Monday 16 October 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#116

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

جھوٹ اور اس کا انجام:

دین اسلام میں جھوٹ بہت بڑا عیب اور بد ترین گناہ کبیرہ ہے ۔جھوٹ کا مطلب ہے ”وہ بات جو واقعہ کے خلاف ہو“ یعنی اصل میں وہ بات اس طرح نہیں ہوتی ۔جس طرح بولنے والا اسے بیان کرتا ہے ۔اس طرح وہ دوسروں کو فریب دیتا ہے ۔جو اللہ اور بندوں کے نزدیک بہت برا فعل ہے ۔جھوٹ خواہ زبان سے بولا جائے یا عمل سے ظاہر کیا جائے ۔مذاق کے طور پر ہو یا بچوں کو ڈرانے یا بہلانے کے لئے ہر طرح سے گناہ اور حرام ہے ۔

جھوٹ‘‘ بظاہر ایک حرفی چھوٹا سا لفظ ہے لیکن معنوی اعتبار سے ’’جھوٹ‘‘ کے اس لفظ کو ’’دنیا کے کسی بھی معاشرے میں پذیرائی حاصل نہیں۔‘‘
جھوٹ ام الخبائث (برائیوں کی جڑ) ہے ۔کیونکہ اس سے معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں
جھوٹ گناہوں کا دروازہ ہے کیونکہ ایک جھوٹ بول کر اسے چھپانے کےلئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ۔
آج معاشرے میں جھوٹ اتنا عام ہو گیا ہے کہ اب سچ بولنا اور سچ پر یقین کرنا قریباً ناپید ہے۔
آج اگر کوئی شخص کسی کی بات کو سچ سمجھ کر یقین کرلے تو اس کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے، اور فرض کر لیا گیا ہے کہ سب کچھ جھوٹ ہے، جب تک کہ کوئی سچ ثابت نہ کر دے۔
  آج ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر جھوٹ کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ جھوٹ بولا، سنا اور برتا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ سیاست سے لے کر تجارت، عدالت اور صحافت سارے کے سارے اداروں کا کاروبار بحیثیت مجموعی اسی سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اب ہمارے معاشرے میں سماجی طور پر، اور ہمارے گھروں میں خاندانی طور پر، اور ہماری ذات میں انفرادی سطح پر بھی یہ اتنا عام ہو گیا ہے کہ کسی صاحبِ ایمان اور صاحبِ عمل کے لیے بھی اپنا دامن بچانا مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ جب ایک بیماری وبا کی طرح عام ہو جائے تو کسی نہ کسی درجے پر ہر انسان اُس کا شکار ہو کر رہتا ہے۔

جھوٹ کی اقسام:

افعال میں جھوٹ، اقوال میں جھوٹ اور نیتوں میں جھوٹ۔
افعال میں جھوٹ کے لیے مثال حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کی ہے کہ وہ خون آلود قمیص لے کر آ گئے، حالانکہ انہوں نے حضرت یوسفؑ کو کنویں میں پھینک دیا تھا۔
اقوال میں جھوٹ خلافِ حقیقت بات کرنے کو کہتے ہیں۔یعنی دوران گفتگو غلط بیانی کرنا۔

نیتوں میں جھوٹ کی مثال کے لیے وہ حدیث ذہن میں لائیں جس میں قیامت کے روز تین لوگوں یعنی شہید، سخی اور عالم کو اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کیا جائے گا۔ ان تینوں سے باری باری پوچھا جائے گا کہ میرے لیے کیا لائے ہو؟ وہ سب اپنے اپنے کام بتائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی بات کو رد کر دیں گے اور فرمائیں گے کہ تمہارا جنگ میں شرکت کرنا، مال خرچ کرنا اور دین کی باتیں کرنا سب ریا کاری اور دکھلاوے کے لیے تھا۔ وہ سب تم نے اپنے لیے کیا اور تمہارے پیش نظر میری رضا نہیں تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کی بنا پر ان تینوں کو جہنم میں پھینک دیں گے۔

جھوٹ کو مزید  ہم دو اور  اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔

روز مرہ زندگی میں جھوٹ:
 پہلی قسم میں روزمرہ بولے جانے والے وہ چھوٹے موٹے جھوٹ شامل ہیں جو ہم صرف اپنے دفاع، اپنے جائز و ناجائز حق کے تحفظ اور اپنی ساکھ کو درست رکھنے اور اپنی جان بچانے کے لیے بولتے ہیں۔ اس قسم کے جھوٹ کے اثرات محض ایک ذات تک محدود ہوتے ہیں اور کسی دوسرے کو اُس سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے ہم اس کو جھوٹ بھی تصور نہیں کرتے، مثلاً ہمیں کسی جگہ وقت پر پہنچنا ہے اور دیر ہو گئی۔ ہماری سُستی یا بدنظمی کی وجہ سے ہونے والی دیر کو ہم جھوٹ بول کر اپنی پوزیشن کو بچا لیتے ہیں کہ فلاں کام پڑ گیا تھا، اچانک اس وجہ سے دیر ہو گئی۔ اس موقع پر ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کو مناسب نہیں سمجھتے۔ اسی طرح کوئی کام ہمارے ذمے ہو اور ہم اُس کو درست طور پر نہ کر سکیں یا وقت پر نہ کر سکیں تو بجاے اس کے کہ اپنی کوتاہی کو سمجھیں اور اس کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ کریں عموماً اُلٹی سیدھی وجوہات تلاش کر کے پیش کر دیتے ہیں۔ کوئی کام سرے سے کیا ہی نہیں لیکن لکھ دیا یا بول دیا محض اس خاطر کہ ہماری عزت رہ جائے اور سب کے سامنے شرمندگی سے بچ جائیں گے۔

حقیقت میں اگر ہم جائزہ لینا شروع کریں تو ہم ایسے ایسے مواقع پر جھوٹ سے کام لیتے ہیں جہاں اس کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اپنے احباب، رشتہ داروں کے سامنے شیخی بھگارنا ایک عام بیماری بن گئی ہے۔ یونہی محفل میں رنگ بھرنے کے لیے چند واقعات سنا دینا جس سے وقتی طور پر سب واہ واہ کر اُٹھیں، محض لوگوں کے اندر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے زندگی کے ناکردہ واقعات سنا دینا جن کو اب ثابت نہیں کیا جا سکتا وغیرہ۔ اس معاملے میں خواتین کا تناسب تھوڑا زیادہ ہو جاتا ہے کہ نبی کریمؐ نے معراج کے موقع پر خواتین کو جہنم میں زیادہ دیکھا تو اس کی تصریح یہی فرمائی کہ خواتین زبان کے معاملے میں زیادہ احتیاط نہیں برتتی ہیں۔ غیبت، بدزبانی، جھوٹ اور زیادہ تر اخلاقی برائیوں کا تعلق چونکہ زبان سے ہے اور عموماً خواتین اس کے استعمال میں غیر محتاط اور جذباتی ہوتی ہیں اسی لیے وہ جہنم میں بھی زیادہ ہوں گی۔

خواتین چونکہ اپنے میکے، شوہر اور بچوں کے معاملے میں حساس ہوتی ہیں اس لیے گھریلو سطح پر جھوٹ کی یہ بیماری رگوں میں سرایت کر گئی ہے۔ میکے اور سسرال میں پیدا ہونے والی مختلف صورت حال میں جائز اور ناجائز طور پر محض اپنے دفاع کے لیے غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کوئی وجہ نہیں بھی ہوتی لیکن عادتاً ہی جھوٹ بول دیا جاتا ہے۔ بچے بڑے ہونے لگتے ہیں تو اُن کی بے جا تعریف میں اُٹھتے بیٹھتے رشتہ داروں اور سہیلیوں کے سامنے اس کا اظہار اس طریقے سے ہو گا کہ جو کام بیچارے نے نہ بھی کیے ہوں یا اگر کیے بھی ہوں تو بڑھا چڑھا کر اُس کو بیان کرنا۔ اس میں شک نہیں کہ اولاد کی محبت ایک فطری امر ہے اور ہمارا دل بھی کرتا ہے کہ بچے کے اچھے کام کی تعریف اور اُس کی حوصلہ افزائی کریں مگر ہماری چھوٹی سی یہ عادت خاندانوں کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ نکاح اور شادی جس کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اُس کی بنیاد ہی کئی طرح کے جھوٹ پر رکھی جاتی ہے۔ عمر، سلیقہ، اسناد اور تعلیم و تربیت کے متعلق اس قدر جھوٹ بولے جاتے ہیں یا مبالغے سے کام لیا جاتا ہے کہ اصل حقیقت جب بعد میں کھلتی ہے تو اعتماد کی ڈور ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ محض اس لیے کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا تو ظاہر ہے رشتے نہیں ہوں گے چاہے بعد میں اُس رشتے کا انجام ہی علیحدگی پر ہو۔ یہ ایک ایسا مروج جھوٹ ہے جو شروع تو ایک ذات سے ہوتا ہے مگر اس کے نقصانات وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتے چلے جاتے ہیں۔

