Thursday 25 February 2016

اسلام اور خانقاہی نظام.قسط ,97

اسلام اور خانقاہی نظام
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر97)

سلطان باہو کی قبر پر:سلطان باہو کی یہ قبر یعنی موجودہ دربار تیسری جگہ بنایا گیا ہے۔ دو مرتبہ دربار کو دریا نے نگل لیا تھا!! تو اب یہ جو موجودہ دربار ہے اس میں سات قبریں ہیں جو مختلف سجادہ نشینوں کی ہیں۔ درمیان میں ایک بہت بڑی قبر ہے جو سلطان باہو کی ہے۔ اس کے گرد بہت بڑا اور مظبوط پلنگ بنایا گیا ہے۔۔۔لوگ یہاں سجدہ ریز تھے۔۔۔ رو رو کر اور گڑگڑا کر دعایں مانگ رہے تھے۔۔۔ غرض انسانیت کی ذلت کے شرکیہ مناظر دیکھے نا جاتے تھے۔ اب ہم فورا یہاں سے نکلے۔۔۔ اور باہر نکل کر میں نے ارشد صاحب سے کہا: " اب مجھے اس دربار کے سجادہ نشین سے ملنا ہے، میں اس کے گفتگو اور ملے بغیر نہیں جاوں گا۔"دربار سلطان باہو پر سجادہ نشین سے ایک تلخ ملاقات:یہاں دربار پر سجادہ نشین صاحب کا گھوڑوں کا فارم تو دیکھا ہی تھا لیکن بھائی ارشد صاحب نے مزید بتلایا کہ یہاں سے کچھ فاصلے پر حضرت کے کئی قسم کے فارم ہیں، جن میں ہرن بھی موجود ہیں، جبکہ سو مربع کے قریب ان کی ذمین بھی ہے، اس پورے علاقے کی جاگیر کے یہی مالک ہیں۔ سامنے ان کے محلات دیکھائی دے رہے ہیں۔ ہم گدی نشین غلام جیلانی سلطان کے محل میں گئے۔ اس محل کا و حصہ کے جو مہمانوں کے لیے مخصوص ہے، اس کی بیرونی دیوار کے ساتھ ملحق جو رہائشی محل ہے وہ بھی خوب بنایا گیا ہے۔۔۔۔ ہم جب ملاقات کے لیے لان میں پہنچے تو مجھے ارشد صاحب نے کہا:" حمزہ صاحب! ملاقات کرنی ہے تو جاتے ہی قدموں میں بیٹھنا پڑے گا۔ یہاں تو بڑے بڑے آفیسرذ، وزراء اور جرنیل تک حضرت کے قدموں میں بیٹھتے ہیں۔" میں نے کہا: بھائی ارشد آپ قدموں کی بات کرتے ہیں۔۔۔ میں تو حضرت کے پاس بیٹھوں گا۔ ارشد صاحب کہنے لگے:" اگر آپ نے یہ گستاخی کر دی تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے بعد آپ کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ بس اللہ ہی حافظ ہے۔" میں نے کہا: دیکھنا! ایسے ہی ہو گا! اللہ ہماری حفاظت کرے گا۔" (انشاء اللہ)اور پھر حضرت کے ملاقاتی کمرے کے باہر چند منٹ کھڑے رہنے کے بعد اجازت ملیتو ہم تین ‌سا تھی اندر گئے۔'' حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ'' پڑھ کر میں اندر داخل ہوگیا۔ حضرت اپنی مسند پر جلوہ افروز تھے۔ بڑے بڑے لوگ ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھے تھے۔ میں نے جاتے ہی اس سکوت اور نام نہاد تقدس کے پردے کو سنت کی ضرب سے توڑتے ہوئے'' السلام‌علیکم'' کہا۔ پیر صاحب بڑے متعجب ہوئے کہ یہ کون ہے'' السلام علیکم'' کہنے والا بلکہ یہاں ادب کا چلن تو کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ہر آنے والا بس قدموں میں گرتا ہے یا پھرحضرت کا ہاتھ چومتا ہے، اسے آنکھوں سے لگاتا ہے، اپنا ما تھا اس کے ہاتھ سے مس کرتا ہے تو یہ پہلی گستاخی تھی جو مجھ سے سرزد ہوئی اگلا قدم میں نے یہاٹھا یا کر مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا، !!! ‌پیر صاحب اب اور زیادہ تعجب کا شکارہو گئے۔ بہرحال انھوں نے زانو پر رکھے ہوئے اپنے ہاتھ کوآگے تو نہیں بڑھا یا بس وہیں بیٹھے بیٹھے تھوڑا سا اشارہ کر دیا اور میں نے اپنا ہاتھ آگے کر کے حضرت کا ہاتھ پکڑ کرمصافحہ کر لیا۔ میرے ساتھیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ پیر صاحب کا اب چہرہ غضب ناک ہوچکا تھا۔ مرید ین بھی حیرانی میں غرق یہ منظر ملاحظہ کر رہے تھے۔ اب میں پیر صاحب سےیوں ہم کلام ہوا۔۔۔۔ حضرت ! ‌میں لاہور سے حاضر ہوا ہوں ایک رسالے کا ایڈیٹرہوں، دربار اور آپ کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھنا چاہتا ہوں‌۔'' ابھی میری گفتگویہیں پہنچی تھی کہ حضرت غصے سے کہنے لگے، میں خود بڑے رسالے نکالتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ تو کون ہے، پیر صاحب مجھے جان چکے تھے کہ یہ کون ہے ان کا غصہ بھی دیدنی تھا۔ مگر میں نے پیری مریدی کی دنیا میں ایک اور بڑی گستاخی ‌یہ کر ڈالی کہ حضرت کی مسند کے سامنے ان کے پلنگ ‌پر بیٹھ گیا میرے بیٹھتے ہی مرید چلا اٹھے "نیچے بیٹھو!! نیچے بیٹھو'' اور پھر پیر صاحب نے بھی غضب ناک ہو کرکہا'' نیچے بیٹھ‌و۔'' اب میں پلنگ سے تو اٹھ گیا کہ اگر نہ اٹھتا تو محافظ اور مرید مجھے پکڑ لیتے ۔۔۔۔ مگر ‌میں نے یہ کیا کہ پیر صاحب کا کہنہ نہیں مانا اور بیٹھا نہیں اب پیر صاحب کا غضب جوبن پر تھا، آنکھیں ان کی سرخ تھیں چہرہ لال پیلا تھا اور وہ دو بارہ گرجے اور کچھ اس طرح سے انھوں نےاپنے اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ چل ایتھوں بھج ‌ونج'' ( دوڑ جا یہاں سے)میں نے اور میرے ساتھیوں نے درباری دنیا کی آخری گستاخی یہ کی کہ پیر صاحب کی طرف پشت کر کے چل پڑے'' باہر نکلتے ہی گاڑی میں بیٹھے اور واپس چل دیے، بھائی ارشد صاحب مجھے کہنے لگے۔میرے علم کی حد تک یہاں کی تاریخ میں آپ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے اس قدرگستاخیاں کی ہیں‌۔ یہ تو بڑے ڈکٹیٹر قسم کے پیر ہیں‌۔ یہاں کی بہت بڑی جاگیر ان کے نام ہے۔ اس جاگیر میں ان کا ایم‌۔ این‌۔ اے اپنا ہو تا ہے۔ اب اسمبلی کا ممبر نذیر سلطان ہے سنیٹر ‌ان کا ہو تا ہے۔ لاکھوں دنیا ان کی پر ستار ہے اور میلے کے موقع پر ان کے کمرے نوٹوں سے بھرے ہوتے ہیں‌۔ میں آج سے دس سال قبل جلیب سلطان گدی‌نشین کے زمانے میں مرید ہوا کرتا تھا، تو میں مرید خاص تھا۔ مجھے سپیشل بلا یا جاتا تھا اور ایک کمرے کے نوٹ میں اپنی نگرانی میں گزاتا تھا،  تو میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ مذ ہبی اور دنیا وی اعتبار سے اس قدر مضبوط لوگ ہیں، تو آج اگر ہم ان لوگوں سے بچ گئے ہیں تو یہ اللہ کا خاص کرم ہے۔'' (الحمدللہ)
جاری ہے
www.ficpk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...