Monday 23 October 2017

ہم مایوسی کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے


تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#117

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

ہم مایوسی کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے

دین اسلام کی بنیاد قرآن و سنت پر مبنی ہے۔ قرآنی تعلیمات ہوں یا سیرت طیبہ کے مہکتے پھول۔ یہ تعمیر سیرت‘ تشکیل ذات اور تشکیل معاشرہ کا بہترین علاج ہیں۔ حسن سلوک‘ صلہ رحمی‘ عدل و انصاف‘ معاشیات‘ سیاسیات‘ نفسیات اور طب غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ میں تعلیمات رسولﷺ ہمہ پہلو خیروبرکت کی حامل ہیں۔ یقینا انسانوں کو ان کے تمام مسائل و جملہ امراض سے نجات‘ جسم اور روح کی شفا بخشی اسوۂ رسولﷺ کے بغیر ممکن نہیں۔ جسمانی صحت و توانائی‘ ذہنی طہارت و لطافت‘ تزکیہ نفس،روحانی بالیدگی و پاکیزی‘ ارادوں اور نیتوں کی اصلاح اور کردار کی عظمت و بلندی اسوۂ حسنہ کے لازمی ثمرات ہیں جن کی ہر زمانہ میں ضرورت رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَة...۔(سورہ الاحزاب:21)
"یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے۔"
آج افراط و تفریط کے دور میں نفسیاتی امراض بڑھ رہے ہیں اور پورا معاشرہ ان کی لپیٹ میں ہے۔ ایسے نازک حالات میں صرف دین اسلام ہی وہ حیات بخش نظریہ ہے جو انسانیت کے ہر قسم کے مسائل و مشکلات کا شافی و کافی حل پیش کرتا ہے اور روحانی انقلاب کے ذریعے فلاح انسانیت (بالخصوص ذہنی بیماریوں) کی مکمل ضمانت دیتا ہے۔ علماء ملت نے ہر دور میں اس ضمن میں رہنمائی فرمائی ہے۔
اکثر لوگوں کو کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور یہ مسائل براہ راست انسانی شخصیت، اس کی سوچ اور معاشرتی تعلقات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
نفسیاتی امراض کی کئی اقسام ہوتی ہیں لیکن
اس مضمون میں ہم اپنا فوکس صرف "مایوسی"کی وجوہات اور حل پر رکھیں گے۔

اس دنیا میں انسان کو کبھی کامیابیوں اور کبھی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔کامیابی پر خوشی کا اظہار تو ہر شخص کر لیتا ہے لیکن تاریخ میں ایسے افراد کم ہی نظر آتے ہیں جو ناکامی کی صورت میں مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے ایک نئے جذبہ کے ساتھ دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں .

ہر انسان کو اپنی زندگی میں مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی وہ مرحلے اس قدر آسان ہوتے ہیں کہ زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھرے رہتے ہیں اور کبھی وہ مرحلے اس قدر مشکل ہو جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی سے بیزاری محسوس کرتا ہے۔

کچھ افراد اپنے اندر موجود صلاحیتوں اور اپنی ہمت سے حوصلہ پیدا کرتے ہیں اور مشکل مراحل عبور کر کے زندگی کا تسلسل بہار و خزاں میں جاری رکھتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اندر موجود ہمت اور صلاحیتوں کو پہچان نہیں پاتے اور تمام مسائل کا آخری حل زندگی کا خاتمہ (خود کشی )سمجھتے ہیں۔

ہماری اس تحریر کے مخاطب وہ لوگ ہوں گے جو کسی نہ کسی قسم کی مایوسی کا شکار ہیں۔یا مستقبل میں مایوسی سے دو چار ہو سکتے ہیں ۔ اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ انسانوں میں مایوسی کیوں پیدا ہوتی ہے اور اس کے تدارک کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں ہمیں اس کے متعلق کچھ تعلیمات دی ہیں ؟ ہم کن طریقوں سے اپنے اندر مایوسی کو کم یا ختم کر سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ خوشیاں سمیٹ سکتے ہیں؟

مایوسی پر تفصیلا بات کرنے سے پہلے ہم ڈپریشن کا مختصر جائزہ لینا چاہیں گے کیونکہ ڈپریشن بھی مایوسی کا سبب بنتا ہے۔

ڈپریشن:

