Tuesday 20 June 2017

ارتقاءکے خیالی طریقہ عمل

ارتقاءکے خیالی طریقہ عمل

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#41

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

ارتقاءکا نوڈاروینی نقشہ جس کو دورِ حاضر کا مقبول ترین ارتقائی رجحان کہا جاسکتا ہے بحث کرتا ہے کہ زندگی دو طرح کے لائحہ عمل سے ارتقاءسے گزری۔ ایک انتخاب طبعی اور دوسرا جینیات میں بے ترتیبی۔ اس نظریئے کے حساب سے یہ دونوں لائحہ عمل متلازم ہیں کیونکہ یہ کہتا ہے کہ ارتقائی ترمیمات کاتعلق اس بے ترتیبی سے ہے جو کہ جانداروں کی جینیاتی ساخت میں واقع ہوتی ہے۔ اس بے ترتیبی سے جو عادات وجود میں آتی ہیں وہ انتخابِ طبعی کے طریقہ عمل سے جانداروں میں ارتقاءکا سبب بنتی ہیں۔ اگر اس نظریئے کا مزید گہرائی میں تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دراصل اس میں کوئی ارتقائی طریقہ عمل سرے سے موجود ہی نہیں۔ جاندار نسلوں کا ایک نسل سے دوسری نسل میں تبدیل ہونے میں نہ تو انتخاب طبعی کا ہاتھ ہے اور نہ جینیاتی بے ترتیبی کا۔ یہ کہنا کہ یہ دونوں طریقے نسلوں کو بنانے اور بگاڑنے میں کسی بھی طرح کا کرار ادا کرتے ہیں ایک سراسر بے بنیاد دعویٰ ہے۔

انتخابِ طبعی

انتخابِ طبعی ایک قدرتی عمل کے طور پر ڈارون سے پہلے رہنے والے ماہر حیاتیات کے لئے بھی کوئی نئی چیز نہیں تھا۔ ان لوگوں کے نزدیک اس اصطلاح کا مفہوم ایک ایسا لائحہ عمل تھا جو کہ نسلوں کو مسخ کئے بغیر ایک ہی شکل میں نسل در نسل قائم رکھتا ہے۔ اس طریقہ عمل میں ارتقائی قوت کی موجودگی کا قیاس ڈارون نے سب سے پہلے کیا اور اس کمزور بنیاد پر اس نے اپنا پورا نظریہ تعمیر کردیا۔ اس نے اپنی کتاب کو جو عنوان دیا وہ ثابت کرتا ہے کہ انتخاب طبعی ہی اس کے نظریئے کی بنیاد تھا۔ ”نسلوں کی ابتداء بذریعہ انتخاب طبعی“ لیکن ڈارون کے وقت سے لے کر اب تک ایک دھاگے کے برابر بھی ثبوت ارتقاء بذریعہ انتخابِ طبعی کی حمایت میں سامنے نہیں آسکا۔

لندن کے برٹش میوزیم آف نیچرل ہسٹری کا نامور ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور کٹر ارتقاء پسند کولن پیٹرسن اس بات پر زور دیتا ہے کہ انتخابِ طبعی کے اندر کبھی بھی جانداروں کے ارتقاءکی صلاحیت نہیں پائی گئی۔

”کسی نے آج تک انتخاب طبعی کے عمل سے کوئی نسل پیدا نہیں کی۔ کوئی آج تک اس مسئلہ کے نزدیک بھی نہیں پہنچ سکا پھر بھی نوڈاروینیت کی تمام حالیہ بحث اسی سوال کے اطراف گردش کرتی ہے۔“۳۱

