Wednesday 28 June 2017

انسانی ارتقاءکا منظر نامہ

انسانی ارتقاءکا منظر نامہ

 سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#51(حصہ چہارم)

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

دورِ حاضر کے انسان کے ۶۳ لاکھ سال پرانے قدموں کے نشان

۷۱ لاکھ سال پرانی جھونپڑی کی دریافت نے سائنسی حلقوں کو زبردست دھچکا پہنچایا۔ یہ جھونپڑی ہوبہو ان جھونپڑےوں کی طرح تھی جوکہ کئی افریقی باشندے آج بھی تعمیر کرتے ہیں۔ امیج میں تصویر نمبر 1 دیکھیں

کئی دوسری دریافتیں بھی دورِ حاضر کے انسان کی ابتداءکا ثبوت ۷۱ لاکھ سال پہلے کے دور میں دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم دریافت ۷۷۹۱ءمیں لائٹولی، تنزانیہ سے مےری لیکی کو ملنے والے قدموں کے نشان ہیں۔ یہ قدموں کے نشان ایک ۶۳ لاکھ سال پرانی تہہ میں ملے اور ان نشانوں سے بالکل مختلف نہیں ہیں جس طرح کے نشان ایک دورِ حاضر کا انسان چھوڑسکتا تھا۔ میری لیکی کو ملنے والے ان قدموں کے نشانات کا معائنہ بعد میں مشہور ماہر قدیم بشری رکازیات ڈونلڈ جانسن اور ٹم وائٹ کے علاوہ اس شعبے کے دوسرے ماہروں نے بھی کیا۔ ان تمام سائنسدانوں کا ایک ہی نتیجہ تھا۔وائٹ لکھتا ہے:

” اس بات مےں کوئی شک نہیں کہ یہ نشان جدید قدموں کے نشانات کی طرح ہی ہیں۔ اگر ان میں سے اےک نشان کیلیفورنیا کے ساحل پر ڈال دیا جائے اور ایک چار سال کے بچے سے اس کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ فوراً کہے گا کہ یہاں پر کوئی ابھی چل کر گیا ہے۔ وہ اس کا امتیا ز ساحل پر موجود لاتعداد دوسرے پیروں کے نشانات سے نہیں کرسکے گا۔نہ صرف وہ بچہ بلکہ آپ خود بھی اس نشان اور دوسرے نشانات کے بیچ میں کوئی فرق محسوس نہیں کرس کتے۔۵۹

قدموں کے نشانات کا معائنہ کرنے کے بعد نارتھ کیلیفورنیا یونیورسٹی کی کوئس رابنسن کا کہنا تھا کہ:

”پاﺅں کی خمیدہ شکل اٹھی ہوئی ہے۔ کسی چھوٹے انسان کے پاﺅں کی خمیدہ شکل میرے پاﺅں کی اس شکل سے اونچی تھی۔ بڑا والاانگوٹھا بڑا ہے اور دوسرے پاﺅں کے انگوٹھے سے ہم آہنگ ہے۔ یہ انگوٹھے زمین کو بالکل انسانی انگوٹھوں کی طرح پکڑ سکتے ہیں۔ یہ خاصیت حیوانی اشکال میں موجود نہیں ہوتی۔“ ۶۹

۳,۲ لاکھ سال پرانا انسانی جبڑا

یہ ۳۲ لاکھ سال پرانا انسانی جبڑا ارتقاءپسندوں کے تشکیل کردہ خیالی نسب کی تردید کرتا ہوا ایک اور ¿ شجرہ A.L. ثبوت ہے۔ اس جبڑے کا نام - 666 1 رکھاگیا اور یہ ہادر، ایتھیوپیا سے د ریافت ہوا تھا۔ ارتقائی جریدے اس دریافت سے سنسنی خیز خبریں پیدا کرنے کے لئے اس کو ایک ”حیرت انگیز دریافت“ کا نام دیتے ہیں۔ (ڈی۔ جوہانسن، بلیک ایڈگر ”لوسی سے ) زبان تک“ صفحہ )امیج میں تصویر نمبر 2 دیکھیں ۔

