Sunday 1 October 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#112

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

سچی توبہ اور کثرت استغفار:

یہ حقیقت ہے کہ انسان خطا ونسیان کا پتلا ہے، غلطی اور گناہ کرنا اس کی جبلت میں داخل ہے، مگر بہترین گناہ گار وہ ہے جو اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ آنسو بہائے اور اپنے کیے پر الله تعالیٰ سے رجوع کرے ، معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔

سچی توبہ جس میں توبہ کی تمام شرائط موجود ہوں، نفس کو جلا و روشنی بخشتی ہے اور گناہوں اور برائیوں کے تمام میل کچیل کو صاف کر دیتی ہے، کیونکہ گناہوں اور معاصی پر بار بار اصرار نفس اندھا کر دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گناہوں پر مصر نافرمان نفس کو تم انتہائی ظلمت اور قساوت میں پاؤ گے جو مکدر اور بے لذت ہوتا ہے،
لہذا توبہ نفس کی مساعی جمیلہ یعنی اچھی کوششوں میں سے ایک بہترین کوشش ہے، اور اس کوشش کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ نفس صالح یعنی تقوی والا اور مستقیم یعنی راہ الہی پر ٹھیک چلنے والا ہو جاۓ ، یاد رکھیے کہ کثرت توبہ اور بار بار توبہ کا اعادہ کرنا اور ہمیشہ استغفار کرتے رہنا یہ ان امور میں سے ہے جن سے نفس صالح اور پاکیزہ بنتا ہے، اور اسے اعمال خیر کی طرف لے جاتا ہے۔

دراصل تین چیزوں کے مجموعہ کا نام توبہ ہے، ایک یہ کہ جو گناہ سر زد ہو جائے اس پر دل سے ندامت وشرمندگی اور پشیمانی ہو ، دوسرے یہ کہ جو گناہ ہو اس کو فوراً چھوڑ دے، تیسرے یہ کہ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم ( پکا ارادہ) ہو ، ان ہی تین چیزوں کے مکمل ہونے پر توبہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔

قرآن وحدیث میں توبہ کرنے والوں کے لیے خوش خبری اور بشارت دی گئی ہے اور الله توبہ کرنے والوں کو پسندیدگی اور محبوبیت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

”بے شک الله کو پسند آتے ہیں توبہ کرنے والے اور پسند آتے ہیں گندگی سے بچنے والے۔“ (سورہ البقرہ:222)

توبہ کی یہ صفت انسان کو کام یابی کے بلند مدارج تک پہنچاتی ہے ، اسی سے دل کا سیاہ دھبہ دور ہو سکتا ہے ، اس توبہ ہی سے بڑے بڑے گناہ گار اور مایوس لوگ منزل مراد سے ہم کنار ہوتے ہیں ، کتنے ہی بڑے بڑے گناہ گاروں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں عرض حال کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی مایوسی دور کرکے انہیں حوصلہ بخشا اور خوش خبری دی۔

ایک مرتبہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے الله تعالیٰ کے رسول (صلی الله علیہ وسلم) ! میں نے اتنے اور ایسے گناہ اپنی زندگی میں کیے ہیں کہ اگر ان گناہوں کو دنیا کے تمام انسانوں پر تقسیم کر دیا جائے تو سب جہنم میں چلے جائیں ۔ الله کے رسول (صلی الله علیہ وسلم) ! کیا ان گناہوں کی تلافی کا کوئی طریقہ ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو اپنا ایمان تازہ کرنے اور الله کی طرف رجوع ہونے کی تلقین فرمائی ، تو اس شخص کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
حدیث شریف میں ایسے کتنے ہی واقعات ہیں کہ گناہوں سے بجھے ہوئے دل روشن چراغ بن گئے اور انہیں دنیا کے انسانوں کو صحیح راہ دکھانے کی سعادت حاصل ہو گئی۔

ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد
ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے، پھر اگر وہ اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور معافی مانگ لیتا ہے تویہ سیاہ دھبہ مٹا دیا جاتا ہے، لیکن اگر وہ اس گناہ کا اعادہ کرتا ہے تو سیاہ دھبوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھاجاتا ہے، بس یہی وہ ”رین“ کی کیفیت ہے جس کا ذکر الله تعالیٰ نے اس طرح فرمایا: كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ (سورة المطففين:14)
"یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کےاعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے۔"
اگر ابتدائی مرحلہ میں انسان اپنی اخلاقی بیماری پر آگاہ ومتنبہ ہو کر گناہ او رمعصیت کو چھوڑ کر، توبہ واستغفار کرے تو الله تعالیٰ اس سیاہ دھبہ کو زائل فرما دیتا ہے ، لیکن اگر اس نے اس کی فکر نہ کی اور توبہ واستغفار کا دامن نہیں تھاما تو انسان گناہوں کے سمندر میں ڈوبتا چلا جاتا ہے اور اس سے نکلنا بہت دشوار ہو جاتا ہے ، دراصل جو دل خوف الہٰی سے معمور ہو جاتا ہے وہ انسان کے لیے دنیا وآخرت میں فلاح ونجات کی راہیں ہموار کرتا ہے۔