انتخاب طبعی کے حساب سے وہ جاندار جو اپنے قدرتی ماحول میں ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہی اپنی نسل کو آگے چلانے کے لائق ہوتے ہیں جبکہ دوسرے اپنے ماحول میں ڈھلنے کی صلاحیت سے معذور جاندار معدوم ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہرن کے گروہ میں سب سے زیادہ تیز دوڑنے والے ہرن بچ جاتے ہیں جبکہ دوسرے شکار ہوجاتے ہیں۔ گوکہ یہ ایک درست تجزیہ ہے لیکن باوجود اس عمل کے ہمیشہ جاری رہنے کے اس سے ہرن ہرگز کسی دوسری نسل کے جانور میں تبدیل نہیں ہو جاتے۔ ہرن ہمیشہ ہرن ہی رہا ہے۔ جب ارتقاءپسندوں کی اس معاملے میں پیش کی گئی چند مثالوں کی تفصیل دیکھی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سارے معاملات دھوکہ دہی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

صنعتی سیاہی

صنعتی سیاہی کسی بھی طور پر ارتقاءکا ثبوت نہیں ہے کیونکہ اس کے ذریعے پتنگوں کی کوئی نئی نسل وجود میں نہیں آئی۔ یہ انتخاب پہلے سے ہی موجود پتنگوں کی قسموں میں پیدا ہوا۔ جلد کی اس غیر معمولی سیاہی کی یہ روایتی کہانی سراسر فریب ہے۔ تصویر میں دکھائی گئی تصویریں ایک نصابی کتاب سے لی گئی ہیں۔ ان تصویروں میں موجود پتنگے مرے ہوئے ہیں جن کو ارتقاءپسندوں نے درخت کے تنوں سے پنوں اور گوند کے ذریعے چپکایا ہوا ہے۔

۶۸۹۱ءمیں ڈگلس فوٹیما نے ”ارتقاءکی حیاتیات“ کے نام سے کتاب شائع کی جو کہ انتخابِ طبعی کے ذریعے ارتقاءکے نظریئے پر مفصل بیان خیال کی جاتی ہے۔ اس موضوع پر فوٹیما کی سب سے مشہور مثال پتنگوں کی آبادی کے رنگ کے متعلق ہے جو کہ انگلستان کے صنعتی انقلاب کے دوران گہرا ہوگیا تھا۔ صنعتی سیاہی کی ملتی جلتی کہانی صرف فوٹیما کی کتاب میں ہی نہیں بلکہ ارتقائی حیاتیات کی شاید ہر کتاب میں موجود ہے۔ یہ کہانی انگریز ماہرِ طبےعیات اور حیاتیات برنارڈ کیٹلول کے کئے گئے کئی تجربوں پر مبنی ہے۔ اس کہانی کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔

”بیان کے مطابق انگلستان میں صنعتی انقلاب کی شروعات کے وقت مانچسٹر کے اطراف درختوں کے تنوں کا رنگ کافی ہلکا تھا۔ اس ہلکے رنگ کی وجہ سے ان درختوں پر بیٹھنے والے گہرے رنگ کے پتنگوں کی شناخت آسانی سے کی جاسکتی تھی۔ چڑیاں ان پتنگوں کواس آسان شناخت کی وجہ سے غذا بنالیتی تھیں اور پتنگوں کے بچ جانے کے امکان بہت کم تھے۔ پچاس سال بعد صنعتی آلودگی کی وجہ سے ان درختوں کی کائی بھی مرگئی اور درختوں کے تنے گہرے رنگ کے ہوگئے اور اس وجہ سے پتنگے ہلکے رنگ کے نظر آنے لگے اور خطرے میں آگئے کیونکہ اب ان کی شناخت آسان ہوگئی۔اب ہلکے رنگ کے پتنگوں کا تناسب گہرے رنگ کے پتنگوں کی نسبت بڑھ گیا“۔ ارتقاءپسندوں نے اس واقعہ کو اپنے نظریئے کو ثابت کرنے میں ایک اہم ثبوت تصور کیا اور اس بات کو سجا بنا کر پیش کیا کہ ہلکے رنگ کے پتنگے گہرے رنگ کے پتنگوں کی ارتقائی شکل ہیں۔ اگر اس صورتحال کو درست فرض بھی کرلیا جائے تو پھر بھی اس میں ارتقاءکا کوئی پہلو نہیں نکلتا کیونکہ پتنگوں کی کوئی نئی تدریجی شکل تو نمودار ہوئی ہی نہیں۔ پتنگا پتنگا ہی رہا گہرے رنگ کے پتنگوں کی آبادی صنعتی انقلاب سے پہلے بھی موجود تھی۔ اس انقلاب کی وجہ سے پتنگوں کی مختلف اقسام میں تقابلی تناسب بدل گیا۔ پتنگوں کے اندر کسی نئے عضو یا عادت کا اضافہ نہیں ہوا جس سے یہ کسی نئی نسل میں بدل گئے۔ کسی پتنگے کی نسل کا کسی اور نسل میں تبدیل ہوجانا مثلاً چڑیا میں تبدیل ہوجانے کے لئے اس کی جینیات میں وسیع پیمانے پر اضافے کی ضرورت ہے۔ پتنگوں کی جینیات کے اندر ایک الگ جینیاتی ترتیب داخل کرنے سے ہی وہ چڑیوں کی امتیازی خصوصیات کے حامل ہوسکتے ہیں ورنہ وہ صرف پتنگا ہی رہیں گے۔ صنعتی سیاہی کی ارتقائی کہانی کا یہ جواب ہے۔