ان نشانات کی مزید تحقیق ثابت کرتی چلی گئی کہ یہ انسانی پیروں کے نشانات ہی ہیں اور ایک ایسے انسان کے پیر ہیں جو دورِ حاضر میں بھی موجود ہے یعنی کہ ہوموسیپین۔رسل ٹٹل نے بھی ان نشانات کا معائنہ کیا اور لکھتا ہے:

”ایک چھوٹے ہومو سیپین پیر نے یہ نشانات بنائے ہیں۔ تمام شکلیاتی عناصر ظاہر کرتے ہیں کہ یہ نشانات جدید انسانی پیروں کے نشانات سے ناقابل امتیاز ہیں۔“ ۷۹

ان قدموں کے نشانات کا غیر جانبدارانہ معائنہ ان کے اصل مالکوں کا پتہ دیتے ہیں ۔یہ نشانات ایک ۰۱ سالہ انسان کے ۰۲ فوصل شدہ پےروں کے نشانات پر مشتمل ہےں۔ اس کے علاوہ اےک جوان انسان کے پاﺅں کے ۷۲ نشانات بھی ان میں شامل ہیں۔ یہ تمام نشانات دورِ حاضر کے انسان کے پاﺅں کے نشانات سے ہوبہو مشابہ ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ان پےروں کے حامل انسان بھی بالکل ہماری ہی طرح کے لوگ تھے۔اس صورتحال نے لائٹولی کے قدموں کے نشانات کو کئی سال تک مدلل بحث کا مرکز بنائے رکھا۔ ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات نے شدت سے کوئی ایسی دلیل پیش کرنے کی کوشش کی جو کہ اس تمام ثبوت کو ناکارہ بنادے۔ ان کے لئے یہ بات بے حد ناقابل فہم تھی کہ ایک جدید طرز کا آدمی زمین کے اوپر ۶۳ لاکھ سال پہلے بھی چل پھررہا تھا۔

۰۹۹۱ءکے سالوں کے دوران ایک طرح کی صفائی نے بالآخر سراٹھانا شروع کردیا۔ ارتقاءپسندوں نے فیصلہ کیا کہ یہ قدموں کے نشانات آسٹرالوپتھیکس کے بنائے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے نظریئے کے مطابق کسی بھی ہومو نسل کے جاندار کا ۶۳ لاکھسال پہلے موجود ہونا ناممکن بات تھی۔ ۰۹۹۱ءمیں رسل ٹٹل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا:

لاؤٹولی کے قدموں کے نشان لاکھوں سال پرانے ہونے کے باوجود آج کے انسانی قدموں کے نشانات سے ہوبہو مشابہ ہیں۔امیج میں تصویر نمبر 3 ملاحظہ کریں ۔

”خلاصہ یہ کہ لائٹولی کے مقام سے ملنے والے ۵۳ لاکھ سال پرانے قدموں کے نشانات ایسے جدید انسانوں کے ہیں جن کو پیروں میں جوتا پہننے کی کبھی عادت نہ رہی ہو۔ کسی بھی خاصیت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ لائٹولی کے انسان ہم سے کسی طور پر ادنیٰ دوپایہ تھے۔ اگر لائٹولی کے پیروں کے یہ نشانات اتنے پرانے نہےں ہوتے تو با آسانی یہ نتیجہ اخذ کرلیتے کہ یہ ہماری ہی جنس ہومو کے کسی انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔کسی بھی حال میں ہمیں اس ڈھیلے سے اندازے سے پےچھا چھڑا لےنا چاہئے کہ لائٹولی کے قدموں کے نشانات لوسی کی جنس آسٹرالوپتھیکس ا فارنسس کے بنائے ہوئے ہیں۔“ ۸۹

