Friday 13 October 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو


تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#115

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

بدگمانی اور اس کے اثرات

یوں تو تمام رذائل اخلاق انسانی شخصیت اور معاشرے  کے لیے نقصان دہ ہیں اور اسلام ان سے کلیتاً اجتناب کا حکم دیتا ہے لیکن بدگمانی ایسی متعدی بیماری ہے جو انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرے کی اجتماعی زندگی تک بگاڑ کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیتی ہے۔

بدگمانی کے معنی:

لغت میں بدگمانی کے معانی، بدظنی ، بدخیالی،بدنیتی اور برا خیال رکھنے کے معنی میں ہے۔ اور دوسروں کے بارے میں غلط سوچنے کے معنی میں آتا ہے۔
بہ الفاظ دیگر،بدگمانی، وہ ہے کہ انسان دوسروں کے کردار و گفتار کے بارے میں ناروا خیالات سے دوچار ہو اور اپنے ان افکار کو عملی جامہ پہنائے اور اپنے اس ناروا خیال کو حقیقت کی صورت میں دیکھے۔یعنی کسی کے بارے میں کوئی ایسی منفی رائے یا اندازہ قائم کرنا جس سے تعلقات پر اثر پڑے۔دینی تعلیمات میں، جو شخص دوسروں کو برا سمجھتا ہے،اسے بدگمان ،بدخواہ، اور بداندیش کہا جاتا ہے۔

جبکہ اسلام کے نظریہ کے مطابق فکر و اندیشہ کے مرحلہ میں انسانوں کے اجتماعی روابط "خیرخواہی" کے اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں، اس معنی میں کہ مسلمان کو اپنے دینی بھائیوں اور بہنوں کے بارے میں نیک نیت ہونا چاہئیے، ان کے بارے میں دل میں خیرخواہی، نصیحت، دوستی اور سعادت کا جذبہ رکھتا ہو اور ان کے خلاف سازشیں کرنے سے پرہیز کرے۔

بد گمانی عربی کے لفظ 'الظن 'کا ترجمہ ہے ۔ عربی کا 'ظن 'اچھے اور برے دونوں معنی میں آتا ہے۔ جس طرح اردو میں گمان دونوں معنی میں آتا ہے۔قرآن مجید میں جہاں بدگمانی سے روکا گیا ہے ، وہاں 'سوء الظن 'کے بجائے صرف 'ظن 'ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
فرمان الہی ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ، اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ...(الحجرات:12)

''اے ایمان والو، کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں...''

اس آیت سے یہ واضح ہے کہ قرآن مجید نے محض بدگمانی سے نہیں روکا، بلکہ اس نے کثرت گمان سے روکا ہے۔ یعنی قرآن مجید نے ہمیں اس بات سے روکا ہے کہ ہم خواہ مخواہ دوسروں کے بارے میں ظنون تراشتے رہیں۔ یہاں سیاق کلام سے یہ بات بالکل متعین ہے کہ یہاں جن گمانوں کی بات ہو رہی ہے ، وہ لوگوں ہی سے متعلق ہیں۔یعنی اخلاقی دائرے میں آنے والے گمان۔ ان کی کثرت بری چیز ہے۔چونکہ یہ اخلاقیات سے متعلق ہے۔ اس لیے اخلاقیات میں ہر خرابی اسلام کے نزدیک برائی ہے،اور وہ ایک قابل مواخذہ جرم ہے۔

گویا لوگوں کے بارے میں ہمیں اصل میں ان ہی کے عمل و نظریہ کی بنیاد پر رائے بنانی چاہیے۔ ان کے بارے میں ہماری رائے نہ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہونی چاہیے اور نہ ہمارے بے بنیاد خیالات پر، جو بلا دلیل ہمارے دل میں پیدا ہو گئے ہوں۔ہمارے وہ خیالات جن کی بنیاد محض ہمارا گمان ہو ، درست بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تابیر نخل میں اپنی ایک رائے کے بارے میں فرمایا تھا:

فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُم، وَإِنَّ الظَّنَ یُخْطِئُ وَ یُصِیْبُ.(ابن ماجہ، رقم ۲۵۶۴)
'' میں بھی تمھارے جیسا انسان ہوں، وہ میرا ایک خیال(گمان ) تھا، اور خیالات صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی۔''

گمانوں کی کثرت سے اسی لیے روکا گیا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں خطا کا امکان ہے۔اگر ہمارا گمان صحیح بھی ہے تب بھی اس میں یہ خرابی ضرور موجود ہے کہ وہ ہمارا گمان ہے ، کسی ٹھوس شاہد و دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ بندۂ مومن کو اپنی آرا کو حتی الامکان ٹھوس چیزوں پر مبنی کرنا چاہیے۔

فرمان باری تعالی ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ، اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلًا.(بنی اسرائیل۱۷: ۳۶)
''اور جس چیز کا تمھیں علم نہیں، اس کے درپے نہ ہو کیونکہ کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر چیز سے پرسش ہونی ہے۔''

قرآن کی رو سے اس ضمن میں اصلاً مطلوب یہی ہے کہ ہم لوگوں کے بارے میں کسی قسم کی ایسی آرا نہ بنائیں، جن کی ہمارے پاس ٹھوس بنیاد (علم)موجود نہ ہو۔

بدگمانی ایک ایسا گناہ ہے جس کے کرنے سے انسان دیگر گناہوں کی دلدل میں خود بخود پھنستا چلا جاتا ہے کیونکہ جب انسان کے دل میں کسی کے متعلق کوئی بُرا گمان آتا ہے پھر وہ اپنے گمان کی تصدیق کے لیے اس کی ٹوہ میں رہتا ہے، اس کی باتیں سنتا ہے اور اس کے حالات کا مشاہدہ کرتا ہے ۔ بعض اوقات جاسوسی کرتا اور کرواتا ہے تاکہ اس کے ذہن میں اس شخص کے متعلق جو برا گمان آیا تھا، اس کی تائید اور توثیق حاصل کر سکے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی ﷺ نے بدگمانی کے بعد تجسس کرنے یعنی کسی کی ٹوہ میں لگے رہنے سے سختی سے منع فرمایا ہے ۔

صحیح بخاری میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”بدگمانی سے بچو، گمان سب سے بڑی جھوٹی بات ہے، بھید نہ ٹٹولو۔ ایک دوسرے کی ٹوہ حاصل کرنے کی کوشش میں نہ لگ جایا کرو، حسد بغض اور ایک دوسرے سے منہ پھلانے سے بچو، سب مل کر اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو سہو۔ (صحیح بخاری:6066 / صحيح مسلم : 2563 ، الأدب )

ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا﴾ [الحجرات: 49/ 12]
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! بہت سے گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے بعض دوسرے کی غیبت کرے-‘‘

امام قرطبی نے فرمایا کہ اس جگہ ظن سے مراد ایسی تہمت ہے جس کا کوئی سبب نہ ہو مثلا ایک آدمی کے بد کار یا شرابی ہونےکا خیال دل میں جما لینا حالانکہ اس سے ایسی کوئی بات سرزد نہیں ہوئی کہ اسے ایسا سمجھا جائے، اس لیے اس کے ساتھ فرمایا:
’’ ولا تجسسوا‘‘ 
’’جاسوسی مت کرو۔‘‘
کیونکہ جب کسی شخص کے برے ہونے کا خیال دل میں جگہ پکڑ لیتا ہے۔ حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی تو آدمی وہ بات ثابت کرنے کےلئے جاسوسی کرتا ہے ، ٹوہ لگاتا ہے، کان لگاتا ہے ، اس لیے اللہ تعالی نے اس سے منع فرما دیا-
یہ حدیث اس آیت سے بہت ملتی جلتی ہے-

آیت میں مسلمان کی عزت کو محفوظ رکھنے کی بہت ہی زیادہ تاکید کی گئی ہے، چنانچہ پہلے تو کسی بھی مسلم بھائی کے معاملے میں خواہ مخواہ کے گمان سے منع فرمایا جس کا کوئی باعث اور کوئی سبب نہ ہو، اگر گمان کرنے والا کہے کہ میں اس گمان کی تحقیق کے لئے جستجو کرتا ہوں تو اسے کہا گیا:
’’وَلَا تَجَسَّسُوا‘‘
’’ جاسوسی مت کرو۔‘‘
اگر وہ کہے جاسوسی کے بغیر مجھے یہ بات ثابت ہو گئی ہے تو کہا گیا :
﴿وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا﴾ 
’’ایک دوسرے کی غیبت (دوسرے بھائی کی عدم موجودگی میں وہ بات جو اسے ناپسند ہو خواہ اس میں موجود ہی ہو۔) مت کرو۔‘‘

