Monday 26 June 2017

انسانی ارتقاءکا منظر نامہ(حصہ سوم)

انسانی ارتقاءکا منظر نامہ

 سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#50(حصہ سوم)

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

نیانڈر تھال

نیانڈر تھال وہ انسان تھے جو کہ اچانک ۰۰۰,۰۰۱ سال پہلے یورپ میں نمودار ہوئے اور جو کہ یا تو وقت کے ساتھ مکمل طور پر غائب ہوگئے یا پھر دوسری نسلوں میں ۰۰۰,۵۳ سال پہلے جذب ہوگئے۔ دورِ حاضر کے انسان اور ان میں صرف یہ فرق تھا کہ نیانڈر تھال کے ڈھانچے زیادہ مضبوط اور ان کی کھوپڑی تھوڑی اور بڑی تھی۔

غلط نقاب: گوکہ نیانڈر تھال نسل موجودہ دور کے انسانوں سے قطعی مختلف نہیں تھی لیکن ارتقاءپسند ان کو پھر بھی گوریلا نما بناکر پیش کرتے ہیں۔امیج میں تصویر نمبر 1 دیکھیں ۔

نیانڈر تھال کا انسانی نسل ہونے کا اعتراف آج تقریباً ہر کوئی کرتا ہے۔ اگرچہ ارتقاءپسندوں ایڑی چوٹی کا زور لگاکر ان کو ایک ”قدیم نسل“ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہےں لیکن تمام تحقیق صرف ان کو دورِ حاضر کا ایک جسمانی طور پر مضبوط آدمی ہونا ہی ثابت کرتی ہے۔ نیومیکسیکو یونیورسٹی کا ایرک ٹرنکاس جو کہ ماہرِ قدیم بشری رکازیات ہونے کے علاوہ اس مخصوص موضوع پر بھی ماہر ہے وہ لکھتا ہے:

”نیانڈرتھال کے ڈھانچے اور جدید انسانوں کے درمیان تفصیلی موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ نیانڈر تھال کے تشریح البدن میں کوئی ایسی خود حرکتی، لسانیاتی، چابک دستی یا عقل و فہم سے متعلق کمی نہیں تھی جوکہ اس کو جدید انسان سے کسی طور پر کمتر ثابت کرے۔“ 87

کئی جدید تحقیق دان نیانڈرتھال انسان کو جدید انسان کی ذیلی نسل کہتے ہیں اور اس کو ہوموسیپین نیانڈرتھالنسس کے نام سے پکارتے ہیں۔ تمام تحقیق کے مطابق نیانڈر تھال بھی اپنے مرے ہوﺅں کو دفناتے تھے، موسیقی کے آلے بناتے تھے اور ان کے اور اسی دور میں موجود ہوموسیپین انسانوں کے درمیان کئی تہذیبی اور ثقافتی مماثلت تھی۔ یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ نیانڈر تھال ایک مضبوط اور تنومند انسانی نسل تھی جو کہ وقت کے ساتھ غائب ہوگئی۔

 الٹے ہاتھ کی طرف اسرائل سے دریافت ہونے والی ہوموسیپین نیانڈ رتھالنسس، آمد ۱ کی کھوپڑی ہے۔ نیانڈر تھال آدمی عمومی طور پر مضبوط لیکن گٹا تھا لیکن اندازہ ہے کہ اس لمبا تھا۔ اس کی دماغ کی گنجائش M فوصل کا مالک ۰۸۱ CC اب تک ملنے والے تمام فوصلوں میں سب سے زیادہ ۰۴۷۱ ہے۔ ان تمام وجوہات کی بناءپر نیانڈرتھال کو قدیم ، غیر ترقی یافتہ نسل کہتے تمام دعوؤں کی تردید کے لئے یہ فوصل اہم شواہد میں سے ایک ہے۔
امیج میں تصویر نمبر 2 ملاحظہ کریں ۔
ہوموسیپین آرکائک،ہومو ہائلڈربرگنسس اور کروماگنون مین