مختصرََ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نشانات جو کہ ۶۳ لاکھ سال پرانے قیاس کئے جاتے ہیں وہ آسٹرالوپتھیکس کے ہرگز نہیں ہوسکتے۔ ان کو آسٹرالوپتھیکس نسل کا سمجھے جانے کی ایک وجہ ان کا ۶۳ لاکھ سال پرانی آتش فشانی تہہ سے دریافت ہونا ہے۔ ان کو آسٹرالوپتھیکس نسل سے جوڑے جانے کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کسی طور پر یہ گمان بھی کسی کو نہیں تھاکہ انسان وقت کے اس دور میں موجود بھی ہوسکتا تھا۔ لائٹولی کے نشانات کی تمام تشریحات ایک اہم حققت کو سامنے لے کر آتی ہیں اور وہ یہ کہ ارتقاءپسند اپنے نظریوں کوسائنسی تجربات کا سہارا دینے سے سراسر گریز کرتے ہیں۔ اس کی مثال لائٹولی کے نشانات ہیں جن کو ہر طرح کی سائنسی تحقیق کا مکمل سہارا حاصل ہونے کے باوجود ارتقاءپسندوں کے ہاتھوں اس قدر شک و شبہ میں ڈال دیا گیا کہ ےہ ثبوت عام لوگوں نے مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ نظریہ ارتقاءسائنس نہیں بلکہ سائنس کی مخالفت کرتے ہوئے کٹر عقائد ہیں۔

نظریہ ارتقاءکا دوپایہ خا صیت کے ہاتھوں تعطل

اب تک زےرِ غور لائے گئے فوصلی ریکارڈ کے علاوہ انسان اور گوریلوں میں تشریح الاعضاءکے حساب سے بھی اتنا زیادہ فرق اور خلاہے کہ انسانی ارتقاءکی خیالی کہانی مکمل طور پر منسوخ ہو جاتی ہے۔ ان میں سے ایک فرق دو ٹانگوں پر چلنے کی مخصوص خاصےت ہے۔ انسان دو ٹانگوں پر عمودی زاویئے سے چلتا ہے۔ یہ حرکت کرنے کی اتنی مخصوص صلاحیت ہے کہ انسان کے علاوہ کسی اور ممالیہ نسل میں نظر نہیں آتی۔ کچھ جانور اپنے پیچھے کی ٹانگوں پر کھڑے ہوکر تھوڑی دیر کے لئے چل سکتے ہیں لیکن یہ ان کا قدرتی چلنے کا طریقہ نہیں ہوتا۔ بھالو اور بندر اس طرح سے تھوڑی دیر کے لئے حرکت کرتے ہیں اگر ان کو کھانے پینے کی کوئی چیز حاصل کرنا ہو۔ عام طور پر ان کے ڈھانچے آگے کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ اپنی چاروں ٹانگوں پر ہی چلتے ہیں۔ تو پھر کےا دوپاےہ چلنے کی صفت گوریلوں کی چارپایہ چلنے کی صفت کی تدریجی شکل ہے جیسا کہ ارتقاءپسندوں کا دعویٰ ہے؟ ہرگز نہیں۔ تحقیق کے مطابق دوپایہ صفت ارتقاءکا نتیجہ نہیں ہے۔ اس طرح ہونا ممکنہی نہیں تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ دو پایہ صفت کسی طرح کا ارتقائی فائدہ نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوحات ہےں۔

حالیہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ گوریلوں کا جھکا ہوا ڈھانچہ صرف چوپایہ چال کے لئے ہی بناگیا ہے اور اس ڈھانچے کا انسانی دوپایہ ڈھانچے میں ارتقائی عمل کے ذریعے تبدیل ہوجانا قطعی ناممکن ہے۔امیج میں تصویر نمبر 4 ملاحظہ کریں ۔

