Sunday 18 June 2017

تعصب سے آزادی اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت

تعصب سے آزادی اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت

 سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#39

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

دنیامیں اکثر لوگ سائنسدانوں کی ہر بات کو حرف آخر کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کو یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ سائنسدانوں کے بھی الگ فلسفے اور فکریاتی تعصب ہوسکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ارتقائی سائنسدان دراصل اپنے ذاتی فلسفے اور تعصبات عام لوگوں کے اوپر سائنس کے نام پر مسلط کرتے ہیں۔ مثلاً ان سائنسدانوں کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ ارتقائی حالات بدنظمی اور پریشانی کے علاوہ اور کچھ پیدا کرنے کے اہل نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ ضد کرتے ہیں کہ کائنات اور اس میں موجود جانداروں کا زبردست نظام، نقشہ اور منصوبہ محض اتفاق کا نتیجہ ہے۔ ارتقائی نوعیت کے ماہرِ حیاتیات کے لئے یہ بات سمجھنا بہت آسان ہے کہ کسی بھی جاندار کی بنیادی نامیاتی اکائیوں میں اس قدر حیران کن نظم ہے کہ ان کے محض اتفاق سے وجود میں آنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود یہ سائنسدان پھر بھی ٹھوس دعوے کرتا ہے کہ یہ نامیاتی اکائیاں زمین کے قدیم ماحولیاتی اثرات کے زیر اثر اتفاق سے کروڑوں سال پہلے وجود میں آئیں۔ یہ مزید کسی شک و شبہ کے یہ بھی دعویٰ کرتاہے کہ یہ اکائیاں پھر حیرت انگیز طور پر آپس میں باہمی تعلق کے ذریعے پہلے خلیئے میں تبدیل ہوگئیں۔ اپنے ان دعوﺅں کی وہ ہٹ دھرمی اور اندھی ضد سے حمایت کرتا ہے۔ یہ ایک ارتقائی سائنسدان کی مثال ہے جوکہ حقیقت کو سمجھنے کے باوجود اپنے ذاتی فلسفے کو لوگوں پر مسلط کرتا ہے۔ سائنسدان چونکہ لوگوں پر ایک عقلمند فرقہ ہونے کا تاثر چھوڑتے ہیں اس لئے یہ سائنسدان اپنے پیشے کے اس تاثر کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر یہی سائنسدان سڑک پر تین ایک کے اوپر ایک رکھی ہوئی اینٹوں کو دیکھیں وہ کبھی بھی اس بات پر یقین نہیں کریں گے کہ یہ اینٹیں اتفاقاً اس طرح ہوگئیں۔ اس طرح کی کوئی بات کہنے والا پاگل قراردیا جائے گا۔ اسی لئے یہ صورتحال اور بھی مضحکہ خیز ہے کہ یہی لوگ جو عام حالات میں عام واقعات کے منطق کو تو سمجھ لیتے ہیں پر اپنے وجود کے متعلق ایسی ہی منطق کو سمجھنے سے صاف انکار کردیتے ہیں۔ یہ رویہ سائنسی ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ سائنس کا قانون ہر واقعہ کے دونوں پہلو پرکھنے پر زوردیتا ہے اس سے پہلے کہ کوئی حتمی نتیجہ اخذ کیا جائے۔ اگر ایک پہلو کا امکان ۱ فیصد ہو اور دوسرے کا امکان ۹۹ فیصد ہو تو پھر زیادہ امکان والا پہلو ہی نتیجہ قراردیا جاتا ہے۔

اسی سائنسی بنیاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے موضوع کو آگے بڑھاتے ہیں۔

