Friday 6 October 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#113

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

تنگ دلی:

بے اعتدالیِ مزاج سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری بھی انسان میں ہوتی ہے، جسے تنگ دلی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جسے قرآن میں ’شُّحِ نفس‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ
وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴿ سورة التغابن16)
"اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے۔"
یعنی آخرت میں فلاح و نجات پانے والے صرف وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالی مال و دولت کے شدید لالچ اور بخل کی بیماری سے بچا لے۔
سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:حرص اور ایمان کسی بندے کے دل میں کبھی جمع نہیں ہوتے۔(نسنائی:کتاب الجھاد:3112  )
تنگ دلی ہمارے ظرف کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ تنگ دل شخص چھوٹی چھوٹی باتوں جیسا کہ کسی کی معمولی مدد کرنے، مل بیٹھنے ، کھانے پینے، بانٹنے ، برتنے اور لین دین وغیرہ میں ناصرف دوسروں کے ساتھ معاملات میں بلکہ اپنی ذات کے حوالے سے بھی ایسے ہی تنگ دلی کا مظاہرہ کرتا ہے اور یوں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے خود بھی بہترین طریقے سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہ جاتا ہے۔
اپنی ذاتی چیز کو کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے میں عار محسوس کرنا تنگ دلی ہے۔ اگر جھجھک محسوس کرتے ہوئے بھی کچھ دوسرے کے ساتھ شیئر کر لیا تو بھی وہ تنگ دلی ہو گی۔ اللہ اور اسکی محبت کے احساس میں کمی تنگ دلی کا سبب بنتی ہے دل میں اللہ کا احساسِ آشنائی جتنا کم ہو گا اتنا ہی دل میں تنگی ہوگی۔ تنگ دلی کا شکار ہم تب ہوتے ہیں جب ہمار ا یقین اللہ پر کم ہوتا ہے کہ جس اللہ نے سب دیا ہے وہ بعد میں اور بھی دے سکتا ہے۔ تنگ دل شخص اپنے آپ کو محدود کر لیتا ہے ، دل کی راحت سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ جب ہم کسی کی جائز ضرورت یا خواہش پوری کرنے کےلئے اس کے ساتھ اپنی کوئی بھی چیز بانٹتے ہیں تو اس کا دل خوش ہو جاتا ہے اس کے دل سے پیار بھری دعائیں نکلتی ہیں جس سے ایک دوسرے کےلئے دلوں میں پیار بڑھتا ہے ۔ کسی کا دل خوش کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ اللہ اپنے بندے سے راضی ہو کر اس کے دل کو راحت و تسکین بخشتا ہے ۔دل کواللہ کی قربت محسوس ہوتی ہے جبکہ تنگ دل شخص اس احساس سے خود کو محروم کر لیتا ہے۔
اگر ہم روزانہ کے معاملات اور معمولات کا جائزہ لیں تو کئی مقامات پر تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔خاص طور پر جب ہمیں کہیں آرام سکون قربان کرنا پڑتا ہے ایسے میں کسی کو ایک گلاس پانی دینا بھی مشکل لگتا ہے ۔ کسی کو کھانا نہ دینا ، سلام کا جواب نہ دینا ، مسافر کو راستہ بتانے میں ، کوئی کھانے پینے کی چیز آپس میں بانٹنے میں، کسی کا کوئی کام کرنے میں بھی تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ تنگ دلی کےلئے کسی معاملے کا بڑا ہونا ضروری نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو ہم روز مرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی تنگ دلی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں جیسے کہ اگر کوئی اچھا کام کرتا ہے تو بھی ہم کھلے دل سے اس کی تعریف نہیں کرتے، اگر کوئی استعمال کی چیز مانگے تو اگر چیز دے بھی رہے ہوں تو دل تنگ پڑتا ہے۔
تمگ دلی کے مرض میں جو شخص مبتلا ہو وہ اپنی زندگی کے ماحول میں دوسروں کے لیے کم ہی گنجائش چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ خود جتنا بھی پھیل جائے، اپنی جگہ اسے تنگ ہی نظر آتی ہے اور دوسرے جس قدر بھی اس کے لیے سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے وہ ہر رعایت چاہتا ہے ، مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرنا چاہتا۔ اپنی خوبیاں اس کے نزدیک ایک صفت ہوتی ہیں اور دوسروں کی خوبیاں محض ایک اتفاقی حادثہ۔ اپنے عیوب اس کی نگاہ میں قابلِ معافی ہوتے ہیں، مگر دوسروں کا کوئی عیب وہ معاف نہیں کرتا۔ اپنی مشکلات کو تو وہ مشکلات سمجھتا ہے، مگر دوسروں کی مشکلات اس کی راے میں محض بہانہ ہوتی ہیں۔ اپنی کمزوریوں کے لیے جو الائونس وہ خود چاہتا ہے، دوسروں کو وہ الائونس دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دوسروں کی مجبوریوں کی پروا کیے بغیر وہ اُن سے وہ انتہائی مطالبات کرتا ہے جو خود اپنی مجبوری کی صورت میں وہ کبھی پورے نہ کرے۔ اپنی پسند اور اپنا ذوق وہ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، مگر دوسروں کی پسند اور ان کے ذوق کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ چیز ترقی کرتی رہے تو آگے چل کر خوردہ گیری و عیب چینی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دوسروں کی ذرا ذرا سی باتوں پر آدمی گرفت کرنے لگتا ہے ، اور پھر جوابی عیب چینی پر بلبلا اُٹھتا ہے۔
اسی تنگ دلی کی ایک اور شکل زود رنجی، نک چڑھاپن، اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ہے۔ جو اجتماعی زندگی میں اُس شخص کے لیے بھی مصیبت ہے جو اس میں مبتلا ہو، اور اُن لوگوں کے لیے بھی مصیبت جنھیں ایسے شخص سے واسطہ پڑے۔

