Sunday 18 June 2017

ملحدین کے قرآن پر اعتراضات کے ماخذ اورانکےمتعلق محققین کی آراء اور کیا ہر مماثلت/مشابہت کا مطلب سرقہ ہوتا ہے ؟

ملحدین کے قرآن پر اعتراضات کے ماخذ اورانکےمتعلق محققین کی آراء اور کیا ہر مماثلت/مشابہت کا مطلب سرقہ ہوتا ہے ؟

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب:35

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

قرآن کے مصنفین نامی  سیریز کے مجہول مصنف نے اپنی کہانیوں کے لیے جن کتابوں سے مواد اٹھایا  ان میں کلئیر ٹسڈل کی کتاب ” قرآن کے اصل ماخذ” اور ابن ورق کی کتاب ”  The Origins of the Koran: Classic Essays on Islam’s Holy Book”” سرفہرست ہے۔ ان  مصنفین اور انکی کتابوں کے متعلق جدید دور کے  محققین کیا رائے رکھتے ہیں’ ملاحظہ فرمائیے۔

ابراھم گیگر کی کتاب Was hat Mohammed aus dem Judenthume aufgenommen :

عیسائی مشنریوں کی زمانہ قدیم سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ کسی طرح یہ ثابت کر دیں کہ قرآن ایک بے مقصد (نعوذباللہ) کتاب ہے جس کو بائبل سے نقل کیا گیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم محض ایک فراڈ تھے(نعوذباللہ)۔ اس طرزِ عمل کا آغاز صلیبی جنگوں کے ساتھ ہوا، تحریری صورت میں البتہ  اس مشن کو انیسویں صدی میں ایک یہودی ابراہم گیگر نے آگے بڑھایا۔ اس شخص نے ایک کتاب لکھی: Was hat Mohammed aus dem Judenthume aufgenommen? ۔جس کے اندر قرآن میں یہودی مواخذ سے تعلق رکھنے والی چیزوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔  یہ کتاب   ‘مماثلت  کا  مطلب سرقہ’  کے مفروضے پر مشتمل  ہے ۔  گیگر کے مطابق  کسی مشترک چیز کے  موجود ہونے کا مطلب  نقل  ہے اور  محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم نے  قرآن میں موجود چیزیں عبرانی بائبل اور یہودیوں کے دوسرے مواخذ سے حاصل کیں۔

 اس کتاب میں یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ کیا محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کے زمانے میں  عبرانی بائبل  کا کوئی عربی ترجمہ موجود تھا اور وہ کونسا یہودی ربی تھا جس نے محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کو یہ چیزیں پڑھائیں ؟ مزید قرآن کے مواخذ کے بارے میں بھی کوئی حوالہ موجود نہیں ہے۔

یہ بات باعث حیرت نہیں کہ  عیسائی مشنریوں اور پادریوں نے مسلمانوں سے نپٹنے کے لیے اس کتاب کا فوراً انگریزی ترجمہ بھی کرا لیا۔

“مصنف نے اس مضمون کے لکھنے کے ایک سال بعد ہی اسے اپنے خرچ پر جرمن زبان میں شائع کروایا اور سرورق پر یہ چیز بھی لکھوائی گئی تھی کہ اس کتاب کو یونیورسٹی پرائز بھی دیا جا چکا ہے۔1896 میں ایف ایم ینگ نے (جن کی تقرری بنگلور انڈیا میں تھی اور جو دہلی مشن برائے خواتین کے معاون تھے)نے اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا  اس امید پر کہ انڈیا میں موجود عیسائی مشنریز کو مسلمانوں سے نپٹے کے لیے اس سے مدد حاصل ہو گی۔ دو سال بعد عیسائیت کی ترویج کرنے والی دہلی مشن سوسائٹی نے مدراس میں اس ترجمے کو چھپوایا۔ “

(Abraham Geiger, Judaism And Islam (English Translation Of Was hat Mohammed aus dem Judenthume aufgenommen?), 1970, Ktav Publishing House Inc., New York, pp. VIII)

گیگر کی کتاب کے متعلق جدید محققین کی آراء:

 جدید محققین  نےگیگر کی کتاب میں مبالغہ آرائی اور غلط بیانی کو واضح کیا ہے ۔ گیگر کی کتاب  پر تبصرہ کرتے ہوئے سٹلمن کہتے ہیں:

“اس کتاب میں قرآن  کے لیے  یہودی تعاون  کو بہت  بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔ بہت سی روایات جن کے حوالے اس نے پیش کیے ہیں عیسائیوں، تلمود اور ہیگادک ادب میں بھی ملتے ہیں۔ آج کے زمانے میں مسلمانوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کی بہت سی کتابیں شائع ہونے کے بعد ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں گیگر سے زیادہ واقعات کی ترتیب کا علم ہے۔ اس کی روشنی میں اب ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ گیگر کو جہاں یہ لگا کہ قرآن میں یہودی ماخذ استعمال ہوئے ہیں، درحقیقت اس کا الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ   The Pirqe de Rabbi Eli’ezer جسکواسلام کے ظہور میں آنے کے بعد ایڈیٹ کرکے شائع  کیا  گیا تھا۔

 (Norman A. Stillman, “The Story Of Cain & Abel In The Qur’ân And The Muslim Commentators: Some Observations”, Journal Of Semitic Studies, 1974, Volume 19, p. 231.)

حتمی جائزے میں سٹلمن لکھتے ہیں کہ:حتمی طور پر ، اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ کسی کہانی کو کسی خاص ماخذ سے منسوب کرتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔ (Ibid., p. 239.)

ویلر(Brannon M Wheeler) بھی سٹلمن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

”  کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ایک ایسی کثیر الجہتی تحقیق کی ضرورت ہے جس میں ان مواخذ کی تواریخ  پر کام کیا جائے اور یہ پتہ لگایا جائے کہ ایسے تمام یہودی اور عیسائی مواخذ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام کے ظہور میں آنے کے بعد شامل کیے گئے ، کیا واقعی اسلام سے پہلے بھی موجود تھے اور انھوں نے اسلام پر اثر ڈالا یا کہ ان پر اسلام کی وجہ سے کوئی اثر پڑا۔ “( Brannon M Wheeler, “The Jewish Origins Of Qur’ân 18:65-82? Reexamining Arent Jan Wensinck’s Theory”, Journal Of The American Oriental Society, 1998, Volume 118, p. 157)

ڈبلیو سینٹ کلیئر ٹسڈل کی کتاب “قرآن کے اصل ماخذ“:

کلئیر ٹسڈل نے گیگر کی کتاب میں پیش کیے گئے مفروضوں کو بڑھایا اور ان میں اضافہ کرتے ہوئے ایک  کتاب پیش کی ۔ عیسائیت کی ترویج کرنے والی سوسائٹی نے ڈبلیو سینٹ کلیئر ٹسڈل کی کتاب “قرآن کے اصل ماخذ” کو بھی 1905 میں چھپوایا۔ یہ نئی کتاب گیگر کی کتاب کا ہی ایک تسلسل تھا اور اس میں کچھ نئے مواخذ کا بھی اضافہ کیا گیا تھا۔

 گیگر کی طرح ٹسڈل نے بھی محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کے زمانے میں عیسائیوں اور یہودیوں کے عربی میں موجود مواد کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کو یہ چیزیں کس نے پڑھائیں یا کہاں سے لیں، سوائے اس دعویٰ کے کہ محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کو بتانے والے کچھ لوگ موجود تھے۔ عیسائی علوم کی ترویج کرنے والی اس سوسائٹی کا مقصد بالکل واضح تھا۔ ٹسڈل بھی اپنی کتاب کے متعلق لکھتا ہے :

“عیسائی مشنریز معروف مسلمانوں سے  سوالات  کا  نیا طریقہ  دریافت کرنے  اور انہیں اپنی ناقابل دفاع پوزیشن  سے باخبر کرنے کے لیے ‘ ہماری  ان  تحقیقات  کی پیروی کو اہم پائیں گے  ۔”

 (Rev. W. St. Clair Tisdall, The Original Sources Of The Qur’ân, 1905, Society For The Promotion Of Christian Knowledge, London, pp. 28)