اس کہانی کا ایک اور دلچسپ پہلو بھی ہے۔ نہ صرف اس کہانی کی تشریح غلط ہے بلکہ اس کہانی میں بذاتِ خود نقص موجود ہے۔ سالمی حیاتیات کے ماہر جوناتھن ویلز نے اپنی کتاب ”ارتقاءکی قابل عقیدت شبیہات“ میں وضاحت کی ہے کہ پتنگوں کی یہ کہانی جو کہ تقریباً ہر حیاتیاتی ارتقاءکی کتاب کا حصہ ہے اور ایک قابلِ عقیدہ شبیہ کا روپ دھارگئی ہے دراصل ایک سچی کہانی ہرگز نہیں ہے۔ ویلز اپنی کتاب میں تفصیلاً بتاتا ہے کہ برنارڈ کیٹلول کا تجزیہ جو کہ اس پوری کہانی کا ”تجرباتی ثبوت“ کہلاتا ہے دراصل سائنس کا ایک فساد انگیز واقعہ ہے۔ اس فساد کے کچھ بنیادی نقطے مندرجہ ذیل ہیں۔

جن سائنسدانوں نے کیٹلول کے تجربے کے نتیجے کو پرکھا وہ اور بھی دلچسپ صورتحال کو سامنے لے کر آئے۔ اگرچہ ہلکے رنگ پتنگوں کی تعداد انگلستان میں کم آلودہ خطوں میں اوسطاً زیادہ ہونی چاہئے تھی لیکن وہاں گہرے رنگ پنگے ہلکے رنگ پتنگوں سے چار گنا زیادہ مقدار میں موجود تھے۔ اس سے ظاہر تھا کہ کیٹلول کے دعوے کے برخلاف پتنگوں کی آبادی کا درختوں کے تنوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ دعویٰ صرف کیٹلول کا ہی نہیں بلکہ تقریباً ہر ارتقائی ذریعے کا ہے۔

 جیسے جیسے اس معاملے کی تحقیق گہرائی میں جانے لگی اس فساد انگیز کہانی کا رخ بھی تبدیل ہوتا گیا۔ درختوں کے تنوں پر جن پتنگوں کی تصویر کیٹلول نے اتاری تھی وہ دراصل بے جان پتنگے تھے۔ کیٹلول نے بے جان پتنگوں کے نمونوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کو درختوں کے تنوں سے چپکاکر یا سوئیوں کے ذریعے لگاکر ان کی تصویریں اتاریں۔ سچائی کی بات تو یہ ہے کہ ایسی تصویر اتارنے کے امکان ہی بہت کم ہیں کیونکہ پتنگے عادتاً درختوں کے تنوں پر نہیں بلکہ پتوں کے نیچے پائے جاتے ہیں . ۴۱

