Monday 23 October 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو



تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو
سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#118
(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

مایوسی دور کرنے کے لئے چند تجاویز:
مایوسی کی کیفیت سے باہر آنے کیلئے کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اس حوالے سے ماہرین چند آزمودہ طریقے بتاتے ہیں، جن پر عمل درآمد سے مایوسی سے نمٹا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے تو تسلیم کریں کہ مایوسی ایک قابل علاج بیماری ہے۔ جس طرح مختلف جسمانی اعضا کے ماہر ڈاکٹرز ہوتے ہیں اسی طرح مایوسی کی بیماری کا تعلق بھی ہمارے ذہن اور نفسیات سے ہے۔ کچھ لوگ اسے ایک بیماری تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور مایوسیوں اور ناامیدوں کے ہاتھوں مزید مشکل صورتحال میں گھرتے جاتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کو لاحق مایوسی کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے اور ان کے مسائل کا حل بھی مختلف ہو مگر کچھ ایسے عوامل ضرور ہیں جن کی مدد سے شدید مایوسی کو ختم کیا جا سکتا ہے یا کسی حد تک کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔
مایوسی قابل علاج:
مایوسی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض افراد بہت معمولی مسائل پر بھی مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور دیگر افراد آخری حد تک ممکنہ کوششوں کے بعد مثبت نتائج نا آنے کی صورت میں شدید مایوس ہو جاتے ہیں۔
مایوسی ایک بیماری کی ہی طرح ہے اور قابل علاج بھی مگر مایوس افراد یہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم کر لیتے ہیں کہ وہ ایک قابلِ علاج حالت کا شکار ہیں اور خود کشی کو راہِ نجات سمجھتے ہیں۔
زندگی اللہ تعالی کی امانت ہے۔ خودکشی کرنے والا چلا جاتا ہے لیکن اپنے پیچھے ہزار قسم کی کہانیاں چھوڑ جاتا ہے اور اس کا اثر اس کی پوری نسل پر پڑتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ خودکشی اور مایوسی جیسے موضوعات پر کھل کر بات کی جائے اور اس بارے میں آگاہی پھیلائی جائے۔
رنج و غم کا احساس وقتی اور بے ضرر ہوتا ہے۔لیکن ناامیدی اور مایوسی انسان کو اندر سے مجروح کربدیتی ہے۔بوجھل پن، دل گرفتہ ودل شکستہ رہنا ناامیدی اور مایوسی کی علامات گردانی گئی ہیں۔بوجھل پن اور دل شکستگی کی یہ کیفیت عموما چند ہفتوں پر محیط ہوتی ہے یا کبھی یہ دورانیہ مزید وسعت اختیار کرجاتا ہے۔احساس مایوسی اور ناامیدی ہر انسان کے لئے نقصاندہ ہوتی ہے۔
ناامیداور مایوس آدمی کی حالت ایک ایسے جزیرہ کی ہوتی ہے جو تمام جزائر اور براعظموں سے کٹا ہوا ہوتا ہے۔اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے کہ اس کے ساحل پر زندگی اور خوشیوں سے لدی کتنی کشتیاں روز اترتی ہیں یا پھر اس کے ساحل سے دیگر براعظموں اور جزائر کوروانہ ہوتی ہیں۔ اپنی افتادہ مزاج کی وجہ سے وہ زندگی کو بے کیف و بے مسرت پاتا ہے۔ وقتی رنج و غم کا احساس اسے اندر سے مجروح کرتے چلا جاتا ہے۔
ضرورت اس انتہائی اقدام کی روک تھام کی ہے۔ ایک فرد کا اپنی زندگی ختم کر لینا نہایت افسوس ناک اور تشویش ناک مسئلہ ہے۔
اس قسم کی مایوسیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں یہ ہدایت دی ہے کہ انسان کو چاہئے کہ ایسے معاملات میں وہ اللہ کی پناہ پکڑے اور صبر اور نماز کی مدد سے اس مایوسی کو کم کرے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ. الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ (البقرۃ 2:45-46)
’’صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ بے شک یہ (اللہ سے) ڈرنے والوں کے علاوہ (دوسرے لوگوں کے لئے )بہت مشکل ہے۔ (اللہ سے ڈرنے والے تو وہ ہیں) جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور انہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
اس آیت میں یہ حقیقت بھی بیان کردی گئی ہے کہ یہ آفات کوئی بڑی چیز نہیں ہیں اس لئے کہ ایک دن سب نے ہی اپنے رب سے ملاقات کرنے کے لئے اس دنیا سے جانا ہے۔ اگر انسان حقیقت پسند ہو اور کائنات کی اس بڑی حقیقت کو قبول کرلے تو پھر اسے صبر آ ہی جاتا ہے اور یوں اس کی مایوسی کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں کیونکہ چند روزہ زندگی کے بعد ایک لامحدود زندگی اس کے سامنے ہوتی ہے جہاں نہ کوئی دکھ ہو گا اور نہ کوئی غم۔ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ آپ نے ہر ایسے معاملے میں اللہ کی پناہ پکڑی ہے اور جب بھی آپ کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو آپ نے نماز کے ذریعے اپنے رب کی طرف رجوع کر کے ذہنی سکون حاصل کیا اور اس مصیبت پر صبر کیا۔ اس کا احساس ہمیں آپ کی دعاؤں سے ہوتا ہے۔ دوسری قسم کی مایوسی وہ ہوتی ہے جو انسانی وجوہات سے ہوتی ہے اور اگر انسان چاہے تو اسے کم سے کم حد تک لے جا سکتا ہے۔
ایک مفصّل حدیث مبارکہ میں آتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے ننانوے (99) قتل کئے پھر اسے توبہ کا خیال آیا وہ توبہ کرنے کے ارادے سے نکلتا ہے، ایک مذہبی پیشوا اس کو یہ کہہ کر کہ تمہاری توبہ قبول نہیں ہو سکتی دھتکار دیتا ہے وہ قاتل اپنے مقصد کے حصول سے مایوس ہو کر اس مذہبی پیشوا کو بھی قتل کر کے سو (100) کا عدد پورا کرتا ہے ۔(صحیح بخاری:3470)
اس حدیث میں جہاں اور پہلو موجود ہیں وہاں یہ بھی ہے کہ جو انسان حصول مقصد میں ناکام ہو جائے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے مایوسی کی یہ وجہ روز مرہ زندگی میں مشاہداتی طور پر بھی دیکھی جا سکتی ہے .. مایوسی کی دوسری وجہ کو بھی ایک طرف تو قرآن و حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور دوسری طرف اسے بھی روز مرہ معمولات زندگی میں دیکھا جا سکتا ہے.
ارشاد باری تعالیٰ ہے :-
وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا۔(سورة الإسراء:83)
"اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تو وه منھ موڑ لیتا ہے اور کروٹ بدل لیتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وه مایوس ہوجاتا ہے۔"
خیر و شر برائی بھلائی جو انسان کی فطرت میں ہیں، قرآن کریم ان کو بیان فرما رہا ہے۔ مال، عافیت، فتح، رزق، نصرت، تائید، کشادگی، آرام پاتے ہی نظریں پھیر لیتا ہے۔ اللہ سے دور ہو جاتا ہے گویا اسے کبھی برائی پہنچنے کی ہی نہیں۔ اللہ سے کروٹ بدل لیتا ہے گویا جان پہچان ہی نہیں اور جہاں مصیبت، تکلیف، دکھ، درد، آفت، حادثہ پہنچا اور یہ ناامید ہوا، سمجھ لیتا ہے کہ اب بھلائی، عافیت، راحت، آرام ملنے ہی کا نہیں۔(تفسیر ابن کثیر )
ایک اور جگہ یوں ارشاد فرمایا کہ:-
وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ۔(سوره هود:9)
"اور اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وه بہت ہی ناامید اور بڑا ہی ناشکرا بن جاتا ہے۔"
مذکورہ بالا دونوں آیات طیبہ سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انسان سے جب نعمت چھن جاتی ہے تو وہ ناامید ہو کر مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے .. یہی قرآن مجید فرقان الحمید مایوسی کا تدارک کرنے کے لئے کئی طریقے بیان کرتا ہے ..
