Saturday 22 April 2017

کلاوہ ۔۔۔۔۔۔ دیوی دیوتاوں کی یادگار


کلاوہ ۔۔۔۔۔۔ دیوی دیوتاوں کی یادگار

(تالیف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان )

جہالت و نادانی کی وجہ سے ہمارے سماج میں بعض رسمیں ایسی بھی داخل ہو جاتی ہیں جن کا نہ صرف یہ کہ دین و مذہب سے کوئی تعلق ہوتا بلکہ وہ دین کے مخالف ہوتی ہیں اور اغیار کے مذہب کا حصہ ہوتی ہیں ،حالانکہ اِن رسموں کو انجام دینے والے اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں ، انہی میں سے ایک رسم ، ہاتھ پر کلاوہ باندھنا ہے ، کلاوہ ہندوؤں کاوہ مقدس دھاگہ ہے جسے ہاتھ پر باندھنے سے بقول ہندوؤں کے برہما، وشنو اور مہیش جیسے دیوتاؤں کی کرپا حاصل ہوتی ہے ، کلاوہ ہاتھ پر باندھنے کی ابتدأ راجا بلی اور دیوی لکشمی نے کی تھی۔
www.amarujala.com اور www.hallabolindia.com
ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ شاستروں کا ماننا ہے کہ ہاتھ میں کلاوہ باندھنے سے تردیووں ﴿یعنی برہما، وشنو اور مہیش ﴾ اور تینوں مہادیویوں کی کرپا حاصل ہوتی ہے اور مہا لکشمی کی کرپا(مدد) سے دھن دولت اور جائیداد ، مہا سرسوتی کی کرپا سے عقل اور علم اور مہا کالی کی کرپا سے طاقت حاصل ہوتی ہے۔
لیکن افسوس ! حسین ٹیکری اور مزاروں کے ذریعہ دیوی دیوتاؤں کی یہ یادگار نادان اور کج فکر شیعوں سنیوں کے یہاں تک پہنچ گئی ۔
ان مزاروں پر ہندو عقیدت مند بھی بڑی تعداد میں پہنچتے ہیں ، چونکہ ہندؤوں کے یہاں مندر میں پوجا پاٹ سے پہلے کلاوہ باندھا جاتا ہے لہٰذا عادتاً ہندو عقیدت مندوں نے میں بھی درگاہوں پر کلاوہ باندھنا شروع کر دیا۔لیکن درگاہوں پر ہندوؤں کی دیکھا دیکھی مسلمان بالخصوص شیعہ سنی(بریلوی) مسلمانوں نے بھی کلاوہ باندھنا اور پہننا شروع کردیا ، اس کے بعد تو کلاوہ ہر درگاہ سے منسوب ہوگیا۔
اگر درگاہوں کے ذمہ دار حضرات با شعور ہوتے تو وہ راجا بلی اور دیوی لکشمی کی اِس یادگار کو شیعہ و سنی درگاہوں تک نہ پہنچنے دیتے ، اِن درگاہوں کی بدولت اب اکثر شیعوں اور سنیوں کے ہاتھوں پر ہندؤوں کا کلاوہ نظر آرہا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ علماء حضرات اِس کلاوہ کو ناقابل گرفت سمجھ رہے ہوں ، لیکن راجا بلی اور دیوی لکشمی کی یادگار کو نادانستہ طور پر شیعوں اور سنیوں کے ذریعہ زندہ رکھا جانا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے ، بھلے ہی شیعہ و سنی حضرات ،کلاوہ راجا بلی اور دیوی لکشمی کی یادگار کے طور پر نہ باندھتے ہوں لیکن اس طرح توخود بخود راجا بلی اور دیوی لکشمی کی یادگار زندہ رہے گی ،راجا بلی اور دیوی لکشمی کی اس یادگار کو نادانستہ طور پر زندہ رکھنے میں غیر ذمہ دار پیشہ ور ذاکروں اور صوفیوں کا بھی ہاتھ ہے کیوں کہ عام طور پر ہندوستانی اور پاکستانی عوام ذاکروں اور صوفیوں سے مذہب لیتے ہیں لہٰذا جب یہ پیشہ ور ذاکر  اور صوفی رنگ برنگے کلاوے ہاتھ میں باندھ کر منبر اور گدیوں پر بیٹھتے ہیں تو عوام اس کو معیوب نہیں سمجھتے اور وہ بھی اپنے ہاتھوں میں بطور عقیدت کلاوہ باندھنا شروع کر دیتے ہیں ، اسی طرح غیر ذمہ دار شاعر اور قوال بھی رنگ برنگت کلاوے ہاتھوں میں لپیٹ کر محفل میں کلام پڑھتے ہیں ،نیز پیشہ ور صوفیاء کلام  پڑھنے والے اور نوحہ خواں، بھی ہاتھوں میں کلاوے باندھ کر ہی نوحوں اور کلاموں کی شوٹنگ کراتے ہیں عوام بے چاری ان شاعروں سے بھی متاثر ہو جاتی ہے اور کلاوہ باندھنا شروع کر دیتی ہے .