کیٹلول کے تجربے کے بعد کئے جانے والے کئی تجربوں نے ظاہر کیا کہ صرف ایک نسل کے پتنگے ہی ان درختوں کے تنوں پر بسیرا کرتے تھے۔ دوسری طرح کے پتنگے چھوٹی افقی ٹہنیوں کو ترجیح دیتے تھے۔ ۰۸۹۱ءکے بعد واضح طور پر ثابت ہوگیا کہ سیاہی مائل پتنگے درختوں کے تنوں پر عموماً ٹھہرتے ہی نہیں ہیں۔ ۵۲ سالہ عملی کام کے ذریعے سیسل کلارک، رودی ہاﺅلٹ، مائیکل ماجیرس، ٹونی لیبرٹ اور پال بریکفیلڈ جیسے سائنسدانوں نے اخذ کیا کہ ”کیٹلول کے تجربوں میں پتنگوں کو غیر معمولی حالات کے تحت زبردستی عمل کروایا گیا تھا اسی لئے اس تجربے کو سائنسی تجربے کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا“۔

یہ تمام حقائق سائنسی حلقوں نے ۰۹۹۱ءکے آخر ی سالوں میں برآمد کئے۔ صنعتی سیاہی کی افلاطونی حکایت کے زمین بوس ہونے کی وجہ سے ارتقاءپسندوں کو شدید دھچکا پہنچا کیونکہ یہ حکایت ارتقاءکے تعارف کے طور پر کئی تعلیمی ادروں کی نصابی کتابوں میں ایک قیمتی اثاثہ تصور کی جاتی تھی۔ ان مایوس ارتقاءپسندوں میں سے ایک جیری کوئن بھی تھا جس نے تبصرہ کیاکہ:

”اس تمام واقعہ پر میرا ذاتی ردعمل اس طرح تھا جس طرح میری چھ سال کی عمر میں مجھے یہ افسوس ناک انکشاف ہوا کہ کرسمس کے موقع پر میرے تحائف سانٹا کلاس نہیں بلکہ میرا باپ خرید کر لاتا تھا۔“۵۱

چنانچہ اس طرح انتخاب طبعی کا سب سے مشہور ثبوت تاریخ کے کچرے کے ڈھیر میں سائنسی فساد انگیز کہانیوں کی دوسری مثالوں کے ساتھ مل گیا کیونکہ انتخاب طبعی ارتقاءپسندوں کے دعوﺅں کے مطابق ارتقائی طریقہ عمل ہرگز نہیں ہے۔ انتخاب طبعی کسی بھی جاندار میں نہ تو نیا عضو ڈال سکتا ہے نہ اس کے جسم سے کوئی عضو نکال سکتا ہے اور نہ ہی ایک نسل کو دوسری نسل میں تبدیل کرسکتا ہے۔

انتخابِ طبعی پیچیدگی کو کیوں نہیں بیان کرتا؟

انتخاب طبعی نظریہ ارتقاءکو کسی طور سے آگے نہیں چلاسکتا کیونکہ اس طریقہ عمل سے کسی بھی نسل کی جینیاتی معلومات نہ تو بڑھ سکتی ہیں اور نہ بہتر ہوسکتی ہیں۔ انتخاب طبعی ایک نسل کو دوسری نسل میں بھی نہیں تبدیل کرتا ۔اس عمل سے نہ تو ستارہ مچھلی عام مچھلی، نہ مچھلی مینڈک، نہ مینڈک مگر مچھ اور نہ مگر مچھ چڑیا بن سکتا ہے۔ اوقافی توازن کا سب سے بڑا حمایتی اسٹیفن گولڈ انتخابِ طبعی کے اس تعطل کو اس طرح بیان کرتا ہے:

”نظریہ ڈارون کی روح فقط ایک فقرے میں بند ہے۔ انتخاب ِطبعی کی تخلیقی طاقت ارتقائی تبدیلی میں ہے- کوئی بھی اس بات سے انحراف نہیں کرسکتا کہ گو کہ انتخابِ طبعی کمزوروں کا خاتمہ کرنے میں تو کردار ادا کرتا ہے لیکن دوسری طرف ارتقائی نظریوں کے تقاضوں کے تحت انتخابِ طبعی طاقتور اور صحت مند جاندار ہر گز پیدا نہےں کر سکتا۔“ ۶۱

