Monday 8 February 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،94

اسلام اور خانقاہی نظام

مٹی اور سانپ کا کجا:
سلطان باہو کے دربار پر بیبیوں کے مزارات والے کمرے کے دروازے پر ایک بڑا سا تهال پڑا تها، عورتیں وہاں سے مٹی اٹها اٹها کر کها رہی تهیں .مداری جن کجوں میں سانپ رکهتے ہیں،ایسا ہی ایک کجا بهی پاس پڑا تها.میں حیران ہوا کہ کیا اس میں سانپ ہے! میں نے اس دروازے پر بیٹهے محافظ سے پوچها ! تو اس نے ڈهکنا اٹهاتے ہوئے کہا:اس میں سانپ نہیں 'بلکہ دربار پر چڑهانے والی چادروں کے پرانے ٹکڑے ہیں.جو تبرک کیلئے عورتیں لے جاتی ہیں ....پهر میں نے پوچها ! یہ جو مٹی کهائی جا رہی ہے یہ کہاں سے آتی ہے؟ کہنے لگے! دریا سے آتی ہے.مگر جب یہ دربار پر پہنچتی ہے تو دربار کی برکت سے خاک شفاء بن جاتی ہے.یہ سب کچھ دیکھ کر میں سوچ رہا تها کہ حوا کی بیٹی کو جسے صنف نازک کہتے ہیں'کون یہ بتلائے کہ یہ جو تو مٹی کهاتی پهرتی ہے ، در در کی خاک چهانتی پهر رہی ہے .یہاں تجهے مٹی اور خاک کے سوا کچھ نہیں ملے گا .سانپ کے کجے میں پرانی ٹاکیاں تیرے لیے قبر میں کہیں پهنکارتے ہوئے سانپ نہ بن جایئں....!! کیا یہ پرانی ٹاکیاں تیری گود ہری کر دیں گی....؟
اے اللہ کی بندی اپنے خالق کو پہچان....
یہاں سے اگر تجهے کوئی شے ملے گی تو ایمان کی بربادی ملےگی. عزت جو ایمان کے بعد سب سے قیمتی شے ہے.اس کی یہاں تجهے حفاظت نہیں ملے گی بلکہ خرابی ملے گی.اے میری ماں...! اے میری بہن....! تو اگر مسلمان خاتون ہے تو پهر تیرے لئے نمونہ اللہ کے رسول کی پاک بیویاں ہیں.جو تیری روحانی مائیں ہیں.تجهے روحانی سکون  درباروں پر مخلوط محفلوں میں نہیں ملے گا بلکہ روحانی ماوں کی سیرتوں میں ملے گا.اللہ کے رسول ﷺکی صحابیات کے طرز عمل سے ملے گا.میرے سامنے اس وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ سیدہ سارہ علیہ السلام اور مومنوں کی روحانی ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دو ایمان افروز واقعات ہیں.انہیں ملاحظہ کر اور اپنا ایمان و عقیدہ مضبوط کر......
سیدہ سارہ علیہ السلام اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایمان افروز وقعات:
سیدنا ابرہیم علیہ السلام جب عراق سے ہجرت کر کے مصر میں پہنچے تو وہاں کے بادشاہوں کو کسی نے خبر دی کہ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ایک نہایت خوبصورت عورت ہے.یہ آپ علیہ السلام کی بیوی سیدہ سارہ علیہ السلام تهیں. ...
چنانچہ انہیں بادشاہ وقت کے محل میں پہنچا دیا گیا، جب بادشاہ آیا تو اس مشکل وقت میں سیدہ سارہ علیہ السلام کیا کر رہی تهی....؟ رسول اللہ کی زبان مبارک سے سنیے'آپ نے فرمایا:
بادشاہ سیدہ سارہ علیہ السلام کی طرف بڑها تو وہ وضو کر کے نماز پڑھ رہی تهیں. انهوں یوں دعا کی؛ اے میرے اللہ!  اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور سوائے اپنے شوہر کے میں  نے اپنی عزت کو بچایا ہے تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر. (اس دعا کا کرنا ہی تها کہ)اس کافر بادشاہ کا نرخرا بولنے لگا حتی کہ وہ اپنے پاوں مارنے لگا (بخاری:2217)
سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا کی تمام ولی عورتیں اکهٹی ہو جائیں تو وہ پیغمبر کی بیوی کی شان اور مقام کو نہیں پا سکتیں اور پهر پیغمبر بهی وہ کہ جنهیں اللہ نے اپنا خلیل(گہرا دوست)کہا ان کی زوجہ محترمہ سیدہ سارہ علیہ السلام مشکل وقت میں فریاد کر رہی ہیں تو صرف اپنے اللہ سے، یاد کر رہی ہیں تو نماز کی صورت میں صرف اپنے اللہ کو....
