Thursday 29 June 2017

ارتقاءکا سالمی تعطل

ارتقاءکا سالمی تعطل

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#52(حصہ اول)

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

کتاب کے پچھلے حصوں میں بتایا گیا ہے کہ فوصلی ریکارڈ کس طرح نظریہ ارتقاءکو ناقص بنا دیتا ہے۔ یہ ثبوت پیش کرنے کی درحقیقت کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ارتقاءکے متعلق تمام نظریئے فوصلی ثبوت تک پہنچنے سے پہلے ہی زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ وہ موضوع جو کہ اس نظریئے کو شروع سے ہی بے معنی بنا دیتا ہے وہ زندگی کا زمین پر نموداری کا سوال ہے۔

اس سوال کے جواب میں نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ زندگی ایک واحد خلئے سے شروع ہوئی جو کہ اتفاقاً وجود میں آ گیا تھا۔اس منظر نامے کے حساب سے چار کروڑ سال پہلے کئی بے جان کیمیائی مرکبوں کے درمےان زمین کے قدیمی ماحول میں رد عمل پیش آیا جس کی وجہ سے گرج چمک اور ماحولیاتی دباﺅ کے سبب سے پہلا جاندار خلیہ وجود میں آ گیا۔ یہاں پر پہلی وضاحت تو یہ کرنا لازمی ہے کہ محض یہ دعویٰ کہ بے جان چیزیں آپس میں مل کر جاندار چیز پیدا کر سکتی ہیں دراصل ایک ایسا غیر سائنسی دعویٰ ہے جس کی تصدیق کوئی تجربہ یا مشاہدہ آج تک نہیں کرسکا۔ زندگی صرف زندگی سے وجود میں آتی ہے۔ ہر جاندار خلیہ کسی دوسرے جاندار خلئے کی نقل ہوتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی آج تک غیر جاندار اشیاء کو آپس میں ملا کر جاندار خلیہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ حتیٰ کہ دنیا کی جدید ترین تجربہ گاہیں بھی ایسا کوئی معجزہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔البتہ نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ وہ جاندار خلیہ جو کہ انسانی عقل، علم اورفنیات کی تمام طاقت مل کر نہیں بناسکی وہ زمین کے کروڑوں سال پہلے کے قدیم ماحول میں محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔ ان اقساط میں ہم اس بات کا تفصیلی معائنہ کریں گے کہ ارتقاءپسندوں کا یہ دعویٰ کس طرح سے سائنس اور منطق کے بنیادی اصولوں سے مکمل انحراف کرتا ہے۔

اتفاقاً پیدا ہونے والے خلئے کی کہانی

اگر کوئی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ جاندار خلیہ محض اتفاق سے وجود میں آ گیا تو اس کو مندرجہ ذیل کہانی پر یقین لانے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ یہ ایک چھوٹے سے شہر کی کہانی ہے۔

ایک دن بنجر زمین پر موجود پتھروں کے بیچ پھنسی ہوئی کچھ مٹی بارش کے پانی سے گیلی ہوگئی۔ یہ گیلی مٹی سورج کے نکلنے کے بعد سوکھ کر سخت ہوگئی اور اس کے اندر قوت مدافعت پیدا ہوگئی۔بعد میں یہ پتھر جنہوں نے سانچے کا کام بھی کیا تھا اس کے کسی طرح ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوگئے اور پھر ایک صاف ستھری شکل کی مضبوط اینٹ کی شکل دھارگئے۔ یہ اینٹ اسی قدرتی ماحول میں سالوں ایک اور اپنی جیسی اینٹ کے بننے کا انتظار کرتی رہی۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس جگہ پر ہزاروں اسی طرح کی اینٹیں جمع نہیں ہوگئیں ۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ان میں سے کوئی بھی اینٹ کسی نقصان کا شکار نہیں ہوئی ۔ باوجود ہزاروں سال کے طوفانوں، بارشوں، ہواﺅں، سورج کی تیز روشنی اور شدید ٹھنڈ کے باوجود کسی بھی اینٹ میں معمولی سی بھی دراڑ نہیں پڑی اور نہ وہ ٹوٹیں یا اپنی جگہ سے ہلیں بلکہ نہایت قطعیت سے ایک ہی جگہ پر دوسری اینٹیں بننے کاانتظار کرتی رہیں۔

