Thursday 13 April 2017

ڈارون کی ارتقا کی تھیوری غلط ہے*کہ انسان پہلے بندر تھا۔

*ڈارون کی ارتقا کی تھیوری غلط ہے*کہ انسان پہلے بندر تھا۔

(تالیف عدنان خان کاکڑ،انتخاب عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان )

آج ہمیں ڈاکٹر طارق صاحب نے ایک تصویر بھیجی جس میں بن مانس اور انسان کے کروموسوم کا تقابل کیا گیا تھا۔ غالباً وہ بھی ہماری طرح ان گمراہ سائنسدانوں سے تنگ ہیں جو کہ یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ سمندر میں خود بخود بے جان زندگی سے ایک خلیے والے جرثومے وغیرہ پیدا ہوئے اور ان سے بڑے ہوتے ہوتے انسان اور ہاتھی وغیرہ تک خود بخود بن گئے۔ ڈاکٹر طارق صاحب کی تصویر پر غور کرتے ہیں تو دکھائی دیتا ہے کہ بن مانس کا کروموسوم، انسان کے کروموسوم سے سائز میں تقریباً آدھا ہے۔ ہمیں آخری مرتبہ سائنس کی کتاب پڑھے ہوئے کوئی تیس سال کا عرصہ ہو چکا ہے، اس لئے پیچیدہ تکنیکی اصطلاحات اس وقت یاد نہیں ہیں۔ اب یہی یاد پڑتا ہے کہ جینز کا پیچیدہ سائنسی نام کروموسوم ہوتا ہے۔ یا ممکن ہے کہ جینز کے مجموعے کو کروموسوم کہتے ہوں۔

بن مانس اور انسان کے کروموسوم کو دیکھ کر فرق صاف دکھائی دے جاتا ہے کہ یہ ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ بن مانس کا کروموسوم، انسان کے کروموسوم سے آدھا ہے۔ دونوں انواع میں سب سے پہلا فرق تو بالوں کا ہوتا ہے۔ بن مانس کے جسم پر انسان سے دس گنا زیادہ بال ہوتے ہیں۔ اگر یہ جینز کے ارتقا کے باعث بن مان (جنگلی انسان) کا ”اربن مانس“ (شہری انسان) بنا ہوتا تو بن مانس کی جینز لمبائی میں  انسان سے دگنی نہیں بلکہ کم از کم دس گنا چھوٹی ہوتیں۔ اسی سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ مخلوقات ہیں اور ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں رکھتی ہیں۔

ویسے بھی ارتقا محض ایک نظریہ ہے۔ ہم نے جماعت سوئم کی سائنس کی کتاب میں ہی پڑھ لیا تھا کہ سائنسی طریقہ کار کے چار مراحل ہوتے ہیں، مشاہدہ، نظریہ، تجربہ، اور قانون۔ اب ایک سرسری نظر سے ہی دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی نے یہ مشاہدہ کر لیا کہ بندر اور انسان دونوں کے ہاتھ پاؤں ایک ہوتے ہیں، تو نظریہ قائم کر لیا کہ شکل عقل میں باقی فرق ارتقا کی وجہ سے پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن سائنٹیفیک میتھڈ کے مطابق اس نظریے کو ثابت کرنے کے لئے کوئی تجربہ نہیں کیا گیا جس سے یہ حتمی طور پر تسلیم کر کے قانون بن جائے۔

 چھوٹی موٹی تبدیلی تو آ سکتی ہے، مگر مچھلی کا بھینس بننا ناممکن ہے

یہ بس ویسی ہی خام خیالی ہے جیسی اپنے زمانے کے مانے ہوئے سائنسدان ارسطو نے پیش کی تھی کہ بے جان چیزوں سے جاندار چیزیں پیدا ہو سکتی ہیں، اور اس نے تجربے کے طور پر گوبر اور دہی کا آمیزہ رکھ دیا تھا تو اس میں کیڑے پیدا ہوگئے اور یوں اس نے اپنے تئیں ”ثابت“ کر دیا کہ بے جان چیزوں سے جاندار چیزیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ جیسے آج ہم ارسطو کے اس نظریے پر ہنستے ہیں، کل ویسے ہی ارتقا کے نظریے پر ہنسا کریں گے۔

