کرتا ہوا کہتا ہے-کہ سرکار جی فرماتے ہیں:چاہے کوئی سنی،شیعہ یا وہابی ہووے جو دهمال نہیں ڈالے گا وہ علی پاک دا منکر اے.پهر سرکار جی نے دهیمی آواز میں سر گوشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں.جس کی پهر قوال لاوڈ اسپیکر پر ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہے سر کار حکم دیتے ہیں چاہے کوئی سنی شیعہ یا وہابی ہو اگر وہ دهمال نہیں ڈالے گا وہ بہن........ہو گا.غیرت گہوارہ نہیں کرتی کہ سرکار جی کی گندیاں اور ننگیاں گالیوں کو میں یہاں رقم کر کے ان صفحات کو آلودہ کروں.آگے جا کر سرکار جی مزید حکمت کی باتیں بتاتے ہوئے فرماتے ہیں جہاں بهی ہے کوئی وہ ادهر دهمال ڈالے اگر نہیں ڈالے گا میں اسکی بہن کو.......دوں گا.یہاں پر بهی ایسے نازیبا الفاظ اور بے غیرتی پر مبنی بکواس کی گئی کہ جس کو لکھنے کیلئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں.اس سے پہلے کہ میں یہاں حضرت نوری بوری سرکار کی مسلمانوں کی غیرت کو للکارنے والی بے حیائی  سے لبریز گالیاں درج کروں میری قلم کیوں نہ ٹوٹ جائے.....اور میری حیرانگی کی اس وقت انتہا ہوئی کہ جب سرکار جی گندی اور ننگیاں گالیاں دیتے ہوئے دهمال ڈالنے کو کہتے تو شرکاء محفل 'مرد و عورت قہقہہ لگاتے ہوئے دهمال ڈالنا شروع کر دیتے ہیں.اور عورتیں سر کے بال کهولے ہوئے دیوانوں کی طرح گردن کو گماتی ہوئی  مست ہو کر ناچ کود رہی ہیں. اور جو دھمال نہیں ڈالتا اس کو سرکار جی اپنی نورانی زبان سے ماں بہن کی گندی اور ننگی گالیاں دیتے  ہیں.یعنی درباری زبان میں فیض عطا کرتے ہیں.... میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک عقیدت مند نے سرکار جی کے قدموں میں ماتھا ٹیک کر نیاز مندی کا حق ادا کرتے ہوئے سرکار جی سے اپنی پشت پر قبولیت کی تھپکی وصول کی۔اور کچھ عقیدت مند پیسوں کو سرکار جی کے قدموں میں ایک ایک نوٹ کر کے پهینک رہے تهے..مجهے یہ سمجھ نہ آئی کہ یہ جو نوٹ نچهاور کیئے جا رہے ہیں یہ اس موج مستی کو دیکهنے کا ہدیہ ہیں یا کوئی اور مقصد......-اب جو وہاں قوالی ہو رہی تهی چند ایک شعر بهی سنتے جائیں-نہیں جانا مسجد مندر میں-رب بنایا پاک قلند نوں"بگڑی ہوئی گل بنانی اے-نچ نچ کے تقدیر بنانی اے"اج یار تے در ہو جاوے-پهر کعبے جانے دی لوڑ کی اے"جدوں جی کردہ حج کرنے نوں-لالن نوں سجدہ کر لئی دا" اسی ملاں کعبے کیوں جایئے ساڈا گهر بیهٹے سردا اے"اساں محشر وچ وی پاونی اے - دهمال شہباز قلندر دی"میں پاونی اے دهمال  نوری بوری والے..........یعنی اے میرے عقیدت مندوں تمہیں مسجد میں جانے  اور حج کرنے کی ضرورت نہیں ہے.بس تم یہاں دهمال ڈال کر یا سرکار کو سجدہ کر کے اپنی تقدیر کو بدلوا لیا کرو......صرف یہی بس نہیں آگے حضور سرکار فرماتے ہیں میں  قسم اٹھا کر اور دعویٰ سے کہتا ہوں جو دهمال نہیں ڈالے گا اس کی روز قیامت کبهی بخشش نہیں ہوگی....اب میں 'محفل ذکر حبیب ﷺ'جیسا کہ میں نے اخبار میں پڑھا تها سرکار جی کی نورانی کرنیں سن سن کر میں بزم نور چهوڑنے پر مجبور ہو چکا تها.