پھر غیبت سے منع فرماتا ہے، ابوداؤد میں ہے لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! غیبت کیا ہے؟ فرمایا: ”یہ کہ تو اپنے مسلمان بھائی کی کسی ایسی بات کا ذکر کرے جو اسے بری معلوم ہو“، تو کہا گیا اگر وہ برائی اس میں ہو جب بھی؟ فرمایا: ”ہاں! غیبت تو یہی ہے ورنہ بہتان اور تہمت ہے“ ۔ (سنن ابوداود:4874،قال الشيخ الألباني:صحیح) 

بد گمانی کئ چند مثالیں:

ایک محلے میں ایک عورت آ کر بسی ۔ وہ اکیلی رہتی تھی۔لباس قدرے ہلکا پہنتی اور بہت تیز خوشبو کا استعمال کرتی۔وہ جب بھی گھر سے باہر نکلتی تو محور نگاہ ہوتی۔ اس کے گھر کے سامنے نئے ماڈل کی گاڑیاں آ کر رکتیں جن میں مرد حضرات اور بعض اوقات خواتین بھی آتیں۔ محلے میں کوئی بھی اس سے تعلق رکھنا مناسب  نہ سمجھتا۔محلے والے چہ مہ گوئیاں کرتے اور اشاروں کنایوں سے اس عورت کے بارے میں اپنی بد گمانی کا اظہار کرتے۔
اس مثال سے چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔
۱۔یہ عورت کون ہے؟
۲۔اسلامی نقطہ نگاہ سے اس کے بارے میں کیا رائے رکھی جائے؟
۳۔کیا اس کے بارے میں محلے والوں کی رائے گناہ ہے؟
بہرحال وہ عورت کئی دنوں سے گھر سے باہر
نہ نکلی اور نہ ہی دوکان پر آئی تو لوگوں کو تشویش ہوئی۔ایک پڑوسن ہمت کر کے اس کے گھر پہنچ گئی، لیکن وہ عورت سخت بیمار تھی۔ پوچھنے پر اس عورت نے بتایا کہ وہ درحقیقت جلد کی بیماری میں مبتلا تھی اس لئے وہ ہلکے  کپڑے پہنتی ، بدبو سے بچنے کے لئے خوشبو لگاتی تھی۔ وہ جو گاڑیاں آ کر رکتی تھیں وہ سب اس کے امیر بہن بھائی تھے جو اس کا حال و احوال پوچھنے آتے تھے۔

یہاں آپ دیکھیں کہ جیسے ہی آپ کا علم مکمل ہوا ، آپ کا گمان یا بدگمانی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ یقین نے لے لی۔

اسی طرح ایک لڑکی کی نئی نئی شادی ہوئی
یہ لڑکی(بہو) اکثر موبائل پر کسی سے باتیں کیا کرتی ۔ایک رات کو یہ لڑکی بات کر رہی تھی کہ اس کی ساس نے جاسوسی کرتے ہوئے اس کی باتیں سن لی اور  فورا اپنے بیٹے یعنی اس لڑکی کے خاوند کو بتایا کہ تمہاری بیوی رات کو کسی لڑکے سے باتیں کرتی ہے۔
اس کا خاوند جو کہ کسی دوسرے شہر میں کام کرتا تھا اس نے اپنی والدہ کی بات کو تحقیق کیے بغیر غصہ میں آ کر بیوی کو طلاق دے دی۔

° اس مثال سے چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔
یہ لڑکی کس سے بات کرتی تھی۔
° یہاں ساس اور اس لڑکی کے خاوند کو کیا کرنا چاہئے تھا۔؟
° اسلامی نقطہ نظر سے ساس اور اس کے بیٹے کو کیا کرنا چاہیے تھا۔

کچھ دنوں بعد جب لڑکا گھر آیا تو موبائل پر تمام موصول(receive)کالز کو دیکھا اور اس نمبر پر جب رابطہ کیا تو آگے لڑکی کا بھائی تھا۔۔جب سارے واقعہ کا پتہ چلا تو پھر جلد بازی میں اپنے کیے گئے فیصلہ پر سوائے پچھتاوے اور پریشانی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔
یوں ساس نے اپنے ذہن میں ایک غلط گمان کو پیدا کیا اور تحقیق کئے بغیر اپنے بیٹے کو بھی اپنے غلط گمان کا حصہ بنایا جس کی وجہ سے مسئلہ طلاق تک پہنچا۔

نوٹ:گذشتہ مثال میں ضروری نہیں کہ ایک ساس ہی بدگمانی کا شکار بلکہ یہ بطور مثال ایک نام پیش کیا گیا ہے۔

ان دونوں مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی نقطہ نظر یہ ہونا چاہیے کہ بعض اوقات ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے ہمیں نہ ہی تو جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرنا چاہئے اور نہ ہی فورا غلط گمانی کا شکار ہونا چاہیے ۔بلکہ سب سے پہلے تحقیق کی جائے پھر فیصلہ کیا جائے۔
فرمان ربانی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ﴿سورة الحجرات:6﴾
" اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔" 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ فاسق کی خبر کا اعتماد نہ کرو، جب تک پوری تحقیق و تفتیش سے اصل واقعہ صاف طور پر معلوم نہ ہو جائے کوئی حرکت نہ کرو، ممکن ہے کہ کسی فاسق شخص نے کوئی جھوٹی بات کہہ دی ہو یا خود اس سے غلطی ہوئی ہو اور تم اس کی خبر کے مطابق کوئی کام کر گزرو تو اصل اس کی پیروی ہو گی اور مفسد لوگوں کی پیروی حرام ہے۔ (تفسیر ابن کثیر )

یعنی کوئی خبر کسی معاشرتی، اخلاقی، مذہبی یا کسی اور پہلو سے اہمیت کی حامل ہے اور اس کی اشاعت یا فورا فیصلہ سے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں ۔ تو اس خبر کی اشاعت یا فیصلہ سے قبل اس کی تحقیق کرنا ضروری ہے۔
تا کہ مسلمان معاشرے کو غلط فیصلوں اور انتشار سے بچایا جائے۔

اسی طرح کے  ملتے جلتے سینکڑوں واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن اگر ہم اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے گمانوں پر تحقیق یا حسن ظن سے سوچیں تو پھر ایسے واقعات جنم نہ لیں۔۔۔

طوالت کے پیش نظر ذیل میں ہم چند ایک واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بدگمانی کے اسالیب کیا ہیں ۔

°ایک لڑکے لڑکی کا موٹر سائیکل یا گاڑی پر سفر کرتے ہوئے دیکھنا اور یہ گمان کرنا کہ ان دونوں کی عاشقی معشوقی(غلط تعلقات) ہے۔

°کسی کی باتوں کا غلط مفہوم اخذ کرنا جیسے کسی نے کہا کہ احمد بہت اچھا انسان ہے ۔تو آپ نے سمجھا کہ شاید یہ مجھے برا انسان سمجھتا ہے۔

° کسی کے چہرے مہرے یا باڈی لینگویج سے اندازے لگانا مثلاََ کسی کی کرخت شکل دیکھ کر یہ سمجھنا کہ کہ ضرور جرائم پیشہ ہوگا۔

°کسی کو ایک عورت کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دیکھنا اور ذہن میں یہ خیال پیدا کر لینا کہ دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات ہیں اور نتیجہ کے طور پر اس شخص کے ساتھ ایک بدکردار، بدعمل اور بری نظر رکھنے والے انسان کا برتاو کرنا۔

°کسی کے فعل کو غلط طور پر لینا جیسے کوئی شخص اذان سن کر بیٹھا رہا اور آپ نے یہ گمان کرلیا کہ وہ بے نمازی ہے۔یا کسی طاق میں بیٹھا ہو گا۔
° کسی شخص نے آپ کی بات کا جواب نہ دیا تو آپ نے گمان کیا کہ یہ مغرور ہے۔

° ساس کا مہربان رویہ دیکھ کر یہ سوچنا کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔

° توہمات پر یقین کرنا جیسے ہاتھ کی لکیروں ،فال نامہ یا ستاروں کی چالوں سے زندگی کے معاملات طے کرنا۔

