Wednesday 25 October 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#120

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اسلام کے بنیادی پانچ ارکان اور تزکیہ نفس

فطری دین اسلام نے ایسی جامع عبادات پیش کیں کہ انسان ہر جذبے میں اللہ تعالی کی عبادت کر سکے اور اپنے مقصد ِحیات کے حصول کی خاطر حیاتِ مستعار کا ہر لمحہ اپنے خالق و مالک کی رضا جوئی میں صرف کر سکے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے  نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"بنی الاسلام علی خمس:شھادۃ ان لا الہ الا اللہ وان محمدا سول اللہ،واقام الصلاۃ،ایتاء الزکاۃ،والحج،وصوم رمضان"
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے:
گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہ (معبود)نہیں،اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں،نماز قائم کرنا،زکوۃ ادا کرنا،بیت اللہ کا حج کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔(صحیح بخاری)

اسلام کے بنیادی عقائد کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا سب سے پہلا فریضہ ہے ۔ پھر یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے کہ وہ کون سے امور ہیں جن سے دین کی بنیاد پر زد پڑتی ہے اور آدمی کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب تک وہ ان باتوں کا علم حاصل نہیں کرے گا ، اس بات کا امکان موجود رہے گا کہ وہ ان امور میں واقع ہو جائے جو اسلام کے مخالف ہیں ۔
ہم نے گزشتہ اسطور میں تزکیہ نفس کے جو بھی پہلو بیان کئے اگر ان پانچ بنیادی ارکان پر عمل نہیں ہے تو پھر باقی تمام پہلو کسی کام کے نہیں تزکیہ نفس تو دور کی بات انسان کا مسلمان ہونا بھی مشکوک ہے۔
یہ پانچ ارکان وسیع طلب موضوعات میں سے ہیں۔ہم اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ان ارکان پر نہایت مختصر روشنی ڈالتے ہیں ۔

ان ارکان کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:

1:توحید باری تعالیٰ کا اقرار

توحیدکی لغوی تعریف:

وَحَّدَ یُوَحِّدُ تَوْحِیْدً ایک بنانا، یکتا کہنا، ایک جاننا ہے۔
عقیدہ کی اصطلاحی تعریف:
شریعت کی زبان میں یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور جُملہ اوصاف و کمال میں یکتا و بے مثال ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔ صرف وہی با اختیار ہے۔ اس کے کاموں میں نہ کوئی دخل دے سکتا ہے، نہ اسے کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نہ اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہے۔
اِس مسئلے کو ثابت کرنے کے لئے اگرچہ قرآن حکیم کی متعدد آیاتِ بینات میں دلائل و براہینِ قاطعہ موجود ہیں لیکن سورۃ الاخلاص میں اللہ رب العزت نے اپنی توحید کا جو جامع تصور عطا فرمایا ہے وہ کسی اور مقام پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورہِ مبارکہ کو سورئہ توحید بھی کہتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌo اَﷲُالصَّمَدُo لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْo وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ۔(الاخلاص: 1.4)
’’(اے نبیِّ مکرّم!) آپ فرما دیجئے : وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے‘‘)
مزید اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ   ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ
"تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔"(بقرہ:163)

اسلام میں توحید کی بحث اہم ترین اعتقادی اسلامی عقائد اور ایمانیات میں سب سے اولین  اور اہم عقیدہ  “عقیدہ توحید ” ہی ہے۔
"علم توحید" تمام علوم میں انتہائی عالی مرتبت ،انتہائی جلیل القدر اور حد درجہ مرغوب و مطلوب علم ہے۔ابحاث میں سے ہے اور قرآن حکیم نے بھی اس کی طرف باقی سارے اصول اور فروع کی نسبت زیادہ توجہ دلائی ہے۔
کیونکہ اسی سے اللہ تعالیٰ ،اس کے اسماء و صفات اور بندوں پر اس کے حقوق کی پہچان ہوتی ہے اور "علم توحید" ہی ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچنے والے راستے کی چابی اور اس کی تمام شریعتوں کی بنیاد ہے۔یہی وجہ کہ تمام رسولوں نے بنیادی طور پر اسی حقیقت کی دعوت دی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِىٓ إِلَيْهِ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱعْبُدُونِ ﴿25﴾
ترجمہ:"اور ہم نے آپ سے پہلے ایسا کوئی رسول نہیں بھیجا ،جس کے پاس ہم نے وحی نہ بھیجی ہو کہ میرے سوا کوئی الہ (معبود)نہیں،پس میرے ہی عبادت کیا کرو۔"(سورۃ الانبیاء،آیت 25)