قرآن فرماتا ہے کہ :-
ْ ..لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ...(سوره زمر:53 )
" تم اللہ کی رحمت سے ناامید(مایوس)نہ ہو جاؤ،"
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا :-
ِ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُون۔َ(سوره یوسف:87)
"اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ یقیناً رب کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں۔ "
یعنی اللہ کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں کفر ہوتا ہے۔ ایک مومن کبھی مایوس نہیں ہو سکتا۔
ان دونوں آیات مبارکہ میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ حالات خواہ کتنے ہی ناگفتہ بہ ہو جائیں بظاہر تمام مادی اسباب بھی ختم کیوں نہ ہو جائیں لیکن پھر بھی الله سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا .. جو لوگ الله سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین رکھتے ہیں وہ کسی بھی حالت میں مایوسی کا شکار نہیں ہوتے مگر جو لوگ صرف مادی اسباب کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں وہ ان مادی اسباب کے ختم ہوتے ہی مایوسی کے دلدل میں دھنسے چلے جاتے ہیں۔
امتحانات اور آزمائشوں کے بھنور بسا اوقات حالات انتہا درجے تک بھی بگڑ جاتے ہیں اور مصیبتیں بڑھ جاتی ہیں، ظلم کے بادل چھٹنے میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ بد گمانیاں، مایوسی اور نا امیدی دل میں گھر کر جاتی ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے
أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ۔(البقرہ214)
"کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے، حاﻻنکہ اب تک تم پر وه حاﻻت نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔"
قرآن میں ٹھیک یہی مضمون دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے۔
«الم، أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ» (العنکبوت: 3-1)
"کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض ایمان کے اقرار سے ہی چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ ہو گی ہم نے تو اگلوں کی بھی آزمائش کی سچوں کو اور جھوٹوں کو یقیناً ہم نکھار کر رہیں گے۔"
فرمان رسول ہے اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے کہ مومن کو کوئی سختی کوئی مصیبت کوئی دکھ، کوئی غم ایسا نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں معاف نہ فرماتا ہو، یہاں تک کہ کانٹا لگنے پر بھی ۔ (صحیح بخاری:6541)
بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ سراسر بہتر ہے۔ یہ راحت پاکر شکر کرتا ہے اور بھلائی سمیٹتا ہے۔ تکلیف اٹھا کر صبر کرتا ہے، نیکی پاتا ہے اور ایسا حال مومن کے سوا اور کسی کا نہیں ہو ۔ (صحیح مسلم:2999)
پریشانی کے وقت دلوں میں اطمینان ، نوید اور امید اجاگر کرنا قرآنی اور نبوی منہج ہے، جیسے کہ:
اللہ تعالی نے موسی اور ہارون علیہما السلام کو فرعون کی جارحیت کے وقت فرمایا:
{لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى}
"تم دونوں ڈرو مت ، میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سب کچھ دیکھ رہا ہوں اور سن رہا ہوں۔"[طہ: 46]
چنانچہ جب بھی مسلمانوں کو کوئی پریشانی یا دکھ پہنچتا ، یا خطرات منڈلانے لگتے، یا قلق اور مایوسی پھیلتی تو آپ ﷺ صحابہ کرام کے دلوں میں امید کی کرن روشن کرتے ، دلوں میں اللہ تعالی پر مکمل اعتماد اور بھروسا جا گزین کرتے تھے۔ان کو مکمل اعتماد اور اطمینان دلایا، انہیں فتح و نصرت اور غلبے کے وعدے سنائے، انہیں واضح فتح کی خوشخبری بھی دی، آپ ﷺ نے انہیں روم، فارس اور یمن کے خزانے فتح ہونے کی خوشخبریاں سنائیں۔بس شرط صرف یہ تھی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا اور اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھنا کیونکہ اسی کے پاس تمام تنگیوں سے نکلنے کا راستہ اور ہر پریشانی کا علاج ہے، اللہ تعالی اپنے بندوں کے حسن ظن کے مطابق ہی ان سے معاملہ فرماتا ہے، لہذا اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔
چھوٹے چھوٹے مسائل:
ہماری زندگی کا بہت تھوڑا حصہ ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔ ہمارے ماحول کی لاتعداد چیزیں ہمارے اختیار سے باہر ہوتی ہیں۔ ان میں کچھ معاملات بڑے ہوتے ہیں کچھ چھوٹے۔ بڑے معاملات کے نتائج چونکہ سنگین نکلتے ہیں اس لئے ہم انہیں حل کرنے کی پوری کوشش کرتے اور ذہنی طور پر ان سے نبٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ لیکن چھوٹے چھوٹے مسائل کو ہم کم اہم سمجھ کر حل نہیں کرتے۔ جب یہ چھوٹے مسائل حل نہیں ہوتے تو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ طاقت ور ہو جاتے ہیں اور ہماری شخصِیت کو شکست دینے پر تل جاتے ہیں۔
ان چھوٹے چھوٹے معاملات سے ہمیں روز مرہ واسطہ پڑتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں کہیں بھی ہوسکتی ہیں۔ عام طور پر رویوں میں یہ شکایت ہوتی ہے کہ کسی نے سلام نہیں کیا، منہ بنا کر بات کی، خیریت نہیں پوچھی، مہمانداری نہیں کی، تعاون نہیں کیا وغیرہ۔ یہ معمولی باتیں چیزوں کے حوالے سے بھی ہوتی ہیں جیسے گھر کی بکھری ہوئی چیزیں، دیوار کی دراڑ، لباس کی شکنیں، بد ذائقہ کھانا وغیرہ ہمارا موڈ خراب کر دیتے ہیں۔ ماحول میں بھی ان باتوں کا امکان موجود رہتا ہے جیسے ٹریفک جام کی شکایت، لوڈ شیڈنگ، شدید گرمی وغیرہ۔
غرض روزمرہ کی زندگی میں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہمیں ایک ایسے مچھر کی طرح تنگ کرتی رہتی ہیں جو کان پر آ کر بھن بھن کرتا اور بار بار کرتا رہتا ہے۔ ان باتوں کا علاج یہ ہے کہ ان پر کان نہ دھرا جائے، ان کے بارے میں سوچ کر ذہنی توانائی کو صرف نہ کیا جائے، ان پر توجہ نہ کی جائے اور ان کو سوچ میں آنے سے پہلے ہی فنا کر دیا جائے۔ یہ باتیں اتنی معمولی اور حقیر ہوتی ہیں کہ ان کو ابتدا میں ہی نظر انداز کر دینا ضروری ہے۔
زندگی انتہائی مختصر لیکن پریشان کن ہے۔ یہ غیر حقیقی پریشانیاں ہماری زندگی کو مزید مختصر اور زیادہ پریشان کن بنا دیتی ہیں۔ ان کو نظر انداز کیجئے اور زندگی کا لطف اٹھائیے۔
مثبت سوچ:
ہم وہی ہوتے ہیں جہاں ہماری سوچیں ہوتی ہیں ۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ ہم ایک بدنصیب ، بدبخت اور لاچار انسان ہیں تو ہماری باڈی اسی طرح ری ایکٹ کر کے ہمیں ایک بے بس انسان بنا دیتی ہے ۔ اگر ہم غموں کی سوچ کو خود پر حاوی کریں تو ہمارا روپ ایک پژمردہ شخص ہی کا ہوتا ہے ۔ اگر ہم چوبیس گھنٹے اپنے جسم میں درد کو محسوس کرتے رہیں تو ایک نفسیاتی درد محسوس ہونے لگ جاتا ہے ۔
اس کے برعکس اگر کوئی خود کو ایک با ہمت ، طاقتور اور توانا کے روپ میں سوچے تو اس کا جسم اس کی نفسیات کے مطابق ڈھلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کوئی اگر خوشی اور مسرت کی سوچوں میں رہے تو کئی حقیقی تکالیف بھی محسوس نہیں ہوتیں ۔ کوئی اگر دوسروں کے بارے میں منفی سوچ کو نکال دے تو اس کے دماغ میں نفرت کے کانٹوں کی بجائے محبت کے پھول کھلنے لگ جاتے ہیں ۔
بعض لوگوں کی نظر میں خوشی کا تعلق حالات سے ہوتا ہے۔‏ شاید وہ کہیں کہ ”‏مجھے خوشی تب ہوگی۔
جب میرے پاس پیسہ ہوگا۔‏“‏
یا جب میری ازدواجی زندگی خوش‌گوار ہوگی۔‏“‏
یا جب میری صحت اچھی ہوگی۔‏“‏
لیکن سچ تو یہ ہے کہ خوشی کا ہمارے حالات اور ماں باپ سے ملنے والی خصوصیات سے اِتنا تعلق نہیں ہوتا جتنا کہ ہماری سوچ سے ہوتا ہے۔‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ کیونکہ اپنے حالات اور ماں باپ سے ملنے والی خصوصیات پر تو ہمارا زیادہ اِختیار نہیں ہوتا مگر ہماری سوچ پر ہمارا اِختیار ضرور ہوتا ہے۔‏
