Thursday 20 April 2017

ماہ رجب کی بدعات کونڈوں کا ختم

ماہ رجب کی بدعات کونڈوں کا ختم
___________________________________

حرمت والے مہینوں کے متعلق
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
*﴿فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ أنْفُسَکُمْ ﴾
(التوبۃ :۳۶)*
’’یعنی ان مہینوں میں اپنے نفسوں پر ظلم نہ کرو۔ ‘‘

شیخ ابن عادل نے اس آیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے نقل فرمایا ہے کہ اپنے نفسوں پر ظلم سے مراد ہے معاصی کا ارتکاب اور اطاعت کے کام ترک کر دینا۔ *
(اللباب فی علوم الکتاب :۱۰!۸۶)*

تفسیر جلالین میں ہے کہ اپنے نفسوں پر ظلم سے مراد ہے ’گنا ہوں کا ارتکاب‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مہینوں میں برائی کا گناہ زیادہ ہوتا ہے ۔ *(تفسیر الجلالین،ص۲۷۰)*

امام ابوبکر الجزائری رحمہ اللہ نے بھی اس آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے ۔ *
(تفسیر أیسر التفاسیر:۲!۷۴)*

معلوم ہوا کہ حرمت والے مہینوں میں خصوصی طور پر *گنا ہوں* کے ارتکاب سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے چونکہ رجب بھی حرمت والا مہینہ ہے اس لئے اس مہینے میں بھی یہی کوشش ہونی چاہئے مگر خدا کا کرنا ایسا ہے کہ اس مہینے میں وہ گناہ تو ہوتے ہی ہیں جو دوسرے مہینوں میں کئے جاتے ہیں ۔ مزید برآں کچھ ایسے گناہ بھی کئے جاتے ہیں جو محض اسی مہینے کے ساتھ خاص ہیں ۔

*ماہ رجب کے کونڈوں کاختم
___________________

*ماہ رجب کی بدعات میں کونڈے بھرنے کی رسم بھی شامل ہے* ۔
جس کے لئے ۲۲ رجب کا دن خاص کیا گیا ہے ۔ اس کے پس منظر میں مختلف واقعات بیان کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک
جعفر صادق اور لکڑہارن کا واقعہ بھی ہے ۔ اس میں ہے کہ جعفر صادق نے لکڑہارن سے کہا کہ جو بھی آج (یعنی ۲۲ رجب کے روز) میرے نام کے کونڈے بھر کرتقسیم کرے گا اس کی حاجت ضرور پوری ہو گی ورنہ روز قیامت میرا گریبان پکڑلینا، چنانچہ لکڑہارن نے کونڈے بھرے تو اس کی حاجت پوری ہو گئی۔
*(داستان عجیب از مولانا محمود الحسن )*

*پہلی بات* تو یہ ہے کہ یہ قصہ ہی *من گھڑت* ہے کیونکہ اس کا ذکر کسی بھی مستند ماخذ میں موجود نہیں ۔

*دوسری بات* یہ ہے کہ ۲۲ رجب یا کسی بھی دن کی خاص فضیلت کا تعین *
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* کے علاوہ کوئی کر ہی نہیں سکتا اور یہ واقعہ اگر بالفرض صحیح بھی تسلیم کر لیاجائے تب بھی عہد رسالت سے صدیوں بعد کا ہے ۔شیعوں کے وضعی اماموں سے بھی یہ ثابت نہیں ہے اور دین عہد رسالت میں مکمل ہو گیا تھا...اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ..اسکے
۔ بعد کا اضافہ دین شمار نہیں ہو گا بلکہ اسے دین میں بدعت اور گمراہی کہا گیا ہے جیساکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
*((کُلّ مُحْدَثة بِدْعةٌ وَکُلّ بِدْعةٍ ضَلَالةٌ))* *(صحیح الجامع الصغیر للألباني:۱۳۵۳)*