اس کو ایسے بھی چیک کیا جاسکتا ہے کہ کیا ہمارا رویہ سب کے ساتھ ایک جیسا ہے یا کچھ لوگوں کی تعریف تو کھلے دل سے کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے گھبراتے ہیں ۔اس کے علاوہ اپنے ساتھ کسی دوسرے کی شراکت داری میں عار محسوس کرنا یا اس کا کسی معاملے میں ساتھ نہ دنیا بھی تنگ دلی کہلاتا ہے۔ ہم تنگ دلی کی وجہ سے کسی رشتے کو دل میں جگہ نہیں دے سکتے اور ہمارے اور اگلے کے درمیان نہ چاہتے ہوئے بھی دوری ہوگی۔
تنگ دلی کے نقصانات:
۔ تنگ دلی سے دل میں ایک منفی احساس آجاتا ہے جس سے اللہ کی قربت سے دور ہوتے ہیں ۔
تنگ دلی سے دل میں پیار اور محبت کے جذبے اور احساسات کی جگہ سختی آجاتی ہے۔ دل جب سخت ہوتو کچھ اندر جذب نہیں کرتا اس طرح حق کی راہ پر ہوتے ہوئے بھی رہنمائی نہیں لے پاتے اور نہ ہی آگے بڑھ پاتے ہیں۔
ہماری تنگ دلی کی وجہ سے ہمارے ساتھ رہنے میں آسانی محسوس نہیں کرتے ۔ہم اللہ کے بندوں کے لیئے آسانی نہیں کر پاتے اور نہ ہی ان کی بھلائی کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
دل میں وسعت نہ ہونے سے دوسروں کو حق کا پیغام بھی نہیں دے پاتے جس سے اپنا نقصان کرتے ہیں ۔
ہماری تنگ دلی کی وجہ سے دوسرے ہم سے مدد طلب کرنے اس طرح دوسروں کی مدد نہیں کر سکتے اور یوں ہم کسی کی مدد نہ کر کے اللہ کی قربت پانے کا موقع ضائع کر دیتے ہیں۔
تنگ دلی سے دل میں سختی پیدا ہوتی ہے اور آپس میں پیار محبت کے احساس ختم ہونے لگتے ہیں ۔ دل میں اللہ کا احساس نہیں اتر پاتا جو اللہ سے دوری کا سبب بنتا ہے۔
تنگ دل اپنی ذات میں پھنسا ہوتا ہے اور اپنی ذات کی پوجا کر کے ذات اور نفس کا غلام بن جاتا ہے۔
تنگ دل ہر چیز کو اپنی ملکیت سمجھنے لگتا ہے جس سے اندر انا اور تکبر کے احساس پروان چڑھتے ہیں جو اللہ کی قربت میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔
تنگ دل انسان لوگوں کو عام استعمال کی چیزیں بھی دل گندہ کر کے دیتا ہے یا تنگ دلی کی وجہ سے دینے سے گریز کرتا ہے جس سے اللہ کے بندوں سے پیار کم ہو جاتا ہے اور تعلقات اچھے نہیں رہتے ۔
۔ تنگ دل انسان صرف لین دین میں ہی نہیں اور معاملات میں بھی تنگ دل ہونے کا مظاہرہ کرتا ہے کسی کی تعریف کرنے میں پیار دینے میں تنگ دلی دکھاتا ہے ۔ یوں اپنی ذات میں پھنس کر اللہ کے قرب سے محروم ہو جاتا ہے۔
تنگ دل انسان کا یقین کا لیول بھی اچھا نہیں ہوتا ۔ لوگوں کو کوئی چیز دینے میں اسے کمی کا خدشہ رہتا ہے اور اسے یقین نہیں ہوتا کہ سب عطا کرنے والا اللہ ہے اس طرح تنگ دل شخص اپنا ایمان کمزور کر لیتا ہے۔
تنگ دلی منفی سوچ ہے جو حق کے سفر میں بہت بڑی رکاوٹ ہے وسعتِ دل کے ساتھ اچھی سوچ، احساس کو دل میں جگہ ملتی ہے جو کہ تنگ دلی سے نصیب نہیں ہوتی۔
۔ تنگ دلی سے اندر حسد کا جذبہ پروان چڑھتا ہے کہ مجھ سے کوئی آگے نہ بڑھے ۔ تنگ دل شخص کسی کی خوشی اور کامیابی سے خوش نہیں ہوتا اور جلتا کڑھتا رہتا ہے۔
تنگ دل اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے عار محسوس کرتا ہے اور دولت سمیٹ کر رکھتا ہے اس طرح عارضی مال و دولت دنیا کی محبت کی وجہ سے اپنی آخرت بربادکرتا ہے۔
تنگ دل نہ خود کھاتا ہے نہ کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایسے سائلوں کو خالی ہاتھ رخصت کر کے وہ اللہ کے بندوں کے کام نہیں آتا ، مدد نہیں کرتا اور اللہ کے بندوں کے کام آکر اللہ کی محبت بھری نظر پانے سے محروم ہو جاتا ہے۔
تنگ دلی سے انسان کے اندر خود غرضی بڑھتی ہے۔ اپنے علاوہ کسی کی فکر نہیں کرتا نہ احساس ہوتا ہے اس طرح تنگ دلی محبت کے جذبات پروان چڑھانے سے روکتی ہے۔
تنگ دل اللہ کی محبت کو زیادہ محسوس نہیں کر پاتا اور قربت کے سفر میں پیچھے رہ جاتا ہے کیونکہ اللہ کی ذات بہت عظیم اور بڑی ہے ۔جہاں دل میں نرمی اور وسعت ہوگی وہاں ہی وہ سماتا ہے 
تنگ دل انسان ذات کو چاہتا ہے اور ذات اللہ کے احکامات کے منافی کام کراتی ہے ۔ یوں تنگ دلی کا شکار ہوا شخص اللہ کے احکامات کو فراموش کر کے اپنا نقصان کرتا چلا جاتا ہے۔
تنگ دلی سے بچنے کے طریقے:
جس کےلئے دل میں تنگی آرہی ہو اس کے ساتھ اللہ سے مدد مانگ کر اچھا پیش آنا۔ اللہ سے مدد مانگ کر پاور محسوس ہوتی ہے اور دل میں وسعت آنے لگتی ہے۔
۔ یہ احساس کہ جس دل میں اللہ کے ایک بندے کےلئے اتنی تنگی ہے وہ دل کیسے اللہ کا گھر بن پائے گا، یہ احساس رکھ کر تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے۔
اس بات کا احساس کہ دل میں تنگی لانا اللہ کو بالکل پسند نہیں ہے ۔ اس طرح اللہ کی ناراضگی کے احساس سے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں 
تنگ دلی سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس کے لئے دل میں تنگی آرہی ہو اس کےلئے دعا کی جائے، اس کی بہتری اور کامیابی کےلئے دعا کرنے سے بھی اندر وسعت آتی ہے۔
اس بات کا احساس اور یقین کہ کوئی جو بھی کرے اگر ہم نے اسے کھلے دل سے پیار دیا یا اسکی مدد کی تو ہمارا ایسا کرنا اللہ کو پسند آئے گا اور وہ خوش ہو گا۔ یہ احساس بھی تنگ دلی سے بچاتا ہے۔
۔ راضی با رضا رہنے کی کوشش کرنا ، اللہ کی رضا پانے کےلئے اس کے بندوں کے کام آنا ، مدد کرنا ، خدمت کرنا دل میں وسعت لائے گا اور تنگ دلی سے بچے رہےں گے۔
کھلے دل سے ، بے لوث ہو کر اگلے کو پیار دینا اور کام آنا ، مدد کرنا اللہ کو پسند آئے گا اور اس کی قربت میں آگے بڑھیں گے اس احساس سے بھی دل کی تنگی سے بچ جاتے ۔
اللہ پر یقین کو بڑھا کر تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے کیونکہ ہمارے دل میں تنگی اس لیے آتی ہے کہ ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ ہمیں عطا کی گئی نعمتوں میں کمی آجائے گی یہ یقین کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اس بات کا احساس پیدا کرنا کہ سب اللہ کی عطا کی گئی نعمتیں ہیں جس نے آج عطا کیا ہے ، وہ کل بھی عطا کرے گا پھر انہیںبانٹتے ہوئے کیوں تنگ دلی دکھائیں۔ اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو اس کے بندوں کے ساتھ شیئر کریں تو وہ خوش ہو کر اور بھی عطا کرے گا۔

نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کو سامنے رکھ کر ہم تنگ دلی سے بچ سکتے ہیں ۔ آپ ﷺ جیسا فراخ دل نہ کوئی تھا اور نہ ہی ہوگا آپ ہمارے لیے مثال ہیں ۔ اس لیے آپ ﷺ کی سنت کو مضبوطی سے تھام کر تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے۔
دل دنیا کی خواہشات سے آزاد کر کے تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے کیونکہ دنیا کی چاہتیں دل کو تنگ کردیتی ہیں جبکہ اللہ کی محبت دل میں بس کر اس میں وسعت پیدا کرتی ہے۔
عاجزی اور شکر گزاری کے احساس دل میں رکھ کر بھی تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے۔
تنگ دلی دوسروں کے ساتھ معاملات کے علاوہ ذات میں بھی آتی ہے جس سے ہم خود بہترین طریقے سے اللہ کی نعمتوں سے لطف نہیں اٹھا سکتے یہ احساس ہو کہ یہ سب جو مجھے عطا ہے وہ اللہ کی دین ہے میرا کچھ بھی نہیں ۔ اس لیے تمام نعمتوں کو اچھے طریقے اور خوشی سے استعمال کرنا دل کی تنگی دور کر کے وسعت لاتا ہے۔
معاملات میں مل بیٹھنا ، لین دین، کھانا پینا ان تمام کو وسعت دل سے استعمال کرنا ہے اور اللہ کا شکر گزار ہونا ہے۔ شکر گزاری میں رہنے سے دل کو وسعت ملتی ہے۔اور تنگ دلی دور ہوتی ہے۔
لہذا  تزکیہ نفس کے لیےتنگ دلی سے جان چھڑانا لازمی ہے۔

غصہ اور اشتعال انگیزی:

کچھ لوگ غصے میں آ کر بے قابو ہوجاتے ہیں اور اشتعال میں آ کر ایسی حرکت کر بیٹھتے ہیں جس پر انھیں بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔ غصے کی وجہ سے جھگڑا اور فساد برپا ہو جاتا ہے۔ نصیحت کی گئی ہے کہ انسان کو جب کسی معاملے کا فیصلہ کرنا ہو تو وہ اس بات کا یقین کرلے کہ وہ غصے کی حالت میں نہ ہو۔

حد قصاص سے متعلق ایک عجیب و غریب واقعہ زبان زد خاص و عام رہا کہ ایک دوکاندار اور ایک خریدار کا صرف ایک ریال کے بارے میں اختلاف ہوا یہاں تک کہ خریدار نے اپنے بغل میں پڑے ایک لوہے سے دوکاندار کے سر میں مارا جس کے نتیجے میں اس کی وفات ہوگئی اور جب معاملہ شرعی کورٹ میں گیا تو قاضی نے بطور قصاص قاتل کے قتل کا فیصلہ سنایا اور یہ سزا سرے عام نافذ بھی کردی گئی ۔ 

اس کا سبب ایک ریال نہیں ہے جیساکہ لوگ سمجھ رہے ہیں بلکہ اس کا سبب عام لوگوں میں پائی جانے والی ایک خطرناک بیماری ہے جو لوگوں کو ان کی اصل حالت ، سوچ اور عقل سے دور کر دیتی ہے جس کا نتیجہ بیویوں کے طلاق ، بچوں کی جدائی دوستوں میں لڑائی اور بھائی و رشتہ داروں میں اختلاف کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ، وہ ہے غصہ آنے کی بیماری۔