گھریلو سطح پر بولے جانے والا یہ جھوٹ اب ایک نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے افراد اور خصوصاً خواتین کی اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی تربیت کی بھی ضرورت ہے، جس پر اہلِ علم حضرات کو توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ اہلِ مغرب کے مقابلے میں ہم اپنے خاندانی نظام پر فخر کر سکتے ہیں۔ لیکن اب بڑھتی ہوئی طلاقیں اور ناچاقیاں اس نظام کے درپے ہیں۔ اس لیے اس کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ دراصل یہ کثرت سے بولے جانے والے جھوٹ کی ہی بے برکتی ہے جو ہمارے خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔

معاشرتی سطح پر جھوٹ: 
اس قسم کے بولے جانے والے جھوٹ کے اثرات دنیا و آخرت میں محض ہماری ذات تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ہمارے گھر، اجتماعیت بلکہ ملک اور پوری قوم تک پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ اسی کو قرآن کہتا ہے:

وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۲)
"اور (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔"

جس جھوٹ سے کسی کی حق تلفی ہو رہی ہو یا کسی کو انصاف نہیں ملتا، اس کی بنیاد پر کوئی ٹھیک اجتماعی فیصلہ اور صحیح راے قائم نہیں کی جا سکتی۔ یہ اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ اس کے نقصانات اجتماعی ہی نہیں ہوتے بلکہ دُور رس بھی ہوتے ہیں، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دل خدا کے خوف سے خالی اور انسان خدا کی پکڑ سے بے نیاز ہے۔

اس کی بھی کئی شکلیں ہیں، مثلاً بعض اوقات ہم الفاظ سے جھوٹ نہیں بولتے لیکن صحیح بات کو معلوم ہونے کے باوجود چھپا لیتے ہیں، جس سے معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچا جا سکتا اور نتیجہ ایک غلط فیصلے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اجتماعی معاملات خواہ کسی بھی سطح کے ہوں اُس میں حق اور سچ کا ساتھ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ ملکی سطح اور معاشرتی سطح کے بڑے بڑے معاملات، یعنی ہماری سیاست، ہماری عدالتوں میں جھوٹی گواہی، جھوٹے مقدمے، تجارت میں جھوٹ اور دھوکا دہی، تعلیمی اداروں کی جعلی اسناد، صحافت میں میڈیا کی غلط اور مبہم رپورٹنگ جس سے سچ اور جھوٹ گڈمڈ ہوکر رہ جاتا ہے اور ایک عام آدمی کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ یہ سارے جھوٹ آج بولے جا رہے ہیں۔ یہ سب کو نظر آ رہے ہیں اور من حیث القوم ہم جس عذاب سے گزر رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے۔

دعوت دین کے میدان میں جھوٹ:

ایسے بھی لوگ ہیں جو جھوٹ بولنے کو دین کی دعوت ، اسے تقویت پہنچانے کا ذریعہ سمجھ کر اور سمجھا کر جھوٹ سے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں ۔ یہ بات کچھ لوگوں کو شاید عجیب محسوس ہوگی کہ کوئی دعوت دین کے میدان میں بھی جھوٹ کہتا ہو۔ یہ ایسا سچ ہے جو باکل ثابت ہےاور سورج سے بھی زيادہ واضح ہے ۔ اور اسی لیے میں اس پہلو پر کسی قدر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں ، کیوں کہ کچھ لوگوں کو یقین نہیں آ رہا ہے کہ کوئی داعی الی اللہ بھی جھوٹ کہتا ہو، اس طرح سے وہ اس جھوٹے  داعی کے جال میں پھنس جاتا ہے اور شریفانہ انداز میں یہ جھوٹا شخص وسوسہ ڈالنے میں وقتی طور کامیاب ہو جاتا ہے  ۔
غور طلب بات یہ ہے کہ انسان جھوٹ کیوں بولتا ہے ؟ اس کا جواب کئی طرح کا ہوسکتا ہے یہاں پر میں اس کے کچھ اسباب درج کرتا ہوں۔
1 ۔ فائدہ حاصل کرنا اور نقصان سے بچنا ۔ جھوٹے لوگ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ محفوظ ( راستہ ) اور فائدہ مند ( طریقہ ) ہے، تو وہ اپنے آپ کو  دھوکہ دیتے ہوئے اور طمع کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو اس کی رخصت ( اجازت ) دے دیتا ہے ۔
2۔ اپنی بات کو میٹھا ہونے اور ظریفانہ ہونے کا تاثر دینا ۔ تو وہ  ایسا سچ پاتا  ہی نہیں جو اس کی بات کو میٹھا بنا دے اور اسے ظرافت بخشے ۔ تو وہ ایسے جھوٹ کا زیور پہن لیتا ہے جس کے جذبات ( یا خواہشات )کا حصول دشوار نہیں ہوتا ہے ،اور نہ ہی اس کی پسندیدہ باتیں( بظاہر ) انوکھی ہوتی ہیں ۔
3۔ اپنے دشمن (یعنی اپنے مخالف ) کو تکلیف پہنچا کر اپنے دل کو راحت دینا ،  تو ( بے بنیاد ) برائیوں سے اسے داغ دار بناتا ہے جنہیں وہ خود گھڑ لیتا ہے ، اور اس کی طرف عیوب منسوب کرلیتا ہے ۔
4۔جب اس کے پاس جھوٹ کے اسباب بار بار پائے جاتے ہیں  تو وہ اس کے پاس مالوف ہو جاتے ہیں ، پھر اسے جھوٹ کی عادت ہوجاتی ہے ، اور نفس اس کی طرف مائل رہتا ہے ۔

5۔  لیڈری کی محبت ہونا ۔ وہ اس طرح کہ جھوٹا ( آدمی ) اپنے آپ کے لیے اس پر  بڑا مرتبہ سمجھتا ہے جسے وہ ( جھوٹی ) خبر دیتا ہے،  اس ( جھوٹ )کے عوض میں جس کی وہ اسے جانکاری دیتا ہے ۔ تو وہ اس میں عالم فاضل (بڑی معلومات رکھنے والا)کی شکل اختیار( کر نے کی کوشش )کرتا ہے ۔ (نضرة النعيم في مكارم أخلاق الرسول الكريم )

