Thursday 29 June 2017

ارتقاءکا سالمی تعطل

ارتقاءکا سالمی تعطل

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#53(حصہ دوم)

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

لحمیات اتفاق کو للکارتے ہیں

خلیہ تو دور کی بات ہے نظریہ ارتقاء تو خلیہ کے تعمیراتی اجزاء کو بیان کرنے میں بھی ناکام ہے۔ قدرتی ماحول کے زیرِاثر خلئے کے کئی ہزار تعمیراتی لحمی سالموں میں سے کسی ایک لحمیہ کے وجود میں آنے کا جواب دینا بھی ناممکن ہے۔ لحمیات بہت بڑے سالمی وجود ہوتے ہیں جوکہ ”امینوترشے“ نامی مزید چھوٹے ارکان کا مرکب ہوتے ہیں جوکہ مخصوص سلسوں اور مخصوص تعداد اور ساخت کے حساب سے خلئے کے اندر ترتیب وار موجود ہوتے ہیں۔ ”امینو ترشوں“ کے یہ ارکان جاندار لحمیوں کے تعمیراتی اجزاءہوتے ہیں۔ سب سے سادہ لحمیہ بھی ۰۵ امینو ترشوں کا مرکب ہوتا ہے جبکہ کئی لحمیوں کے اندر ہزاروں کی تعداد میں امینو ترشے موجود ہوتے ہیں۔ یہاں پر ضروری نقطہ یہ ہے کہ کسی بھی لحمیہ کی ساخت میں ایک بھی امینو ترشے کی غیر موجودگی، اضافہ یا بے دخلی اس لحمیہ کو ایک بے کار سالمیاتی ڈھیر میں تبدیل کردیتا ہے۔ نظریہ ارتقاء جس کے دعوے کے مطابق زندگی محض اتفاق ہے وہ اس ترتیب کی حقیقت کے سامنے بے بس ہے کیونکہ یہ بے ترتیبی کسی اتفاقیہ واقعہ کے ذریعے بیان نہیں کی جاسکتی۔ (اس کے علاوہ یہ نظریہ لحمیات کی اتفاقی ابتداء کو بھی بیان نہیں کر سکتا جیسے کہ آگے بتایا جائے گا)

حقیقت تو یہ ہے کہ لحمیات کی عملی ساخت کا اتفاق سے وجود میں آنا ایک سراسر ناممکن بات ہے ۔ اس کا ثبوت ایک سادہ سے حساب شمار کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے جس کو کوئی بھی با آسانی سمجھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ۸۸۲ امینو ترشوں پر مبنی عام سالمی لحمیہ کی ۲۱ مختلف امینو ترشوں کو ۰۰۳۰۱ مختلف طریقوں سے ترتیب دی جاسکتی ہے۔ (یہ ایک بے انتہا بڑی تعداد ہے جس میں ۱ کے ہندسے کے بعد ۰۰۳ صفر لگتے ہیں) یہ تمام ممکنہ ترتیبیں صرف ایک ہی مطلوبہ سالمی لحمیہ بناسکتی ہیں۔ باقی ساری امینوں ترشوں کی زنجیریں یا تو مکمل طور پر ناکارہ ہو گی یا پھر جانداروں کے لئے مضر ۔

دوسرے الفاظ میں صرف ایک سالمی لحمیہ کے بننے کا امکان ۰۰۳۰۱ میں ۱ ہے۔ اس ۱ کے واقع ہونے کا امکان تقریباً صفر ہے۔ (عملی طور پر ایسے کم امکانات جوکہ ۰۵۰۱ سے زیادہ ہوتے ہیں ان کو صفر امکان ہی سمجھا جاتا ہے) اس کے علاوہ وہ سالمیاتی لحمیہ جو کہ ۸۸۲ امینو ترشوں کا مرکب ہوتا ہے ایک کافی پر تکلف صورتحال ہے کیونکہ کچھ بہت بڑے سالماتی لحمیات کے اندر ہزاروں کی مقدار میں امینو ترشے موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان زخیم سالمیاتی لحمیوں کے اوپر یہی حساب شمار کرکے اصول لاگو کئے جائیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ صورتحال کو بیان کرنے کے لئے لفظ ”ناممکن“ نہایت غیر موزوں ہے۔ اگر ارتقائی زندگی کے لائحہ عمل میں ایک اور قدم آگے بڑھایا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ ایک واحد لحمیاتی جز کی بذات خود کوئی حیثیت نہیں ہے۔

