Friday 25 March 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,110

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 110)
تم سب پیچھے ہٹ جاؤ،بابا جانے اور وہابی جانیں-:
اہلحدیث:ذوالفقار علی بٹ کی میڈیا سے گفتگو:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !میری تمام بھائیوں سے گزارش ہے سلام کے بعد کہ ہمارا جس طرح بھائی غلام مصطفیٰ نے بیان کیا ہے ،بالکل اسی طرح معاہدہ ہوا ہے ،یہ زبانی کلامی نہیں ہوا بلکہ اشٹام لکھا گیا ہے،اور ہم الحمد للہ اپنی زبان پر قائم ہیں،باجوہ صاحب بھی ان شاء اللہ اپنی زبان پر قائم ہیں،ہمارے پاس بھائی اقبال صاحب مصطفیٰ باجوہ صاحب یہ روالپنڈی سے تشریف لائے ہیں ،صبح جب انہوں نے بتایا کہ ہمارا اس موضوع پر مباہلہ ہے ہم نے ان سے کہا کہ ہم ان شاء اللہ آپ کے ساتھ ہیں،یہ ہمارے مسلک کے ہیں،ہم نے ان سے کہا کہ بالکل اسی طرح ہی ہے بابے ،ولی اللہ جب زندہ ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو کرامات دیتا ہے،ان سے دعائیں کرائی جاتی ہیں،سچے اولیاء اللہ سے دعاؤں کے ہم بھی قائل ہیں ِولیوں کو ہم بھی مانتے ہیں،جو ولیوں کو نہیں مانتے ہم بھی ان کو مسلمان نہیں مانتے ،لیکن ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ ولی فوت ہونے کے بعد کچھ بھی نہیں کر سکتے ،ہم یہ بھی کہتے ہیں:یہ مکھی بھی اپنی قبر سے نہیں اڑا سکتے ، اللہ تعالیٰ کہتا ہے:کہ یہ جو مکھی ان سے کھانا لے جاتی ہے اڑا کے یہ تو وہ بھی واپس نہیں کر سکتے،یہ کچھ بھی نہیں کر سکتے جن کی تم پوجا پاٹ کرتے ہو،یہ بھی میرے پیدا کیے ہوئے ہیں،انہوں نے کوئی چیز نہیں بنائی ۔ہمارا ان شاء اللہ پُر امن یہ صرف اصلاحی مباہلہ ہے،یا ہم بریلوی ہو جائیں گے یا یہ اہلحدیث ہو جائیں گے ،جوبھائی بابوں کو ماننے کا مسلک رکھتا ہے ،اس کو بابے کا واسطہ وہ پل پر چلا جائے ۔جن بھائیوں کی ہم ڈیوٹی لگائیں گے وہ درخت کاٹیں گے ،ان شاء اللہ تعالیٰ فیصلہ حق اور سچ کا ہو گا،ان شاء اللہ یہ ٹاہلی کا درخت سب کے سامنے کاٹا جائے گا ،ہمارا یہ کام برائے اصلاح ہے،حق کی تلاش ہے،میں شکریہ ادا کرتا ہوں جو بھائی یہاں تشریف لائے ہیں،آپ نے دور ہٹ کر نظارہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا ساتھ دیتا ہے یا کوئی بابا ہمیں نقصان پہنچاتا ہے،اس کے بعد اہل حدیث حضرات نے آرے اور کلہاڑے لے کر درخت کو کاٹنا شروع کردیا ،اور آیت :جَاءَ الحَقُّ وَزَھَقَ البَاطِلُ اونچی آواز میں پڑھنا شروع کر دیا ،سب سے پہلے کلہاڑا بھائی حبیب اللہ نے درخت پر مارا،اور مولانا محمد اسحاق خطیب جامع مسجد اہلحدیث باغ والی سانگلہ ہل کلہاڑے سے وار کیا ، اس کے بعد جن بھائیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی سب نے مل کر آرے چلانے شروع کر دے اور درخت (شیشم)کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اور ٹرالی پر لادنا شروع کر دیا،جب درخت ٹرالی پر لاد چکے تو دوبارہ انٹرویو اس طرح شروع ہوا۔
اہلحدیث:الحمد للہ ثم الحمد للہ ،اللہ تعالیٰ نے حق ،مسلک حق اہل حدیث کو فتح دی ہے،جو ہماری بات ہوئی تھی ،اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے یہ درخت کا ٹ دیا ہے،اور ماسٹر غلام مصطفیٰ باجوہ صاحب ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارے بھائی ہیں،میں امید کرتا ہوں جو انہوں نے ہم سے زبان کی ہے ،یہ ساری دنیا کے سامنے مسلک حق کا اعلان کریں گے ،اور میں باجوہ صاحب اپنے بھائی سے کہوں گا کہ اپنے کمنٹ دیں!
بریلوی: درخت لے جانے کی میں نے ان کو بات کہی ہے ،یہ اپنا پورادرخت لے جائیں،ٹھیک ہے جی انہوں نے ٹہنیاں کاٹ کر لا د لی ہیں،باقی درخت بھی یہ کاٹیں ،آج نہیں کاٹ سکتے بے شک کل آکے کاٹ لیں،
اہلحدیث:نہیں !نہیں!ہم آج ہی ان شاء اللہ کاٹ کے لے کر جائیں گے،بریلوی:آج ہی کاٹ کر لے جاؤ ،آپ کاٹ رہے ہو اس میں کوئی شک نہیں،میں نے ان سے یہ بات کہی ہے کہ آپ درخت کاٹ لو ،درخت بھی آپ کا ،لاکھ روپیہ میں انعام بھی دوں گا،جو میں نے بات کی ہے،پنجاب ٹی وی کا نمائندہ کہتا ہے اور دوسری بات اہل حدیث ہونے والی...؟
اہلحدیث :اہلحدیث بھائی ٹی وی ٹیم سے مخاطب ہوتے ہوئے:جناب انہوں نے اہلحدیث ہونے والی بات مسجد میں کہی ہے،بریلوی :میں نے اہل حدیث ہونے والی کوئی بات نہیں کی ،لیکن میں نے اپنا مسلک تبدیل نہیں کرنا ،جناب عالی !میں نے مسلک تبدیل نہیں کرنا۔
اہلحدیث:میں باجوہ صاحب کو یاد کرانا چاہتا ہوں،باجوہ صاحب نے کام شروع کرنے سے پہلے انٹرویودیا تھا اور انہوں نے واضح طور پر کہا تھا ،اگر یہ درخت کاٹ لیں،لے جائیں ،درخت بھی ان کا ،لاکھ روپیہ بھی ان کا اور میں مسلک اہلحدیث بھی قبول کروں گا،
بریلوی :انٹرویو میں میں نے یہ کوئی بات نہیں کہی،
اہلحدیث:ہم نے بھی یہ بات کہی تھی کہ اگر ہم درخت کاٹ کر نہ لے جاسکے تو ہم بریلویت اختیارکر لیں گے،اگرباجوہ بھائی کو اب یہ بات بھول گئی ہے یہ اس سے منحرف ہونا چاہتے ہیں،تو یہ میڈیا on The Recordبات ہے،کوئی پردے والی بات نہیں۔
(نوٹ:ہم نے یہ تمام گفتگو بغیر ردو بدل کے قارئین کے سامنے پیش کی ہے ،آپ اس واقعہ کی مکمل ویڈیو ،یو ٹیوب پراس لنک پر بھی دیکھ سکتے ہیں https://youtu.be/XzNd3IZcvo4 )اس کے بعد درخت کے ٹکڑے باغوالی مسجد کے سامنے کھلے صحن میں لا کر رکھے گئے،لوگ آکر ان ٹکڑوں کو دیکھتے اور تبصرے کرتے ،دوسرے دن باغوالی مسجد میں جلسہ رکھا گیا ،جس میں اسلام آباد سے سید طیب الرحمٰن زیدی نے شرک کے رد میں زبردست تقریر کی،دوسرے دن غلام مصطفیٰ باجوہ سے لاکھ روپیہ انعام کیلئے رابطہ کیا تو اس نے 24فروری جمعرات کو آنے کا کہا!جب ذوالفقار بٹ ابو دجانہ اور شیخ اقبال ان کے علاوہ چار ساتھی اور باجوہ کے پاس گئے اور لاکھ روپیہ وصول کر لیا،برصغیر کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے،جو ریکارڈ ہوا ہے جس کی ویڈیو بنی ہے اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس سے لوگوں کے اندر جو وہم پیدا ہو چکا تھا کہ بزرگ مرنے کے بعد دنیا میں کسی کو نفع ونقصان دے سکتے ہیں،اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد لوگ اس حقیقت کو جان لیں گے کہ مرنے کے بعد یہ بزرگ ،بابے ،پیر کچھ بھی نہیں کر سکتے بلکہ ان کو خود دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے،قبر والے بزرگ کو' سلام' کرتے ہو،جس کا مطلب ہے کہ اے بزرگ تجھ پر سلامتی ہو اللہ تجھے ہرقسم کے عذاب وپریشانی سے محفوظ رکھے،پھر بھی ان بزرگوں کی قبروں پر جا کر اپنی سلامتی کیلئے دعاؤں کی اپیل کرتے ہو ،جن کی قبروں کو اپنے دیے ہوئے چندے سے زیب و زینت سے مزین کرتے ہو ،پھر بھی ان سے دست سوال دراز کرتے ہو،،،شیطان کی یہی چال ہے کہ وہ انسان سے ایسا گناہ کروائے جس سے یہ ابدی جہنمی بنے،پہلے تو وہ گناہ کرواتا ہے،پھر گنہگار کو اللہ سے بد دل کرتا ہے اور حاجات کو بر لانے کیلئے غیر اللہ کے اڈے دکھا کر شرک کرواتا ہے،تو انسان مٹی ،شجر،حجر،قبر،انسان،نباتات،جمادات وغیرہ کو نفع بخش ماننا شروع کر دیتا ہے،اور قبر پر اُگے ہوئے درخت کو مشکل کشا ،حاجت روا خیال کر کے اس کی پوجا شروع کر دیتا ہے،اور اس کے خلاف عقیدہ رکھنے والے کو ہر قسم کے نقصان کامستحق سمجھتا ہے،یعنی یہ خیال کرتا ہے کہ جس نے درخت کو کاٹنے کی کوشش کی یہ درخت اسے اذیت ناک سزا دے گا،اوردرخت کے بزرگ اس کا انجام عبرت ناک بنا دیں گے، یہی خیال رکھنے والوں نے پہاڑی پور میں اہل توحید کو چیلنج کیا ،جسے اہل توحید نے قبول کرتے ہوئے دنیا والوں کو بتا دیا کہ یہ درخت اور ٹہنیاں یہ بابے اور مزار نفع ونقصان کی تاثیر نہیں رکھتے ،بلکہ ہر قسم کے نفع ونقصان کا مالک صرف اللہ وحدہ لا شریک ہے،
(انتباہ:جتنے بھی انبیاء مبعوث ہوئے انھوں نے شرک کے اڈے، آستانے اور معبود باطلہ کا رد کیا ،جس کی مختصر تفصیل آنے والی اقساط میں نشر ہو گی،ان شاء اللہ)جاری ہے....
www.ficpk.blogspot.com
تعاون:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