خیالی ارتقائی منصوبے میں آرکائک ہومو سیپین جدید انسان سے پہلے آخری مرحلہ ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ارتقاءپسند ان فوصلوں کے بارے میں کچھ بولنے کے لائق ہی نہیں ہیں کیونکہ ان کے اور آج کے انسان کے بیچ بہت معمولی فرق ہے۔ کچھ تحقیق دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس نسل کے نمائندے مقامی آسٹریلوی باشندوں کی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔ ہوموسیپین آرکائک کی طرح ان آسٹریلوی مقامی باشندوں کی بھنویں بھی گھنی باہر کو نکلتی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کا جبڑا تھوڑا اندر کو دھنساہوا ہوتا ہے اور ان کی کھوپڑی کا ناپ نسبتاً چھوٹا ہوتا ہے۔ ہوموہائلڈلبرگنسس نامی ارتقائی ادب کا گروہ آرکائک ہومو سیپین کا مشابہہ ہے۔ ایک ہی نسل کے دو نام اس لئے رکھے گئے کیونکہ ارتقاءپسندوں کاا س موضوع پر اختلاف رائے تھا۔ ہوموہائلڈر برگنسس درجہ بندی کے تمام فوصل ان لوگوں کی نشاندہی کرتے ہیں جوکہ تشریح الاعضاءکے حساب سے ناصرف دورِ حاضر کے یورپی لوگوں سے مشابہ ہیں بلکہ ان یورپیوں سے بھی مشابہ ہیں جو کہ انگلستان اور اسپین میں ۰۰۰,۰۰۵ اور ۰۰۰....۰۷۴ سال پہلے زندہ تھے۔

اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کرومیگنون انسان ۰۰۰,۰۳ سال پہلے زندہ تھا۔ ان کی کھوپڑی گنبد کی شکل کی اور ماتھا چوڑا تھا۔ اس کی شکل پر گھنی باہر کو نکلی ہوئی بھنویں تھیں اور کھوپڑی کے پیچھے کی ہڈی تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ یہ خاصیت نیانڈر تھال انسان اور ہوموارکٹس میں بھی موجود تھی۔ گوکہ کرومیگنون انسان کو ایک یورپی نسل سمجھا جاتا ہے لیکن ان کی کھوپڑی کی ساخت اور ناپ افریقہ اور مدارینی علاقوں کے دورِ حاضر کے باشندوں سے مشابہ ہے۔ اس مماثلت پر انحصار کرتےہوئے اندازہ لگایا گیا ہے کہ کرومیگنون انسان ایک آرکائک یا قدیم افریقی نسل تھی۔ کچھ اور قدیم بشری رکازیات کی تحقیق کے ذریعے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے
کہ کرومیگنون انسان اور نیانڈر تھال نسلیں آپس میں مل گئیں اور دورِ حاضر کی جدید نسل کی بنیاد ڈل گئی۔ ان سب میں سے کوئی بھی انسان غیر ترقی یافتہ نسلیں نہیں تھیں۔ وہ صرف الگ نسلیں تھیں جوکہ پرانے وقت میں زندہ رہیں اور یاتو دوسری نسلوں میں جذب ہوکر کوئی اور شکل اختیار کرگئیں یا پھر معدوم ہوکر تاریخ سے ہمیشہ کے لئے غائب ہوگئیں۔

اپنے پرکھوں کے دور میں ہی رہنے والی نسلیں۔

اب تک جس تحقیق کا جائزہ لیا گیا ہے وہ ایک واضح منظر پیش کرتی ہے۔ انسانی ارتقاءکا منظر نامہ ایک خیالی کہانی ہے۔ کسی بھی ایسے شجرہ نسب کے وجود میں آنے کے لئے گوریلے کا آدمی تک ارتقاءایک سلسلہ وار تدریجی ترقی پر مبنی ہونا چاہئے تھا جس کا ہر ثبوت فوصلی شکل میں موجود ہونا چاہئے تھا۔ لیکن گوریلے اور انسان کے درمیان ایک لامحدود خلاہے۔ ڈھانچوں کی ساخت، کھوپڑیوں کی پیمائش اور سیدھاچلنے کی صلاحیت انسانوں کو گوریلوں سے الگ کرتی ہے۔ (اس بات کا پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے کہ ۴۹۹۱ءمیں کی جانے والی کان کی اندرونی ساخت کی تحقیق کی بنیاد پر آسٹرالوپتھیکس اور ہوموہابلس کا شمار گوریلو ں میں کیا گیا تھاجبکہ ہومو ارکٹس کو انسان کا درجہ دیا گیا تھا۔