بندروں کی حرکت کا طریقہ انسان کی دوپایہ صفت سے کہیں زیادہ آسان، تیز اور کارگزر ہے۔انسان ایک درخت سے دوسرے درخت پر بندروں کی طرح جست لگاکر نہیں پہنچ سکتا۔ اس کو زمین پر آکر دوسرے درخت پر دوبارہ چڑھنا پڑتا ہے۔انسان چیتے کی طرح ۵۲۱ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ بھی نہیں سکتا۔ اس کے برعکس کیونکہ انسان دوٹانگوں پر چلتا ہے اس لئے اس کی حرکت کی رفتار نسبتاً آہستہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ تمام نسلوں میں حرکت اور تحفظ کے اعتبار سے سب سے زیادہ غیر محفوظ نسل ہے۔ نظریہ¿ ارتقاءکی منطق کے مطابق بندروں کو تدریجی ترقی کے ذریعے دوپایہ مخلوق نہیں بننا چاہئے تھا بلکہ انسان جیسی دفاع کے اعتبار سے کمزور اور غیر محفوظ مخلوق کو چارپایہ بن جانا چاہئے تھا۔

اس ارتقائی دعوے کاایک اور تعطل یہ ہے کہ دوپایہ صفت کسی بھی طور پر ڈارون کے ’ سلسلہ وار ترقی‘ کے نمونے کی ضروریات کو پورا نہیں کرتی۔ یہ نمونہ نظریہ¿ ارتقاءکی ایک اہم بنیاد ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ دوپایہ اور چار پایہ اوصاف کے درمیان ایک ’مجموعی‘ عبور ہے۔ لیکن ۶۹۹۱ءمیں انگریز ماہرِ قدیم بشری رکازیات روبن کرومپٹن نے کمپیوٹر کے ذریعے کی گئی تحقیق سے ثابت کیا کہ ایسا کوئی بھی ”مجموعی“ عبوری طریقہ کار قطعاً ناممکن ہے۔ کرومپٹن نے نتیجہ نکالا کہ ’کوئی بھی جاندار یا تو صرف عمودی حالت میں دو ٹانوں پر چلنے کے لائق ہوتا ہے یا پھر چوپایہ ہوتا ہے۔“(99) ان دونوں کے درمیان کسی بھی ”مجموعی“ طو رپر فاصلے کو ختم کردینے کا طریقہ کار ناممکن ہے کیونکہ اس میں حد سے زیادہ طاقت کا مصرف بھی لازم ہے۔ اسی لئے کوئی’ آدھا‘ دوپایہ وجود میں نہیں ہے۔

انسان اور گوریلے کی درمیان زبردست فاصلہ صرف دوپایہ صفت تک ہی محدود نہیں ہے۔ بہت سے دوسرے تنازعے بھی ابھی تک حل نہیں ہوسکے۔ مثلاً دماغ کی گنجائش، بولنے کی صلاحیت اور دوسرے کئی معاملات بھی آج تک اسی جگہ اٹکے ہوئے ہیں۔ اس معاملے پر ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات ایلین مورگن اپنے اعترافی نوعیت کے خیالات کا اظہار کرتی ہیں:

”انسانوں سے متعلق چار ممتاز بھید یہ ہیں ۱۔وہ دو ٹانگوں پر کیوں چلتے ہیں؟ ۲۔ ان کی کھال کا پشم کہاں گیا؟ ۳۔ان کے دماغ اتنے بڑے کیوں ہیں؟ ۴۔ انہوں نے بولنا کیوں سیکھا؟ ان تمام سوالوں کے کٹر روایات پسند جوابات ہیں۱۔ ہم کو ابھی نہیں پتہ ۲۔ہم کو ابھی نہیں پتہ ۳۔ہم کو ابھی نہیں پتہ۔ ۴۔ہم کو ابھی نہیں پتہ۔ سوالوں کی فہرست میں کئی سوال اور بھی ڈالے جاسکتے ہیں لیکن جواب کی نوعیت پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔“ ۰۰۱

ارتقائ: ایک غیر سائنسی عقیدہ

لارڈ سولی زکرمین کا شمار انگلستان کے مشہور ترین باعزت سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اس نے کئی سالوں فوصلی ریکارڈ کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے اوپر تفصیلی تحقیق بھی کی ہے۔ اس کو اپنا نام اور مقام سائنس کی انتھک خدمت سے حاصل ہوا ہے۔ زکرمین ایک ارتقاءپسند ہے اسی لئے ارتقاءکے متعلق اس کے نظریات بے علم اور متعصب قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ فوصلوں کے اوپر اس کی کئی سالہ تحقیق کا محور انسانی ارتقاءکا خیالی منظر نامہ بھی ہے۔ زکر مین کے مطابق اس خیالی شجرہ¿ نسب میں کوئی سچائی نہیں ہے۔

انسانی ارتقاءکی خیالی حکایت کی بنیاد کسی بھی طرح کی سائنسی تحقیق پر مبنی نہیں ہے۔ اس طرح کے خاکوں اور نقشوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ماسوائے ارتقاءپسندوں کی رنگین تصورات کی عکاسی کرنا۔امیج میں تصویر نمبر 5 ملاحظہ کریں ۔

ذکر مین نے ایک اور دلچسپ ”سائنسی تجزیئے کا نقشہ“ نامی ایک عمومی تصور کا آغاز کیا جس کے ذریعے سائنسی اعتبار سے درست اور غیرسائنسی روایات کا تجزیہ کیا جاسکے۔ زکر مین کے اس نقشے کے مطابق سب سے زیادہ ٹھوس تحقیق پرمبنی اور سائنسی رو سے قابل اعتبار سائنسی شاخیں کیمیا اور طبابت ہیں۔ اس کے بعد حیاتیاتی سائنسی شاخیں آتی ہیں اور پھر معاشرتی شاخیں ہیں۔ اس تجزیئے کے نقشے کا بالکل آخری کونا غیر سائنسی کونا بن جاتا ہے اور یہاں پر غےر حسی مشاہدے جس طرح بعید رسانی اور وجدان موجود ہیں۔ نقشہ کے اس آخری کونے کی آخری چیز انسانی ارتقاءہے۔ زکر مین اپنے استدلال کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

”ہم لوگ حقیقی سچائی کے میدان سے نکل کر فرض کی جانے والی حےاتیاتی سائنس کے دائرے میں آجاتے ہیں مثلاً وجدان یا غیر حسی مشاہدے۔ انسان کی فوصلی تاریخ مےںعقیدہ مندوں کے لئے ہر چیز ممکن بن جاتی ہے اور ان کے لئے بیک وقت کئی پرُ اختلاف دعوﺅں کو بھی صحیح مان لیناکسی قسم کا مسئلہ پیش نہیں کرتا۔“ ۱۰۱

رابرٹ لوک رسالہ’ ڈسکوورنگ آرکیولوجی ‘کے مدیر اعلیٰ ہیں ۔ےہ رسالہ انسان کی ابتداءکے اوپر ایک اہم جریدہ ہے۔ لوک اس رسالے میں لکھتا ہے:

”انسانی پرکھا کی تلاش روشنی سے زیادہ گرمی برآمد کررہی ہے۔“ اس مضمون میں اس نے مشہور ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات ٹم وائٹ کا اعتراف بھی شامل کیا ہے۔

”ہم سب لوگ ان تمام سوالوں کے ہاتھوں شدید مایوسی اور الجھن کا شکار ہیں جن کے ہم جواب نہیں دے پائے ہیں“ ۔۲۰۱

لوک کا مضمون نظریہ¿ ارتقاءکا انسان کی ابتداءکے موضوع پر تعطل اور تشہیراتی ذرائع سے اس موضوع کے سراسر بے بنیاد پرچار کا معائنہ کرتا ہے۔

