Thursday 29 June 2017

ارتقاءکا سالمی تعطل

ارتقاءکا سالمی تعطل

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#54(حصہ سوم)

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

صحیح تعلق لازمی ہے

قدرت میں دو طرح کے امینوترشے موجود ہیں: سیدھے ہاتھ والے اور الٹے ہاتھ والے ان دونوں کے درمیان فرق اسی طرح ہے جس طرح ایک انسان کے سیدھے اور الٹے ہاتھ میں ہوتا ہے یعنی کہ دونوں میں اصل اور عکس کی طرح باہمی توافق اور ہم آہنگی ہوتی ہے۔امیج میں تصویر نمبر 1ملاحظہ کریں ۔

نظریہ ارتقاءکو اک واحد لحمیہ کی تشکیل سے متعلق جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ صرف اب تک بتائی گئی مشکلات ہی نہیں ہیں۔ امینو ترشوں کا صرف درست تعداد، سلسلوں اور لازمی سہ ابعادی ساخت میں ترتیب وار موجود ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ لحمیات کی تشکیل کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ امینو ترشوں کے سالمیات جو کہ ایک سے زائد بازو پر مشتمل ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ مخصوص طریقوں سے جڑے ہوئے ہوں۔ ایسے جوڑ کو ’پےپٹائڈ بونڈ‘ کہتے ہیں۔ امینو ترشے ایک دوسرے کے ساتھ مختلف جوڑ بناسکتے ہیں لیکن لحمیات صرف اور صرف ان امینو ترشوں سے بن سکتے ہیں جوکہ’ پےپٹائڈ بونڈ‘ کے جوڑ کے ذریعے جڑے ہوتے ہوں۔

ایک موازنہ اس نقطہ کی وضاحت کرسکتا ہے۔ فرض کریں کہ موٹر کار کے تمام حصے مکمل اور درست طریقے سے تشکیل دیئے گئے ہوں سوائے اس کے کہ ایک پہیہ صرف تار کے ایک ٹکڑے سے جڑا ہوا ہو۔
ایسی گاڑی کے لئے باوجود اس کی تکنیکی مہارت اور انجن کے طاقتور ہونے کے ذرا سا فاصلہ بھی طے کرنا ناممکن ہے۔ پہلی نظر میں تو یوں لگے گا جیسے ہرچیز اپنی جگہ پر مکمل ہے لیکن اس ایک پہئے کے غلط جوڑے جانے کی وجہ سے پوری گاڑی ناکارہ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سے کسی سالمیاتی لحمیہ میں ایک بھی امینو ترشے کا دوسرے سے پےپٹائڈ بونڈ کے علاوہ کسی اور جوڑ کے ذریعے جوڑے جانے سے پورا سالمیہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔ تحقیق کے ذریعے ثابت ہوا ہے کہ پےپٹائڈبونڈ سے امینو ترشے صرف ۰۵ فیصد دفعہ ہی بے ترتیبی سے جڑتے ہیں ۔ باقی دفعہ لحمیات میں غیر موجود مختلف جوڑوں کا وجودمیں آنا دیکھا گیاہے۔احسن کارکردگی کے لئے لازم ہے کہ ہر امینو ترشہ جو کہ لحمیات میں  موجود ہے وہ دوسرے کے ساتھ صرف پےپٹائڈ بونڈکے ذریعے ہی جڑا جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس کا صرف چپ دست ہونا بھی لازم ہے۔صرف پےپٹائڈ بونڈ سے ہی اس کے جوڑے جانے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہے جتنا کہ ہر امینو ترشے کا چپ دست ہونے کا امکان۔ اگر کسی ایسے لحمیہ کی مثال لی جائے جس میں ۰۰۴ ا مینو ترشے موجود ہیں تو ان تمام امینو ترشوں کا آپس میں صرف پیٹیائڈ بونڈ کے ذریعے جڑنے کا امکان ۹۹۳۲ میں ایک ہے۔
لحمیوں کو تشکیل کرنے والے امینو ترشوں کے سالمے ایک دوسرے کے ساتھ ”پیپٹائڈ جوڑ“ کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ جوڑ کا طریقہ قدرت میں موجود کئی ممکنہ جوڑوں میں سے ایک ہے۔ اگر یہ جوڑ نہ ہو تو امینو ترشوں کی زنجیریں ناکارہ ہوجاتی ہیں اور کوئی لحمیات وجود میں نہیں آسکتے۔امیج میں تصویر نمبر2 ملاحظہ کریں