اسلام اور خانقاہی نظام,109

'اسلام اور خانقاہی نظام'
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر109)
تم سب پیچھے ہٹ جاؤ،بابا جانے اور وہابی جانیں:
تم سب پیچھے ہٹ جاؤ،بابا جانے اور وہابی جانیں:پہاڑی پوڑ تحصیل چک جھمرہ ضلع فیصل آباد میں ٹاہلی کاٹنے کا واقعہ:
اسلام آباد میں ایک علاقہ غوری ٹاون ہے ،وہاں ایک اہلحدیث محمد اکرم رہتے ہیں ،اسی علاقے میں گورنمنٹ ایف جی ماڈل سکول کا ایک ٹیچر ہے جس کا نام غلام مصطفیٰ باجوہ ہے،یہ غلام مصطفیٰ باجوہ کٹر قسم کا حنفی بریلوی ہے اور مرنے کے بعد بزرگوں سے نفع اور نقصان کا عقیدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس عقیدے کی تبلیغ بھی کرتا ہے،ماسٹر غلام مصطفیٰ باجوہ کی اکرم بھائی کے ساتھ اکثر گفتگو ہوتی رہتی تھی،جس میں محمد اکرم بھائی ماسٹر باجوہ کو قرآن وحدیث سے دلائل دیتے رہتے تھے،جب وہ دلائل میں لا جواب ہو جاتا تھا تو وہ کہتا تھا کہ میرے پیر صاحب نے محکمہ نہر والوں کو درخت اٹھانے نہیں دیا اگر آپ کے دلائل درست ہیں تو پریکٹیکل کر کے دیکھ لیتے ہیں ،اگر تم وہ درخت اٹھا لو تو تم سچے اور اگر درخت نہ اٹھا سکو تو میں سچا اور میرے بزرگ سچے ،اگر تم وہ درخت اٹھا لو تو میں تمہیں ایک لاکھ روپیہ انعام بھی دوں گا اور اہلحدیث عقیدہ بھی قبول کروں گا ،لیکن محمد اکرم بھائی کہتے ہیں کہ جب آپ کا قرآن وحدیث پر ایمان نہیں تو آپ درخت اٹھانے کے بعد بھی نہیں مانیں گے،کیونکہ اصل عقیدہ تو قرآن و حدیث پر ہونا چاہیے اور درخت والی بات کو ٹال دیتے ،جبکہ ماسٹر غلام مصطفیٰ درخت کے حوالے سے چڑھائی کر دیتا کہ میدان میں آؤ ،بھاگتے کیوں ہو ،لیکن بھائی محمد اکرم کے ایک بیٹے ہیں جن کا نام محمد عمر ہے اور وہ 9thکلاس میں پڑھتے ہیں،جو کہ غوری ٹاؤن میں ایک دودھ دہی کی دوکان پر دودھ پینے آتے تھے تو ماسٹر غلام مصطفیٰ اس سے کہتا ہے کہ تمہارا باپ بھاگ گیا ہے،10فروری بروز جمعرات کو اسی دودھ والی دوکان پر ماسٹر غلام مصطفیٰ، بھائی محمد اکرم کے بیٹے محمد عمر کے ساتھ اس طرح درخت کے بارے میں چیلنج کر رہا تھااور لاکھ روپیہ انعام کا اعلان کر رہا تھا کہ ایک اہلحدیث بھائی شیخ محمد اقبال بھی دودھ لینے آ گئے ،جب شیخ محمد اقبال نے ماسٹر غلام مصطفیٰ کو چیلنج کرتے سنا تو شیخ اقبال نے ماسٹر کا چیلنج قبول کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہارا چیلنج اسی وقت قبول کرتا ہوں،چلو سانگلہ ہل اور درخت دکھاؤ ،ہم درخت کاٹنے اور اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔رات 10بجے شیخ اور ماسٹر گاڑی پر سانگلہ ہل جانے کے لئے بیٹھ گئے اور صبح 5بجے سانگلہ ہل باغوالی مسجد میں پہنچ گئے ،وہاں ذوالفقار علی بٹ اور حبیب اللہ بھائی اور دیگر بھائیوں سے ملاقات کی ،مسجد کی انتظامیہ تیار ہو گئی،چنانچہ طے ہوا کہ ساری باتیں اشٹام پر لکھی جائیں گی ،مکمل ایگریمنٹ مابین فریقین ،اور ٹاہلی کٹ گئی ،مؤلف:محمد طیب محمدی کی کتاب صفحہ نمبر8 تا9پر ملاحظہ کر سکتے ہیں،الغرض یہ طے پایاکہ اگر فریق دوئم شیشم کا درخت اٹھانے میں کامیاب ہو گا تو فریق اول مسلک حق اہلحدیث میں شمولیت کا اعلان کر ے گا ،اور ایک لاکھ روپے بطور انعام دے گا۔اور اگر فریقین دوئم شیشم (ٹاھلی )کا درخت اٹھانے میں ناکام رہا تو فریق دوئم مسلک حق بریلوی اہل سنت میں شمولیت کا اعلان کر ے گا ،جب اشٹام لکھا جا چکا تو ماسٹر غلام مصطفیٰ باجوہ نے اشٹام کی نقلیں کرا کے بریلویوں کی تمام مساجد میں تقسیم کیں،تاکہ وقوعہ پر سینکڑوں لوگ جمع ہو جائیں،ماسٹر کو پیر باباواحد سرکار پر اتنا یقین تھا کہ اس نے مطالبہ کیا کہ میڈیا کو بھی بلایاجائے،اسی وجہ سے پنجابt.v.کی میڈیا ٹیم موقع پر پہنچی ،جب پولیس کو پتہ چلا تو پولیس نے مداخلت کی کوشش کی لیکن ماسٹر غلام مصطفیٰ نے پولیس کو مطمئن کر دیا کہ یہاں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہو گا ،میں اس کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں،چنانچہ ماسٹر صاحب پنجاب ٹی وی کے نمائندے ندیم اختر بٹ کو اس طرح انٹرویو دینا شروع کیا،(جس کی مکمل ویڈیوآپ یوٹیوب پر اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں https://youtu.be/XzNd3IZcvo4  )
جنابِ والا! عرض یہ ہے کہ مسلک کی ،مذہب کی بد عقیدگی کا عروج ہے،دنیا کو اس کا توڑ دکھانے کیلئے میرے بزرگ بابا جی واحد سرکار ؒ ،ان کو تقریباً45سال ہو گئے ہیں دنیا سے پردہ فرمائے ہوئے،آندھی آئی یہ شیشم کا درخت جو بابا جی نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا گر گیا،اسے گرے ہوئے 35سال ہو گئے ہیں ،یہ درخت جناب والا محکمہ نہر کی ملکیت ہے ،محکمہ نہر والوں نے اس ٹاھلی کے درخت کو اٹھانے کی کوشش کی ،مگر اٹھایا نہیں گیا،نہر پکی بن رہی تھی انہوں اسے ہٹانے کی بھی کوشش کی لیکن ہٹا بھی نہیں سکے،کیونکہ بابا جی اس درخت کو ہٹانے نہیں دیتے۔میں نے چیلنج کیا ہے ،ایک لاکھ روپیہ انعام دوں گا ،جو بندہ اس درخت کو اٹھا لے جائے ،اس بندے کو کسی قسم کی کوئی مشکل دنیا کی طرف سے نہیں ہو گی،بابا جی واحد سرکار کا میں ذمہ دار نہیں،وہ جو بھی نقصان پہنچائے وہ ان کا اپنا مشن ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں،البتہ یہاں جتنے بھی میرے بہن بھائی اکھٹے ہوئے ہیں ،یہاں ان شاء اللہ ان کو کسی قسم کا ان کے راستے میں خلل پیدا نہیں ہونے دیں گے،یہ اپنا درخت اٹھالے جانے میں کامیاب ہو جائیں ،میں ان کو لاکھ روپیہ بھی دوں گا اور اہل حدیث بھی ہو جاؤں گا ،ٹھیک ہے جناب!اگر یہ درخت اٹھانے میں کامیاب نہ ہوئے تو یہ سارے اہل حدیث بریلوی مسلک اختیار کر لیں گے،یہ لڑائی ہماری کسی قسم کی نہیں ،بلکہ حق کو تلاش کرنے کی ایک کوشش ہے،اہل حدیثوں نے بھی یہ قبول کیا ہے کہ جو یہ ولی ہیں وہ زندگی میں ہیں ،زندگی کے بعد کچھ بھی نہیں کر سکتے ،لیکن میرا سو فیصد یقین ہے بابا واحد سرکار اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ کامیابی مجھے دے گا،بابا جی میرے اس جذبے کی لاج رکھتے ہوئے اس مشن کو قائم و دائم رکھے گا، جس طرح انہوں نے پہلے اس ٹاھلی کو ہلنے نہیں دیا یہ آپ کے سامنے یہاں نہر نکلنی تھی،محکمہ نہر کی کرینیں یہاں بے بس ہو گئی ہیں،انہوں نے پیچھے سے بھی نہر نکالی اور آگے سے بھی نکالی گئی ،آپ کے احاطے میں جہاں ہم کھڑے ہیں یہاں نہر نکالی جانی تھی ،لیکن بابا جی نے نہر نہیں نکالنے دی،اگلی بات یہ ہے کہ پورا دن ایک سانپ بابا جی کے گلے کے اوپر اپنا سر رکھ کر بابا جی کے روضے مبارک کے اوپر سارا دن جسم رکھ کر بیٹھا رہا،جس طرح دنیا آج اکھٹی ہوئی ہے اسی طرح اس دن دنیا اکھٹی ہوئی تھی ،جو کوئی پیسے ڈالتا تھا سانپ اپنا سر دوسری طرف کر لیتا تھا ،جب پیسے ڈال لیتا تھا سانپ پھر اپنا سر گلے کے اوپر رکھ لیتا تھا،میری سارے بھائیوں سے التجاء ہے کہ آرام سے اس پل پہ چلے جاؤ!ان بھائیوں کو جگہ دیں،یہ بھائی اپنا جناب والا درخت کاٹیں ،بابا جی جانے اور یہ جانیں ،کوئی بندہ نعرہ بازی نہیں کرے گا،آپ سب میرے مہمان ہیں،
(اہلحدیث بھائی کی گفتگو اگلی قسط میں پڑھیں۔جاری ہے....)
www.ficpk.blogspot.com