امیج میں دکھائی گئی تصویر الٹے ہاتھ پر موجود سائٹو کروم۔ سی کے ایک بھی لحمئے کی کیمیائی ساخت اس قدر پیچیدہ ہے کہ اس کی کسی بھی اتفاق کے ذریعے توضیح ناممکن ہے۔
ترکی کا ارتقاء پسند حیاتیات کا پروفیسر علی ڈیمرسوئے اعتراف کرتا ہے کہ واحد سائٹوکروم۔ سی سلسلے کی اتفاقی تشکیل بھی اس طرح ہے گویا ”کسی بندر کا ٹائپرائٹر استعمال کرتے ہوئے انسانیت کی پوری تاریخ بغیر ایک بھی غلطی کئے لکھنا۔

سب سے چھوٹا دریافت ہونے والا جراثیم مائکروپلازمہ ہومینس ۹۳H میں اور اس کے اندر ۰۰۶ مختلف طرح کے لحمیات موجود ہیں۔ اس صورتحال میں حساب و شمار کے اوپر بتائے گئے تمام اصولوں کو ہر لحمیات کے لئے دہرانا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ لفظ ’ناممکن ‘کے تمام عمومی تصورات کو شرمسار کر دیتا ہے۔ ان تمام باتوں کو پڑھنے والے کچھ لوگ جنہوں نے نظریہ ارتقاءکو ایک سائنسی نظریہ کے طور پر قبول کرلیا ہے وہ شاید شک کریں کہ یہ تمام حساب و شمار کے اصول بڑھا چڑھا کر لکھے گئے ہیں اور سچائی کی صحیح عکاسی نہیں کرتے۔ لیکن اس حقیقت کو کوئی ارتقاءپسند بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ کسی واحد سالمیاتی لحمئے کا حادثتاً وجود میں آنے کا امکان اتنا ہی ناممکن ہے کہ جتنا ایک بندر کا ٹائپ رائٹر استعمال کرتے ہوئے بغیر کوئی غلطی کئے انسانی تاریخ کا لکھناہے۔۷۰۱ لیکن چونکہ دوسری صورتحال تخلیق کا اعتراف ہے جس سے یہ لوگ مکمل طور پر منکر ہیں اسی لئے یہ لوگ اندھا دھند اس ناممکنہ صورتحال کی حمایت کئے چلے جاتے ہیں۔

پھر بھی اس صورتحال کی سچائی کو کئی ارتقاء پسند مانتے بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک نامور ارتقائی سائنسدان ہیرلڈایف۔ بلوم کہتا ہے ’ کسی دس سے زائد امائنی ترشوں سے بننے والے مخلوطے کا بے ساختہ وجود میں آنا ممکنات کی ہر حدود سے باہر ہے‘۔ (۸۰۱)
ارتقاءپسندوں کا دعویٰ ہے کہ سالمیاتی ارتقاءبہت لمبے عرصے پر محیط دورانئے میں پیش آیا اور اسی لئے ناممکن ممکن بن گیا۔ لیکن چاہے جتنے بھی عرصے کے دوران ارتقاءکا نام نہاد عمل وجود میں آیا ہو یہ پھر بھی امینو ترشوں کے لحمیات بننے کے لئے اتفاقی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ امریکی ماہرِ ارضیات ولیم اسٹوکس نے اپنی کتاب ”اسنشلز آف ارتھ ہسٹری“ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ:

”ایسا ہونے کے امکان اس قدر کم ہیں کہ یہ کروڑوں سالوں کے دوران ان کروڑوں سیاروں پر بھی نہیں ہوسکتا چاہے ان تمام سیاروں کو اہسے پانی کی چادر سے ڈھک دیا جائے جس کے اندر تمام ضروری امینو ترشے موجود ہوں۔“۹۰۱

پھر ان تمام باتوں کا کیا مطلب ہوا؟ کیمیا کے پروفیسر ہیری ریوواس سوال کا جواب دیتا ہے:

”اگر کوئی ان تمام وسیع ممکنہ مرکبات کا جائزہ لے جو کہ ایک قدیم سوکھتے ہوئے تالاب میں سادہ سے بے ترتیب امینو ترشوں کی یکجائی سے وجود میں آسکتے ہیں تو ذہن اس بات کو ماننے سے انکار کردیتا کہ زندگی کی ابتداء اس طرح ہوسکتی ہے۔ یہ صورتحال زیادہ قابل فہم ہے کہ ایک عظیم ٹھیکیدار نے ایک بہترین نقشے کے ذریعے اس کام کو انجام دیا ہے۔“۰۱۱

اگر ایک بھی لحمیہ کا اتفاقاً وجود میں آنا ہی ناممکن ہے تو پھر یہ کروڑہا بار اور بھی ناممکن ہے کہ ایک لاکھ کے قریب یہ لحمیات نہ صرف وجود میں آئیں بلکہ اتفاقاً مکمل ترتیب کے ساتھ ایک خلئے کی شکل دھارلیں۔لحمیات کے علاوہ خلئے کے اندر نیوکلیائی ترشے، پانی میں حل نہیں ہونے والے نامیاتی مرکبات، حیاتین اور کئی دوسرے کیمیا مثلاً پگھلانے اور حل کرنے پر برقی توانائی ترسیل کرنے والا مادہ ساخت اور کارگزاری کی حیثیت سے ایک واضح تناسب، توازن اور نقشہ کی شکل میں ترتیب دئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر جز کئی طرح کے خلیوں کے ترکیبی حصوں میں تعمیراتی ٹکڑوں یا ذیلی سالمیات کا کام انجام دیتے ہیں۔

رابرٹ شاپیرو نیویارک یونیورسٹی میں کیمیا کا پروفیسر اور DNA کا ماہر ہے۔ شاپیرو نے ایک جراثیم کے اندر موجود ۰۰۲ مختلف لحمیات کا ریاضی کے عمل کے ذریعے حادثتاً وجود میں آنے کی ممکنات کا اندازہ لگایا۔ (ایک انسانی خلئے میں ۰۰۰,۰۰۲مختلف طرح کے لحمیات موجود ہوتے ہیں) شاپےرو کا نتیجہ ۰۰۰۴۰۱ کے اوپر ۱ تھا ۔۱۱۱ (یہ ایک ناقابلِ یقین ہندسہ ہے جس میں۱ کے بعد ۰۰۰,۰۴ صفر ہیں) ویلنر کے یونیورسٹی کالج کارڈف کا عملی ریاضی اور علمِ ہیئت کا پروفیسر چندراو کراما سنگھے اس بارے میں کہتا ہے:

”غیر جاندار مادے سے اضطراری طور پر زندگی کے وجود میں آنے کا امکان کسی عدد کے آگے ۰۰۰,۰۴ صفر لگانے کے بعد ۱ ہے۔ یہ معاملہ اتنا بڑا ہے کہ ڈارون اور اس کا تمام نظریہ ارتقاءاس میں دفنایا جاسکتا ہے۔ نہ ہی کوئی ابتدائی یا قدیم سیال اس سیارے یا کسی بھی اور سیارے پر موجود تھا۔ اسی لئے اگر زندگی کی ابتداء بے ترتیب نہیں تھی تو یہ لازماً ایک عقلمند اور سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے۔“۲۱۱

سرفریڈ ہائل بھی ان حیران کن اعداد پر رائے زنی کرتا ہے:

”لازماً یہ نظریہ (کہ زندگی عقلمندی کا نتیجہ ہے) اس قدر واضح ہے کہ دماغ سوچ و بچار پر مجبور ہو جاتا ہے۔اگر اس نظریئے کو ایک ایسی حقیقت کے طور پر نہیں قبول کیا گیا جو کہ اپنے آپ کو خود منوالیتی ہے تواس کو قبول نہ کرنے کی وجہ سائنسی سے زیادہ نفسیاتی ہے۔“۳۱۱

ہائل کا لفظ ’ نفسیاتی‘ استعمال کرنے کی وجہ ارتقاءپسندوں کا تحت الشعوری جذباتی رکاوٹ کے باعث اس حقیقت کی نفی کرنا ہے کہ زندگی تخلیق کا نتیجہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات کو مسترد کرنا ان کا بنیادی مقصد ہے۔ صرف اسی واحد وجہ کے لئے وہ ان تمام غیر منطقی نظریوں کی حمایت کرتے چلے جاتے ہیں جن کے ناممکن ہونے کا ان کو بھی بخوبی اندازہ ہے۔