°کسی پولیس والے کی زیادتی کی بنا پر پولیس کے تمام محکمے کو ظالم خیال کرنا۔

° کسی کے بہکاوے میں آکر بدگمانی کا شکار ہو جانا۔

° ایسی جگہوں پر نشست و برخواست کرنا جہاں پر تہمت لگائی جاتی ہو اور برے اور شرپسند افراد سے ہم نشینی بدظنی کے اسباب ہیں۔

° بعض اوقات کچھ لوگ لوگوں کے ذہنوں میں بدگمانی پیدا ہونے کے مواقع دیتے ہیں، یعنی ایسے کام انجام دیتے ہیں کہ، جو بھی دیکھے، ان کے بارے میں بدگمان ہوتا ہے، اسلام کی نظر میں یہ کام انجام دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ ایسی حالت میں، انسان اپنے ارادہ سے ، دوسروں کو اپنے بارے میں بدگمان بنا دیتا ہے اور اس کے لیے امکانات فراہم کرتا ہے۔

°عام طور پر، بدکردار اور شرپسند افراد، نیک اور صالح انسانوں کے بارے میں خاموش نہیں بیٹھتے ہیں، بلکہ ان کی عیب جوئی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان میں تھوڑی سی کمزوری پائیں، تو ، اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، اور اگر ان میں کسی قسم کی کمزوری نہ پائیں، تو جعل سازی کرتے ہیں۔
اس قسم کے افراد کے ساتھ ہم نشینی اس امر کا سبب بن جاتی ہے کہ انسان شائستہ اور نیک افراد کے بارے میں بدگمان ہو جائے اور ان کے رفتار و کردار کو الٹا کر کے ان کا تجزیہ کرے اور ان کے نیک اعمال کو برے بنا کر پیش کرے۔

گمانوں پر مواخذہ:

قرآن مجید نے گمانوں کو قابل مواخذہ قرار دیا ہے۔ گمان کئی پہلووں سے قابل مواخذہ ہو سکتے ہیں۔ ہم ذیل میں چند اہم چیزوں کی طرف اشارہ کریں گے، جو ہمارے گمانوں کی وجہ سے انجانے میں ہم سے سرزد ہو جاتی ہیں، اور یہی وہ چیزیں ہیں جو گمان کو گناہ بنا دیتی ہیں:

بے بنیاد خیال:

سورہ بنی اسرائیل کی آیت جو گزشتہ اسطور میں گزر چکی ہے اس میں  بتایا گیا ہے کہ ایسی آرا بنانے پر ہماری پرسش ہو گی، جن کے پیچھے کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہو گی،بلکہ وہ محض ہمارے خیال اور گمان پر مبنی ہو گی۔
ترجمہ''اور جس چیز کا تمھیں علم نہیں، اس کے درپے نہ ہو کیونکہ کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر چیز سے پرسش ہونی ہے۔''(بنی اسرائیل۱۷: ۳۶)

جس آنکھ نے غلط دیکھا، اور جس کان نے غلط سنا، اور جس دل نے غلط سوچا وہ مجرم ہے وہ پکڑا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غلط اور بے بنیاد آرا پر ہماری پکڑ ہو گی۔ اس لیے کہ بغیر کسی دلیل کے کسی کے بارے میں برا سوچنا ایک غلطی ہے۔ اس لیے اس غلطی پر بھی باز پرس ہوگی۔

چونکہ ہمارے گمان بے بنیاد ہوتے ہیں، اس لیے ہم یہ نہیں جان سکتے کہ کون سا گمان گناہ والا ہے اور کون سا نہیں۔ یعنی جب ہمیں حقیقت کا علم ہو گا تو تبھی پتا چلے گا کہ ہم غلط سوچ رہے تھے یا ٹھیک۔اس لیے حقیقت کے سامنے آنے تک ہم یہ نہیں جان سکتے کہ ہم غلط سوچ رہے ہیں یا صحیح ۔ اسی لیے قرآن مجید نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ بدگمانی کو ترک کرو، بلکہ اس نے کہا کہ بہت گمان نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ ان میں سے اکثر غلط ہی ہوں گے۔

بعض شارحین نے یہ بات کہی ہے کہ جو گمان اتہام اور بہتان کی شکل اختیار کر جائے وہ گمان گناہ ہے۔ لیکن قرآن نے یہ بات نہیں کہی۔ قرآن نے تو گمانوں میں سے بہت سے گمانوں کو گناہ قرار دیا ہے۔ محض اس لیے کہ وہ بلا دلیل بنائے گئے ہیں۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت سفیان  کا قول حدیث مذکورہ کے پہلے جملے کے متعلق نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:”گمان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو گناہ میں داخل ہے اور دوسراوہ جس کاشمار معصیت میں نہیں ہوتا۔ پہلی قسم کا ظن وہ ہے جو انسانی فکر وخیال میں آئے اور (آدمی بلا تحقیق)اسے لوگوں کے سامنے بیان کردے۔ جب کہ دوسری قسم کا ظن محض وسوسہ ہو (لوگوں کے سامنے) اس کا اظہار واعلان نہ ہو۔“

یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ انسان اپنے قول وعمل کو دوسروں کے لیے بدگمانی اور بد خیالی کا ذریعہ نہ بننے دے۔ کوئی بھی ایسا کام جسے دیکھ کر سامنے والا شخص آپ کے متعلق غلط خیال یا فاسد ابہام میں مبتلاہو،شریعت مقدسہ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ ایسے مواقع پر سنت نبویہ علیٰ صاحبھا الصلوٰة والسلام یہ ہے کہ آدمی فوراً اپنے معاملہ کی وضاحت کر دے، تاکہ دوسرا کسی وسوسہ کا شکار نہ ہو۔ اس بارے میں ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاکا واقعہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ 

وہ فرماتی ہیں:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں معتکف تھے۔ ایک رات میں آپ علیہ الصلوٰة والسلام کی زیارت کے لیے حاضرخدمت ہوئی۔ بات چیت کے بعد میں جانے کے لیے کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی میرے ساتھ کھڑے ہو گئے، تا کہ مجھے گھر تک چھوڑ آئیں۔حضرت صفیہ  کی رہائش حضرت اسامہ بن زید کے گھر میں تھی۔ (اس دوران)دو انصاری صحابی رضی اللہ عنھما کا وہاں سے گزر ہوا۔ جب انہوں نے آپ علیہ الصلوٰة والسلام کو دیکھا تو چلنے میں تیزی کی۔ (یہ منظر دیکھ کر)جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”آرام سے چلو (میرے ساتھ موجود خاتون )صفیہ بنت حیّی (ام المومنین) ہیں۔(یہ سن کر) انہوں نے عرض کیا:سبحان اللہ! …اے اللہ کے رسول!(کیا ہم آپ کے بارے میں معاذ اللہ کسی بدگمانی میں مبتلا ہوسکتے ہیں؟)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”بے شک شیطان انسانی جسم میں خون کی مانند دوڑتا ہے۔مجھے ڈر ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی بری بات نہ ڈال دے۔“(ابوداؤد)

جس طرح برا خیال دوسروں کے متعلق کسی دلیل اور قرینے کے بغیر باندھنا قابل مذمت ہے،اسی طرح مسلمانوں کے متعلق حسن ظن اور خوش گمانی رکھنا محمود صفت ہے۔آج گھر گھر جو فساد وجدال پھیلا ہوا ہے ،اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ہم بہت جلد دوسروں سے بدگمان ہو جاتے ہیں۔ بھولے سے بھی ہمارے اذھان وافکار میں دوسرے کے لیے اچھا خیال جنم نہیں لیتا۔

اسلام کے ابتدائی زمانے میں ایک ایسا واقعہ پیش آچکا ہے جس میں ایمان والوں کے لیے اس بارے میں کئی اہم اسباق اور عبرتیں ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک صحابی کو کئی بار نشے کی حالت میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں لایا گیا اور ان کو اس پر سزا بھی دی گئی۔ اس وقت شراب نئی نئی حرام ہوئی تھی۔ ایک بار ان کو پھر یہی غلطی دہرانے پر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو ایک صاحب نے ان کے بارے میں کہا: ’’اللہ کی لعنت ہو اس پر ،کتنی بار پکڑ کر لایا جاتا ہے‘‘ لیکن جب رسول اکرمﷺ نے یہ بات سنی تو ارشاد فرمایا: ’’ اس پر لعنت نہ بھیجو کیونکہ بخدا جو بات مجھے معلوم ہے وہ یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے‘‘ جبکہ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’اپنے بھائی کے بارے میں شیطان کے معاون نہ بنو۔‘‘(صحيح البخاري)
 اس لیے ہم پر لازم ہے کہ جب ہم دوسروں کو دیکھیں تو ان کو نبی اکرم ﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں دیکھیں۔