اسلام اور خانقاہی نظام,108

'اسلام اور خانقاہی نظام'
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر108)
یہاں میں ایک اپنی آپ بیتی ضرور بتانا چاہونگا کہ آج سے کافی عرصہ پہلے جب میری عمر بمشکل9-10 سال ہو گی ہمارے محلے میں ایک دو گھروں میں ٹی وی ہوا کرتا تھا میں بھی ان کے گھر اتوار کے دن انڈین فلم دیکھنے جاتا تھا اُس دن جو فلم دیکھی اس میں ہندو ہیرو  نے ہیرؤئین کو ایک میلے میں دیکھا بالکل ایسا ہی میلہ تھا جیسا ہمارے پاکستان میں درباروں پر میلہ لگتا ہے ایسے ہی گانے چل رہے تھے، عورتیں، مرد ڈانس کر رہے تھے، جوئے کے اڈوں پر جوا لگ رہا تھا سرکس اور موت کے کنوے چل رہے تهے وغیرہ وغیرہ جب فلم ختم ہوئی اور میں واپس گھر کی طرف جا رہا تھا تو راستے میں ہی میرے دل کو ایک بات پریشان کیئے جارہی تھی کہ اگر ہندؤ لوگ بھی میلے لگاتے ہیں جیسے ہم لوگ لگاتے ہیں تو ہم میں اور ہندؤوں میں کون صحیح ہے؟؟؟یعنی یا تو ہم اپنے دین کے خلاف کام کر رہے ہیں اور یا پھر ہندو اپنے مذہب کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اور یہاں ایک بات اور بھی بتا دوں کہ میں ۱۵ سال تک میلوں میں شرکت کرتا رہا ہوں اس کے بعد اللہ نے ہدایت عطاء فرمائی الحمدللہ۔اور جب بڑا ہوا تو اس معاملے میں تحقیق کی تو الحمدللہ، اللہ نے حق بات کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ یہ عرس و میلے اسلام میں بالکل بھی نہیں ہیں بلکہ یہ اصل میں کفار ہندؤوں کی دیکھا دیکھی بعض جاہل قسم کے لوگوں نے اسلام میں داخل کرنے کی ناکام کوشش کی ہے صرف اپنے پیٹ کی دوزخ بھرنے کے لئے۔ اللہ ان کو بھی ہدایت دے کہ وہ اصل دین قرآن و سنت کی طرف آ جائیں آمین۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ میلہ وغیرہ کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟نبی ﷺ کی ایک حدیث پیش کرتا ہوں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے گھروں کو قبریں اورمیری قبر کو عید "خوشی کا دن" جمع ہونے کا دن"مت بنانا بلکہ مجھ پر درود بھیجنا تم جہاں بھی ہو گے وہیں سے تمھارا درود مجھ تک پہنچ جائے گا۔سنن ابودائود:جلد۲:حدیث نمبر۲۰۲۴​اس میں نبیﷺ کا واضح ارشاد مبارک ہے کہ میری قبر کو میلہ گاہ یعنی جمع ہونے والی جگہ نہ بنانا، اگر ایسا عمل نبیوں کے امام محمدﷺ کی قبر مبارک پر منع فرما دیا گیا ہے تو کسی غیر نبی کی قبر پر تو کسی قیمت پر جائز نہیں ہوسکتا ہے مگر ہمارے ہاں بہت سے لوگ اس ممنوع عمل کو بڑی باقاعدگی سے بجا لاتے ہیں اور نام بھی اس کو اسلام کا دیتے ہیں مگر وہ اس پر کوئی ایک بھی قرآن و صحیح حدیث سے دلیل نہیں دے سکتے ہیں، میلہ کے متعلق ایک اور حدیث بھی ہے کہ
حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرے گا۔ وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میں نے بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ کیا بوانہ میں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی وہاں پوجا کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں پھر آپﷺ نے پوچھا کیا وہاں کفار کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ تو اپنی نذر پوری کر کیونکہ گناہ میں نذر کا پورا کرنا جائز نہیں ہے اور اس چیز میں نذر لازم نہیں آتی جس میں انسان کا کوئی اختیار نہ ہو۔سنن ابودائود:جلد۲:موضوع کتاب:قسم کھانے اور نذر (منت ) ماننے کا بیان: اس کا بیان کہ نذر کا پورا کرنا ضروری ہے اس حدیث شریف سے واضح ہوا کہ یہ میلہ لگانا کفار اور مشرکین کا عمل ہے اور دوسرا ایک اور بات بھی معلوم ہوئی کہ کسی ایسی جگہ جہاں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہو وہاں اللہ کی عبادت کرنا بھی منع ہے کیونکہ نبیﷺ نے اس کو واضح ارشاد فرما کر پوچھا کہ کبھی وہاں کسی بت کی پوجا پاٹ تو نہیں ہوتی تھی؟جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب نفی میں دیا تو آپﷺ نے نذر پوری کرنے کی اجازت مرہمت فرمائی اور اگر جواب اثبات میں ملتا تو یقیناً آپﷺ نے نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دینی تھی کیونکہ کوئی یہ غلط فہمی سے سمجھ سکتا تھا کہ دیکھو جی فلاں بت کی یاد تازہ کی جارہی ہے۔اب ایک اور حدیث پیش کرتا ہوں جس میں قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے نہیں ہوئے (یعنی دوبارہ تندرست نہیں ہوئے) اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر آپ کو اس بات کا خیال نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قبر مبارک کو ظاہر کر دیتے سوائے اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔صحیح مسلم:جلد۱:باب:قبروں پر مسجد بنانے اور ان پر مردوں کی تصویریں رکھنے اور ان کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت کا بیان.
ہمارے پیارے نبی محمدﷺ کا رُتبہ تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ بلند و بالا ہے امتیوں کی تو بات ہی نہ کی جائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے معاشرے میں قبروں پر سجدے  رکوع کیئے جا رہے ہیں  اور کوئی بھی ان کو روکنے والا نہیں ہے اگر ان کو روکا جائے تو کہتے ہیں کہ ہم تو تعظیمی سجدہ کرتے ہیں اور جب کہ اسلام میں تعظیمی سجدہ بھی حرام ہے اس پر حدیث پیش کرتا ہوں۔
حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حیرہ میں آیا (حیرہ کوفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے) تو میں نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ اپنے سردار کو (تعظیم کے طور پر) سجدہ کرتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ ان کے مقابلہ میں تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (تعظیماً) سجدہ کیا جائے۔ پھر جب میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے کہا۔ میں حیران رہ گیا تھا اور میں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکے مقابلہ میں اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا بھلا کیا تو جب میری قبر پر آئے گا تو سجدہ کرے گا؟ میں نے کہا نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ (تو پھر زندگی میں بھی کسی کو سجدہ نہ کرو) (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا) اگر میں کسی کے لیے سجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں۔ اس حق کی بنا پر جو اللہ تعالی نے ان پر مقرر کیا ہے۔سنن ابودائود:جلد:۲:موضوع کتاب:نکاح کابیان،
عورت پر شوہر کا حق کیا ہےاس حدیث سے ہمیں بہت سے سبق ملتے ہیں ان میں سے دو یہ ہیں کہ ایک تو کسی کو بھی تعظیمی سجدہ نہیں کیا جاسکتا یہ قطعی حرام ہے اور دوسرا کسی قبر پر بھی سجدہ نہیں کیا جاسکتا بے شک وہ قبر نبیﷺ کی ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اس سے ہمیں نبیﷺ نے منع کیا ہے اگر ہم واقعی اللہ اور نبیﷺ سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اللہ اور نبیﷺ سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے اور جو ایسا کرے گا اس کا انجام اللہ کی ناراضگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسولﷺ کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالٰی سننے والا، جاننے والا ہے۔الحجرات:۱
اللہ اور رسولﷺ سے آگے بڑھنا یہی ہے کہ ان کے احکامات کو پسِ پشت ڈال دیا جائے اور اپنی من مانی کی جائے یا کسی غیر نبی کی بات کو اللہ اور نبیﷺ کی بات کے مقابلے پر قبول کیا جائے۔اللہ ہمیں صرف قرآن و سنت کی ہی پیروی کرنے کی توفیق دے آمین۔
جو کچھ خرافات شرک و بدعت میلوں میں سرانجام دی جاتی ہیں جو کہ مکمل طور پر قرآن و سنت کے خلاف امور ہیں اگر میں ان خرافات پر تفصیل سے بات لکھنے بیٹھ جاؤں تو مضمون بہت لمبا ہو جائے گا اس لیے مختصر بات کر رہا ہوں۔اگر کسی بھائی ، بہن کو ان خرافات کے خلاف دلائل چاہیے ہوں تو وہ  مجھ سے میری اس ای میل پر رابطہ کرکے منگوا سکتا ہے۔ (fatimapk92@gmail.com) اور بعض لو گ کہتے ہیں کہ ہم وہاں ان گناہ والے کاموں کے لئے نہیں جاتے بلکہ ہم تو فاتحہ خوانی کے لیئے جاتے ہیں،اس کا حل یہ ہے کہ اگر فاتحہ خوانی ہی کرنی ہے تو میلہ کے دن سے پہلے یا بعد میں بھی جاکر کی جاسکتی ہے لازمی اس دن جاکر ایک برُائی کے کام کی رونق بڑھانی ہے اگراس وقت اللہ کا عذاب نازل ہوجائے تو وہ بھی انہی میں شمار نہیں ہوگا کیا؟اب ہم دیکھتے ہیں کہ مشرکینِ مکہ کی عبادت کیسی ہوا کرتی تھی۔
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَةً ۭ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
اور خود ان کی نماز بیت اللہ کے پاس سیٹیاں بجانے، اور تالیاں پیٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتی، سو اب چکھو تم لوگ عذاب اپنے اس کفر کے بدلے میں جو تم کرتے رہے تھے،(الانفال:۳۵)
اس آیت مبارکہ میں تالیاں بجاناں اور سیٹیاں مارنا عبادت بتایا گیا ہے بالکل ایسے ہی جیسے آجکل لوگ قوالی کو ثواب کا کام سمجھ کر سنتے ہیں اور میلوں میں ایسے ایسے بیہودہ کام کیئے جاتے ہیں کہ ایسے کام مشرکینِ مکہ نے بھی نہیں کیئے ہوں گے اس لیے بھائیو اور بہنوں اپنے ایمان کی حفاظت کریں اور ایسی سبھی رسومات و رواجوں کا بائیکاٹ کریں اور لوگوں کو بھی ان برُی رسومات سے روک کر اپنا دینی فریضہ ادا کریں۔ جزاکم اللہ خیرا
جاری ہے.....
www.ficpk.blogspot.com
تالیف:عمران شہزاد تارڑ'ڈئریکٹرفاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