تعجب ہوتا ہے عوام کے حال پر ! یہ عوام فلمی ایکٹر یا کھلاڑیوں وغیرہ سے اگر محبت کرتی ہے تو اُن کی ہر ادا کو ہو بہو اپنانے کی کوشش کرتی ہے ، لیکن بات جب محبت رسول کی آتی ہے تو عوام پھر اپنی من مانی کرنے لگتی ہے ، مثلاً اِس کلاوے ہی کو دیکھ لیجئے ، آپ صحابہ کرام، اہل البیت اور  سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرلیجئے کہیں پر بھی کلاوہ نظر نہیں آئے گا لیکن یہ عوام دیوی دیوتاؤں کی یادگار کو اہل البیت اور اولیاء  سے منسوب کر دیتی ہے ! ؟ اور متوجہ کرنے پر یہ سمجھتی ہے کہ کسی مذہبی کام کی مخالفت کی جا رہی ہے ، اور کلاوہ باندھنے کی حمایت میں وہ دلیلیں دی جاتی ہیں جس کا عقل و منطق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ،
مثلاً ایک نوجوان نے کہا کہ کلاوہ ہم اولیاء کی درگاہوں سے منسوب کر کے پہنتے ہیں لہٰذا یہ محترم ہے ، اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا راجا بلی اور دیوی لکشمی کی یادگار کو درگاہوں سے منسوب کیا جا سکتا ہے ؟ اور اگر منسوب کر بھی لیا تو کیا وہ محترم ہو جائے گی؟ نہیں ! کبھی نہیں ، ایک صاحب نے کہا کہ اِسے اہل البیت سے منسوب کرکے ہاتھ پر باندھتے ہیں ،سوال یہاں بھی یہی ہے ، کیا ہر چیز اہل البیت سے منسوب کی جا سکتی ہے ؟ اور کیا جو چیز بھی اہل البیت سے منسوب کرلی جائے وہ جائز اور محترم ہوجائے گی ؟اگر ہاں! تو کیا اہل البیت  سے منسوب کرکے تلک یا سندور لگایا جا سکتا ہے ؟﴿نعوذ باللہ صد نعوذ باللہ ﴾نہیں !ہرگز نہیں ، اسی طرح کلاوہ بھی اہل البیت  سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
بعض لوگ حسین ٹیکری یا دوسری درگاہوں کا کلاوہ جادو  نظر بد سے بچنے کے لئے بھی باندھتے ہیں ، یہ بھی ہندؤوں کا طریقہ اور اعتقاد ہے ۔
www.livehindustan.com نام کی ویب سائٹ پر جو کلاوہ سے متعلق تحریر اَپ لوڈ کی گئی ہے اُس میں لکھا ہے کہ: یہ سچ ہے کہ جن کے ہاتھ میں کلاوہ بندھا ہو اُن پر کسی بھی طرح کا جادو ، ٹونا اور بھوت پریت کا اثر نہیں ہوتا ،اسی طرح درگاہوں پر منت مانگتے وقت کلاوہ باندھنا بھی ہندوؤں کے طور طریقہ سے لیا گیا ہے اور انہی کا یہ اعتقاد ہے ، ڈاکٹر مدھو سُدن ویاس تحریر کرتے ہیں کہ : ہندو مذہب سے متعلق کوئی بھی آدمی جب کسی بھی کام کا کوئی عہد لیتا ہے تو علامت کے طور پر ایک کلاوہ باندھا جاتا ہے اور جب تک
وہ کام پورا نہ ہوجائے کلاوہ بندھا رہنا چاہئے تاکہ کیا ہوا عہد یاد رہے،
اسی طریقے پر عمل کرتے ہوئے حسین ٹیکری میں ہندو عقیدت مندوں نے جادو ٹونے سے بچنے کے لئے اور منتیں مانگتے وقت کلاوے باندھے ، جن کو دیکھ کر شیعہ و سنی مسلمانوں نے بھی جادو ٹونے نظر بد سے بچنے کے لئے اور منت مراد مانگتے وقت کلاوے باندھنے شروع کر دیئے اور دھیرے دھیرے یہ رسم پورے پاک و ہند میں پھیل گئی اور اب لوگ اس کو بھی مقدس اور محترم سمجھنے لگے ، اگر علماء حضرات شروع ہی میں اس رسم کو روک دیتے تو آج کے نادان یہ نہ کہتے کہ اگر یہ غلط تھا تو اسے کسی عالم یا مولوی نے روکا کیوں نہیں ۔