وہ نہ تو اپنے خاوند سے فریاد کرتی ہیں 'نہ ان کا وسیلہ پکڑتی ہیں.نہ اپنے خاوند سے پہلے کسی پیغمبر سیدنا ادریس علیہ السلام یا سیدنا نوح علییہ السلام کے نام کی دہائی دیتی ہیں.وہ صرف اللہ کے حضور اپنا ایمان پیش کرتی ہیں.اپنی پاک دامنی کا ذکر کرتی ہیں.کس قدر مختصر مگر جامع اور معنی خیز ہے ہماری ماں کی یہ دعا...! اللہ تعالی کے ساتھ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا.اللہ کی غیرت کو چیلنج کرنے کا کوئی کام نہیں کیا.عفت وعصمت کی حفاظت کا مطلب یہ ہے  کہ عورت اپنے جس خاوند کی شریک
حیات ہو اس کی عفت و عصمت میں کوئی شریک نہ ہو کیونکہ خاوند اپنی بیوی کی سب غلطیاں برداشت کر سکتا ہے مگر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی بیوی اپنی زندگی میں کسی دوسرے کو شامل کر لے.
سیدہ سارہ علیہ السلام اپنی یہ دونوں خوبیاں 'دونوں عمل اللہ کے حضور پیش کرتی ہیں .ان دو باتوں کے درمیان اللہ کے رسول علیہ السلام پر ایمان کا ذکر کرتی ہیں....غور کیجئے ! یہاں بهی رسول علیہ السلام پر ایمان یعنی اس کی اطاعت  کا ذکر ہے...رسول علیہ السلام سے مشکل وقت میں فریاد نہیں کی جا رہی...فریاد اور مدد صرف اور صرف اللہ ہی سے کی جا رہی ہے اور پهر جس طرح اللہ تعالی ان کی مدد کو پہنچے یہ توفیق آپ ملاحظہ کر چکے ہیں....
اگلہ قصہ بخاری کی اس حدیث میں کچھ اس طرح ہے کہ جب وہ بادشاہ مرنے لگا تو سیدہ سارہ علیہ السلام  نے اللہ تعالی سے یہ دعا کی:میرے اللہ اگر یہ مر گیا تو کہا جائے گا کہ اس عورت نے اسے قتل کیا ہے۔چنانچہ اللہ نے اپنی موحد بندی کی اس دعا کو بھی فوراً قبول کر لیا اور مرنے سے بچ گیا۔پھر وہ اپنے کارندوں سے کہنے لگا :
اس عورت کو واپس ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچا دو اور یہ ہاجرہ بھی اسے دے دو،چنانچہ سیدہ سارہ علیہ السلام اپنے خاوند سید نا ابراہیم کے پاس آئیں اور کہا:آپ نے دیکھا نہیں اللہ نے کافر کو ذلیل کر دیا اور(آپ کیلئے )یہ خادمہ بھی دلوئی (البخاری:۲۲۱۷)
اور یہ خادمہ اللہ نے ایسی دلوئی کہ یہ سیدنا ابراہیم ؑ کی زوجہ محترمہ بن گئیں۔اللہ نے اس بیوی سے اپنے خلیل کو سیدنااسماعیل علیہ السلام جیسا فرزند عطا فرمایا اور پھر ان کی نسل سے اپنے آخری پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺکو مبعوث فرمایا۔
جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ پر بہتان لگایاگیا:
اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کی زوجہ محترمہ اور ہماری ماں سیدہ عائشہؓ کی عفت و عصمت پر منافقوں نے انگلی اٹھاتے ہوئے بہتان لگایا دیا....الزام تراشی کا بہانہ ان منافقوں کو یوں ملا کہ ایک جنگ سے واپسی آتے ہوئے جہاد کے قافلے نے راستے میں قیام کیا۔سیدہ عائشہ اس قافلے میں اللہ کے رسولْ ﷺ کے ساتھ تھیں،سب لوگ اپنی اپنی ضرورت سے فارغ ہو کر قافلے کے پاس پہنچنے لگے ،مگر سیدہ عائشہؓ کا اس دوران ہار گم ہو گیا اور وہ ہار ڈھونڈنے لگیں ۔جبکہ ادھر قافلہ چل پڑا اور اہل قافلہ نے سمجھا کہ سیدہ عائشہؓ اپنے ڈولی نما ہودج میں اپنے اونٹ پر موجود ہیں،جب قافلہ روانہ ہو گیا اور ادھر سے سیدہ عائشہؓ قافلے کے پراؤ کی جگہ پہنچیں تو قافلہ جا چکا تھا ۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ؛میں یہ سوچ کر اس جگہ بیٹھ گئی کہ جب قافلے والے مجھے مفقود پائیں گے تو ضرور پیچھے آئیں گے،چنانچہ بیٹھے بیٹھے میری آنکھیں بوجھل ہو گئیں اور میں سو گئی ،قافلے کے پیچھے پیچھے کچھ فاصلے پر سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ آرہے تھے کہ قافلے کی کوئی گری پڑی شے ملے تو اسے اٹھا لیں۔سیدہ عائشہؓ کہتی ہیں؛انھوں نے مجھے دیکھا اور