اسلام اور خانقاہی نظام,107

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمب107)
میلہ،عرس کی بدعت اور اسلام
الحمد للہ-:
جب تک مسلمان دینِ اسلام کی اصل'قرآن و حدیث'پر رہے تو وہ گمراہ ہر گز نہیں ہو سکتا-
جیسے ہی لوگوں کے فہم و فلسفہ کو اپنایا تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے اور دینِ محمدیﷺ میں اپنی من مانی جب بھی کی جائے گی اس اُمت میں انتشار کا ہی باعث بنے گی، اللہ اور نبیﷺ نے ہمیں قرآن و سنت کو تھامنے اور ان پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور یہی دین ہے اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہوگا وہ کسی کا فہم و فلسفہ تو ہوسکتا ہے پر دین اسلام نہیں۔ایک لمبے عرصہ تک ہم لوگ ہندؤوں کے ساتھ رہے ہیں جس کی وجہ سے ہندؤوں کے مذہب کی کافی باتیں اور رسم و رواج کو اسلام کا حصہ بنا چکے ہیں اور ان پر بہت سختی کے ساتھ کاربند بھی ہیں اور جو ایسے رسم و رواج کے خلاف بات کرے اس پر گستاخ اولیاء کے فتوے لگ جاتے ہیں جہاں اور بھی بہت سی جاہلانہ رسمیں ہیں ان میں ایک رسم ہے درگاہوں، درباروں آستانوں پر میلوں کا انعقاد، ہمارے مولوی لوگ اس کو اسلام کا نام دیتے ہیں مگر جب ان سے کہا جائے کہ مولوی صاحب یہ کہاں کا اسلام ہے کہ جہاں گانے باجے بجتے ہوں، کھسرے تو کھسرے عورتیں اور مرد بھی ڈانس کرتے ہوں؟ جہاں اذان و اقامت اور نماز کے اوقات میں بھی گانے، قوالیاں بجتی رہتی ہوں؟اور بے حیائی کے دیگر ان گنت مناظروں کا زور شور ہو؟
 تو کہتے ہیں کہ یہ لوگ جو ایسا کرتے ہیں غلط کرتے ہیں ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ اسلام کے اصولوں کے خلاف کام ہیں میلہ کا مقصد یہ نہیں ہے جو یہ لوگ کام کرتے ہیں، پھر ان سے کہا کہ آپ جو عالم دین ہیں آپ لوگ ان جاہلوں کو سمجھاتے کیوں نہیں ہیں کہ یہ کام اسلام کے خلاف ہیں؟ تو کہتے ہیں کہ بھائی ہم تو سمجھاتے ہیں مگر یہ لوگ مانتے ہی نہیں ہیں، حالانکہ یہی مولوی صاحب اپنے خطبوں اپنی تقریروں میں عرسوں اور میلہ کی فصیلت بیان کر رہے ہوتے ہیں، ایک لفظ بھی ایسا نہیں بولتے جس سے لوگ اس جہلانہ اور کافرانہ رسم کو کرنے سے باز آ جائیں۔بلکہ ان مزاروں پر حاضریاں دینے کی فضیلت کے گن گاتے ہیں. ......
پاکستان میں ہی صرف دیکھا جائے تو سال کے جتنے دن ہیں ان سے کئی زیادہ پاکستان میں میلے لگتے ہیں یعنی ہر روز کہیں نا کہیں میلے ضرور لگے ہوتے ہیں مگر اس سب کے باوجود کوئی بھی مولوی صاحب اس غلط اور باطل رسم کے خلاف نہیں بولتا ،الا ماشاءاللہ،
کیونکہ ان مزاروں پر سجے میلوں و عرسوں کے خلاف بولنے سے ان کی روزی روٹی بند ہوتی ہے جو ہزاروں لاکھوں وہاں پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں وہ ہاتھ سے جاتے رہیں گے اور اس کے علاوہ لوگ ایک خطاب بھی دیں گے جو خطاب شاید ان کو موت سے بھی برُا لگے اور وہ ہے "وہابی"کا خطاب کیونکہ جو بھی اللہ اور رسولﷺ کے احکامات بتائے اور لوگوں کو غلط برُی رسموں و رواج سے روکے اس کو ہمارا معاشرہ وہابی کے لقب سے یاد کرتا ہے اور جو ہر طرح کا شرک و بدعات، ہر طرح کی  غیر مہذب رسومات اور خرافات، ہر طرح کی جہالت کا عَلم بلند کرے وہ عاشقِ رسول ﷺ کا لقب پاتا ہے۔
یہاں میں ایک اپنی آپ بیتی ضرور بتانا چاہونگا.....جاری ہے....
www.ficpk.blogspot.com

اسلام اور خانقاہی نظامر,106

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر106)
میرا ایک دوست پیروں، فقیروں کو بہت زیادہ مانتا تھا۔اور وہ اکثر مزاروں پر لگے ہوئے عرسوں میں  شریک ہو کر فیض یابی کے واقعات مجهے سنایا کرتا تها. لیکن مجھے نام نہاد اور بناوٹی پیروں سے کوئی خاص دلچسپی نہ تهی۔البتہ اتنا ضرور سنا ہوا تها کہ وہابی ولیوں کی گستاخی کرتے ہیں. اور لوگوں کو  اولیاءکرام کے مزاروں پر جانے سے بهی روکتے ہیں. اور کہتے ہیں کہ یہ بزرگ مرنے کے بعد کسی قسم کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہوتے.
چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ یہ میرا دوست ہاتھ میں ایک اخبار پکڑ ے میرے پاس آیا اور اصرار کیا کہ حضرت بابا نوری بوری سرکار  کی درگاہ پر فلاں بزرگ کا عرس آ رہا ہے وہاں چلتے ہیں۔اور فیض یاب ہو کر آتے ہیں...دیکهنا میرے مرشد کا کمال و حکمت اور نورانی چہرہ مبارک. ....میں نے پہلے تو انکار کیا لیکن جب اس نے مجهے اخبار پر عرس کے متعلق خبر دکھائی جو کچھ یوں تهی-:
'محفل ذکر حبیب ﷺ'
 ”بزم نور“ کے زیر اہتمام مورخہ 12 جولائی بروز جمعرات  2012ء بعد نماز عشاء محفل ذکر اور نعت خوانی آستانہ عالیہ حضرت قبلہ نوری بوری والی سرکار قلندر پاکؒ بمقام دربار شریف نزدکوٹ عبدالمالک شیخوپورہ روڈ لاہور منعقد ہوگی۔ شرکت فرما کر روحانی انوار سے فیض یاب ہوں۔ صلوٰة وسلام، ختم شریف اور اجتماعی دعا کے بعد حاضرین میں بااہتمام لنگر تقسیم ہوگا۔
جب میں نے یہ خبر پڑھی تو سوچنے لگا کہ اتنی با برکت اور پر رونق محفل سے وہابی آخر کیوں روکتے ہیں.وہابیوں کی اولیاء کرام سے دشمنی کا سبب آخرکار کیا ہے..؟ میں اپنے دوست کے ساتھ بابا نوری بوری سرکار کے مزار پر جانے کیلئے تیار ہو گیا..! میں آج تک کبھی کسی عرس پر نہیں گیا تھا، سوچا چلو دیکھ لیتے ہیں، شاید کوئی خاص بات نظر آ ہی جائے اور اپنی اصلاح بهی ہو جائے۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ جب میں مزار کے صحن میں داخل ہوا تو حیران رہ گیا، اندر تو میلے کا سماں تھا۔جس میں عورتیں بچے بوڑھے جوان سبهی شامل تهے. شہر لاہور اندھیرے میں ڈوبا تھا، مگر ادھر تو جیسے بابا نوری بوری سرکار کی خاص نگاہِ کرم تھی۔ایک روشنیوں کا شہر آباد تها...
قوالیوں کی محفلیں برپا تهیں۔کچھ لوگ  دیوانہ وار ناچ رہے تھے۔ میں نے کہا ناچنے دو، مجذوب لوگ ہیں، مست ہو گئے ہوں گے۔
بہرحال-! میں جیسے ہی مزار کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گیا، تو آنکھیں حیرت زدہ رہ گئیں کیونکہ بہت سی عورتیں گلے چاک کیے بال کهولے دیوانوں کی طرح دھمال ڈال رہی تھیں۔ میں نیچے اتر آیا۔ میں نے سوچا کوئی بات نہیں، خواتین کا بھی حق ہے کہ وہ اپنا وزن کم کریں۔
اللہ اللہ کرکے بابا نوری بوری سرکار کمرے سے برآمد ہوئے۔ سرکار جی نے ایک بوری نما دهوتی پہنی ہوئی تھی.میں نے سمجها شاید گرمی کے سبب بابا جی نے کپڑے اتار ہوئے ہیں. اور ان کے بال اتنے لمبے تھے کہ اس کی چوٹی تین سے چار بندے اٹھائے ہوئے تھے۔ شاید شیمپو بنانے والی کسی کمپنی نے بابا جی کو کسی مشہوری کی کوئی آفر کی ہو۔یا جو عورتیں ناچ رہی تهی انهوں نے بابا جی کی محبت میں اپنے بال سرکار جی کو بطور ہدیہ دیے ہوں. بہرحال-! مجهے ان گندے بالوں اور اس فیشن کی اصل حقیقت معلوم تو نہ ہو سکی-
خیر-! سرکار جی قوالیاں گانے والوں کے پاس جا کر بیٹھ گئے.....اور جاتے ہی سرکار جی نے وہ زبان استعمال کی جو یہاں کا غریب طبقہ صدر یا وزیراعظم کے بارے میں استعمال کرتا ہے۔
یعنی سادہ لفظوں میں گندی اور ننگیاں گالیاں شروع کر دیں... پھر کیا تھا، دھمال اتنی تیز ہو گئی جیسے مکئی کے دانے کڑاھی میں پھوٹ رہے ہوں۔سرکار جی بهی جذبات میں آگئے خود اٹھ کر دهمال ڈالنے سے تو معذور تهے اتنے میں کچھ عقیدت مندوں نے سرکار جی کی پشت(پیٹھ) کے نیچے ہاتھ رکھ کر سرکار جی کو اوپر نیچے کر کے دهمال ڈلوا رہے تهے.سرکار جی مزید جذبات میں آتے ہوئے فرماتے ہیں-:جس کی ترجمانی یہاں کا قوال کرتا ہوا کہتا ہے-کہ سرکار جی فرماتے ہیں:چاہے کوئی سنی،شیعہ یا وہابی ہووے جو دهمال نہیں ڈالے گا وہ علی پاک دا منکر اے.پهر سرکار جی نے دهیمی آواز میں سر گوشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں.جس کی پهر قوال لاوڈ اسپیکر پر ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہے سر کار حکم دیتے ہیں چاہے کوئی سنی شیعہ یا وہابی ہو اگر وہ دهمال نہیں ڈالے گا وہ بہن........ہو گا.غیرت گہوارہ نہیں کرتی کہ سرکار جی کی گندیاں اور ننگیاں گالیوں کو میں یہاں رقم کر کے ان صفحات کو آلودہ کروں.آگے جا کر سرکار جی مزید حکمت کی باتیں بتاتے ہوئے فرماتے ہیں جہاں بهی ہے کوئی وہ ادهر دهمال ڈالے اگر نہیں ڈالے گا میں اسکی بہن کو.......دوں گا.یہاں پر بهی ایسے نازیبا الفاظ اور بے غیرتی پر مبنی بکواس کی گئی کہ جس کو لکھنے کیلئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں.اس سے پہلے کہ میں یہاں حضرت نوری بوری سرکار کی مسلمانوں کی غیرت کو للکارنے والی بے حیائی  سے لبریز گالیاں درج کروں میری قلم کیوں نہ ٹوٹ جائے.....اور میری حیرانگی کی اس وقت انتہا ہوئی کہ جب سرکار جی گندی اور ننگیاں گالیاں دیتے ہوئے دهمال ڈالنے کو کہتے تو شرکاء محفل 'مرد و عورت قہقہہ لگاتے ہوئے دهمال ڈالنا شروع کر دیتے ہیں.اور عورتیں سر کے بال کهولے ہوئے دیوانوں کی طرح گردن کو گماتی ہوئی  مست ہو کر ناچ کود رہی ہیں. اور جو دھمال نہیں ڈالتا اس کو سرکار جی اپنی نورانی زبان سے ماں بہن کی گندی اور ننگی گالیاں دیتے  ہیں.یعنی درباری زبان میں فیض عطا کرتے ہیں.... میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک عقیدت مند نے سرکار جی کے قدموں میں ماتھا ٹیک کر نیاز مندی کا حق ادا کرتے ہوئے سرکار جی سے اپنی پشت پر قبولیت کی تھپکی وصول کی۔اور کچھ عقیدت مند پیسوں کو سرکار جی کے قدموں میں ایک ایک نوٹ کر کے پهینک رہے تهے..مجهے یہ سمجھ نہ آئی کہ یہ جو نوٹ نچهاور کیئے جا رہے ہیں یہ اس موج مستی کو دیکهنے کا ہدیہ ہیں یا کوئی اور مقصد......-اب جو وہاں قوالی ہو رہی تهی چند ایک شعر بهی سنتے جائیں-نہیں جانا مسجد مندر میں-رب بنایا پاک قلند نوں"بگڑی ہوئی گل بنانی اے-نچ نچ کے تقدیر بنانی اے"اج یار تے در ہو جاوے-پهر کعبے جانے دی لوڑ کی اے"جدوں جی کردہ حج کرنے نوں-لالن نوں سجدہ کر لئی دا" اسی ملاں کعبے کیوں جایئے ساڈا گهر بیهٹے سردا اے"اساں محشر وچ وی پاونی اے - دهمال شہباز قلندر دی"میں پاونی اے دهمال  نوری بوری والے..........یعنی اے میرے عقیدت مندوں تمہیں مسجد میں جانے  اور حج کرنے کی ضرورت نہیں ہے.بس تم یہاں دهمال ڈال کر یا سرکار کو سجدہ کر کے اپنی تقدیر کو بدلوا لیا کرو......صرف یہی بس نہیں آگے حضور سرکار فرماتے ہیں میں  قسم اٹھا کر اور دعویٰ سے کہتا ہوں جو دهمال نہیں ڈالے گا اس کی روز قیامت کبهی بخشش نہیں ہوگی....اب میں 'محفل ذکر حبیب ﷺ'جیسا کہ میں نے اخبار میں پڑھا تها سرکار جی کی نورانی کرنیں سن سن کر میں بزم نور چهوڑنے پر مجبور ہو چکا تها.کہ لوگوں کو تو دعوت ذکر حبیب اللہﷺ کی دی گئی تهی لیکن یہاں  تو ذکر شیطان کا ہو رہا ہے.... اب میں یہ بابرکت اور نورانی بزم نور چهوڑ کر باہر آ گیا  اور دیکهتا ہوں کہ مزار کے اندرونی احاطے میں لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ کچھ لوگ دروازے پر موجود کنڈی کو مندر کی گھنٹی کے طرز پر ہلا کر اپنی آمد کا اعلان کر رہے تھے۔ ایک ظاہراً پڑھا لکھا شخص بھی داخل ہوا اور آتے ہی قبر پر سر رکھ کر آہ و زاری کرنے اور اپنی مشکلات کے حل کا تقاضا کرنے لگا۔یہ قبر کس سرکار جی کی تهی یہ مجهے معلوم نہ ہو سکا....البتہ میرے صبر کی حد اس وقت ختم ہوئی جب ایک اور آدمی نے قبر کو سجدہ کر کے تعظیم کی حد پار  کر دی۔ میں فوراً باہر چلا آیا.............
وہ دن اور آج کا دن، میں کبھی کسی عرس پہ نہیں گیا۔ آپ اگر کبھی نوری بوری سرکار کے مزار پر گئے تو ان حالات و واقعات کا بخوبی نظارہ کریں گے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ والے نہیں ہیں۔۔ ضرور ہیں، یقیناً ہیں، اور قیامت تک رہیں گے،، مگر ان درباروں پر ان دین فروشوں کا قبضہ ہے جو مست ہیں، جن کو نہ دنیا کا پتا ہے نہ آخرت کا- سادہ لوح عوام کی عزت و ایمان اور مال کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے اور گمراہ کرنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.  
اور جاہل عوام ہے کہ پاکیزہ دین اسلام کو چھوڑ کر گالی گلوچ، ناچ گانے اور بے حیائی والے گندے دین' دین خانقاہی کو اپنی کامیابی و کامرانی سمجهے ہوئے ہے.اور اندهی تقلید کر کے ان سرکاروں اور گدی نشینوں کی ناجائز باتوں کو اللہ والوں کی باتیں کہہ کر ماننے ہوئے عمل کرتے ہیں. ........  جہالت کا شکار لوگ ہی ایسے سرکاروں اور پیروں  کے چنگل میں پھنستے ہیں۔اور اس نوری بوری سرکار کے عرس پر جانے کا مجهے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ حق اور باطل کو پرکهنے کا مجهے موقع مل گیا...
اب اگر کبهی کبهار مجهے اللہ کے نیک بندوں کی قبور یا قبرستان میں جانے کا موقع ملے تو میں ان سے اپنی دنیاوی پریشانی کا حل مانگنے نہیں، بلکہ انکی ارواح کے لئے ایصالِ ثواب کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں۔اور یہی دین اسلام کا طریقہ ہے.کیونکہ رسول اللہﷺ اہل ایمان کیلئے دعائے مغفرت کرنے کی تاکید فرمائی اور خود بهی آپﷺ کا یہ معمول تها.سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ بقیع(قبرستان) میں تشریف لے گئے اور اہل بقیع کیلئے دعا فرمائی میں نے اس بارے میں آپﷺ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا؛ مجهے (اللہ کی طرف سے)حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کیلئے دعا کروں (مسند احمد، مسلم، نسائی، موطا)
بہرحال-:میں نے یہ تمام گفتگو اپنی آنکھوں سے دیکهے مناظر اور غیر جانبدار ہو کر آپ کی خدمت میں پیش کی ہے. اس سے پہلے کہ آپ مجھ پر وہابی ہونے کا فتویٰ لگائیں میں ثبوت کے طور آپکو یوٹیوب پر نوری بوری سرکار کی خرافات کے متعلق لنک دیتا ہوں اور وزٹ کرتے ہوئے خود فیصلہ کریں کہ حق کیا ہے......
https://www.youtube.com/watch?v=67Th0cDgLpY
جاری ہے.....