جانداروں کے وجود میں آنے سے متعلق دو نظریئے عام ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام جانداروں کو ان کی بے عیب اور پیچیدہ  ساخت کے ساتھ تخلیق کی۔دوسرا نظریہ یہ ہے کہ زندگی بے ترتیب اور بے شعور اتفاقات کا نتیجہ ہے ۔یہ دوسرا نظریہ ڈارون کے نظریئے یا نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے۔ اگر اکائیوں کی حیاتیات کا سائنسی تحقیق کی روشنی میں غیر جانبدارانہ معائنہ کیا جائے تو عقل اس بات کو تسلیم کرہی نہیں سکتی کہ جانداروں کے جسم کا واحد خلیہ اور اس خلیئے میں موجود لاکھوں نامیات کسی ایسے اتفاق کا نتیجہ ہوسکتے ہیں جس کا دعویٰ ارتقاءپسندوں کو ہے۔ آنے والی اقساط میں اس بات کا ممکنہ توجیحات کی شماریات کے ساتھ مزید معائنہ کیا جائے گا کہ ارتقائی نظریئے کا درست ہونے کا دراصل ایک فیصد امکان بھی نہیں ہے۔ اسی طرح پہلے والے نظریئے کے درست ہونے کا امکان ۰۰۱ فیصد ہوگیا کہ زندگی ایک باشعور اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تخلیق کی گئی ہے اور زندگی کا تخلیق کار اعلیٰ اور بہترین قوت، دانائی، حکمت اور علم کا حامل ہے۔ اس حقیقت کو ماننے کے لئے صرف ایمان کا ہونا ہی لازم نہیں بلکہ یہ حقیقت حکمت، منطق اور سائنسی رو سے بھی اپنے آپ کو منواتی ہے۔

ان تمام حالات کے پیش نظر ارتقائی سائنسدانوں کو اصولاً اپنے غیر منطقی دعوﺅں سے دست بردار ہوکر اصل حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے۔ ایسا نہ کرنے سے وہ اپنے آپ کو ایسے انسان ثابت کرتے ہیں جو کہ اپنے ذاتی فلسفے، عقیدے اور فکریات کوسائنس کے نام پر فروغ دے رہے ہیں۔ اصل سائنس کا ان کے نظریات سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ جیسے جیسے یہ سائنسدان حقیقت کا سامنا کرتے ہیں ان کا غصہ، ضد اور متعصبات بڑھتے جاتے ہیں۔ ان کے اس طرزِ عمل کی وجہ صرف اور صرف ان کاعقیدہ ہے جو کہ فقط ایک اندھا اور تہماتی عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کو کسی اور لفظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اس کے ہاتھوں وہ اپنے ذہن کی ایک غیر منطقی دلیل پر جمے رہنے پر مصر ہیں حالانکہ سائنس اور سارے حقائق ان کو ہر طرح کے مضادثبوت پیش کرتے ہیں۔

اندھی مادیت

جس اندھے عقیدے کا یہاں ذکر ہورہا ہے وہ مادّیت کا فلسفہ ہے جو کہ بحث کرتا ہے کہ مادہ ہمیشہ سے وجود میں رہا اور اس کے علاوہ کوئی اور حقیقت نہیں ہے۔ اس مادی فلسفے کی بنیاد نظریہ ارتقاءہے جس کی اندھی حمایت صرف مادیت کو تقویت دینے کے لئے کی جاتی ہے۔ بیسویں صدی کے آخر میں جب سائنس نے ارتقائی دعوﺅں کو ناقص قراردے دیا تو ارتقاءپسندوں نے اس نظریئے کو بگاڑ کر ایسی صورتحال کی بنیاد ڈال دی جس سے لوگ ارتقاءکی طرف داری مادیت کو زندہ رکھنے کی خاطر کرنے لگیں۔ ترکی کے ایک نامور ارتقائی ماہرِ حیاتیات کی لکھی ہوئی کچھ باتیں ارتقاءسے متعلق غیر منظم فیصلوں اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے حالات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ سائنسدان زندگی کے اہم ترین لحمیہ سائٹوکروم۔ سی کے اتفاقاً وجود میں آنے کے بارے میں ممکنہ توجیح پیش کرتا ہے۔