ہماری سوچ اور مزاج کا ہماری زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے۔‏ ہماری سوچ اِس بات پر بھی اثر ڈالتی ہے کہ ہم اپنے کسی منصوبے کو پورا کریں گے یا پھر بےدل ہو کر اِسے بیچ میں ہی چھوڑ دیں گے اور ہم زندگی میں آنے والی مشکلوں سے سیکھیں گے یا پھر اِن سے بیزار ہو جائیں گے۔‏
ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ اِن باتوں سے اِتفاق نہ کریں۔‏ شاید وہ کہیں:‏
”‏جب میری زندگی میں اِتنی مشکلا‌ت ہیں تو مَیں اپنے چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجا کر کیوں رکھوں؟‏“‏
”‏میری سوچ چاہے جتنی بھی مثبت ہو،‏ اِس سے میرے حالات تو نہیں بدلیں گے۔‏“‏
”‏سمجھ‌داری اِسی میں ہے کہ خوابوں کی دُنیا سے نکل کر حقیقت کا سامنا کِیا جائے۔‏“‏
شاید یہ باتیں آپ کو بھی درست لگیں۔‏ پھر بھی اپنی سوچ کو مثبت رکھنے کے بہت سے فائدے ہیں۔‏
آئیے‏ تین ایسے طریقوں پر غور کریں جن پر عمل کرنے سے آپ مشکل وقت میں بھی زندگی کو مثبت نظر سے دیکھنے کے قابل ہوں گے۔‏
1 مایوسی سے بچیں
مایوسی کی وجہ سے آپ کی صلا‌حیتوں اور طاقت کو زنگ لگ جاتا ہے اور آپ اپنے حالات کو بہتر بنانے یا مشکلوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔‏
2 حوصلہ‌افزا باتوں پر دھیان دیں
اگر آپ صرف بُری اور منفی باتوں پر ہی دھیان دیں گے تو آپ خود کو مصیبت‌زدہ سمجھتے رہیں گے اور آپ کا ہر دن بُرا کٹے گا۔‏ لیکن اگر آپ اچھی باتوں پر دھیان دیں گے تو آپ خوش رہیں گے۔‏ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔‏
3 دوسروں کے کام آئیں
اگر ہم فراخ ‌دلی سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو ہمیں اِطمینان حاصل ہوتا ہے۔‏ دراصل خدا تعالی نے ہمیں بنایا ہی اِس طرح ہے کہ ہم دوسروں کی بھلا‌ئی کا سوچیں۔‏ دوسروں کے کام آنے سے جو خوشی ملتی ہے،‏ اُس سے ہم اپنی مشکلوں سے نمٹنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏
کچھ اہم اِقدام
بغیر کسی غرض کے دوسروں کی مدد کریں۔‏ مثال کے طور پر اگر آپ کا پڑوسی بیمار ہے تو شاید آپ اُس کے لیے کھانا پکا سکتے ہیں۔‏ یا شاید آپ گھر کا کام‌کاج کرنے میں کسی عمر رسیدہ شخص کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔‏
اپنی سوچ کا ویسے ہی خیال رکھیں جیسے ایک مالی باغ کا خیال رکھتا ہے۔‏ اپنے ذہن سے مایوسی کے زہریلے کانٹے اُکھاڑ دیں اور اِس میں مثبت سوچ کا بیج بوئیں۔‏ پھر اِس بیج کو کھاد ڈالیں یعنی اچھے کام کریں۔‏ اِس طرح آپ کو خوشی اور اِطمینان کا پھل ملے گا اور یہ حقیقت ثابت ہو جائے گی کہ ہماری سوچ اور مزاج کا ہماری زندگی پر واقعی بڑا اثر ہوتا ہے۔‏
جس طرح بعض لوگ صحت‌مند رہنے کے لیے کچھ کھانوں سے پرہیز کرتے ہیں،‏ اُسی طرح آپ خوش رہنے کے لیے منفی سوچ سے پرہیز کر سکتے ہیں۔‏
جاری ہے۔۔۔
ہمارا خارجی و داخلی ماحول:
ہمارے خارجی اور داخلی ماحول میں بے شمار خدشات اور خطرات موجود ہوتے ہیں۔ ان خطرات میں زلزلے، سیلاب، طوفان، روڈ ایکسیڈنٹ،بد امنی، فائرنگ، ہارٹ اٹیک، ڈینگی، کینسر، معذوری اور اس نوعیت کے دیگر معاملات شامل ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان خطرات کو ایک حد تک ہی قابو کرسکتے اور ان سے ایک حد تک ہی بچ سکتے ہیں۔ باقی زندگی ہمیں انہی کے ساتھ رہ کر گذارنی ہے۔ اب ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم ہر وقت ان کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنی زندگی اجیرن بنا لیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون اوسط اور قانون امکانات سے کام لیں۔
قانون اوسط یہ بیان کرتا ہے کہ ہمارے کسی مصیبت یا حادثے کے شکار ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسمانی بجلی ساڑھے تین لاکھ میں سے کسی ایک فرد پر ہی گرتی ہے، کینسر میں ہر آٹھ میں سے ایک شخص ہی ہلاک ہوتا ہے۔ فائرنگ سے کروڑوں کے شہر میں دس یا بارہ افراد ہی ہلاک ہوتے ہیں۔ ڈینگی مچھر اتنی بڑی آبادی میں محض چند درجن لوگوں ہی کو متاثر کر پاتا ہے وغیرہ۔ جب آپ اس قانون سے کام لیں گے تو آپ کو علم ہو گا کہ آپ پر کسی بیماری، جرثومہ یا آفت کے حملے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے چنانچہ آپ پرسکون رہیں، حفاظتی تدابیر اختیار کریں، اللہ سے دعا کریں، اللہ پر توکل کریں، اور نتائج سے بے پروا ہو کر اپنا کام خاموشی سے کرتے رہیں۔
اس پر ایک اعتراض یہ وارد ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے آج گولی مجھے ہی لگ جائے یا ڈینگی سے متاثر ہونے کی باری میری ہی ہو یا آج حادثہ میرے ہی ساتھ ہو جائے۔ اب کیا کیا جائے؟ اس مشکل کے تین حل ہیں۔ پہلا حل تو یہ کہ ہم تمام گولی مارنے والے لوگوں کو ختم کر دیں یا تمام ڈینگی ہلاک کر دیں یا تمام حادثات رونما ہونے کے امکانات ختم کر دیں اور جب تک ایسا نہ کر لیں چین سے نہ بیٹھیں۔ اگر آپ اس آپشن پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کیجئے لیکن ایک نارمل آدمی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ ہم ہجرت کر کے کسی ایسی جگہ چلیں جائیں جہاں یہ سب کچھ نہ ہوتا ہو۔ اگر ایسا کرنے سے آپ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہو تو ضرور ایسا کریں۔ لازمی سی بات ہے کہ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں یہ سب کچھ نہ ہوتا ہو۔ ہاں اس کے امکانات کم ہو سکتے ہیں اور جونہی آپ امکانات کی بات کرتے ہیں تو آپ دوبارہ قانون اوسط پر آ جاتے ہیں۔ نیز ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ چنانچہ جب تک آپ کسی پرسکون جگہ تک نہیں پہنچ جاتے آپ کو ان مشکلات کو برداشت کرنا اور ان کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ تیسرا حل ان مشکلات کے ساتھ زندہ رہنا اور وہی قانون اوسط سے مدد لینا ہے۔ اور یہی اس کا حل ہے۔
زندگی میں ہمیں دو طرح کی ناخوشگوار حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ ایک وہ معاملات ہیں جنہیں ہم بدلنے پر قادر ہیں جیسے بیمار ہونے پر دوائی کھانا۔ دوسری جانب وہ امور ہیں جو ناخوشگوار تو ہیں لیکن ہم انہیں بدلنے پر قادر نہیں۔ ان کے ساتھ سمجھوتہ ہی عقل مندی ہے ۔ مثال کے طور پر معذوری، بدصورتی، کسی عزیز کی موت، کوئی مالی محرومی، کسی قیمتی شے کا کھو جانا وغیرہ۔ ان تمام معاملات میں اگر کوئی شخص خود کو ایڈجسٹ نہ کر پائے تو زندگی مشکل تر ہو جاتی بلکہ جہنم بن جاتی ہے ۔ ان کے ساتھ سمجھوتہ کر کے آگے کی طرف دیکھنا اور مثبت زندگی کا آغاز کرنا ہی واحد چارہ ہوتا ہے۔ایلسی میک کارمک کا کہنا ہے کہ جب ہم کسی ناگزیر صورت حال سے جنگ کرنا ترک کر دیتے اور اسے قبول کر لیتے ہیں تو ہم وہ توانائی حاصل کر لیتے ہیں جو ایک کامیاب اور بھرپور زندگی کے لیے ضروری ہے ۔
لیکن اس ضمن میں عام طور پر افراط و تفریط ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آیا یہ حقیقت بدلی جا سکتی ہے یا نہیں ۔ نیز کیا اس واقعہ کا ذمہ دار فرد خود ہے یا حالات۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اب یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اسے یہ فیصلہ قبول کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے ان اسباب کو بھی تلاش کرنا ہے جن کی بنا پر وہ ناکام ہوا۔ اگر وہ اس ناکامی کو اٹل حقیقت سمجھ کر بیٹھ جائے تو بے وقوفی ہو گی۔ بالکل ایسے ہی اگر کوئی شخص بیمار ہے تو آخری حد تک اس بیماری سے لڑے گا کیونکہ یہ ایک اٹل اور ناقابل تبدیل حقیقت نہیں بلکہ اس صورت حال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اٹل حقیقت کو اٹل سمجھنے کا فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