اللہ تعالیٰ کی توحید کے اقرار کے بعد محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا بھی از حد ضروری ہےجس کا اقرار کیے بغیر کوئی عمل درجہ قبولیت حاصل نہیں کر سکتا۔رسول اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر اور رسول ہیں۔آپ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔لہذا اس بات کی گواہی دینا کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور آخری رسول ہیں۔اسلام کے پہلے بنیادی رکن کا دوسرا جز ہے۔

چنانچہ اس آیت میں اس کی پوری وضاحت اور ہرطرح کی صراحت موجود ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍۢ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّنَ ۗ ۔۔۔(سورۃ الاحزاب ،آیت40)
"تمہارے مردوں میں سے محمد ﷺ کسی کے باپ نہیں ہیں،مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کے متعلق اس آیت میں جو اعلان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد کوئی رسول آنے والا نہیں ہے اس قرآنی اعلان کا مقصد محض فہرست انبیاء و رسل کے پورے ہو جانے کی اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ اس قرآنی اعلان اور پیغام کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ نبوت دنیا میں رہ جانے والی نہیں ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بدل کارِ نبوت کی شکل میں ہمیشہ تاقیامت باقی ہے۔

اللہ نے اس آیت میں خاتم الرسل یا خاتم المرسلین لفظ کے بجائے خاتم النّبیین کا لفظ اختیار فرمایا ہے اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ نبی میں عمومیت ہوتی ہے اور رسول میں خصوصیت ہوتی ہے نبی وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اصلاح خلق کیلئے منتخب فرماتا اور اپنی وحی سے مشرف فرماتا ہے اور اس کے لئے کوئی مستقل کتاب اور مستقل شریعت نہیں ہوتی ہے۔ پچھلی کتاب و شریعت کے تابع لوگوں کو ہدایت کرنے پر مامور ہوتا ہے جیسے حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب و شریعت کے تابع اور ہدایت کرنے پر مامور تھے۔ رسول وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ مستقل کتاب و مستقل شریعت سے نوازتا ہے جو رسول ہوتا ہے وہ اپنے آپ نبی ہوتا ہے لیکن جو نبی ہوتا ہے وہ رسول نہیں ہوتا لفظ خاتم النّبیین کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے اور سب سے آخر ہیں اب قیامت تک نہ تو نئی شریعت و کتاب کے ساتھ کسی کو منصب رسالت پر فائز کیاجائے گا اور نہ پچھلی شریعت کے متبع کسی شخص کو نبی بنا کر بھیجا جائے گا۔
قرآن کی طرح آپ کی رسالت ونبوت بھی آفاقی وعالمگیر ہے جس طرح تعلیمات قرآنی پر عمل پیرا ہونا فرض ہے اسی طرح تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت تمام جن وانس کیلئے عام ہے دنیا کی ساری قومیں اور نسلیں آپ کی مدعو ہیں تمام انبیاء کرام میں رسالت کی بین الاقوامی خصوصیت اور نبوت کی ہمیشگی کا امتیاز صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گروہ انبیاء کرام کے آخری فرد ہیں اور سلسلہٴ نبوت و رسالت کی آخری کڑی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں پر اپنے دین (دین اسلام)جس کو محمد ﷺ نے پیش کیا،کو اختیار کرنا فرض قرار دیا ہے،
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُ ۖ فَـَٔامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِ ٱلنَّبِىِّ ٱلْأُمِّىِّ ٱلَّذِى يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَكَلِمَٰتِهِۦ وَٱتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿158﴾
"آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو!میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جو تمام آسمانوں اور زمین کا مالک اور بادشاہ ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں،وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے،پس اللہ اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امی (ان پڑھ) پر ایمان لاؤ،جو اللہ اور اس کے کلام پر ایمان رکھتے ہیں اور اُن (نبی)کی اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پا سکو۔"(سورۃ الاعراف،آیت 158)