انتخابِ طبعی ایک ایسا عمل ہے جس سے کسی نسل میں موجود کمزور جانداروں کا اخراج ہوجاتا ہے۔ یہ ایک انقلابی طاقت ہے جوکہ موجودہ نسلوں کو تنزل سے تو محفوظ رکھتی ہے لیکن اس کے اندر ایک نسل کو دوسری نسل میں بدلنے کی طاقت موجود نہیں ہوتی۔

نظریہ ارتقاءکے پیروکاروں کا انتخابِ طبعی کے معاملے میں لوگوں کو بھٹکانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ اس پورے عمل کو ایک ہوشمند کارروائی کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ انتخابِ طبعی حقیقتاً ایک بے خبر اور بے شعور عمل ہے۔ اس کی کوئی مرضی نہیں ہوتی کہ جانداروں کے لئے کیا چیز مناسب ہے اور کیا غیر مناسب ہے۔ اسی لئے ”پیچیدگی جو کم نہیں کی جاسکتی “ کی خصوصیت جو کہ انتخابِ طبعی میں موجود ہے وہ جانداروں کے حیاتیاتی نظام اور اعضاءکا جواب نہیں دے سکتی۔ جانداروں کے پیچیدہ اعضا اور نظام کئی مختلف حصوں کا مرکز ہیں جن میں سے اگر ایک حصہ بھی کم ہوجائے یا اس میں نقص آجائے تو پورا نظام ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر قوتِ بصارت کو ذرا سا بھی نقصان پہنچے تو بینائی ضائع ہوجاتی ہے۔ صرف اس تمام نظام کو مجتمع کرنے والی طاقت کو ہی اندازہ ہے کہ نظام کو مکمل طور پر درست کارکردگی کا متحمل ہونے کے لئے کس طریقے سے مکمل ہونا ضروری ہے۔ چونکہ انتخاب طبعی میں کوئی مرضی یا مستقبل کو جانچنے کی اہلیت موجود نہیں اس لئے وہ اس طرح کا کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ یہ حقیقت اس نظریئے کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتی ہے۔ ڈارون بھی اس مسئلے پر پریشان تھا۔ وہ لکھتا ہے:

ً”اگر کسی پیچیدہ عضو کی موجودگی کا ثبوت قائم ہوجائے جس کا کسی بھی طرح کی معمولی اور سلسلہ وار تبدیلی کے ذریعے وجود میں آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہو تو میرا نظریہ مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا۔“ ۷۱

انتخابِ طبعی کے ذریعے کسی بھی نسل کے صرف بدہیئت، کمزور اور بیمار وجود ہی قدرتی طور پر ختم ہو سکتے ہیں مگر اس عمل سے نئی نسلیں، نئی جینیاتی معلومات یا نئے اعضاءپیدا نہیں ہو سکتے۔ آسان الفاظ میں جاندار نسلیں انتخاب طبعی سےوجود میں نہیں آسکتیں۔ ڈارون نے اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا تھا۔”انتخاب طبعی کسی کام کا اہل نہیں جب تک کہ مناسب تبدیلیاں اتفاقاً رونما نہ ہوجائیں۔“ ۸۱

اس صورتحال کی وجہ سے نوڈاروینیت کو جینیاتی تبدیلیوں کے نقطے کو ’ فائدہ مند تبدیلیوں کی وجہ ‘ کے طور پر جینیاتی تبدیلی کا ہم پلہ کرنا پڑا۔ لیکن آگے ثابت ہوگا کہ جینیاتی تبدیلی کسی بھی فائدے کی نہیں بلکہ سراسر نقصان دہ تبدیلی کی وجہ ہے۔