دل پر سیاہ دھبہ دراصل انسان کے اعمال کی سیاہی ہے اورا س کیفیت کا نام قرآن مجید کی اصطلاح میں ”رین“ ہے، جو مذکورہ آیت میں ”کل بل ران علی قلوبھم“ میں فرمایا گیا ہے، جس کاترجمہ ہے ”ہر گز نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر ان کے بُرے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔“

ارشاد ہے ” جو کوئی گناہ کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے اور الله سے بخشش چاہے تو وہ الله کو بخشنے والا، مہربان پائے گا“ ۔ (سورہٴ نساء آیت:110)

چنانچہ بخشش کا مطالبہ انبیاء و المرسلین علیہم الصلاۃ و السلام کی عادت مبارکہ ہے۔ فرمایا: 
{قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِين}
[حوا اور آدم ] دونوں نے کہا: ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا، اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ [الأعراف : 23]
اور نو ح علیہ السلام کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا:
{رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ }
میرے پروردگار! مجھے ، میرے والدین، اور میرے گھر میں داخل ہونے والے مؤمن مرد و خواتین تمام کو بخش دے۔[نوح : 28]
اور ابراہیم علیہ السلام کی بات حکایت کرتے ہوئے فرمایا:
{رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ}
ہمارے پروردگار! مجھے، میرے والدین، اور تمام مؤمنین کو حساب کے دن بخش دینا۔[ابراہیم : 41]
اور موسی علیہ السلام کا مقولہ نقل کرتے ہوئے فرمایا:
{ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ}
میرے پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے، اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ [الأعراف : 151]
ایسے ہی فرمایا:
{وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ}
داؤد علیہ السلام سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، تو پھر اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور پوری طرح رجوع کیا ۔[ص : 24]
اور نبی ﷺ کو حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
{فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ}
یه بات جان لیں! اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، اور اپنے تسامحات سمیت سب مؤمن مرد و خواتین کیلئے اللہ تعالی سے بخشش مانگیں۔[محمد : 19]
اور آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے، حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی گزشتہ و پیوستہ تمام لغزشیں معاف فرما دی ہیں ، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :"ہم رسول اللہ ﷺ کی ایک ہی مجلس میں سو سے زیادہ مرتبہ استغفار کے یہ الفاظ شمار کر لیتے تھے:
(رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ)
میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور میری توبہ قبول فرما، بیشک تو توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے]ابو داود، ترمذی اور اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔
اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: "رسول اللہ ﷺ وفات سے پہلے اکثر اوقات یہ فرمایا کرتے تھے: (سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ) "اللہ اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے، میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔(بخاری و مسلم)

آپ ﷺ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد تین بار کہا کرتے تھے: " أَسْتَغْفِرُ اللهَ " [میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں]مسلم نے اسے ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس کے بعد نماز کے بعد والے اذکار فرماتے ۔
استغفار نیک لوگوں کی عادت ، متقی لوگوں کا عمل اور مؤمنوں کا اوڑھنا بچھونا ہے، اللہ تعالی نے انہی کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا:
{رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ}
ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ بخش دے، اور ہماری برائیاں مٹا دے، اور ہمیں نیک لوگوں کیساتھ موت دینا۔[آل عمران : 193]

اسی طرح فرمایا:
{اَلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [16] الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ}
وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لا چکے اس لئے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا [16] وہ صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور فرمانبرداری کرنے والے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور پچھلی رات کو بخشش مانگنے والے ہیں۔ [آل عمران : 17-16] 
فرمایا:
{وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا الله فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا الله وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ}
ایسے لوگوں سے جب کوئی برا کام ہو جاتا ہے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں، اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکے؟ اور وہ دیدہ دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے [آل عمران : 135]

چنانچہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی سے اپنے تمام گناہ جنہیں جانتا ہے یا نہیں جانتا سب کی بخشش مانگے تو اسے بہت بڑی بات کی توفیق مل گئی ہے۔
گناہوں کی بخشش کیلئے انسان کی طرف سے کی جانے والی دعا اخلاص، اصرار، گڑگڑانے، اور اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری کے اظہار پر مشتمل ہوتی ہے، نیز اس میں گناہوں سے توبہ بھی شامل ہے، اور اللہ تعالی سے توبہ مانگنا بھی استغفار ہی کی ایک شکل ہے، چنانچہ یہ تمام امور استغفار اور توبہ کے ضمن میں آتے ہیں، لہذا مذکورہ الفاظ الگ الگ ذکر ہوں تو تمام معانی ان میں یکجا ہوتے ہیں، اور جب یہ الفاظ سب یکجا ہوں تو استغفار کا مطلب یہ ہو گا کہ: گناہوں اور ان کے اثرات کے خاتمے، ماضی میں کیے ہوئے گناہوں کے شر سے تحفظ اور گناہوں پر پردہ پوشی طلب کی جائے۔
جبکہ توبہ کے مفہوم میں: گناہ چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع ، گناہوں کے خطرات سے مستقبل میں تحفظ اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم شامل ہے۔
اللہ تعالی نے توبہ اور استغفار کو اپنے اس فرمان میں یکجا بیان فرمایا:
{وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ}
اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ تمھیں ایک معین مدت تک اچھا فائدہ دے گا اور ہر فضل والے کو اس کا فضل دے گا اور اگر تم پھر گئے تو یقیناً میں تمھیں بڑے دن کے عذاب سے ڈراتا ہوں [هود : 3]
اس کے علاوہ بھی دیگر آیات ہیں۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: (لوگو! اپنے رب کی طرف رجوع کرو، اور اس سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو، کیونکہ میں ایک دن میں ایک سو بار توبہ و استغفار کرتا ہوں) نسائی نے اسے اغر مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے

استغفار سے وہی شخص غافل ہوتا ہے جو استغفار کے فوائد و برکات سے نابلد ہو، حالانکہ قرآن و سنت استغفار کے فضائل سے بھر پور ہیں، صالح علیہ السلام کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
{قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ الله لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ}
[صالح نے] کہا: ''میری قوم کے لوگو! تم بھلائی سے پیشتر برائی کو کیوں جلدی طلب کرتے ہو؟ تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں طلب کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے [النمل : 46]

اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
{فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا }
میں [نوح ]نے کہا: تم اپنے رب سے بخشش مانگو، بیشک وہ بخشنے والا ہے [10] وہ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارش نازل فرمائے گا [11] اور تمہاری دولت کیساتھ اولاد سے بھی مدد کریگا، اور تمہارے لیے باغات و نہریں بنا دے گا۔[نوح : 10 - 12]
اور ہود علیہ السلام کی دعوت ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
{وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ}
میری قوم ! تم اپنے رب سے بخشش مانگو اور اسی کی طرف رجوع کرو، وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل کریگا اور تمہاری موجودہ قوت میں اضافہ فرمائے گا، اس لیے تم مجرم بن کر رو گردانی مت کرو۔[هود : 52]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَمَا كَانَ الله لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ الله مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ}
اور آپ کی موجودگی میں اللہ تعالی انہیں عذاب نہیں دیگا، نیز اللہ تعالی انہیں استغفار کرنے کی حالت میں بھی عذاب دینے والا نہیں ہے۔[الأنفال : 33] 
ابو موسی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے بارے میں کہا ہے کہ: "تمہارے لیے عذاب الہی سے بچاؤ کے دو ذریعے تھے، ان میں سے ایک یعنی نبی ﷺ تو چلے گئے ہیں، اب صرف استغفار باقی ہے جو قیامت تک جاری رہے گا"

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جس شخص نے استغفار کو اپنی عادت بنا لیا، تو اللہ تعالی اس کیلئے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ اور تمام غموں سے کشادگی عطا فرمائے گا، نیز اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں تھا۔( ابو داود)

سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے نامۂ اعمال میں بہت زیادہ استغفار ہوا تو اس کے لئے طوبیٰ (خوشخبری) ہے ۔(سنن ابن ماجہ : ۳۸۱۸، اسنادہ حسن)
طوبیٰ جنت کا یا جنت میں ایک درخت کا نام ہے ۔ (مرعاۃ المفاتیح ۶۲/۸)
توبہ و استغفار کا عمل تمام مؤمنوں کیلئے سب سے بڑی خیر خواہی اور تزکیہ نفس کا بہترین عمل ہے۔