’’دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ ‘‘

*تیسری بات* یہ ہے کہ یہ رسم شیعہ روافض حضرات کی ایجاد  ہے کیونکہ
جعفر صادق کا قصہ تو ثابت نہیں البتہ یہ ثابت ہے کہ ۲۲ رجب کو
  بزرگ صحابی رسول کاتب وحی اور خلیفۃ المسلمین امیر المومنین سید نا حضرت امیرمعاویہؑ کی وفات ہوئی تھی
اور شیعہ حضرات کو ان سے جو بغض و عناد ہے وہ سب پر عیاں ہے.شیعہ علماء کی معتبر کتب میں واضح لکھا گیا...ہے

شیخ مفید اپنی کتاب مسار الشیعہ میں کہتے ہیں
وفي اليوم الثاني والعشرين منه سنة (60) ستين من الهجرة كان هلاك معاوية بن أبي سفيان، وسنه يومئذ ثمان وسبعون سنة، وهو يوم مسرة للمؤمنين.، وحزن لأهل الكفر والطغيان
اس ماہ (یعنی رجب) کی 22 تاریخ، ساٹھ ہجری کو معاویہ بن ابی سفیان ھلاک ہوا، اور اس کی عمر اس دن 78 سال تھی، اور یہ مومنین کیلئے مسرت و شادمانی کا دن ہے، جبکہ اہل کفر کیلئے غم کا دن ہے۔

اسی طرح شیعہ عالم شیخ طوسی اپنی کتاب مصباح المتھجد میں تحریر لکھتا ہیں:

وفي اليوم الثاني والعشرين منه كان وفاة معاوية بن أبي سفيان۔
اس ماہ کی 22 تاریخ کو معاویہ ابن ابی سفیان کی وفات ہوئی۔

اسی طرح شیعہ عالم نعمت اللہ الجزائری اپنی کتاب انوار النعمانیہ میں لکھتا ہیں :

وفي الثاني والعشرين منه هلك معاوية
اس ماہ کی 22 تاریخ کو معاویہ بن ابی سفیان ہلاک ہوا
(انوار النعمانیہ ج 2 ص 97
باب نور فی ذکر الشھور الاثنی عشر)

ابن طاووس اپنی کتاب اقبال الاعمال میں لکھتا ہیں:
اليوم الثاني والعشرون منه سنة ستين من الهجرة أهلك الله أحد فراعنة هذه الأمة معاوية بن أبي سفيان عليه اللعنة، فيستحب صيامه شكرا لله على هلاكه۔
اس ماہ کی 22 تاریخ ، ساٹھ ہجری کو اللہ نے اس امت کے فرعونوں(معاذاللہ )
میں سے ایک فرعون معاویہ بن ابی سفیان کو ہلاک کیا، اس دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے تاکہ اس کی ہلاکت پر اللہ کا س شکر ادا کیا جائے۔
[مندرجہ بالا  علماء کی عبارات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ علماء تشیع راوفض  کے نزدیک امیر المومنین سیدنا معاویہ ؑ  کی مشہور تاریخ وفات 22 رجب ہے ۔ جو رافضی شیعوں کیلئے باعث خوشی کا دن بھی ہے۔۔۔!!!
اس لئے وہ ان کی وفات کے روز بطور *جشن* میٹھی اشیا تقسیم کرتے لیکن جب انہوں نے محسوس کیاکہ یہ رسم سنیوں میں بھی عام ہونی چاہئے تو محبت اھل بیت کے نام سے غلو کرکے وضعی داستان بنا کر
جعفر صادق کا من گھڑت قصہ چھپوا کر ان میں تقسیم کرا دیا اور یوں یہ رسم عام سے عام ہوتی چلی گئی۔

*خلاصہ کلام* یہ ہے کہ ۲۲ رجب کے روز *کونڈے بھرنے والی رسم خود ساختہ اور جاہلانہ ہے* جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اس لئے ہر مومن مواحد کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...