Saturday 7 October 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#114

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

ذکرِ اِلٰہی:
ذکر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معانی یاد کرنا ،یاد تازہ کرنا ،کسی شئے کو بار بار ذہن میں لانا ،کسی چیز کو دہرانا اور دل و زبان سے یاد کرنا ہیں۔(ابن منظور،لسان العرب ،جلد4صفحہ308 ،311)

اس دورِ مادیت میں ہمارے احوالِ زندگی مجموعی طور پر بگاڑ کا شکار ہیں۔ ہماری روحیں بیمار اور دل زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق بندگی حقیقتاً معدوم ہوچکا ہے۔ ہمارے باطن کی دنیا کو حرص و ہوس، بغض و عناد، کینہ و حسد، فخرو مباہات، عیش و عشرت و سہل پسندی، خود غرضی و مفاد پرستی اور انا پرستی و دنیا پرستی کی آلائشوں نے آلودہ کر رکھا ہے۔ لہٰذا ان بگڑے ہوئے احوال کو درست کرنے، بیمار روحوں کو صحت یاب کرنے، آئینہ دل کو شفاف کرنے، قلب و باطن کو نور ایمان سے منور کرنے، احوالِ حیات کو روحانی انقلاب کی مہک سے معمور کرنے اور محبوب حقیقی سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ناگزیر ہے اور اس کا واحد ذریعہ ذکر الٰہی ہے۔

ذکرِ الٰہی ہر عبادت کی اصل ہے

تمام جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد عبادتِ الٰہی ہے اور تمام عبادات کا مقصودِ اصلی یادِ الٰہی ہے۔ کوئی عبادت اور کوئی نیکی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد سے خالی نہیں۔ سب سے پہلی فرض عبادت نماز کا بھی یہی مقصد ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ذکر کو دوام حاصل ہو اور وہ ہمہ وقت جاری رہے۔ نفسانی خواہشات کو مقررہ وقت کے لئے روکے رکھنے کا نام روزہ ہے جس کا مقصد دل کو ذکر الٰہی کی طرف راغب کرنا ہے۔ روزہ نفس انسانی میں پاکیزگی پیدا کرتا ہے اور دل کی زمین کو ہموار کرتا ہے تاکہ اس میں یاد الٰہی کا پودا جڑ پکڑ سکے کیونکہ دل جب لذات نفسانیہ میں گھرا ہو تو اس میں ذکرِ الٰہی قرار نہیں پکڑ سکتا۔ اسی طرح حج میں خانہ کعبہ اور مقاماتِ مقدسہ پر حاضر ہونا یادِ الٰہی کا ہی مظہر ہے۔ قرآن حکیم پڑھنا افضل ہے کیونکہ یہ اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے اور سارے کا سارا اسی کے ذکر سے بھرا ہوا ہے، اس کی تلاوت اﷲ تعالیٰ کے ذکر کو تر و تازہ رکھتی ہے۔ معلوم ہوا کہ تمام عبادات کی اصل ذکرِ الٰہی ہے اور ہر عبادت کسی نہ کسی صورت میں یادِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔

کثرتِ ذکر محبتِ الٰہی کا اوّلین تقاضا ہے:

اہلِ محبت کے ہاں یہ عام قاعدہ ہے کہ جس شے سے محبت ہو اسے اٹھتے بیٹھتے یاد کیا جاتا ہے۔ محبوب جس قدر صاحبِ عظمت و شان اور حسن و جمال کا پیکر ہو گا محب کی زبان پر اسی قدر اس کا ذکر کثرت سے آئے گا۔ جس بندے کو محبتِ الٰہی کی کیفیت نصیب ہو جائے اس کی دیوانگی اور اس کے جوشِ محبت کا عالم کیا ہو گا؟ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبین کی بنیادی شرط بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
صرف اس ذات کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے جس سے شدید محبت ہو ۔فرمان الہی ہے:
وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ.(البقره : 165)
’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) ﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘

أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ۔(الرعد 28:)
"اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔"

اور صحیح بخاری میں حضرت موسی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور جو اپنے رب کا ذکر نہیں کرتا، ایسی ہی ہے جیسے زندہ اور مردہ کی مثال ہے۔(بخاری 1407)

اسی بنا پر متعدد مقامات پر اللہ تعالی نے مومنوں کو بکثرت ذکر الہی کرنے کا حکم دیا ہے، جیسے اللہ تعالی کا یہ فرمان:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْراً كَثِيراً۔ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلاً۔(الاحزاب 41-42)
"مسلمانو! اللہ کا ذکر بہت زیادہ کرو، اور صبح و شام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔"

اس لیے کہ یقینی طور پر ذکر الہی ظلمت و تاریکی سے نور اور روشنی کی طرف نکلنے ، اور اللہ رب العالمین کے طرف سےفضل و رحمت کے حصول کے عظیم ترین اسباب میں سے ہے، اور اسی لیے اللہ تعالی نے بہ کثرت اپنا ذکر کرنے اور صبح و شام اپنی تسبیح بیان کرنے کا حکم دینے کے بعد ہی اس کے جزا و بدلے کا تذکرہ فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:

]هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيماً۔(الاحزاب 43)
"وہی ہے جو تم پر اپنی رحمتیں بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے تمہارے لیے دعاۓ رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جاۓ اور اللہ تعالی مومنوں پر بہت ہی مہربان ہے۔"

ذکرِ الٰہی قربِ اِلٰہی کابہترین ذریعہ ہے:

جب بندے کی یہ کیفیت ہو جائے کہ اس کی زبان ہر وقت اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہے، وہ تمام دنیوی محبتوں سے کنارا کش ہو کر صرف اﷲ تعالیٰ کی محبت میں ڈوب جائے، اُسی کو پکارے، فرمانِ الٰہی۔ (وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلً) (المزمل، 73 : 8) کے مصداق ہر شے سے کٹ کر اسی کا ہوجائے اور اس کے رگ ریشے میں اسی محبوبِ حقیقی کی یاد سما جائے تو اسے ذکرِ الٰہی کی ساری حلاوتیں اور برکتیں یوں نصیب ہوں گی کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اسے اپنے قرب خاص سے نوازے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ۔(البقره، 2 : 186)
’’اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے۔‘‘

بندہ جب اللہ تعالیٰ کی یاد کو حرزِ جاں بنالے اور اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہو تو اسے قربِ الٰہی کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار کو سنتا ہے اور اس کے دامن کو رحمت کی خیرات سے بھر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کے قربان جائیں کہ اس کا جب ادنی سے ادنی بندہ بھی اسے یا د کرتا ہے تو وہ اپنی شانِ کریمی اور رحیمی کے ساتھ اسے یاد فرماتا ہے۔

اس کرم اور عطا کا اعلان باری تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے۔

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ۔( البقره، 2 : 152)
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔‘‘

ذاکرین کے فضائل

ذاکرین اللہ تعالیٰ کے وہ محبوب اور مقرب بندے ہیں جو ہمہ وقت ذکرِ الٰہی میں مگن رہتے اور ہر لحظہ اپنے محبوب حقیقی کا نام لیتے رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو مغفرت و بخشش اوراجرِ عظیم کی بشارت دی جاتی ہے۔

وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا۔(الاحزاب، 33 : 35)
’’اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے۔‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

ثَلَاثَة لَا يَرُدُّ اﷲُ دُعَاءَ هُمْ : الذَّاکِرُ اﷲَ کَثِيْرًا، وَ دَعْوَةُ الْمَظْلُوْمِ، وَالإِمَامُ الْمُقْسِطٌ.
(بيهقی، شعب الإيمان، 1 : 419، رقم : 588)

’’تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کی دعا اﷲ (تعالیٰ) رد نہیں فرماتا : کثرت کے ساتھ اﷲ کا ذکر کرنے والا، مظلوم کی پکار، عادل حکمران۔‘‘

خشیتِ الٰہی سے آنسو بہانے والے ذاکرین وہ خوش نصیب ہیں جنہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سایہ عاطفت میں جگہ عطا ہوگی۔ چنانچہ قیامت کی سختیوں کا ان کے قریب سے گزر تک نہیں ہو گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اﷲُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ وَرَجُلٌ ذَکَرَ اﷲَ خَالِيًا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ.(بخاری، الصحيح، کتاب الجماعة و الإمامة، باب : من جلس فی المسجد ینتطر الصلاة و فضل المساجد، 1 : 234، رقم : 629)

’’سات شخص ایسے ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمائے گا، اس روز کہ جب سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا اور ان میں سے ایک شخص وہ ہے جس نے اﷲ تعالیٰ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔‘‘

ذاکرین قیامت کے دن درجہ میں دیگر بندوں سے افضل ہوں گے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا :

أَيُّ الْعِبَادِ أفْضَلُ دَرَجَةً عِنْدَ اﷲِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟

’’کون لوگ قیامت کے دن اﷲ (تعالیٰ) کے ہاں درجہ میں افضل ہونگے؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

الذَّاکِرُوْنَ اﷲَ کَثِيْرًا وَالذَّاکِرَاتُ.
’’جو کثرت سے اﷲ (تعالیٰ) کا ذکر کرنے والے اور کرنے والیاں ہیں۔‘‘

اسی طرح مجالسِ ذکر کے شرکاء پر اﷲ رب العزت کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اﷲ عنہما دونوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْکُرُوْنَ اﷲَ إِلَّا خَفَّتْهُمُ الْمَلَائِکَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّکِيْنَةُ، وَ ذَکَرَهُمُ اﷲُ فِيْمَنْ عِنْدَهُ.
(مسلم، الصحيح، کتاب الذکر و الدعاء و التوبة و الاستغفار، باب : فضل الاجتماع علی تلاوة القرآن، وعلی الذکر، 4 : 2074، رقم : 2700)

’’جب بھی لوگ ﷲ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بیٹھتے ہیں انہیں فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں اور رحمت انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے ﷲ تعالیٰ انکا تذکرہ اپنی جماعت میں کرتا ہے۔‘‘
کچھ ایسے سعادت مند بندے بھی ہوتے ہیں جو صرف ﷲ کی رضا و خوشنودی کے لئے ذکر کی محافل سجاتے ہیں، ایسے خوش نصیب بندوں کی برائیاں نیکیوں میں بدل دی جاتی ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب کچھ لوگ محض اﷲ کی رضا جوئی کی خاطر اجتماعی طور پر اس کا ذکر کرتے ہیں تو آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے :

قُوْمُوْا مَغْفُوْرًا لَکُمْ، فَقَدْ بُدِّلَتْ سَيِّئَاتُکُمْ حَسَنَاتُ.
(أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 142، رقم : 12480)
’’کھڑے ہو جاؤ! تمہیں بخش دیا گیا ہے۔ تمہارے گناہ نیکیوں میں بدل دیئے گئے ہیں۔‘‘