ٹسڈل کی کتاب “قرآن کے اصل ماخذ ”  دراصل عیسائی مشنریوں  کی ایک نئی بائبل ہے جو  مسلمانوں کو فروخت کی گئی۔ اس کتاب کا مقصد ایسے مسلمانوں کے ذہن میں شکوک شبہات پیدا  کرنا ہے  جو تحقیقانہ ذہن نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کتابوں میں مستعمل  طریقہ واردات  سے واقف ہیں۔ ٹسڈل کی  سستی اور شرمناک  سکالرشپ اسکے مضامین “محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کے اپنے بیویوں سے بائبل کی تعلیم لینا ، حضرت سلمان فارسیؑ، ہابیل اور قابیل کا واقعہ ,سامری کی کہانی کا ماخذ وغیرہ میں پیش کیے گئے دلائل سے بہت واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے ۔

جدید سکالر ٹسڈل کے کام کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

جدید سکالر ٹسڈل کی کتاب “قرآن کے اصل ماخذ”  یا  ایک اور مشنری ولیم موئیر کی کتاب ‘اسلام کے ماخذ’ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ فرانکوئیس ڈی بلوئی  (François de Blois)ابن وراق کی کتاب “قرآن کے ماخذ:اسلام کی مقدس کتاب پر کلاسیکل مضامین” میں موجود ٹسڈل کے حوالوں کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :

“اسکے کلاسیکل مضامین کوئی اہمیت نہیں رکھتے،  ان سے بھی بدتر سینٹ کلیئر ٹسڈل کا   پیش  کردہ  حقیر مشنری پراپیگنڈہ ہے۔ ۔ یہ بات حیران کن ہے کہ  ” مصنف  جو اپنی کتاب “میں مسلمان کیوں نہیں “میں   خود کو تنقیدی سوچ رکھنے والا اور قدامت پسندی کی تمام شکلوں کا سخت  مخالف  ثابت کرنے کے لیے اتنا بڑھ چڑھ کے لکھتے  ہیں، نے اس کتاب میں  انیسویں صدی کے دو عیسائی مناظر کی لکھی ہوئی باتوں پر اس درجہ انحصار کیا ہے۔ “

(François de Blois, “Review of Ibn Warraq’s The Origins Of The Koran: Classic Essays On Islam’s Holy Book”, Journal Of The Royal Asiatic Society, 2000, Volume 10, Part 11, p. 88)

اس طرح کا ایک جائزہ ہربرٹ برگ (Herbert Berg) نے بھی پیش کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ:

“سینٹ کلیئر ٹسڈل کا مضمون جس کا پیش لفظ ولیم موئیر نے لکھا ہے فقط عیسائی نقطہ نظر کے لیے شامل کیا گیا ہے۔۔ یہ ہرگز عالمانہ مضمون نہیں ہے یہ صرف  مخالفانہ خصوصیات کا حامل ہے۔ اس میں  عیسائیوں کی تاریخ کو صرف مسلمانوں کی نفی کرنے کے لیے  استعمال کیا گیا ہے۔ مصنف نے ان  قرآنی  واقعات کو  جو عیسائی تعلیمات اور اولڈ ٹیسٹامنٹ کے منافی ہیں’ کا ذکر کرتے ہوئے      “بیوقوفانہ”،  “خیالی”، “بچگانہ”، اور “جاہلانہ”  جیسے الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ “

(Herbert Berg, “Review of Ibn Warraq’s The Origins Of The Koran: Classic Essays On Islam’s Holy Book”, Bulletin Of The School Of Oriental & African Studies, 1999, Volume 62, p. 558.)

بہ الفاظ دیگرٹسڈل کا مواد نہ صرف عیسائی مشنریوں کا حقیر پراپیگنڈہ ہے بلکہ قرآن اور  یہودی تصنیفات پر ایک بے بنیاد اور   بے رحمانہ حملہ ہے ، خصوصا جہاں مصنف کے خیالات انکی تعلیمات سے مختلف ہیں ۔ اس کتاب کا مواد کس حد تک  جھوٹ اور غلط بیانی  پر مشتمل  ہے  اسکی تفصیل دیگر تحاریر میں بھی پیش کی جاچکی ہے جن سے واضح ہے کہ مستشرقین  کے نزدیک عیسائیت کی ترویج بعض دفعہ سچ اور حق گوئی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