صفر امکان

جس طرح کہ آگے آئے گا ایک ۰۰۵ ا مینو ترشوں پر مشتمل سالمیاتی لحمیہ کے وجود میں آنے کا امکان ۱ کے نیچے ۱ کے ساتھ ۰۵۹ صفر لگانے کی طرح ہے۔ یہ ایک ایسا عدد بن جاتا ہے جو کہ انسانی ذہن کے لئے ناقابل تصور ہے۔ یہ امکان صرف کاغذ پر لکھ کر ہی دکھایا جاسکتا ہے۔ عملی طور پر اس طرح ہونے کا امکان صفر ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا ریاضی میں ۰۵۰۱ میں ۱ سے چھوٹے کسی بھی امکان کا وجود میں آنا ازروئے شماریات کے حساب سے صفر ہے۔ اسی لئے ۱ کے نیچے ۰۵۹۰۱ کاامکان ناممکنات کی ہر قابل تصور حد کو بھی پار کر جاتا ہے۔

جب کسی ۰۰۵ ا مینو ترشوں پر مشتمل سالمیاتی لحمیہ کے وجود میں آنا اس حد تک بعید از امکان ہوجاتا ہے تو ذہن کو اور بھی اونچی سطح پر متشبہ حدود کو پار کروانے کی کوشش کرکے دیکھا جاتا ہے۔ حمرت الدّم یا ہیموگلوبن ایک ناگزیر لحمیہ ہے جس کا سالمیہ ۴۷۵ امینو ترشوں پر مشتمل ہے جوکہ اوپر بتائے گئے لحمیہ سے بھی زیادہ ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ جسم میں موجود کڑوڑوں خون کے سرخ خلیوں میں ۰۰۰,۰۰۰,۰۸۲ یا ۰۸۲ لاکھ ہیموگلوبن کے سالمات موجود ہوتے ہیں۔ کرہ ارض کی قیاس کی گئی عمر ایک واحد لحمیہ کی بھی آزمائشی تجرباتی طریقے سے وجود میں آنے کے لئے ناکافی ہے۔ خون کے ایک سرخ خلئے کابھی اس طرح وجود میں آنا ایک بے انتہا ناممکن سوچ ہے۔ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ امینو ترشوں کی آپس میں جوڑ توڑ کرہ ارض کے وجود میں آنے کے بعد وقت ضائع کئے بغیر آزمائشی تجرباتی طریقے سے وجود میں آئی ہے تو جتنا وقت ایک واحد سالمیاتی لحمیہ کو بننے میں درکار ہوتا ہے، جس کا امکان ۰۵۹۰۱ ہے ، وہ کرہ ارض کی اندازاً عمر سے تصور سے بھی بڑھ کر زیادہ ہے۔ خلاصہ کے طور پر یہ کہ ایک واحد لحمیہ کے وجود میں آنے کے معاملے میں بھی نظریہ ارتقاء شدید قسم کی ناممکنات کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔

کیا قدرت میں آزمائشی تجربے کا نظام موجود ہے؟

بالآخر اختتام ممکنات کے حساب و شمار کی بنیادی منطق سے متعلق ایک اہم نقطے سے کیا جاتا ہے جس کی اور بھی مثالیں پیش کی جاچکی ہیں۔ اس بات کو واضح کیا جاچکا ہے کہ اب تک کئے گئے حساب و شمار کی ممکنات نہایت بسیط و عظیم نوعیت کی ہیں اور اس کا اصلیت میں ظاہر ہونے کے کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن یہاں پر ارتقاءپسندوں کو مزید اہم اور تباہ کن حقائق کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور وہ یہ کہ قدرتی ماحول کے اندر کسی بھی طرح کے آزمائشی تجربات کا بسیط و عظیم خلافِ معمول امکان کے باوجود شروع ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ قدرت میں کسی طرح کا آزمائشی تجربے کا نظام موجود ہی نہیں جس کے ذریعے لحمیات وجود میں آسکیں۔

امینو ترشوں پر مشتمل ایک عام لحمیہ کے سالمے کا درست مقدار اور سلسلے میں تشکیل ہونا اور اس کے اندر تمام امینو ترشوں کا صرف الٹے ہاتھ والے ترشے بھی ہونا اور درست والے جوڑ یعنی پیپٹائڈ جوڑ سے جڑے ہونے کا امکان ۰۵۹۰۱ میں ۱ ہے۔ یہ ہندسہ ۱ کے بعد ۰۵۹ صفر لگانے سے حاصل ہوتا ہے یعنی. ۔

اوپر دئے گئے ۰۰۵ امینو ترشوں پر مبنی لحمیہ کے وجود میں آنے کے لئے امکان کا حساب و شمار صرف ایک جائز آزمائشی تجرباتی ماحول پر لاگو ہوتا ہے جس کا حقیقی زندگی میں کوئی گزر نہیں۔ وہ یہ کہ ایک کارآمد لحمیہ حاصل کرنے کا امکان ۰۵۹۰۱ میں ۱ صرف اس وقت ہو گا جس وقت ایک ایسا خیالی نظام بھی وجود میں ہو جس میں ایک نادیدہ ہاتھ ۰۰۵ امینو ترشوں کو بے قاعدہ طور پر جوڑدے اور پھر یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ یکجائی درست نہیں ہے ان کو دوبارہ ایک ایک کرکے الگ کرتا جائے اور پھر نئے سرے سے ان کی مختلف ترتیب دیتا جائے اور یہ سلسلہ وہ اس وقت تک جاری رکھے جب تک کہ اس کو مطلوبہ سلسلہ حاصل نہ ہوجائے۔ ہر نئے آزمائشی تجربے میں امینو ترشوں کو ایک ایک کرکے الگ کرنا پڑے گا اور بالکل نئی شکل میں ترتیب دیناہوگا۔ یہ پیوند کاری ۰۰۵ نمبر کے امینو ترشے کے شامل ہونے کے بعد رک جانی چاہئے اور پھر اس بات کا یقین لگانا چاہئے کہ اس تجربے میں ایک بھی زائد امینو ترشہ استعمال نہیں ہوا ہے۔اب اس تجربے کو روک کر اس بات کا تجزیہ لگانا چاہئے کہ آیا ایک کارگزر لحمیہ وجود میں آیا ہے کہ نہیں اور اگر تجربہ ناکام رہا ہے تو پورے تجربے کو ازسر نو شروع کردینا ہوگا۔ اس کے علاوہ ہر تجربے میں کوئی بھی فاضل وجود غلطی سے بھی شامل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بھی لازم ہے کہ تجربے کے نتیجے میں بننے والی زنجیر پورے تجربے کے دوران ۹۹۴ نمبر کی کڑی تک پہنچنے سے پہلے نہ تو الگ ہو اور نہ اس کو کسی قسم کا کوئی اور نقصان پہنچے۔ ان تمام شرائط کے پورا ہونے کا مطلب ہے کہ اوپر دی گئی تمام ممکنات صرف ایک باضابطہ ماحول میں انجام پائیں جہاں پر ایک باشعور عملی نظام تمام معاملات کے اوپر شروع سے لے کر آخر تک ہدایت کرنے کے علاوہ اس عمل کے وسطی دور کی بھی نگرانی کرے جہاں پر صرف ’امینو ترشوں کا ایک درست انتخاب ‘ ہی بے اختیار رہے۔ ایسے کسی بھی ماحول کا قدرتی حالات کے زیر اثر موجود رہنا ایک ناممکن بات ہے۔ اسی لئے قدرتی ماحول میں لحمیہ کی تشکیل تکنیکی اور منطقی حساب سے ناقابل فہم اور ناممکن ہے۔ بلکہ ایسے کسی واقعہ کے بارے میں بات بھی کرنا سراسر غیر سائنسی ہے۔