”سائٹو کروم۔ سی کے سلسلے کا اتفاقاً وجود میں آجانے کا امکان صفر ہے۔ اگر زندگی کو کسی ایسے حیاتیاتی سلسلے کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ سلسلہ پوری کائنات میں صرف ایک دفعہ ہی وجود میں آسکتا ہے۔ اس کی تخلیق میں کسی ایسے مابعدالطبعیاتی طاقت کا ہاتھ ہے جو کہ ہماری سمجھسے بالا ترہے۔ چونکہ سائنس اس دوسری صورتحال کو قبول نہیں کرتی اس لئے ہمیں پہلے مفروضے کو منظور کرنا پڑتا ہے.“ ۲

اس سائنسدان کے نزدیک اس مفروضے کو منظور کرنا زیادہ مناسب ہے جس کے درست ہونے کے امکان صفر ہے بجائے اس کے کہ وہ تخلیق پر ایمان لائے ہوتے اپنے عقیدوں سے دست بردار ہو۔ سائنس کے اصولوں کے تحت اگر کسی صورتحال کے متعلق دو مخالف بیانات موجود ہوں جن میں ایک کا امکان صفر ہو تو پھر دوسرا مفروضہ ہی درست ہوتا ہے۔ لیکن ارتقاءپسندوں کی مادیت پرستی ان کو تخلیق کی حقیقت سے مکمل طور پر منکر رکھتی ہے۔ نہ صرف یہ سائنسدان خود تخلیق کو جھٹلاتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ لاکھوں لوگوں کو بھی گمراہی کے راستے پر لگائے رکھتے ہیں جبکہ ان کا عقیدہ واضح طور پر غیر منطقی اور غیر دانشمندانہ ہے۔ جو لوگ ان سائنسدانوں پر اعتماد کرتے ہیں وہ مادیت کے اس اسرار اور سحر انگیزی کی دھند میں داخل ہوکر اسی طرح کا بے توجہ اور بے اہمیتی کا رویہ اپنالیتے ہیں جس کی تلقین ان سائنسدانوں کی لکھی ہوئی کتابیں اور مضمون ان کو کرتے ہیں۔

یہ اسی مادہ پرست نقطہ نظر کا نتیجہ ہے کہ سائنسی حلقوں کے بڑے بڑے نام دہریہ ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو اس اسرار سے آزاد کرلیتے ہیں اور کھلے دماغ سے سوچتے ہیں وہ اپنے خالق کا اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ امریکن ماہرِ حیاتیاتی کیمیا ڈاکٹر مائیکل بیہی کا نام تخلیق کی حقیقت کے حامیوں میں سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر بیہی نے ان مادہ پرست سائنسدانوں کے متعلق اپنی رائے کا اظہار مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔

”پچھلی چار صدیوں میں جدید حیاتیاتی کیمیا کی تحقیق کے ذریعے خلیوں کے تمام راز آشکار ہوچکے ہیں۔ لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیوں کے بہترین سال اس محنت طلب کام میں وقف کردیئے ہیں۔ لحمیاتی سطح پر زندگی کی تحقیق کا نتیجہ ایک زوردار ’ تخلیق ‘کے نعرے کی صورت میں موصول ہوا ہے۔ یہ نتیجہ اس قدر غیر مبہم اور اہم ہے کہ اس کو سائنس کی تاریخ کی سب سے زبردست کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر سائنسی حلقوں نے اس کامیابی کا جشن ایک غیر معمولی اور شرمندہ خاموشی سے منایا ہے۔ سائنسی حلقے اس حیران کن دریافت کو نویدگی سےکیوں نہیں پرھتے؟ اس عظیم نقشے کو شعور اور عقل و فہم سے کیوں جانچا جارہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں اس موضوع کا ایک پہلو دانشمند نقشہ ہے وہیں اس کا دوسرا پہلو نتیجتاً اور لازماً خدا ہے۔“ ۳