اس مضمون کی اور بھی قرآنی آیتیں بکثرت ہیں اور حدیثیں تو اس بارے میں بےشمار ہیں۔ دین اسلام کی ذرا سی بھی سمجھ جسے ہے، وہ بالیقین جانتا اور مانتا ہے کہ آپ تمام جہان کے لوگوں کی طرف آخری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ 

توحید کی اقسام:
1۔توحید ربوبیت 2۔توحید الوہیت 3۔توحید اسماء و صفات۔

 ۱۔توحید ربوبیت:

اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ تعالیٰ تمام افعال میں یکتا و تنہا  ہے۔وہ رب اکیلا پوری کائنات کا خالق و مالک ہے۔ وہی تمام مخلوقات کا رازق ہے اور وہی پوری دنیا کے نظام کو چلا رہا ہے۔ وہی عزّت وذلت سے دوچار کرنے والااور تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔
اس توحید کو کفّار بھی مانتے تھے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ۔
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ [الزخرف:87]
اگرآپ ان سے سوال کریں کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے؟تو وہ ضرور جواب دیں گے !’’کہ اللہ نے پیدا کیا ہے‘‘

۲۔توحید الوہیت

اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت میں یکتا مانا جائے تمام قسم کی عبادات، قولی، فعلی، بدنی اور مالی و قلبی(جیسے۔دعا کرنا‘مدد مانگنا‘طواف کرنا ‘رکوع وسجدہ کرنا‘ جانور ذبح کرنا‘نذرماننا‘ ڈرنا‘ امید رکھنا‘نمازپڑھنا‘روزہ رکھنا‘زکوٰۃ دینا‘حج کرنا‘توکل کرنا اور جھکناوغیرہ وغیرہ۔) اسی وحدہ لاشریک کے لئے بجا لائی جائیں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرا جائے جس طرح کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ   (الانعام162)
"آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لئے جو سارے جہانوں کا مالک ہے۔"
جو شخص ان مشروع عبادات کو اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف پھیر دے ‘وہ آدمی مشرک اور کافر ہے‘اور نجات سے محروم ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ۔
(يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ۔(المومنون:117)
’’جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں‘پس اس کا حساب تو اللہ کے اوپر ہے۔بیشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں۔‘‘

کفّار نے اسی توحید الوہیّت کا انکار کیا تھا۔جس کی وجہ سے حضرت نوحؑ کے زمانے سے لیکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کفّار اور انبیاء کرام کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں۔اسی توحیدکا ہم ہر نماز میں اقرار کرتے ہیں۔ "ایّاک نعبد وایّاک نستعین"۔

۳۔ توحید اسماء و صفات:

اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اس کے اسماء و صفات میں بھی یکتا مانیں۔
اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں اور تمام صفات پر حقیقی معنیٰ میں بغیر تمثیل ‘بغیر تشبیہ ‘بغیر تکییف ‘بغیر تعطیل اور بغیر تحریف کئے ایمان لانا ‘ جو نام اللہ نے خود ہمیں بتائے ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں۔جیسے استواء ‘ نزول ‘ ید وغیرہ۔
ہم ان سب کو مخلوقات سے تشبیہ دیئے بغیر تسلیم کریں اور انہیں اسی طرح مانیں جیسا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہیں۔
جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَلِلّٰہِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْہُ بِہَا  ۠ وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَاۗىِٕہٖ  ۭ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔
(الاعراف180)
"اور اچھے اچھے نام اللہ کے لئے ہی ہیں، لہٰذا تم ان ناموں  سے ہی اللہ تعالیٰ کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے اسمائے گرامی میں کج روی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔" 