جینیاتی تبدیلی

جینیاتی تبدیلی کسی جاندار کے DNA میں نئی معلومات کا اضافہ نہیں کرتی۔ جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں جینیاتی معلومات کی تشکیل کرنے والے ذرات اپنی جگہوں سے پھٹ کر الگ ہوجاتے ہیں، ضائع ہوجاتے ہیں یا دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ کسی بھی جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں کسی جاندار کا نیا عضو یا نئی عادت حاصل کرلینا ناممکن ہے۔ یہ تبدیلی صرف غیر معمولی بدہیئتیں پیدا کرسکتی ہے مثلاً پیٹھ پر سے ٹانگ اور پیٹ پر کان کا اگ آنا۔

جینیاتی تبدیلی کا مفہوم DNA کے ذرے میں تعطل یا تبدیلی ہے۔ DNA اپنی مثل پیدا کرنے والا مادہ ہوتا ہے جو تقریباً سب زندہ نامی اجسام میں موجود ہوتا ہے اور جس میں اس جسم سے متعلق تمام جینیاتی معلومات موجود ہوتی ہیں۔ اس مادے میں تعطل یا تبدیلی بیرونی نورافگنی یا کیمیائی اثرات کے تحت پیدا ہوتی ہے۔ ہر جینیاتی تبدیلی ایک حادثہ ہوتا ہے جس کے تحت DNA کے مادے کے ذرات توڑ پھوڑ کا شکار ہوجاتے ہیں یا ان کی جگہ بدل جاتی ہے۔ اکثر اوقات DNA کا مادہ اتنے زیادہ نقصان کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس کی مرمت اس خلیئے کے لئے ناممکن ہوجاتی ہے جس کے اندر وہ موجود ہوتا ہے۔ ارتقاءپسند اکثر جینیاتی تبدیلی کے وصف کے پیچھے منہ چھپانے کی کوشش اس دعوے کے ساتھ کرتے ہےں کہ یہ عمل ایک ایسی جادو کی چھڑی ہے جو کہ جاندار نسلوں کو مزید ترقی یافتہ اور بہترین بنانے کے لائق ہے۔ لیکن جینیاتی تبدیلی کے براہِ راست اثرات صرحاً نقصان دہ ہیں۔ جینیاتی تبدیلی کے اثرات ہیروشیما، ناگاساکی اور چرنوبل کے نیوکلیائی حادثات میں واضح ہیں جن کا نتیجہ صرف موت، بیماری اور معذوری تھا۔ اس کی وجہ بہت سیدھی سادھی ہے۔ DNA کے مادے کی ساخت بے انتہا پیچیدہ ہے اور بے ترتیب اثرات اس مادے کو صرف نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ بی جی رانگانیتھن کے الفاظ میں:

”اول بات تو یہ ہے کہ قدرت میں بے ترتیب جینیاتی تبدیلی ایک بے انتہا غیر معمولی واقعہ ہے۔ دوسرا یہ کہ زیادہ تر جینیاتی بے ترتیبی نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ یہ جینیات کی ساخت میں ترتیب وار تبدیلی کے برعکس ایک بے ترتیبی ہوتی ہے۔ کسی بھی بے انتہا پیچیدہ نظام میں معمولی سی بھی بے ترتیب تبدیلی صرف نقصان پیدا کرسکتی ہے، فائدہ نہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک زلزلہ ایک پیچیدہ عمارتی ڈھانچے کو ہلادے تو اس سے اس عمارت کے تعمیراتی ڈھانچے میں شدید بے ترتیبی پیدا ہوجائے گی جس کو کسی طور سے بھی بہتری کا نام نہیں دیا جاسکتا۔“ ۹۱

یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ آج تک کوئی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی سامنے نہیں آئی ہے۔ تمام جینیاتی تبدیلیاں سراسر نقصان دہ رہی ہیں ۔ارتقائی سائنسدان وارن ویور اس رپورٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے جو کہ ایٹمی نورافگنی کے جینیاتی اثرات کی کمیٹی نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران ایٹمی ہتھیار کی وجہ سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر لکھی تھی:

”بہت سے لوگ اس بات پر حیران ہوں گے کہ تقریباً ساری ہی تبدیل شدہ جینیات نقصان دہ ہیں کیونکہ جینیاتی تبدیلی کو ارتقائی عمل کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن ایک اعلیٰ نسل کو پیش کرنے والا عمل ان تبدیل شدہ جینیات کا نتیجہ کیسے ہو سکتا ہے جو کہ سراسر نقصان دہ ہیں، فائدہ مند ہرگز نہیں؟“ ۰۲

۰۲ ویں صدی کی شروعات سے ارتقاءپسند ماہرِ حیاتیات جینیاتی تبدیلی کے ذریعے پیدا کی گئی مکھیوں سے فائدہ مند جینیاتی تبدیلی کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کاوشوں کا نتیجہ بدہیئت اور بیمار مکھیوں کی شکل میں نکلا ہے۔ اوپر والی تصویر میں ایک صحت مند پھلوں کی مکھی کا سر ہے اور نیچے والی تصویرمیں اسی مکھی کے سر سے ٹانگیں نکلی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اوپر کی ایک تصویر میں اس مکھی کے پر بھی جینیاتی تبدیلی کے باعث بدشکل ہوچکے ہیں۔

ایک بھی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی کو وجود میں لانے کے لئے کی جانے والی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔ کئی دہائیوں تک ارتقائی سائنسدانوں نے پھلوں کی مکھی پر جینیاتی تجربے کئے کیونکہ یہ مکھی بہت تیزی سے نسل بڑھاتی ہے اور اس لئے اس میں جینیاتی تجربوں کے اثرات بھی تیزی سے رونما ہوتے نظر آسکتے تھے۔ اس مکھیوں کی نسل در نسل پر یہ تجربے کئے گئے لیکن ایک بھی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی سامنے نہیں آئی۔

ارتقائی ماہرِ جینیات گورڈن ٹیلر لکھتا ہے:

”گوکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے لیکن اس پر تبصرہ بہت کم اوقات کیاجاتا ہے کہ دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں ماہرِ جینیات پھلوں کی مکھیوں کی افزائش جینیاتی تجربوں کی شدید ناکامی کے باوجود مسلسل کئے جارہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ یہ مکھی ہر گیارہ روز بعد ایک نئی نسل جن دیتی ہے ان سائنسدانوں نے اپنے کسی بھی تجربے سے ابھی تک اس مکھی کی نسل تو کجا اس میں کسی نئے لحمیہ کا وجود تک نہیں پایا“۔ ۱۲

ایک اور تجربہ دان مائکل پٹمین بھی پھلوں کی مکھی پر کئے جانے والے تجربوں کی ناکامی کے بارے میں لکھتا ہے:

”مورگن، گولڈ اشمتھ، ملر اور کئی دوسرے ماہرِ جینیات نے پھلوں کی مکھی کی نئی نسلوں کو شدید گرمی، سردی، روشنی، اندھیرے، کیمیائی اور نورافگنی کے ماحول میں رکھا۔ ہر طرح کی معمولی سے لے کر تباہ کن جینیاتی تبدیلی ان کے اندر پیدا کی گئی۔ انسان کی پیدا کی گئی نسلیں؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ ان ارتقائی عجیب الخلقت حیوانات میں سے ایک بھی اپنی نسل کی افزائش کرنے کے لائق نہیں تھا اگر اس کو اس بوتل سے باہر نکال دیا جاتا جس میں وہ تجربوں کی مدد سے وجود میں لایا گیا تھا۔ عملی طور پر جینیاتی طور پر تبدیل شدہ نسل مرجاتی ہے یا بانجھ ہوتی ہے یا پھر مکمل طور پر جنگلی ہوجاتی ہے۔“ ۲۲