بہرحال ہم ارتقا کے حامیوں کے چند بے بنیاد دلائل کا سائنسی اور منطقی تجزیہ کرتے ہیں۔

ارتقا کے حامیوں کی جانب سے سب سے پہلے تو یہ بے بنیاد دعوی کیا جاتا ہے کہ تمام سائنسدان ارتقا کے قائل ہیں۔ ادھر ہمارے پاکستان میں تو مدارس میں سائنس پر توجہ نہیں دی جاتی ہے، مگر مغرب میں چرچ کے قائم کردہ اداروں کی ارتقا کی سائنس پر بھرپور توجہ ہے اور ادھر سے بے شمار قابل سائنسدان نکل رہے ہیں جو کہ اس بات کے قائل ہیں کہ ارتقا کی تھیوری نری گمراہی ہے۔ لیکن بفرض محال اگر تمام سائنسدان ایک گمراہی پر متفق بھی ہو جائیں تو ان کی بات پھر بھی غلط ہی رہے گی۔ ارسطو کے مشاہدے پر بھی اس وقت کے تمام سائنسدان متفق تھے مگر جب دو ہزار سال بعد سائنس نے ترقی کی تو معلوم ہوا کہ اس کا نظریہ غلط تھا۔ یہی معاملہ ارتقا کے نظریے کا بھی ہے۔

ارتقا کے حامیوں کی جانب سے یہ بتایا جاتا ہے کہ بن مانس اور انسان کا ڈی این اے 98 فیصد ایک جیسا ہے اور اس سے یہ دلیل نکالی جاتی ہے کہ بندر اور انسان کا جد امجد ایک ہی تھا۔ اگر ارتقا میں کوئی حقیقت ہوتی، تو آج یہ بن مانس اس بدلی ہوئی دنیا میں، جس میں ان کا زندہ رہنا مشکل ہو رہا ہے، یہ چھوٹی سی دو فیصد تبدیلی کر کے انسان کیوں نہیں بن جاتے ہیں؟

جانوروں میں مختلف حالات کی وجہ سے معمولی سی تبدیلی تو آ سکتی ہے، جیسے دیو قامت بالدار ہاتھی میمتھ کے بال جھڑ گئے اور خوراک کی کمی یا دیگر مسائل کی وجہ سے اس کا قد چھوٹا رہ گیا۔ یا ممکن ہے کہ برفانی علاقے میں رہنے کی وجہ سے اس کے ویسے ہی زیادہ بال ہوتے ہوں جیسے یاک نامی برفانی گائے کے ہوتے ہیں، مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ڈائنوسار کی چڑیا بن جائے اور وہ اڑنے لگے؟ بالوں کا معاملہ تو آپ نے انسانوں میں بھی دیکھا ہو گا کہ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ انسانوں کے بال بھی کم ہوتے رہتے ہیں، حتی کہ بعض تو گنجے بھی ہو جاتے ہیں، لیکن رہتے تو وہ انسان ہی ہیں ناں۔

یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جراثیم سے مچھلی بنی، مچھلی سے چوپائے بنے، چوپائے سے بندر بنے اور بندر سے انسان۔ خدا کی حکمت ہے کہ اس نے جانداروں کو پتھر بنا کر فوسل کی شکل میں محفوظ کر دیا ہے تاکہ ارتقا کے ایسے حامی سائنسدانوں کی گمراہی پر گرفت کی جا سکے۔ کیا آج تک ایسے فوسل مل سکے ہیں جو کہ اس ساری تبدیلی نوع کی گواہی دے سکیں؟ لاکھوں سال پرانے ڈائنو سار کے فوسل مل جاتے ہیں، نہیں ملتے تو بس اس بندر سے انسان بننے کے نہیں ملتے۔

یہ ٹھیک ہے کہ انسان سے ملتی جلتی چند مخلوقات ملتی ہیں، مگر وہ انسان تو نہیں تھیں، جیسے تو بن مانس بھی انسان سے ملتا جلتا ہی ہے، مگر انسان تو نہیں ہے۔

اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ فوسل آخر ہوتے کیا ہیں؟ جب کوئی جاندار شے مر جائے تو اس کی لاش پر ریت مٹی پڑتی رہتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ پتھر کی شکل اختیار کر جاتی ہے جس پر اس جاندار شے کا نقش باقی رہ جاتا ہے۔

ایسا عام طور پر پانی کی تہہ کے نیچے ہوتا ہے۔ کیا یہ نہیں سوچا جا سکتا ہے کہ یہ تمام فوسل کروڑوں سال کے وقفے سے نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں طوفان نوح کے وقت اس موقعے پر وجود میں آئے تھے جب کرہ ارض سے سیلاب کے باعث حیات تقریباً ختم ہو گئی تھی؟

ارتقا کا جو ماڈل یہ سائنسدان پیش کرتے ہیں، اس کے مطابق تو جراثیم کو اس طرح حیوان بننے کے لئے کروڑوں سال کا عرصہ درکار ہے۔ مگر چرچ کی یونیورسٹیوں کی تحقیق میں بارہا یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ کرہ ارض کی عمر محض چھے سے دس ہزار سال ہے۔ ریڈیو کاربن نامی ایک انتہائی غیرمعیاری اور غیر سائنسی تکنیک استعمال کر کے جو لوگ اپنے تئیں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا اربوں سال پرانی ہے اور یہاں حیات کروڑوں سال پہلے وجود میں آ گئی تھی، ان کے دعوے پر محض مسکرایا ہی جا سکتا ہے۔ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ بھی ارسطو کی ٹکر کے نابغے ہیں اور گوبر سے زندگی پیدا کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کاربن ڈیٹنگ کا تجزیہ دس ہزار سال پرانی اشیا تک کے معاملے میں قابل بھروسہ ہوتا ہے، مگر اس سے زیادہ پرانی چیزوں کے بارے میں یہ بے انتہا غلط اعداد و شمار دیتی ہے کیونکہ اس کے لئے کاربن کے تابکار آئسوٹوپ کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ چند ہزار سال کے بعد ختم ہو جاتے ہیں اس لئے لاکھوں کروڑوں سال کی تو بات ہی نہیں کرنی چاہیے۔

بندر سے انسان بننے کے یہ فوسل کہاں ہیں؟

خدا کو نا ماننے والے سائنسدان اسی وجہ سے ارتقا کی حمایت کرتے ہیں کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کو خدا کا وجود ماننا پڑے گا۔ اسی وجہ سے وہ بے بسی کے عالم میں ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ پہلے ایک فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے حق میں تاویلیں گھڑتے ہیں۔ خدا کو  نہایت سچے دل سے ماننے والے سائنسدان ارتقا کے نظریے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور واشگاف الفاظ میں بتاتے ہیں کہ خدا نے ہر جاندار شے کو ویسے ہی تخلیق کیا ہے جیسی کہ وہ اب دکھائی دیتی ہے۔ اس پر گمراہ سائنسدان ان جراثیم کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ادویات کے خلاف اپنی ہیئت چند ہفتوں یا برسوں میں تبدیل کر لیتے ہیں اور یوں اپنے تئیں ارتقا کو ثابت کر دیتے ہیں۔ اگر ایسی ہی بات ہوتی تو اب جبکہ انسان ہزاروں سال سے سواریاں استعمال کر رہا ہے، تو اس کی ٹانگیں کیوں ختم نہیں ہو گئی ہیں؟ خدا نے بس ان جراثیم کو یہ صلاحیت بخشی ہے کہ وہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنی ہیئت تبدیل کرتے رہیں تاکہ زندہ رہ سکیں۔