بدعات کا ارتکاب اور سنت کی مخالفت:

بدعت کا لغوی معنی کوئی چیز ایجاد کرنا یا بنانا ہے ،شرعی اصطلاح میں بدعت کا مطلب دین میں حصولِ ثواب کے لئے کسی ایسی چیز کا اضافہ کرنا ہے جس کی بنیاد یا اصل کتاب وسنت میں موجود نہ ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:٫٫من عمل عملا لیس علیہ امرنا فہورد،،٫٫جس نے کار خیر سمجھ کر کوئی کام کیااور اس کام کا میں نے حکم نہیں دیا تو وہ عمل مردود ہے ،،.(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب :٨ حدیث نمبر :١٧١٨)۔
شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کو مختلف گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں لے جائے، چنانچہ اس کی سب سے پہلی گھاٹی شرک باللہ ہے، اگر بندئہ مومن اس گھاٹی سے نجات پا لیتا ہے، تو وہ اسے بدعت کی گھاٹی پر طلب کر کے  اسے بدعت کی دعوت دیتا ہے۔
کیونکہ بدعات عام گناہوں کی بہ نسبت زیادہ خطرناک ہیں۔شیطان کو گناہوں کی بہ نسبت بدعت زیادہ محبوب ہے، کیونکہ گناہوں سے تو توبہ کر لی جاتی ہے لیکن بدعت سے توبہ نہیں کی جاتی۔کیونکہ بدعتی بدعت کو گناہ سمجھتا ہی نہیں ہے۔اسی غلط فہمی کی بنیاد پر بدعتی عمر بھر گمراہی میں رہتا ہے۔بہرحال بدعت کو چھوڑے بغیر نفس کی اصلاح کرنا ناممکن ہے۔
اس وقت مسلم معاشرہ شرک و بدعات اور اوہام و خرافات کے دلدل میں جس بری طرح پھنسا ہوا ہے وہ کسی صاحب بصیرت سے مخفی نہیں ہے۔
یہ بدعتیں اہل بدعت کو اللہ سبحانہ و تعالی سے دوری کے سوا اور کچھ نہیں دیتی ہیں، یہ دلوں کو فاسد کر دیتی ہیں اور اسے نفع پہنچانے والی اور پاکیزہ بنانے والی چیزوں سے محروم کر دیتی ہیں۔
اس طرح انسان نفس کا تزکیہ کی اصل اصطلاح  سے انحراف کا شکار ہو جاتا ہے۔

تزکیہ نفس کے لئے اخلاق کردار:

ہر مسلمان سے دین کا اہم ترین مطالبہ تزکیہ اخلاق ہے۔ آخرت کی کامیابی کے لیے یہ لازم ہے کہ انسان خالق اور مخلوق دونوں  کے ساتھ اپنے عمل کو پاکیزہ بنائے۔ پاکیزہ عمل ہی کو عمل صالح کہا جاتا ہے۔تمام شریعت اسی کی فرع ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصل مقصد یہی تھا کہ آپ اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کر دیں ۔

اسلام کے نزدیک اس کائنات کی اور انسان کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور اس تخلیق کا مقصد اس امر میں انسان کی آزمائش ہے کہ وہ اس عارضی مہلتِ حیات میں حسنِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے یا بدعملی کا۔ حسنِ عمل کا صلہ موت کے بعد ایک دوسری او ابدی زندگی کی ابدی نعمتیں ہیں اور بدعملی کی سزا ایک ہمیشہ رہنے والی حیاتِ عذاب  ہے(البتہ اہل ایمان کو ان کے برے اعمال کی سزا کے بعد ابدی نعمتیں عطا کی جائیں گی )۔ اسلام کے عطا کردہ اس تصوّرِ حیات کی رُو سے انسان کا اصل اخلاقی مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیرت و کردار کا کونسا ایسا اسلوب اختیار کرے جو اس کے مقصدِ زندگی کے تکمیل میں ممد و معاون ہو سکے، اور کردار و عمل کے وہ کون سے پہلو ہیں جو اس مقصد کی تکمیل میں مانع ہوتے ہیں اور ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ 