چپ دست لحمیات

اب اس بات کا تفصیلی معائنہ کرتے ہیں کہ لحمیات کی تشکیل کا ارتقائی منظر نامہ ناممکن کیوں ہے۔ امینو ترشوں کی بالکل مکمل اور درست ترتیب بھی ایک عملی طور پر درست سالمیاتی لحمیہ کی تشکیل کے لئے کافی نہیں ہے۔ ان تمام ضروریات کے پورا ہونے کے علاوہ لحمیات کی تشکیل کے لئے جن ۰۲ مختلف طرح کے امینو ترشوں کا ہونا ضروری ہے ان کا چپ دست ہونا بھی لازم ہے۔ تمام عضوی سالمیات کی طرح امینو ترشے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں چپ دست یا الٹے ہاتھ والے یا سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے۔ ان کے درمیان فرق کسی انسان کے سیدھے اور الٹے ہاتھ کے درمیان سہ ابعادی ساخت میں اصل اور عکس کا باہمی توافق کی طرح ہے جس سے یہ دو طرح کے امینو ترشے آسانی سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ جاتے ہیں۔ لیکن تحقیق کے ذریعے لحمیات کی ایک حیرت انگیز صفت سامنے آئی ہے اور وہ یہ کہ اس سیارے کے تمام حیوانی اور نباتاتی لحمیات،سب سے سادہ جاندار سے لے کرسب سے پیچیدہ ساخت والے جانداروں تک ،چپ دست امینو ترشوں سے بنے ہوئے ہیں۔ اگرایک بھی سیدھے ہاتھ والاامینو ترشہ کسی لحمیہ کی ساخت سے جڑ جائے تو وہ لحمیہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔ کئی سلسلہ وار تجربوں سے حیرت انگیز طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ جراثیم جو کہ سیدھے ہاتھ والے امینو ترشوں کے ساتھ جوڑے گئے تھے انہوں نے امینو ترشوں کو ہلاک کردیا۔ صرف چند حالات میںٹوٹے پھوٹے اجزاءسے ان جراثیم نے استعمال کے لائق چپ دست امینو ترشے تشکیل کرلئے۔

ایک لمحے کے لئے یہ فرض کرلیتے ہیں کہ زندگی ارتقاءپسندوں کے دعوے کے مطابق اتفاق کا نتیجہ ہے۔ اس صورتحال میں چپ دست اور سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے جو کہ اتفاقاً وجود میں آئے ہیں وہ بھی قدرت میں تقریباً برابر تناسب میں موجود ہونے چاہیئں ۔ اس لئے تمام جانداروں کے اندر چپ دست اور سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے موجود ہونا چاہئیں کیونکہ ارتقاءکے حساب سے دونوں طرح کے امینو ترشوں کا کیمیائی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مل جانا ممکن ہے۔

لیکن حقیقت  یہ ہے کہ اصل دنیا میں تمام جاندار اجسام کے اندر موجود لحمیات صرف چپ دست امینو ترشوں سے بنے ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ لحمیات سارے امینو ترشوں میں سے صرف چپ دست امینو ترشوں کا ہی انتخاب کیوں کرتے ہیں اور ایک بھی سیدھے ہاتھ والا امینو ترشہ زندگی کے عمل میں شامل کےوں نہیں ہوتا؟ ہہ ایک ایسی پریشانی ہے جس کا حل ارتقاءپسند آج تک تلاش کر رہے ہیں۔ اتنا مخصوص اور باشعور انتخاب نظریہ ارتقاء کے لئے ایک اور بہت بڑا تعطل ہے کیونکہ لحمیات کی یہ صفت ارتقاء پسندوں کے ”اتفاق“ سے متعلق مسئلے کو اور پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ کسی پر معنی لحمیہ کی تشکیل کے لئے اس کے اندر امینو ترشوں کا مخصوص اعداد اور سلسلے میں ہی موجود ہونا ہی کافی نہیں اور نہ ہی اس کا سہابعادی شکل میں ہونا کافی ہے بلکہ اس کے علاوہ ان تمام امینو ترشوں کا چپ دست ہونا بھی لازم ہے۔ ان میں سے ایک امینو ترشہ بھی سیدھے ہاتھ والا نہیں ہوسکتا۔ لیکن ایسا کوئی قدرتی انتخابی نظام موجود نہیں ہے جو کہ اس بات کی نشاندہی کرسکے کہ غلطی سے سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے کا شمار سلسلے میں ہوگیا ہے اور اب اس کو امینو ترشوں کے سلسلے یا زنجیر سے نکالنا ضروری ہے۔ یہ صورتحال ہمیشہ کے لئے اتفاق اور حادثے کے امکان کو زائل کردیتی ہے۔