۱۔ توحید تمام انبیائے کرام کی دعوت تھی

اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء و رسل علیہم السلام لوگوں کی رشد و ہدایت کے لئے مبعوث فرمائے ہیں، سب کی ایک ہی دعوت تھی کہ اللہ تعالیٰ کو ایک مانو اور ایک اللہ کی عبادت کرو،
جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ۔(الانبیاء:25)
"اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا، اس پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ اس لئے تم سب میری ہی عبادت کرو۔"

اس حقیقت کو اس طرح بھی بیان کیا گیا ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ (النحل۳۶)
:اور ہم نے ہر امت کی طرف ایک رسول اس پیغام کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ لوگو !  اللہ ہی کی عبادت کرو اور طاغوت(غیر اللہ) کی عبادت سے بچتے رہو۔"

۲: توحید کی گواہی خود اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور اہل علم نے دی

شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔۔(اٰلِ عمران:18)
"اور اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں، اور فرشتے اور اہل علم بھی گواہی دیتے ہیں،  وہ عدل پر قائم ہے اس کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں وہ غالب اور حکمت والا ہے۔"

۳:توحید دینِ اسلام کی اساس ہے

کوئی انسان جب اسلام میں داخل ہوتا ہے، تو وہ شہادتین کا اقرار کرتا ہے، یعنی یہ کہتا ہے کہ:

اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ

کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے رسول ہیں۔

یعنی اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں اللہ کے سوا کسی کی بھی عبادت نہیں کروں گا۔ اور اس میں کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہراوں گا۔ اور عبادت کے طریقے رسول اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں پر کروں گا، جس کو خود اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے پیغامبر بنا کر بھیجا ہے۔
اس کلمہ کی احادیث نبوی میں بہت فضیلت ہے
احادیث مبارکہ میں اس کلمہ کی بہت فضیلت آئی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا قیامت کے روز میری سفارش سے فیض یاب ہونے والے لوگ وہ ہیں جنہوں نے سچے دل سے یا (آپ ﷺ نے فرمایا) جی جان سے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا ہے۔(رواہ البخاری)

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  جو شخص اس حال میں مرے کہ اسے لا الہ الا اللہ کا علم (یقین) ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔(رواہ مسلم)

2:نماز قائم کرنا

لفظ صلوٰۃ کا لغوی معنی دعا و استغفار اور رحمت ہے۔(ابن منظور، لسان العرب، 14 : 465، 466)

اور جب ''صلاة'' کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو ، تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی '' مدح و ثنائی'' بیان فرماتا ہے، اور جب اس کی نسبت فرشتوں کی طرف ہو ، تو مطلب یہ ہے کہ فرشتے '' دُعا'' کرتے ہیں ۔
فرمان باری تعالی ہے:
 "إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا" ﴿٥٦﴾ (سورۃ الاحزاب)
''بلاشبہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی (ﷺ) پر درود وصلاة بھیجتے ہیں، اے ایمان والو!تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجو''

اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کے ''صلاة'' بھیجنے کا معنی ''رحمت'' اور ملائکہ کے صلاة بھیجنے کا مطلب استغفار (طلب مغفرت) ہے۔(تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورة الأحزاب، آیت : ٥٦۔ اور '' الشرح الممتع'' تالیف شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اﷲ : 2283۔229۔)

اور اس کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے، کہ اللہ تعالی (مصائب پر صبر کرنے والے بندوں کے بارے میں) فرماتے ہیں۔

"أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ"﴿١٥٧﴾ (سورۃ البقرۃ)
"ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔"
'' ان لوگوں پر اللہ تعالی کی طرف ''صلاة'' یعنی ثناء و تعریف اور '' رحمت'' ہے (تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورة البقرة، آیت: 157)

غرض اللہ تعالی کی طرف سے '' صلاة'' بھیجنے کا مطلب مدح و ثناء بیان کرنا ہے، جب کہ مخلوقات : یعنی ملائکہ اور جن و انس کے درود پڑھنے کا مطلب قیام، رکوع، سجود ، دُعا اور تسبیح بیان کرنا ہے اور اگر اس کی نسبت پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کی طرف ہو، تو اس اس سے بھی مراد تسبیح بیان کرنا ہی ہے( لسان العرب ابن منظور، باب الیائی، فصل الصاد، 46514۔)