اللہ تبارک وتعالی نے جہاں اپنے مومن ومخلص بندوں کی متعدد صفات بیان کی ہے وہیں ان کی یہ صفات بھی بیان کی ہے کہ " الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (134) " یعنی وہ اپنے غصے کو پی جاتے اور روک لیتے ہیں اور قدرت کے باوجود حلم سے کام لے کر عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پہلوان وہ نہیں جو اپنے مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ حقیقی پہلوان وہ ہے کہ جب اسے غصہ آئے تو اپنے آپ پر قابو پالے ۔ 
[ صحیح بخاری و مسلم  ]

زیر بحث حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ کرنے سے منع فرمایا ہے حالانکہ غصہ کا آنا انسان کی فطرت میں ہے جس پر کسی فرد و بشر کو اختیار نہیں ہے بلکہ اصل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ایک مومن بندے کو اولا ان امور سے پرہیز کرنا چاہئے جو غصہ کا سبب بنتے ہیں اور ثانیا جب غصہ آجائے تو اسے حتی الامکان دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم پہلے ان اسباب کو پہچانیں جو غصہ کا سبب بنتے ہیں ۔

 غصہ کے اسباب : 

جب آدمی سامنے والے کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے تو فطری طور پر اس کے نقد اور جواب پر غصہ ہوتا ہے جیساکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے غصہ کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ غصہ کا سبب باعزت بننا ، حمیت ، تکبراور بڑا پن ہے ۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ جب کوئی بیٹا اپنے باپ پر ، خادم اپنے آقا پر ، شاگرد اپنے استاذ پر اور عامی کسی عالم پر معترض ہوتا ہے تو مذکورہ حضرات فورا غصہ میں آجاتے ہیں ، جس کے پیچھے صرف خود بینی اور بڑے پن کا جذبہ کام کرتا ہوتا ہے ، اسی لئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بینی و کبر کو حرام قرار دیا ہے ، لہذا ہر شخص کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ 

بحث وجدال : عمومی طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مجلس میں گفتگو کی ابتدا بالکل سنجیدہ ماحول میں ہوتی ہے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے آواز بلند ہونی شروع ہوتی ہے ، ہر فریق اپنی رائے پر اڑ جاتا ہے اور سنجیدگی کی جگہ غصہ کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے ، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے بحث سے منع فرمایا ہے ، ارشاد نبوی ہے : میں جنت کے اطراف میں اس شخص کے لئے ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود بحث و مباحثہ کو ترک کردیتا ہے ۔ [ سنن ابو داود ] 

کثرت مذاق : بہت سے لوگ مذاق اور خصوصا کثرت مذاق کے متحمل نہیں ہوتے ، اس لئے ان سے مذاق کرنا یا بار بار مذاق کرنا غصہ کا سبب بنتا ہے ،درج ذیل حدیث میں اسی مذاق سے روکا گیا ہے کہ اپنے بھائی سے نہ لڑائی کرو ، نہ مذاق کرواور نہ ہی وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرو ۔ [ سنن ابوداود ] 

بدزبانی و گالی گلوج : بات بات پر گالی دینا ، ہر ایک کے ساتھ بد زبانی سے پیش آنا غصہ کا بہت بڑا سبب ہے ، بلکہ اگر کوئی شخص کسی کو مذاق میں بھی بے وقوف کہتا ہے تو سننے والا شخص غصہ میں آجاتا ہے ، سچ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے : فحش گوئی ، فحش کلامی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور سبب سے اچھا مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے عمدہ ہیں ۔ [ مسند احمد ] ۔ 

غصہ کا علاج

سیدنا سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گالی گلوچ کررہے تھے ان میں کا ایک غصے میں آگیا ، اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اس کی رگیں پھول گئیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا :" میں ایک کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ اسے کہہ لے تو اس کی یہ کیفیت دور ہوجائے ، وہ کلمہ ہے " اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم " [ میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ]" چنانچہ جن لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا ان میں سے ایک شخص اس غصہ ہونے والے شخص کے پاس گیا اور کہنے لگا : کیا تم جانتے ہو کہ ابھی ابھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا  : اس نے جواب دیا : نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ ہیں میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں جسے اگر یہ پڑھ لے تو  اس کا غصہ جاتا رہے ، وہ کلمہ ہے  : " اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم " اس شخص نے کہا کہ کیا تو مجھے پاگل سمجھ رہا ہے ۔ [صحيح البخاري : 3282 ، بدء الخلق / صحيح مسلم : 2610 ، البر / الفاظ صحیح مسلم کے ہیں]
غصہ ایک ایسا اخلاقی مرض ہے کہ اگر فوری اور صحیح علاج نہ کیا گیا تو اس کا اثر باہمی نا اتفاقی ، حسد و کینہ ، بغض و نفرت ، گالی و گلوچ حتٰی کہ مارپیٹ ، قتل و خونریزی ، طلاق اور مال و اولاد پر بد دعا کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ، اس لئے اپنے دین و ایمان پر حریص شخص کے لئے ضروری ہے کہ اس مرض کا علاج کرے ۔گویا تزکیہ نفس کے لئے غصہ پر قابو پانا ایک ضروری جزو ہے۔
یعنی ایک مومن یہ سوچے کہ اللہ اور اس کے رسول نے غُصّہ آنے پر صبر سے کام لینے اور لوگوں کی غلطی کو معاف کردینے کا حکم دیا ہے ، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ( سورة فصلت : 34)  
" اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے "

ایک صحابی نے سوال کیا اے اللہ کے رسولﷺ مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے کہ اس پر عمل کرلوں تو مجھے جنت مل جائے ، آپ ﷺ نے فرمایا : غصہ نہ کرو تمہیں جنت میں داخلہ مل جائے گا ۔ [ الطبرانی الاوسط : بروایت ابو داود ] ۔

 ایک شخص نبی ﷺ سے سوال کرتا ہے کہ وہ کون سا عمل ہے جو مجھے اللہ کے غضب سے محفوظ رکھے آپ ﷺنے فرمایا : تم غصہ نہ کرو ( اللہ تعالیٰ تم پر بھی غصہ نہ ہوگا ) (مسند احمد)