جب کافی مقدار میں اینٹیں جمع ہوگئیں تو انہوں نے ماہرانہ طور پر اپنے آپ کو ترتیب دیتے ہوئے ایک بہترین عمارت تعمیر کرلی۔ ان کی ترتیب کسی ہوا، طوفان یا آندھی کا بے ترتیب نقشہ نہیں تھا بلکہ ایک انتہائی منظم تعمیر کاثبوت تھا۔ ان کو جوڑنے والے سیمنٹ اور مٹی کے مرکبات بھی ان کی طرح قدرتی عوامل کے ذریعے وجود میں آئے اور ان اینٹوں کے درمیان خود ہی گھس کر ان کو چپکانے اور آپس میں جوڑنے کا اہم کام انجام دیتے رہے۔ ان تمام واقعات کے دوران زمین کے نیچے قدرتی حالات کے تحت لوہا بننا شروع ہوگیا جو کہ خاص طور پر اس عمارت کی بنیادوں میں استعمال ہوگا جوکہ ان اینٹوں سے بنے گی۔ اس تمام عمل کے نتیجے میں ایک مکمل عمارت اپنی تمام تر ضروری لوہے اور لکڑی کے پرزوں اور بجلی کی تاروں سمیت کھڑی ہوگئی۔

ظاہر ہے کہ ایک عمارت صرف بنیادوں، اینٹوں اور سیمنٹ ہی کا مرکب نہیں ہوتی۔ تو پھر باقی دوسری چیزیں کہاں سے آئیں گی؟ اس کا جواب آسان ہے۔ جس طرح کا سامان اس عمارت کی تعمیر کے لئے ضروری ہے وہ سب اس زمین کے اندر موجودہے جس کے اوپر وہ عمارت کھڑی ہے مثلاً شیشوں کے لئے سیلیکون، بجلی کی تاروں کے لئے تانبا، بنیادوں کے ستونوں اور پانی کے پائپوں کے لئے لوہا وغیرہ سب زمین کے اندر وافر مقدار میں موجود دھاتیں ہیں۔ صرف قدرتی کیفیات کی ہنرمندی سے یہ دھاتیں ضرورت کے تحت اشکال میں ڈھل کر عمارت کے اندر پہنچ جائیں گی۔ اینٹوں کے اس ڈھانچے میں تمام پائپ، لکڑی کا کام اور دوسری ضروری چیزیں اڑتی ہوا، بارش اور زلزلوں کی مدد سے اپنی صحیح جگہ پر پہنچ جائیں گی۔ہرچیز اتنے منظم اور مکمل طریقے سے تعمیر ہوگی کہ اینٹوں نے صحیح جگہوں پر کھڑکیوں کی جگہ بھی چھوڑدی ہو گی تاکہ قدرتی عوامل بعد میں شیشہ نامی چیز بناکر یہاں پر کھڑکیاں لگادیں۔ اس کے علاوہ اینٹیں، پانی، بجلی اور ایئرکنڈیشنر کے نظام کے لئے مناسب جگہ بھی موجود ہو گی جو کہ بعد میں محض اتفاقاً ہی وجود میں آجائیں گے۔ رنگ روغن بھی خود بخود ہی ہو جائے گا۔ہر چیز بہترین طریقے سے وجود میں آتی ہے ۔غرضےکہ اتفاقات اورقدرتی عوامل ایک مکمل عمارت تعمیر کردیں گے۔امیج میں تصویر نمبر 1 سے 5 تک ملاحظہ کریں ۔ایسی ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہے۔