آج کل معاشرے کے بڑھتے ہوئے مسائل معاشی پریشانیاں،اداسی،ناامیدی، خالی الذہنی، بیماری، دل کی باتیں دل میں رکھنا، گھریلو لڑائی جھگڑے،کاروبار میں مسلسل نقصان،کسی پیارے کا بچھڑ جانا۔سپنوں میں ناکامی،چھوٹی چھوٹی باتوں کو خود پر حاوی کر لینا،احساسِ کمتری، کیرئر کا زوال، ہتکِ عزت، من پسن شادی کا نہ ہونا،
شریک حیات یا رشتے داروں کے ساتھ خراب تعلقات، کسی قریبی عزیز کے انتقال یا نقصان کو بار بار سوچتے رہنا اور سب سے بڑھ کر عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا احساس وغیرہ رفتہ رفتہ یہ مسائل انھیں ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہیں۔ڈپریشن و مایوسی کے اسباب اتنے زیادہ ہیں کہ اس مضمون میں ان کے نام اور مختصر تعارف لکھنا ممکن نہیں ہے۔
اوپر ذکر کردہ صورتوں میں کچھ عرصہ اداس رہنا فطری عمل ہے،جس کو ہم سادہ ڈپریشن جو جز وقتی ہوتا ہے کہہ سکتے ہیں ۔ مگر بعض افراد اس اداسی سے باہر نہیں آ پاتے جس کو ہم کلینکل ڈپریشن جو غیر مدتی ہوتا ہے کا نام دے سکتے ہیں جو شدید اور خاصا اذیت ناک ہوتا ہے جو آگے جا کر مایوسی کا سبب بنتا ہے۔جس کے بھیانک نتائج  نکل سکتے ہیں ۔زندگی میں ملنے والی کامیابیاں انسان کو خوشی دیتی ہیں جبکہ امور زندگی میں ناکام انسان کو دکھ دیتی اور ڈپریشن و پریشانی میں دھکیل دیتی ہے۔ یہی ڈپریشن و پریشانی اگر شدت اختیار کرتی جائے تو ایسے میں یہ مایوسی و نا امیدی کی مستقل شکل اختیار کرلیتی ہے۔

ذہنی تناؤ یا مایوسی کسی بھی فرد کے خیالات، رویے، احساسات اور ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے، اور جب کوئی شخص ڈپریشن کا شکار ہو تو دنیا میں کوئی بھی چیز اسے اچھی محسوس نہیں لگتی۔توانائی اور خوداعتمادی میں کمی کا احساس ہمیں مایوسی کی کیفیت سے باہر نکالنے میں مزید مشکلات پیدا کر دیتا ہے، تاہم اس ذہنی عارضے کی روک تھام کیلئے درج ذیل ہدایات کافی مددگار ثابت ہوسکتی ہیں ۔

°اگر آپ ہر وقت افسردہ رہیں ، اپنے کاموں ،مشاغل سے دلچسپی کم یا ختم ہو جائے ،ذہنی یا جسمانی تھکن محسوس کریں یہ تھکن مسلسل رہے ۔بلا وجہ غصہ آئے، آپ خود کو دوسروں سے اعلی یاکمتر خیال کرنے لگیں ،ماضی کی غلطیاں پچھتاوے بن جائیں ،خود کو یا دوسروں کو برے حالات کا ذمہ دار سمجھیں ۔اور مایوس ہو جائیں اگر آپ کی نیند اور بھوک اڑ جائے ،خود کشی کو دل چاہے وغیرہ تو سمجھ لیں کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔

°ذہنی امراض کے حوالے سے ہمیں ایک بات بہت توجہ طلب ہے کہ ذہنی بیماریاں جسمانی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہیں۔تحقیق ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو ڈیپریشن کا خطرہ دگنا ہوتاہے ۔ السر ،دمہ ،آدھے سر کا درد، کمر درد، بلڈ پریشر اور دل کی بیماریاں اعصابی بیماریاں بھی قابل ذکر ہیں۔ روحانی و نفسیاتی اسکالر خواجہ شمش الدین نے اپنی ایک کتاب میں ایسی اڑھائی سو بیماریوں کے بارے میں لکھا ہے جو ذہنی امراض سے جسمانی امراض بن جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ نفسیات کتابوں میں اس موضوع پر کافی تحقیقی معلومات درج ہیں ۔جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہت سی جسمانی بیماریوں کا سبب ذہنی بیماریاں ہوتی ہیں۔

°خالق کائنات نے آپ کو ایک خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا ہے، اس لیے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ۔احساس برتری بھی ایک ذہنی مرض ہے یاد رکھیں اللہ کو غرور پسند نہیں ہے، اس لیے خود کو دوسروں سے افضل نہ سمجھیں نفرت، غصے ، پشیمانی ،بدلہ، پریشانی اور حسد کے جذبات کو دل سے نکال دیں۔ اللہ کی خوشنودی کے لیے مخالفین کو معاف کر دیں ۔ضرورت مندوں کی مدد کریں، اس سے دلی سکون ملے گا۔جی بھر کر رونے سے بھی ڈپریشن میں کمی آتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اللہ کے سامنے روئیں ۔مساج ، چہل قدمی،عبادات خصوصاً نماز کا اہتمام کرنے سے جو ذہنی و قلبی سکون حاصل ہوتا ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔

°اگر انسان اپنا خود مددگار بنے تو ایک ماہر نفسیات کی طرح ڈپریشن و اوداسی کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اپنا علاج کر سکتا ہے۔
جو چیز انسان دست قدرت میں ہے جس کے ذریعہ وہ حالات وواقعات کا رخ بدل سکتا ہے وہ ہے خود اپنے آپ کو تبدیل کرنا۔ آئینہ صاف کرنے بجائے اپنے چہرے کو صاف کریں ۔اپنا چشمہ یعنی اپنا زاویہ نگاہ تبدیل کریں۔ذہن پر حاوی منفی خیالات و فکر کو کرید کرید کر پھینک دیں۔
حالات جو بھی ہیں ان پر اکتفا کرتے ہوئے خوش رہنے کی کوشش کریں پھر یہ تبدیلی دنیا میں آپ کے سرخ روئی کا موجب بن جائے گی۔
یاد رکھیے زندگی کے طویل سفر میں دائمی راحت و آرام کے لئے تبدیلی نا گزیر ہوتی ہے۔دنیا میں اثبات صرف تبدیلی کو حاصل ہے۔جو لوگ خود کو تبدیل کرنے کا ہنر نہیں جانتے وہ یا تو صفحہ ہستی سے مٹا دیے جاتے ہیں یا پھر وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوجاتے ہیں

°سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیں اس سے نہ صرف آپ دوسروں کے کام آئیں گے بلکہ آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت بھی اچھی ہو گی۔
کیونکہ لوگوں سے دوری اور بے نیازی بھی ڈپریشن کا ایک سبب ہے۔ لہٰذا دوسروں کے کام آنے اور ان سے تعلقات بڑھانے سے آپ اس مرض پر قابو پا سکتے ہیں۔

°ماہرین متفق ہیں کہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار افراد کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کیا جائے۔ ان کے ساتھ سخت رویہ رکھنا، ان کی حالت کو نظر انداز کرنا یا معمولی سمجھنا ان کے مرض کو بڑھانے کے مترادف ہوگا۔

°اسی طرح ڈپریشن کے شکار شخص کو جسمانی طور پر قریب رکھا جائے اور ان سے پیارو محبت سے پیش آیا جائے۔ طبی ماہرین نے باقاعدہ ریسرچ سے ثابت کیا کہ قریبی رشتوں جیسے والدین، بہن بھائی، شریک حیات اور دوستوں کا حسن سلوک سے پیش آنا ڈپریشن اور دماغی تناؤ میں کمی کرتا ہے۔یاد رکھیں کہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار شخص اکیلے اس مرض سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر سکتا اور اس کے لیے اسے اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کا تعاون لازمی چاہیئے ہوتا ہے۔

°ڈپریشن کے شکار مریض کے ساتھ لفظوں کے چناؤ کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔ ایسے موقع پر مریض بے حد حساس ہوتا ہے اور وہ معمولی سی بات کو بہت زیادہ محسوس کرتا ہے لہٰذا خیال رکھیں کہ آپ کا کوئی لفظ مرض کو بدتری کی جانب نہ گامزن کردے۔

°جب ڈپریشن کا شکار ہوں تو خود کو ایک کونے تک محدود نہ کریں، کیونکہ تنہائی میں اپنے خیالات کی گونج اس کیفیت کو مزید بڑھا دیتی ہے، اس کے مقابلے میں اپنے دوستوں یا رشتے داروں سے میل جول رکھیں،اس طرح آپ کی تازہ سوچ دماغ میں جگہ پالے گی جبکہ گزشتہ سوچ ختم ہو جائے گی۔ جس کے ساتھ ہی ڈپریشن  کی کیفیت بھی ختم ہوجائے گی۔

°خوشی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونا سیکھئے اور بڑے سے بڑے غم کا سامنا مردانہ وار کرنے کی عادت ڈالئے۔ اپنے حلقہ احباب میں زیادہ تر خوش مزاج لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے اور سڑیل لوگوں سے اجتناب کیجئے۔

ڈپریشن سے نجات کے لئے چند ہدایات کے بعد اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف کہ ہم مایوسی کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

مایوسی کی تعریف:

پاکستان کے ممتاز ماہر نفسیات حمیر ہاشمی جن کی تصنیفات امریکہ اور کینیڈا کی یونیوسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں ، مایوسی کی تعریف کچھ اس طرح کرتے ہیں:  ’’مایوسی ہم اس احساس کو کہتے ہیں جو ایک شخص اپنی کسی خواہش کی تسکین نہ ہونے کے طور پر محسوس کرتا ہے، مثلاً اگر ایک طالب علم امتحان میں پاس ہونا چاہے لیکن فیل ہو جائے تو وہ مایوسی سے دوچار ہوگا یا اگر کوئی کھلاڑی کھیل کے میدان میں مقابلہ جیتنا چاہے، لیکن ہار جائے تو وہ مایوسی کا شکار ہو گا۔‘‘ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:  ’’اب اگر ہم اس تعریف میں اپنے آپ کا اور اپنے گرد وپیش کے افراد کا جائزہ لیں تو ہم جان لیں گے کہ دنیا کا ہر شخص اپنی زندگی میں مایوسی کا شکار رہا ہے اور جب تک کسی شخص کے سانس میں سانس ہے، وہ مایوسی سے دوچار ہوتا رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی تمام خواہشات کی تسکین اس کی مرضی کے عین مطابق ممکن ہی نہیں ہوتی، اس لئے وہ کسی نہ کسی حد تک مایوسی کا شکار رہے گا۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن میں یہ احساس زیادہ شدید نہیں ہوتا اور کچھ لوگ ایسے ہیں، جن میں یہ احساس شدید حد تک پایا جاتا ہے۔ ‘‘ (حمیر ہاشمی، نفسیات، ص 772-773  )

مشہور ماہر نفسیات "ڈیل کارنیگی" اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :

حقیقت یہ ہے کہ جب انسان ناکامیوں اور مشکلات کے بھنور میں پھنس جاتا ہے تو اس کے لئے دو راستے ہوتے ہے (١) مثبت راستہ (٢ ) منفی راستہ. اگر انسان ایسے میں مثبت راستہ اختیار کرتا ہے تو یہی ناکامیاں اور محرومیاں اسکی خوابیدہ صلاحیتوں کو جگا کر مہمیز کا کام دیتی ہیں .. اور اگر ایسے میں منفی راستہ اختیار کیا جائے تو مایوسی اس کا مقدّر بن کر تساہل، احساس کمتری، خوف، جرم، خود کشی ایسے انتہائی اقدام تک لے جاتی ہے..۔

انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک غلطی کرنے کے بعد دوسری غلطی کا ارتکاب کرتا ہے۔ ایک ناکامی کے بعد اس کا تدارک کرنے کے بجائے حزن و ملال اور ماتم میں تضیع اوقات کرتا رہتا ہے وہ نئے امکانات تلاش کرنے کے بجائے چیخ و پکار کے ذریعے اپنی پریشانی کو مزید بڑھا لیتا ہے۔

امریکا کے ایک نفسیاتی ڈاکٹر "ولیم آرچی" نے کہا کہ آدمی سب سے زیادہ جس چیز میں اپنا وقت برباد کرتا ہے وہ افسوس اور مایوسی ہے اس کا کہنا ہے کہ بیشتر لوگ ماضی کی تلخ یادوں میں گھرے رہتے ہیں وہ یہ سوچ سوچ کر کڑھتے رہتے ہیں کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو میرا جو کام بگڑ گیا وہ نہ بگڑتا۔ اگر میں نے یہ تدبیر کی ہوتی تو میں نقصان سے بچ جاتا۔
بعض افراد میں یہ مایوسی اتنی شدت تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے خاتمے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے رو سے اللہ سے مایوسی کو "کفر" کے مترادف قرار دیا گیا ہے .. دراصل مایوسی ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کے اثرات انسانی شخصیت کے عناصر پر اثر انداز ہوتے ہوئے انسان کو زندہ نعش بنا دیتے ہیں .. اسلام اپنے ماننے والوں کو سرگرم اور بامقصد زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے جبکہ مایوسی اسکی ضد ہے۔

 سادہ الفاظ میں اگر کوئی شخص کسی چیز کی خواہش کرے اورکسی وجہ سے وہ خواہش پوری نہ ہوسکے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل ودماغ میں جو تلخ احساس پیدا ہوتا ہے، اسے مایوسی کہتے ہیں۔

مایوسی کے اسباب:

ماہرین کی رائے میں علم نفسیات کی رو سے مایوسی کی کیفیت پیدا ہونے کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں۔ اگر نتائج غیر یقینی ہوں تو بھی ناکام ہونے پر مایوسی ہوتی ہے۔ جس وقت یہ امید ہو کہ نتیجہ مثبت ہوگا اور وہ منفی ہو، تو بھی مایوسی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ جس وقت یہ محسوس ہو کہ آپ نتائج کے اپنے حق میں ہونے کے حقدار تھے، تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ جس وقت انسان اپنے ذاتی رویئے کے ذریعے نتائج کو قابو میں نہ کر سکے تو بھی اسے مایوسی کی کیفیت گھیرے میں لے لیتی ہے۔سابقہ اسطور میں ڈپریشن والے پہرا گراف کی تمام علامات پر اگر مناسب توجہ نہ دی جائے تو مایوسی کاسبب بن سکتی ہیں۔اس کے علاوہ بھی مایوسی کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مایوسی ایک گناہ ہے مگر ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اس گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ انسان مایوس کیوں ہوتا ہے اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن دو باتیں بہت بنیادی اور اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کسی بھی مقصد کے حصول میں ناکام ہونا اور دوسری بات کسی نعمت کا چھن جانا اور ابتلاء مصیبت ہو جانا۔
مایوسی کی ایک بڑی وجہ کسی خواہش کی بہت زیادہ شدت ہے۔ جو خواہش جتنی زیادہ شدید ہو گی ، اس کی تسکین اتنی ہی زیادہ خوشی کا باعث بنے گی، لیکن اگر یہ پوری نہ ہو سکے تو پھر مایوسی بھی اتنی ہی زیادہ شدید ہو گی۔ ہمارے لوک قصوں میں ہیر رانجھا، سسی پنوں؟لیلہ مجنوں اور شیریں فرہاد اور دیگر عاشقانہ کہانیاں اس کی مثالیں عام ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے حصول کی خواہش کو بہت زیادہ شدید کر لیا  ، جب یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو وہ اتنے مایوس ہوئے کہ انہوں نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر لیا۔جس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ بےچارے(عاشق)ہمارے لئے عبرت کا نشان ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے قدیم اور جدید میڈیا نے ان سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں محبت میں ناکامی پر انتہا درجے کی مایوسی اور بالآخر خود کشی کی وبا پھیلتی چلی گئی۔

 ہر اس حقیقت پسند کو ، جو مایوسی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے ، چاہئے کہ اپنی خواہشات میں شدت کو کم سے کم کرے۔ کسی سے محبت کا معاملہ ہو، یا امتحان میں پاس ہونے کا، اچھا کھلاڑی بننے کی خواہش ہو یا بڑا افسر بننے کی، اس حقیقت کو جان لیجئے کہ دنیا میں ہر چیز اور ہر انسان ہمارا پابند نہیں ہے۔ اس لئے اپنی کامیابی اور ناکامی دونوں امکانات کو مدنظر رکھئے۔ جب انسان اپنی ناکامی کے امکان کو بھی مدنظر رکھے گا تو اس کی خواہش کی شدت میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔

 محبت کے معاملے میں یہ جان لیجئے کہ شادی سے پہلے معاملہ محض پسند یا ناپسند تک محدود رہنا چاہئے اور اسے عشق یا محبت میں تبدیل نہیں ہونا چاہئے۔ جب شادی ہو جائے اور بات کنفرم ہو جائے تو پھر اپنے شریک حیات سے دل و جان سے محبت کیجئے۔ جو کوئی بھی اس کا الٹ کرے گا، اسے مایوسی سے دوچار ہونا ہی پڑے گا۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ عشق کیا نہیں جاتا بلکہ ہو جاتا ہے، کوئی اچھی چیز نہیں بلکہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کا مناسب نفسیاتی علاج ضروری ہے۔انسان کے تمام جذبے اس کے اپنے کنٹرول میں رہیں تو وہ خوش رہتا ہے ورنہ مایوسیاں اور پریشانیاں اس کا مقدر بنتی ہیں۔

دوسروں سے بے جا توقعات وابستہ کرنا:

مایوسی کی ایک بڑی وجہ دوسروں سے بے جا توقعات وابستہ کرنا ہے۔ ہم لوگ اپنے دوستوں، رشتہ داروں ، عزیزوں ، منتخب نمائندوں اور حکومت سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ مثلاً ہمارا خیال ہوتا ہے کہ جیسے ہی ہم اظہار محبت کریں تو محبوب فوراً ہمارے قدموں میں سر رکھ دے۔ جب ہم پر کوئی آفت آئے تو ہمارا دوست بھی اس مصیبت کو اپنے سر پر لے لے۔ اگر ہمیں رقم کی ضرورت ہو تو تمام رشتے دار اور ملنے والے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ہماری ضرورت کو پورا کریں۔ اگر ہماری کسی سے لڑائی ہو جائے تو ہر دوست ہماری طرف سے مردانہ وار لڑے۔ منتخب نمائندے اور حکومت ہماری غربت کو ختم کر دے۔ ہمارے کام کرنے کی جگہ ایسی ہو جہاں تنخواہ تو اچھی ملے لیکن کام زیادہ نہ کرنا پڑے وغیرہ۔