 ارشاد نبوی ﷺہے کہ : اللہ تعالی کے نزدیک غصہ کا گھونٹ پی جانے سے زیادہ اجر والا کوئی اور گھونٹ پینا نہیں ہے ۔( ابن ماجہ)

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اگر وہ کھڑا ہوتو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہوتو لیٹ جائے ۔  [ سنن ابو داود ، بروایت ابو ذر ] ۔
اور اگر مناسب سمجھے تو وہ اُ س جگہ ہی کو چھوڑدے اور دور ہٹ جائے ۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : اگر کسی کو غصہ آئے تو وہ خاموش ہوجائے "[ مسند احمد ]‎​

تزکیہ نفس کے لئے وقت کی قدر:

دنیا کی زندگی اور اس کا مال و اسباب عارضی اور فانی ہے۔ ہر نفس نے یہاں اپنی مقررہ مدت گزارنے کے بعد دارہ آخرت کو کوچ کرنا ہے جو مستقل اور ابدی ٹھکانہ ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت برحق ہے۔ اس عقیدہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم اس دنیا میں غفلت کی زندگی گزاریں تو نہایت تعجب کی بات ہے۔ یاد رکھیں کہ زندگی کی صورت میں جو ’وقت‘ ہم گزار رہے ہیں اس کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے۔ وقت ایک ایسی چیز ہے جسے آپ کسی بھی کرنسی کے عوض خرید نہیں سکتے۔ یہ انسان کا ایسا محفوظ سرمایہ ہے جو اہس کو دنیا اور آخرت میں نفع دیتا ہے۔ دنیا میں انسان اگر کسی قیمتی چیز کو کھو دے تو امید ہوتی ہے کہ وہ چیز شاید اسے پھر کبھی مل جائے اور بعض اوقات اسے مل بھی جاتی ہے لیکن وقت ایسی چیز ہے جو ایک بار گزر جائے تو پھر اس کے واپس آنے کی ہرگز امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ گزرا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔
اس کی مثال ایک برف فروش کی سی ہے۔ اگر دکان دار نے برف کے پگھلنے سے پہلے اسے فروخت کر دیا تو نفع کما لیا، ورنہ گھاٹے میں رہا۔ اسی طرح ایک ضرب المثل مشہور ہے ’’تب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘۔ اسی لیے انسان کو چاہیے کہ وہ وقت کا صحیح استعمال کرے اور غفلت سے دُور رہے۔ ہر ہر لمحمہ دینی اصولوں کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں۔

بحیثیت مسلمان ہمیں باقی مذاہب کے ماننے والوں سے بڑھ کر وقت کی قدر کرنا چاہیے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ دنیوی زندگی، آخرت کے لئے کھیتی کی مانند ہے۔ ہم اس میں جو بوئیں گے آخرت میں وہی کاٹیں گے۔ اگر ہم اس زندگی میں اپنے وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے بھلائی، خیر اور حسنات کے بیج بونے میں صرف کریں گے تو کل یوم قیامت ہمیں فلاح و نجات کا ثمر ملے گا :

كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ۔(الحاقة، 69 : 24)
’’(اُن سے کہا جائے گا:) خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو اُن (اَعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ (زندگی کے) اَیام میں آگے بھیج چکے تھے۔‘‘

اس کے برعکس اگر اس زندگی میں وقت کی قدر نہ کی جائے اور اسے غفلت، سستی و کاہلی میں گزارتے ہوئے برائی، شر اور سیئات کی نذر کر دیا جائے تو پھر مایوسی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا :
أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ۔(فاطر، 35 : 37)
’’(ارشاد ہوگا:) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا، وہ سوچ سکتا تھا اور (پھر) تمہارے پاس ڈر سنانے والا بھی آچکا تھا، پس اب (عذاب کا) مزہ چکھو سو ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہ ہوگا۔"

یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے جس کے باعث اسلام میں وقت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اسے ضائع کرنے کے ہر پہلو کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ زیرِ نظر مضمون کا مقصد تحریر بھی یہی ہے کہ ہمارے اندر وقت کی قدر و منزلت اجاگر ہو اور ہم ہر ساعت کو بہتر طریقہ سے گزارنے کے قابل بن جائیں تاکہ ہمیں دنیا اور آخرت کی فوز و فلاح نصیب ہو۔

قرآن کی روشنی میں وقت کی اہمیت

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے جس سے وقت کی بے پناہ اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفجر میں ’وقتہ فجر اور عشرۂ ذوالحجہ‘ کی قسم کھائی ہے :
وَالْفَجْرِ، وَلَيَالٍ عَشْرٍ۔(الفجر: 1 - 2)
’’اس صبح کی قَسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی)اور دس (مبارک) راتوں کی قَسم۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی قسم بھی کھائی ہے، ارشاد ہوتا ہے :
وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى، وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى۔(الليل: 1 - 2)
’’رات کی قَسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے) اور دن کی قَسم جب وہ چمک اٹھے۔‘‘
اسی طرح  مزید اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحیٰ میں چاشت کے وقت اور رات کی اور سورۃ العصر میں زمانہ کی قسم کھائی۔

مذکورہ تمام آیاتہ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے فجر، صبح، چاشت، رات، دن اور زمانہ کی قسم کھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول ہے کہ وہ ہمیشہ کسی غیر معمولی شے پر قسم کھاتا ہے۔ لہٰذا ان آیات میں جو اس نے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ان کے ذریعے درحقیقت ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اپنی زندگی کے اوقات کو معمولی اور حقیر نہ سمجھو، اس کے ایک ایک لمحہ کا تم سے حساب ہونا ہے۔

احادیثہ مبارکہ کی روشنی میں وقت کی اہمیت:

احادیثہ مبارکہ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقت کی اہمیت کو بیحد اجاگر کیا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں : صحت اور فراغت۔( بخاری، الصحيح، ترمذی، السنن)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرمایا :
’’قیامت کے دن بندہ اس وقت تک (اللہ کی بارگاہ میں) کھڑا رہے گا جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے گا :
1۔ اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری،
2۔ اس نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا،
3۔اس نے مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا۔ 4۔اس نے اپنا جسم کس کام میں کھپائے رکھا۔‘‘ترمذي، السنن: 2417)
ان سوالوں کے جواب کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے احوالہ حیات کا جائزہ لینا ہوگا اور پھر درستگی کی طرف آنا ہوگا۔ اسی صورت میں ہم قیامت کے روز اللہ پاک کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ سکیں گے۔

اتنے واضح فرامین جاننے کے بعد بھی اگر کوئی مسلمان غفلت کا مظاہرہ کرے اور اپنے دن و رات کو کھیل کود، فضول گپ شپ، کھانے پینے، ہوٹلنگ، سیر و سیاحت، گھومنے پھرنے۔فلموں و ڈراموں،انٹر نیٹ اور ضرورت سے زیادہ سونے میں گزار دے تو اس پر سوائے حیف کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ کبار رضوان ﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے وقت کی حقیقی معنی میں قدر کی، تبھی تو صدیاں گزرنے کے باوجود وہ تاریخ کے اوراق میں زندہ ہیں۔
اس کی سب سے بڑی مثال آپ یہ جو مضمون پڑھ رہے ہیں یہ سب انہیں ہی کی بطفیل ہے۔ لہذا تزکیہ نفس کے لئے وقت کی قدر کرنا نہایت ضروری ہے ۔

دلوں کی زنگ آلودگی

دل ‘‘ جسمِ انسانی میں قدرت الٰہی کی عظیم نشانی ہے۔ یہ بظاہر گوشت کا ایک ٹکڑا اورخون پمپ کرنے کا قدرتی آلہ ہے لیکن معنوی و روحانی اعتبار سے معرفت ربانی کا مرکز ومنبع ہے۔ ظاہری و باطنی صلاح و فساد کا اسی سے گہرا ربط و تعلق ہے ۔ تصدیق و یقین اور نور ایمان وہدایت کی شعاعیں اسی سے پھوٹتی ہیں اور کفر و ضلالت ، زیغ و نفاق کی گھٹائیں اسی پر چھاتی ہیں ۔ قلب و دل کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس کی اصلاح کی فکر پر زور دیا گیا اور کتب و سنت میں اس کی پرزور تاکید کی گئی ۔ دل ، ایمان سے لبریز ہوتو اس کے آثار بندۂ مومن کے اعضاء وجوارح پر ظاہر ہوتے ہیں ، پھر قرآن پاک کی تلاوت ، نماز،روزہ ،زکات،حج وغیرہ اس میں غور و تدبر ، انبیاء و صلحاء اور نیک لوگوں کی صحبت سے ایمان و یقین میں ترقی ہوتی ہے اور بندۂ مومن کا دل تقویٰ ، انابت ، خشوع وغیرہ صفات سے متصف ہوتا اور ترقی کرتے ہوئے مرتبۂ کمال کو پہنچتا ہے ۔ صحیح و تندرست دل کے یہ مراتب اور درجات وہ ہیں جو ﷲ تعالیٰ کی مدد و توفیق کے بعد بندہ اپنے اختیار سے طے کرتا ہے ۔

کوئی ابتدائی درجہ ہی پر قناعت کر بیٹھتا ہے تو کوئی ترقی کے منازل طے کرنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے ۔ انسان کی سعی و کوشش کے سبب ان افعال کی نسبت بندوں کی طرف ہوتی ہے لیکن دلوں کی صفات اور ان پر طاری ہونے والے افعال کی مناسبت سے بعض افعال وہ ہیں جن کی نسبت خاص طور پر ﷲ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے ۔ ان میں دلوں کی پاکیزگی اور اس میں ایمان کی زینت بخشنا یعنی دلوں کے سامنے ایمان کو مزین و خوشنما کردینا ہے۔ ﷲ جن کے دلوں کو پاک صاف کردے اور اس میں ایمان کو مزین کردے ، وہی دل ، ایمان و یقین کی دولت سے سرفراز ہوتے ہیں اور پھر ایسے دل والے ﷲ کی توفیق سے مزید ترقی کرتے اور ایمان و یقین کے درجات میں آگے بڑھتے ہیں ۔اور تزکیہ نفس کے اصل مقام پر پہنچ جاتے ہیں ۔

جب یہ دل ہدایت سے محروم ہوتے ہیں تو یہ ٹیڑھے ہو جاتے ہیں اور یہ کج روی کو پسند کرتے ہیں۔ یہ ضلالت و گمراہی کو اختیار کرتے ہیں۔ قرآن دلوں کے احوال میں یہ بھی ذکر کرتا ہے کہ کچھ دلوں میں گناہوں کے باعث زنگ لگ جاتا ہے اور پھر گناہوں کے باعث ان کا زنگ بڑھتا رہتا ہے۔ ان کی چمک دمک، اجلا اور شفاف پن ختم ہوجاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کَلَّا بَلْ سکته رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا يَکْسِبُوْنَ.
’’(ایسا) ہر گز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے (اس لیے آیتیں ان کے دل پر اثر نہیں کرتیں)‘‘۔(المطففين، 83: 14)