یہ عیسائی مشنریوں کی عادت ہے کہ انھوں نے جدید تحقیق اور محققین کی رائے  کو کبھی   اہمیت نہیں دی ، بصورت دیگر کون ان کی اچھی خبروں پر یقین  کرتا۔

ابن ورق اور اسکی کتاب “قرآن کے ماخذ:اسلام کی مقدس کتاب پر کلاسیکل مضامین“:

ابن ورق کی یہ کتاب   کلئیر ٹسڈل کی کتاب  سے ہی ماخوذ ہے ۔ابن ورق کی کتاب “قرآن کے ماخذ”  کا جائزہ لیتے ہوئے مذہبی تعلیمات کے پروفیسر ہربرٹ برگ نے ابن وراق کو  ایک ایسا مصنف گردانا ہے جس کا انداز اپنی تحاریر میں انتہائی  مناظراتی اور متضاد ہے۔ برگ نے اس مجموعے میں تھیوڈور نول ڈیکےکے مضمون کو شامل کرنے کے اقدام کو سراہا ہے لیکن ولیم سینٹ کلیئر ٹسڈل کے مضمون کی شمولیت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ مضمون ہرگز عالمانہ نہیں ہے۔برگ لکھتے ہیں

” ایسا لگتا ہے کہ  ابنِ وراق نے بعض مضمون جو  اپنے مجموعے میں شامل کیے ہیں ان کی شمولیت کی وجہ  علمی یا تاریخی ہونے کی بجائے صرف یہ تھی کہ وہ مضمون اسلام کے خلاف لکھے گئے تھے۔ اس بات سے ہرگز یہ مت سمجھا جائے کہ ابنِ وراق کے مجموعے کی اہمیت کم ہو گئی ہے، بلکہ یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ مجموعہ قرآن کے متعلق  تاریخی اسکالر شپ کی نمائندگی نہیں کرتا” ۔

(Berg, Herbert (1999). “Ibn Warraq (ed): The Origins of the Koran: Classic Essays on Islam’s Holy Book”. Bulletin of the School of Oriental and African Studies 62 (3): 557–558.)

پروفیسر فریڈ ڈونر نے ابن ورق کے  مضمون “تاریخی محمد صلی ٰ اللہ و علیہ وسلم کی تلاش”  کا جائزہ لیتے ہوئے   اسکی عربی میں ضروری مہارت کی کمی کو نوٹ کیا  اور لکھا کہ  ابنِ وراق نے اپنے مضمون میں عربی مواد کو متضاد طریقے سے استعمال کیا ہے ، دلائل غیر اصلی ہیں،  ترمیمی نظریات کے حامل  لوگوں کی طرف  حد درجے کا جھکاؤ اور  رحجان  ہے اور کتاب کا پہلے سے موجود ایک  مخصوس ایجنڈہ ہے جو کہ ہرگز عالمانہ نہیں بلکہ محض اسلام پر اٹیک  ہے۔ ” (Donner, Fred. (2001) Review: The Quest for the Historical Muhammad. Middle East Studies Association Bulletin, University of Chicago)

انتھروپالوجسٹ  اورتاریخ دان ڈینیئل مارٹن ویریسکو نے ابنِ وراق کی کتاب : Defending the West: A Critique of Edward Said’s Orientalism پر تنقید کرتے ہوئے لکھا  کہ اس  ایک کتب فروش کے  ماڈرن بیٹے نے ایک مناظراتی مغالطہ تحریر کر کے پانچ سو  سے زائد صفحات کو ضائع کیا ہے۔

(Daniel Martin Varisco (2009). “Orientalism’s Wake: The Ongoing Politics of a Polemic”. MEI Viewpoints (12))

 ابنِ وراق کی کتاب “قرآن کے مآخذ” بذات خود ٹسڈل کی کتاب سے ماخوذ ہے  جو کہ فرانکس ڈی بلوئے کے مطابق ” ٹسڈل کی کتاب اصل میں  سستے عیسائی مشنری پراپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔ “

( Blois, François de (2000). “Review of Ibn Warraq’s The Origins Of The Koran: Classic Essays On Islam’s Holy Book”. Journal of the Royal Asiatic Society)