پس اللہ کا ذکر کرنے والوں کی جزا انہیں ظلمات سے نور و روشنی کی طرف نکالنا، رب العالمین کی طرف سے ان کے لیے رحمت کا توشہ اور اللہ کے فرشتوں کی طرف سے ان کے حق میں بخشش و مغفرت کی دعا ہے۔
ذکر کی فضیلت اور  اس کا شرف  دین اسلام میں  بالکل واضح ہے، اور اس کی فضیلت کیلئے یہی کافی ہے کہ  اللہ تعالی ذکر الہی میں مشغول لوگوں کا ذکر  اپنے پاس فرماتا ہے۔
ذکر گناہوں کو مٹاتا ہے، تاہم  یہ استغفار کے قائم مقام نہیں ہوسکتا، لہذا توبہ، گناہوں کی بخشش، اور اللہ تعالی سے معافی مانگنے کے موقع پر  استغفار  کرنا اس ذکر سے افضل ہوگا؛ کیونکہ  استغفار کرتے وقت انسان اپنے گناہوں کو  تصور میں ضرور لاتا ہے، اسی طرح خوف الہی دل میں محسوس  کرتا ہے، اور ساتھ میں اللہ سے معافی کی امید بھی ہوتی ہے، چنانچہ  یہ ذکر استغفار کی جگہ نہیں لے سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ " [ترجمہ: اللہ تعالی پاک ہے اور اس کی حمد کے ذریعے اسی کی پاکی بیان کرتا ہوں، اللہ تعالی سے بخشش چاہتا ہوں،  اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں]
بہت ہی کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے"

چنانچہ مذکورہ بالا بیان کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ" کیساتھ استغفار بھی ملایا، لہذا اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محض تسبیح کرتے رہنا  استغفار کا قائم مقام نہیں بن سکتا، اور نہ ہی استغفار  تسبیح کا قائم مقام بن سکتا ہے؛ بلکہ بندے سے ہر دو امر مطلوب ہیں،  ہاں یہ الگ بات ہے کہ حالات کے مطابق  ایک دوسرے کو فوقیت مل سکتی ہے۔

اچھی اور بری صحبت کے اثرات:

ہم ایسے معاشرے  میں رہ رہے ہیں جس کا ہر دن پہلے سے زیادہ پر فتن ہوتا ہے۔ نت نئے اور لادینیت کی طرف لے جانے والے اسباب اجاگر ہو رہے ہیں اور یہ یقینی امر ہے کہ آدمی‘‘ ماحول’’ کے رنگ میں رنگا جاتا ہے یعنی وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

ایسے  میں اسلامی تعلیمات کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا ، اپنی محافل و مجالس کو لغویات سے پاک کرنا، قلوب و اذہان کی تطہیر اور محبت و نفرت کا معیار ‘‘ الحب للہ و البغض للہ’’ رکھنا صراطِ مستقیم کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

ماحول کو انسان کیسے قبول کرتا ہے۔ اس کی مثال رسول اللہ ﷺ نے کچھ یوں بیان فرمائی کہ  نیک ہم نشین اور برے ہم نشین کی مثال خوشبو والے (عطار) اور بھٹی دھونکانے  والے (لوہار) کی طرح ہے۔ پس خوشبو والا یا تو تجھے کچھ (خوشبو) ویسے ہی عنایت کر دے گا یا تو خود اس سے خرید لے گا ورنہ اس سے عمدہ خوشبو تو پائے گا ہی اور بھٹی دھونکانے والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا یا پھر تو اس سے بدبو تو پائے گا ہی۔ بخاری: ۱۲۰۱ ، مسلم ۲۶۲۸

نبی اکرم ﷺ کی بیان کردہ اس حدیث میں اتنے خوبصورت پیرائے میں اچھے اور برے ہم نشین کی مثال بیان کی گئی ہے کہ اس سے بہتر تمثیل ممکن ہی نہیں اور عبرت ہے ایسے نوجوانوں کے لئے جو فحاشی و بے ہودگی سے لبریز مجالس میں شریک ہوتے ہیں اور یہ تصور قائم کر لیتے ہیں کہ ہم کون سا عملاً حصہ لے رہے ہیں۔

ایک مشہور مقولہ ہے:

"صحبت صالح تراصالح کنند '
صحبت طالح ترا طالح کنند"
یعنی نیک صحبت تجھے نیک اور بری صحبت تجھے برا بنا دے گی۔

اردو  کا محاورہ ہے: 
جس طرح خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے اس طرح آدمی کا رنگ ہم نشین پر چڑھتا ہے۔

اس لئے  زندگی میں ایسے دوستوں کاانتخاب کیا جائے  جو  بھولنے پر وہ اسے یاد دلائے، یا غافل ہونے پر اسے متنبہ کرے، اور نہ جاننے پر اس کو سکھلائے۔ چنانچہ دوست اپنے ہم نشین وساتھی کا عنوان ونشان ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا،

عن المرء لا تسأل وابصر خلیلہ
وکل قرین بالمقارن یقتدی
إن کان ذا شر، فجانبہ سرعۃ
وإن کان خیرًا فقارنہ تھتدی​

" آدمی کے بارے میں مت پوچھو کہ وہ کیسا ہے ، اس کے دوست کو دیکھ لو تو اس آدمی کے بارے میں بھی پتہ چل جائے گا۔ ہر دوست اپنے ساتھی کی ہی اقتدا کرتا ہے اگر وہ دوست برا ہو تو جلد ہی اس سے دور ہو جاؤ۔ اور اگر اچھا ہو تو اس کے ساتھ ملے رہو را ستہ پالو گے۔

اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:
آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے پس تم  میں سے ہر شخص دیکھے کہ وہ کس سے دوستی کرتا ہے۔(سنن ابی داود:۴۸۳۳و إسنادہ صحیح)