6 ۔ ایک اور سبب حزبیت کی لت پڑنا بھی ہے ، بعض لوگوں کو تنظیم پرستی کی خاطر اپنے پاس جب سچ کے ہتھیار  ختم ہو جاتے ہیں تو جھوٹ سے اس طرح  سہارا لیتے ہیں  کہ جسے وہ جھوٹ نہیں سمجھتے بلکہ اسے  کبھی" جماعت ( تنظیم ) کا وسیع تر مفاد " کبھی "جماعت کی خاطر حکمت عملی " کبھی کچھ اور گمراہ کن نام دیتے ہیں جن سے وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔جس کی واضح مثال ٹیلویژن پر ٹاک شو  میں دیکھی جا سکھتی ہے۔یہ ویسی ہی گمراہ کن پالیسی ہے جس طرح بعض لوگ اپنی تنظیم کو فائدہ پہنچانے کی خاطر کبھی شرک و بدعت کا سہارا بھی لیتے ہیں۔جیسے مختلف پارٹیوں کے لیڈران اپنا ووٹ بینلس بڑھانے کے لئے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ان تقاریب میں شرکت کرتے ہیں جہاں شرک و بدعت اور خرافات کا بازار گرم ہوتا ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم توحید کا اقرار کرنے کے باوجود ایسا کیوں کرتے ہو؟ تو اس کا جواب برملا یہ ہوتا ہے کہ یہ " حکمت " ہے، مثال دے کر یوں سمجھانے کی کوشش بھی کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص نجاست کے گھڑے میں گر گیا ہو تو دوسرا اسے نکالنا چاہتا ہے ، جس کے لیے اسے بھی اس نجاست کے گھڑے میں کودنا پڑتا ہے۔ جہاں اس کے کپڑے اور بدن پر نجاست لگ جاتی ہے ، لیکن ایسا کرنا اس کے لیے وقت کی ضرورت ہوتی ہے  ۔ اس طرح سے ان دونوں طرح کے انسانوں کو شیطان اپنے جال میں اس طرح پھنسا دیتا ہے کہ وہ اسے خدمت دین باور کراتے ہيں ۔  ان کی آنکھ اور دل پرحزبیت کا ایسا پردہ پڑ جاتا ہے  کہ اس وقت انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۃ حسنۃ بھی بھول جاتا ہے ، انہیں یہ غور کرنے کی توفیق نہیں ملتی ہے کہ کیا اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے جانثار صحابہ رضی اللہ عنہم بھی کرتے تھے ، کیا وہ بھی اسے اسلام ( جماعت ) کا وسیع تر مفاد کہتے تھے ، یا وہ ان امور کو گناہ کبیرہ ہی سمجھتے تھے ؟
دین میں جھوٹ بولنا بہت پہلے زمانے سے چلا آ رہا ہے ، لوگ نت نئی تاویلات کرکے جھوٹ بولتے رہے ہیں ، تدوین احادیث کے زمانے میں بھی بعض لوگ دعوت دین کی خاطر جھوٹ کا سہار لیتے تھے ، جنہیں محدثین نے چن چن کر بے نقاب کر دیا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے ہزاروں احادیث گھڑلیں ۔  ان من گھڑت احادیث کو بھی محدثین نے بے نقاب کر دیا ، اس جھوٹ اور اس جھوٹے سے لوگوں کو خبر دار کرتے رہے ۔ بہت سے محدثین نے حدیث میں جھوٹ کے اسباب بھی بیان کیے ، چونکہ یہاں پر اس پر تفصیلی روشنی ڈالنا موضوع بحث  نہیں ہے لہذا یہاں پر میں اس وقت صرف چند اسباب کو اس لیےبیان کرتا ہوں تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ کس طرح لوگ دعوت دین میں بھی جھوٹ بولتے ہیں، اور عوام کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کرتے ہیں : 
1 ۔علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے  حدیث میں جھوٹ ، ہیرا پھیری ،اور وضع کے اسباب میں کہا ہے:
" ان میں ایسے بھی ہیں جن پر زہد غالب ہوا تو حفظ سے غافل ہوئے ۔۔۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو اپنے مذہب کی مدد کی خاطر ( حدیث ) گھڑلیتا ہے ۔۔۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو(نیکیوں کی ) ترغیب اور ( برائیوں کی ) ترہیب کے لیے بھی (حدیث ) گھڑ لیتا ہے، ان کے (اس )فعل کا مطلب یہ ہوا کہ دین ناقص ہے جسے ایک تکملہ کی ضرورت ہے ۔۔۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو حاکم کی قربت ( نزدیکی ) حاصل کرنا چاہتا ہے ، ان میں قصہ گو بھی ہیں جو ایسی احادیث چاہتے ہیں جو رقت آمیز ہوں اور خرچ کرنے والی ہوں   ۔۔۔ " (الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة للشوکاني/ ص 426/ من غلب عليهم الزهد)

2 ۔  امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :  حدیث گھڑنے کے اسباب میں یہ بھی ہے کہ جو اس شخص سے صادر ہوتا ہے جسے  جم غفیر میں مناظرہ کے وقت دین نہیں رہتا ہے ، جو کچھ وہ کہتا ہے اس پر(جھوٹی حدیث سے ) استدلال کرتا ہے جو اس کی خواہش کے مطابق ہو ، اور ایسا وہ  اپنی بات کو قائم رکھنے کی خاطر کرتا ہے اور اپنے مد مقابل پر بلندی حاصل کرنے ، غلبہ پانے کی محبت ، لیڈری کے حصول ،اور بدنامی سے بچنے کی خاطر ایسا کرتا ہے ، جب اس پر اس کا مناظر غالب ہونے لگے۔  (الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة للشوکاني/ ص 427 / ما يقع لمن لا دين له)

3 ۔  امام غزالی رحمہ اللہ نے کہا :  بعض گمان کرنے والوں نے یہ گمان کیا کہ فضائل اعمال میں ، اور گناہوں میں تشدید کی خاطر جھوٹ بولنا جائز ہے،  اور انہوں نے گمان کیا کہ اس کا مقصد صحیح ہے ، حالاں کہ یہ فحش غلطی ہے ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔۔۔ (قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث لجمال الدین الدمشقي / ص 128/ وقد ظن ظانون )

4 ۔  علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: حدیث گھڑنے کے اسباب یہ ہیں :
أ‌) بے دینی ، جیسے زندیق لوگ ہوتے ہيں ۔
ب‌) جہالت کا غلبہ ، جیسے بعض عابد ( عبادت گزار ) ہوتے ہيں ۔
ت‌) تعصب کا غلو ، جیسے بعض مقلدین ہوتے ہیں ۔
ث‌) بعض امیروں کی خواہش پرستی ۔( یعنی : بعض لوگ اپنے امیروں کی خواہش پورا کرنے کی خاطر حدیث گھڑ لیتےہیں ، جس طرح عصر حاضر میں حزبی لوگ اپنے امیروں کو خوش کرنے کی خاطرشریفانہ لبادہ اوڑھ کر بہتان تراشی کرتے ہيں)۔
ج‌) مشہور ہونے کے لیے انوکھی چیز بیان کرنا ۔
(نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر / ص 111 / اتِّباع هوى بعضِ الرؤساءِ)

4 ۔  فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعدبن عبد اللہ  الحمید(امام البانی اور علامہ ابن عثیمن کے شاگرد) نے کہا :
ا ۔ حدیث گھڑنے کے اسباب میں سے یہ ہے: قبائلی عصبیت ، مذہبی عصبیت ، اعتقادی عصبیت ، یہ سب (امور)عصبیت کے دائرے میں شامل ہیں ۔ (شرح نخبة الفكر / ص 334/ والعصبية المذهبية)
ب۔ اور کہا : حدیث گھڑنے کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: اس ( من گھڑت ) حدیث سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کا قصد کرنا ۔بعض جاہل عابد ( عبادت گزار ) اور واعظین سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا اللہ کے دین کی غیرت میں سے ہے ، تاکہ لوگوں کو مختلف انواع کی اطاعات پر ابھارا جائے یا انہیں گناہوں سے ڈرایا جائے  ۔(شرح نخبة الفكر / ص 343/ الوضع بقصد التقرب)

5 ۔  فضیلۃ الشیخ عبد الکریم الخضیر(سعودی عرب کی دائمی فتوی کمیٹی کا ممبر ) نے کہا :
ا۔ اس نے وضع احادیث کے اسباب میں پہلا سبب یہ بتایا کہ: حدیث گھڑ کر اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا تاکہ لوگوں کو خیرکے کاموں میں رغبت دلائی جائے اور برائیوں سے ڈرایا جائے ، یہ لوگ زہد اور اصلاح کی طرف منسوب ہوتے ہيں ۔ یہ حدیث گھڑنے والوں میں سب سے بری قسم ہے کیوں کہ لوگ ان پر اعتماد کرکے ان کی من گھڑت حدیثوں کو قبول کرلیتے ہیں ۔ (تحقيقُ الرغبةِ في توضيح النخبة / ص 92 / ترغيباً للناس في الخيرات)
ب ۔ چوتھا سبب یہ بتایا :  روزگار کمانے کی خواہش ہونا ، جیسے بعض قصہ گوئی کی باتوں کے ذریعہ سے لوگوں سے کماتے ہیں ، تو وہ بعض تسلی دینے والے اور عجیب قصے بیان کرتے ہیں ، تاکہ لوگ انہیں سنیں اور انہیں ( کچھ مال ) دیں ۔ (تحقيقُ الرغبةِ في توضيح النخبة / ص 93 / الرغبة في التكسُّب)
جو لوگ دنیاوی فائدے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں،ان کے متعلق فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ۔(يونس:79-80)
"اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے نجات سے محروم ہیں۔ دنیا میں چاہے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں پھر ہم ان کے کفر کی وجہ سے انہیں سخت عذاب چکھائیں گے۔"