لاتعداد مضمون نویسوں، ارتقاءسے متعلق ٹےوی پروگراموں میں آنے والوں اور کتابوں کے مصنف دہریہ ارتقائی سائنسدانوں کا یہی مسئلہ اور پریشانی ہے کہ ارتقاءکا انکار ان کو اﷲ کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ان کی تمام سائنسی تحقیق کا لب لباب اﷲ کی وحدانیت اور اس کی عظیم الشان تخلیقی فنکاری کے اعتراف کی صورت میں نکلتا ہے۔ لیکن یہ تمام سائنسدان ان مادی عقیدوں کی تعلیم کو جذب کرنے کی وجہ سے اس قدر بے حس اور اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے انکار پر مستقل قائم ہیں کیونکہ جو لوگ اپنے تخلیق کار کے ثبوت اور شواہد کی نفی کرتے ہیں وہ بے حس ہوجاتے ہیں۔ یہ بے حسی ان کے اندر ایک جاہلانہ خود اعتمادی پیدا کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک مکمل خرافات کو ایک اخلاقی بلندی اور وصف تصور کرنے لگتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نامور ارتقاءدان رچرڈ ڈاکنز کی یہ بات ہے جو اس نے عیسائیوں سے کہی کہ اگر بی بی مریم کا بت بھی تمہیں ہاتھ ہلائے تو یہ ہرگز مت سمجھنا کہ تم نے کوئی معجزہ دیکھا ہے۔ڈاکنز کے الفاظ میں:

﴿ ”شاید اس بت کے بازوﺅں کے ذرے یا خلیے اتفاقاً ہی ایک سمت میں ہلنا شروع ہوگئے۔ اگرچہ ایسا ہونے کی ممکنہ توجیہ بے انتہا کم ہے پھر بھی یہ ممکن تو ہے۔“ بے دین لوگوں کی نفسیات تاریخ میں ایک سی ہی رہی ہے۔ قرآن میں اس کا ذکر سورةالانعام کی آیت نمبر ۱۱۱ میں آتا ہے۔ ﴾

’اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے اور ہم ہر چیز ان کے سامنے اٹھا لاتے جب بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا لیکن ان میں بہت نرے جاہل ہیں‘۔

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ارتقاءپسندوں کی یہ کٹر طرزِ سوچ ہمیشہ سے ان کا خاصہ رہی ہے اوراس میں کوئی نیا یا قابل حیرت عنصر نہیں ہے ۔بلکہ ارتقائی سائنسدانوں کی یہ طرزِ فکر اور سوچ کوئی جدید سائنسی رجحان بھی نہیں بلکہ قدیم ترین دہریہ تہذیبوں کا عام نقطہ نظر تھا۔ قرآن میں اس نفسیات کے اوپر آیا ہے کہ:

﴿ اور اگر ہم ان کے لئے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیں کہ دن کو اس میں چڑھتے ﴾ (سورة الحجر آیت نمبر۴۱)
﴿ جب بھی یہی کہتے کہ ہماری نگاہ باندھ دی گئی ہے بلکہ ہم پر جادو ہوا ہے۔ ﴾ (سورة الحجر آیت نمبر ۵۱)