اس لئے برے ساتھیوں کا ساتھ چھوڑ کر اچھے ہم نشینوں کی رفاقت اپنانی چاہیئے۔ برے لوگوں کی محفل ترک کر کے نیک لوگوں کی مجلس اختیار کرنی چاہیئے۔ اچھے اور صالح دوست بنانے چاہیئں تاکہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت ہماری بہترین تربیت کریں اور ہم دنیا و آخرت میں سُرخرو ہوں۔
چنانچہ اولیاء، نبیوں، رسولوں، صالحین اور شہداء و غیرہم کے قصوں (حالات زندگی) سے دل کو ثبات اور استقرار حاصل ہوتا ہے اور اس کے اندر صلاح و تقوی اور استقامت پیدا ہوتی ہے، اس لیے کہ کوئی شخص قوم صالحین کی سیرتوں میں علم و بصیرت کے ساتھ نگاہ ڈالے گا، اللہ تعالی اس کے دل کو زندہ کر دے گا اور اس کے باطن کی اصلاح فرما دے گا، خصوصا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ایمان کو زیادہ کرنے اور دل و ضمیر کی اصلاح کرنے کا بہترین ذریعہ
ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے

وَكُلاًّ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ۔(ہود 120)
"رسولوں کے سب احوال ہم آپ کے سامنے آپ کے دل کی تسکین کے لیے بیان فرما رہے ہیں۔"

اکثر یوں ہوتا ہے کہ پڑھنے والے ذہین طلبا پر کچھ نا سمجھ طالب علم اپنی غلط تربیت کا اثر ڈال دیتے ہیں جس سے مستقبل میں قوم کا رہنما بننے والا اپنے گاؤں  بستی والوں کی تربیت کرنے والا، ایک آوارہ شخص بن جاتا ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی، پس ضروری ہے کہ ہمارا تعلق صحیح العقیدہ متبع سنت آدمی سے ہو جو وقت کی قدر کرتا ہو جس کی باتیں سننے سے اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ ہو۔ اپنے عقیدے کی اصلاح اور اپنی  زندگی کو سنوارنے کا موقع ملے ۔ انہیں دیکھ کر اپنے حلیہ کو بھی سنتِ نبوی ﷺ سے سجانے کی رغبت پیدا ہو اور نبی اکرم ﷺ کی نا فرمانی کرنے سے دل میں گھبراہٹ محسوس ہو لیکن افسوس!کہ قحط الرجال کے اس دور میں ایسی شخصیات کی کمی ہے۔ تلاشِ بسیار کے باوجود اگر کہیں نظر نہ آئیں تو پھر بھی بری صحبت برے ہم نشین سے بہتر تنہائی ہے اور تنہائی میں غفلت و گمراہ کن خیالات کے بجائے اللہ تعالیٰ کا ذکر بہتر ہے۔

آج وقت گزارنے کے لئے لوگ ایسی مجلسوں کی تلاش میں رہتے ہیں کہ جو جھوٹ، بہتان، چغلی، غیبت اور طنز و مزاح سے رونق افروز ہوں۔ تحصیل ِ علم اور ذکرِ الٰہی کے بجائے تاش ، لُڈو اور سنوکر کلبز یا انٹرنٹ وغیرہ میں صبح سے شام تک وقت گزار دیتے ہیں اور پتا ہی نہیں چلتا۔
یاد رہے کہ اچھی صحبت اختیار کرنا ایمان اور اعمال صالح کی مضبوطی کا اور بری صحبت، ایمان اور اعمال صالحہ کی بربادی کا ذریعہ ہے۔

صحبت کا اثر کس طرح ہوتا ہے؟:

ایک سادہ مثال: ایک جگہ تھوڑا سا پانی گرائیں اس پانی کے ایک طرف ٹشوپیپر(روئی یا فوم) کا ایک کونا رکھ دیں، اس کونے کے علاوہ باقی سارا ٹشوپیپر پانی سے باہر ہوگا۔
تھوڑی دیر بعد دیکھیے گا کہ ٹشوپیپر کا ایک بڑا حصہ گیلا ہو چکا ہے، یعنی آہستگی کے ساتھ پانی ٹشوپیپر میں سرایت کرتا جائے گا۔
اس عمل کو سائنسی اصطلاح میںCapillary Action کہا جاتا ہے۔
یہی حال نیک صحبت یا بری صحبت کا ہے۔
آپ تھوڑا وقت گزاریں یا زیادہ وقت، صحبت کے اثرات اسی طرز پر آپ کے قلب پر مرتب ہونگے اور شروع میں آپ کو معلوم بھی نہ ہو پائے گا۔
جتنا زیادہ وقت جس صحبت میں گزاریں گے اس کے اتنے ہی زیادہ اثرات ہوں گے۔

صحبت سے انسان بنتا بھی ہے اور بگڑتا بھی۔ مشہور مقولہ ہے کہ کوئلہ بیچنے والے کی صحبت کالک اور دھبے تحفے میں دیتی ہے جبکہ عطر فروش کی دوستی وجود کو معطر کر دیتی ہے۔

ماحول میں اچھی اور بری صحبت کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے انسانی زندگی کو جیسی صحبت میسر ہوگی ویسا ہی اس کی زندگی میں نکھار یا فساد پیدا ہوگا، جو لوگ اکٹھے اٹھتے بیٹھتے ہیں ان کے اخلاق اور مذاق بھی یکساں ہو جایا کرتے ہیں کیونکہ کشش اور محبت، نفرت اور حقارت کی نظر نہ آنے والی لہریں دو ہم نشینوں کے درمیان جاری رہتی ہیں، اور ان کے تعلق کی ٹھیک ٹھیک رپورٹ پیش کرتی ہیں، چنانچہ رب کریم کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ۔(سورۃ توبہ آیۃ119)
"اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور سچوں کی صحبت اختیار کرو۔"
مفسرین لکھتے ہیں کہ سچوں کی صحبت اتنی اختیار کرو کہ ان کی طرح بن جاؤ، کیونکہ ساتھی اپنے ساتھی کی اتباع کرتا ہے۔