نا انصافی:

گمانوں کے مواخذہ کی بڑی وجہ ان کے ہمارے رویوں پر اثرات ہیں۔ اسی طرح گمانوں کی وجہ سے ہم ایسے عمل کر ڈالتے ہیں جو برے ہوتے ہے۔ ان اعمال میں سب سے بڑا عمل ناانصافی ہے۔قرآن مجید کا وہ حکم جو سورۂ بنی اسرائیل میں آیا ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گمان اور خیالات ہمارے دلوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ شیطانی وسوسے اور ادھر ادھر کے خیالات دل میں آتے رہتے ہیں۔اگر ہم انھی خیالات پر جم گئے اور گمانوں پر ہی اپنے کسی بھائی کے بارے میں بری رائے بنا لی تو وہ گناہ کا باعث ہے۔ لیکن اگر وہ گمان ہمارے دل میں آیا، اور ہم اس میں مبتلا ہونے کے بجائے اس سے نکل گئے اور اس کو رد کر دیا تو ہم گناہ سے بچ گئے۔اس لیے کہ کسی کے بارے میں بری یا محض غلط رائے بنا لینا اس کے ساتھ ناانصافی ہے۔مثلاً آپ نیک نیتی سے کوئی عمل کریں،تو اس پر کوئی آدمی دل ہی دل میں یہ رائے بنا لے کہ آپ ریا کار ہیں تو کیا یہ آپ کے ساتھ انصاف ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ انصاف نہیں ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے یہ گمان گناہ بن جاتے ہیں۔

تعلقات پر برے اثرات:

گمانوں سے ہونے والا دوسرا بڑا عمل ہمارے تعلقات میں خرابی ہے۔ہمارے تعلقات میں اہم چیز ہماری رائے ہوتی ہے ۔یعنی اگر کسی کے بارے میں ہماری رائے اچھی ہو گی تو ہم اس کو اچھے طریقے سے ملیں گے اور اگر ہماری رائے اس کے بارے میں اچھی نہیں ہو گی ۔ تو ہم اچھے طریقے سے نہیں مل سکیں گے ۔اس طرح سے ہمارے گمان ہمارے رویوں کو خراب کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے گمان ہی کی بنا پر دوسرے سے معاملات کرنے لگ جاتے ہیں ۔ جس سے وہ گناہ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔

یعنی اگر ایک آدمی نے برائی نہیں کی، مگر ہم نے گمان ہی گمان میں اس کو مجرم بنا لیا ہے تو اب اس کے ساتھ ہمارا رویہ بگڑ جائے گا، جو بلاوجہ ہوگا۔ برے رویے کی بنا پر ہم گناہ مول لے لیتے ہیں۔ اس پہلو سے دیکھیں تو محض گمان بھی دراصل ان گناہوں میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ تمھیں شعور بھی نہیں ہوتا، مگر وہ تمھارے اعمال کو ہڑپ کرجاتے ہیں۔

نیتوں کا تعین:

گمان بالعموم نیت کا تعین بن جاتے ہیں۔ ہمارے تمام گمان جن کو ہم بدگمانی کہہ سکتے ہیں، ان کی نوعیت بالعموم یہی ہوتی ہے کہ ہم اپنے بھائی کی نیت کا تعین کرنے لگ جاتے ہیں کہ اس نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ مجھے تنگ کرنا چاہتا تھا، وہ سب کے سامنے مجھے ذلیل کرنا چاہتا تھا وغیرہ۔

نیتوں کے بارے میں ہم جان ہی نہیں سکتے۔اس لیے اس کا تعین ایک غلطی ہے۔ جو غلطی اخلاقی دائرے میں ہوتی ہے، وہ گناہ ہے ۔اس پر قیامت کے دن مواخذہ ہو گا۔

اس کی بہت عمدہ مثال وہ واقعہ ہے جو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیش آیا جب انھوں نے ایک جنگ میں کسی آدمی کو کلمہ پڑھنے کے باوجود مار ڈالا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ چنانچہ جب ان سے بات ہوئی تو آپ نے فرمایا:' أقال لا الٰہ الا اللّٰہ وقتلتہ' ،''کیا اس نے لاالٰہ.....۔ پڑھا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کرڈالا''؟

حضرت اسامہ نے عرض کی: "یا رسول اللّٰہ انما قالہا خوفا من السلاح'' اس نے ایسا صرف اسلحہ کے ڈر سے کہا تھا۔''

آپ نے فرمایا: ''افلا شققت عن قلبہ حتی تعلم اقالہا ام لا ''، تم نے اس کا سینہ چیر لیا ہوتا کہ تم جان لیتے کہ اس نے کلمۂ اسلام دل سے کہا یا نہیں!''
حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ آپ بار بار یہ جملہ دہراتے رہے ، اور میں سوچ رہا تھا کہ کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا اور یہ غلطی مجھ سے صادر نہ ہوئی ہوتی۔(مسلم:رقم۹۶)

یہ حضرت اسامہ کا ایک گمان تھا، نا معلوم صحیح تھا یا غلط؟ لیکن انھوں نے اس کی غلط نیت طے کی اور اس کے خلاف جان لینے تک کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ نیت کا تعین بھی ایک برائی ہے۔ جو ہمیں بہت سنگین عمل تک لے جا سکتی ہے۔

گمان جھوٹ ہوتا ہے:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ گمانوں سے بچو اس لیے کہ گمان ''اکذب الحدیث'' ہوتے ہیں۔ یعنی بے بنیاد اور جھوٹی بات ۔ اس سے بھی اس کے' اثم 'ہونے کی طرف اشارہ نکلتا ہے، یعنی چونکہ یہ جھوٹی بات ہے، جو انسان دل ہی دل میں سوچ لیتا ہے۔ اور یہ واضح سی بات ہے کہ جھوٹی بات پر قیام بندۂ مومن کے لیے صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ گناہ اور برائی ہے۔

غلطی میں اضافہ:

ہم اپنے گمانوں کی مدد سے کبھی تو بے گناہ کو گناہ گار بنا رہے ہوتے ہیں، اور کبھی کم خطا وار کو زیادہ بڑی غلطی کا مجرم ٹھہرا رہے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک آدمی سے غلطی محض بے احتیاطی کی وجہ سے ہوئی ہو، مگر ہم اسے یہ خیال کر کے کہ اس نے ہماری دشمنی میں ایسا کیا ہے۔ اس کے جرم کی سنگینی میں اضافہ کر دیتے ہیں۔

چنانچہ بعض اوقات اپنی ہی چیز اٹھانے والے کو ہم چور سمجھ لیتے ہیں۔غلطی سے برائی کر جانے والے کو مجرم بنا ڈالتے ہیں۔

سچا گمان غیر ثابت شدہ حقیقت:

کوئی شخص یہاں یہ سوال اٹھا سکتاہے کہ اگر آدمی گمان کرے، اور وہ غلط نہ ہو، تو وہ تو گناہ گار نہیں ہو گا۔ تو کیا یہ ضروری ہے کہ کثرت گمان پر پھر بھی گناہ ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ گمان سچا بھی ہو تب بھی وہ گمان ہے۔ وہ کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے۔اس لیے اس پر قائم رہنا، یا اس کے مطابق عمل کرنا دراصل غیر ثابت شدہ باتوں پر عمل کرنا ہے۔ اس میں اور سنی سنائی باتوں میں پھر فرق کیا رہ گیا؟

دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو تو اس گمان کے سچا ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ آپ تو محض گمان پر کھڑے ہیں۔ جو ایک کمزور اور غلط جگہ ہے۔ ایک گمان کے سچا اور جھوٹا ہونے کے برابر امکانات ہوتے ہیں۔ اس لیے گمان کرنا اور اسے دل میں پالنا ہر صورت میں ایک غلط کام ہے۔

دوبارہ نظر:

ہم نے اوپر کی بحث میں یہ بات جانی ہے کہ کثرت گمان سے قرآن مجید نے روکا ہے۔اس لیے کہ گمان ایک بے بنیاد اور جھوٹی بات ہے۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر ہو بھی تو وہ ثابت شدہ نہیں ہے۔
کسی کے بارے میں گمان کرنا اخلاق سے گرا ہوا عمل ہے۔ دین اسلام میں اخلاقی خرابی کو گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یعنی اس پر مواخذہ ہو گا۔ ''ظن" دراصل جھوٹ، ناانصافی اور نیتوں کے تعین وغیرہ کا نام ہے۔ یہ برے اخلاق کو جنم دیتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک واضح برائی ہے۔

گمانوں کی کثرت بذات خود ناپسندیدہ چیز ہے۔ اس لیے کہ بندۂ مومن گمانوں اور خیالات پر نہیں جیتا،بلکہ اس کی زندگی ٹھوس حقائق پر استوار ہونی چاہیے اور لوگوں کے بارے میں اسے سیدھی اور ثابت شدہ بات پر قائم ہونا چاہیے۔

حسن ظن کا حکم:

ہم مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ اپنے بہن بھائیوں، ہمسایوں ، دوستوں اور ارد گرد رہنے والوں کے بارے میں حسن ظن رکھیں۔سورۂ نور کی آیت افک سے ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ ہماری عمومی رائے دوسروں کے بارے میں اچھی ہونی چاہیے، جب تک کہ وہ ٹھوس دلائل سے بدل نہ جائے۔اچھی رائے سے ہماری مراد یہ ہے کہ جب بھی کوئی برائی کسی آدمی سے متعلق آپ کے علم میں آئے تو فوراً :اس کو اچھے پہلو سے دیکھیں۔
اس کے اچھے اسباب اور وجوہ پر نظر رکھیں۔
جس پر الزام لگایا جا رہا ہے، اس پر الزام لگانے سے گریز کریں اور کہیں کہ ہم نے ایسا کرتے اسے نہیں دیکھا، بخدا ہماری نظر میں پاک صاف ہے۔

حسن ظن کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم اس کے بارے میں کوئی بہت اچھی رائے قائم کریں۔ بلکہ یہ ہیں کہ اس کے عمل کو بری نظر اور بری توجیہ کر کے نہ دیکھیں، اور نہ محض سن کر یا اپنے گمانوں کی وجہ سے اس پر برائی کا الزام لگائیں۔کسی کی برائی سن کر فورا ًبرأت کا اظہار کرنا چاہیے ۔ چنانچہ جب سیدہ عائشہ پر الزام لگا تو قرآن مجید نے مسلمانوں کو یہ نصیحت کی کہ ان پر لازم تھا کہ وہ سیدہ عائشہ کی برأت اور پاک دامنی کا اعلان کرتے اس لیے کہ ان میں سے کسی نے بھی انھیں کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ چاہیے یہ تھا کہ سب یک زبان کہتے کہ وہ پاک دامن اور معصوم ہیں۔ ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔ قرآن مجید میں یہ بات یوں آئی ہے:

إِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ وْا بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ، لَاتَحْسَبُوْہٗ شَرًّا لَّکُمْ، بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، لِکُلِّ امْرِیئ مِّنْہُمْ مَا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ، وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا، وَّقَالُوا: ہَذَٓا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ.(النور۲۴: ۱۱،۱۲)
''جو لوگ یہ اتہام گھڑ کر لائے، وہ تم ہی میں سے ہیں۔ تم اس چیز کو اپنے لیے برا خیال نہ کرو، یہ تمھارے لیے اچھی ہے۔ان میں سے ہر ایک نے جو گناہ کمایا وہ اس کے حساب میں پڑا، اور جو اس فتنہ کا بڑا حصہ دار ہے ، اس کے لیے عذاب عظیم ہے۔ اے مسلمانو،ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بات سنی تو مومن عورتیں اور مرد ایک دوسرے کی بابت اچھا گمان کرتے، اور کہتے کہ یہ تو ایک سیدھا سیدھا بہتان ہے۔''

اس آیت میں مسلمانوں سے یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ ایسی سنگین صورت میں بھی ہمارا کام یہی ہونا چاہیے کہ جب ایک پورا گروہ یہ کہہ رہا ہو کہ فلاں شخص نے ایسا کیا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے اپنے بھائی اور بہن کے بارے میں اچھا گمان رکھیں اور اسے ایک بہتان سمجھیں۔

یہاں اس واقعۂ افک کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں جب غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی پر بعض منافقین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت دھری۔ بظاہر سیدہ کے پیچھے رہ جانے کے باوصف ایک ایسا قرینہ پیدا ہو گیا تھا کہ تہمت میں سچ کا گمان ہوتا تھا۔ لیکن ایسے قرائن بھی قرآن کے نزدیک بے معنی ہیں۔ اس لیے کہ پیچھے رہ جانے کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یقیناً ایسا ہوا ہو گا جیسی ان پر تہمت لگائی جارہی تھی۔

گمان کے نقصانات:

جب ہمیں کسی کے کسی قول و فعل کی حقیقت جانے بغیر اپنے گمانوں کی بنا پر کچھ بے بنیاد خیالات بناتے ہیں، تو ہم اصل میں اپنی رائے اس کے بارے میں تبدیل کرتے ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ہم اپنی رائے کو اس کے بارے میں خراب کر لیتے ہیں ۔جس سے کچھ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جن میں سے چند اہم چیزوں کا ہم ذیل میں ذکر کریں گے۔

دل میں میل آنا:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس آ کر دوسروں کی برائی کرنے والوں کو یہ کہہ کر برائی کرنے سے منع کر دیا کہ :لا یبلغنی احد من اصحابی عن احد شیئا فانی احب ان اخرج الیکم وانا سلیم الصدر.(ابوداؤد، رقم ۴۸۶۲)
''مجھے میرے ساتھیوں میں سے کوئی کسی کے بارے میں کوئی بات نہ پہنچائے اس لیے کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میں تم لوگوں میں آؤں تو میرا دل تم لوگوں کے بارے میں صاف ہو''

دوسروں کی برائی سے جس طرح دل میں میل آتا ہے ، اسی طرح اپنے خیالات سے بھی دل میں میل آتا ہے۔ اس میل کے آنے سے ہمارے رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔ کسی خیال سے دل میں غصہ پیدا ہو گا ،کسی سے نفرت ،کسی سے بے جا اور غیر متوازن محبت۔ یہ سب چیزیں خرابی پیدا کرتی ہیں۔ اچھے رویے کے اظہار کے لیے سب سے پہلی چیز ہی یہ ہے کہ ہمارا دل دوسروں کے بارے میں صاف ہو، ہم اسی صورت میں اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کر سکیں گے۔گمانوں کا یہ نتیجہ بھی جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں، گمانوں کو قابل مواخذہ بنا دیتا ہے۔ گمانوں سے آنے والا میل دل میں کدورتوں کو وجود بخشتا ہے، جس سے درج ذیل تعلقات میں تعطل اور خرابی آتی ہے:

محبت:

ایک دوسرے کے بارے میں گمانوں کی کثرت سے دل دوسروں کے بارے میں صاف نہیں رہتے، جس سے باہم فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے باہمی محبت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ باہمی تعلق اتنا کمزور پڑ جاتا ہے کہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا تو درکنار ان کے ساتھ محض وہ تعلق بھی نہیں رہتا جو ایک اجنبی انسان کا دوسرے اجنبی انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔

دل میں دوسروں کے بارے میں خرابی تعلقات کے کاٹنے کے لیے ایک کلہاڑا ہے ۔ اگر آپ کسی کے بارے میں رائے بگاڑتے چلے جائیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کے دل میں اس کی محبت باقی رہے۔ اگر آپ دل کی صفائی کا اہتمام نہیں کرتے ، تو یاد رکھیے کہ ماں باپ جیسے عزیز اور بیوی بچوں جیسے قریبی تعلق میں بھی دراڑیں آ جاتی ہیں اور بسا اوقات نوبت قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ محبت کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے خیالات کو دوسروں کے بارے میں بینات اور واضح حقائق پر استوار کریں۔

میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ بعض ایسے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی کہ جو محض خدا کے بارے میں اپنے خیالات ہی کی وجہ سے اللہ سے نالاں اور اس کے منکر تھے۔اس لیے کہ یہ چیز خدا کے ساتھ محبت کو برباد کرنے والی ہے۔اور خدا کے بارے میں محبت اور اپنائیت سے محرومی کفر و زندیقی اور الحاد تک پہنچ جاتی ہے۔
میری مراد یہ ہے کہ محبت کا یہ تعلق انسانوں کے ساتھ تو گمانوں کی وجہ سے ٹوٹتا ہی ہے ، خدا کے ساتھ ہمارا تعلق بھی برے گمانوں سے ختم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے حسن ظن کی نصیحت کیا کرتے تھے۔

بھائی چارہ:

یہ انسان کا انسان سے وہ رشتہ ہے جو اولاد آدم ہونے کی بنا پر وجود میں آتا ہے اگر ہم محبت سے محروم ہو چکے ہوں تو ہمارا یہ رشتہ رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گا۔ ہم ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے۔ ہماری باہمی کدورتیں اور باہمی عناد ہمیں دوسروں کی مدد کرنے ، ان کے کام آنے ، ان کی غم و خوشی میں پوری طرح شریک ہونے سے روکے گا۔ ہم ایک ہی محلے اور معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، مگر تعلقات میں محبت نہ ہونے اور دلوں میں فاصلوں کی وجہ سے کسی کے نہایت مشکل اور نازک موقعے پر بھی اس کے پاس سے بے پروائی سے گزر جاتے ہیں۔اس لیے کہ ہم گمانوں کی وجہ سے اس مجبور اور بے کس کے خلاف اپنی رائے خراب کر چکے ہوتے ہیں۔

مرحمت(ہم دردی):

باہمی محبت کی یہ کمی ہمارے اندر سے ہم دردی کا عنصر بھی ختم کر دیتی ہے ۔ ہمارے جیسا انسان ہی بھوکا ہوتا ، مرض سے کراہ رہا ہوتا ہے، مگر ہمارے دل میں کوئی خیال تک نہیں رینگتا کہ ہم اس کے کام آئیں، اس کی مدد کریں۔ یہ محض اسی موقع پر ہو گا جب ہماری اس کے بارے میں رائے خراب ہو گی۔دوسروں سے ہم دردی نہ صرف ہمارا اخلاقی وجود تقاضا کرتا ہے،بلکہ ہمارا دینی وجود بھی اس کا تقاضا کرتا ہے۔
قرآن مجید کے مطابق یہ ہمارا دوسروں پر اور دوسروں کا ہم پر حق ہے:

أَلَمْ نَجْعَلْ لَّہُ عَیْنَیْنِ. وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ. وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ. فَلَا اقْتَحَمَ العَقَبَۃَ. وَمَآ أَدْرَاکَ مَا العَقَبَۃُ: فَکُّ رَقَبَۃٍ. أَوْاِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ. یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ. أوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبۃٍ. ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ.(البلد۹۰: ۸۔۱۷)
''ہم نے کیا اس کو دو آنکھیں نہیں دیں(کہ محتاجوں کو دیکھتا)،اور زبان اور ہونٹ نہیں دیے (کہ ان کی مدد کی ترغیب دیتا)، اور دونوں راستے نہیں سجھائے (کہ اچھے برے کو سمجھتا؟پر اس نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا)اور وہ گھاٹی پر نہیں چڑھا، اور تم کیا سمجھے کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ (یہی کہ)گردن چھڑائی جائے، اور بھوک کے دن کسی قریبی یتیم یا کسی بے حال مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ پھر آدمی ان میں سے ہوجو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو ثابت قدمی کی اور دوسروں سے ہم دردی کی نصیحت کی۔''

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے ۔ غربیوں ،مسکیوں، ناداروں اور رشتہ دار ضرورت مندوں کے کام آنا، ان پر اپنے مال میں سے خرچ کرنا کتنا ضروری ہے۔ مگر بہت ساری وجوہات ہمیں اس سے روک دیتی ہیں۔ ان وجوہات میں سے ایک بدگمانی بھی ہے جو ہمیں اس سے روکے رکھتی ہے۔

اجتماعی یا قومی و ملی وجود:

اوپر کے تینوں پہلو، معاشرے میں ساتھ ساتھ رہنے والے لوگوں کے گھر کی سطح پر یا محض انسان ہونے کے تعلق کے لحاظ سے تھے۔اب ہم گھر سے باہر اجتماعی اور سماجی سطح پر اس کا جائزہ لیں گے کہ گمانوں کی ستم گریاں کیا ہیں ۔

اگر ہماری تربیت گھر کے اندر گمانوں کی کثرت میں جینے کی ہوئی ہو اور ہم اسی کے عادی ہوں ، تو یہی چیز ہماری معاشرت میں بھی نظر آئے گی۔ دفتر، تنظیم ، معاشرہ،مجلس اور ریاست ہر سطح پر یہ چیز اپنے اثرات ڈالے گی۔کہیں کوئی اپنے سربراہ کے بارے میں برے خیالات بن رہا ہو گا اور کہیں کوئی اپنے ساتھی کے کسی رویے پر کڑھ رہا ہو گا ، اور کہیں کوئی انتقامی کارروائی کا سوچ رہا ہو گا۔ کوئی انھی خیالات سے ڈیپریش اور فرسٹریشن کا شکار ہو گا اور کسی کا موڈ بن رہا ہوگا۔ کوئی بات بات پر گرم ہو جاتا ہو گا اور کوئی مارنے کو آتا ہو گا۔کوئی دوست دوست کے خلاف سوچ ہو گا۔اس سب کچھ کی وجوہات میں ایک وجہ وہ آرا اور تجزیے ہیں جن کی بنیاد محض گمان ہوتے ہیں۔

جس قوم کے گھر اور دفتر میں یہ حالات ہوں، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ صحت مند طریقے کے ساتھ دنیا میں چل سکے۔ وہ ہر قدم پر فساد کا شکار ہو گی۔اس کا اتحاد ہر وقت معرض خطر میں ہو گا۔ اس کی سیاست، مذہب اور معاشرت میں اتفاق و اتحاد کی ہزار کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔ اس لیے کہ اتحاد کے لیے سب سے پہلی چیز ایک دوسرے پر اعتماد اور ان کی غلطیوں کو محض غلطی مان کر ساتھ چلنا ہے۔

تکریم:

عزت و تکریم کے معنی محض یہ نہیں ہیں کہ ہم بڑوں کی عزت کریں، بلکہ انسان کی تکریم یہ ہے کہ اس کے وجود کو تسلیم کیا جائے ، اس کے انسان ہونے کے ناطے اس کی عزت کی جائے۔ سوء ظن کی عادت اس تکریم آدمیت سے روکتی ہے۔ سوء ظن خطا کار کو شیطان کا روپ دے دیتی ہے ، جس سے غلطی کرنے والا ہماری نظروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گر جاتا ہے۔یہی عمل ہم اپنے سوء ظن کی بنا پر دوسروں سے کر رہے ہوتے ہیں اور دوسرے ہمارے ساتھ۔
جس معاشرے کے افراد میں گمان کرنے کا وصف ہو گا، اس میں ایک دوسرے کی تکریم ، احترام ، عزت اور بالآخر لحاظ اور پاس خاطر جاتا رہے گا۔ چنانچہ کسی شخص کو اس کا جائز مقام نہ مل سکے گا۔ بہو بیٹیاں اور ساس اسی اژدھے کی ڈسی ہوئی ہیں ۔ افسر و ماتحت اسی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سب کی نگاہوں میں سب ذلیل ہیں۔ عزت صرف دکھاوے کی رہ گئی ہے۔

کیا بدگمان ہمیشہ قابل مذمت ہے؟

ممکن ہے یہ سوال کسی کے ذہن میں پیدا ہو جائے کہ ایک بدگمانی ہر جگہ پر اور ہر شخص کے بارے میں بُری ہے یا اس کا انحصار زمانہ کے حالات اور مختلف افراد پر ہے؟

اس کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ : جو کچھ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ بعض مواقع پر بدگمانی، جائز، بلکہ ضروری ہے اور ذیل میں ہم ان مواقع میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

افساد کا غلبہ ہونے کا زمانہ:

جس ماحول کے اکثر افراد، فساد و آلودگی سے دوچار ہیں، خوش گمانی ، ایک منطقی اور صحیح کام نہیں ہے اور ممکن ہے انسان کو دھوکا لگنے اور نقصان اٹھانے کا سبب بنے۔
کیونکہ بعض افراد کا حلیہ اسلامی اور خیر خواہی کا نظر تو آتا ہے لیکن اس کے پس پردہ ان ایک چال اور دھوکہ دہی ہوتی ہے۔