اگر کسی کو اب بھی اس کہانی کے سچ ہونے کا یقین ہے تو اس کو اس شہر کی دوسری عمارتوں، سڑکوں، کارخانوں، چھوٹی عمارتوں اور گھروں کا بھی ا سی طرح سے وجود میں آنے پر بھی مکمل یقین آجائے گا۔ اگر کسی کے اندر تکنیکی سمجھ بوجھ ہو اور جو اس موضوع سے تھوڑا آشنا ہو تو اس کو ایک ایسی سائنسی نوعیت کی کتاب لکھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی جس کے اندر وہ شہر کے نظامِ نکاسی اور دوسری عمارتوں کے ساتھ اس عمارت کی ہم آہنگی کے اوپر اپنا ذاتی ارتقائی سائنسی مقالہ پیش کرے۔ ذہانت کے اس بھرپور مظاہرے پر بہت ممکن ہے کہ ایسے مصنف کو کئی تعلیمی انعامات سے نوازا جائے اور مصنف خود کو ایک غیر معمولی ذہنی اور تخلیقی صلاحیت کا حامل سمجھنے میں کوئی عار محسوس نہ کرے۔ نظریہ ارتقاءبھی اسی طرح سے دعویٰ کرتا ہے کہ زندگی اتفاقاً وجود میں آئی اور یہ نظریہ اس کہانی ہی کی طرح واہیات اور نامعقول ہے کیونکہ جسم کی تمام تر ذمہ داریاں، رابطے، نقل و حمل اور انتظامی نظام تو ایک طرف، ایک واحد خلیہ بھی کسی ایک پورے شہر سے کم پیچیدہ اور اہم نہیں ہے۔

خلئے کا معجزہ اور ارتقاءکا اختتام

ایک زندہ خلئے کی پیچیدہ ساخت ڈارون کے زمانے میں سامنے نہیں آئی تھی۔ اس زمانے میں ارتقاءپسندوں کا زندگی کی ابتداءکو اتفاقات اور قدرتی عوامل کا نتیجہ ہونا کہہ دینا ہی لوگوں کو اس دھوکے میں لانے کےلئے کافی تھا۔ لیکن ۰۲ صدی کی تکنیکی اور سائنسی مہارت نے زندگی کے اس سب سے چھوٹے ترین پرزے کے اندر جاکر اس کی اصلیت کو جاندار اجسام کی پیچیدہ ترین تنظیم ثابت کردیا ہے۔ آج پوری دنیا کو پتہ ہے کہ خلیوں کے اندر طاقت کے کارخانے لگے ہیں جوکہ خلئے کو کارآمد رکھنے کے لئے مستقل طاقت پیدا کرتے ہیں۔ یہ ان لحمیوں کو پیدا کرنے کا کارخانہ ہیں جو کہ مخصوص حیاتیاتی کیمیائی ردعمل میں عمل انگیز کا کام کرتے ہیں۔خلئے ایک ایسا بینک ہیں جن میں ان تمام انتضامات کے متعلق معلومات داخل ہوتی ہیں جو اس نے جسم میں پیدا کرنی ہیں۔ خلیہ ایک پیچیدہ نقل و حمل کا نظام ہے اور جسم کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں انتضامی اشیاءاور خام مال لے کر جانے کا نہایت اہم کام بھی انجام دیتا ہے۔خلئے کی شکل میں جسم میں نہایت ترقی یافتہ تجربہ گاہیں موجود ہیں جو کہ باہر سے آنے والے خام مال کو توڑنے اور قابل استعمال بنانے والے کارخانے بھی ہیں۔ خلیوں کی مخصوص لحمیاتی جھلی اس کے اندر آنے والے اور باہر جانے والے اجزاءکو قابو میں رکھتی ہے۔ یہ تمام کام خلیوں کے نہایت پیچیدہ نظام کی ہلکی سی جھلک ہے۔