بری صحبت کے اثرات بد سے انسان کے اخلاق و اعمال تو متاثر ہوتے ہی ہیں اس کے ساتھ عقائد بھی تباہ ہوجاتے ہیں انسان کی جہاں دنیا برباد ہوتی ہے وہاں پر بری صحبت آخرت میں بھی ذلت کا باعث بن جاتی ہے بری صحبت زہر سے زیادہ مہلک ہوتا ہے جس کا انجام ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔

نیک صحبت تریاق کا کام کرتی ہے ، جو سینکڑوں برائیوں سے حفاظت کا ذریعہ بنتی ہے عقل مند انسان کو جیسے نیکی کی تلاش ہوتی ہے ویسے ہی نیک لوگوں کی تلاش ہوتی ہے نیک مجالس اور نیک صحبت کو پسند کرتا ہے۔ بری صحبت اور بری ہم نشینی سے بچتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے عام انسان ہی کو نہیں بلکہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی اس بات کی تاکید فرمائی ہے کہ وہ نیک، صالح اور متقی پرہیز گار لوگوں کی صحبت اختیار کریں اور ان لوگوں کی صحبت سے دور رہیں جو نفسانی خواہشات کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں اور ذکر سے غافل ہیں،

فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ....۔ً(الکہف: 28)
"اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھو جو اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے ہیں۔"

دوسری جگہ فرماتے ہیں:
فَأَعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلَّى عَنْ ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا۔(سورۃ النجم آیۃ 29)
"اے میرے محبوب آپ ان سے الگ ہوجائیے جنہوں نے میری یاد سے منہ پھیر لیا ہے اور اس کا مقصود دنیا کی زندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔"

اسی وجہ سے اسلام بری صحبت سے روکتا ہے کیونکہ اس سے انسان راہ ہدایت سے بھٹک جاتا ہے اور ہمیشہ جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔

رب کریم نے قران کریم میں بری صحبت اختیار کرنے والے لوگوں کا تذکرہ کیا ہے، جو قیامت کے دن اپنے برے دوستوں اور ہم نشینوں کو یاد کر کے اللہ رب العزت سے مطالبہ کریں گے، کہ وہ پل بھر کے لیے ان کو وہ لوگ دکھا دے جن کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے ان کو راہ حق سے بھٹکا دیا تھا تاکہ وہ ان کو اپنے قدموں سے روند ڈالیں جہنمی خود کو کوسیں گے اور کہیں گے کاش ہم فلاں سے دوستی نہ لگاتے اور صالحین کی اتباع کرتے دنیا کے دوست وہاں پر ایک دوسرے سے دشمنی کرنے لگیں گے۔

فرمان باری تعالی ہے:
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ﴿الفصلت:29﴾
"اور کافر لوگ کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں جنوں انسانوں (کے وه دونوں فریق) دکھا جنہوں نے ہمیں گمراه کیا (تاکہ) ہم انہیں اپنے قدموں تلے ڈال دیں تاکہ وه جہنم میں سب سے نیچے (سخت عذاب میں) ہو جائیں۔"

اگر کوئی نیکوں کی صحبت رکھتا ہے تو اس کے نیک ہو جانے کے امکانات ہیں، اور اگر بروں کی مجلس اختیار کی ہے تو اگرچہ خود نیک ہو لیکن بد ہو جانے امکامات ہیں ۔ کیونکہ وہ اپنے ہم نشینوں کے افعال پر راضی ہے اور جب وہ بد کے افعال قبیحہ پر راضی ہوا تو وہ خود بھی بد ہی ہوگا۔
اس لیے ہمیں اس بارے میں محتاط رہنا چاہیے کہ ہم کہیں بری صحبت تو اختیار کیے ہوئے نہیں ہے۔ آج معاشرے میں 99 فیصد بلکہ 100 فیصد بگاڑ ہی بری سوسائٹی اور بری صحبت سے آیا ہوا ہے۔

موجودہ دور میں صحبت کے جدید انداز :

پہلے صحبت کا مطلب لوگوں سے بالمشافہ ملاقات سمجھی جاتی تھی۔لیکن آج کل کے دور میں صحبت کے معنی بدل گئے ہیں۔ اب یہ میل جول ای میل، چیٹنگ، فیس بک، ٹوئیٹر،واٹس اپ گروپس،آپس اور سوشل میڈیاکے دیگر ٹولز کے ذریعے انٹرنیٹ پر کیا جاتا ہے۔انٹر نیٹ اس وقت لوگ لاکھوں میں نہیں بلکہ اربوں میں استعمال کر رہے ہیں ۔مطلب کہ اس جدید طریقہ کو برقی یا ای صحبت کا نام دینا غلط نہ ہو گا۔

ان کے علاوہ ایک اور طرح کی صحبت ہے جو یکطرفہ کہلائی جاسکتی ہے ۔ اس میں ٹی وی پروگرامز، ایف ایم ریڈیو، ڈی وی ڈی موویز، سوشل میڈیا، ویب سائٹس،بلاگز، اخبارات و رسائل وغیرہ شامل ہیں ۔ آج لوگ ان کی صحبت میں اپنے وقت کا بڑا حصہ صرف کرتے ہیں۔
صحبت خواہ وہ بالمشافہ ہو یا کسی اور ذریعے سے، ہر صورت میں اس کا اثر شخصیت پر پڑتا ہے۔
اب یہ انسان پر میسر ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی  (انٹرنیٹ )کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔

صحبت کی اسی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے اسے براہ راست موضو ع بنایا اور ہدایت کی کہ راست باز، نیک اور صالح صحبت اختیار کی جائے۔
جیسا کہ اس آیت میں بیان ہوا ہے جو اوپر گزر چکی ہے۔فرمایا:
اے اہل ایمان ! خدا سے ڈرتے رہو اور راستبازوں کے ساتھ رہو۔(التوبہ:119)