دوسروں  کے ساتھ نیکی اور اچھے برتاؤ ہی کا نام حسن اخلاق ہے۔ انسان نیکی اور بدی کو فطری طور پر جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان دوسرے کی جانب سے اپنے لیے حسن اخلاق کا طالب ہوتا اور بدی یعنی برے اخلاق کو ناپسند کرتا ہے اور اگر وہ خود کسی برائی میں  مبتلا ہو تو دوسروں  کے سامنے اس کا افشا پسند نہیں  کرتا۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو انسان دراصل اپنے پورے کارخانۂ حیات کے ذریعے سے اپنی ایک شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ اس کا ہر اندازِ فکر اور ہر طریق عمل دراصل ایک اخلاقی سامانِ تعمیر ہے۔ جس سے وہ اپنی شخصیت کی عمارت تیار کرتا ہے۔ اس کی اس شخصیت کے حسن و قبح کو دیکھ کر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی تعمیر میں مسالہ (Material) حسنِ عمل کا استعمال ہوا ہے یا بد عملی کا۔ اس کی بنیاد صالح افکار اور پاکیزہ اعمال پر قائم ہوئی ہے یا فاسد افکار اور برے اعمال پر رکھی گئی ہے۔ اگر یہ دیکھنا ہو کہ حیاتِ اخروی میں کسی انسان کو کیا مقام حاصل ہونے والا ہے تو اس کی اس شخصیت کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے جو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی ہے۔ یہ شخصیت بول کر کہے گی کہ آخرت میں اس کی جائے اقامت کہاں ہونی چاہئے۔ آیا اس کو کوئی پاکیزہ اور شاندار مسکن میسر آنا چاہئے یا کوئی مقامِ بد اس کا ٹھکانہ بننا چاہئے۔ قرآن پاک کی بعض آیات اس مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ قیامت کے روز ہر شخص اس شخصیت کے ساتھ اُٹھے گا جس کے ساتھ وہ اس دنیا سے رخصت ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس شخصیت سے مراد کسی شخص کا وہ دنیاوی مقام و مرتبہ یا کم مائگی و بے حیثیتی نہیں ہے جو اس مادی دنیا میں اسے میسر آئی، بلکہ اس سے مراد وہ اخلاقی حیثیت ہے جس پر قائم رہ کر اس نے دنیا میں زندگی گزاری اور اپنی اسی حیثیت کے ساتھ اس کا دفترِ عمل تمام ہوا۔ اس لئے ہم میں سے ہر شخص کو خوب اچھی طرح یہ سوچ کر اندازہ کر لینا چاہئے کہ ہم اس دنیا میں اپنے افکار و اعمال کے مسالے سے اپنی شخصیت کی کس قسم کی عمارت تعمیر کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ ہم اخلاقِ فاضلہ کا فہم و شعور کا حاصل کریں اور اپنی شخصیت میں ان کو اجاگر کرنے کی پیہم سعی و جہد کرتے رہیں، اور اسی طرح اخلاق سیئہ سے آگاہ ہو کر ان سے ہر ممکن اجتناب کریں۔ 

دین اور اخلاق: 
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، اخلاق دراصل زندگی کے طریقے، سلیقے اور قرینے کا نام ہے اور اسی کی تعلیم و تربیت در حقیقت دین حقیقی کا مقصود ہے، یعنی انسان کو اس کے مقصدِ حیات سے آگاہ کر کے اس کے تقاضوں سے روشناس کرانا، اور ان کی تکمیل کے قابل بنانا۔ چنانچہ ہمارے نزدیک حقیقی اخلاق وہی ہیں جن کی تعلیم و ہدایت ہمیں دین کے واسطے سے حاصل ہوئی ہے۔ ہمیں زندگی کا وہی سلیقہ اور قرینہ مطلوب ہے جو خدا نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے سے ہمیں سکھایا ہے۔ نبی ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ: 
بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق۔ یعنی ’’میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘ 

دوسری روایت میں حُسْنَ الْاَخْلَاق کے الفاظ آئے ہیں۔ 
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَحْسَنَ النَّاسِ خُلْقًا رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں سے اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے۔ (متفق علیہ) 

حضور ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کے بارے میں قرآن مجید کی شہادت یہ ہے کہ: 
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ 
’’بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔‘‘ 
آئندہ سطور میں ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ حضور ﷺ نے ہمیں کن اخلاقِ حسنہ کی تعلیم فرمائی ہے۔ اور کن برے اخلاق سے آگاہ کر کے ان پر اجتناب کی تاکید کی ہے تاکہ انسان کی اخلاقی اصلاح و تہذیب کے ربانی اصول و معیار ہمارے سامنے واضح ہو کر آسکیں۔ 