  ہر شخص کے حالات ایسے نہیں ہوتے کہ وہ ہماری ان توقعات پر پورا اتر سکے۔ اگرچہ بعض لوگ تو جان بوجھ کر کسی کے کام نہیں آنا چاہتے لیکن زیادہ تر دوست اور رشتے دار اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے ہماری مدد نہیں کر سکتے۔ محبت کا معاملہ اس سے بھی مختلف ہے۔ اگر مجھے جس سے محبت ہے وہ بھی ایک آزاد انسان ہے۔ میری طرح اسے بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی پسند کر لے۔ اسے بہت سی نفسیاتی و سماجی مجبوریاں بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ اگر وہ مجھے پسند ہے تو میں بھی اسے پسند آؤں۔ بالعموم محبت کرنے والے تو بہت ہی بڑے بڑے ہوائی قلعے تعمیر کرتے ہیں اور جب حقیقی دنیا میں ان قلعوں کے بکھرتے دیکھتے ہیں تو مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ا س طرح کے معاملات میں ہر انسان کو چاہئے کہ وہ دوسروں سے بالکل کوئی توقع وابستہ نہ کرے اور ہر کام کو اپنے زور بازو سے کرنے کی کوشش کرے۔ حقیقی زندگی میں اسے دوسروں سے کچھ نہ کچھ مدد تو مل ہی جائے گی۔ جب ایسا توقع کے بالکل خلاف ہو گا تو یہ امر اس کے لئے مایوسی نہیں بلکہ خوشی کا پیغام لائے گا۔

نفسیاتی امراض کے بنیادی اسباب میں سے ایک اہم ترین سبب

انسانوں کے نفسیاتی امراض کے بڑے اسباب میں سے بنیادی سبب اِن کے گناہ ہیں ، بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ نفسیاتی امراض کا اصل بنیادی سبب گناہ ہی ہیں تو قطعا غلط نہ ہوگا ، 
ہو سکتا ہے اکثر قارئین کو یہ بات عجیب یا غلط سی لگے ، خاص طور پر ایسے لوگ جوصحیح اسلامی تعلیمات سے دُور ہیں اور اپنی یا دوسروں کی نفیساتی بیماریوں اور پریشانیوں کے دیگر مادی اسباب کی طرف توجہ کیے رکھتے ہیں اور انہی اسباب کے مطابق ان کے مادی علاج کی طرف لگے رہتے ہیں ، ایسے علاج جو عموماً ان نفسیاتی امراض سے نجات کا سبب تو نہیں بن پاتےلیکن کئی اور جسمانی امراض کا سبب ضرور بن جاتے ہیں ، 
میں نے اپنی بات کے آغاز میں جو دعویٰ کیا کہ انسانوں کے نفسیاتی امراض کا سبب ان کے گناہ ہیں ، اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں کچھ اور باتیں بھی سمجھنا پڑیں گی ، جن میں سےسب سے پہلے یہ سمجھنا ہے کہ شریعت اسلامیہ میں """ گُناہ """ کا کیا معنی و مفہوم ہے ؟
گُناہ کی جائے پیدائش اور بڑھنے پُھولنے کا مُقام کونسا ہے ؟