ارتقاءکی وسیع آموزش

جاناتھن ویلز کی’ ارتقاءکے مقدس مجسمے‘

جیسے کہ مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہے کہ لوگوں کی تخلیق کے بارے میں بند ذہنی کی ایک وجہ وہ سحر ہے جو کہ ان کی منطق اور عقل پر طاری ہے۔ یہ وہی سحر ہے جو کہ دنیا بھر میں ارتقائی نظریوں کی قبولیت کی وجہ ہے۔ سحر سے مراد عام ارتقائی تعلیم کے ہاتھوں ہونے والی دماغ شوئی ہے۔ لوگوں کو نظریہ ارتقاءکی درستگی کے بارے میں اتنی کٹر تعلیم دے دی جاتی ہے کہ ان کا ذہن اس نظریئے کے ناقص ہونے کے کسی امکان کا تصور بھی نہی کرسکتے۔ یہ کٹر تعلیم دماغ اور سوچ پر منفی اثرات ڈالتے ہوئے فیصلے اور سمجھ کی صلاحیت کو مفلوج کردیتی ہے۔ دماغ آخر کار اس کٹر عقیدے کی تعلیم کے مستقل زیر اثر رہنے کی وجہ سے حقیقت کو اسی زاویہ سے پرکھنا شروع کردیتا ہے جس کی اس کو مشق کروائی گئی ہو۔ اس صورتحال کا مشاہدہ دوسری مثالوں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر کسی کو تنویم کے زیر اثر کردیا جائے اور اس کو بتایا جائے کہ وہ جس بستر پر لیٹا ہوا ہے وہ ایک بستر نہیں بلکہ موٹر کار ہے تو وہ شخص عمل تنویم کے بعد بستر کو موٹر کار ہی تصور کرے گا۔ اس کے حساب سے اس کا یہ تجزیہ نہایت منطقی اور مناسب ہے کیونکہ اس کا ذہن اس کو یہی بتاتا ہے اور اس کا ذہن اس معاملے میں کسی شک و شبہ کا شکار نہیں۔ یہ تمام مثالیں آموزش کے عمل کی حسنِ کارکردگی، نظام اور طاقت کو بیان کرتی ہیں۔ آموزش ایک باقاعدہ سائنسی حقیقت ہے جو کہ لاتعداد تجربوں سے ثابت کی جاچکی ہے۔ اس کا ذکر سائنسی جریدوں اور نصابی کتابوں میں موجود ہے اور اس کا استعمال نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کے علاج کے لئے عام ہے۔

نظریہ ارتقاءاور عالمی مادی نظریہ لاکھوں لوگوں کے اوپر ایسی ہی آموزش کے ذریعے مسلط کئے گئے ہیں ۔جو لوگ مسلسل مختلف نشریاتی ذریعوں، تعلیمی ذرائع اور سائنسی اعلانات سے اس ارتقائی آموزش کے زیر اثر رہتے ہیں وہ اس نظریئے کی اصل حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ نظریہ دراصل منطق کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ آموزش سائنسدانوں کو بھی اپنی طرف کھینچتی ہے۔ سائنس کے شعبے میں آنے والے نئے نام اس مادی نقطہ نظر کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ اپنانے لگتے ہیں کیونکہ انہوں نے یہی سیکھا اور سنا ہوتا ہے۔ اس سحر کے زیر اثر کئی ارتقائی سائنسدان انیسویں صدی کے ان غیر منطقی اور فرسودہ ارتقائی دعوﺅں کی سائنسی تصدیق اپنی زندگی کا مقصد بنالیتے ہیں۔

اس کے علاوہ کچھ اور بھی ایسے اضافی نظام ہیں جو کہ سائنسدانوں کو ارتقاءپسند اور مادہ پرست ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔ مغربی ممالک میں کسی سائنسدان کے نامور ہونے کے لئے اور اپنے شعبے میں تعلیمی اعزاز حاصل کرنے کے لئے اس کا ایک مخصوص معیار کی سوچ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ ان معیارات میں سرِ فہرست اس کا ارتقاءپر یقین ہے۔ سائنس کے جس نظام سے یہ سائندان منسلک ہوتے ہیں وہ ان کو ان کی تمام پیشہ ورانہ زندگی کے دوران اسی کٹر عقیدے کی تلقین اور یقین میں سرگرداں رکھتا ہے۔ امریکہ کا ماہرِ لحمیاتی حیاتیات جاناتھن ویلز اس عمل کے دباﺅ کا ذکر اپنی ۰۰۰۲ میں چھپنے والی کتاب ”آئیکانز آف ایوولوشن“ میں ان الفاظ میں کرتا ہے۔