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے میرے اوپر عمداً جھوٹ بولا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔(صحیح البخاری:110العلم، صحیح مسلم:3 المقدمۃ.)
مزید فرمایا:
مَنْ حَدَّثَ عَنِّى بِحَدِیثٍ یُرَى أَنَّہُ کَذِبٌ فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِینَ۔.
جو شخص میری طرف منسوب کر کے کوئی ایسی حدیث بیان کرے جسے وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک ہے
(صحیح مسلم)
اب اگر کوئی شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب کرتا ہے تو سننے والا اس پر عمل کرنے اور اسے اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش یہ سمجھتے ہوئے کرے گا کہ یہ فرمان رسول اور شریعت ہے۔
جب کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ، اس طرح دین میں بدعات و خرافات کا دروازہ کھل جاتا ہے اور سنت و بدعت، حق و ناحق اور شریعت و ضلالت میں تمیز مشکل ہو جاتی ہے ، اس جرم عظیم کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسے شخص کی سزا بہت ہی سخت رکھی ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ تَرَى الَّذِینَ کَذَبُوا عَلَى اللَّہِ وُجُوہُہُمْ مُسْوَدَّۃٌ أَلَیْسَ فِی جَہَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَکَبِّرِینَ۔(الزمر:60)
" اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تو آپ دیکھیں گے کہ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ ہو گئے ہوں گے ، کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں "
اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھنے میں درج ذیل باتیں بھی شامل ہیں :

• بدعات و خرافات کا ایجاد کرنا اور اسے رواج دینا، کیونکہ عوام اسے دین اور حکم الٰہی و فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر ہی اس پر عمل کرتی ہے۔
• موضوع و من گھڑت اور سخت ضعیف حدیثیں لوگوں کے سامنے بیان کرنا اور ان پر عمل کی دعوت دینا۔
• جھوٹے قصے کہانیاں جو دین کے نام پر بیان کی جاتی ہیں وہ بھی اسی حدیث کی زد میں آتی ہیں۔

اوپر کی وضاحتوں سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ بعض لوگ بظاہر دین کے لیے بھی جھوٹ بولتے ہیں جیسے پہلے زمانہ میں لوگ ترغیب اور ترہیب کے لیے وضع حدیث کے گناہ کبیرہ میں ملوث ہوکر جہنم میں اپنا ٹھکانا خرید لیتے تھے ، اب چونکہ وہ لوگ دینداری کا لبادہ اوڑھ کر ایسا کرتے تھے لہذا یہ زیادہ خطرناک بھی تھا اسی لیے محدثین نے ان پر سخت ترین الفاظ میں تردید کردی ، کسی کو کذاب ( بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا ) کہا گیا ، کسی کو دجال ( حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر پیش کرنے والا ) کہا گیا ، اور کسی کو دونوں الفاظ سے پکارا گیا ، ایسا اس لیے کہ جتنا بڑا گناہ اور جتنی اس کی سنگینی ہو تو اتنا ہی اس پر سخت تردید کرنے کی ضرورت رہتی ہے ، کیوں کہ دین میں جھوٹ بول کر دین کو ہی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

آج جو انٹر نیٹ پر اپنے لائکس اور ریٹنگ بڑھانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں یا جو لڑکے لڑکی بن کر لڑکیوں کی آئی ڈی بنا کر رہتے ہیں، اور پھر لڑکی ہی بن کر باتیں کرتے ہیں مثلا” میں یہ کر رہی ہوں، میں وہ کر رہی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ کچھ لڑکیاں بھی مختلف طریقوں سے جھوٹ اور دھوکہ دیتی ہیں۔
غرض یوں اُن کی ہر بات جھوٹ اور دھوکہ ہوتی ہے میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تمام ہی لڑکے ایسا کرتے ہیں یا ہر ایک کی آئی ڈی فراڈ ہی ہوتی ہے پر خدارا کہیں بھی صرف آئی ڈی دیکھ کر یہ قطعا” نہ مان لیں کہ یہ کون ہے۔ نیٹ کی دنیا میں کسی پہ اعتبار کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لیں۔
افسوس صد افسوس آج ہم نے سوشل میڈیا کو معلومات کے تبادلے کی بجائے جھوٹ اور دھوکے دینے کی دنیا بنا لیا ہے۔
اسی طرح آج کل موبائل فون پر بھی جھوٹ عام ہے خاص طور پر آپ ہوتے کہیں اور ہیں اور اکثر اوقات کال پر مخاطب کو اس سے متضاد کیفیت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
بلاشبہ ایک جھوٹ بہت سی خرابیوں کا باعث بن جاتا ہے اور اگر آپ کا یہ جھوٹ ایک سے دوسرے شخص سے ہوتا ہوا آگے سفر کرتا ہے تو اس کے بداثرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

اسی طرح کے سینکڑوں افراد ہیں جن کے بارے میں محدثین نے سخت ترین الفاظ استعمال کیے ہیں۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اگر کذاب اس لیے کہا گیا کہ وہ جھوٹ بولتے تھے تو دجال کیوں کہا گيا ؟ اس کی وضاحت امام نووی رحمہ اللہ نے یوں کی ہے :
" دجال کو یہ نام اس کی تمويه ( جھوٹی بات کو خلاف واقع سنانے ) کی وجہ سے دیا گیا ہے، اور " دجل  " کا مطلب  تمويه اور تغطية (یعنی حق کو چھپانا ) ہے ۔ کہا جاتا ہے  "دَجَلَ فُلان إذا مَوه " ،  یعنی : فلاں نے دجالی کی جب وہ جھوٹی بات کو خلاف واقع سناتا ہے ۔ اور "دَجَلَ الحَقَّ "  کا مطلب یہ ہے کہ حق كو باطل سے چھپانا ۔  ابن فارس نے ثعلب سے ایسا ہی بیان کیا جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے ، اور اس سے اس کے علاوہ اوروں نے بھی بیان کیا ہے کہ اسے دجال اس کےجھوٹ کی وجہ سے نام دیا گیا ہے ، اور ہر کذاب (یعنی جھوٹا آدمی) دجال ہے" ۔  (تھذیب الاسماء و اللغات / نمبر 158 / ج 1 / ص 258/ سمى دجالاً لتمويهه)

عصر حاضر کے کذاب اور دجال:

چونکہ یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ پہلے زمانے میں دین کے لیے بھی بعض لوگ جھوٹ بولتے تھے ۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ اس وقت تدوین حدیث کا دور تھا لہذابعض لوگ احادیث بنانے کی کوشش کرتے تھے ، جنہیں محدثین نے بالکل ناکام بنادیا ۔ مگر دور جدید میں جب ایسے ہی ناعاقبت اندیش لوگ دعوت کے میدان میں آگیے تو انہوں نے اپنے سامنے حدیث بنانے کے دروازے بالکل بند پائے، کیوں کہ تدوین حدیث کا زمانہ ختم ہوچکا ہے ، تو انہوں نے جھوٹ کے ماڈرن طریقے تلاش کرنا شروع کیے، جیسے : 
بعض لوگ قرآن اور حدیث کی ایسی تاویلات کرتے ہیں جنہیں اسلاف نے رد کردیا ہے ۔ اور باطل تاویلات کے خلاف اپنی کتابوں میں خصوصی طور بحوث لکھے ، بلکہ بعض نے مستقل کتابیں بھی تصنیف کیں ۔
بعض لوگ اپنے جھوٹ کو مصلحت کا  نام دیتے ہیں حالاں کہ  جو مصلحت شریعت میں متعبر ہے وہ اس جھوٹ سے مبرا ہے جیسا کہ اصول فقہ کی کتابوں میں علماء ربانیین نے اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔ خاص کر جب یہ جھوٹ بہتان تراشی کی صورت میں ہو تو یہ عام جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ عام جھوٹ حقوق اللہ سے متعلق ہوسکتا ہے جب کہ بہتان تراشی حقوق العباد سے متعلق ہوسکتا ہے ۔
بعض لوگ جب تاویلات اورمصلحت کے ہتھیار بھی استعمال کرکے اپنی ناکامی سامنے محسوس کرتے ہیں تو بہتان تراشی سے کام لیتے ہیں، سچ چھاپتے ہیں اور جھوٹ کو سچ دکھانے کی جتن کرتے ہیں ، تاکہ قرآن اور حدیث اور منہج صحابہ رضی اللہ عنہم پر گامزن اللہ کی راہ میں  پر خلوص دعوتی اور دینی تعلیمی کام کرنے والوں سے عوام کو متنفر کردیا جائے ۔ عوام الناس کو ان شریفانہ لباسوں میں جھوٹ بولنے والوں سے خبردار رہنا چاہیے اور اللہ کے اس فرمان پر عمل کرنا چاہے :
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ " (49 / الحجرات / 6)
اے ایمان والو ! جب تمہیں کوئی فاسق کوئی خبر لے کرآئے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کرلو ، تاکہ ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچادو ، پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ ۔
لہذا مسلمان کو چاہیے کہ کسی کے جھانسے میں پھنس جانے کے بجائے معاملہ کی تحقیق کرلے اور سنی سنائی بات پر عمل نہ کرے ، اگرچہ سنانے والا بظاہر زاہدوں کے روپ میں بھی کیوں نہ ہو کیوں کہ اوپر یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ زاہد لوگ بھی کبھی جھوٹ بولتے تھے ، ہر سنی سنائی  بات کو بغیر تحقیق قبول کرنا منہج سلف کے خلاف ہے۔ بعض لوگ ان جھوٹے لوگوں کے جھوٹ کو  بھی پھیلاتے ہیں ، اور اس طرح وہ بھی جھوٹے بن جاتے ہیں کیوں کہ حفص بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  
" كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ " (مسلم /  المقدمۃ / 3 - باب النَّهْىِ عَنِ الْحَدِيثِ بِكُلِّ مَا سَمِعَ)
یعنی : انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات ( بغیر تحقیق کے ) بیان کردے ۔
لہذا مسلمان جب کوئی بات سنے تو تحقیق کرلیے اگر اسے سچ پائے تو بیان کردے ، اور جب تک تحقیق مکمل نہ ہوجائے  تو بیان کرکے جھوٹا ہونے کی سند حاصل نہ کرے ۔  بغیر تحقیق کے کوئی سنی سنائی بات بیان کرنے کی وعید حفص بن عاصم رضی اللہ عنہ ہی سے مرفوعا ان الفاظ میں بھی آئی ہے :
" كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ " (ابو داود / 4992 / امام البانی نے اسے صحیح کہا ہے )
یعنی : آدمی کے گناہگار ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات ( بغیر تحقیق کے ) بیان کردے ۔
لہذا مسلمان کو چاہیے کہ بغیر تحقیق کیے باتوں کو پھیلانے سے پرہیز کرے اور خاص کر جب ان جھوٹی باتوں کا مقصد منہج سلف پر گامزن دعوتی اداروں کو نقصان پہنچانا مقصود ہو ، تو ایسا شخص ایک اور سخت وعید میں آجاتا ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے : 
" الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ " (14 / إبراھیم / 3)
یعنی : جو لوگ دنیاوی زندگی آخرت پر ( ترجیح دے کر ) پسند کرلیتے ہیں ، اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھ پن (خرابی ) پیداکرنا چاہتے ہيں تو ایسے لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ۔
کبھی کوئی شخص جھوٹوں کی کثرت دیکھ کر انہيں سچے سمجھتا ہے اس طرح وہ شخص خود بھی گمراہ ہوسکتا ہے جیسے اللہ کا ارشاد ہے : 
" وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ " (6 / الانعام/ 116)
یعنی :اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے گمراہ کردیں گے ، (کیوں کہ ) وہ تو صرف ظن ( گمان ) کے پیچھے پڑتے ہیں اور صرف اٹکل (اندازے ) سے کام لیتے ہیں ۔

