Monday 8 February 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,96


اسلام اور خانقاہی نظام
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر96)

پیشاب دیکھ کر کلمہ پڑھ لیا!!:
"روایت ہے کہ عالم طفولیت میں ایک دفعہ جب آپ بیمار ہوئے تو آپُ کی اجازت سے لوگ ایک برہمن طبیب کو بلانے کے لیے اس کے گھر گئے۔ برہمن نے کہا: " میں ڈرتا ہوں کے اگر میں وہاں گیا تو مسلمان ہو جاوں گا۔ (کیونکہ جو ہندو بھی سلطان باہو کا چہرہ دیکھتا تھا وہ مسلمان ہو جاتا تھا ) بہتر یہ ہے کہ آپ ان کا قارورہ‌(پیشاب‌) کی بو تل یہاں لے آئیں‌۔ مریدوں نے ایسا ہی کیا۔ جب اس برہمن‌طبیب‌نےقارورہ کی بوتل کو اٹھا کر دیکھا تو بے ساختہ اس کی زبان پر جاری ہو گیا۔
((لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ))
لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّة ِ الَّا بِاللّهِ۔۔۔ غور کیا آپ نے... ! کس قدر توہین ہے اس کلمہ کی کہ
جسے ایک انسان پڑھ کر کفر سے نکل کر اسلام کے دائرے میں داخل ہوتا ہے۔ یہ گستاخی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ‌ کی ہے! اس قدر ناپاک اور شرمناک ہے کہ'' اللہ کی پناہ'' ۔
*یہ کتی پاک ہے!!:
اس طرح کی ایک انتہائی شرمناک گستاخی میں نے ایک کتاب'' انوارحفیظ'' میں ملاحظہ
کی‌۔ یہ کتاب میں نے جموں کے بارڈر پر ضلع گجرات کے قصبہ'' بڑیلہ'' کی ایک درگاہ سےحاصل کی‌۔ اس درگاہ کی بھی لاکھوں دنیا مرید ہے۔ اس درگاہ کا گدی نشین رفیق اللہ کو جو داڑھی منڈواتا ہے' اس سے تو ملاقات نہ ہو سکی البتہ اس کے صاحبزادے سے ملاقات ہوئی‌۔ یہ دربار بڑیلہ قصبے باہر وسیع و عریض جگہ واقع ہے۔ حضرت نے یہاں مور پال رکھے ہیں کبو‌تر بھی تھے خرگوش بھی تھے، بھینسیں ‌اور گائیاں بھی تھیں، اعلی نسل کے گھوڑے بھی تھے۔ صاحبزادے کے کہنے پر ان کا مرید مجھے یہ سب کچھ دکھلا رہا تھا اور بتلا رہا تھا کہ یہ حضور کے یعنی خواجہ رفیق کے گھوڑے ہیں، یہ گائیاں ہیں وغیرہ وغیرہ‌۔ آگے ایک جگہ پلی ہوئی موٹی کتی بندھی ہوئی تھی۔۔۔۔ میں نے از راہ مذاق کہا کہ'' یہ حضور کی'' کتی پاک ہے'' کہنے لگا'' ہاں جی ! ‌یہ حضور کی'' کتی پاک'' ہے!! (أستغفر الله‌) یہ ہے حال ان روحانی پیروں کا اور عقیدت کے مارے اندھے مریدوں کا۔ اب وہ شرمناک گستاخی بھی ملاحظہ فرما ئے جو یہاں سے ملنے والی کتاب کے صفحہ (205) پر مرقوم ہے اور ان لوگوں کے ہاں اس کا نام'' کرامت'' ہے۔
*جب پیر کا پاخانہ اللہ کا نور بن گیا !!(استغفراللہ))‌''علی‌الصبح حضور سر کار پاک نے بندہ کو آواز دی اور فرمایا'' مجھے رفع ‌حاجت کے لیے جانا ہے"۔ بندہ پانی کا لوٹا اٹھا کر ساتھ ہو لیا مگر آپ دروازے کے قریب ہی بیٹھ گئے اور
پریشانی کی سی صورت میں بندہ کی طرف دیکھا۔ میں نے آپ کے سامنے بیٹھ کر
عرض کی:
 غریب نواز! ‌کیا بات ہے، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ‌ہے؟ آپ نے فرمایا بیٹا طبیعت ٹھیک ہے،فکر ‌کی کوئی بات نہیں‌۔ ہوا یہ ہے کہ مجھے اسہال آ گیا ہے اور میرا پاخانہ‌ شلوار ہی میں نکل گیا ہے۔ میں نے پھر عرض کی! حضور پاک آپ کے شکم میں کوئی درد تو محسوس نہیں ہوتا؟ تو فرمایا برخوردار آپ‌'اس قدر کیوں فکر مند ہو رہے ہیں؟ مجھے کوئی تکلیف نہیں، صرف اتنا ہی ہوا کہ مجھےجلاب آ گیا ہے، بندہ نا چیز نے نئی‌ ‌شلوار ازار بند ڈال کر پیشں کی اورعرض کی:" حضور آپ یہ شلوار پہن لیں" میں دوسری شلوار دھو کر لے آتا ہوں‌۔ میں آپ کی وہ شلوار لے کر نلکے‌کی تلاش میں باہر نکلا اور چلتے چلتے حضور غوث الاعظم کے فرزند گرامی حضرت پیر سید عبد الوہاب جیلانی کے روضۂ مبارک تک چلا گیا۔
وہاں وضو کرنے کے مقام پر ٹوٹیاں لگی ہوئی تھیں، میں وہاں ‌شلواردھونے بیٹھ گیا۔