Wednesday 9 March 2016

'اسلام اور خانقاہی نظام' 105

'اسلام اور خانقاہی نظام'

(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر105) 
 خواجہ معصوم صاحب قیوم پنجم پیر آف موہری شریف تبلیغ کیلئے بیرون ممالک دوروں پر بھی جاتے تھے،لیکن ان کی دعوت تر ،عقائد درست کرنے ،شرک و بدعت کو چھوڑنے اور توحید کو اپنانے کی دعوت نہیں تھی بلکہ اپنا مرید بنا کر' اللہ ھو 'کا ذکر کروانے کی دعوت تھی،جو ان کے سلسلے کا ایک خاص ذکر ہے،اسی قسم کا واقعہ 'تاجدار موہری شریف 'کے مصنف نے صفحہ 149پر لکھا ہے ،اس کا ذکر کسی صحیح حدیث میں نہیں ملتا ،یہ بھی دیکھا گیا ہے خواجہ معصوم اور ان کے مرید کھڑے ہو کر تالیاں بجابجا کر 'اللہ ھو 'کا ذکر کرتے ہیں،اسی کتاب کے صفحہ 80پر خواجہ معصوم اور ان کے مریدوں کی تالیاں بجانے کی ایک تصویر بھی دی گئی ہے،مزید اسی کتاب کے صفحہ 186پر بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں حضرت باقی باللہ کے مزار کے خادم سلاoم اللہ نقشبندی نے خلیفہ المسلمین سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کا بھی عرس (میلہ)منانا شروع کر دیا ہے،ساری دنیا کو تندرست اور قائم ودائم رکھنے کے یہ دعویدار اور قیوم پنجم 19اکتوبر 1993ء جب حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے بڑے پیر بھائی میراں حسن زنجانی کے عرس میں شرکت کیلئے جونہی ائر پورٹ پر اترے تو بیمار ہو گئے،لیکن دنیا کے نظام کو بر قرار اور قائم و دائم رکھنے کے دعویدار اپنے آپ کو برقرار نہ رکھ سکے ،اور یوں 3نومبر1993ء کو صبح کے وقت خواجہ معصوم اس دنیا سے کوچ کر گئے ،ان کی وفات پر سیاسی اور غیر سیاسی حضرات اپنے تعزیتی پیغامات بھیجے ،مرید کہتے ہیں :محسوس ہوتا تھا کہ مرنے کے بعد چار پائی پر پڑے خواجہ صاحب کے ہونٹ حرکت کر رہے تھے،اب میلے کو بھرنے کیلئے رسول اللہ ﷺ کے بناوٹی عرس کی طرح بناوٹی بال کی زیارات کروانے کا ڈرامہ بھی رچایا جاتا ہے،مزید تفصیلات کیلئے دیکھیے تاجدار موہری شریف:صفحہ۲۵تا۸۱اور۱۴۴،۱۸۵،۲۴۳،۲۵۰ وغیرہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل شرک کیلئے ایک عبرت ناک درس ہے کہ دوسروں کو اولادیں دینے کے دعویدار اپنی آخری سانسوں تک نرینہ اولاد کی نعمت سے محروم رہنے کی بنا پر تڑپتے رہے،اسی بنا پر یعنی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ان کی درباری گدی پر تخت نشینی کا جھگڑا ان کی زندگی میں ہی شروع ہو گیا اور کئی افراد گدی نشینی کے امید وار اور دعویدار بن بیٹھے،مزید پیر صاحب اور ان کے بھتیجے کے درمیان لڑائی اور گدی کی بندر بانٹ کی مکمل تفصیل امیر حمزہ کی کتاب ،آسمانی جنت اور درباری جہنم کے صفحہ نمبر 188تا کا 194کا مطالعہ کریں،قیوم ،غوث اعظم ،داتا،غریب نواز،گنج بخش،مشکل کشا،دستگیر،جو اللہ کی صفات ہیں،اسے پیروں کی طرف نسبت کر کے ان جعلی خداؤں کی پوجا کی جاتی ہے،اور کائنات کی یہ سب سے بڑی جعل سازی کرنے کے بعد دوسرا جعلی منصوبہ بنایاگیا جس کے تحت اللہ کے رسول خاتم الانبیاءﷺ کے مقدس نام پر عرس کا ڈرامہ ر چایا جا رہا ہے،اگر کوئی شخص روح افزا،کوکا کولا ،لپٹن چاہے،گھی ،ادویات وغیرہ جعلی بنائے تو اس کیلئے باقاعدہ سزا اور قانون موجود ہے،مگر یہ کس قدر ظلم اور اندھیر ہے کہ جس چیز سے انسان کے جسم کو نقصان پہنچے ،تو اس کیلئے سارے قوانین موجود ہیں،مگر جس سے انسان کی روح مردہ ہو جائے ایمان برباد ہو جائے،عقیدے کا ستیاناس ہو جائے ،آخرت کاگلشن اجڑ جائے ،اس کیلئے نہ کوئی ضابطہ ہے نہ کوئی آئین،نہ کوئی رکاوٹ ہے اور نہ کوئی قانون،قارئین کرام!اس گدی کے آخری حالات کے بارے میں ہمیں جو معلومات مل سکیں ہم نے اپنے سلسلہ'اسلام اور کانقاہی نظام 'میں آپ تک پہنچا دیں،جبکہ مزید لچھن کیاہیں...؟اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے،بہرحال!ہمارا اس سے مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کو ان مصنوعی خداؤں سے ہٹا کر امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺکی اتباع پر لگادیں،چنانچہ اہل توحید پر فرض ہے،اللہ کے رسول ﷺ کی سنت سے والہانہ محبت کرنے والوں پر واجب ہے کہ کتاب وسنت کا نور پھیلائیں اور کوشش کریں کہ اس کے رسول ﷺکی گستاخیوں اور ان کے ناموں پر درباری اور خانقاہی جعل سازیوں کے تمام اندھیرے چھٹ جائیں اور اللہ کی مخلوق جہنم کا ایندھن بننے کے بجائے اپنے اللہ کے مہمان خانے کی حقداربن جائے،