اسی لیے اللہ تعالی نے بعض گمانوں کو گناہ قرار دیا جیسے فرمایا :
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ " (49 /  الحجرات / 12)
یعنی : اے ایمان والو ! بہت سے گمانوں  ( یعنی بد گمانیوں ) سے پرہیز کرو ، یقینا بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ۔جس کی تفصیلات سابقہ مضمون "گمان اور اس کے اثرات"میں گزر چکی ہے، جو اس لنک پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/10/blog-post_13.html
آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا ہر گمان نہ صحیح ہوتا ہے اور نہ ہی غلط ہوتا ہے ، یعنی اس میں صحیح اور غلط دونوں ہوتے ہيں ،  لہذا بغیر تحقیق کے کوئی بات ثبوت کے بجاے محض گمان کی بنیاد پر کہنا گناہ کبیرہ ہے ، جیسا کہ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ " (بخاری / 6066)
"خبردار ! ظن ( گمان ) سے بچو ،یقینا ظن سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔"
بعض لوگ منہج سلف کے بعض دینی اداروں سے بغض رکھتے ہیں اور سچ کے ہتھیار جب ان کے پاس موجود نہیں ہوتے ہيں تو جھوٹ اور بہتان تراشی کا سہارا لیتے ہيں ، حق کو باطل اور باطل کو حق دکھا کر پیش کرتے ہيں ، اور شریفانہ انداز میں کمینہ پنی کا کام کرتے ہيں ، ایسے لوگوں میں اگر اللہ کے خوف کی کوئی کرن موجود ہے تو انہیں اس آیت سے اپنے ایمان کو ریچارج کرنا چاہیے، اللہ تعالی فرماتے ہیں :
" مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ " (50 / ق / 18) 
یعنی:  ( انسان ) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر اس کے پاس نگہبان ( فرشتے لکھنے کے لیے ) تیار رہتے ہیں ۔ 
کوئی انسان کسی ایسی بات کے پیچھے لگ جاتا ہے جس کے بارے میں اسے علم ہی نہیں ہوتا ہے ، ایسے انسان کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ قیامت کے روز اس سے پوچھا جاے گا ، جیسے اللہ کا فرمان ہے : 
" وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا " (17 / الإسراء / 36)
یعنی : جس بات کی تجھے خبر نہیں ہے اس کے پیچھے مٹ پڑو ، یقینا کان ، اور آنکھ ، اور دل ، ان سب میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے ۔
لہذا ایسے لوگ جب بہتان تراشی کریں تو وہ یہ نہ بھولیں کہ فرشتے اسے لکھتے ہيں اور کل قیامت کے روز اسے حساب دینا ہوگا ، اور ایسے لوگ اپنے آپ کو ابلیس کی اس تلبیس سے دھوکہ نہ دیں کہ پھر توبہ کرلیں گے! اور اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے ! ۔ انہيں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی صرف حقوق اللہ کو معاف کرتا اور حقوق العباد کی معافی کا حق اس نے اپنے بندوں کو دیا ہے ، اور بہتان تراشی چونکہ انسان پر جھوٹی تہمت لگائی جاتی ہے لہذا اسے صرف توبہ سے معاف نہیں کیا جائے گا جب تک وہ انسان بخش نہ دے ۔ بہتان تراشی کرنے والے کو کیا معلوم ہے کہ جس طرح وہ دوسروں کو بہتان تراشی سے تکلیف دے کردنیا میں خوشی محسوس کرتا ہے، اس کے بدلے میں وہ شخص بھی کل قیامت کے روز اسے اللہ تعالی سے سزا دلا کر خوشی محسوس کرنے کے انتظار میں ہو ! ۔
بہتان تراشی کرنے والا جھوٹ کہتے وقت اس کی پرواہ بھی نہيں کرتا ہے ، یہ ایسی بات ہے جسے اللہ تعالی کبھی پسند نہیں کرتا ہے اور یہ اللہ تعالی کو ناراض کرنے کا خطرناک ذریعہ ہے ، اور اللہ تعالی جس شخص کی بات سے ناراض ہوجائے تو اس کی خیر نہيں ، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ" (بخاری / 6478)
یعنی : اور بندہ ( یعنی کوئی شخص ) کبھی اللہ کو ناراض کرنے والا ایسا لفظ بول دیتا ہے جس کی وہ پرواہ نہیں کرتا ہے تو وہ اس کی وجہ سے جہنم میں پہنچ جاتا ہے ۔
اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے : " إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مَا يَتَبَيَّنُ فِيهَا يَزِلُّ بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مِمَّا بَيْنَ الْمَشْرِق " (بخاری / 6477)
یعنی : یقینا بندہ ( یعنی کوئی آدمی ) کبھی ایسی بات کرتا ہے جس(کے برا ہونے ) پر وہ غور و فکر نہیں کرتا ہے ، تو اسی کی وجہ سے وہ جہنم میں مشرق جتنا دور گر جاتا ہے ۔
آدمی کو چاہیے کہ زبان کی حفاظت نہ کر کے جنت کی گارنٹی سے اپنے آپ کو محروم نہ کر دے ، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ" (بخاری / 6474)
یعنی : جو مجھے اس کی ضمانت ( گارنٹی ) دے جو دو جبڑوں کے درمیان ہے( یعنی زبان کی)اور جو دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے ( یعنی شرمگاہ کی )  تو میں اسے جنت کی ضمانت دوں گا ۔
کبھی کوئی آدمی جھوٹ کو ہلکا سمجھ لیتا ہے ، بے پرواہی سے جھوٹ کہہ دیتا ہے ایسے شخص کو معلوم ہونا چاہیے کہ جھوٹ بولنے سے آدمی کا نام اللہ کے نزدیک کذابوں  کی رجسٹر میں لکھا جاتا ہے جیسے عبد اللہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ كَذَّابًا " (بخاری / 6094)
یعنی :  اور یقینا جھوٹ فجور ( گناہ ، برائی ) تک پہنچا دیتا ہے ، اور فجور ( جہنم کی ) آگ تک پہنچا دیتا ہے ، اور یقینا آدمی جھوٹ بول دیتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔
بعض لوگ جھوٹ کی تلاش کرتے رہتے ہيں تاکہ اس سے اپنا کام چلائیں تو ایسے لوگوں کی بھی سخت وعید آئی ہے ، جیسا کہ عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا " (مسلم / کتاب البر و الصلۃ و الآداب / 29 - باب قُبْحِ الْكَذِبِ وَحُسْنِ الصِّدْقِ وَفَضْلِ)
یعنی : آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ ( ہی کی ) تلاش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔
جھوٹ بولنا بڑے سے بڑے گناہوں میں سے ہے جیسا  کہ ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
" أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ثَلاَثًا قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَجَلَسَ ، وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ " (بخاری / 2694)
یعنی : خبردار ! کیا میں تمہیں بڑے سے بڑے گناہوں کے بارے میں نہ بتاوں ؟  - ایسا تین بار فرمایا – تو انہوں نے (یعنی صحابہ رضي اللہ عنہم نے )  کہا : کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسول ! تو فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، اور والدین کی نافرمانی کرنا ، وہ ٹیک لگا کرتھے تو ( پہلے سیدھا ) بیٹھ گئے  پھر فرمایا : اور بے بنیاد بات کہنا ۔
بعض لوگ اگرچہ خود تو جھوٹ نہیں بولتے مگر سچ چھپاتے ہیں ایسے لوگوں کی بھی سخت وعید آئی ہے ، جیسے اللہ کا ارشاد ہے : " وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ " (2 / البقرۃ / 283)
یعنی: اور تم گواہی مت چھپاو ، اور جو اسے چھپائے گا تو یقینا وہ ایسا ہے کہ اس کا دل گناہگار ہے ، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے جاننے والا ہے ۔
اور بعض لوگ ان برے اعمال میں ایسے خوگر ہوجاتے ہيں کہ انہيں پھر بڑے سے بڑے گناہ بھی چھوٹے لگتے ہیں جن پر انس رضی اللہ عنہ کی یہ بات صادق آجاتی ہے : 
" إِنَّكُمْ لَتَعْمَلُونَ أَعْمَالاً هِيَ أَدَقُّ فِي أَعْيُنِكُمْ مِنَ الشَّعَرِ إِنْ كُنَّا نَعُدُّهَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم الْمُوبِقَاتِ " (بخاری / 6492)
یعنی : تم تو ایسے کام کر بیٹھتے ہو کہ وہ تمہاری نظروں میں بال سے بھی باریک ہوتے ہیں، جب کہ ہم تو انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہلاک کرنے والے گناہ سمجھتے تھے ۔

خلاصہ کلام یوں ہے کہ دعوت دین میں کسی بھی طرح جھوٹ کی چھوٹ نہیں ہے ، اپنے آپ کو دھوکہ دے کر جھوٹ میں چھوٹ نہ سمجھی جائے ، پہلے زمانے کے کچھ زاہد و عابد لوگ بھی دین کی خاطر جھوٹی حدیثیں بیان کرتے تھے جنہيں محدثین نے کذابوں کی لسٹ میں درج کر دیا ہے ، دور جدید میں چونکہ حدیث کے الفاظ گھڑنے کا موقع نہ پاکر بعض حزبی ( تنظیم پرست ) لوگ اپنی جماعتوں ( تنظیموں ) کےنام نہاد وسیع تر مفاد کی خاطر جھوٹ میں چھوٹ سمجھ کر اپنے آپ کے ساتھ ساتھ عوام کو دھوکہ دیے کر گناہ کبیرہ  کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں، اور جزبیت کی بدعت کو سنت سے رشتہ جوڑنے کی ناکام اور مذموم کوشش کرتے ہیں ، اور بعض لوگ منہج سلف پر گامزن دینی اداروں کو نقصان پہنچانے کی خاطر بہتان تراشی اور جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ، یہ سب کام شریفانہ لبادہ اوڑھ کر کیا جاتا ہے ، یہ سب خلاف شریعت کام ہیں ، ایسا کرنے والے گناہ کبیرہ کے مرتکب ٹھہرتے ہيں ۔ جب تک ایسے لوگ اس روش پر رہیں گے تو ان سے دین حاصل کرنا سلف کے منہج کے خلاف ہے ۔
اب جو شخص اتنی ساری مدلل و مفصل وضاحت کے بعد بھی حزبیت اور جھوٹی شان و شوکت کی لت میں رہتے ہوئے جھوٹ ، دھوکہ ،  فریب اور بہتان تراشی سے توبہ نہ کرلے  تو اس سے میں مزید کیا کہوں ؟ !،  اس کے بارے میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کافی ہے ، جس میں آیا ہے : " إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ " (بخاری / 6120)یعنی : جب تو حیاء نہ کرے( یعنی بے شرم ہو ) تو جو مرضی ہے کرلو ۔ 

جھوٹ بولنے والوں کا انجام قرآن
کی روشنی میں

إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ (16-النحل:105)
”جھوٹ افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو اللہ تعالی کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے۔ اور وہی جھوٹے ہیں.“

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [22-الحج:30]
”تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔“

یہاں قرآن حکیم نے جھوٹ کو ایک نجاست اور رِجس قرار دیا ہے اور جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے ۔جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمّع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبة:119)
”اے اہل ایمان! خدا سے ڈرتے رہو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو۔“

ایک مقام پر فرمایا:
وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ۔(سورہ النحل:116)

"کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو، سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں۔"