کچھ لوگ ان معاملات کا وسیع منظر نہیں دیکھ پاتے بلکہ ایک سطحی نقطہ نظر استعمال کرتے ہوئے لحمیہ کی تشکیل کو ایک سادہ کیمیائی رد عمل سمجھتے ہیں۔ وہ غیر حقیقی خلاصوں پر یقین کرلیتے ہیں کہ امینو ترشے ردِ عمل کے ذریعے جڑ جاتے ہیں اور لحمیات کی شکل دھارلیتے ہیں ۔حقےقت تو ےہ ہے کہ بے جان اشکال میں حادثاتی کیمیائی ردِ عمل کا نتیجہ صرف سادہ اور غیر ترقی یافتہ تبدیلیاں ہیں جن کی تعداد مخصوص اور طے شدہے۔ کسی بہت ہی بڑے اور پیچیدہ کیمیائی مادے کو وجود میں لانے کے لئے عظیم کارخانوں، کیمیائی صنعت خانوں، اور تجربہ گاہوں کا استعمال لازمی ہے۔ دوائیاں اور روزمرہ زندگی کے کئی دوسری کیمیائی اجزاءاسی طرح بنائے جاتے ہیں۔ لحمیات کارخانوں میں بنائے گئے ان کیمیا سے کہیں زیادہ پیچیدہ ساخت کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی لئے تخلیق کے عظیم انسانی نمونے لحمیات کا ، جس کا ہر حصہ بہترین ترتیب اور نظم کا شاہکار ہے، حادثاتی اور بے ترتیب کیمیائی ردعمل کے ذریعے وجود میں آنے کی بات صرف غیر سائنسی ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔اگر ایک لمحے کے لئے تمام حقائق و ثبوت کو ایک طرف رکھ کر فرض بھی کر لےا جائے کہ ایک کار آمد سالمیاتی لحمیہ حادثاتی ردِ عمل کا نتیجہ ہے تو پھر بھی ارتقاءکے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اس لحمیہ کو زندہ رہنے کے لئے اس کو اپنےقدرتی ماحول سے الگ کرنا پڑتا اور اس کی نگہداشت خاص الخاص حالات میں کرنی پڑتی۔ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ لحمیہ کرہ¿ ارض کی قدرتی ماحولیاتی اثرات کے تحت تباہ ہوجاتا یا پھر دوسرے ترشوں، امینو ترشوں یا کیمیائی مرکبات کے ساتھ مل جاتا جس صورت میں وہ اپنے مخصوص اثاثے کھودیتا اور ایک مکمل طور پر الگ اور ناکارہ مادے کی شکل دھارلیتا۔