یہ سوئی ایک بیحد اہم فوصل ہے جو ثابت کرتا ہے کہ نیانڈر تھال لوگوں کو کپڑوں کی سلائی کی بھی سمجھ بوجھ تھی۔ ( ڈی لننسن، بی۔ ایڈگر ) ”لوسی سے زبان تک“ ، صفحہ ۹۹ )امیج میں تصویر نمبر3 ملاحظہ کریں ۔

ایک اور بے حد قابل ذکر دریافت جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان تمام مختلف نسلوں کے درمیان کسی بھی شجرہ نسب کے اعتبار سے تعلق ناممکن ہے وہ یہ کہ جن نسلوں کو ایک دوسرے کا پرکھا کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے وہ درحقیقت وقت کے ایک ہی دور میں زندہ تھےں۔ اگر ارتقاءپسندوں کے دعوے کے مطابق آسٹرالوپتھیکس ہومو ہابلس میں تبدیل ہوگئے اور ہومو ہابلس ہومو ارکٹس میں بدل گئے تو ان کی زندگی کے دور اور اوقات بھی بدل جانے چاہئے تھے۔ لیکن فوصلی ریکارڈ میں ایسی کسی بھیتاریخی ترتیب کا نشان نہیں ملتا۔ ارتقائی اندازوں کے مطابق آسٹرالوپتھیکس ۴ لاکھ سال پہلے نمودار ہوا اور ۱ لاکھ سال پہلے معدوم ہوگیا۔ ہوموہابلس نامی مخلوق اندازاً ۷۱ سے ۹۱ لاکھ سال پہلے بھی موجود تھی۔ ہوموہابلس سے بھی زیادہ ترقی یافتہ نسل ہومو روڈولفنسس ۵۲ سے ۸۲ لاکھ سال پہلے زندہ تھی۔ اس حساب سے ہوموروڈولفنسس ہومو ہابلس سے تقریباً ۱ لاکھ سال بڑی ہے جس کا اس کو پرکھا کہا جاتا ہے۔ ہومو ارکٹس ۶۱ سے ۸۱ لاکھ سال پہلے زندہ تھے جس کے حساب سے ہومو ارکٹس زمین پر وقت کے اسی دورانیئے میں نمودار ہوئے جس دورانیئے میں ان کے نام نہاد پرکھا ہوموہابلس وجود میں آئے تھے۔

ایلن والکر اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے

”مشرقی افریقہ سے ثبوت ملا ہے کہ دنیا میں نسبتاً چھوٹے آسٹرالوپتھیکس انسان وقت کے ایک ہی دور میں پہلے ہوموہابلس کے ساتھ اور پھر ہوکو ارکٹس کے ساتھ موجود تھے۔“ 89

لوئس لیکی نے بھی آسٹرالوپتھیکس، ہوموہابلس اور ہومو ارکٹس کے فوصل تقریباً ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہی تنزانیہ کے اولڈ ووائی گورج خطے میں سطح IIمیں دریافت کئے ہیں۔

ایسے کسی بھی شجرہ¿ نسب کا کوئی وجود نہیں ہے جس کا ذکر ارتقاءپسند کرتے رہتے ہیں۔ اسٹیفن جے گولڈ ہارورڈ یونیورسٹی کا ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور ارتقاءپسند ہے۔ وہ ارتقاءکو پیش آنے والا یہ تعطل ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

”ہماری سیڑھی کا کیا بنا اگر ایک ہی وقت کے دور میں تینوں آسٹرالوپتھیکس افراکانس، مضبوط آسٹرالوپتھیسینز اور ہوموہابلس نسلیں ایک ساتھ ہی موجود ہوں اور کوئی بھی ایک دوسرے کا پرکھا نہ ہو؟ اس کے علاوہ ان تےنوں کے اندر کسی بھی طرح کے ارتقائی اوصاف ان کی ارضی زندگی کے دوران موجود نہیں تھے۔“ 90