حسنِ خلق کیا ہے؟ 
حضرت نواس بن سمعانؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: 
اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلْقِ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتً اَنْ یطلع علیہ النَّاسُ(مسلم) 
یعنی ’’نیکی اخلاق و کردار کی اچھائی کا نام ہے، اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں خلش پیدا کرے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگ اس سے آگاہ ہوں۔‘‘ 

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز ہے جو کثرت سے لوگوں کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: تَقوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلْقِ یعنی خدا خوفی اور حسن خلق۔ پھر عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو کثرت سے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی۔ فرمایا: اَلْفَمُ وَالْفَرْجُیعنی منہ اور شرمگاہ (ترمذی) 

حضرت ابو ہریرہؓ ہی نے حضور کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ: 
اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا(ترمذی) 
یعنی ’’مومنوں میں سے زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں جو ان میں سے اخلاق کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘ 
مزید فرمایا:
اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا
کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔۔۔(ابوداؤد ٤٦٨٦، ترمذی ١١٦٢)۔۔۔

ان المؤمن لیدرک بحسن خلقہ درجہ الصائم القائم۔
مومن اپنے حسن اخلاق سے دن میں روزہ رکھنے والے اور رات میں عبادت کرنے والے کا درجہ پالیتا ہے۔(ابوداؤد ٤٧٩٨)

ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اخلاق کے حامل شخص کی ان الفاظ میں تعریف وتحسین کی ہے۔۔۔
ان من خیارکم احسنکم اخلاقا۔
تم میں بہترین وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں (بخاری ٣٥٥٩)۔۔۔
مندرجہ بالا ارشادات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اخلاق کی پاکیزگی دراصل ایمان کی پختگی اور خدا خوفی کا ثمر ہے ۔ ایمان کے بغیر اخلاق پاکیزگی کا اور کردار کی اچھائی کے بغیر خدا ترسی اور خدا خوفی کا تصور بے معنی ہے۔ اسی حسنِ خلق کی بدولت مومن کو اطمینانِ قلب کی عظیم نعمت حاصل ہوتی ہے، اور اس کا یہی اطمینانِ قلب اس کو سیرت و کردار کی وہ عظمت عطا کرتا ہے کہ اس کے بعد نفس کی کوئی ترغیب ، شیطان کی کوئی تحریک، دنیا کی کوئی تحریص اور اقتدارِ باطل کی کوئی تخویف اس کو راہِ راست سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ 
مومن کا حسنِ خلق جلالی پہلو بھی رکھتا ہے اور جمالی پہلو بھی۔ جلالی پہلو کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے کہ مومن مصارفِ زندگی میں کردار کی عظمت و صلابت کا مظاہرہ کرتا ہے اور جمالی پہلو یہ ہے کہ مومن اہل ایمان کے درمیان محبت و رافت کا ایک پیکر ہوتا ہے۔ اس کی گفتگو، اس کی نشست و برخاست، اس کی چال ڈھال اور اس کا باہمی میل جول ایک خاص قسم کے حسن و لطافت اور نفاست و ملائمت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اصحابِ رسول اللہ ﷺ کی شان ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ 

اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ (الفتح۔ ۲۹) 
’’وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔‘‘ 
مندرجہ بالا توضیحات اس امر کے اثبات کے لئے کافی ہیں کہ ہر قسم کی نیکی اور اخلاقی عظمت دراصل حسنِ خلق ہی کی تعریف میں آتی ہے۔ 

حضور ﷺ کے تعلیم کردہ اخلاقِ فاضلہ

1. خندہ پیشانی سے ملنا اور سلام سے گفتگو کا آغاز کرنا: 
اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں یہ چیز ایک اصولی اہمیت رکھیت ہے کہ نیکی کا کوئی کام حقیر نہیں ہے، خواہ بظاہر وہ کیسا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اور بدی کا کوئی کام معمولی نہیں ہے، خواہ بظاہر ہو کتنی ہی چھوٹی سی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: 

لَا تَحْتَقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَو اَنْ تَلْقٰی اَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلِیْقٍ (مسلم) 
یعنی ’’کسی نیکی کے کام کو حقیر مت سمجھو، خواہ وہ یہی کیوں نہ ہو کہ تم اپنے بھائی کو ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ ملو۔‘‘ 

اسی طرح سلام سے آغازِ ملاقات و گفتگو کا حکم دیا گیا اور فرمایا گیا کہ:
اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ ’’اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔‘‘ (مسلمؒ) 