ابھی میں نے شلوارکو ٹوٹی کے نیچے کیا ہی تھا کہ ایک بزرگ سفید ریش نورانی چہرے والے سفید لباس میں ملبوس تشریف لائے اور فرمایا'' بیٹا" ‌یہ کیا دھو رہے ہو؟ میں نے کہا شلوار ہے۔ انھوں نے پوچھا کس کی ہے؟ میں نے عرض کی ''میرے پیر صاحب کی‌۔'' وہ بزرگ بہت خفا ہوئے اور فرمانے لگے_او نالائق آدمی!....افسوس ہے تیری عقل پر! تم نے اپنی اتنی زندگی برباد ہی کی ہے،بیوقوف!.... تو اب تک اسے پاخانہ کرنے والا بندہ ہی سمجھتا رہا!!؟....دیکھ تو سہی کیا دھو رہا ہے؟"....اس بزرگ کا اتنا فرمانا تھا کہ میری آنکھیں کھل گئیں!! میں نے دیکھا کہ شلوار میں کوئی چیز نہیں ہے۔شلوار سے،جو ابھی آدھی ہی پانی میں بھیگی تھی،خوشبو آ رہی تھی اور اس کے علاوہ پانی کی نالی میں سے بھی ہلکی ہلکی اور پیاری پیاری سی خوشبو آ رہی تھی۔" .....وہ بزرگ پھر فرمانے لگے:"او لڑکے!تو نے اس شلوار کو دھو کر بہت نقصان کیا ہے۔اگر تجھے ذرا بھی عقل ہوتی تو تو اتنی بڑی غلطی کبھی نہ کرتا۔اب تک تیری کی ہوئی ساری محنت اکارت گئی،تو تو اسے پاخانہ کرنے ولا ہی سمجھتا رہا!!!
بندہ وہ شلوار مبارک اسی طرح اپنے کاندھے پر ڈال کر واپس آپ کی خدمت میں آ گیا۔دل بہت اداس تھا،راستے میں جی چاہتا تھا کہ دیواروں کے ساتھ ٹکریں مار مار کر اپنا سر پھوڑ لوں!! جب آپ کے سامنے ہوا تو آپ بستر پر سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا:
"حافظ صاحب!وہ کس طرح لکھا ہے مثنوی شریف میں حضرت عارف رومی نے  کہ،
ایں خورد گرد و پلیندی زیں جدا
واں  خورد  گرد و ہمہ نور خدا
"دنیادار، غافلین حق کھاتے ہیں تو پاک رزق حلال بھی ان کے اندر جا کر غلاظت بن کر ہی باہر نکلتا ہے اور جو چیز وہ کھاتے ہیں(نبی اور ولی یعنی اللّه تعالیٰ کے پیارے محبوب)وہ سب کا سب اللّه کا نور بن جاتا ہے۔"
(تو پیر صاحب اس کے بعد کہنے لگے)برخوردار!کوئی فکر نہیں اور غمگین ہونے کی قطعا" کوئی ضرورت نہیں ہے۔اگر سمجھ آ گئی ہے تو خیر ہی خیر ہے،کیونکہ یہ تو اپنے پاس موجود ہی ہے،شلوار کو سوکھنے کی لئے ڈال دو۔
قارئین کرام! یہ ناپاک اور شرمناک گستخیاں کھبی خالق کائنات کی اور کھبی اس کے پیارے رسول ﷺکی، آپ نے ملاحظہ کیں۔ آپ یقینا حیران ہوتے ہوں گےاور سوچتے ہوں گےکہ یہ درباری اور خانقاہی مذہب کہ جو تقدس کی چادر اوڑھے ہوئے ہے، کس قدر ناپاک، غلیظ اور پلید ہے۔۔۔۔ سچ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ (التوبۃ : 28(
" ائے ایمان والو! شرک کرنے والے بالکل ناپاک ہیں۔"
یعنی جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اُس کا ذہین گندا ہو جاتا ہے، عقیدہ ناپاک ہو جاتا ہے، اس کے خیالات غلیظ اور پلید ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ اور بس یہی حقیقت ہے کہ انسان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اور اس کے ہاتھ سے لکھی جانے والی تحریر کے پیچھے دراصل اس کا ذہین ہی کارفرما ہوتا ہے۔ ذہین اچھا ہو گا تو گفتگو اور تحریر بھی اچھی ہو گی، ذہین گندہ اور ناپاک ہو گا تو بات چیت اور تحریر بھی گندی اور ناپاک ہو گی، کردار بھی صاف سھترا نہ ہو گا۔ چنانچہ ان درباروں پر جو آئے دن گندے واقعات منظر عام پر آتے ہیں، ان سے بھلا کون ناواقف ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ مائدہ میں آستانوں کو ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِـرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
( سورۃ المائدۃ:90)
"اے ایمان والو! یہ شراب اور جوا، یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے بچو تاکہ تم کامرانی حاصل کر سکو۔"
غور فرمائیں! اللہ اس درباری سلسلے کو گندہ اور شیطانی قرار دے رہا ہے، ان آستانوں کے پجاریوں کو ناپاک قرار دے رہا ہے۔۔۔۔ تو پھر یہاں جو قصے گھڑے جاتے ہیں اور انھہیں کرامتوں کا نام دیا جاتا ہے تو وہ کیسے ناپاکی، پلیدی اور غلاظت سے مبرا ہو سکتے ہیں.....؟
جاری ہے.......

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...