قابل ذکر بات ہے کہ ایسے ماحول میں انسان کو اپنی بدگمانیوں کے بارے میں احتیاطی مواقع کے علاوہ اقدام نہیں کرنا چاہئیے،یعنی ضروری احتیاط کی رعایت کے علاوہ ، افراد کے بارے میں بدگمانی اور بے اعتمادی کے احتمال پر اقدام کرنے سے اجتناب کرنا چاہئیے۔ بہ الفاظ دیگر، ایسے مواقع پر ہوشیاری سے کام لینا چاہئیے اور ضروری احتیاط کی رعایت کرنی چاہئیے تاکہ دھوکا نہ کھایا جائے۔
اسی طرح دشمن سے صلح کرنے کے بعد اس کے بارے میں حسن ظن اور خوش بینی رکھنا، ناتجربہ کاری کی علامت ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئیے اور دشمنوں کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئیے، کیونکہ ممکن ہے ان کی صلح، کوئی نیا حیلہ ہو تاکہ مسلمانوں کو غفلت سے دوچار کر کے پھر سے ان پر مسلط ہو جائیں۔

قابل ذکر ہے کہ قاعدہ کے مطابق، فاسق کے بارے میں خوش گمانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ اس فاسق کے بارے میں جو کھلم کھلا فسق کا مرتکب ہوتا ہے، کیونکہ جو شخص خدا کی مخالفت کو جسارت و جرائت سے انجام دیتا ہے،  ایسے شخص کے بارے میں اعتماد کرنا بھی بے تجربہ ہونے کی علامت ہے۔

ذیل میں ہم ظن کو دو حالتوں میں تقسیم کرتے ہیں:

ایک ظن غالب جو کسی دلیل یا مضبوط علامت کے ساتھ قوی ہو جائے ، اس پر عمل کرنا درست ہے۔ شریعت کے اکثر احکام اسی پر مبنی ہیں- اور دنیا کے تقریبا تمام کام اسی پر چلتے ہیں، مثلا عدالتوں کے فیصلے،گواہوں کی گواہی، باہمی تجارت، ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے اطلاعات اور خبر واحد کے راویوں کی روایت وغیرہ ان سب چیزوں میں غور وفکر ، جانچ پڑتال اور پوری کوشش سے حاصل ہونے والا علم بھی ظن غالب ہے اور اس پر عمل واجب ہے، اسے ظن اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی جانب مخالف ادنی سا امکان رہتا ہے، مثلا ہو سکتا ہے گواہ کی گواہی درست نہ ہو، اطلاع دینے والا جھوٹ بول رہا ہو، راوی کو غلطی لگی ہو وغیرہ لیکن اس امکان کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اگر اس امکان پر جائیں تو دنیا کا کوئی کام ہو نہ سکے، اس لیے اپنی پوری کوشش کے بعد دلائل سے جو علم حاصل ہو ، ظن غالب ہونے کے باوجود اس پر عمل واجب ہے-

دوسرا ظن وہ ہے جو دل میں آ جاتا ہے ، مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دل میں اس کے ہونے یا نہ ہونے کی بات برابر ہوتی ہے اسے شک بھی کہتے ہیں یا اس کے ہونے کا امکان اس کے نہ ہونے سے بھی کم ہوتا ہے، یہ وہم کہلاتا ہے- ظن کی یہ صورتیں مذموم ہیں اور ان سے اجتناب واجب ہے:
﴿إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ﴾
’’بے شک بعض گمان گناہ ہیں۔‘‘
اس سے یہی مراد ہے۔
﴿إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا﴾[یونس: 36]
’’بے شک گمان حق کے مقابلہ میں کچھ فائدہ نہیں دیتا۔‘‘
اور 
﴿إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ﴾[النجم:23]
’’یہ لوگ صرف اپنے گمان اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں- میں اسی ظن کا ذکر ہے۔‘‘
جیسا کہ اوپر گذرا حدیث میں ایسے ظن (گمان) سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو بے دلیل ہو مثلا ایک آدمی جو ظاہر میں صالح ہے ، اس کے عیوب پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہو ا ہے، عام مشاہدہ میں وہ عفیف اور امانت دار ہے اس کی بدنیتی یا گناہ گار ہونے کی کوئی دلیل یا علامت نہیں، اس وقت گمان بدگمانی حرام ہے- ہاں اگر گمان کرنے کی کوئی واقعی دلیل یا علامت موجود ہو تو اس وقت گمان منع نہیں، اس لیے اللہ تعالی نے ہر گمان سے منع نہیں فرمایا بلکہ فرمایا:
﴿اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ﴾
’’زیاد گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمایا:
’’ما يجوز من الظن‘‘
’’جو گمان جائز ہیں۔‘‘

اس جائز گمان سے وہ گمان مراد ہے جس کی علامات اور دلیلیں واضح ہوں۔

اگر دل میں کسی شخص کے برا ہونے کا خیال آئے مگر آدمی اسے اپنے دل میں جگہ نہ دے نہ ہی اس کا پیچھا کرے نہ اس کی غیبت کرے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا وَسْوَسَتْ أَوْ حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهِ أَوْ تَكَلَّمْ‘‘
’’اللہ تعالی نے میری امت کو وہ باتیں معاف کر دی ہیں جو وہ اپنے دل سے کریں جب تک ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔"(بخاری و مسلم)

بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بد گمانی کرتا ہے تو وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ شخص ایسا ایسا ہے، چونکہ حقیقیت میں وہ شخص ایسا نہیں ہوتا، اسے لیے اس کے اس فیصلے کو جھوٹ کہا گیا اور بد ترین اس لیے کہ اس نے بغیر کسی قرینے یا سبب کے محض نفس اور شیطان کے کہنے پر اسے برا قرار دیا ، جب کہ اس کے برا ہونے کی سرے سے کوئی بنیاد نہیں۔

اس لیے جب دوسروں میں کوئی ایسی چیز موجود ہو حسن ظن کا سبب بن سکتی ہو تو حسن ظن ہی رکھنا چاہیے بلک حسن ظن پر بھروسہ کرتے ہوئے بدظنی سے دور ہونا ضروری ہے ۔ اگرچہ دوسرے شخص میں کوئی ایک بھی ایسی بات ہو جو حسن ظن کا سبب بن سکتی ہو۔ مثلاً ایک انسان کا سارا سرمایہ صرف کلمۃ توحید ہے اور ہم نے اس کی کوئی نیکی اور عمل صالح نہیں دیکھا تو بھی اس کے بارے میں یہ یقین ہونا چاہیے کہ ’’میرے اس بھائی نے دل کی گہرائی سے کلمہ پڑھا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کلمہ بڑے بلند مرتبے پر فائز ہو اور روز قیامت اس کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔‘‘

البتہ  اگر کسی شخص کا عیب صرف اس کی ذات تک محدود ہو تو اس سے متعلق کسی بھی طرح کی بدگمانی ، عیب جوئی اور تجسس کرنا منع ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کا عیب اجتماعی زندگی ، کسی ملک ، تنظیم یا ادارے کے لیے مضر ہو تو پھر اس کی تحقیق کر کے اس سے باز پرس کرنا اور اس کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے ۔ اسی طرح اگر کسی جگہ کام کرنے والے کسی شخص یا بعض افراد کے متعلق شبہ ہو کہ اس کی در پردہ سرگرمیاں ادارے اور کارکنان کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس سے ادارے کی عزت، ساکھ اور سلامتی کو خطرہ ہے، تو ایسی صورت میں اس کو پرایا معاملہ سمجھ کر یا خود کو غیر جانب دار ثابت کرنے کے خیال میں خاموش نہ رہا جائے بلکہ اسے ادارے کے علم میں لانا ضروری ہے ۔ اس کے برعکس، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بدگمانی جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ ہمہ وقت اسی فکر اور جستجو میں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے دوسرے شخص کو بُرا بھلا کہا جائے یا کسی شعبے کو بدنام کیا جائے۔ اس سلسلے میں اسے ہر وہ شخص دیانت دار اور صاحب الرائے نظر آتا ہے جو اس کے مزاج کے عین مطابق ہو۔ پس یہیں سے کسی کے عیب کا کھوج لگانے کے لیے یہ لوگ لکڑیاں اور تیل مہیا کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اِدھر اُدھر سے معلومات حاصل کرتے رہتے ہیں ، جس میں بتانے والوں کی اپنی کدورتیں اور بدگمانیاں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ نتیجتاً کام میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور کارکنان گروپ بندی اور اختلافات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