”کٹر ارتقاءپسند ثبوت کو تنگ نظری سے پرکھنے کی عادت ڈالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس پر عمل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اس طریقہ کار کے مخالفوں کو غیر سائنسی قراردے دیا جاتا ہے۔ ان کے مضمون معیاری جریدے چھاپنے سے انکار کردیتے ہیں کیونکہ ان کے اداریے کٹر سوچ رکھنے والے ارتقاءپسند ہوتے ہیں۔ مخالف گروہ کے لوگوں کو حکومت بھی مالی امداد دینے سے انکار کردیتی ہے۔ یہی حکومت کٹر سوچ رکھنے والوں کو بنفس نفیس آگے آنے کی دعوت دیتی ہے۔بالآخر اس نظریئے کے مخالفین سائنسی حلقوں سے مکمل طور پر خارج کردیئے جاتے ہیں۔اس پورے عمل کے دوران ڈارون کے نقطہ نظر کے خلاف ثبوت بھی ایسے ہی پراسرار طریقے سے غائب ہوجاتے ہیں جیسے ڈاکوﺅں کے خلاف شہادت دینے والوں کا وجود۔ دوسری صورت میں یہ ثبوت صرف ان خاص الخاص رسائل میں چھاپا جاتا ہے جہاں تک صرف ایک ماہر تحقیق کار کی ہی پہنچ ہوتی ہے ، عام عوام کی نہیں۔ جب مخالفین کو چپ کرواکر تمام ثبوت کو دفن کردیا جاتا ہے تو یہ کٹر عقیدہ مند دنیا کے آگے اعلان کرتے ہیں کہ ان کے نظریئے میں مزید سائنسی بحث کی گنجائش موجود ہے اور اس کے خلاف فی الحال کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔“ ۵

یہ وہ اصلیت ہے جو ارتقاءپسندوں کے اس اصرار کے پیچھے ہے کہ ’نظریہ ارتقاءابھی بھی سائنسی دنیا میں قبول کیا جاتا ہے‘۔ اس نظریئے کے زندہ رہنے کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے اندر کسی قسم کا سائنسی وزن موجود ہے بلکہ اس کی وجہ اس کا ایک فکریاتی ذمہ داری ہونا ہے۔ بہت سے سائنسدان حقیقت کا علم رکھتے ہوئے بھی حق کے لئے آواز بلند کرکے اپنی سائنسی حلقوں میں بنی ہوئی ساکھ کو مٹی میں ملانا نہیں چاہتے۔ آنے والی اقساط میں جدید سائنس کا ارتقاءکے خلاف ثبوت کا معائنہ کیا جائے گا ۔ ان میں سے کئی ثبوت ارتقاءپسند سرے سے ماننے سے ہی انکار کرتے ہیں اور کئی کو ’خاص قسم کے‘ جریدوں میں ہمیشہ کے لئے دفن کردیا گیا ہے۔ یہ تمام ثبوت اﷲ تعالیٰ کی ذات کے ہونے کا کھلا اعتراف کرتے ہیں۔ پڑھنے والے اس بات پر متفق ہوجائیں گے کہ نظریہ ارتقاءایک ایسا دھوکہ ہے جس کو سائنس نے محض تخلیق کی حیثیت سے انحراف کرنے کے لئے ہر قدم پر سہارا دیا ہے۔ پڑھنے والوں سے صرف یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اس سحر سے اپنے دماغ کو آزاد کرلیں جس نے ان کی حقیقت کو جانچنے کی صلاحیت کو جکڑ رکھاہے اور اس سلسلہ میں موجود مواد پر کھلے دماغ اور سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ اگر وہ اس سحر سے آزاد ہوکر آزادی سوچ اور تعصب کے بغیر اس سلسلہ پر غور کریں تو وہ شفاف سچ کو پالیں گے۔ لازم الوقواع سچ جو کہ جدید سائنس نے ہر پہلو سے ثابت کردیا ہے کہ وہ یہ ہے جاندار نسلیں کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ تخلیق کے عمل سے وجود میں آئی ہیں۔ اگر انسان صرف اپنی ہی ذات کی گہرائی اور پیچیدگی پر غور کرے تو وہ با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جس ذات نے اس کو پانی کے ایک قطرے سے جیتا جاگتا انسان بنادیا وہی ذات ہر جاندار کی تخلیق کے پیچھے ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔
( ماخوزاز:نظریہ ارتقاء- ایک دھوکہ)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
0096176390670
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...