,اسلام اور خانقاہی نظام، 104


⁠⁠,اسلام اور خانقاہی نظام، 
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر104)
 قبر پرستی پر خواجہ معصوم کی محفل میں ہندوانہ استدلال :خواجہ معصوم کی محفل میں ملتان کا ایک خطیب اپنے خطاب کا اختتام ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے یوں کرتاہے:میں نے پچھلا جمعہ اجمیرشریف میں گزارا،وہاں کے خطیب شفقت صاحب فرماتے ہیں:کہ ربانی میاں!جی چاہتا ہے کہ آپ جمعۃ المبارک کے دن ہمارے اس منبر پر بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ کی شان بیان کریں۔ میں نے ابھی تقریر شروع ہی کی تھی کہ اچانک ایک شور سنائی دیا ،میں نے تقریر ختم کی تو مجھےخطیب صاحب نے کہا :ربانی میاں!وہ ہندوتھے جو خواجہ اجمیری کی قبر پر چادر چڑھانے آئے تھے،میں حیران ہو ا...۔ اتنے میں خطیب صاحب نے ایک ہندو کو بلایااور کہا:بابا جی !آپ اجمیری کے مزار پر چادر چڑھانے آئے ہیں؟ہندو نے کہا :ہمیں جو مزہ خواجہ اجمیری کے مزار پر ہے وہ مورتیوں میں نہیں آتا۔میں بڑاحیران ہوا کہ ہندوستان کا ہندو خواجہ اجمیری کے مزار پر چادر چڑھا کر فخر محسوس کرتا ہے،اورپاکستان میں ایک مسلماناگر قبر پر چادر چڑھائے تو اہلحدیث کہتا ہے کہ شرک ہو رہا ہے...۔اور قبر پر چادر چڑھانے کے فعل کادفاع کیا،اپنے اس عمل کی سچائی پر دلیل لائے تو یوں ...کہ یہ کام تو ہندوبھی کرتے ہیں،ہاں !اہل توحید یہی تو کہتے ہیں کہ یہ سارے کام ہندوؤں کے ہیں،جو تم نے اپنائے ہوئے ہیں،یہی تو وجہ ہے کہ ہندو تمھارے مذہب پر عمل بھی کرتا ہے اور پھر ہندو بھی رہتا ہے،جو قرآن و حدیث پر عمل کرے ،جو صحابہ کرامؓ کے طریقے پر چلے ،جو مسجد میں اللہ اکبر کہہ کر نماز کیلئے کھڑا ہو جائے ،وہ مسلمان ہو جاتا ہے ہندو نہیں رہتا ،تبھی تو ہندو بابری مسجد کو ڈھانے چل پڑتا ہے...لیکن دربار پر آکر چادر چڑھا تا ہے اور خوش ہوتا ہے...کیوں؟اس لئے کہ اسے پتا ہے کہ اس سے میری ہندومت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ،جبکہ مسجد میں وہ جائے کا تو ہندو نہیں رہے گا،اس لئے کہ مسجد کی بنیاد رکھنے والے سیدنا محمد ﷺ ہیں ۔جبکہ خانقاہوں،آستانوں اور درباروں کی بنیاد رکھنے والے صوفی ہیں،ہندو کے حوالے سے ایک چادر ہی کی بات نہیں یہاں تو اور بھی بہت کچھ مشترکہ ہے،جو کے تفصیل کے ساتھ گزشتہ اقساط میں گزر چکا ہے اور مزید واقعات آگے آئیں گے،ذراغیر جانبدار ہو کر سوچو تو سہی !کہ یہ جو تمھارے عقائد ہیں جو اہل دربار کے پیچھے لگ کرتم نے اپنائے ہوئے ہیں،یہ عقائد واعمال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتلائے ہوئے نہیں ہیں،بلکہ یہ دیمک زدہ اور کھوکھلے ہیں،ان عقائد و اعمال کا منبع خانقاہی نظام بھی کھوکھلا اور دیمک زدہ درخت ہے،اس دیمک زدہ کھوکھلے خانقاہی درخت میں، اللہ کے رسول ﷺ کی ایک ایک سنت سے محبت کرنے والے اہل توحید سے لڑنے جھگڑنے والو!جن کیلئے تم لڑتے جھگڑتے ہو ،یہ تو اس قدر بے بس ہیں کہ اگر ان کی قبروں پر رکھے ہوئے کھانوں میں سے کوئی مکھی اپنا حصہ اٹھا لے تو اس سے چھڑا نہیں سکتے ،اگر کوئی اہل توحید ان کے بے بنیاد اعمال و خرافات سے لوگوں کو آگاہ کرے تو اس مردِ مجاہد کا بال بھیگا نہیں کر سکتے ،یہ پیر جن کی دنیا میں مرید ی کی جاتی ہے روزِ قیامت اپنے مریدوں سے لاتعلق ہو جائیں گے،لیکن یہ مرید حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے،اور اللہ کے عذاب کا مزہ چکھیں گے،قارئین کرام!کیا لوگوں نے خواجہ معصوم کو 'قیوم 'مان کر اللہ کا مد مقابل نہیں بنا لیا..؟ اور قیوم کے اختیارات ملاحظہ فرمائیں تو کیا لوگوں نے ایک انسان کو اپنا رب نہیں بنا لیا...؟لوگ بے شک زبان سے نہ مانیں لیکن عمل یہ ثابت کر رہا ہے کہ حقیقت یہی ہے،عیسائیوں نے اپنے ولیوں کو 'قیوم 'سے کہیں کم کرنی والانہ سمجھاتھا وہ اپنے پیروں اور مشائخ کی باتوں کو بغیر دلیل کے مانتے چلے گئے اور عیسیٰ علیہ السلام کو انھوں نے اللہ کا بیٹا کہہ ڈالا۔تب اللہ نے ان پر واضح کر دیا کہ ان لوگوں نے ان سب کو اللہ کے علاوہ اپنا ربنا لیاہے،حالانکہ عیسائی انھیں رب نہیں کہتے تھے،اللہ تعالیٰ فرماتاہے:انھوں نے اپنے مشائخ ،پیروں اور مریم کے بیٹے مسیحؑ کو اللہ کے علاوہ رب بنا لیا حالانکہ انھیں حکم یہی دیا گیا تھا کہ وہ ایک رب کی عبادت کریں جس کے علاوہ کوئی رب نہیں،وہ پاک ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں(التوبہ:۳۱)مزید ان مصنوعی خداؤں اور قیوم کے تعارف کیلئے مولانا امیر حمزہ کی تالیف:آسمانی جنت اور درباری جہنم کا مطالعہ کریں، جاری ہے...