جھوٹ میں اصل پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے ،اس لئے جھوٹ سے حقیقت کیسے حاصل ہو سکتی ہے ۔لہٰذا اللہ تعالیٰ نے بھی جھوٹے کو ہدایت نہ ملنے کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ۔(غافر:28)
بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا ۔جو حد سے بڑھنے والا جھوٹا ہو۔“

جبکہ سچائی ایسی صفت ہے، جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یک ساں طور پر تسلیم کی گئی ہے۔ اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی۔ اسی لیے شریعتِ اسلامیہ میں اس کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے، اور ہر حال میں سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے۔

تمام انبیائے کرامؑ نے بھی ہمیشہ سچ بولنے کی تاکید فرمائی۔
حضرت ابراہیمؑ کے متعلق فرمان الٰہی ہے:
’’ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا۔
" اس کتاب میں ابراہیم(علیہ السلام) کا قصہ بیان کر، بیشک وه بڑی سچائی والے پیغمبر تھے۔"(سورہ مريم:41)

حضرت یوسفؑ کے بارے میں قرآن کریم میں ہے:
..قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ۔
’’ (اصل قصہ یہ ہے کہ) میں ( زلیخا) نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور وہ (حضرت یوسفؑ) بے شک سچا ہے۔"(يوسف:51)

قَالَ اللَّهُ هَذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔(المائدة:119)

 "اللہ ارشاد فرمائے گا کہ یہ وه دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وه ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ہیں، یہ بڑی (بھاری) کامیابی ہے۔"

مزید ﷲ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ۔(الزمر:3) "جھوٹےاور ناشکرے(لوگوں) کو اللہ تعالیٰ راه نہیں دکھاتا۔"

جھوٹ بولنے والوں کا انجام احادیث
کی روشنی میں:

قرآن کریم کی طرح احادیث مبارکہ میں بھی  جھوٹ کی سخت ممانعت ہے۔جھوٹ گناہِ کبیرہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہمیں متواتر ایسی احادیث ملتی ہیں جس میں بڑے بڑے گناہوں، یعنی کبائر کے ذکر میں جھوٹ کا ذکر بھی ہے،اور پیارے نبیؐ کی حدیث اور سنت سے ثابت ہے اگر کسی کی اخلاقی تربیت مطلوب ہوتی تو اُس میں سرفہرست جھوٹ کو اُس کی جڑوں کے ساتھ اُکھاڑ پھینکنے کی تربیت تھی۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔
(صحیح بخاری حدیث 6095)

ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش خلق ہو“۔
(ابوداؤد حدیث 4800، و قال الشيخ الألباني حسن)

معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: تباہی ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔
(سنن الترمذی، مسند احمد)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظن و گمان کے پیچھے پڑنے سے بچو ، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، نہ ٹوہ میں پڑو اور نہ جاسوسی کرو“۔(صحیح البخاری و مسلم)

سمرہ بن جندبؓ روایت کرتے ہیں نبی کریمؐ نے فرمایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وہ شخص جس کو تم نے معراج کی رات میں دیکھا تھا کہ اس کے جبڑے چیرے جا رہے تھے وہ بہت بڑا جھوٹا تھا اور اس طرح جھوٹ باتیں اڑاتا تھا کہ دنیا کے تمام گوشوں میں وہ پھیل جاتی تھیں قیامت تک اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ (صحیح بخاری)

جھوٹا شخص دنیامیں تو ناقابل اعتبار ٹھہرتا ہی ہے مگر اس حدیث پاک میں واضح کردیا گیا کہ جھوٹے شخص کے لئے آخرت کی بھی رسوائی لکھ دی گئی ہے اور وہاں اس کی ذلت و رسوائی میں اس کا کوئی درماں نہ ہوگا۔

عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐنے تین بار فرمایا کہ میں تم لوگوں کو سب سے بڑا گناہ نہ بتاوں؟ لوگوں نے جواب: دیا ہاں یا رسول اللہ! آپ ؐنے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا والدین کی نافرمانی کرنا اور آپ ؐ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے فرمایا کہ سن لو جھوٹ بولنا اور بار بار اس کو دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا: کاش! آپؐ خاموش ہو جاتے۔ (صحیح بخاری)
اس حدیث مبارکہ میں رسول کریم ؐ نے کبائر کا ذکر کرتے ہوئے شرک اور والدین کی نافرمانی کے بعد جھوٹ کا بار بار تذکرہ کیا۔ صحیح بخاری میں آتا ہے کہ جب آپ ؐنے کبائر کا ذکر کیا تو اس وقت جھوٹ کا تذکرہ کرنے سے قبل آپ ؐ تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے مگر جھوٹ کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا: سن لو جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا، سن لو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا، آپ ؐ اسی طرح (بار بار) فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کہ آپ خاموش نہ ہوں گے، یعنی آپؐ نے جھوٹ کا کبائر میں ذکر کرتے ہوئے اس لئے اس کی تکرار فرمائی تاکہ اس کی برائی واضح ہوسکے اور اس کو معمولی فعل جان کر نظر انداز کرنے کی بجائے اس کی خرابی اور گناہ کا ادراک کرتے ہوئے جھوٹ سے مکمل اجتناب کیا جائے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔
(صحیح بخاری، حدیث 6094)

اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺنے پہلی بات تو اس حدیث میں یہ فر مائی کہ یہ بات یاد رکھو کہ ہر نیکی دوسری نیکی کو کھینچتی ہے۔یہ قدرتی بات ہے اور اللہ والوں نے اس کا بہت تجربہ کیا ہے اور بہت تجربے کے بعد یہ بات لکھی ہے کہ ایک گناہ اگر انسان سے ہوجائے تو دوسرا گناہ خود بہ خود ہوتا ہے دوسرا گناہ ہوجائے تو تیسرا گناہ خود بہ خود ہوگااور اگر انسان توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ معاف کروا لے تو پھر نیکی کی ہمت اس کے اندر آجائے گی لیکن اگر وہ توبہ کرکے اپنے گناہ معاف نہ کروائے تو پھر انسان گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پھر ایک وقت آتا ہے کہ گناہ اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ دل بالکل کالا ہوجاتا ہے
اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے یہ بتلایا کہ جھوٹ انسان کے لیے اتنا نقصان دہ ہے کہ جتنی برائیاں ہیں یہ ان سب کو کھینچ کر لاتا ہے یعنی ایک جھوٹ بولیں گے تو دوسرا جھوٹ بولیں گے پھر تیسرا بولیں گے اور پھر اور دوسرے گناہ کرنا بھی آسان ہوجائیں گے یعنی گناہ کرتا ہی چلاجائے گا۔اس لیے اگر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں گناہوں سے بچوں تو اللہ کے نبی ﷺ نے آسان نسخہ یہ بتلایا ہے کہ گناہوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان جھوٹ سے بچے۔کیوں کہ جتنا جھوٹا آدمی ہوگا اتنا ہی وہ گناہوں کی طرف بڑھتا چلا جائے گا، کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی خود بہ خود اس کی طبیعت گناہوں کی طرف جائے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺنے فرمایا :لوگو یہ بات یاد رکھو کہ جھوٹ انسان کو برائی کی طرف لے جاتا ہے اور پھر برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور قیامت کے دن رسوائی ہوگی۔
اہل علم فرماتے ہیں کہ جب آپ گناہ کریں گے تو آپ کے دل میں نیکیوں سے نفرت پیدا ہوتی جائے گی ۔ جو سب سے بڑی گناہوں کی نحوست ہے وہ یہ ہے کہ ایسے آدمی کو نیک لوگ اچھے نہیں لگتے،دینی مجالس سے دل اکہتاتا ہے ،دین داروں سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے ۔ 
اس لیے معلوم ہوا کہ آدمی جتنا گناہوں کی زندگی اختیار کرے گا اتنا ہی دین اور دین والوں سے دور ہوگا اور جتنا نیکی کی زندگی اختیار کرے گا خود بہ خود نیکی کی طرف بڑھتا چلا جائے گا اور نیکی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک نہ ایک دن جنت میں پہنچ جائے گا ۔