جوں جوں انسان گناہ کرتا ہے، دل پر زنگ چڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کے وجود میں نافرمانی کی رغبت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ دل کے زنگ کے باعث گناہوں کی طرف رغبت ہونے لگتی ہے۔ ادھر بندہ فعل بد کرتا رہتا ہے نافرمانی کے عمل کو اپنائے رکھتا ہے۔ معصیت کو اپنی علامت بنائے رکھتا ہے، شر کو اپنی پہچان بنائے رکھتا ہے۔ اللہ کی اطاعت سے دوری کو اپنی خصلت بنائے رکھتا ہے۔ ہر عمل سوء کو اپنائے رکھتا ہے جس کے لئے فرمایا: ماکانوا یکسبون یعنی گناہوں کو مسلسل کرتا رہتا ہے۔ گناہ آلود افعال کو مسلسل جاری رکھتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے بل ران علی قلوبہم یعنی ان گناہوں کے باعث لوگوں کے دل زنگ آلود ہوتے رہتے ہیں اور اس زنگ کی وجہ سے وہ نیکی اور اطاعت سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہر گناہ ان کے دل کو سیاہ کرتا چلا جاتا ہے، ادھر گناہ بڑھتے رہتے ہیں ادھر دل کی تاریکی بڑھتی رہتی ہے۔ دل کی سیاہی اور دل کی زنگ آلودہ کیفیت دل کو قلب اثم بنا دیتی ہے۔ اب اس ظلمت کدہ دل سے گناہ تو جنم لیتا ہے نیکی ظاہر نہیں ہوتی۔

اسی طرح قرآن، قلب قاسیہ کا بھی ذکر کرتا ہے کچھ دل ایسے ہوتے ہیں جو پتھر نما ہوتے ہیں جو پتھروں کی طرح سخت ہوتے ہیں۔ یہ دل بھی نافرمانی اور معصیت کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ دل بھی گناہ آشنا ہوتے ہیں، یہ دل بھی اپنی قساوۃ اور سختی کے باعث نیکی کی طرف نہیں بلکہ بدی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ط وَکَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ.
’’پھر ان پر مدّت دراز گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے، اور ان میں بہت سے لوگ نافرمان ہیں‘‘(الحديد، 57 :16)

اسی طرح سورہ الحج میں ارشاد فرمایا:
فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْقَاسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ.
’’جن کے دلوں میں (منافقت کی) بیماری ہے اور جن لوگوں کے دل (کفر و عناد کے باعث) سخت ہیں‘‘(الحج، 22: 53)

اور اسی طرح سورہ الانعام میں ارشاد فرمایا:

وَلٰـکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ مَاکَانُوْا يَعْمَلُوْنَ.’’لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دل سخت ہوگئے تھے اور شیطان نے ان کے لیے وہ (گناہ) آراستہ کر دکھائے تھے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘(الانعام، 6: 43)

قرآن انسانی دلوں کی سختی کو پتھروں اور چٹانوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے یوں بیان کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَهِیَ کَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً ط وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ ط وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآئُط وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اﷲِط وَمَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ.(البقرہ:74)
"پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس سے بھی زیاده سخت ہوگئے، بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے گرگر پڑتے ہیں، اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔"
اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ اپنے بندوں کو متوجہ کر رہا ہے کہ تم اپنے رب کی نافرمانی میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہو کہ تمہارے دل پتھروں جیسے ہو گئے ہیں اور تمہارے دلوں میں پتھروں جیسی سختی و قساوت آ گئی ہے۔ ان دلوں میں نرمی نہیں رہی، ان دلوں میں رحمت نہیں رہی، ان دلوں میں رافت نہیں رہی، یہ دل ہے تو گوشت کا ایک لوتھڑا مگر یہ گناہوں کے باعث پتھروں کی طرح سخت ہو گیا ہے اور چٹانوں کی طرح ان میں قساوت آ گئی ہے۔ اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ نے انسان کو متوجہ کیا ہے کہ ابھی بھی تم اگر اپنے رب کی طرف لوٹ آؤ تو ان دلوں کی سختی نرمی سے بدل سکتی ہے۔ ان کی قساوت خستگی اور شکستگی میں ڈھل سکتی ہے۔

اسی آیت میں آگے پھتروں کی دوسری قسم سے متعلق ارشاد فرمایا:
وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ.
’’اور یقینا ان میں سے بعض وہ (پتھر) بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی ابل پڑتا ہے‘‘۔(البقرة: 74)

یہاں واضح کیا جارہا ہے کہ قساوت کے اعتبار سے پتھروں کی دوسری قسم وہ ہے کہ جن پر من خشیۃ اللہ کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ اپنی مضبوطی اور سختی کے باوجود، لما یشقق وہ پھٹ جاتے ہیں۔ ان کا سینہ بھی شق ہوجاتا ہے تو ان سے نہریں اور چشمے تو جاری نہیں ہوتے۔ البتہ ان سے پانی رسنے لگتا ہے اور تھوڑا تھوڑا پانی ٹپکنے اور بہنے لگتا ہے، ان میں بھی پانی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں بھی پانی بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ بھی اللہ کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرتے ہیں اور اپنے وجود سے پانی جاری کرکے آنسو بہاتے ہیں۔ پتھروں کی یہ قسم بھی ان بندوں کو متوجہ کرتی ہے جن کے دل سخت ہیں اور جن کے دل پتھر بن گئے ہیں۔ اگر یہ دل پتھر ہوگئے ہیں تو پھر بھی یہ اللہ کے حضور ایسے ہوجائیں کہ ان کی آنکھیں کبھی اللہ کی یاد میں نمناک ہو جائیں ان آنکھوں سے آنسو کی جھڑی تو نہ لگے اور برسات کی کیفیت نہ ہو اور موسلا دھار بارش کی طرح گریہ و زاری تو نہ ہو مگر یہ اللہ کی یاد میں اور رب کے خوف میں نمناک ضرور ہوجائیں۔ یہ آنسو سے تر ہوجائیں، یوں غفلت دور ہوجائے اور معرفت الہٰیہ اور وصال الہٰیہ کی کچھ خیرات مل جائے اور حق بندگی کا کچھ فرض ادا ہوجائے اور اس کی فرمانبرداری کی کوئی صورت ہوجائے، اس کی یاد آنسوؤں کے موتیوں سے آباد ہوجائے، یہ بہتے ہوئے آنسوؤں کی لڑی ایک مالا بن جائے اور بندے کے لئے خوبصورت مالا عبدیت کا روپ دھار لے۔