جوابات:
"گناہ " کا معنی و مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق اور خیر کے اِرادے کا قولی اور عملی انکار کرنا۔
گناہ انسانی نفس کے اندر ہی پیدا ہوتا ہے اور اِسی کے اندر بڑھتا ہے ،پھر اِنسان کی سوچ اور خواھشات پر مسلط ہوتے ہوتے اِس کے اعضاء پر ظاہر ہوتا ہے ، اِس کے ظاہر ہونے کے بعد یہ نا ممکنات میں سے ہے کہ وہ اُس انسان کے نفس اور نفسیات پر اپنے اثرات نہ چھوڑے ، 
یہ حق ہے کہ انسان کا ہر فعل اُس کے لیے کسی نہ کسی انجام کا سبب بنتا ہے ، اور گناہ کا انجام سوائے مصیبت کے اور کچھ نہیں ہوتا ، 
(وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ ::: اور تُم لوگوں کو جو کچھ مصیبت آتی ہے تو وہ تُم لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہوتی ہے ، اور اللہ (تو اپنی رحمت سے)بہت کچھ سے درگزر کرتا ہے(سُورت الشُوریٰ؛30)
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے ، یا جو کچھ بھی اُس سے سرزد ہوتا ہے ، ہر ایک کام قولی ہو یا فعلی، خیروالا ہو یا شر والا ، یقیناً اپنا کوئی نہ کوئی اثر، کوئی نہ کوئی نتیجہ اُس انسان کی شخصیت پر ضرور مرتب کرتا ہے ، ایسا اثر ایسا نتیجہ جو اُس انسان کی شخصیت کی بناوٹ پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے ، اور گناہ سے متاثر اسی شخصیت کے مطابق اس انسان کا نفس اور نفسیات پلتے بڑھتے ہیں ، اور اس انسان کی عادات اور اس کا مزاج بھی پھر اسی کے مطابق بنتے چلے جاتے ہیں ،
ایک گناہ سے آغاز ہو کر نوبت یہاں تک آن پہنچتی ہے کہ اس انسان کا مزاج گناہوں کی طرف مائل رہنے والا بن جاتا ہے ،گناہ کرنا اس کی سرشت میں شامل ہو جاتا ہے،اور گناہ کرتے رہنا اس کی عادت بن جاتا ہے ، اور عادت ایسی حرکات کو کہا جاتا ہے جن کے پورا نہ ہونے کی صورت میں ان عادات کا شکار عجیب سی صورتحال میں مبتلا رہتا ہے ، اور جب کسی کی کوئی عادت بہت پکی ہو چکی ہو تو بسا اوقات وہ لاشعوری طور پر ہی اس کی تکمیل میں مشغول ہو جاتا ہے ، اور یوں اُس کی زندگی میں گناہوں کی کثرت ہوتی جاتی ہے ، 
گناہ ایسی چیز ہے کہ اس کی جتنی کثرت ہوتی جاتی ہے یہ اپنے کرنے والے انسان کو اسی قدر نیکی اور حق سے دور لیے جاتی ہے ، اُس انسان کے دِل و دِماغ پر ایک سیاہ اندھیرے غلاف کی طرح چھا جاتی ہے جس کے پار سے نیکی کی روشنی نہیں آ پاتی ،
اس انسان کے دِل و دِماغ پر ایسی تاریک دُھند بن کر لپٹ جاتی ہے جس کے پار سے وہ حق کی طرف دیکھ بھی نہیں پاتا ،
اُس کا دِل سیاہ ہو جاتا ہے ، حق اور ہدایت کی طرف سے پِھر جاتا ہے ، حق بات سے اُسے عناد سا ہو جاتا ہے ، کہ اگر کہیں سے اس کی نظر میں آجائے یا کان میں پڑ جائے تو اسے اپنی سانسیں رکتی سی محسوس ہوتی ہیں ، اور حق بات کرنے والے اس کے لیے حقیر ہوتے ہیں ، جن کا مذاق اُڑانا اور جن کی تذلیل کرنا وہ اپنافرض سمجھنے لگتا ہے ، 
پس جب کسی کا دِل و دِماغ اس کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے تو اُس کی طبعیت حق بیزار ہو جاتی ہے اور طبعیی طورپر وہ حق شناسی اور حق کے مطابق اچھے نیک عمل کرنے سے دُور ہی دُور ہوتا چلا جاتا ہے ،وہ حق شناسی جو حقیقی سکون کا ذریعہ ہے اُس تک رسائی کی سوچ بھی اِس انسان کے دِل و دِماغ پر چڑھے ہوئے سیاہ غِلاف اور ان پر چھائی ہوئی تاریک دھند میں سے گذر نہیں پاتی ، اور وہ انسان حق سے مکمل طور پر منحرف ہو جاتا ہے ، یہ انحراف ہی اس کے نفس میں نامعلوم قسم کے اضطراب کا سبب ہوتا ہے جس میں تلاطم مختلف قسم کے "نفسیاتی امراض  اور" نفسیاتی دباوؤں" کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ، 
میں نے یہ سب باتیں کسی خام خیالی ، یا ذاتی سوچ وفِکر کی بنا پر نہیں کی ہیں، اور نہ ہی یہ کوئی فلسفیانہ مُوشگافیاں ہیں ، بلکہ یہ باتیں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے فرامین کی روشنی میں کہی گئی ہیں ، 
اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان فرامین پر غور کیجیے ، تدبر فرمایے تو اِن شاء اللہ اِن سب باتوں کے ثبوت سجھائی دے جائیں گے ، کہ انسانوں کے اپنے اعمال ہی ان کے دِلوں کو راہ حق سے دُور کرنے کا سبب ہیں ، اور یہی سبب اُنہیں بے سکونی اور نفسیاتی امراض کا شِکار بناتا ہے ،
( كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ .. ہر گِز نہیں ، بلکہ ، ان کے اپنے ہی کاموں کے نتیجے میں ان کے دِلوں پر سیاہی چڑھ چکی ہے۔(سُورہ المطففین:14)
اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کے اِس فرمان مُبارک کی تفسیر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ اپنے بندوں کے دِلوں پر واقع ہونے والی اس تبدیلی کی خبر اِن الفاظ میں کروائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ(داغ) لگ جاتا ہے ، اگر وہ توبہ کرے ، باز آ جائے اور مغفرت طلب کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے ،اور اگر وہ (گناہ میں) بڑھتا چلا جائے تو پھر وہ دھبہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔(ابن ماجہ،حکم البانی حسن)
 فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ۔(سُورہ الصف: 5)
:اور جب وہ لوگ (راہ حق سے ، انکارء حق کی طرف ) پِھر گئے تو اللہ نے ان کے دِلوں کو(ہی)پھیر دیا، اور اللہ(پھر اس حال تک جا پہنچنے والے) گناہ گاروں کو ہدایت نہیں دیتا۔"
دِل پھر جانے کے بعد ، حق سے اِنکار ، جو مسلمانوں میں تو عموماً فعلی ہوتا ہے کہ زُبان سے تو انکار نہیں کرتے لیکن کام اس کے خِلاف کرتے ہیں ، اور یہی فعلی انکار ہے ، تو اُن کے اِنکار کی ہی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُن کے نفوس پر مہریں ثبت کر دیتا ہے، 
بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ۔۔(سُورہ النساء: 155)
 "بلکہ اللہ تعالیٰ اُن کے دِلوں پر اُن کے اِنکار کی وجہ سے مہر لگا دیتا ہے۔"
جب دِلوں پر حق سے اِنکار کی وجہ سے ، گناہوں کی وجہ سے مہریں لگ جاتی ہیں ، تو اِنکار کرنے والوں پر ایسی کیفیات طاری ہو جاتی ہیں جن کی بنا پر وہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتے ہیں ، اور وہ لوگ نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں کہ اُن ظاہر و باطن میں کہیں سُکون نہیں رہتا ، ہمیشہ بے سکونی اور اضطراب کی حالت میں رہتے ہیں 
وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ۔(سُورہ الانعام؛ 110)
"اور ہم اُن کے دِلوں اور اُن کی نظروں کو پلٹادیں گے(کہ اُنہیں کہیں سُکون و قرار نہیں ہوپائے گا )جس طرح یہ پہلی ہی دفعہ میں (ہماری آیات اور احکام پر )اِیمان نہیں لائے ، ہم بھی انہیں ان کی سرکشی میں حیراں و سرگرداں چھوڑ دیں گے ۔"
پھر اس حیرانگی اور بے سکونی میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہوتا جاتا ہے ، اور اگر اللہ تعالیٰ کی آیات اور احکام کا انکار کرنے والا گناہ گار سچے اِیمان اور نیک اعمال کے سچے اِرادے کے ساتھ اللہ کی طرف واپس نہیں پلٹتا تو اس کا خاتمہ اِیمان پر ہونے کی اُمید نہیں ہوتی ،
وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ۔ (سُورہ التوبہ: 125) 
"اور وہ لوگ جن کے دِلوں میں (اللہ کی آیات اور احکامات سے انکارکی)بیماری ہے تو وہ بیماری انہیں اُن کی گندگی میں بڑھاوے پر بڑھاوا دیتی ہے اور وہ اس(عملی کُفر کے)حال میں ہی مرتے ہیں."
پس یہ بات ہمارے ، اور تمام تر مخلوق کے اکیلے ، لا شریک خالق اور مالک کی طرف سے بیان کردہ ہے کہ اُس کی نافرمانی ، اور دیگر گناہوں کا دُنیا میں نتیجہ گناہ گار کی بے سُکونی اور نفسیاتی امراض کی صورت میں بھی نکلتا ہے ، 
اور اس کا واحد علاج اللہ کی آیات اور احکام پر مکمل اِیمان لانے کے ساتھ ہی ساتھ ان احکامات پر عمل پیرا ہونا ہے۔ہماری اس مختصر کتاب کا مطالعہ یقینا آپ کو گناہوں کی دلدل دے نکالنے میں معاون ہو گی۔ ان شاء اللہ

ایک پرسکون اور پریشانیوں سے مبرا شخصیت کو صرف یہ دنیاوی فائدے ہی نہیں ملتے بلکہ اس سے اس کی اخروی زندگی بھی پروان چڑھتی ہے۔ ایک نفسیاتی طور پر مضبوط شخص اپنے رب کے احکامات سے روگردانی نہیں کرتا، وہ مضبوط قوت ارادی سے عبادات اور معاملات میں پابندی برقرار رکھتا، نفس کی ناجائز خواہشات کا قلع قمع کرتا اور شیطان کی چالاکیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...