کہ لوگوں کو تو دعوت ذکر حبیب اللہﷺ کی دی گئی تهی لیکن یہاں  تو ذکر شیطان کا ہو رہا ہے.... اب میں یہ بابرکت اور نورانی بزم نور چهوڑ کر باہر آ گیا  اور دیکهتا ہوں کہ مزار کے اندرونی احاطے میں لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ کچھ لوگ دروازے پر موجود کنڈی کو مندر کی گھنٹی کے طرز پر ہلا کر اپنی آمد کا اعلان کر رہے تھے۔ ایک ظاہراً پڑھا لکھا شخص بھی داخل ہوا اور آتے ہی قبر پر سر رکھ کر آہ و زاری کرنے اور اپنی مشکلات کے حل کا تقاضا کرنے لگا۔یہ قبر کس سرکار جی کی تهی یہ مجهے معلوم نہ ہو سکا....البتہ میرے صبر کی حد اس وقت ختم ہوئی جب ایک اور آدمی نے قبر کو سجدہ کر کے تعظیم کی حد پار  کر دی۔ میں فوراً باہر چلا آیا.............
وہ دن اور آج کا دن، میں کبھی کسی عرس پہ نہیں گیا۔ آپ اگر کبھی نوری بوری سرکار کے مزار پر گئے تو ان حالات و واقعات کا بخوبی نظارہ کریں گے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ والے نہیں ہیں۔۔ ضرور ہیں، یقیناً ہیں، اور قیامت تک رہیں گے،، مگر ان درباروں پر ان دین فروشوں کا قبضہ ہے جو مست ہیں، جن کو نہ دنیا کا پتا ہے نہ آخرت کا- سادہ لوح عوام کی عزت و ایمان اور مال کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے اور گمراہ کرنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.  
اور جاہل عوام ہے کہ پاکیزہ دین اسلام کو چھوڑ کر گالی گلوچ، ناچ گانے اور بے حیائی والے گندے دین' دین خانقاہی کو اپنی کامیابی و کامرانی سمجهے ہوئے ہے.اور اندهی تقلید کر کے ان سرکاروں اور گدی نشینوں کی ناجائز باتوں کو اللہ والوں کی باتیں کہہ کر ماننے ہوئے عمل کرتے ہیں. ........  جہالت کا شکار لوگ ہی ایسے سرکاروں اور پیروں  کے چنگل میں پھنستے ہیں۔اور اس نوری بوری سرکار کے عرس پر جانے کا مجهے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ حق اور باطل کو پرکهنے کا مجهے موقع مل گیا...
اب اگر کبهی کبهار مجهے اللہ کے نیک بندوں کی قبور یا قبرستان میں جانے کا موقع ملے تو میں ان سے اپنی دنیاوی پریشانی کا حل مانگنے نہیں، بلکہ انکی ارواح کے لئے ایصالِ ثواب کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں۔اور یہی دین اسلام کا طریقہ ہے.کیونکہ رسول اللہﷺ اہل ایمان کیلئے دعائے مغفرت کرنے کی تاکید فرمائی اور خود بهی آپﷺ کا یہ معمول تها.سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ بقیع(قبرستان) میں تشریف لے گئے اور اہل بقیع کیلئے دعا فرمائی میں نے اس بارے میں آپﷺ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا؛ مجهے (اللہ کی طرف سے)حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کیلئے دعا کروں (مسند احمد، مسلم، نسائی، موطا)
بہرحال-:میں نے یہ تمام گفتگو اپنی آنکھوں سے دیکهے مناظر اور غیر جانبدار ہو کر آپ کی خدمت میں پیش کی ہے. اس سے پہلے کہ آپ مجھ پر وہابی ہونے کا فتویٰ لگائیں میں ثبوت کے طور آپکو یوٹیوب پر نوری بوری سرکار کی خرافات کے متعلق لنک دیتا ہوں اور وزٹ کرتے ہوئے خود فیصلہ کریں کہ حق کیا ہے......
https://www.youtube.com/watch?v=67Th0cDgLpY
جاری ہے.....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...