اسماء افسر الدین لکھتی ہیں کہ:

”  ابنِ وراق نے ایک تعمیری بحث میں دلچسپی نہیں لی، بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بات کو بغیر کسی دلیل اور مباحثے کے پورے کا پورا تسلیم کر لیا جائے،اسماء نے یہ اضافہ کیا کہ “قرآن کے ماخذ” نہ صرف ایک زہر آلود ماحول کو پروان چڑھاتی ہے بلکہ ایک دیانت داری سے کی جانے والی علمی بحث کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کی بھی بیخ کنی کرتی ہے۔  (Asfaruddin, Asma; Warraq, Ibn (2001). “The Quest for the Historical Muhammad”. Journal of the American Oriental Society (American Oriental Society))
---
کیا ہر مماثلت/مشابہت کا مطلب سرقہ ہوتا ہے ؟

آسمانی کتابیں چونکہ  ایک ہی ماخذ سے  آئیں  (یعنی ایک ہی خدا کی طرف سے  ہیں )۔ اس لیے واقعات کے بیان میں ان کتابوں میں کہیں نا کہیں مماثلت بھی پائی جاتی ہے ۔ یہاں  سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایک ہی واقعہ کے متعلق دو مختلف کتابیں ایک جیسی تفصیل پیش کرتی ہیں تو کیا اسے سرقہ کہا جائے گا؟ یہ کیوں فرض کر لیا گیا ہے کہ  ایک ہی  واقعہ کی تفصیل ہر کتاب کو مختلف پیش کرنی چاہیے تھی   جبکہ واقعہ ایک ہی  ہوا تھا۔؟

قرآن اور بائبل میں پائی جانے والی یکساں باتوں سے لازمی طور پر یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ اول الذکر مؤخر الذکر سے نقل کیا گیا ہے۔ اس پر دلائل  ہم گزشتہ تحاریر میں پیش کرچکے ہیں ۔ فی الحقیقت یہ اس بات کی شہادت ہے کہ یہ دونوں کسی تیسرے مشترک ذریعے پر مبنی ہیں۔ تمام صحائف ربانی کا منبع ایک ہی ذات ، یعنی رب کائنات ہے، یہود و نصارٰی کی کتب اور ان سے بھی قدیم آسمانی صحیفوں میں انسانی ہاتھوں سے کی جانے والی تحریفات کے باوجود، ان کے بعض حصے تحریف سے محفوظ رہے ہیں اور اسی لیے کہ وہ کئی مذاہب میں مشترک ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ قرآن  نے بھی کچھ ایسے  واقعات بیان کیے ہیں  جنکا تذکرہ  بائبل  میں بھی   موجود  ہے  لیکن صرف اس بنا پر محمد (ﷺ) پر یہ الزام لگانے کا کوئی جواز نہیں کہ انہوں نے بائبل سے کوئی چیز نقل کی یا اس سے اخذ کرکے قران مرتب کیا۔ اگر یہ منطق درست ہےتو یہ مسیحیت اور یہودیت پر بھی لاگو ہوگی۔مثلا پیغمبر نوح کو چند احکامات دئیے گئے اسی طرح کے احکامات پیغمبر موسیٰ کو ان کے بعد دئیے گئے۔ اگر  نوح ؑ کے پیروکار موسیٰ ؑ کے پیروکاروں کی تعلیمات کو اپنی تعلیمات کا سرقہ قرار دیں تو موسیٰ ؑ کے پیرو کار اس کا کیسے جواب دیں گے۔ ؟ مزید یہ دعوٰی بھی کیا جاسکے گا کہ یسوع مسیح (علیہ السلام ) نعوذ باللہ ) سچے نبی نہیں تھے  کیونکہ  انہوں نے محض عہد نامہ عتیق کی نقل کرنے پر اکتفا کیا۔