ہماری زندگی میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم نقصان اٹھاتے ہیں۔ کبھی غصے میں آ کر کسی کو کچھ کہہ دیا، کبھی کوئی غلطی کر کے کسی کا دل دکھا دیا ۔ کبھی یہ غلطی چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی بڑی۔ لیکن یہ نقصان ہو چکا ہے۔ اب عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر اسٹاپ لاس کا اصول اپلائی کر کے مزید غلطیوں اور نقصان سے بچا جائے۔ لیکن ہوتا عام طور پر اس کے برعکس ہے ۔ ہم اس غلطی کو جسٹفائی کرنے کی کوشش میں نقصان در نقصان کئے جاتے ہیں۔ اور یوں نتیجہ بھیانک گمراہی اور ٹوٹل لاس کی شکل میں نکلتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کی نماز چھوٹ گئی ہے تو اسٹاپ لاس کا قانون یہ کہتا ہے کہ اس پر توبہ کر کے اس کی قضا پڑھ لی جائے اور آئندہ نماز نہ چھوڑی جائے۔ لیکن عام طور پر لوگ ایک نماز چھوڑنے کے بعد ہمت ہار جاتے اور مستقل بے نمازی بن جاتے ہیں ۔ اسی طرح خاندانی جھگڑوں میں بعض اوقات یہ علم ہوتا ہے کہ ہم غلطی پر ہیں لیکن اسٹاپ لاس کرنے کی بجائے ہم غلطی کو جسٹفائی کرتے چلے جاتے ہیں جس سے تعلقات میں بحالی کی امید ختم ہو جاتی ہے ۔
ماضی و مستقبل کی فکر:
اگرمستقبل کا جائزہ لیا جائے تو عام طور پر دو طرح کی فکریں اور اندیشے ہوتے ہیں۔ ایک قسم تو ان مسائل کی ہے جن کے بارے میں ہم آج تیاری کرسکتے اور ان کا تدارک کر سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر روزگار کا حصول، بہتر مستقبل، اچھا معیار زندگی، اچھی صحت کا حصول وغیرہ۔ دوسری قسم ان فکروں کی ہے جن کے لئے ہم آج کچھ بھی نہیں کرسکتے اور ان کا حل یا تو اس وقت ممکن ہو گا جب یہ مسئلے درپیش آئیں گے یا پھر ان کا تدارک تقدیر کے ہاتھ میں ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کی بیٹیاں ہیں لیکن وہ ابھی کم عمر ہیں۔ چنانچہ بیٹیوں کے لئے اچھے رشتوں کے لئے آج تشویش میں مبتلا ہونا بے وقوفی ہے۔ مستقبل کے غیر ضروری اندیشوں سے نجات کا ایک بہترین راستہ توکل ہے۔ توکل کا مطلب ہے کہ اپنے کرنے کا کام مکمل کر کے باقی کام اور نتائج الله کے سپرد کر دینا۔
اسی طرح ماضی کے غم بھی دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن سے ہم سبق سیکھ کر کچھ بہتری لا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم امتحان میں محنت نہ کرنے کے سبب فیل ہو گیا۔ اب اسے چاہیے کہ ماضی سے سبق سیکھ کر آئندہ محنت کرے۔ دوسرے وہ رنج و الم ہوتے ہیں جن سے ہم کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے اور یہ ہماری یادوں میں کانٹوں کی مانند موجود رہتے اور وقتاً فوقتاً کچوکے لگاتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کا بچہ فوت ہو گیا۔ اب یہ خیال اسے بار بار تنگ کرتا رہتا ہے۔ اس خیال سے چھٹکارا ہی خوشحال زندگی کا ضامن ہے۔
ہم اگر اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ہم میں سے ہر شخص کی زندگی میں ایسے سانحے اور حادثے رونما ہو جاتے ہیں جو ہمیں ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسے میں دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ یا تو ہم صورت حال کے آگے گھٹنے ٹیک کر خود کو تقدیر کے دھارے میں بہنے دیں۔ دوسرا حل یہ ہے کہ اس سانحے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہو جائیں اور اس سے مقابلہ کریں۔ پہلی صورت میں بے چینی اضطراب، ڈپریشن، مایوسی اور بیماری ہمارے حصے میں آئے گی۔ دوسری صورت میں ہم خود اعتمادی، سکون اور صحت مند زندگی کی جانب پیش قدمی کریں گے۔
ماضی کے غم:
ماضی ایک اٹل حقیقت ہے لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں واپس نہیں جایا جا سکتا۔ جو واقعہ ایک منٹ قبل ہوا وہ ماضی کا حصہ بن گیا اور اب وہ ہمارے اختیار میں نہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ہم یا تو ماضی کے پچھتاووں میں زندگی گذارتے ہیں یا مستقبل کے اندیشوں میں ۔ اس ماضی اور مستقبل کے درمیان حال ہے جو اصل زندگی ہے ۔ گزرے ہوئے خوشگوار لمحے کم یاد رہتے ہیں لیکن ناگوار واقعات ہمارے لاشعور میں بعض اوقات چپک جاتے ہیں ۔ کسی کو باپ کے مرنے کا غم چین نہیں لینے دیتا تو کسی کو اولاد کی کی جدائی کا افسوس ہوتا ہے۔ کوئی ماضی کی بے عزتی پر ملول رہتا ہے تو کوئی عشق میں ناکامی کو دل کا روگ بنا لیتا ہے۔ کسی کو اپنے جمے ہوئے کاروبار کی یاد ستاتی ہے تو کوئی تعلیم میں پیچھے رہ جانے پر شب و روز ماتم کرتا ہے ۔
حقیقت ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی کا نقصان ہماری اپنی کوتاہی کی بنا پر ہوا ہو یا قسمت کی بے وفائی کی وجہ سے ، دونوں صورتوں میں ماضی میں جا کر نقصان کو فائدے میں نہیں بدلا جا سکتا۔ چنانچہ اسے بھلا دینا، اپنے لاشعور سے نکال پھینکنا اور صبر و استقامت سے کام لینا ہی عقلمندی ہے ۔
ماضی کو بھلانے کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے ۔ اگر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے تو ایک ناکام ماضی کامیاب مستقبل کی نوید بن سکتا ہے۔ یہ نہ صرف ماضی کے قابل تلافی نقصانات کو فائدے میں بدل سکتا ہے بلکہ ایک مثبت زندگی کی داغ بیل بھی ڈال سکتا ہے ۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ماضی کے نقصان پر غم بالکل نہ ہو۔ ایسا انسانی فطرت کے خلاف ہے ۔ جب چوٹ لگے گی تو دکھ ہو گا لیکن پہلے اسٹیپ میں اس غم پر واویلا کرنے کی بجائے صبر و تحمل سے کام لیا جائے اور غم کے نامعقول اظہار سے حتی الامکان گریز کیا جائے ۔ دوسرے اسٹیپ میں اس صدمے کو پالا نہ جائے ۔ تیسرے اسٹیپ میں یہ دیکھا جائے کہ کن اسباب کی بنا پر یہ صدمہ ملا۔ اگر یہ اللہ کی طرف سے تھا تو اس کی قضا پر راضی رہا جائے ۔ اگر یہ ہماری کسی کوتاہی کی بنیاد پر ہوا تو آئندہ اس کوتاہی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔
فارغ اوقات:
ہماری اکثر پریشانیوں اور غموں کا سبب فارغ اوقات میں بیٹھ کر اوٹ پٹانگ سوچوں کو ذہن میں جگہ دینا ہے۔ فراغت میں کبھی آفس کی پریشانی یاد آتی ہے تو کبھی گھر کا کوئی مسئلہ۔ مردوں کے برعکس خواتین کو اکثر اپنی ساس یا بہو سے متعلق سوچیں آتی ہیں جس سے ان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ ذہن میں آنے والی یہ سوچیں اگر اس قابل ہیں کہ انہیں حل کیا جائے تو کوئی بے وقوف ہی ہو گا جو انہیں ٹالنے کا مشورہ دے گا۔ لیکن اگر یہ سوچیں اس نوعیت کی ہیں کہ آپ ان کو حل کرنے کے لیے فی الوقت کچھ نہیں کرسکتے یا پھر یہ سوچیں ان مسئلوں پر مبنی ہیں جن کو حل ہی نہیں کیا جا سکتا تو ایسی صورت میں ان سے چھٹکارا پانا لازمی ہے۔ یہ لایعنی سوچیں اور ناقابل حل پریشانیاں اگر ذہن میں پلتی رہیں تو یہ آہستہ آہستہ دماغ کے کونوں کھدروں میں جگہ بنا لیتی ہیں۔ ان کی مثال کھٹملوں کی سی ہے جو چا رپائی کے ایک ایک انگ میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اگر ان کا قلع قمع نہ کیا جائے تو یہ انڈے بچے دے کر اپنی نسل کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی دیتے ہوئے پورے گھر میں پھیل جاتے ہیں۔