بریٹانیکا سائنس انسائکلوپیڈیا ارتقاءکی منہ پھٹ حمایتی ہے اور اس کا بیان ہے کہ زمین پر رہنے والے تمام جانداروں کے امینو ترشے اور لحمیات کے تعمیراتی اجزاءکے اندر ایک ہی طرح کی ناموزونیت موجود ہے۔ مزید یہ بھی لکھا ہے کہ یہ اس طرح ہے کہ جس طرح کسی سکے کو ایک لاکھ دفعہ اچھالا جائے اور ہر دفعہ سر ہی آئے۔ اسی انسائکلوپیڈیا کے مطابق یہ سمجھنا بہت ہی ناممکن ہے کہ سالمیا کس طرح چپ دست اور سیدھے ہاتھ والے بن جاتے ہیں اور اس انتخاب کا زمین پر زندگی کی ابتداء سے حیرت انگیز طور پر تعلق بھی ہے۔۴۱۱

اگر ایک سکہ ہمیشہ ہی سر کے بل گرے تو کیا اس کو اتفاق قراردینا زیادہ منطقی بات ہے یا پھر اس بات کو مان لینا زیادہ عقلمندی کی علامت ہے کہ اس تمام معاملے میں ایک شعوری عمل و دخل موجود ہے؟جواب بہت واضح ہونا چاہئے۔ لیکن جواب چاہے جتنا بھی واضح کیوں نہ ہو ارتقاءپسند پھر بھی اتفاق کی چادر میں منہ چھپانا زیادہ پسند کرتے ہیں صرف اس لئے کیونکہ وہ منطقی عمل و دخل کی موجودگی کا اقرار کرنا ہی نہیں چاہتے۔

امینو ترشوں کی چپ دستی سے ملتی جلتی صورتحال نیوکلیوٹائڈ یا فاسفوری گروپ سے منسلک نیوکلیو سائڈ پر مشتمل ایک نامیاتی مرکب کے متعلق بھی موجود ہے ۔نیوکلیوٹائڈ DNA اور RNA یا کروموسومی جز کا سب سے چھوٹا جز ہوتا ہے۔ لحمیات کے مقابلے میں، جس میں صرف چپ دست امینو ترشوں کا ہی انتخاب ہوتا ہے، نیوکلیوئڈ کے لئے پسندیدہ اجزاء ہمیشہ سیدھے ہاتھ والے ہوتے ہیں۔ یہ ایک اور ایسی حقیقت ہے جس کو اتفاق کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ خلاصے کے طور پر یہ کہ کسی بھی شک و شبہ کے بغیر تمام ممکنات کے ذریعے ثابت کیا جاچکا ہے کہ زندگی کی ابتداءکو اتفاق کہہ کر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اگر حساب و شمار کے ذریعے ایک عام ناپ کے ۰۰۴ امینو ترشوں پر مشتمل عام ناپ کے لحمیہ کا صرف ایک چپ دست امینوترشوں سے انتخاب کا امکان کا اندازہ لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ امکان ۰۰۴۲ میں سے ۱ یا ۰۲۱ ۰۱ میں ۱ ہے۔ موازنے کے طور پر یاد رکھنا ضروری ہے کہ پوری کائنات میں الیکٹروں یا منفی بار کے حامل مستقل ابتدائی ذروں کی تعداد اندازاً ۹۷۰۱ ہے جو کہ کافی بڑا ہندسہ ہے مگر پھر بھی اتنا بڑا نہیں۔ ان امینو ترشوں کا قابلِ ضرورت سلسلہ اور عملی شکل اختیار کرنے کا امکان اس سے بھی بڑے ہندسوں کی شکل میں ہوگا۔ اگر ان تمام امکانات کو ایک دوسرے کے ساتھ ملادیا جائے اور اگر اس سے بھی زیادہ بڑے ہندسوں اور لحمیات کی مختلف اشکال کے امکانات کے اوپر کام کیا جائے تو اس حساب و شمار کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
(ماخوذ از:نظریہ ارتقاء۔ ایک دھوکہ
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...