بدگمانی کے نقصانات:

انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بدگمانی کے مختلف برے اثرات ہوتے ہیں، کہ ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

ا انفرادی اثرات:

لوگوں سے بھاگنا: اجتماعی زندگی انسانوں کے درمیان انس و محبت اور الفت اور متقابل اعتماد پر ہوتی ہے، ، اگر انسان ایک دوسرے کے بارے میں بدگمان ہو جائیں، تو ایک دوسرے پر اعتماد خدشہ سے بھرا ہوتا ہے اور محبت، نفرت اور ایک دوسرے سے دوری میں تبدیل ہو جاتی ہے اور بدگمان فرد دوسروں سے بھاگتا ہے، ان سے دوری اختیار کرتا ہے اور الگ تھلگ ہو کر رہ جاتا ہے۔

عبادت کی بربادی: دوسروں کے بارے میں بدگمانی اور اس کو عملی جامہ پہنانا، انسان کی عبادت کو برباد کرنے کا سبب بن جاتا ہے اور بدگمانی انسان کو گناہوں کے بوجھ تلے دفن کر دیتی ہے۔

اس کی وضاحت یوں ہے کہ جب انسان دوسروں کے بارے میں بدگمان ہوتا ہے تو ان کے بارے میں غلط فیصلہ کرتا ہے اور ان کی بدگوئی اور عیب جوئی کرنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر جانتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر یہ بدگوئی، عیب جوئی اور خود خواہی ایک طرف اس کی عبادت کو تباہ کر دیتی ہے اور دوسری جانب خود یہ برے اعمال ، رذیل صفات، بدگمانی کے گناہ کے ساتھ قرار پاتے ہیں اور بدگمانی انسان کے گناہوں کے بوجھ کو بھاری کر دیتی ہے۔

ہلاکت: یہ بدگمانی ایک خطرناک نفسیاتی بیماری ہے اور بدبین و بدگمان انسان، ہمیشہ نفسیاتی عذاب میں رہتا ہے اور باطل افکار و خیالات کے نتیجہ میں اس کے دل کا آئینہ مکدر ہو جاتا ہے اور اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ اپنی صحت و سلامتی کو بھی کھو دیتا ہے اور بدگمانی کی وجہ سے پیدا ہوئی یاس و ناامیدی کے نتیجہ میں اپنے آپ کو ہلاک کر دیتا ہے۔

بدگمانی، اجتماعی اعتماد کے جذبہ کو خدشہ سے بھر دیتی ہے، اور اجتماعی امن و سلامتی کو اس طرح برباد کر دیتی ہے، کہ کوئی کسی پر اعتماد اور بھروسا نہیں کرتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو خائن کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے بھاگتے ہیں۔
بدگمانی کے اثرات میں سے یہ بھی ہے کہ نیک اور شائستہ کام تباہی سے دوچار ہوتے ہیں، کیونکہ بدگمانی، بے اعتقادی پیدا ہونے کا سبب بن جاتی ہے، اور بے اعتمادی دوسروں میں منفی ردعمل پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے اور بے اعتماد افراد ہمدردی سے کام انجام دینے کے بجائے، اعتماد حاصل کرنے کے لیے ظاہری اور دکھاوے کا برتاو کرتے ہیں یا کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر، بدگمانی ، قابل اعتماد اور صحیح انسانوں کو غلط طریقے استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
اپنے دوستوں کے بارے میں بدگمانی ، روابط کو درہم برہم کر کے دوستی اور خلوص کو نیست و نابود کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔

اسی طرح بدگمانی سے نفسیاتی بیماریاں، باہمی نفرتیں ، رنجشیں، رقابتیں،معاشرے میں انتشار،لڑائی جھگڑا و قتال، خاندانی و قبائلی، لسانی اور اداروں کی رقابتیں وغیرہ جنم لیتی ہیں۔

تزکیہ نفس کے لئے بد گمانی کی اصلاح کرنا  ضروری ہے:

شرپسند اور بدفطرت ذہن رکھنے والے لوگوں میں بدگمانی پائی جاتی ہے۔ جو دوسروں کا اپنے ساتھ موازنہ کرتے ہیں اور اپنے رذائل کے انعکاس کو ان میں دیکھتے ہیں، اس لحاظ سے سب کو اپنا جیسے سمجھتے ہیں اور ان میں بھی اپنی ہی خصلتیں پاتے ہیں اور ایسا تصور کرتے ہیں کہ سب ان کے مانند ہیں۔ بدگمان شخص کو اپنی اس حالت سے مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے عیبوں کا علاج اور اصلاح کرنے کا اقدام کرنا چاہئیے، تاکہ اگر دوسروں کا اپنے ساتھ موازنہ کرے تو بدگمانی سے دوچار نہ ہو۔ دوسری جانب، توجہ کرنی چاہئیے کہ دوسروں کو اپنا جیسا فرض نہ کرے، کیونکہ ممکن ہے ان کے اعمال ان سے بہتر و عالی تر ہوں۔ اس لحاظ سے، مناسب نہیں ہے کہ اپنی برائیوں کو معیار قرار دے کر اپنے دینی بھائیوں کے بارے میں نامناسب ذہنیت پیدا کرے۔ پس بدگمانی سے مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ اپنے عیبوں کی اصلاح کرنا ہے۔
بدگمانی سے مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر انسان اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں کوئی خبر سنے تو اسے فوراً فیصلہ کر کے اقدام نہیں کرنا چاہئیے، بلکہ صبر کرنا چاہئیے تاکہ اس خبر کی تائید حاصل ہو جائے یا اس کو جھٹلایا جائے اور جب قابل اطمینان حد تک اس کی تائید ہو جائے تو اقدام کرنا چاہئیے۔

°دوسروں کے متعلق بہت زیادہ سوچنے اور بلاوجہ رائے قائم کرنے سے گریز کریں۔

°اپنی منفی سوچوں پر قابو رکھیں اور کسی بھی ناخوشگوار خیال پر گرفت کریں۔

° اگر کسی کے خلاف کوئی بدگمانی پیدا ہو جائے تو آخری حد تک بدگمانی سے جنگ لڑیں۔ مثال کے طور پر کسی شخص نے آپ سے بد تمیزی سے بات کی اور آپ نے یہ سوچا کہ شاید یہ یہ میرا دشمن ہے۔ تو یہ گمان کریں کہ وہ میرا دشمن نہیں اور ممکن ہے وہ کسی گھریلو پریشانی میں الجھا ہوا ہو جس کی بنا پر وہ لڑا ہو۔

°اپنا حق لوگوں کے لئے چھوڑنا شروع کریں۔

°لوگوں کو ان کی غلطی پر معاف کرنا سیکھیں کیونکہ اگر غلطی آپ کی ہے تو معافی کیسی؟

° یہ ایک دن کا کام نہیں۔ لہٰذا ناکامی کی صورت میں کوشش جاری رکھیں۔

اہل علم فرماتے ہیں کہ بدگمانی کی بیماری سے بچنے کا ایک موٴثر علاج یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں دل میں کوئی برا خیال پیدا ہو، اس کے ساتھ حسن سلوک اور دعائے خیر میں اضافہ کر دیا جائے۔ یہ رویہ شیطان کو غیظ وغضب میں مبتلا کر دے گا اور وہ آئندہ برے گمان پیدا کرنے سے باز آ جائے گا۔

اگرہم صدق دل سے اس نسخے پر عمل پیرا ہو جائیں تو نفرتوں، کدورتوں اور رنجشوں کی دیوار آن واحد میں زمین بوس ہو جائے ۔ ہمارا معاشرتی انتشار،خاندانی خلفشار اوراجتماعی اضطراب ختم ہو جائے۔ محبتوں اور الفتوں کے سوتے ہر سو پھوٹ پڑیں ۔ایک بار پھر ہم اپنے گم گشتہ ماضی کو پالیں ۔ اللہ رب العزت ہمیں سوئے ظن سے بچا کر حسن ظن کی دولت سے مالامال فرمائیں۔ آمین!
جاری ہے۔۔۔

اس سے متعلقہ سابقہ قسط کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_17.html?m=1

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_23.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_30.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_15.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/10/blog-post.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/10/blog-post_7.html

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...