بہر حال پختہ ثبوتوں سے یہ ثابت ہے کہ کلاوہ ہندو دیوی دیوتاؤوں کی یادگار ہے ، کیا شیعہ وسنی مسلمان اب بھی ہاتھوں پر کلاوہ باندھیں گے ؟جب کہ اہل البیت اور اولیاء کرام سے محبت کلاوے یا کڑے سے نہیں ہوتی بلکہ کردار و افعال سے ہوتی ہے.
اب ہم کلاوہ کی شرعی حیثیت کو مزید سمجھنے کے لئے چند احادیث اور اقوال محدثین سے رجوع کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر اور ابن الأثیر الجزری وغیرہ اہل علم کی تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے مراد وہ دھاگے، گنڈے اور تیر کے تانت ہیں جنھیں اہل عرب جاہلیت میں انسانوں ، جانوروں یا گھروں وغیرہ پر کسی متوقع یا بالفعل واقع شر مثلاً، مرض، نظربد، بخار ، جادو، ٹونے اور ٹوٹکے یا دیگر آفات ومصائب وغیرہ سے حفاظت کی خاطر لٹکایا کرتے تھے ، جسے اسلام نے حرام قرار دیاہے۔(فتح الباری،10/166، والنھایة، 1/19)
حضرت عبد اللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ نبیّ نے فرمایا جس شخص نے اپنے گلے یا بازو میں کوئی تعویذ یا دھاگہ لٹکایا ۔تو اس کی ذمہ داری اسی دھاگے تعویذ کے سپرد کر دی جاتِی ہے۔[سنن ابی داود حدیث نمبر:۳۸۸۳]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی سیدہ زینب رضی اللہ فرماتی ہے کہ ایک دفعہ میرے شوہر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے میری گردن میں ایک دھاگہ دیکھا اور پوچھنے لگے یہ دھاگہ کیسا ہے ؟میں نے عرض کی یہ دھاگہ مجھے دم کرکے دیا گیا ہے۔یہ سنتے ہی انھوں نے وہ دھاگہ میری گردن سے کاٹ پھینکا اور کہا تم عبداللہ رضی اللہ عنہ کاخاندان ہو تم شرک سے بے نیاز ہو- (ابو داود)
ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں گنڈا دم کیا ہوا دھاگہ بندھا ہوا دیکھا جو اس نے بخار دور کرنے کے لیے باندھا تھا آپ اس دھاگے کو کاٹ دیا اور قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦؁
ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔یوسف:۱۰۶
ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص بھی کوئی دھاگہ یا تعویز باندھتا ہے تو وہ حقیقتا غیر اللہ سے تعلق جوڑتا ہے اور تعویذ دھاگے سے جس نے وابستگی اختیار کرلی تو اللہ تعالی ایسے شخص کو اسی اشیاء کے سپرد کر دیتا ہے ۔اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔ اور اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔
اور جس شخص کے دل کا تعلق اللہ کے ساتھ استوار ہو گیا ۔اور اس نے اپنی تمام حاجات کی ذمہ داری اللہ پہ ڈال دی اللہ کی طرف ہی رجوع کیا اور تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دیے ۔تو اللہ تعالی اس کی تمام ضررویات کو خود پورا کرنے کا ذمہ لے لیتا ہے ۔اس کی تمام حاجات کا خود کفیل بن جاتا ہے۔