”سائنس کا کوئی بھی شعبہ انسان کی ابتداءکی تلاش سے زیادہ حجتی اور تصفےہ طلب نہیں ہے۔ نامور ماہرِ قدیم بشری رکازیات کو انسان کے شجرہ نسب کی سب سے بنیادی ابتدائی خاکے کے بارے میں بھی اختلافات ہیں۔ اس شجرے کی نئی شاخیں زبردست دھوم دھڑکے سے اگتی تو ہیں لیکن نئی فوصلی دریافت کی روشنی میں سوکھ کر مر جاتی ہیں۔“ ۳۰۱

ایک جانے پہچانے جریدے ”نیچر“ کے مدیر اعلیٰ ہنری گی نے حال ہی میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ ۹۹۹۱ءمیں چھپنے والی اپنی کتاب، ”ان سرچ آف ڈیپ ٹائم“ میں گی کہتا ہے :

”انسانی ارتقاءسے متعلق ۵ سے ۰۱ لاکھ سال کے عرصے پر محیط ثبوت جو کہ جانداروں کی کئی ہزار نسلوں پر مشتمل ہے اس کو ایک چھوٹے سے ڈبے کے اندر بند کیا جاسکتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کی ابتداءاور ترقی سے متعلق تمام روایتی ثبوت سراسر انسانی ایجاد ہے جس کا دارومدار انسانی تعصبات پر ہے۔“ وہ مزید کہتا ہے:

”کسی بھی فوصلی سلسلے کو اٹھاکر دعویٰ کردینا کہ یہ کسی نسل کے ترجمان ہیں ہرگز ایسا سائنسی مفروضہ نہیں ہے جس کی تحقیق کی جاسکے۔ یہ صرف ایک ایسا اعلان کا عمل ہے جیسے کہ بچے کو رات میں بہلانے والی کوئی کہانی جو کہ دلچسپ اور تعلیمی تو ہوسکتی ہے لیکن سائنسی ہرگز نہیں ہوتی۔“ ۴۰۱

پھر کیا وجہ ہے کہ لاتعداد سائنسدان اس کٹر عقیدے پر اتنی مضبوطی سے قائم ہیں؟ وہ اتنی سختی سے اپنے اس نظریئے کو زندہ رکھنے کے لئے سرگرداں کیوں ہیں باوجود اس کے کہ اس کے لئے ان کو کئی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کتنے ہی ثبوت ضائع کرنے پڑتے ہے؟ اس کا جواب صرف ان کا اس حقیقت سے خوفزدہ ہونا ہے جس سے ان کو نظریہ ارتقاءکو غلط مان لینے پر سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اور تمام جاندار صرف اور صرف اﷲ کی تخلیق ہیں۔ لیکن ان کی تمام پیش قیاسیاں اور مادی فلسفہ پر کٹر یقین ان کے لئے تخلیق کو ایک ناقابل قبول تصور بنادیتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اور دنیا کو اپنے ساتھ تعاون کرنے والے تشہیراتی ذرائع کے ذریعے شدید دھوکے کا شکار رکھتے ہیں۔ اگر ان کو ضروری فوصل نہیں ملتے تو وہ جعلی فوصل بنانے سے گریز نہیں کرتے جوکہ وہ خیالی خاکوں، نقشوں اور شکلوں کی صورت میں دنیا کے سامنے اس مکمل اعتماد کے ساتھ پیش کردیتے ہیں کہ جیسے واقعی

یہ ارتقاءکو ثابت کرنے والے اصل فوصل ہیں۔ وہ تمام وسیع تشہیراتی ذرائع جوکہ انہیں کی طرح مادہ پرست نقطہ¿ نظر رکھتے ہیںوہ اپنی کہانیوں سے لوگوں کے تحت الشعور میں ارتقاءکے متعلق جھوٹ کو بٹھانے میں جت جاتے ہیں۔ لیکن ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ سچ کو بدل نہےں سکتے کہ انسان کسی ارتقائی عمل سے نہیں بلکہ اﷲ کی تخلیق سے وجود میں آیا ہے اور وہ صرف اﷲ کے سامنے جوابدہ ہے۔
 جاری ہے۔۔
(ماخوذ از:نظریہ ارتقاء – ایک دھوکہ)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...