اس کے بعد اسی آیت میں پتھروں کی تیسری قسم کا ذکر فرمایا ہے۔

وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اﷲِ.
’’اور بے شک ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں، (افسوس! تمہارے دلوں میں اس قدر نرمی، خستگی اور شکستگی بھی نہیں رہی)‘‘۔(البقرة: 74)
فرمایا پتھروں میں سے بعض ایسے ہیں جن سے نہریں اور چشمے تو جاری نہیں ہوتے اور وہ پھٹتے تو نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔ وہ اپنی بلندیوں کو چھوڑ کر نشیب کی طرف آتے ہیں۔ وہ اونچائیوں کو ترک کرکے پستی کی طرف آتے ہیں۔ وہ اپنی مضبوط جگہ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اللہ کے لئے گر پڑتے ہیں۔ اس کی یاد میں سقوط کرتے ہیں، اس کے خوف کی وجہ سے اپنی جگہ کو ساقط کر دیتے ہیں۔ پتھروں کی یہ تیسری قسم بندوں کو اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ ہمارے دلوں کی کم از کم یہ حالت ہوکہ جس طرح پتھر، اللہ کے خوف سے گرتے ہیں اس طرح ہم بھی اپنی زندگیوں میں گناہوں کو گرادیں۔ اپنی زندگی سے اللہ کی نافرمانی کو ساقط کردیں، اپنی زندگی سے رب کی سرکشی اور ناآشنائی کو ختم کردیں۔ اپنی زندگی سے ہر معصیت و برائی کو رفع کردیں۔ اپنی زندگی سے ہر شر کو دور کردیں۔
اگرچہ ہمارے وجودوں میں فرمانبرداری اور عبادت گزاری اپنے کمال پر دکھائی نہ دے کم از کم ایسے تو ہو جائیں کہ ان وجودوں سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔ ہمارے وجودوں سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، ہمارے وجودوں سے کسی کو شر نہ پہنچے، ہمارے وجود دوسروں کے لئے سلامتی کے وجود ہوں ہمارے وجود دوسروں کے لئے خیر اور امن کے وجود ہوں، ہمارے وجود عباد اللہ کی اعلیٰ صفات سے مزین ہوں، ہمارے وجود اعلیٰ انسانی اقدار کے حامل ہوں، ہمارے وجود عالم انسانیت کے لئے باعث فخر ہوں۔ باعث عار اور ندامت نہ ہوں۔ یہ تبھی ہوگا جب تک ہم اپنے شعوری فیصلے کے ذریعے، اللہ کی فرمانبرداری اور اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کا عزم مصمم نہ کرلیں اور اپنے وجود سے ہر شر کا خاتمہ نہ کردیں اور اپنے وجود میں ہر خیر کو اپنا نہ لیں۔
ایمان و یقین اور ہدایت کا سرچشمہ اور مرکز دراصل دل ہی ہے ۔ دل کو ہدایت مل جائے تو باقی سارے اعضائے جسم تو دل کے تابع ہیں اور یہ ہدایت ﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق ہی سے ملتی ہے۔ ﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور اس کی طرف سے بڑی رحمت یہی ہے کہ بندہ کو ہدایت نصیب ہو جائے ،اس سے بڑھ کر کوئی فضل اور انعام نہیں چنانچہ ہدایت و رحمت کا ذکر اسی مناسبت سے قرآن پاک میں کئی جگہ ایک ساتھ آیا ہے ، ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’
فَقَدْ جَاءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ...۔(الانعام:157)
"سو اب تمہارے پاس تمہارے رب کے پاس سے ایک کتاب واضح اور رہنمائی کا ذریعہ اور رحمت آچکی ہے۔"
دل میں اس بات کی صلاحیت ہے کہ وہ ﷲ تعالیٰ کی توفیق سے ایمان کی طرف مائل ہوجائے یا اس کے ارادہ و مشیت ہی سے کفر کی طرف جھک جائے ۔ ابتداء ًدل میں ہدایت کا اُترنا ﷲ تعالیٰ کی توفیق سے ہوتا ہے تو اس پر استقامت اور دل کا ہدایت کی راہ پر قائم رہنا بھی ﷲ کے فضل ہی کا نتیجہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طلبِ ہدایت کے ساتھ ساتھ ہدایت پر قائم رہنے اور سیدھے راستہ پر چلتے رہنے کی دُعا سکھائی گئی
ترمذی کی ایک روایت میں ایک نبوی دُعا اس طرح منقول ہے، حضرت عبد ﷲ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ﷲﷺ کو نماز سے فارغ ہوکر یہ کہتے سنا: ’’ اے ﷲ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کی طرف سے اس خاص رحمت کا جس کے ذریعہ آپ میرے دل کو ہدایت دیں۔ ‘‘ (ترمذی ) ۔

یہ دُعا بھی آپﷺ بہت زیادہ ﷲ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے :  «يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك» ’’ اے دلوں کو پلٹنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھئے۔‘‘
اُم المومنین حضرت اُم سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا: یا رسول ﷲ (ﷺ) !آپ ﷺ اکثر یہی دُعا مانگا کرتے ہیں (ایسا کیوں ؟ ) ،تو آپﷺ نے فرمایا: ’’ اے اُم سلمہؓ ! کوئی آدمی بھی ایسا نہیں مگر یہ کہ اس کا دل ﷲ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے ، جس کیلئے چاہے وہ ( یعنی ﷲ دل کو ) سیدھا رکھے اور جس کیلئے چاہے وہ ( دل کو ) ٹیڑھا کردے۔‘‘ درجِ بالا دُعا رسول ﷲﷺسے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور بعض دیگر صحابہؓ نے بھی نقل کی ہے اور صحیح سند سے مختلف کتب ِاحادیث میں مروی ہے۔ ( ملاحظہ ہو : ترمذی، ابن ماجہ) ۔
لہذا تزکیہ نفس کے لئے دل کو اللہ کے ذکر میں مشغول رکھتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی سے مسنون دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔
جاری ہے۔۔۔

اس سے متعلقہ سابقہ قسط کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_17.html?m=1

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_23.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_30.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_15.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/10/blog-post.html

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...