ان سوچوں سے نجات کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خود کو مصروف رکھا جائے اور غیر ضروری فراغت سے گریز کیا جائے۔ جس کے لئے مطالعہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مطالعہ کا انسان کی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے اور اس بات کا مشاہدہ ہماری روزمرہ زندگی میں مطالعہ کرنے والے اور مطالعہ نہ کرنے والے لوگوں کے عادات و اطوار اور اخلاق و کردار میں واضح فرق کی صورت میں بھی کیا جا سکتا ہے اس لئے مطالعہ کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیے کیونکہ مطالعہ نہ صرف ایک بہترین مشغلہ ہے بلکہ انسان کے فارغ اوقات کا بہترین مصرف بھی ہے۔قرآن حکیم ،تفیسر ،سیرت ،حدیث و فقہ ،تاریخ و ادب اور عام معلومات کو اپنے مطالعہ میں رکھیں۔اور اس مطالعہ کے نتیجے میں حاصل ہونے والے علم کا عملی زندگی پر اطلاق کر کے ہم اپنی دنیاوی و اُخروی زندگیوں کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔
ایک پروفیسر جیمز ایل مرسل کیا خوب کہتے ہیں:
’’جب آپ مصروف ہوتے ہیں تب پریشانیاں اور تفکرات آپ پر حملہ آور نہیں ہوتیں لیکن جب آپ کے کام کاج کے اوقات اپنے اختتام کو پہنچتے ہیں اس وقت آپ کا ذہن بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے ایک موٹر فارغ چل رہی ہو اور اس کی توانائی کہیں استعمال نہ ہو۔ ایسی صورت میں یہ موٹر اپنے ہی پرزے جلا دے گی کیونکہ وہ بنا کسی لوڈ کے چل رہی ہے۔ یہی حال ایک فارغ ذہن کا ہے۔ اس لئے پریشانیوں اور تفکرات سے نجات کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ذہن کی موٹر کو کسی تعمیری کام میں مصروف رکھا جائے۔ اتنا مصروف کہ یہ سوچنے کا بھی وقت نہ ہو کہ آپ خوش ہوں یا ناخوش۔’’
مصروفیت کے لئے چند اہم نکات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ مصروفیت اس نوعیت کی ہو کہ اس سے آپ کا ذہن اور جسم دونوں مصروف رہیں۔
اسی طرح مصروفیت مثبت اور تعمیری ہو۔ مثال کے طور پر گھنٹوں بلا مقصد ٹی وی دیکھنا خود کو تھکانے کے مترادف ہے۔ اسی طرح کسی لڑائی جھگڑے میں خود کو مصروف کرنا بھی کوئی مناسب تدبیر نہیں۔ مصروفیت میں یہ بھی دیکھا جائے کہ اس سے کسی قسم کا ذہنی یا جسمانی نقصان تو وابستہ نہیں۔
مثبت مصروفیات میں جو امور شامل ہیں ان میں کسی کے کام آ جانا، کسی کھیل کود میں حصہ لینا، کسی سماجی سرگرمی کا حصہ بننا، کسی تحریر کا لکھنا، اولاد، بیوی یا شوہر کو وقت دینا، ماں باپ سے نیک سلوک کرنا، رشتے داروں کے مسائل نبٹانا، محلے کے اجتماعی مفاد میں اقدام کرنا ،ذکرو ازکاراور عبادات میں مصروف رہنا وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار سرگرمیاں ہیں جو آپ اپنے ذوق کے مطابق منتخب کر سکتے ہیں۔
بے جا خواہشات:
مایوسی کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ ایسی خواہشات کرتے ہیں جن کی تسکین ممکن ہی نہیں ہوتی مثلاً کوئی شخص اگر یہ خواہش کرے کہ اس کی جھولی میں سورج اور چاند آ جائیں اور وہ ان سے کھیلے یا پھر کوئی یہ سوچے کہ وہ گندم کی فصل سے چاول حاصل کرے۔ ظاہر ہے اس قسم کی مضحکہ خیز خواہشات پوری ہو ہی نہیں سکتیں۔
اگر ہم اپنے باطن کا تنقیدی جائزہ لیں تو ہم خود یہ محسوس کریں گے کہ ہم سے ہر ایک اس قسم کی بہت سی خواہشات ضرور رکھتا ہو گا۔ اس قسم کی مایوسی کا علاج صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم اپنی خیالی دنیا میں رہنے کی بجائے حقیقت پسند بنیں اور حقیقت کو کھلے دل سے قبول کرنے والے بنیں۔ ایسے بھائی اور بہنیں ، جو اکثر مایوسی اور ڈپریشن کا شکار رہتے ہوں ، ان کے لئے ایک مناسب حل یہ ہے کہ وہ کچھ دیر کے لئے کسی پر سکون جگہ پر بیٹھ جائیں اور ایک کاغذ پر اپنی تمام ایسی خواہشات کو لکھیں جو پوری نہ ہوئی ہوں۔ اس کے بعد ان میں سے ان خواہشات پر نشان لگاتے جائیں جو غیر حقیقت پسندانہ ہوں ۔ ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ہماری خواہشات کی اکثریت ایسی ہے جو غیر حقیقت پسندانہ ہے جنہیں پڑھ کو کوئی بھی شخص ہم پر ہنسنے گا۔ جس شخص کی جتنی زیادہ خواہشات غیر حقیقت پسندانہ ہوں گی وہ اتنا ہی زیادہ مایوس ہوگا۔ کوشش کرکے ان تمام خواہشات سے نجات حاصل کر لیجئے۔ ان شاء اللہ آپ خود محسوس کریں گے کہ اس کے بعد آپ کی مایوسی اور ڈپریشن میں واضح کمی ہوگی۔ جو خواہش پوری ہی نہ ہو سکتی ہو، اس کے غم میں گھلتے رہنے سے کیا حاصل؟
اپنی شدت کی ایک controllable limit مقرر کر لیجئے۔ جیسے ہی یہ محسوس ہو کہ کوئی خواہش شدت اختیار کرتی جارہی ہے اور اس حد سے گزرنے والی ہے ، فوراً الرٹ ہو جائیے اور اس شدت کو کم کرنے کے اقدامات کیجئے۔ اس کا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس خواہش کی معقولیت پر غور کیجئے اور اس کے پورا نہ ہو سکنے کے نقصانات کا اندازہ لگائیے۔ خواہش پورا نہ ہونے کی provision ذہن میں رکھئے اور اس صورت میں متبادل لائحہ عمل پر غور کیجئے۔ اس طرح کی سوچ خواہش کی شدت کو خود بخود کم کر دے گی۔ آپ بہت سی خواہشات کے بارے میں یہ محسوس کریں گے کہ اگر یہ پوری نہ بھی ہوئی تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہ بھی خیال رہے کہ خواہش کی شدت اتنی کم بھی نہ ہوجائے کہ آپ کی قوت عمل ہی جاتی رہے۔ خواہش کا ایک مناسب حد تک شدید ہونا ہی انسان کو عمل پر متحرک کرتا ہے۔
تفکرات:
ہمارے تفکرات، خوف، مایوسی، تھکان محرومی وغیرہ بے شمار نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کی جانب آہستہ آہستہ دھکیلتے ہیں۔ ان بیماریوں میں بلڈ پریشر، امراض قلب، تھائیرائیڈ، شوگر اور گٹھیا جیسی مہلک اور تکلیف دہ بیماریاں شامل ہیں۔ ان جسمانی بیماریوں کے علاوہ یہ پریشانیاں ہماری ازدواجی زندگی کی ناکامی، سوشل لائف کی بربادی، نفرت و کدورت، غصہ و انتقام، افسردگی و ڈپریشن جیسی مصیبتوں کا سبب بھی بنتی ہیں۔
لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ اگر ان تفکرات سے نجات حاصل کر لی جائے تو زندگی میں ترقی ممکن نہیں۔ یہی فکر اور ٹینشن ہے جو ایک طالب علم کو پاس کرواتی، ایک ملازمت پیشہ شخص کی ترقی کا سبب بنتی اور ایک کاروباری فرد کی کامیابی کا ضامن ہوتی اور ایک خاتون خانہ کو بہتر مستقبل کی ضمانت دیتی ہے۔ چنانچہ ان تفکرات سے اگر نجات حاصل کر لی جائے تو ترقی کا یہ سفر رک جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری زندگی میں بے شمار مسائل اور ان گنت پریشانیاں ہوتی ہیں۔ لیکن کیرئر میں کامیابی اور زندگی کے مجموعی ارتقاء میں توازن کا ہونا ضروری ہے۔ ایک شخص جوانی کے قیمتی لمحات، صحت اور سوشل لائف غرض سب کچھ داو پر لگا کر ایک بہت بڑا بزنس مین یا ایک اعلیٰ عہدے کا حامل بن جاتا ہے۔ لیکن جب وہ دنیا کی ساری نعمتیں اور آسائشیں اپنے گرد جمع کر کے دنیا کے سامنے ایک کامیاب انسان بن کر کھڑا ہوتا ہے تو اس کا باطن ناکامی کا ثبوت دے رہا ہوتا ہے۔ وہ شخص بیماری کے سبب نارمل اور میٹھا کھانا کھانے سے محروم ہو جاتا ہے، وہ وقت کی کمی کے سبب اپنے ارد گرد کی آسائشوں کو انجوائے ہی نہیں کر پاتا، وہ اپنی اولاد کے ساتھ کھیلنے کے قابل نہیں ہوتا، وہ اپنی بیوی کو مطلوبہ وقت دینے سے قاصر ہوتا ہے، وہ اپنی دولت کا خطیر حصہ علاج کی نظر کر دیتا اور اکثر اوقات وہ اپنی اوسط عمر سے پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔ اس کی زندگی کی خوشیوں کو اگر گنا جائے تو وہ شاید مجموعی طور پر ایک کسان کی خوشیوں سے بھی کم نکلیں گی۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اس نے ٹوٹل سکسیس مینجمنٹ Total Success Management کی بجائے زندگی کے محض ایک یا دو پہلوؤں پر ہی ساری توانائی صرف کر دی اور منہ کی کھائی۔ چنانچہ وہ شخص کسی طور کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا جو تفکرات اور پریشانیوں کے سبب بیماریوں میں گرفتار ہو جائے اور اس سبب زندگی کی نعمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے خواہ وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز کیوں نہ ہو۔