کلاوے(دھاگے) باندھنے اور دیگر مختلف اشیاء جو گلے یا بازو میں باندھی جاتی ہیں۔ کسی مخصوص مقصد، نظریہ یا عقیدہ کے تحت پہنی یا باندھی جاتی ہیں، یہ سب شرک کے زمرے میں آتی ہیں۔ کیونکہ ان دھاگوں اور اسی طرح تعویذات وغیرہ کی بابت لوگوں کا عقیدہ ہوتا ہے کہ یہ اشیاء آئی ہوئی مصیبت کو رفع کر دیتی یا آنے والی مصیبت کو روک دیتی ہیں۔ ایسی حقیر اشیاء کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ چیزیں اللہ تعالی کی تقدیر کو روک سکتی ہیں۔کیونکہ ایسا کرنے والے کے دل میں ان اشیاء کی محبت موجود ہوتی ہے اور وہ ان اشیاء کی مصائب روکنے اور ان سے بچانے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔
الغرض ہر وہ چیز جس کے متعلق یہ اعتقاد ہو کہ یہ خیر اور بھلائی کا سبب اور نقصان سے تحفظ اور اس کے دفعیہ کا باعث ہے، اسے تمیمہ و تعویذ کہا جاتا ہے۔ اس چیز کی شرعا اور تقدیرا بالکل اجازت نہیں دی گئی۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو کسی امید یا لالچ کے نظر یہ سے یا نقصان سے بچنے کی خاطر نہیں بلکہ محض خوبصورتی اور زینت کے لیے پہنتے ہیں۔
یاد رکھنا چائے کہ ان اشیاء کو اگر کسی فائدہ کے لالچ یا نقصان سے بچنے کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ شرک ہو گا۔ تاہم چونکہ انہیں استعمال کرنے میں مشرکین کے ساتھ مشابہت ہے اس لیے ان چیزوں کو محض زینت کے لیے پہننا یا لٹکانا بھی حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے“ “مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ”
“جو شخص جن لوگوں کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں شمار ہو گا۔”
ارشاد باری تعالی ہے ﴿وان یمسسک اللہ بضرٍ فلا کاشف لہ الا ھو،وان یردک بخیرٍ فلا رادّ لفضلہ یصیب بہ من یشاء من عبادہ وھو الغفور الرحیم﴾۔”اور اگر اللہ تمھیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا اللہ کے سوا اور کوئی نہیں، اور اگروہ تمھیں کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو روکنے والاکوئی نہیں، وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے اور وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے“ (یونس:107)۔
ان آیت کریمہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ہر طرح کے شر اور مصائب و مشکلات کا دور کرنے والا صرف اور صرف اللہ ہی ہے ، لہٰذا ان دھاگوں اور تعویذوں کا باندھنا انھیں مصائب و مشکلات کے دور کرنے میں موٴثر سمجھنا اللہ کے حکم کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔
مزید تفصیلات کے لئے کتاب "رزق میں فراخی کے اسباب اور مشکلات کا حل "مولف:عمران شہزاد تارڑ،کا مطالعہ کریں ۔
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...