عیسائی مستشرق ٹسڈل نے قرآن کے متعلق جو اعتراض دوہرائے ہیں،   دیکھا جائے تو یہود  نے  انجیل کے متعلق  پہلے سے یہ اٹھائے ہوئے ہیں   کہ انجیل میں جو بھی اچھی باتیں ہیں  وہ درحقیقت یہودی تعلیمات سے ماخوذ ہیں  کیونکہ مسیح ؑ نے اسی قوم میں پرورش پائی  اور دعوی نبوت سے قبل علماء یہود سے دن رات مواعظ و نصائح سنے ،  اسی طرح انجیل  یونانی تعلیمات سے بھی ماخوذ ہیں  کیونکہ اس زمانے میں انہوں نے اپنے علم کی بدولت آسمانوں پر کمندیں ڈالی ہوئی ہیں ، علوم عقلیہ اور خاص طور پر علم الاخلاق میں انکا طوطی بولتا تھا ۔ اسی طرح یہ مجوسی تعلیمات سے بھی ماخوذ ہیں ۔ کیونکہ اس زمانے میں اکثر ممالک پر ان کا تسلط و اقتدار تھا اور انہی کے قوانین رائج تھے  لہذا تلاش کرنے والے پر  انکے علوم کم ہی مخفی رہ سکتے ہیں ؟

ایک عیسائی مشنری  اس اعتراض کے جواب میں اپنی کتاب ” حل الاشکال ” میں لکھتے ہیں کہ ” یہود کی اس بات کا کون اعتبار کریگا ؟ یعنی انکے اعتراض کی کوئی حقیقت نہیں ۔ کیا یہی  جواب  ہم بھی دے سکتے ہیں کہ قرآن کے متعلق مسیحیوں کی اس مجنونانہ بڑ کا کون اعتبار کریگا؟ جو حقیقت میں بھی محض تعصب کا اظہار اور مجنونانہ بڑ ہی ہے’ جیسا کہ  ایسے  الزامات کے دیے گئے علمی و تحقیقی جوابات سے ظاہر ہے۔
قرآن نے انبیاء و  اقوام سابقہ کے متعلق جو تفصیل پیش کی ہے  وہ بعینہی  پرانی کتابوں میں موجود نہیں ہے ، قرآن نے ناصرف پرانی کتابوں کی غلطی کو دور کیا ہے، بلکہ  ان کے متعلق مزید تفصیلات بھی پیش کی ہیں اور بہت سی جگہ تفصیلات ایسی ہیں کہ وہ پہلے کسی کتاب میں بھی موجود نہیں ہیں۔

یہود و نصاریٰ سے علم حاصل کرنے اور  مواد چرانے کےاس الزام پر کئی قسم کے سوال اٹھائے جاسکتے ہیں ۔ مثلا

۱۔ حضرت محمدﷺ کی زندگی پر بے تحاشہ تاریخی مواد ہونے کے باوجود اور صدیوں تک ان کے سخت ناقدین بھی اس استاد کو کیوں نہ ڈھونڈ سکے جس سے آپ ﷺ نے تعلیم حاصل کی تھی۔؟

۲۔ محمدﷺ کا ان کے ہم عصر لوگوں نے ۱۳ سال تک مذاق اڑیا،مخالفت کی اور ایذا دی۔ اتنے شدید دشمنوں کے درمیان کیا یہ ممکن نہ تھا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ آپ پر اترنے والی وحی من گھڑت تھی۔؟کیا یہ ممکن نہ تھا کہ اس شخص کا نام بتایا جا سکتا جس سے آپ نے تعلیم حاصل کی۔مجبور ہوکے  ان مخالفوں نے بعد میں آپ ؐ پے جادو گر اور غیر مرئی طاقتو ں کا زیر اثر ہونے کالزام لگایا .

۳۔محمدؐاپنے لوگوں میں پروان چڑھے اور ان کی زندگی کا ہر پہلو ان پر عیاں تھا بلخصوص وہ کھلا پن جو صحرائی قبائلی زندگی کی خصوصیت ہے۔ اس طرح ان کے بہت سارے ہم عصروں نے جن میں ان کے قریبی رشتہ دار بھی شامل ہیں جو انہیں بہت اچھی طرح جانتے تھے۔انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی سچائی پر کیسے یقین کر لیا اگر انہیں اس بات کا شک ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  ایسی باتیں کر رہے ہیں جو انہیں دوسرے اساتذہ نے سکھائی ہیں جن کا نام لیے بغیر وہ ان باتوں کو اپنی طرف منسوب کر رہے ہیں۔؟