اس ضمن میں جو دوسرا پہلو قابل غور ہے وہ یہ کہ تفکرات تو بے شمار ہیں لیکن ان میں سے کچھ مسائل تو حقیقی ہوتے ہیں جبکہ اکثر مسائل فرضی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک غریب آدمی کے لئے یہ سوچنا کہ آج رات کھانے کا بندوبست کس طرح کرنا ہے، یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ لیکن اسی غریب آدمی کا یہ سوچنا غیر حقیقی ہے کہ اگر کل صبح زلزلہ آ گیا تو کیا ہو گا۔ اسی طرح کچھ پریشانیوں کا حل ہمارے اختیار میں ہوتا ہے جبکہ اکثر مسائل لاینحل ہوتے ہیں۔ جیسے گھر میں اگر پانی نہیں ہے تو یہ مسئلہ قابل حل ہے اور اس پر آرام سے نہیں بیٹھا جا سکتا۔ لیکن دوسری جانب لوڈ شیڈنگ کا کوئی انفرادی حل نہیں چنانچہ اس ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنا ہی مناسب ہے۔
پریشانیاں اگر حقیقی اور قابل حل ہوں تو ان کا حل تلاش کر کے انہیں ذہن سے نکال دیں۔ اگر یہ مسئلے غیر حقیقی یا ناقابل حل ہیں تو انہیں پہلے ہی سے ذہن سے نکال دیں۔ یعنی کسی بھی صورت میں پریشانی کو زیادہ عرصے دل میں نہ رکھیں۔ اور اگر رکھیں تو پھر ان کی قیمت چکانے کے لئے بھی تیار ہو جائیں۔
ہمیں جب بھی کسی مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو ہم اسے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے اکثر لوگ مسائل کو حل نہیں کر پاتے۔ اس کی بنیادی وجہ مسئلے کو غیر سائنسی انداز میں حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ جب تک مسئلے کو سائنٹفک طریقے سے حل نہیں کیا جائے گا، یہ جوں کا توں برقرار رہے گا۔
مثال کے طور پر ایک سبزی بیچنے والا یہ دیکھتا ہے کہ اس کے برابر والی دوکان پر ہر وقت رش لگا رہتا ہے جبکہ اس کی دوکان پر شاذ ہی لوگ آتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ وہ کچھ سوچے سمجھے بنا اس صورت حال سے نبٹنے کے لئے ہاتھ پاوں مارنا شروع کر دے۔ کسی پیر فقیر سے رابطہ کرے،منتیں مرادیں مانے،اور برکت کے لئے قرآنی آیات لٹکائے۔ اس سے ظاہر ہے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ پریشانی میں اضافہ ہی ہو گا۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کا سائنسی تجزیہ کرے اور اس کو حل کرنے کے لیے درج ذیل اقدام کرے:
اسٹیپ نمبر ۱: مسئلے کو بیان کرے۔
اسٹیپ نمبر ۲: مسئلے کی وجوہات بیان کرے۔
اسٹیپ نمبر ۳: مسئلے کے ممکنہ حل تلاش کرے۔
اسٹیپ نمبر ۴: ممکنہ حل میں سے بہترین حل کو اختیار کرے۔
اسٹیپ نمبر ۵: ممکنہ حل پر عمل درآمد کا پروگرام بنائے اور اس پر عمل شروع کر دے۔
پہلا قدم یہ ہے کہ مسئلے کو لکھ لیا جائے۔ ایک اچھی طرح لکھا ہوا مسئلہ آدھا حل خود ہی پیش کر دیتا ہے۔
مثال کے طور پر وہ سبزی فروش مسئلے کو اس طرح بیان کرسکتا ہے۔
بیان نمبر ا: ‘‘میرا کاروبار تباہ ہو رہا ہے’’۔
اگر اس بیان کو دیکھا جائے تو یہ مسئلے کا درست بیان نہیں۔ اس سے یہ واضح نہیں ہو رہا کہ تباہی کی کیا نوعیت ہے، کاروبار کب سے تباہ ہو رہا ہے وغیرہ۔
بیان نمبر۲ : ’’ میرے کاروبار کی گذشتہ چھ مہینوں سے فروخت اوسطاً فی صد کم ہو رہی ہے’’۔
یہ مسئلے کا درست بیان ہے جو اس کے ہر پہلو پر روشنی ڈال رہا ہے۔
دوسرا قدم یہ ہے کہ وہ اس فروخت میں کمی کی وجوہات معلوم کرے۔ وجوہات معلوم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ حقائق جمع کئے جائیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ڈین نے کہا تھا :
‘‘دنیا کی نصف یا آدھی سے زائد پریشانیوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ سوچے سمجھے بغیر فیصلہ کرنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ ان کے پاس وہ معقول علم نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر انہوں نے فیصلہ سرانجام دینا ہوتا ہے.’’
اس سبزی فروش کی سیل میں کمی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مثال کے طور پر سبزی کی خراب کوالٹی، دوکان کی لوکیشن، قیمت میں تفریق، کسٹمر سے برتاؤ وغیرہ۔ درست وجہ معلوم کرنے کے لیے حقائق کو بلا کسی جانبداری کے جمع کرنا چاہیے۔ یہ عین ممکن ہے کہ وہ تعصب کی بنا پر یہ سوچنے لگ جائے کہ اس کا حریف دوکاندار اس لئے کامیاب ہے کہ وہ چاپلوس ہے اور وہ گاہکوں کو گھیرتا ہے وغیرہ۔ حقائق کو غیر جانبداری سے جمع کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مدد لی جائے۔ چنانچہ اگر یہ دوکان دار کسی شخص کو ڈمی گاہک بنا کر دو تین مرتبہ اپنے حریف کے پاس بھیجے تو علم ہو گا کہ اس کا حریف اس لئے زیادہ کامیاب ہے کہ وہ گاہکوں سے خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے مزید یہ کہ وہ کسٹمرز کو اضافی اشیاء بھی دے دیتا ہے۔
تیسرا قدم یہ ہے کہ مسئلے کے ممکنہ حل تلاش کرے۔ یہ حل درج ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں:
ایک حل تو یہ ہے کہ وہ اپنے اخلاق بہتر بنا کر کسٹمر کو اپنی جانب متوجہ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اضافی سبزی بھی دینے لگ جائے۔
دوسرا حل یہ ہے کہ وہ ابتدا میں قیمتیں کم کر دے تاکہ کسٹمرز اس کی جانب متوجہ ہو جائیں۔
تیسرا حل یہ ہے کہ وہ خود پس منظر میں چلا جائے اور کسی چرب زبان اور خوش اخلاق سیلز مین کو دوکان پر بٹھا دے۔
چوتھا قدم یہ ہے کہ تمام ممکنہ حل کا تجزیہ کیا جائے اور ان کی اچھائیاں اور برائیاں دیکھ کر بہترین حل کا انتخاب کیا جائے۔ اگر وہ پہلا حل اپناتا ہے یعنی اپنے اخلاق بہتر کر کے سیل بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ ایک طویل مدتی قدم ہے کیونکہ لوگوں کو اس کے اخلاق کی بہتری کا کافی دیر بعد علم ہو گا۔ دوسرا حل قیمتوں میں کمی کا ہے۔ یہ ایک شارٹ ٹرم اور فوری حل ہے لیکن اس سے پرافٹ مارجن میں کمی آ سکتی ہے۔ البتہ کچھ عرصے بعد قیمتوں کو دوبارہ اسی سطح پر واپس لایا جا سکتا ہے۔ تیسرا حل بھی قابل عمل ہے کہ خود پس منظر میں جاکر کسی خوش اخلاق سیلز مین کو سامنے لایا جائے۔ اس سے لوگوں میں انتظامیہ کی تبدیلی کا تاثر پیدا ہو گا۔ چنانچہ وہ حل نمبر 2 اور 3 بیک وقت اپنانے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔
پانچواں اور آخری قدم یہ ہے کہ اس حل پر عمل درآمد کے لئے پروگرام بنایا جائے۔ چنانچہ وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ نئے سیلز مین کو وہ اگلے ہفتے سے اپائنٹ کر لے گا اور اگلے ہی ہفتے سے وہ قیمت میں دس فیصد کمی کا اطلاق کر لے گا۔
یہ واقع ہم نے بطور مثال پیش کیا ہے آپ اس واقع کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے ایسے ہی دیگر واقعات و حالات کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی سے اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
منفی ذہنیت:
بعض لوگ منفی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر زندگی میں انہیں چند ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے تو وہ اسے پوری زندگی کا روگ بنا لیتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی زندگی کا واحد مقصد اپنی مایوسی کو دوسروں تک منتقل کرنا ہی رہ جاتا ہے۔ یہ جب کسی محفل میں بیٹھتے ہیں تو مایوسی ہی کی بات کرتے ہیں، کسی کو خوش دیکھتے ہیں تو اسے اداس کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہر چیز کے منفی پہلو کو نمایاں کرتے ہیں اور ایک مفکر کی دی گئی مثال کے مطابق مکھی کی طرح جسم کے اسی حصے پر بیٹھتے ہیں جو گلا سڑا ہو اور اس میں پیپ پڑی ہوئی ہو۔ اگر اپنی خوش قسمتی اور دوسروں کی بدقسمتی سے یہ شاعر، ادیب، کالم نگار، صحافی، ڈرامہ نگار، مصور، موسیقار، گلوکار یا اداکار بن جائیں تو اپنی اس مایوسی کو پورے معاشرے میں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر انہیں کسی فن میں نقاد کی حیثیت حاصل ہو جائے تو پھر مایوسی پیدا کرنے والی ہر تحریر، ہر نظم، ہر نغمے، ہر تصویر اور ہر ڈرامے کو شاہکار اور شہ پارے کا درجہ بھی مل جاتا ہے۔ جو لوگ بھی ان سے متاثر ہوتے ہیں، ان کی زندگی پھر غم اور مایوسی کی تصویر بن جاتی ہے۔ جو کوئی بھی مایوسی ہی کو اپنا مقصد حیات بنانا چاہے اس کا تو کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن جو اس مایوسی سے نجات حاصل کرنا چاہے اس کے لئے لازم ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے مکمل طور پر اجتناب کرے۔ اگر انہیں دور سے آتا دیکھے تو فوراً راستہ بدل لے۔ اگر کسی محفل میں انہیں بیٹھا دیکھ لے تو اس میں جانے ہی سے گریز کرے۔ اگر وہ گھر آ جائیں تو انہیں مایوسی پھیلانے والے موضوعات پر بات کرنے سے روکنے کے لئے کوئی اور موضوع چھیڑ کر ان سے جان چھڑانے کی کوشش کرے۔ ان کی تحریروں، نظموں، نغموں اور ڈراموں کا مکمل بائیکاٹ کرے۔ اگر آپ تھوڑا سا غور کریں تو اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے معاشرے میں سے ایسے لوگوں کو باآسانی بلیک لسٹ کر سکتے ہیں۔
مثبت جذبات:
50 فیصد بیماریاں ذہنی پریشانی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔جو لوگ سکون آور دوائیں استعمال کرتے ہیں وہ یقینا منفی احساسات وجذبات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات منفی جذبات کی وجہ سے شدید کمزوری پیدا ہو جاتی ہے پھر کمزوری کو دور کرنے کیلئے طاقت کی دوائیں استعمال کرنا پڑتی ہیں۔
منفی جذبات کا علاج مثبت جذبات ہیں‘ منفی ماحول کو ترک کردینا‘ منفی باتوں یا واقعات کا مثبت مطلب تعبیر کرنا ہے‘ منفی اثرات کو قبول نہ کرنا‘ اپنی طبیعت کو پوری کوشش کرکے مثبت انداز سے تعمیر کرنا‘ صبرشکر‘ تقدیر پر راضی رہنا‘ اللہ کے دین کی عطا‘ اس کی کرم فرمانیاں اس کی عنایتیں بے شمار ہیں‘ ہر حال میں پُرامید رہنا اور اس کی یاد میں لگے رہنا‘ بندگی کا مقتضی بھی ہے اور یہی ہماری سب پریشانیوں بے چینی اورغموں کا علاج بھی ہے۔
مایوسی ایک شیطانی حملہ:
یقینا ہر گناہ بہت خطرناک ہے مگر ’’مایوسی‘‘ باقی تمام گناہوں سے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے…اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی، اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے مایوسی…اپنے حالات درست ہونے سے مایوسی …اللہ تعالیٰ کی نصرت سے مایوسی…
مایوسی کا گناہ کئی بڑے بڑے گناہوں سے زیادہ خطرناک ہے۔کیونکہ یہ گناہ انسان کو توڑ کر نا امید کر دیتا ہے اور اُسے جہنم کی طرف لڑھکا دیتا ہے۔
مایوسی کا یہ خطرناک شیطانی حملہ اکثر نیک لوگوں پر ہوتا ہے…اور یہ اس لیے ہوتا ہے تاکہ وہ نیک اعمال چھوڑ دیں، دین کا کام چھوڑ دیں۔اور خود کو شیطان کے حوالے کر دیں … آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ لوگ جو برائیوں میں سر تا پا ڈوبے ہوتے ہیں…دن رات گناہ کرتے ہیں اور گناہ پھیلاتے ہیں اور نعوذباللہ گناہوں کو گناہ تک نہیں سمجھتے…وہ لوگ اکثر مطمئن پھرتے ہیں … نہ کوئی ڈر نہ کوئی پریشانی…اگرچہ اُن کے دل سکون سے خالی ہوتے ہیں…مگر اللہ یا آخرت کے بارے انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی…لیکن جو لوگ نیکی کی راہ پر ہوتے ہیں اور دین کا کام کرتے ہیں … اُن پر اچانک مایوسی کا حملہ ہو جاتا ہے…اصل میں تو یہ حملہ کسی بڑے گناہ یا بڑی ناکامی کی وجہ سے ہوتا ہے…وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا سارا پچھلا کام ضائع ہو گیا…اور اب آگے مزید عمل کریں گے تو وہ بھی ضائع ہو جائے گا…اس لیے وہ دل چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور جب وہ اعمال یا ماحول سے کٹتے ہیں تو شیطان فوراً اُن کا شکار کرلیتا ہے۔لیکن کبھی کبھار بہت چھوٹی یا معمولی باتوں پر بھی…یہ شیطانی حملہ شروع ہو جاتا ہے۔
ناکامیوں کا دوسروں پر الزام:
اپنی خواہش اور عمل میں تضاد کو دور کیجئے۔ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر دھرنے کی بجائے اپنی کمزوریوں پر زیادہ سوچئے اور ان کو دور کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہر معاملے میں دوسروں کی سازش تلاش کرنے سے اجتناب کیجئے اور بدگمانی سے بچئے۔ یہ طرز فکر آپ میں جینے کی امنگ اور مثبت طرز فکر پیدا کرے گا۔
اگر کوئی چیز آپ کو مسلسل پریشان کر رہی ہو اور اس مسئلے کو حل کرنا آپ کے بس میں نہ ہو تو اس سے دور ہونے کی کوشش کیجئے۔ مثلاً اگر آپ کے دوست آپ کو پریشان کر رہے ہوں تو ان سے چھٹکارا حاصل کیجئے۔ اگر آپ کی جاب آپ کے لئے مسائل کا باعث بن رہی ہو تو دوسری جاب کی تلاش جاری رکھئے۔ اگر آپ کے شہر میں آپ کے لئے زمین تنگ ہوگئی ہے تو کسی دوسرے شہر کا قصد کیجئے۔
خیالی پلاو:
اگر آپ کو کسی بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور آپ کے لئے اس سے جسمانی فرار بھی ممکن نہ ہو تو ایک خاص حد تک ذہنی فرار بھی تکلیف کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ اس کو علم نفسیات کی اصطلاح میں بیدار خوابی (Day Dreaming) کہا جاتا ہے۔ اس میں انسان خیالی پلاؤ پکاتا ہے اور خود کو خیال ہی خیال میں اپنی مرضی کے ماحول میں موجود پاتا ہے جہاں وہ اپنی ہر خواہش کی تکمیل کر رہا ہوتا ہے۔ جیل میں بہت سے قیدی اسی طریقے سے اپنی آزادی کی خواہش کو پورا کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ہر شخص کسی نہ کسی حد تک بیدار خوابی کرتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے مسائل کی شدت کو کم کرتا ہے۔ مثلاً موجودہ دور میں جو لوگ معاشرے کی خرابیوں پر بہت زیادہ جلتے کڑھتے ہیں، وہ خود کو کسی آئیڈیل معاشرے میں موجود پا کر اپنی مایوسی کے احساس کو کم کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ بیدار خوابی اگر بہت زیادہ شدت اختیار کر جائے تو یہ بہت سے نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا باعث بنتی ہے۔ شیخ چلی بھی اسی طرز کا ایک کردار تھا جو بہت زیادہ خیالی پلاؤ پکایا کرتا تھا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس طریقے کو مناسب حد تک ہی استعمال کیا جائے۔
خود کشی:
آپ کو جو بھی مصیبت پہنچی ہو، اس کے بارے میں یہ جان لیجئے کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرکے آپ کو کسی طرح بھی اس مصیبت سے نجات نہیں ملے گی بلکہ مشہور حدیث کے مطابق موت کے بعد وہی حالات خود کشی کرنے والے پر مسلط کئے جائیں گے اور وہ بار بار خود کو ہلاک کرکے اسی تکلیف سے گزرے گا۔ اس سزا کی طوالت کا انحصار اس کے قصور کی نوعیت اور شدت پر ہوگا۔
خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے۔ اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ قرآن و حدیث کے دلائل سے قبل آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اسے اتنا بڑا جرم کیوں قرار دیا۔
درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں بلکہ ﷲ کی عطا کردہ امانت ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔ اسلام نے ان اسباب اور موانعات کے تدارک پر مبنی تعلیمات بھی اسی لیے دی ہیں تاکہ انسانی زندگی پوری حفاظت و توانائی کے ساتھ کارخانہِ قدرت کے لیے کار آمد رہے۔اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔
زندگی اور موت کا مالکِ حقیقی ﷲ تعالیٰ ہے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اُسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ تلف کرنا بھی ﷲ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے۔
ارشا ربانی ہے:
وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ....۔