اسی طرح کتب و رسائل(جدید طریقہ انٹر نیٹ) کا مطالعہ بھی صحبت ہی صورت ہے۔
ڈاکٹر عائض القرنی ”لاتحزن“ میں لکھتے ہیں:
مطالعہ سے وسوسہ اور غم دور ہوتا ہے۔ ناحق لڑائی جھگڑے سے حفاظت رہتی ہے۔ فارغ اور بے کار لوگوں سے بچاؤ رہتا ہے۔ زبان کھلتی ہے اور کلام کاطریقہ آتا ہے۔ ذہن کھلتا ہے اور دل تندرست ہوتا ہے۔ علوم حاصل ہوتے ہیں۔ لوگوں کے تجربات اور علماء وحکماء کی حکمتوں کا علم حاصل ہوتا ہے۔ دینی کتب کے مطالعہ سے ایمان تازہ ہوتا ہے۔
مطالعہ دراصل دوسروں کے تجربات سے استفادہ کا اور تاریخ کی برگزیدہ شخصیتوں سے ملاقات اور ان کی گفتگو سننے کا نام ہے۔ سوانح عمریوں سے اور خاص طور سے خود نوشت سوانح سے اور سفرناموں سے ایک قاری بہت کارآمد معلومات حاصل کر سکتا ہے، کتابوں کے مطالعہ سے انسان کو اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا احساس ہوتا ہے۔ جسے وہ دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان کے شعور میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ اچھے اور بُرے کی پرکھ اور تنقید کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان میں فنی تخلیق کی استعداد پیدا ہوسکتی ہے اور انسان کائنات اور حیات کے مسائل کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان آفاق وانفس کی نشانیوں کو بہتر طور پر جان سکتا ہے۔ اس سے وہ اپنے علم میں اضافہ کرتا ہے اور علم کے اظہار کے موٴثر طریقے دریافت کرتا ہے۔ ایک انسان جب کتب خانہ میں داخل ہوتا ہے اور کتابوں سے بھری ہوئی الماریوں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے تو دراصل وہ ایسے شہر علم میں کھڑا ہوتا ہے جہاں تاریخ کے ہر دور کے عقلاء، علماء، اہل علم اور اہل ادب کی روحیں(تجربات) موجود ہوتی ہیں۔
لیکن مطالعہ کے لیے نیک دوستوں کی طرح  صحیح کتابوں کا انتخاب بھی ضروری ہے۔
کیونکہ کتابیں انسان کو ساحل ہدایت تک پہنچاتی بھی ہیں۔ اور انسان کو گمراہی کے بھنور میں ڈبوتی بھی ہیں۔

چنانچہ ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس قسم کی صحبت میں اپنا وقت گذارتے ہیں۔ اگر یہ وقت بےاخلاق پروگرامز، دنیا پرستی پر مبنی فلمیں، عریاں ویب سائیٹس، گندے لطیفوں پر مبنی چٹ چیٹ، تحقیر آمیز مذاق پر مبنی میسیجز ، فیس بک،واٹس اپ کی لایعنی پوسٹس اور دنیا پرستی کی ہوا دینے والے رسالوں کے ساتھ گذرتا ہے تو اس بری صحبت کا نتیجہ آلودہ شخصیت کا حصول ہے۔ دوسری جانب اگر ہمارےساتھی قرآن کی تفسیر و تلاوت،پاکیزہ ای میلز، ستھرے ایس ایم ایس، ایمان افروز پوسٹس،ایمان سنوارنے والے پروگرامز اور نفس کی تربیت کرنے والی محفلیں ہیں تو اس اچھی صحبت کا آؤٹ پٹ ایک پاکیزہ شخصیت ہے ۔ ناپاک شخصیات کا ٹھکانہ جہنم کی آگ اور پاکیزہ نفوس کا مقام جنت کے باغات ہیں۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں۔
توبہ و استغفار:

یہ حقیقت ہے کہ انسان خطا ونسیان کا پتلا ہے، غلطی اور گناہ کرنا اس کی جبلت میں داخل ہے، مگر بہترین گناہ گار وہ ہے جو اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ آنسو بہائے اور اپنے کیے پر الله تعالیٰ سے رجوع کرے ، معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔
دراصل تین چیزوں کے مجموعہ کا نام توبہ ہے، ایک یہ کہ جو گناہ سر زد ہو جائے اس پر دل سے ندامت وشرمندگی اور پشیمانی ہو ، دوسرے یہ کہ جو گناہ ہو اس کو فوراً چھوڑ دے، تیسرے یہ کہ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم ( پکا ارادہ) ہو ، ان ہی تین چیزوں کے مکمل ہونے پر توبہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔

قرآن وحدیث میں توبہ کرنے والوں کے لیے خوش خبری اور بشارت دی گئی ہے اور الله توبہ کرنے والوں کو پسندیدگی اور محبوبیت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

 إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ۔(سورہ البقرہ:222)
"اللہ توبہ کرنے والوں کو  پسند فرماتا ہے۔"

ساری آدم کی اولاد خطاکار ہے، اور(ان میں)بہترین خطاکار(وہ ہیں جو)توبہ کرتے رہتے ہیں۔
[ترمذی:2499،ابنِ ماجہ:4251،حاکم:7617] 

توبہ کی یہ صفت انسان کو کام یابی کے بلند مدارج تک پہنچاتی ہے ، اسی سے دل کا سیاہ دھبہ دور ہو سکتا ہے ، اس توبہ ہی سے بڑے بڑے گناہ گار اور مایوس لوگ منزل مراد سے ہم کنار ہوتے ہیں ، کتنے ہی بڑے بڑے گناہ گاروں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں عرض حال کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی مایوسی دور کرکے انہیں حوصلہ بخشا اور خوش خبری دی۔