، اسلام اور خانقاہی نظام،103

⁠⁠⁠⁠ ⁠⁠⁠، اسلام اور خانقاہی نظام،
 (گزشتہ سے منسلک قسط نمبر103)
 الغرض:یہ القابات تفویض کرنے اور ان بزرگوں میں اختیاراتقسیم کرنے کا یہ ایسا گورکھ دھندا ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:یہ تقسیم تو بڑی دھاندلی والی ہے ،یہ سارا دھندا اس کے سوا"کچھ نہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں،اللہ نے ان کیلئے کوئی دلیل نہیں اتاری،حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم وگمان کے پیچھے لگے ہوئے اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں۔حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے(النجم:۲۲تا۲۳) مگر طریقت کے کوچے میں اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی دلیل اور آجانے والی ہدایت کو پوچھتا کون ہے!یہاں تو کشف اور خوابوں پر کام چلتا ہے،سینہ بسینہ منتقل ہونے والے علم اور امر سے سلسلہ ہائے تصوف میں بیعت کے نام سے لوگوں کو جکڑا جاتا ہے،تصوف وطریقت کے نام یہ جکڑ بندیاں نہ ہوتیں تو بھلا ان بزرگوں کو پانچ قیوم یعنی پانچ رب ماننے کی کون جسارت کرتا؟مگر لوگ ہیں کہ مانے چلے جا رہے ہیں!جبکہ اللہ اپنی کتاب ہدایت میں لوگوں کو ہدایت کی طرف یوں بلا رہے ہیں:اگر زمین و آسمان میں ایک اللہ کے سوا کئی اور' الہ ' ہوتے تو زمین و آسمان کا نظام بگڑ جاتا۔لہٰذا عرش کا مالک اللہ تعالی پاک ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں(الانبیاء:۲۲) اب غور فرمایے!اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ میں عرش کا رب ہوں اور قیوم کہہ رہا ہے کہ نہیں بلکہ کرسی اور لوح و قلم بھی میرے سائے کے نیچے ہیں...۔تو جھگڑا تو برپا ہو گیا جبکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو سمجھا رہا ہے کہ اگر میرے علاوہ کوئی' الہ'یعنی مشکل کشا اور قیوم وغیرہ ہوتے تو یہ کائنات کب کی برباد ہوگئی ہوتی،یہ جو'جعلی قیوم 'اپنی جگہ مستحکم اور اپنی قبر کی دیکھ بھال کیلئے لوگوں کے محتاج ہیں،تو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی' الحی' اور' القیوم 'ہے ،اورطزمین وآسمان کی وہ اکیلا ہی حفاظت کر رہا ہے اور انھیں تھامے ہوئے ہے،اس دربار کی طرف سے صاحبزادہ محمد حفیظ الرحمان معصومی اپنا ماہنامہ رسالہ' المعصوم 'پوسٹ کرتے ہیں،میں نے یہ رسالہ لیا اور پڑھنے لگا ،اس رسالے کا وہ مضمون جس کی تحقیق کیلئے میں یہاں آیا تھا ،وہ تفصیل کے ساتھ اس رسالہ میں موجود تھا،اس مضمون کی سرخی کچھ اس طرح تھی:دربارعالیہ موہری شریف میں؛53ویں سالانہ عرس مبارک رسول ؐ.... لوگو!ذرا ایک لمحہ کیلئے سوچو تو سہی ،عقل آخر کس کام کیلئے ہے!رسول اللہﷺ کا روضہ مبارک مدینے میں ہے ،اور آپﷺ کا عرس ہو رہا ہے پاکستان کے ایک قصبے موہری میں...،انھیں نام' محمد'ﷺسے عرس منانے کا کس نے کہا ہے،مدینے میں یہ عرس نہ تو صدیق اکبرؓنے منایا،نہ فاروق اعظمؓ نے،نہ عثمان غنیؓ نے ،نہ علی مرتضیٰؓنے،نہ دیگر صحابہ کرام نے،نہ بنو امیہ نے اور نہ بنو عباس نے،حتیٰ کہ ترکوں کی خلافت عثمانیہ کہ جن کے دور میں مزاروں اور عرسوں کا رواج ہوا انھیں بھی ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوئی ،کیونکر ہو گی....کہ رسول اللہ ﷺ نے فوت ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے یوں فریاد کہ:اے اللہ میری قبر کو میلہ گاہ نہ بننے دینا کہ اس کی پوجا ہونے لگے(موطاامام مالک:۸۵)علامہ البانی ؒ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے،پھر اپنے امتیوں کو مخاطب کر کے فرمایا:میری قبر پر عرس نہ لگانا(مسند احمد:۲/۶۷)مگر یہ قبروں کی کمائیاں کھانے والے، عالی شان محلوں کے مالک !اس پیارے نبی ﷺ کو کہ جو نبیوں کے امام ہیں کس جائے ظلم و شرک پر لے آئے ہیں،مقام نبوت سے اپنی قبر پرستانہ ولایت پر لے آئے ہیں،بھلا اس سے بڑھ کر کوئی اور گستاخی ہو سکتی ہے....؟موہری دربار پر جم غفیر ہے ،خواجہ معصوم ولایت کا بادشاہ بن بیٹھا ہے،زرق برق لباس کے ساتھ اپنے روحانی تخت پر جلوہ افروز ہے،اس دوران انتہائی قیمتی تاج سر پر رکھ کر اسی طرح تاج پوشی کی جاتی ہے ،جس طرح اکبر و جہانگیر وغیرہ کی تاج پوشی ہوتی تھی،ایک خطیب علامہ علی قادری تقریر کرتے ہوئے آخر پر کہتا ہے:حضور اکرم ﷺ کا قرب تلاش کرنا ہو تو کہاں جاؤ گے؟ان کا نور تو ہر شے میں موجود ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضور کا نور دیکھنا ہو تو مرشد کا چہرہ دیکھا کرو،دوسری طرف صحابہ کرامؓ کو بھی اللہ کے رسول سے سب سے بڑھ کر محبت تھی وہ بھی قرب کے متلاشی تھے،جیسا کہ ربیع بن کعب الاسلمیؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں:میں نبی ﷺ کے ہاں رات گزراکرتا تھا چنانچہ میں آپ ﷺ کیلئے پانی اور ضرورت کی کوئی چیز لایاتو آپ ﷺ نے مجھے کہا :کچھ مانگو !تو میں نے عرض کی:اے اللہ کے رسول !میں آپ ؐسے جنت میں آپؐکا ساتھ چاہتا ہوں ،آپ ﷺ نے فرمایا:اس کے علاوہ بھی کچھ مانگتا ہے؟میں نے کہا:میرے لیے جنت میں آپ کی مرافقت (رفاقت)ہی کافی ہے،چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:پھر بہت زیادہ سجدے کر کے میری معانت کر(تاکہ تو کثرت سجود کی وجہ سے جنت میں میرا پڑوس حاصل کر لے)(مسلم:۴۸۹)یعنی حضور کا قرب جنت میں آپ ﷺ کا قرب ہے اور یہ حضور کی سنت پر عمل کر کے اور صرف اور صرف اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر ملتا ہے،یہی خطیب ذرا آگے چل کے اپنی تقریر میں کہتا ہے :اللہ اکبر!کس کا عرس ہے...؟اللہ ! اللہ !جس کا ذکر جہاں ہوتا ہے وہ وہاں موجود ہوتا ہے،حضور اکرم کا ذکر کر رہے ہیں اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضور پر نور محمد مصطفیٰﷺمشاہدہ فرمارہے ہیں،یعنی شرکت فرما ہیں،اللہ کے رسول ﷺ کا ذکر تو پوری دنیا میں ہر وقت ہوتا رہتا ہے ،تو اہل دربار کے عقیدے کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ دنیا میں ہر جگہ ہر وقت موجود ہوتے ہیں،پھر ان کا عقیدہ یہ بھی کہ حضور ﷺ مختار کل ہیں،یعنی جو چاہیں کریں...!تو اب اس عالمی مبلغ خواجہ معصوم سے کوئی غیر مسلم یا کوئی مسلم سوال کرے!کہ امت خیر الانام ہر جگہ رسوا ہو رہی ہے فلسطین میں یہود کے ہاتھوں،کشمیر میں ہندوکے ہاتھوں ،برما میں بدھ متوں کے ہاتھوں،افغانستان ،عراق میں عیسائی اور یہود کے ہاتھوں،اور دنیا میں بیشتر جگہ صلیبیوں کے ہاتھوں تو رسول اللہ ﷺ ہر جگہ موجود ہیں اور مختار کل بھی ہیں ان سب ہاتھوں کو توڑ کیوں نہیں دیتے ؟آپ ﷺ تو بیگانوں پر ظلم برداشت نہیں کرتے تھے ،واقعہ فاجعہ پر غور کریں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے وہ جاں نثار صحابہ جو معلم انسانیت کے شاگرد تھے،کفار کا ایک گروہ اللہ کے رسول ؐسے یہ کہہ کر انھیں اپنے ساتھ لے گیا کہ یہ ہمیں دین کی تبلیغ کریں گے،ہم نئے نئے مسلمان ہوئے ہین،اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے شاگردوں کو بھیج دیا،کفار اپنے دھوکے میں کامیاب ہوگئے ،انھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو راستے میں شہید کر دیا،آپ ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ ؐدھوکے باز کافروں کیلئے کئی دن بدعاکرتے رہے(البخاری:۴۰۸۶)اے حب رسول ﷺ کا دعویٰ کرنے والو!اس واقعہ کے بارے آپ کا عقیدہ کیا کہتا ہے؟کیا اللہ کے رسولؐ کو علم تھا کہ میرے صحابہؓ کے ساتھ یہ ظلم ہو گا؟اگر پتا تھا تو پھر جانے کیوں دیا ؟اور کیا سفر میں صحابہ کرامؓ کے ساتھ نہ تھے ؟تمہارے خواجہ کے میلے میں تو آگئے مگر کیا آپ ﷺ اپنے صحابہ کرامؓ کے پاس نہ تھے جب انہیں شہید کیا جا رہا تھا؟حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے حاضر وناظر اور مختار کل ہونے کا وہ عقیدہ گھڑا ہے جو قرآن مجید کے خلاف ہے،بلکہ ان درباروں پر ہونے والا ایک ایک عمل نبی ﷺ کی پوری زندگی کے خلاف ہے ،اور پیغمبر ﷺ کی عظمت کے منافی ہے،اور پھر اس سے بڑھ کر گستاخی کیا ہوگی کہ جہاں ڈھول کی تھاپ پر دھمال ،آتش بازی ،تالیوں کی گونج،ناچ گانے،جوئے کے اڈے،شرک وبدعت،بے حیائی اور ایسی بے ہودگیاں اور نا فرمانیاں ان مزاروں پر ہوںِ پھر کہنا کہ سیدنا محمد ﷺ دیکھ رہے ہیں اور شرکت فرما ہیں،اور ان قبروں کے ٹھکیداروں نے ان عرسوں پر حاضریاں دینے والوں کو مختلف اعمال وافعال کے فضائل اور اجروثواب متعین کئے ہوئے ہیں، حالانکہ کسی عمل پر ثواب دینا یا ثواب کا تعین کرنا کہ فلاں کام کرنے پر اس قدر ثواب ہو گا،اتنا اجر و ثواب ملے گا،یہ تو صرف اورصرف اللہ کا کام ہے،اور اللہ تعالیٰ جب بھی حکم دیتے ہیں تو اپنے پیغمبر کے ذریعے حکم دیتے ہیں،تو کسی جگہ کوکوئی مقام دینا کسی عمل پر ثواب کا اعلان کرنا ،یہ مقام نبوت ہے،اور مرتبہ رسالت کا ہے،ذراغور کریں!تو یہ لوگ کن کو سند بنا کر کیسے لوگوں کو دلیل بنا کر اپنے خانقاہی نظام کو دین اسلام ثابت کرنے کی ناکام کو شش کرتے ہیں،اور اہل توحید پر لعن طعن کرتے ہیں،
 جاری ہے www.ficpk.blogspot.com