شرعی اصطلاح میں لفظ '' صلاة'' ایک مخصوص طریقے پر اللہ تعالی کے لیے انجام دی جانے والی اس عبادت کا نام ہے ، جو مخصوص ومعلوم افعال اور اقوال پر مشتمل ہوتی ہے، اور اس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے ہوتا ہے، اور اختتام سلام پھیرنے سے  اور اس عبادت کا نام ''صلاة'' اسی لیے رکھا گیا ہے، کیونکہ یہ دُعا پر مشتمل ہوتی ہے۔
(المغنی ابن قدامة، ٥٣۔ الشرح الکبیر، 53۔ الانصاف فی معرفة الراجح من الخلاف، 53۔ التعریفات الجرجانی، ص: 174۔)

الغرض  عربی لغت میں لفظ "صلاۃ" ہر قسم کی دُعا کو کہا جاتا تھا، اور پھر یہی لفظ ایک مخصوص نوعیت کی دُعا یعنی نماز کا نام قرار پایا۔ یا یہ کہیں کہ لفظ '' صلاة'' ہر قسم کی دُعا کو کہا جاتا تھا ،اورپھر یہ لفظ مخصوص شرعی عبادت (یعنی نماز) کے معنی میں منتقل ہوا اور وہ اس لیے ، کیونکہ لفظ ''صلاة'' اور دُعا میں باہمی مناسبت پائی جاتی ہے، اور دونوں الفاظ (معنوی لحاظ سے ) ایک دوسرے سے متقارب( ملتے جلتے) ہیں، اس لیے شریعت میں جب بھی لفظ ''صلاة'' مطلقا استعمال کیا جائے، تو ا س سے ( عام دُعا نہیں بلکہ) مخصوص نوعیت کی شرعی عبادت یعنی نماز ہی مراد لی جائے گی۔(شرح العمدة شیخ السلام ابن تیمیة ، 302۔31)

قرآن کریم میں نماز کی فرضیت کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد عالی ہے :

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ﴿٥﴾ (سورة البینة)
'' اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا ، کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں ، اسی کے لیے بندگی خالص کرتے ہوئے ، (اور ) یکسو ہو کر، اور نماز کو قائم کریں ،اور زکاة دیں ، اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا''۔

سنت مطہرہ میں نماز کی فرضیت کی دلیل حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وہ (معروف) حدیث ہے

کہ جب انہیں نبی ۖنے یمن کی طرف (داعی اور مبلغ دین اور حاکم بنا کر بھیجتے وقت فرمایاتھا

ترجمہ: ''عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ کو یمن بھیجا اور فرمایا : ” تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو ، ان کو اس بات کی طرف بلانا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، اگر وہ یہ مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ، اگر وہ یہ بھی مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر غریبوں کو دی جائے گی ، پھر اگر وہ یہ بھی مان لیں تو تم ان کے عمدہ مالوں کو نہ لینا اور مظلوم کی بد دعا سے بچتے رہنا کہ اس کی دعا اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں “۔(سنن ابوداود: 1584، شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔)

اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:
ترجمہ" میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : ” پانچ نمازیں ہیں جو اللہ نے بندوں پر فرض کی ہیں ، پس جس شخص نے ان کو اس طرح ادا کیا ہو گا کہ ان کو ہلکا سمجھ کر ان میں کچھ بھی کمی نہ کی ہو گی تو اس کے لیے اللہ کے پاس جنت میں داخل کرنے کا عہد ہو گا ، اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے گا تو اس کے لیے اللہ کے پاس کوئی عہد نہیں ، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے “۔ سنن ابوداود:1420،اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ  نے صحیح کہا ہے۔)

ہر عبادت کا ایک ستون اور پایہ ہوتا ہے جس پر پوری عمارت کا دارو مدار ہوتا ہے، اگر کبھی اس ستون پر کوئی آفت آ جائے تو پوری عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سے نماز ایک دیندار انسان کے دین و عقائد کےلئے ایک ستون کے مانند ہے۔ 
اَلصَّلوٰۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ"(نماز دین کا ستون ہے)