زندگی کی ابتداءسے متعلق ارتقائی تنازعہ

جاندار کیسے نمودار ہوئے؟ کا سوال

ارتقاءپسندوں کے لئے اس قدر سنگین تعطل کی سطح پر ہے کہ وہ اس موضوع سے دور رہنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ اس سوال کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ زمین کے اوپر پہلے جاندار پانی کے اندر بے ترتیب واقعات کے نتیجے میں وجود میں آئے ۔ ارتقاءپسند اب ایک ایسی بند گلی پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ تمام ارتقائی قدیم بشری رکازیات کی بحث و مباحثہ کے باوجود اس موضوع پر ان کے پاس کسی قسم کے فوصل موجود نہیں ہیں جن کو وہ مسخ کرکے اپنی مرضی کی تشریح کے ذریعے اپنے بے بنیاد دعوﺅں کے سہارے کے لئے استعمال کرسکیں۔ اسی لئے نظریہ ارتقاءشروع سے ہی بذریعہ دلیل رد ہوچکا ہے۔
سب سے بڑھ کر جس نقطے کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ: اگرارتقائی عمل کا ایک مرحلہ بھی بذریعہ ثبوت غلط ثابت ہوجائے تو یہ اس بات کی بھاری دلیل ہے کہ پورا نظریہ ہی جھوٹا اور بے کار ہے۔ مثال کے طور پر لحمیات کی بے ترتیب تشکیل کا ناممکن ثابت ہونا ارتقاءکے باقی تمام آنے والے مرحلوں کی تردید ہے۔ اس کے بعد انسان اور گوریلوں کی کھوپڑیاں لے کر ان کے بارے میں غور و فکر اور قیاس کرنا بھی ایک انتہائی بے معنی فعل ہے ۔بے جان مادے سے جانداروں کے وجود میں آنے کے موضوع پر ارتقاءپسندوں نے کافی عرصے تک بات ہی نہیں کی۔ لیکن مستقل نظر انداز کرنے کے باوجود اس سوال کا کبھی نہ کبھی تو جواب دینا ہی تھا۔ ۰۲ ویں صدی کی دوسری چوتھائی میں اس مسئلہ کا حل کئی تجربات پر مبنی سلسلوں کے ذریعے نکالنے کی کوشش کی گئی۔

سب سے اہم سوال یہ تھاکہ کرہ ارض کے قدیم ماحول میں پہلا جاندار خلیہ کس طرح نمودار ہوا؟ اس سوال کے ذریعے دراصل یہ پوچھا گیا تھا کہ ارتقاءپسندوں کی اس مسئلے کے بارے میں کیا رائے ہے۔ تمام جوابات کو تجربات کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ گوکہ ارتقائی سائنسدانوں اور تجربہ دانوں نے کئی تجربوں کے ذریعے جوابات دینے کی سرتوڑ کوشش تو کی لیکن ان کے نتیجے کسی بھی دلچسپی کا سبب نہیں بن سکے۔

حالیہ ارتقاءپسند ذرائع کا ملر کے تجربے کے اوپر نا اتفاقی

آج ملر کا تجربہ ارتقاءپسند سائنسدانوں نے بھی رد کردیا ہے۔ مشہور ارتقائی سائنسی جریدی ”ارتھ“ کی فروری ۸۹۹۱ ءکی اشاعت میں ”لائف کروسیبل“ کے عنوان سے چھپنے والے ایک مضمون میں آیا تھا:

”ماہر ارضیات کا اب یہ خیال ہے کہ زمین کا قدیم ماحول بنیادی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن گیسوں پر مشتمل تھا۔ یہ گیسیں ۳۵۹۱ ءکے تجربے میں استعمال کی گئی گیسوں سے کم متعامل ہوتی ہیں۔ اگر فرض کرلیں کہ ملر کا پیش کیا گیا ماحول واقعی سچ تھا تو پھر امینو ترشوں جیسے سادے سالموں کو اس ضروری کیمیائی تبدیلی سے کس طرح گزارنا ممکن ہے جوکہ ان کو لحمیوں جیسے پیچیدہ مرکبات میں بدل دے؟ ملر نے خود پہیلی کے اس پہلو پر لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ اس نے بے چارگی سے اعتراف کیا تھا کہ ”یہ ایک مسئلہ ہے۔ آپ مرکبات کس طرح بناسکتے ہیں؟ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔“ ۱

صاف ظاہر ہے کہ ملر نے خود اس حقیقت کا اعتراف کرلیا تھا کہ اس کا تجربہ زندگی کی ابتداءکی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔ ارتقاءپسندوں کا پھر بھی جوش و خروش سے اس ¿ تجربے کو قبول کرنا اور اس کا پرچار کرنا نظریہ ارتقاءکے حامیوں کی مایوسی اور ناکامی کی بربادی اور ناکامی ¿ کھلی دلیل ہے۔ ان کا نظریہ کی دہلیز پر اسی وقت تھا اور ان کو اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ بھی تھا۔

مارچ ۸۸۹۱ ءمیں نیشنل جیوگرافک کی اشاعت میں ”داایمرجنس آف لائف آن ارتھ“ یا ”زمین پر زندگی کی نموداری“ کے عنوان سے چھپنے والے ایک مضمون میں آیا تھا:

”کئی سائنسدانوں کو اب شبہ ہے ۔قدیم ماحول ملر کے فرضی ماحول سے بہت مختلف تھا۔ ان کے خیال سے وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن سے تشکیل تھا جبکہ ملر کا خیال کہ یہ ہائیڈروجن، میتھین اور امونیا پر مشتمل تھا۔ ایک غلط مفروضہ تھا۔ کیمیا دانوں کےلئے یہ بری خبر ہے۔ جب وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن کو آپس میں جوش دلانے کی کوشش کرتے ہیں تو نتیجہ حقیر مربوط سالموں کی شکل میں نکلتا ہے جوکہ اس طرح ہے جیسے رنگ کے ایک قطرے کو بڑے سے تیراکی کے تالاب میں ملادیا جائے۔سائنسدانوں کا اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ زندگی اس رقیق مائع سے نمودار ہوئی ہے۔“ ۲

غرضیکہ نہ تو ملر کا تجربہ نہ اس کے جیسا کئے جانے والا کوئی تجربہ زمین پر زندگی کی نموداری کو بیان کرسکا۔ تمام تحقیق تخلیق کی تصدیق کرتی وجود ً ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ زندگی کا اتفاقا میں آنا سراسر ناممکن ہے۔امیج تصویر نمبر3 دیکھیں ۔

زندگی کی ابتداءسے متعلق سب سے قابل ذکر مطالعہ ملر ایکسپیریمنٹ یا ملر کا تجربہ سمجھا جاتا ہے جوکہ ۳۵۹۱ءمیں امریکی تحقیق دان اسٹینلی ملر نے کیا۔ اس تجربے کو ’ یوری ملر تجربہ‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ملر کے استاد یونیورسٹی آف شکاگوکے ہیرلڈ یوری نے بھی اس میں ملر کی مدد کی تھی۔یہ تجربہ دراصل ارتقاءپسندوں کا اپنا ’سالمیاتی ارتقاءکا مقالہ‘ ثابت کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ اس کو زندگی کی ابتداءثابت کرنے والے ازروئے دعویٰ ارتقائی عمل کے پہلے مرحلے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن آدھی صدی گزرنے اور شاندار تکنیکی ترقی کے باوجود کوئی بھی اس تجربے کو ایک قدم اور آگے نہیں لے کر جاسکا۔ باوجود اس ناکام صورتحال کے ملر کا تجربہ آج بھی نصابی کتابوں میں اولین ترین جاندار نسلوں کے ارتقائی ثبوت کے طور پر موجود ہے۔ ارتقاءپسند تحقیق دانوں کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ یہ تمام معلومات ان کے مقالے کی تصدیق نہیں بلکہ مکمل تردید کرتی ہیں اور اسی لئے یہ لوگ جان بوجھ کر اس تجربہ کی جدید تفصیلات یا اس طرح کے نئے تجربوں کا بیڑا اٹھانے سے مکمل طور پر گریز کرتے ہیں۔
جاری ہے
(ماخوذ از:نظریہ ارتقاء۔ ایک دھوکہ
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...