اسلام اور خانقاہی نظام،102

⁠⁠⁠⁠,اسلام اور خانقاہی،
 (گزشتہ سے منسلک قسط نمبر102)
 اب ہم دربار کے اندر چلے گئے:ہمارے ساتھ دربار کا خادم ممتاز تھا ،اس نے دربار کا تالا کھولا ،یہ بنوں کا پٹھان ہے ،کہہ رہا تھا:میں دس سال سے یہاں رہ رہا ہوں ،اس کی دی ہوئی معلومات اور اس دربار کی طرف سے شائع ہونے والے ماہنامہ 'المعصوم 'اپریل ۱۹۹۱ء کے مطابق مزار پر بیس لاکھ روپے خرچ کئے گئے ،اس کے نقش پر تین لاکھ مزید خرچ کئے گئے،یہاں پر ایک بات بتاتا چلوں کہ مزارں پر جتنا زیادہ خرچ کر کے ان کی زیب و زینت اور نقش ونگار کیا جائے گا اتنے ہی زیادہ لوگ ان قبروں پرحاضریاں دیں گے اور ان قبروں کے ٹھیکیداروں کو اتنی ہی زیادہ آمدنی ہو گی، بہرحال..!میرے سامنے مسلم کی حدیث ہے جس میں آپ ﷺ نے پکی قبر بنانے سے منع فرمایاہے(مسلم:۹۷۰)مگر یہاں ۲۳لاکھ خرچ کر کے فرمان رسول ﷺ کا مذاق اڑایاگیاہے،یہ بات۱۹۹۱ء کی ہے اب تو مزید لاکھوں روپے خرچ کر کے اس مزار کو عالی شان بنا دیا گیا ہے،میرے نبی ﷺ نے قبرکی مجاوری سے منع فرمایا ہے(مسلم:۹۷۱)لیکن اس مزار پر مجاوروں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں،قرآن مجید نے فضول خرچی سے منع کیا اور ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا:بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان لعین کے بھائی ہیں(بنی اسرائیل :۲۷)تو اس مزار پر مینار پاکستان جیسا بیش قیمت عمارت والا ڈیزائن بنا دیا گیا ،ہمارے دین اسلام میں تو قبروں پر چراغ تک جلانا جائز نہیں تو یہاں میں دیکھ رہا تھا کہ انتہائی قیمتی اور نفیس فانوس درمیان میں لٹک رہا ہے،بقول شاعر:ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی۔گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن، اللہ کے رسول ﷺ نے قبر پر لکھنے سے منع فرمایاہے (ابن ماجہ:۱۵۶۳)مگر یہاں پر کتبہ لگا کر وہ مبالغہ آرائی کی گئی کی جس مبالغے سے اللہ کے رسول ﷺ نے خود اپنے بارے میں بھی منع فرمایا:میری تعریف میں مبالغہ نہ کرو جس طرح عیسیٰ ابن مریم ؑ کی تعریف میں عیسائیوں نے مبالغہ کیا،بس بات یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں،لہٰذا مجھے اللہ تعالیٰ کا بندہ اور رسول کہو(البخاری:۳۴۴۵) دربارپر لگے ہوئے کتبہ کی مبالغہ آمیز عمارت:صاحب دربار کی قبر پر کتبے کی انتہائی مبالغہ آمیز عبارت کچھ یوں لکھی ہوئی ہے:محبوب سبحانی ،قطب ربانی ،غوث صمدانی ،مطلع انوار ربانی۔شاہباز لا مکانی ،شیخ المشائخ ،قبلہ عالم ،زریں بخت،سلطان الاولیاء ،اعلیٰ حضرت،عظیم البرکت،والا درجات،الحاج خواجہ صوفی نواب الدین ،ان القاب کا مطلب کچھ اس طرح ہے کہ مسمی نواب دین 'اللہ' کا محبوب ہے ،رب کی طرف سے قطب ہے،اللہ کی طرف سے غوث ہے،رب انوار پھوٹنے کی جگہ ہے،عالم اخروی کا اڑتا ہواطشاہباز ہے،اہل دنیا کا قبلہ عالم ہے،سنہری بختوں والا،ولیوں کا سلطان ،بڑی برکتوں اور درجوں والا،بڑا بلند پایہ حضرت ،کئی حج کرنے والا صوافی اور خواجہ ہے،یہ سب کچھ جو اس حضرت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے،ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ یہ سب کچھ واقعی اللہ نے دیا ہے...؟ اللہ کی طرف سے کسی کو یوں اعزازات و القابات دینے کی خبر تو بذریعہ الہام ہی ہو سکتی ہے جبکہ وحی جو محمد ﷺ پر اتاری گئی ،اس سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ اللہ اس قسم کی باتوں کو سرے سے مانتے ہی نہیں،بلکہ وہ تو تردید فرمارہے ہیں،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:تم لوگ اللہ کے سوا محض بناوٹی ناموں کی عبادت کرتے ہو جنھیں تم نے اور تمھارے باپ دادا نے تجویز کر رکھا ہے،اللہ تعالیٰ نے اس پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی(یوسف:۴۰) اللہ تعالیٰ نے انکار کر دیا ہے ،یہ غوث ،قطب ،قبلہ ،وغیرہ کے جو القاب ہیں،ماننے والوں نے خود ہی بزرگوں کو دے رکھے ہیں،اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں کہا کہ فلاں میرا غوث ہے فلاں میرا قطب یا قلندر ہے،الغرض دربار پر ایک ایک شے اور عمل اللہ کے رسولﷺ کے فرامین کے الٹ دکھلائی دے رہا ہے،جیسے یہ سب کام کسی ضد میں پورے منصوبے کے ساتھ کئے گئے ہوں، کھدی ہوئی قبر:صوفی نواب دین کی قبر کے ساتھ ایک قبر کی جگہ خالی تھی ،میں نے مجاور ممتاز سے پوچھا :یہ خالی جگہ کس کے لئے ہے؟تو وہ انتہائی عقیدت کے ساتھ کہنے لگا:یہ جگہ خواجہ محمد معصوم کیلئے ہے،یہ بالکل تیار ہے ،خواجہ صاحب جونہی پردہ فرمائیں گے تو اس جگہ تشریف لائیں گے،لہٰذا اب خواجہ مرنے کے بعد یہاں دفن ہو چکے ہیں،اس کے پیچھے دیوار پر عبارت کچھ یوں لکھ دی گئی ہے:پیر طریقت قیوم پنجم خواجہ خواجگان الحاج خواجہ محمد معصوم صاحب، صوفی نواب دین کا صاحبزادہ خواجہ معصوم تو زندگی میں ہی 'قیوم 'بن بیٹھا آئیے تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں کہ ان سے پہلے جو' قیوم' ہو گزرے وہ کون ہیں. .؟حضرات مجددیہ چار بزرگوں کی قومیت کے قائل ہیں،قیوم اول:حضرت مجدد الف ثانی،قیوم ثانی:خواجہ محمد معصوم ،قیوم ثالث:خواجہ محمد زبیر اورطان کے بعد بھی بعض بزرگوں مثلاً شاہ احمد ابو سعید حالات میں تفویض قیومیت کا ذکر ملتا ہے،لیکن عجیب بات ہے،کہ'قیوم 'کو صفات نبی سے نہیں صفات الہٰیہ سے متصف کیا جاتاہے(روضۃ القیومیہ بحوالہ رود کوثر ۲۹۸،ازشیخ محمد اکرم )صفات الہٰیہ سے متصف کیوں نہ کریں کہ انھیں شوق ہی' الہ' بننے کا ہے،میں نے ممتاز سے پوچھا :خواجہ معصوم' قیوم'. کیسے بنا؟تو وہ کہنے لگا خواجہ محمد معصوم حضرت مجدد الف ثانی کے بیٹے تھے اور وہ' قیوم' دوم تھے،انھیں کے نام پر حضرت نواب دین نے اپنے بیٹے کا نام خواجہ محمد معصوم رکھا ہے،پھر یہ اپنے بیٹے کو لے کر سر ہند شریف گئے ،وہاں سے انھیں امر ہوا اور حضرت نے کہا :اسے شہباز طریقت اور' قیوم پنجم' کا لقب دیتا ہوں،تو اب یہ ہمارا 'قیوم پنجم ہے، جاری ہے

*اسلام اور خانقاہی نظام* 101

⁠⁠⁠⁠
⁠⁠⁠*اسلام اور خانقاہی نظام* 
(گزشتہ سے منسلک قسط 101)
 قیوم پنجم ....کے دربار پر: گجرات سے آگے کھاریاں کینٹ سے دائیں جانب جی ٹی روڈ سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر 'موہری 'نامہ قصبہ ہے،میں اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ یہاں پہنچا ۔ہم دربار کے بیرونی دروازے سے داخل ہوئے تو اس کے اوپر جلی حروف کے ساتھ لکھا ہوا تھا"قیوم پنجم"قیوم پنجم کون ہوتا ہے...؟اس روحانی منصب کے حامل کی صفات روضہ القیومیۃنامی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں،جسے خاندان مجددیہ کے ایک بزرگ خواجہ ابوالفیض نے ۱۷۳۹ء میں مرتب کیا ہے،خواجہ ابو الفیض 'قیوم 'کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:قیوم اس شخص کو کہتے ہیں جس کے ماتحت تمام اسماء وصفات ،شیوانات ،اعتبارات اور اصول ہوں اور گزشتہ و آئندہ مخلوقات کے عالم موجودات ،جن و انس ،پرندے ،نباتات ہر ذی پتھر ،درخت ،بحر وبر کی ہر شے ،عرش،کرسی،لوح،قلم،ستارہ، ثوابت ،سورج،چاند ،آسمان،برج،سب اس کے سائے میں ہوں،افلاک وبرج کی حرکت وسکون ،سمندروں کی لہروں کی حرکت ،درختوں کے پتوں کا ہلنا،بارش کے قطروں کا گرنا ،پھلوں کا پکنا ،پرندوں کا چونچ پھیلانا،دن رات کا پیدا ہونا ،اورگردش کنندہ آسمان کی موافق یا ناموافق رفتار ،سب کچھ اسی کے حکم سے ہوتا ہے ،بارش کا ایک قطرہ ایسانہیں جو اس کی اطلاع کے بغیر گرتا ہو،زمین پر حرکت وسکون اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا ،جو آرام و خوشی اور بے چینی اور رنج اہل زمین کو ہوتا ہے،اس کے حکم کے بغیر نہیں ہوتا۔کوئی گھڑی ،کوئی دن ،کوئی ہفتہ،کوئی مہینہ،کوئی سال ایسا نہیں جو اس کے حکم کے بغیر اپنے آپ میں نیکی وبدی کا تصرف کر سکے،غلہ کی پیدائش ،نباتات کا اگنا غرض جو کچھ بھی خیال میں آسکتا ہے وہ اس کی مرضی اورحکم کے بغیر ظہور میں نہیں آتا۔مزید لکهتے ہیں کہ زمین پر جس قدر زاہد ،عابد ،ابرار اور مقرب تسبیح ،ذکر فکر،تقدس اور تزویہ میں،عبادت گاہوں ،جھونپڑیوں ،کٹیوں،پہاڑ اور دریاکے کنارے ،زبان ،قلب ،روح،سر،خفی،اخفی،اور نفسی سے مشاغل اور معتکف ہیں اور حق تعالیٰ کی راہ میں مشغول ہیں،گو انھیں اس بات کا علم نہ ہو اور جب تک ان کی عبادت قیوم کے ہاں قبول نہ ہو،تو اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتی(روضہ القیومیۃ جلد اول:۴) حضرات !اصل جمہوری نظام میں جس طرح صدر مملکت بے اختیار اور محض آئینی سربراہ ہوتا ہے،تصوف کے سلسلہ مجددیہ میں(نعوذباللہ )اللہ کے ساتھ اسی بے اختیاری اورمحض آئینی سربراہ کا سلوک کیا گیاہے،قیوم کو وزیر اعظم بنا دیا گیاہے کہ جب تک وہ قبول نہ کرے اللہ کے ہاں کچھ نہیں ہو سکتا ...بلکہ معاملہ اس سے بھی سنگین ہے یہاں تو عرش ،کرسی اور لوح وقلم بھی قیوم کے سائے میں کر دیا گیا ہے...تو پھر اللہ رب العالمین کہاں گئے...؟اور قیوم کے منصب کو دیکھیں تو بات کہاں سے کہاں اور کہیں آگے پہنچتی دکھائی دیتی ہے،جبکہ قرآن واضح طور پر باخبر کر رہا ہے:اللہ از خود زندہ وہ ہستی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے(البقرہ:۲۵۵) یعنی قیوم تو اللہ تعالیٰ ہے جس نے ساری کائنات کو سنبھال رکھا ہے مگر حضرات مجددیہ نے اللہ کی اس صفت کا منصب بنا کر تمام خدائی اختیارات اپنے قیوم کو دیے ۔آپ مجددی 'قیوم 'کے اختیارات دوبارہ ملاحظہ کیجئے ،بالکل یوں دکھائی دیتا ہے جیسے ایک سربراہ دوسرے کا تختہ الٹ کر تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے،ہم اللہ کا قرآن سنا کر ایسی قیومیت سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں:قیوم حقیقی اللہ ذوالجلال والا کرم اپنی آخری کتاب قرآن حکیم میں فرماتے ہیں: قریب ہے کہ سب آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں ،زمین پھٹ جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں ،اس بات پر کہ لوگوں نے رحمان کیلئے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا (مریم:۹۰تا۹۱) اور قیوم کا دعویٰ تو اولاد کے دعوے سے کہیں بڑاہے!پوری کائنات لرز اور کانپ رہی ہے،مگر یہ حضرت انسان اس قدر دلیر ہے قیوم،غوث بنا پھرتا ہے ، جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...