ایک مرتبہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے الله تعالیٰ کے رسول (صلی الله علیہ وسلم) ! میں نے اتنے اور ایسے گناہ اپنی زندگی میں کیے ہیں کہ اگر ان گناہوں کو دنیا کے تمام انسانوں پر تقسیم کر دیا جائے تو سب جہنم میں چلے جائیں ۔ الله کے رسول (صلی الله علیہ وسلم) ! کیا ان گناہوں کی تلافی کا کوئی طریقہ ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو اپنا ایمان تازہ کرنے اور الله کی طرف رجوع ہونے کی تلقین فرمائی ، تو اس شخص کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ حدیث شریف میں ایسے کتنے ہی واقعات ہیں کہ گناہوں سے بجھے ہوئے دل روشن چراغ بن گئے اور انہیں دنیا کے انسانوں کو صحیح راہ دکھانے کی سعادت حاصل ہو گئی۔

ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد
ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے، پھر اگر وہ اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور معافی مانگ لیتا ہے تویہ سیاہ دھبہ مٹا دیا جاتا ہے، لیکن اگر وہ اس گناہ کا اعادہ کرتا ہے تو سیاہ دھبوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھاجاتا ہے، بس یہی وہ ”رین“ کی کیفیت ہے جس کا ذکر الله تعالیٰ نے اس طرح فرمایاكَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ(سورة المطففين:14)
"یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کےاعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے۔ "

ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص الله تعالیٰ کی نافرمانی او رگناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو سب سے پہلے اس گناہ کا اثر اس کے دل پر پڑتا ہے، جو سیاہ دھبہ کی شکل میں نمایاں ہوتا ہے، یہ گویا کردار کے زنگ آلود ہونے کی ابتدائی علامت ہے ، اگر ابتدائی مرحلہ میں انسان اپنی اخلاقی بیماری پر آگاہ ومتنبہ ہو کر گناہ او رمعصیت کو چھوڑ کر، توبہ واستغفار کرے تو الله تعالیٰ اس سیاہ دھبہ کو زائل فرما دیتا ہے ، لیکن اگر اس نے اس کی فکر نہ کی اور توبہ واستغفار کا دامن نہیں تھاما تو انسان گناہوں کے سمندر میں ڈوبتا چلا جاتا ہے اور اس سے نکلنا بہت دشوار ہو جاتا ہے ، دراصل جو دل خوف الہٰی سے معمور ہو جاتا ہے وہ انسان کے لیے دنیا وآخرت میں فلاح ونجات کی راہیں ہموار کرتا ہے۔

دل پر سیاہ دھبہ دراصل انسان کے اعمال کی سیاہی ہے اورا س کیفیت کا نام قرآن مجید کی اصطلاح میں ”رین“ ہے، جو مذکورہ آیت میں ”کل بل ران علی قلوبھم“ میں فرمایا گیا ہے۔
ارشاد ہے ”
جو کوئی گناہ کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے اور الله سے بخشش چاہے تو وہ الله کو بخشنے والا، مہربان پائے گا“ ۔ (سورہٴ نساء آیت:110)

چنانچہ بخشش کا مطالبہ انبیاء و المرسلین علیہم الصلاۃ و السلام کی عادت مبارکہ ہے۔ فرمایا: 
{قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِين}
[حوا اور آدم ] دونوں نے کہا: ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا، اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ [الأعراف : 23]
اور نو ح علیہ السلام کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا:
{رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ }
میرے پروردگار! مجھے ، میرے والدین، اور میرے گھر میں داخل ہونے والے مؤمن مرد و خواتین تمام کو بخش دے۔[نوح : 28]
اور ابراہیم علیہ السلام کی بات حکایت کرتے ہوئے فرمایا:
{رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ}
ہمارے پروردگار! مجھے، میرے والدین، اور تمام مؤمنین کو حساب کے دن بخش دینا۔[ابراہیم : 41]
اور موسی علیہ السلام کا مقولہ نقل کرتے ہوئے فرمایا:
{ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ}
میرے پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے، اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ [الأعراف : 151]
ایسے ہی فرمایا:
{وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ}
داؤد علیہ السلام سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، تو پھر اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور پوری طرح رجوع کیا ۔[ص : 24]
اور نبی ﷺ کو حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
{فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ}
یہ بات جان لیں! اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، اور اپنے تسامحات سمیت سب مؤمن مرد و خواتین کیلئے اللہ تعالی سے بخشش مانگیں۔[محمد : 19]
اور آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے، حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی گزشتہ و پیوستہ تمام لغزشیں معاف فرما دی ہیں ، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :"ہم رسول اللہ ﷺ کی ایک ہی مجلس میں سو سے زیادہ مرتبہ استغفار کے یہ الفاظ شمار کر لیتے تھے:
(رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ)
میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور میری توبہ قبول فرما، بیشک تو توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے]ابو داود، ترمذی اور اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔
اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: "رسول اللہ ﷺ وفات سے پہلے اکثر اوقات یہ فرمایا کرتے تھے: (سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ) "اللہ اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے، میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔(بخاری و مسلم)

آپ ﷺ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد تین بار کہا کرتے تھے: " أَسْتَغْفِرُ اللهَ " [میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں]مسلم نے اسے ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس کے بعد نماز کے بعد والے اذکار فرماتے ۔
استغفار نیک لوگوں کی عادت ، متقی لوگوں کا عمل اور مؤمنوں کا اوڑھنا بچھونا ہے،
اللہ تعالی نے انہی کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا:
{رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ}
ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ بخش دے، اور ہماری برائیاں مٹا دے، اور ہمیں نیک لوگوں کیساتھ موت دینا۔[آل عمران : 193]

ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:" گناہوں سے استغفار کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں کا مٹانے کا مطالبہ اللہ تعالی سے کیا جائے، انسان کو استغفار کی بہت زیادہ ضرورت ہے؛ کیونکہ انسان دن رات گناہوں میں ملوّث رہتا ہے، اور قران مجید میں توبہ و استغفار کا ذکر بار بار آیا ہے، نیز انسان کو کثرت سے استغفار کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے"
اللہ سے گناہوں کی بخشش طلب کرنے پر اللہ کی طرف سے اسے قبول کرنے اور گناہ بخش دینے کا وعدہ ہے۔
اسی طرح کسی مخصوص گناہ سے توبہ کرنے کی بھی شرعاً اجازت ہے؛ کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: (جب انسان کوئی گناہ کر لے اور پھر کہے: "یا اللہ! مجھ سے گناہ ہو گیا ہے، توں میرا گناہ معاف کر دے" تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا رب گناہ بخشتا بھی ہے اور ان پر پکڑتا بھی ہے، میں نے اپنے بندے کو معاف کیا") (بخاری و مسلم )

چنانچہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی سے اپنے تمام گناہ جنہیں جانتا ہے یا نہیں جانتا سب کی بخشش مانگے تو اسے بہت بڑی بات کی توفیق مل گئی ہے۔
گناہوں کی بخشش کیلئے انسان کی طرف سے کی جانے والی دعا اخلاص، اصرار، گڑگڑانے، اور اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری کے اظہار پر مشتمل ہوتی ہے، نیز اس میں گناہوں سے توبہ بھی شامل ہے، اور اللہ تعالی سے توبہ مانگنا بھی استغفار ہی کی ایک شکل ہے، چنانچہ یہ تمام امور استغفار اور توبہ کے ضمن میں آتے ہیں، لہذا مذکورہ الفاظ الگ الگ ذکر ہوں تو تمام معانی ان میں یکجا ہوتے ہیں، اور جب یہ الفاظ سب یکجا ہوں تو استغفار کا مطلب یہ ہو گا کہ: گناہوں اور ان کے اثرات کے خاتمے، ماضی میں کیے ہوئے گناہوں کے شر سے تحفظ اور گناہوں پر پردہ پوشی طلب کی جائے۔
جبکہ توبہ کے مفہوم میں: گناہ چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع ، گناہوں کے خطرات سے مستقبل میں تحفظ اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم شامل ہے۔
اللہ تعالی نے توبہ اور استغفار کو اپنے اس فرمان میں یکجا بیان فرمایا:
{وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ}
اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ تمھیں ایک معین مدت تک اچھا فائدہ دے گا اور ہر فضل والے کو اس کا فضل دے گا اور اگر تم پھر گئے تو یقیناً میں تمھیں بڑے دن کے عذاب سے ڈراتا ہوں [هود : 3]اس کے علاوہ بھی دیگر آیات ہیں۔

سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے نامۂ اعمال میں بہت زیادہ استغفار ہوا تو اس کے لئے طوبیٰ (خوشخبری) ہے ۔(سنن ابن ماجہ : ۳۸۱۸، اسنادہ حسن)
طوبیٰ جنت کا یا جنت میں ایک درخت کا نام ہے ۔ (مرعاۃ المفاتیح ۶۲/۸)
توبہ و استغفار کا عمل تمام مسلمانوں  کیلئے سب سے بڑی خیر خواہی اور تزکیہ نفس کا بہترین عمل ہے۔

بندہ مومن کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ وہ اپنے باطن کی اصلاح نہ کرلے اور اپنے دل کو پاکیزہ و طاہر نہ بنالے۔
لہذا ظاہری حسن و جمال بندے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے اگر اس کا باطن اور قلب فاسد اور قبیح ہو، وہ لوگ جنہیں ان کے اچھے احوال اور ظاہری حسن و جمال نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا اور اس کی وجہ سے وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کا آخرت میں بھی ان کا انجام بہتر ہوگا، ان کی تردید کرتے ہوۓ اللہ جل و علا نے فرمایا
سورہ مریم 74
وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْ‌نٍ هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثًا وَرِ‌ئْيًا ﴿٧٤﴾
ہم تو ان سے پہلے بہت سے جماعتوں کو غارت کر چکے ہیں جو سازو سامان اور نام و غرور میں ان سے بڑھ کر تھیں۔

اس آیت میں اللہ سبحانہ تعالی نے خبر دی ہے کہ اس سے اس سے پہلے بہت ساری قوموں کا ہلاک و برباد کر دیا جو حسین و جمیل شکلوں والے، کافی دولت و ثروت والے اور نہایت دیدہ زیب رعنائی والے تھے لیکن ساری چیزیں جن سے وہ لطف و اندوز ہو رہے تھے ان کے کچھ کام نہ آئیں، اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا
سورہ غافر 82
أَفَلَمْ يَسِيرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ فَيَنظُرُ‌وا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَكْثَرَ‌ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً وَآثَارً‌ا فِي الْأَرْ‌ضِ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٨٢﴾
کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر اپنے سے پہلوں کا انجام نہیں دیکھا جو ان سے تعداد میں زیادہ تھے، قوت میں سخت اور زمین میں بہت ساری یاد گاریں چھوڑنے والے تھے۔ ان کے کاموں نے انہیں کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا۔
معلوم ہوا باطن کا حسن و جمال اور دل کا صحیع و سالم ہونا ہی وہ اصل اور اساس ہے، جس پر اس دنیا میں آخرت میں یوم میعاد کی کامیابی و کامرانی کی بنیاد قائم ہے۔
جاری ہے۔۔۔
اس سے متعلقہ سابقہ قسط کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_17.html?m=1

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_23.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_30.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_15.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/10/blog-post.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/10/blog-post_6.html

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...