۴۔ وہ  کس طرح کا استاد ہے  جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو اتنا جامع اور مکمل دین سکھا سکتا تھاجس نے تاریخ کا چہرہ بدل دیا؟وہ استاد عیسائیت و یہودیت کو وہ دین کیوں نہیں دے سکا؟ یہود ونصاری  ایسے مبینہ استاد کے خلاف اس وقت کیوں نہ بولے جب محمد ﷺ  مسلسل ان سے پڑھ کر بھی ان کو نظرانداز کررہے تھے اور  اپنی تعلیمات کا ماخذ کسی الہامی وسیلے کو قرار دے رہا تھا۔یہ ہزار سال بعد کے مستشرق کو ہی کیسے نظر آگیا؟

۵۔ ان کے بہت سے ہم عصر عیسائی اور یہودی کس طرح ان کی سچائی پر ایمان لے آئے اگر وہ جانتے تھے کہ آپ ﷺان کے صحائف کی نقل کر رہے ہیں یا پادریوں اور ربیوں سے تعلیم لے رہے ہیں ؟

۶۔ قرآن کی کچھ وحی محمدﷺ کے اوپر لوگوں کی موجودگی میں آئی۔ قرآن  23سالوں کے عرصے میں موقع اور ضرورت کے تحت  نازل ہوتا رہا  وہ نظر نہ آنے والا پرسرار استاد کہاں تھا ؟ اس نے اتنا عرصہ خود کو کہاں چھپائے رکھا۔ یا محمد ﷺ جو خود لوگوں میں ہر وقت گھرے رہتے تھے ان کے لئے کیسے ممکن ہوا اپنے استاد کو ۲۳ سال تک پوشیدہ ملتے رہے اور ایک دفعہ بھی نہ پکڑے گئے۔؟

ان تمام سوالوں کے جواب عیسائی مبلغین  کبھی نہیں دے پائے نا دے سکیں گے ؟ ہر وہ شخص جس نے محمدؐ کی زندگی کو ایمانداری سے پڑھا ہے وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ آپ ﷺ کی ایمان داری شعوری سرقہ بازی اور جعل سازی کی نفی کرتی ہے۔اس کا اقرار خود مغربی محققین نے بھی کیا ہے ۔کیرن آرم سٹرانگ اپنی کتاب History of God میں محمد ؐ پر وحی اللہ کی طرف سے کے عنوان میں لکھتی ہے

610 ء کے دور میں حجاز کے ایک شہر مکہ کے ایک تاجر جس نے کبھی بائیبل نہیں پڑھی اور جس نے کبھی عیسیٰ جرمیا اور ازکائیل کے بارے میں نہیں سنا اس نے  ایک ایسا تجربہ  پیش کیا  جو کہ بالکل ان کے مماثل تھا۔”

(Karen Armstrong, A History Of God, 1993, Ballantine Books, New York, p.132)

ایک سوئس محقق Roger DuPasquier  لکھتا ہے

” مسلم مخالف مصنفین کا تعصب اس دن تک کوئی بھی قابلِ دفاع وضاحت پیش نہیں کر سکا کس طرح ایک امیّ جو کہ ساتویں صدی کے قافلے کا مسافر ہے اس قابل ہو گیا اس طرح کی شاہکار تحریر تخلیق کر سکے جس میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ جذبات میں طلاطم پیدا کر سکے اور جس میں علم و دانائی ہو۔جو اپنے ہم عصروں سے بہت اونچی کھڑی ہو۔مغرب میں کی جانے والی  وہ تحقیق جس میں آپؐ کے ان وسائل کو طے کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو آپ ؐ نے استعمال کیے اور اس نفسیاتی معاملہ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے جس نے آپؐ کو اس قابل کیا کہ اپنے تحت الشعور سے رہنمائی حاصل کریں یہ بات صرف ایک چیز کو ثابت کرتی ہے۔ ان مصنفین کا مسلم مخالف تعصب”
(Roger DuPasquier, Unveiling Islam, 1992, The Islamic Texts Society, Cambridge, p.53)
جاری ہے۔۔۔۔
اس مضمون سے متعلقہ مزید معلومات اگلی قسط میں پڑھیں
بشکریہ کلام رب العالمین بجواب قرآن کے مصنفین

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
0096176390670
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...