چونکہ نماز دین کی بنیاد اور اس کا ستون ہے۔عمل کی منزل میں بھی ایسا ہی ہے کہ جو شخص نماز کو اہمیت دیتا ہے وہ دوسرے اسلامی دستورات کو بھی اہمیت دے گا اور جو نماز سے بے توجہی اور لاپرواہی کرے گا وہ دوسرے اسلامی قوانین سے بھی لا پرواہی برتے گا۔ گویا نماز اور اسلام کے دوسرے احکام کے درمیان لازمہ اور ایک طرح کا رابطہ پایا جاتا ہے۔
انسان ہمیشہ ایک ایسی قوی اور طاقتور چیز کی تلاش میں رہتا ہے جو اس کو قبیح اور برے کاموں سے روک سکے تا کہ ایسی زندگی گزار سکے،جو گناہوں کی زنجیر سے آزاد ہو۔ قرآن کی نگاہ میں وہ قوی اور طاقتور چیز نماز ہے۔

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ
بے شک نماز گناہوں اور برائیوں سے روکتی ہے۔( قرآن: سورۃ العنکبوت:45)
اس آیت کی روشنی میں نماز وہ طاقتور اور قوی شئی ہے جو انسان کے تعادل و توازن کو حفظ کرتی ہے اور اس کو برائیوں اور گناہوں سے روکتی ہے۔یعنی نماز تزکیہ نفس کے لئے نہایت اہم ہے۔
انسان جائز الخطا ہے اور کبھی کبھی چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے اور ہر گناہ انسان کے دل پر ایک تاریک اثر چھوڑ جاتا ہے جو نیک کام کے انجام دینے کی رغبت اور شوق کو کم اور گناہ کرنے کی طرف رغبت اور میل کو زیادہ کر دیتا ہے۔ ایسی حالت میں عبادت ہی ہے جو گناہوں کے ذریعہ پیدا ہونے والی تیرگی اور تاریکی کو زائل کر کے دل کو جلاء اور روشنی دیتی ہے۔ انہیں عبادتوں میں سے ایک نماز ہے۔ خدا وندعالم نے فرماتا ہے :
إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ “
نماز قائم کرو کہ بے شک نیکیاں گناہوں کو نیست و نابود کر دیتی ہیں بے شک نماز گذشتہ گناہوں سے ایک عملی توبہ ہے اور پروردگار اس آیت میں گنہگاروں کو یہ امید دلا رہا ہے کہ نیک اعمال اور نماز کے ذریعہ تمہارے گناہ محو و نابود ہو سکتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اگر تمہارے گھر کے سامنے کوئی نہر بہتی ہو تو تم میں سے کوئی ہر روز پانچ بار اس میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی بچے گا‘‘؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: نہیں! اس کے بدن پر کوئی میل نہیں ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ حکم البانی: صحيح)۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو نمازوں کی حفاظت کرے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ کے بعد دوسرا جمعہ پڑھناگناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہ نہ کئے جائیں‘‘ (صحیح مسلم)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو اس قدر اہم بتایا ہی کہ نماز ہی مسلمانوں اور کافروں میں فرق ظاہر کرتی ہے۔ نماز تمام عبادتوں میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ قبر اور قیامت میں پہلا سوال نماز کا ہوگا اور اور یہ پہلا سوال صحیح ہوگیا تو باقی سوالات بھی آسان ہوجائیں گے۔ نماز سے انسان نظم و ضبط کا پابند ہوجاتا ہے اور نماز ہی آخرت کی کامیابی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہی کہ:
نماز ٹھیک نکلی تو آخرت میں کامیاب و بامراد ہوگا ورنہ نادم ہوگا اور خسارے میں رہے گا۔
لہذا جس نے نماز کو قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا۔ جس نے اسے چھوڑا اس نے دین کو گرایا۔

غرض قرآن و حدیث میں نماز کی اہمیت و فضیلت اور برکات و فوائد اس قدر ہیں کہ اگر ان کو ذکر کیا جائے تو کئی جلدوں پر کتاب بن جائے۔
البتہ تزکیہ نفس کے لئے نماز سے بڑھ کر کوئی اور عمل نہیں ہو سکتا ہے ۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...