مراد یہ ہے کہ اہلِ ایمان جب بھی آپس میں ملیں باہمی سلامتی اور ایک دوسرے کے حق میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کی دعا کرتے ہوئے ملیں۔ 
یہ خوش اخلاقی حسنِ معاشرت کا نقطۂ آغاز ہے۔ بہت سے تعلقات اس وجہ سے کشیدہ یا ختم ہو جاتے ہیں کہ افراد کے اندر خوش خلقی کا جوہر کم ہوتا ہے یا اس کا مظاہرہ کرنے میں بخل سے کام لیا جاتا ہے۔ چونکہ اہلِ ایمان ایک ایسی جماعت ہیں جس کی باہمی تنظیم و استواری اور استحکام غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اس لئے عام ملاقاتوں اور روز مرہ کی بے تکلف گفتگوؤں کو بھی ایک خاص سلیقے اور شائستگی کے قالب میں ڈھال دینا ضروری سمجھا گیا، اور جہاں خوشگوار تعلقات کی استواری کے لئے بعض بڑی بڑی ہدایات دی گئیں وہاں اس بظاہر چھوٹی سی بات کی تعلیم کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا کہ اہلِ ایمان کا رسمی میل جول بھی حسن  اخلاق پر مبنی ہونا چاہیے ۔

بیان کی گئی تفصیل سے یہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے کے اسلام میں حسن اخلاق کو کتنی اہمیت دی گئی ہے۔جب تک وہ اپنے اخلاق و کردار کو نہیں سنواریں گے اور ان کی زندگیاں اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ نہیں پیش کریں گی اس وقت تک تزکیہ نفس کی راہ کی روکاوٹ دور نہیں ہوگی۔۔۔

 تکبر اور خود پسندی:

انسان کا بدترین عیب کبر و غرور اور خود پسندی ہے جو ایک سراسر شیطانی فعل ہے۔ جو شخص یا گروہ اس بیماری میں مبتلا ہو، وہ اللہ کی تائید سے محروم ہو جاتا ہے۔ کبریائی صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات کے لیے مخصوص ہے۔ نفس کی ایک ذرا سی ڈھیل اور شیطان کی ایک ذرا سی اُکساہٹ اسے تکبر اور خودپسندی میں تبدیل کر دیتی ہے۔
آج کل دنیا میں جو فسادات جاری ہو رہے ہیں تکبر اور بے جا احساس برتری اس کی خاص وجہ ہے ۔
تکبر میں مبتلا شخص اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت و انعام کو اپنا ذاتی کمال و وصف (خوبی) سمجھنے لگتا ہے۔

اقتدار، علم، طاقت ،زہد و تقویٰ عبا، خاندان و نسب،حسن و جمال، صحت و تندرستی اور مال و زر وغیرہ اور ایسی ہی دوسری جتنی چیزیں آدمی کے اندر غرور پیدا کرتی ہیں، اُن میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اُس کی چال کے ایک مخصوص انداز میں نمایاں ہوتا اور اِس بات پر دلیل بن جاتا ہے کہ اُس کا دل بندگی کے شعور سے خالی ہے اور اُس میں خدا کی عظمت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جس دل میں بندگی کا شعور اور خدا کی عظمت کا تصور ہو، وہ اُنھی لوگوں کے سینے میں دھڑکتا ہے جن پر تواضع اور فروتنی کی حالت طاری رہتی ہے۔ وہ اکڑنے اور اترانے کے بجاے سر جھکا کر چلتے ہیں۔

لہٰذا تکبر ایک بدترین خصلت ہے اور اِس کی سزا بھی نہایت سخت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی غرور ہو، وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ (صحیح بخاری ،صحیح مسلم)
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ انسان کا یہ غرور و تکبر صرف اُس کی چال میں ہی ظاہر نہیں ہوتا، بلکہ اُس کی گفتگو، وضع قطع، لباس اور نشست و برخاست، ہر چیز میں نمایاں ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے:

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا، اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ. وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ، اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ.(لقمان31: 18-19)
"اور لوگوں سے بے رخی اختیار نہ کرو اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو، اِس لیے کہ اللہ کسی اکڑنے والے اور فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو ۔ بے شک،سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔"

پھر یہی نہیں، انسان کی یہ نفسی کیفیت بعض بڑے بڑے گناہوں کا باعث بھی بنتی ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ حق کو حق سمجھتے ہوئے اُس کی تکذیب کر دینے، رنگ و نسل اور حسب و نسب کے اعتبار سے اپنے آپ کو برتر سمجھنے، دوسروں کو حقیر سمجھ کر اُن کا مذاق اڑانے، اُن پر طعن کرنے، برے القاب دینے اور پیٹھ پیچھے اُن کے عیب اچھالنے جیسے گناہوں کا محرک انسان کا یہی پندار نفس اور غرور و تکبر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِن سب چیزوں سے بھی نہایت سختی کے ساتھ روکا ہے۔