توجہ فرمائیے کہ جھوٹ کتنی بڑی برائی ہے کہ جس کو ہم غلط سمجھنے کے لئے تیار نہیں اور ہماری معاشرتی زندگی میں یہ عنصر کس درجہ سرایت کرچکا ہے کہ جھوٹ و سچ کی تمیز ہی ختم ہوتی جا رہی ہے اور یہ صورتحال بحیثیت مسلمان ہمارے لئے باعث تشویش و ندامت ہونی چاہئے۔
قرآن و حدیث میں جھوٹ کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے گناہ کبیرہ سے تعبیر کیا جا رہا ہے تاکہ ہم اپنا قبلہ درست کرتے ہوئے حق و سچ کا راستہ اختیار کریں۔

جھوٹ کی گنجائش :
زندگی کے چند ایک امور ایسے ہیں جن میں کسی حد تک جھوٹ کی معمولی گنجائش موجود ہے۔ لیکن ایسے امور جہاں جھوٹ بولنے کی چھوٹ ہے وہاں ہم بڑی بہادری سے سچ بولتے ہیں۔

۱۔ لوگوں کے درمیان مصالحت کرتے ہوئے۔

ام حمید بن عبدالرحمٰن (ام کلثوم) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جھوٹ نہیں بولا جس نے دو آدمیوں میں صلح کرانے کے لیے کوئی بات خود سے بنا کر کہی۔ احمد بن محمد اور مسدد کی روایت میں ہے، وہ جھوٹا نہیں ہے: ”جس نے لوگوں میں صلح کرائی اور کوئی اچھی بات کہی یا کوئی اچھی بات پہنچائی“۔
(صحیح البخاری/الصلح (2692)،
صحیح مسلم،سنن الترمذی،مسند احمد'صحیح)

۲۔میاں بیوی کا ایک دوسرے کی محبت میں مبالغہ۔

ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بات میں جھوٹ بولنے کی اجازت دیتے نہیں سنا، سوائے تین باتوں کے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: میں اسے جھوٹا شمار نہیں کرتا، ایک یہ کہ کوئی لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور کوئی بات بنا کر کہے، اور اس کا مقصد اس سے صرف صلح کرانی ہو، دوسرے یہ کہ ایک شخص جنگ میں کوئی بات بنا کر کہے، تیسرے یہ کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کوئی بات بنا کر کہے اور بیوی اپنے شوہر سے کوئی بات بنا کر کہے۔
(ابوداؤد: 4921، قال الشيخ الألباني صحيح)

اسی طرح سچ بولنے کی اتنی فضیلت ہے کہ غیبت جیسی برائی بھی چند خاص صورتوں میں جائز ہو جاتی ہے، مثلاً مظلوم کی فریاد رسی،انصاف و صلح کے حصول کے لیے اور معاملات کی اصلاح کے لیے اُن لوگوں کے سامنے حال بیان کرنا جو اس کو درست کرنے کے ذمہ دار ہوں۔

یہاں حقیقت میں اخلاق اور معاملات کی درستی مطلوب ہے، اور اسلام، مسلمانوں کے مابین محبتوں کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ اسی لیے محبتوں میں اضافے اور مصالحت کے لیے کسی حد تک جھوٹ جیسے گناہِ کبیرہ کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم نے چیزوں کو اُلٹ دیا ہے۔ جہاں چھوٹا موٹا جھوٹ بول کر معاملات کو سنبھالا اور بچایا جاسکتا ہے وہاں تو ’بھرپور سچ‘ کا مظاہرہ کر کے دلوں کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے، اور جہاں حقیقت میں سچ کی تلاش میں معلومات لی جاتی ہیں تو ’کہیں غیبت نہ ہو جائے‘ کا سوچ کر ہم اصل سچ تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور نتیجتاً ایک بڑا نقصان منتظر ہوتا ہے۔ اس طرح ہم محبتوں کو پروان چڑھانے کے بجائے بدگمانیاں بڑھاتے ہیں۔

جھوٹ سے کیسے بچا جاسکتا ھے؟:

 °سب سے پہلے تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ میری وجہ سے کوئی بھی شخص ایسی صورت حال میں نہ پڑے کہ اُسے جھوٹ بولنا پڑے، یعنی ہم کسی کو جھوٹ بولنے پر مجبور نہ کریں۔ سورۂ حجرات جس کی تفصیل پچھلے پہلو میں گزر چکی ہے کہ تجسس نہ کرنے کا حکم اسی لیے ہے کہ دوسروں کے معاملات کی اتنی کُرید اور ٹُوہ نہ کی جائے اور نہ اتنے سوالات ہی کیے جائیں کہ اُس کو جھوٹ سے کام لینا پڑے۔ بچوں کی تربیت کے معاملے میں بھی یہی طریقہ مناسب ہے کہ اُن کی بات پر اعتماد کریں اور اُنھیں ایسی صورت حال میں نہ لے کر جائیں کہ اُنھیں جھوٹ بولنے کے سوا کوئی راستہ نہ ملے۔

° اللہ تعالیٰ سے حکمت طلب کریں۔ اس کے لیے پیارے نبیؐ نے جو دعائیں سکھائی ہیں وہ مانگیں تاکہ صورت حال کو سنبھالنے کے لیے جھوٹ کے بجاے حکمت سے کام لیں۔

° سلف صالحین اور بزرگان دین سے حکمت کی باتیں سیکھیں۔ان کی زندگیوں سیرت کا مطالعہ کریں ۔

° دوسروں کے کیے ہوئے اچھے کاموں کی دل کھول کر تعریف کریں۔ خصوصاً بچوں کی تربیت میں حوصلہ افزائی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ اس طرح اگر کسی کو اپنے کسی اچھے کام پر حوصلہ افزائی ملتی ہے تو وہ خواہ مخواہ جھوٹ سے کام نہیں لے گا۔

° قرآن کی اس آیت پر اپنا ایمان پختہ کرلیں کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ کوئی اسے روک نہیں سکتا تو پھر کیوں ہم اپنی جھوٹی عزت بنانے کے لیے ایسے طریقے اختیار کریں جس سے آخرت میں تو رُسوائی ہو گی ہی لیکن دنیا میں بھی سب اس کا تعفن محسوس کر لیں۔ اس لیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سچ اور جھوٹ دنیا میں بھی واضح ہو کر رہنا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔

° اپنے ذہن میں اس تصور کو پختہ کر لیں کہ اس دنیا میں جتنی بھی بڑی کامیابی ہو وہ بہرحال اس دنیا کی کامیابی ہے اور آخرت کی بڑی کامیابی کے سامنے اُس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی طرح اس دنیا کی بڑی سے بڑی ناکامی بھی آخرت کی ناکامی کے سامنے ہیچ ہے۔ اس لیے آخرت کی کامیابی کے لیے، دنیا کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اُٹھانا پڑے تو سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیے۔

ھماری ذمہ داری: 
ہم اپنے گھر کے اندر اور اجتماعیت کے حوالے سے مختلف حیثیتوں سے مکلف بنائے گئے ہیں اور قیامت کے دن ہم سب سے ہماری رعیت کے بارے میں جواب دہی ہو گی، لہٰذا اپنی اس رعیت کی تربیت کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ جس طرح ہم اپنی ذات سے اس اخلاقی برائی کو نکال باہر کریں، اسی طرح اپنے زیر تربیت افراد کی تربیت کی اُٹھان اور بنیاد بھی اس طرح ڈالیں کہ وہ جھوٹ سے پرہیز کرنے والے ہوں۔

اسلام میں عبادات کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد انسان کی اخلاقی تربیت ہے اور اخلاقی تربیت کی بنیاد ہی جھوٹ سے پرہیز اور سچ کی تلقین ہے۔ اگر ہم دنیا کے کسی بھی چھوٹے اور بڑے فائدے کے لیے بولے جانے والے جھوٹ کو اپنی ذات سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آخرت کی کامیابی یقیناً ہماری منتظر ہے ہی، اس دنیا میں بھی من حیث القوم ہم پھر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے نظام کو نافذ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔
تزکیہ نفس سے متعلقہ سابقہ قسط کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_17.html?m=1

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_23.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_30.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_15.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/10/blog-post.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/10/blog-post_7.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/10/blog-post_13.html?m=1

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...