جب ہومو ارکٹس سے ہومو سیپین کی طرف آتے ہیں تو یہاں بھی کسی بھی طرح کے شجرہ¿ نسب کی عدم موجودگی ہے۔ تحقیقی ثبوت کے مطابق ہومو ارکٹس اور ارکائک ہومو سیپین ۰۰۰,۷۲ سال تک زندہ رہے اور دورِ حاضر سے ۰۰۰,۰۱ سال پہلےتک بھی موجود تھے۔ آسٹریلیا کی کوﺅ سوانپ یا جھیل سے ۰۰۰,۳۱ سال پرانی ہومو ارکٹس کھوپڑیاں ملی ہیں۔ جاوا کے جزیرے پر ملنے والے ہومو ارکٹس کے بقایاجات ۰۰۰,۷۲ سال پرانے ہیں ۔۱۹

ہومو سیپین کی خفیہ تاریخ

رسالہ ڈسکور، ارتقائی کتب کے اہم ترین جریدوں میں سے ایک ہے۔ اس رسالے نے اپنے سرورق پر ۰۰۸ ہزار سال پرانا ایک انسانی چہرہ اس سوال کے ساتھ چھاپا ”کیا یہ ہمارے ماضی کا چہرہ ہے؟“
امیج میں تصویر نمبر 4 ملاحظہ کریں ۔

نظریہ¿ ارتقاءکے خیالی شجرہ¿ نسب کو غلط ثابت کرنے والا سب سے دلچسپ اور قابلِ ذکر واقعہ جدید انسان کی قدیم تاریخ کا خلاف توقع دریافت ہونا ہے۔ علمِ قدیم بشری رکازیات کے مطابق بالکل دورِ حاضر کے انسانوں کے ہمشکل ہوموسیپین لوگ زمین پر ۱ لاکھ سال پہلے بھی موجود تھے۔ اس موضوع پر سب سے پہلے ثبوت مشہور ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات لوئس لیکی نے دریافت کئے۔ ۲۳۹۱ءمیں کینیا کی جھیل وکٹوریا کے اطراف کے کانجیرہ علاقے میں لیکی کو وسطی پلائسٹوسین دور کے کئی فوصل ملے جو جدید انسان کے ہوبہو مشابہ تھے ۔ وسطی پلائسٹوسین دور ۱ لاکھ سال پہلے کا دور تھا ۔۲۹

ان تمام دریافتوں سے ارتقاءکا شجرہ¿ نسب الٹا ہوگیا اور اس کو کئی ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات نے مکمل طور پر برخاست کردیا۔ لیکن لیکی کو ہمیشہ اس بات کا یقین رہا کہ اس کی تحقیق اور نتائج بالکل درست تھے۔ جیسے ہی ممکن ہواکہ لوگ اس تمام تنازعہ کو بھول جاتے ۵۹۹۱ءمیں اسپین سے ملنے والے ایک فوصل نے ایک نہایت حیرت انگیز طریقے سے ثابت کیا کہ ہوموسیپیس کی تاریخ اس وقت سے بھی زیادہ پرانی ہے جس کا پہلے خیال رہا تھا۔ یہ فوصل تین ہسپانوی یونیورسٹی آف میڈرڈ کے ماہرِ قدیم بشری رکازیات نے اسپین کے اٹاپرکا کے علاقے میں موجود گران ڈولینا نامی ایک غار سے دریافت کئے۔ اس فصول میں ایک ۱۱ سالہ بچے کی شکل تھی جو کہ ہو بہو ایک دورِ حاضر کے انسان کی طرح تھی لیکن اس کو مرے ہوئے ۰۰۰,۰۰۸ سال گزرچکے تھے۔ اپنے دسمبر ۷۹۹۱ءکے شمارے میں رسالہ ’ڈسکور‘ نے اس کہانی کو بے حد تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ اس فوصل نے وان لوئی آرسواگا فیرےراس کے اعتقاد کو بھی متزلزل کردیا جو کہ گران ڈولینا کی کھدائی کا سربراہ تھا۔ فیرےراس کہتا ہے:

”ہم کسی بڑی، ضخیم، پھولی ہوئی قدیم چیز کی توقع کررہے تھے۔ ہماری توقعات ایک ۰۰۰,۰۰۸سال پرانے لڑکے کے بارے میں ایسی تھیں جیسے کہ ترکا نہ بوائے تھا۔ لیکن جو چیز ہم کو ملی اس کا مکمل جدید چہرہ تھا۔ میرے لئے یہ درےافت نہایت حیرت انگیز تھی۔ اس طرح کی چیزیں آپ کو ہلاکر رکھ دیتی ہیں۔ اس طرح کی مکمل طور پر غیر متوقع چیزیں فوصلوں کا ملنا نہیں، فوصلوں کا ملنا تو توقع کے مطابق ہے اور ٹھیک ہے، لیکن سب سے حیرت انگیز چیز ایک ایسی چیز کا ملنا ہے جس کو آپ ہمیشہ سے ماضی کا حصہ سمجھتے تھے اور وہ اچانک حالیہ دور کے اوصاف کے ساتھ ظاہر ہوجائے۔ یہ تو اسی طرح ہے جس طرح گرین دولینا کے غار سے ٹیپ ریکارڈ مل جائے۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز دریافت ہوگی۔ ہم وسطی پلائسٹو سین دور میں کیسیٹوں اور ٹیپ ریکارڈوں کے ہونے کی ہرگز توقع نہیں کرسکتے۔ ۰۰۰,۰۰۸ سال پہلے ایک جدید چہرے کے ہونے کا ثبوت ملنا بھی ایسی ہی بات ہے۔ اس چہرے کو دیکھ کر ہم ناقابلِ بےان حےرت کا شکار ہوگئے ہےں۔“ ۳۹

اس فوصل نے اس حقیقت کو اجاگر کردیا کہ ہومو سیپینز کی تاریخ ضرور ۰۰۰,۰۰۸ سال پرانی ہے۔ ارتقاءپسند جب اس فوصل کے جھٹکے سے باہر نکلے تو اس کو دریافت کرنے والے ارتقائی سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ ےہ فوصل ہو نہ ہو کسی اورہی نسل کا فوصل ہے کیونکہ ان کے بنائے گئے ارتقائی شجرہ¿ نسب کے حساب سے ہومو سیپینز ۰۰۰,۰۰۸ سال پہلے موجود ہی نہیں تھے۔اس لئے انہوں نے ہنگامی طور پر ایک نئی خیالی مخلوق تخلیق کرلی جس کو انہوں نے ’ہومواینٹے سیسر‘ کا نام دیا۔ اس نئی درجہ بندی کے اندر انہوں نے اس اٹاپرکا سے ملنے والی کھوپڑی کو بھی ڈال دیا۔

۷۱ لاکھ سال پرانی جھونپڑی

کئی دریافتیں ایسی بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہوموسیپینز کی عمر ۰۰۰,۰۰۸ سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ ان میں سے لوئس لیکی کی اولڈ لوائی گورج میں کی گئی ۰۷۹۱ءکے سالوں کی یہ دریافت ہے۔ یہاں پر پرت II کی تہہ سے لیکی کو پتہ چلا کہ آسٹرالوپتھیکس، ہوموہابلس اور ہومو ارکٹس نسلیں ایک ہی وقت کے اےک ہی دور مےں موجود تھیں۔ اس سے زےادہ حےرت انگےز وہ ساخت تھی جو کہ لیکی کو اسی خطے سے ملی۔ یہاں اس کو ایک پتھر کی جھونپڑی کے بقیا جات ملے۔ اس واقعے کے بارے میں سب سے غیر معمولی بات یہ تھی کہ اس جھونپڑی کو بنانے کا طریقہ کار آج بھی افریقہ کے کچھ حصوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کو صرف ہوموسیپینز ہی تعمےر کرتے ہےں۔ لیکی کی اس دریافت کے مطابق آسٹرالوپتھیکس ہوموہابلس، ہوموارکٹس اور دورِ حاضر کا انسان ساتھ ساتھ ہی تقریباً ۷۱ لاکھ سال پہلے زندہ تھے ۔۴۹ اس دریافت سے وہ تمام ارتقائی نظریئے ناقص ہوجاتے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ جدید انسان آسٹرالوپتھیکس جیسی گوریلا نما مخلوق کی تدریجی شکل ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
(ماخوذ از:نظریہ ارتقاء – ایک دھوکہ
http://ur.harunyahya.com)
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...