خلئے کی پیچیدگی

پریشان حال نظریہ“ میں خلئے کی پیچیدگی کی وضاحت کی ہے: ”سالماتی حیاتیات کے ذریعے سامنے لائی گئی زندگی کی حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے ہمیں ایک خلئے کو ایک ہزار لاکھ سے ضرب دے کر اتنا بڑا کرنا پڑے گا کہ اس کا قطر بیس کلومیٹر ہوکر ایک عظیم ہوائی جہاز کے مشابہ ہوجائے جوکہ لندن اور نیویارک جیسے بڑے شہروں کو بھی ڈھک دے۔ اس وقت ہمارے سامنے ایک ایسی شے آئے گی جوکہ پیچیدگی اور صلاحیت کے اعتبار سے بے مثل ہوگی۔ a موافقت کی خلئے کی سطح پر لاکھوں مہین سوراخ نظر آئیں گے جس طرح کہ ایک بہت بڑے جہاز کے پہلو میں روشن دان ہوتے ہیں۔ یہ سوراخ مستقل کھلنے اور بند ہونے کے عمل میں ہوتے ہیں تاکہ مختلف اجزاء اس کے اندر اور باہر جاسکیں۔ اگر ہم ان میں سے کسی سوراخ سے خلئے کے اندر داخل ہوجائیں تو ہم اپنے آپ کو انتہائی ترقی یافتہ اور تکنیکی دنیا میں پائیں گے جس کی پیچیدگی کا تصور بھی محال ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو کہ اتفاق کی مکمل ضد ہے۔ خلئے ساخت اور انتظام کی مہارت انسانی عقل کے ذریعے بنائی گئی کسی بھی چیز سے کہیں زیادہ ممتاز اور اعلیٰ ہیں۔امیج میں تصویر نمبر 6 ملاحظہ کریں ۔

ارتقائی سائنسدان ڈبلیو۔ایچ۔ تھارپ کہتا ہے ”سب سے سادے خلئے کے اندر بھی ایک ایسا نظام موجود ہے جس کو بنانا تو دور کی بات، انسان نے تصور بھی نہیں کر سکتا ہے۔“۵۰۱

ایک خلئے کی ساخت اس قدر پیچیدہ ہے کہ جدید ترین تکنیکی صلاحیت بھی اس کو بنانے سے قاصر ہے۔ خلیہ بنانے کی ہر کوشش ہمیشہ سے ناکام رہی اور اس لئے سائنسدانوں نے اب ایسی کسی کوشش کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ لیکن نظریہ ارتقاء کا دعویٰ ہے کہ یہ نظام جس کی نقل انسان اپنی تمام تر عقل، تعلیم اور جدید ترین تکنیکی صلاحیتوں کے باوجود نہیں کرسکا وہ زمین کے قدیم ترین ماحول کے زیر اثر محض اتفاق سے وجود میں آ گیا۔ خلئے کے اچانک وجود میں آ جانے کی ایک اور مثال ایسی ہے جیسے کہ کتابوں کے طباعت خانے میں دھماکے ہو جانے کی بناءپر ایک بہترین کتاب کا وجود میں آ جانا ہے۔

انگریز ماہرِ ریاضی اور ہیئت دان سرفریڈ ہائل نے رسالہ ”نیچر“ کی ۲۱ نومبر ۱۸۹۱ءکی اشاعت میں چھپنے والے ایک انٹرویو میں اسی طرح کا ایک موازنہ کیا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ خود ایک ارتقاءپسند ہے ہائل کہتا ہے کہ: ”اعلیٰ زندگی کی اقسام کا اس طرح اتفاق سے وجود میں آنا اسی طرح کی بات ہے کہ گویا ایک آندھی کا کباڑ خانے سے گزرنے پر اس میں موجود ٹین ٹبار کے ساتھ ایک بوئنگ ۷۴۷ طیارہ وجود میں آجائے۔“۶۰۱

اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ خلیوں کا محض اتفاق کی بناء پر وجود میں آ جانا ممکن ہی نہیں۔ خلئے صرف تخلیق کے ذریعے وجود میں آئے ہیں۔ایک اور بنیادی وجہ جس کی بناءپر نظریہ ارتقاءخلیوں کی ابتداء بیان کرنے سے قاصر ہے وہ اس کے اندر موجود ”ناقابل تخفیف پیچیدگی“ ہے۔ ایک جاندار خلیہ اپنے آپ کو کئی ترکیبی حصوں کے تعاون سے زندہ رکھتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی حصہ ناکارہ ہوجائے تو خلیہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ خلیہ کے پاس کسی انتخابِ طبعی یا جینیاتی بے ترتیبی جیسے غیر شعوری طریقہ عمل کا انتظار کرنے کا وقت نہیں ہوتا جوکہ اس کو ترقی دینے یا زندہ رہنے میں مدد دے سکے۔ اسی لئے زمین پر پہلا خلیہ بے شک اور لازماً ایک مکمل خلیہ تھا جس کے اندر تمام ترکیبی نظام اور کارگزاری کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ اس لئے خلیہ صرف تخلیق ہی کیا جا سکتا ہے، اتفاقاً نہیں بن سکتا۔

ارتقاء کو سب سے زیادہ پریشانی زندگی کی ابتداء کو بیان کرنے میں پیش آتی ہے۔ اس کی وجہ  نظریہ یہ ہے کہ مربوط سالمے اس قدر پیچیدہ ہیں کہ ان کی تشکیل کو محض اتفاق کہہ دینا ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح مربوط خلئے کا بھی اتفاق اور حادثے کی بدولت وجود میں آ جانا قطعی ناممکن ہے۔ارتقاء پسندوں کو زندگی کی ابتداء سے متعلق سوالوں کا سامنا ۰۲ ویں صدی کی دوسری چوتھائی میں ہوا۔ روسی ارتقاءپسند ایلکسنرانڈر اوپارن سالمی ارتقاءکا ایک سربرآوردہ سائنسدان ہے۔ اس نے اپنی ۶۳۹۱ ءمیں چھپنے والی کتاب ”دااوریجن آف لائف“ یا ”زندگی کی ابتدائی “ میں لکھا ہے:

ارتقاءکا تاریک ترین پہلو ”بدقسمتی سے خلئے کی ابتداء ایک ایسا سوال ہے جوکہ بلاشبہ پورے نظریہ ہے۔“ ۱

اوپارن کے بعد بھی کئی ارتقاءپسندوں نے لاتعداد تجربوں، ہر نوعیت کی تحقیق اور مشاہدوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خلیہ اتفاق سے وجود میں آیا ہے۔ لیکن ان کی ہر کوشش صرف اسکے برعکس خلئے کی انتہائی پیچیدہ ساخت کومزید واضح کرتی چلی گئی اور ان کے ہر دعوے کی تردید مضبوط تر ہوتی گئی۔ یونیورسٹی آف جوہانس، گوٹنبرگ میں حیاتیاتی کیمیاء کے انسٹیٹیوٹ کا سربراہ پروفیسر کلاس دوس کہتا ہے:

”کیمیائی اور خردنامیاتی ارتقاءکے شعبوں کے ذریعے زندگی کی ابتداء کے بارے میں ۰۳ سے زائد سال کی تحقیق زمین پر زندگی کی ابتداء کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس کو مزید الجھاتی چلی گئی ہے۔ آج اس موضوع پر تمام بنیادی نظریئے اور تحقیقات یا تو اس سوال کو تعطل میں ڈال دیتے ہیں یا پھر بے علمی کے اعتراف پر ختم ہوتے ہیں۔“ ۲

سان ڈیگو کے اسکرپس انسٹیٹیوٹ کے ارضیاتی کیمیا دان جفری بادا اس تعطل کے متعلق ارتقاء پسندوں کی بے چارگی میں کہتا ہے:

”آج بیسویں صدی کو چھوڑتے ہوئے ہمارے سامنے وہی عظیم غیر حل شدہ سوال موجود ہے جوکہ بیسویں صدی میں داخل ہونے پر تھا۔ ”زمین پر زندگی کی ابتداء کس طرح ہوئی؟‘ ۳

 ایلکسزانڈراوپارن ”خلیہ کی ابتداء ابھی تک ایک سوال ہے۔

جفری بادا ”سب سے بڑا غیر حل شدہ مسئلہ: ”زمین پر زندگی کی ابتداء کیسے ہوئی؟
جاری ہے۔۔۔۔
(ماخوذ از:نظریہ ارتقاء۔ ایک دھوکہ

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...