کتاب و سنت ہی کا علم اگر فضل الہی شامل ہو، یعنی علم کے ساتھ عمل بھی ہو تو انسان کو کبر و غرور سے محفوظ رکھ سکتا ہے ورنہ ہر کوئی کبر و غرور کی ہلاکت آفریں بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔۔۔۔ جس شخص پر دنیا کی محبت غالب ہوتی ہے اور عقبی کی طرف سے بے فکر ہو جاتا ہے، وہ جوں جوں علم میں ترقی کرتا ہے، اس کے دل کی بیماریاں بھی عموما ترقی کرتی جاتی ہیں اور کبر و غرور عموماً سب سے زیادہ نشوونما پا جاتا ہے۔

سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا​ فرمان باری تعالی ہے
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ﴿سورہ البقرہ:34﴾
"اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجده کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجده کیا۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وه کافروں میں ہوگیا۔ "

مزید فرمایا:
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ﴿سورہ لقمان:18﴾
"لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا کر نہ چل کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔"

غرور و تکبر  شیطانی صفت ہے اور نگاہِ ایزدی میں بے حد معتوب! شیطان کا غرور میں مبتلا ہو جانا، تاریخ انسانی کی اس قبیح ترین جرم کا پہلا آمنا سامنا تھا۔شیطان نے چونکہ اللہ سے مہلت ہی اسی لئے مانگی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو صراط المستقیم سے پھسلادے اسلئے اس نے اپنی یہ خبیث خصلت انسان کے اندر بھی سرایت کردی ہے۔
نمرود و فرعون اخر کس مرض میں مبتلا تھے؟ وہ یہی غرور تھا جس نے ان کو اس وہم میں برباد کردیا کہ ہم ناقابل تسخیر ہیں لیکن ''غرور کا سر ہمیشہ نیچا!'' اْن کی داستان بھی نہ رہی داستانوں میں! انسان کس چیز پر مغرور ہوسکتا ہے؟ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی کہ تکبر صرف الله کو زیب دے سکتا ہے کیونکہ اْس کی صفات ازلی ہیں، کوئی اْن کو چھین نہیں سکتااور اْس کے کمالات کو کوئی زوال نہیں۔ بندے تکبر میں گھر جائیں تو ابدی عذاب میں مبتلا ہونگے۔
یہاں تک کہ لباس سے بھی اگر غرور کا اظہار ہوجائے تو اْس پر زبردست وعید فرمائی۔حضرت عبدالله بن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ۖ نے فرمایا۔ ''الله اْس شخص کی طرف قیامت کے روز نگاہ نہیں کرے گا جو اپنا چوغہ تکبر میں پیچھے سے زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلے۔'' حضرت ابو بکر نے عرض کیا ۔'' میرے چوغہ کا ایک سرا لٹک ہی جاتا ہے جب تک کہ میں اس کے بارے میں بے حد احتیاط نہ کروں۔'' تو آپ ۖنے فرمایا۔ ''لیکن آپ ایسا تکبر کی بنا پر نہیں کرتے ہیں۔'' (صحیح بخاری) اللہ نے اپنے کلام میں جگہ جگہ متکبرین کو وعید سنائی ہے اور ان کیلئے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔غرور کا چور دروازہ انسان کے اندر صرف یہ معمولی سا احساس ہے کہ میں کسی معاملے میں کسی سے برتر ہوں۔ یہ احساس جہاں شروع ہوا سمجھ لیجئے کہ شیطان نے اپنا ڈیرہ جمالیا۔ ہمیں ہر وقت اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہئے کہ ہم فانی، ہمارے پاس جو کچھ وہ بھی فانی۔فانی پہ غرور؟ کمال گمراہی! اپنے کو اوروں سے کم تر سمجھنے میں ہی عافیت ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں برتری یا ابتری کا فیصلہ ہی کیا ہوگا۔فیصلہ تو یوم الفصل کو ہوگا۔کیا معلوم اْس دن کون بارگاہ خداوندی میں مقبول ہو اور کون معتوب۔الله ہمیں غرور اور تکبر کے ادنیٰ شائبے سے بھی بچائے۔ آمین

اس سے متعلقہ سابقہ قسط کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_17.html?m=1

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_23.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_30.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_15.html

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...