پہچان لیا کہ یہ تو عائشہؓ ہیں،(کیونکہ انھوں نے پردہ کا حکم نازل ہونے سے قبل آپؓ کو دیکھا تھا)چنانچہ سیدنا صفوانؓ نے اپنا اونٹ بٹھا یا ،میں اس پر بیٹھ گئی اور قافلے کے پیچھے پہنچ گئی....منافقوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے الزام لگا دیا ...کئی سادہ لوح مسلمان بھی منافقوں کے بہکاوے میں آکر اس سازش کا شکار ہو گئے۔چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ سخت پریشان ہو گئے ۔سیدہ عائشہؓ اپنے میکے آگئیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی پریشان تھے ۔ایک ماہ ہونے کو تھا ،کوئی وحی بھی نازل نہ ہوئی تھی ۔سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:چنانچہ ایک روز اللہ کے رسولﷺہمارے گھر شریف لائے۔
آپ ﷺ نے السلام علیکم کہا؛پھر تشریف فرما ہوئے اور اللہ کی حمدو ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا؛اے عائشہ !مجھے تیری طرف سے یہ یہ باتیں پہنچی ہیں،اگر تو بے گناہ ہے تو عنقریب اللہ تجھے بری کر دے گا اور اگر کوئی ایسی بات ہے تو پھر اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرو،کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کر لیتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ بھی اپنے بندے کی توبہ کو قبول کرتا ہے ۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں؛جب اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی بات مکمل کر لی تو میرے آنسو(جومسلسل بہ رہے تھے)یوں خشک ہو گئے کہ ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا....میں نے اپنے باپ سے کہا:میری طرف سے اللہ کے رسول ﷺکو جواب دیجئے ....تو انھوں نے کہا :اللہ کی قسم!مجھے نہیں معلوم کہ میں اللہ کے رسول ﷺ کو کیا جواب کہوں؟
پھر میں نے اپنی ماں کو کہا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا...پھر میں نے کہا ؛ اللہ کی قسم !اگر میں کہوں کہ میں بے گناہ ہوں ،حالانکہ اللہ کریم جانتے ہیں کہ میں بے گناہ ہی ہوں ،تو آپ میری تصدیق نہیں کرو گے اور اگر میں اعتراف کروں ایک ایسے کام کا تو کیسے کروں کہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ میں اس سے بے گناہ ہوں ۔تو آپ میری تصدیق کرو گے ۔لہٰذا میں اپنے لئے اور آپ کیلئے یوسف علیہ السلام کے باپ اور ان کے بیٹوں کے درمیان ہونے والے معاملے کی مثال دے کر وہی کہتی ہوں جو یوسف علیہ السلام کے باپ (سیدنا یعقوبؑ ) نے اپنے بیٹوں سے اس وقت کہا تھا (جب ان کے بیٹوں نے باپ کو خبر دی
کہ ابا جان !یوسف کو تو بھڑیا کھا گیا ہے !!تو یعقوب علیہ السلام نے کہا):
وَجَآءُوْا عَلٰى قَمِيْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۖ فَصَبْـرٌ جَـمِيْلٌ ۖ وَاللّـٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ
ترجمہ:میں پروقار اور خوبصور ت صبر کروں گا اور جو تم بیان کر رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے(یوسف:۱۸)پڑھیں.....
جاری ہے

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...