اگر دو مختلف جنس کے جاندار کراس بریڈنگ سے ایک نئی قسم کی زندگی تشکیل دیں، تو وہ اپنی نسل بڑھانے سے قاصر ہوتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ گھوڑے اور گدھے کے ملاپ سے پیدا ہونے والا خچر اپنی نسل چلانے سے قاصر ہوتا ہے۔ گھوڑے یا گدھے سے زیادہ پہاڑی علاقے خچر کے لئے موزوں ہوتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ خچر کی نسل وہاں پرورش نہیں پا سکتی ہے؟ اسی طرح ببر شیر اور ٹائیگر کے ملاپ سے پیدا ہونے والا لائیگر بھی افزائش نسل نہیں کر سکتا ہے۔ کیا یہ ثبوت کافی نہیں ہے کہ ارتقا ایک ناممکن امر رہے؟ یہی معاملہ جینیاتی طور پر تیار کیے گئے بیجوں کا ہے۔ وہ بیج اپنی فصل تو دے جاتے ہیں، مگر اس فصل سے یہ نئے بیج خود بخود قدرتی طریقے سے پیدا نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ مصنوعی انسانی کوشش ایک نسل کا ارتقا تو پیدا کر سکتی ہے، مگر وہ نسل آگے چلنے سے قاصر ہوتی ہے۔

نیچرل سیلیکشن کے نظریے پر نگاہ ڈالی جائے تو اس سے ارتقا کسی طرح بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ اگر کسی جاندار کے لئے حالات موزوں نہ ہوں تو وہ مر سکتا ہے، مگر کیا کبھِی آپ نے یہ دیکھا ہے کہ آپ کی بھیڑ بکریاں سیلاب میں گھر جائیں تو ان کے پر نکل آئیں اور وہ اڑ جائیں؟ ارتقا کے حامی آدھے سچ میں آدھا جھوٹ ملا کر قوم کو گمراہ کرتے ہیں۔

ارتقا کے حامیوں کی جانب سے کمپیوٹر کا بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ وہ کمپیوٹر ماڈل بنا کر دعویٰ کرتے ہیں کہ اس طرح جرثومے سے انسان بن گیا ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ کمپیوٹر پروگرامر اپنے عقائد کو اپنے پروگرام میں ڈال کر اپنی مرضی کا نتیجہ نکال سکتا ہے۔ کمپیوٹر تو وہی نتیجہ نکالے گا جو کہ پروگرامر چاہتا ہے۔ اس لئے ان پروگراموں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ صرف غیر جانبدار اور ذی فہم شخص کے کمپیوٹر پروگرام پر بھروسہ کرنا چاہیے مگر بدقسمتی سے ہمیں ابھی تک وقت نہیں ملا کہ یہ پروگرام بنا سکیں۔

کئی سائنسدان ان دلائل سے لاچار ہو کر یہ دعوی بھی کر دیتے ہیں کہ ارتقا خدا کے حکم سے ہی ہو رہا ہے۔ خدا نے ہی سمندر میں پہلا جرثومہ تخلیق کیا اور خدا کے حکم سے ہی وہ مختلف شکلوں کے جانداروں میں تبدیل ہو گیا۔ ہم ان سائنسدانوں کو یہی کہتے ہیں کہ

راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھُل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

آدھی بات آپ مان گئے ہیں تو باقی بھی مان ہی جائیں گے کہ بھینس پہلے دن سے ہی بھینس ہے اور مچھلی پہلے دن سے ہی مچھلی ہے۔ اب نہیں تو ہزار دو ہزار سال میں آپ بھی ارسطو کی طرح مان جائیں گے کہ آپ کا دعوی غلط ہے۔ مشہور جرمن فلسفی نطشے نے سائنسی ترقی کے زعم میں کہا تھا کہ ”خدا مر چکا ہے“۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ نطشے مر چکا ہے اور اس کا نام کوئی نہیں لیتا، مگر خدا زندہ ہے اور اس کا نام ہر ایک کے لبوں پر جاری و ساری ہے۔ یہی آپ کے نظریہِ ارتقا کے ساتھ بھی ہو گا اور اگلے چند برس میں کوئی اس کا نام بھی نہیں لے گا۔

امید ہے کہ ہمارے دلائل دیکھ کر ہر صاحبِ دل شخص یہ تسلیم کر چکا ہو گا کہ ارتقا کی تھیوری ایک گمراہ کن نظریہ ہے اور منطقی اندازِ فکر رکھنے والے پروفیسروں اور سائنسدانوں کو اس کی ترویج بند کر دینی چاہیے اور طلبہ کو مزید گمراہ کرنے سے باز رہنا چاہیے۔

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان کا

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...