’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو،(البقرة: 195)
’’مفسرین کے نزدیک اس سے مراد کسی مسلم کی خودکشی کرنا بھی ہے۔‘‘
فرمان رسول ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پچھلے زمانے میں ایک شخص (کے ہاتھ میں)زخم ہو گیا تھا اور اسے اس سے بڑی تکلیف تھی، آخر اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ لیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خون بہنے لگا اور اسی سے وہ مر گیا پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے خود میرے پاس آنے میں جلدی کی اس لیے میں نے بھی جنت کو اس پر حرام کر دیا۔“(صحیح بخاری )
حضرات مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ آدمی کا گناہوں پر گناہ کئے چلے جانا اور توبہ نہ کرنا یہ بھی اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے۔
بہرحال! ہمارے یہاں خود کشی کرنے والے صرف ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جن مصیبتوں سے بچنے کے لئے وہ ایسا کرتے ہیں، اس سے بڑی مصیبتیں ان کی منتظر ہوتی ہیں۔ آپ نے ایسا بہت کم دیکھا ہو گا کہ مصائب سے تنگ آ کر کسی دین دار شخص نے خود کشی کی ہو کیونکہ اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مصیبت کا کیا ہے، آج ہے کل ٹل جائے گی اور درحقیقت ایسا ہی ہوتا ہے۔
گھر کے افراد:
ضرورت گھر کے افراد کی آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کی ہے۔ زیادہ تر پریشانیاں گھر سے ہی شروع ہوتی ہیں۔ اہل خانہ ایک دوسرے کو اعتماد میں لیں۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھیں کہ وہ اپنا کوئی بھی مسئلہ بغیر ہچکچاہٹ کے بیان کر سکیں۔
میاں، بیوی، بھائی اور بہن کے درمیان دوستی اور اعتماد کا رشتہ بڑھائیں۔ کوئی فرد باہر جتنا بھی پریشان ہو اگر گھر کا ماحول خوشگوار ہوگا تو منفی سوچ کو تقویت نہیں ملے گی۔
اسوہ حسنہ:
ان تمام طریقوں سے بڑھ کر سب سے زیادہ اہم رویہ جو ہمیں اختیار کرنا چاہئے وہ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل توکل اور قناعت ہے۔ توکل کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہا جائے۔ اس کا انتہائی معیار یہ ہے کہ انسان کسی بھی مصیبت پر حد سے زیادہ دکھی نہ ہو بلکہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو ، اسے دل و جان سے قبول کر لے۔ ظاہر ہے عملاً اس معیار کو اپنانا قدرے مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔
قناعت کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنا عطا کر دیا ہے ، اسی پر خوش رہا جائے۔ اس سے زیادہ کی کوشش اگرچہ انسان ضرور کرتا رہے لیکن جو بھی اسے مل جائے اسے اپنے رب کی اعلیٰ ترین نعمت سمجھتے ہوئے خوش رہے اور جو اسے نہیں ملا ، اس پر غمگین نہ ہو۔ وہ آدھے گلاس میں پانی دیکھ کر شکر کرے کہ آدھا گلاس پانی تو ہے، اس غم میں نہ گھلتا رہے کہ باقی آدھا خالی کیوں ہے؟ اگر ہم ہمیشہ دنیا میں اپنے سے اوپر والوں کو دیکھنے کی بجائے خود سے نیچے والوں کو ہی دیکھتے رہیں تو ہماری بہت سی پریشانیاں ختم ہو جائیں۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو کامیاب زندگی گزارنے کے طریقے سکھاتا ہے .. مایوسی سے نبردآزما ہونے کے لئے اسلام نے ایک نفسیاتی اصول بیان کیا ہے جو کسی بھی نظام ہائے زندگی میں نہیں ملتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی آزمائش ضرور کر لیا کرتا ہے کبھی ترقی اور بھلائی کے ذریعہ اور کبھی تنزل اور برائی سے، کبھی بیماری اور صحت سے،کبھی مال و اولاد وغیرہ سے۔
جیسے فرمایا:
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ۔(محمد: 31)
یقیناً ہم تمہارا امتحان کریں گے تاکہ تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو ﻇاہر کر دیں اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کر لیں۔ "
دوسری جگہ فرمایا:
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (2-البقرة:155)
" اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے ، دشمن کے ڈر سے ،بھوک پیاس سے ، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اوران صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیئے۔
مطلب یہ ہے کہ تھوڑا سا خوف، کچھ بھوک، کچھ مال کی کمی، کچھ جانوں کی کمی اپنوں اور غیر خویش و اقارب، دوست و احباب کی موت، کبھی پھلوں اور پیداوار کی نقصان وغیرہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزما لیتا ہے، صبر کرنے والوں کو نیک اجر اور اچھا بدلہ عنایت فرماتا ہے اور بے صبر جلد باز اور ناامیدی و مایوسی کرنے والوں پر اس کے عذاب اترتے ہیں۔
قرآن مجید ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ جب تم پر کوئی بلائے ناگہانی، مصیبت، تکلیف یا کوئی دینی و دنیوی نقصان آ پہنچے تو اس وقت کامل شعور اورغور فکر کے ساتھ یہ کلمات ادا کرو ..
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ(سورہ البقرہ:156)
"جنہیں، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔"
مسند احمد میں ہے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرے خاوند ابوسلمہ رضی اللہ عنہ ایک روز میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہو کر آئے اور خوشی خوشی فرمانے لگے آج تو میں نے ایک ایسی حدیث سنی ہے کہ میں بہت ہی خوش ہوا ہوں وہ حدیث یہ ہے کہ جس کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچے اور وہ یہ دعا پڑھے
«اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منھا»
یعنی اللہ مجھے اس مصیبت میں اجر دے اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اسے اجر اور بدلہ ضرور دیتا ہے۔اس حدیث میں صبر کی طرف اشارہ ہے جس کی وضاحت سورہ العصر میں ملتی ہے
وَالْعَصْرِ﴿1﴾ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴿2﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴿3﴾
"زمانے کی قسم۔ (1) بیشک [بالیقین] انسان سرتا سر نقصان میں ہے۔ (2) سوائے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے اور [جنہوں نے] آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔"
یعنی انسان نقصان و ہلاکت میں ہے، ہاں اس نقصان سے بچنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان ہو، اعمال میں نیکیاں ہوں، حق(نیکی کے کام ) کی وصیتیں کرنے والے ہوں، حرام کاموں سے رکنے کی ایک دوسرے کو تاکید کرتے ہوں،
بری باتوں سے روکنے میں لوگوں کی طرف سے جو بلائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو ان کو بھی برداشت کرتے ہوں اور اسی کی تلقین اپنے ساتھیوں کو بھی کرتے ہوں یہ ہیں جو اس صریح نقصان سے مستثنیٰ ہیں۔
مزید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ملک الموت سے دریافت فرماتا ہے تو نے میرے بندے کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اس کا کلیجہے کا ٹکڑا چھین لیا بتا تو اس نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں اللہ تیری تعریف کی اور «إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» پڑھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دو۔ (سنن ترمذي:1021، قال الشيخ الألباني:حسن)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح مایوسیوں اور پریشانیوں سے بچا کر ہر مصیبت کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے اور ہم پر اپنی رحمتیں نازل کرتا رہے۔
اس مضمون کا پہلا حصہ پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/10/blog-post_52.html
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...