یہ اصول انسانی نسل پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ انسانی نسلوں میں جینیاتی تبدیلیوں کے نتیجے تباہ کن رہے ہیں۔ اس معاملے میں ارتقاءپسند معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے وہ نمونے پیش کرتے ہیں جو کہ تباہ کن اثرات کا مجسمہ ہونے کے باوجود ان کے حساب سے ارتقاءکا ثبوت ہیں۔ انسانوں میں جینیاتی تبدیلی کا نتیجہ جسمانی معذوری اور ڈاون سنڈروم، منگولزم، البینو، بونے اور کینسر جیسی بیماریاں ہیں۔ ان تمام جینیاتی معذوریوں کو ارتقاءکی نصابی کتابوں میں ارتقاءکے عملی ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ بات ان ارتقائی سائنسدانوں کی سمجھ سے باہر ہے کہ کوئی بھی عمل جو کہ لوگوں کو معذور اور بیمار بنا دے وہ ایک فائدہ مند ارتقائی عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ ارتقاءکا صحیح مفہوم ایسے جاندار پیدا کرنا ہے جن کے اندر اپنے ماحول میں بہترین طریقے سے پنپنے کی صلاحیت موجود ہو۔

خلاصے کے طور پر تین وجوہات ایسی ہیں جن کی روشنی میں جینیاتی تبدیلی ارتقاءپسندوں کے دعوﺅوں کو سہارا دینے سے قاصر ہے:

۱۔ جینیاتی تبدیلی کے براہِ راست اثرات نقصان دہ ہیں۔ کیونکہ جینیاتی تبدیلی ایک بے ترتیب عمل ہے اس لئے یہ تقریباً ہمیشہ اس جاندار کو نقصان پہنچاتا ہے جس میں یہ رونما ہوتا ہے۔ منطق کے حساب سے بھی یہ اصول سمجھنا مشکل نہیں کہ کسی بھی پیچیدہ اور مکمل ساخت میں ایک بے شعور اور بے ترتیب مداخلت اس ساخت کو فائدہ ہرگز نہیں پہنچاسکتی۔ اس لئے آج تک کوئی مداخلت اس ساخت کو فائدہ ہرگز نہیں پہنچاسکتی۔ اسی لئے آج تک کوئی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی سامنے نہیں آئی۔

۲۔ جینیاتی تبدیلی کے ذریعے کسی بھی جاندار کے DNA کے مادے میں نئی معلومات کا اضافہ نہیں ہوسکتا۔ جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں جینیاتی معلومات کے ذرے یا تو اپنی اصل جگہ سے الگ ہوجاتے ہیں، مکمل طور پر تباہ ہوجاتے ہیں یا پھر کسی اور جگہ پر منتقل ہوجاتے ہیں۔ جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آج تک نئی عادات اور نئے اعضاءپیدا نہیں ہوئے، صرف موجودہ اعضاءمیں شدید معذوری نظر آئی ہے مثلاً پیٹھ پر ٹانگ کا اگ آنا یا پیٹ پر کان کا ابھر آنا۔

۳۔ اگر جینیاتی تبدیلی نے دوسری نسل میں منتقل ہونا ہے تو اس کے لئے اس کا عمل جاندار کے افزائشی خلیوں کے اندر ہونا لازمی ہے۔ کسی جاندار کے عام خلیئے یا عضو کے اندر پیدا ہونے والا بے ترتیب عمل اس کے آنے والی نسل میں اس وقت تک منتقل نہیں ہوسکتا جب تک کہ افزائشی خلیوں میں موجود DNA کا مادہ جینیاتی تبدیلی کے اثرات کے تحت تبدیل ہوجائے۔ مثال کے طور پر نورافگنی اثرات سے انسانی آنکھ کے اندر پیدا ہونے والی تبدیلی آنے والی نسل کو منتقل نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح جانداروں کی افزائش ارتقاءکے عمل کے تحت ممکن ہی نہیں کیونکہ قدرت نے ایسا کوئی نظام ہی نہیں بنایا۔ فوصلی ریکارڈ بھی اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے۔ فوصل کسی بھی زاویئے سے ارتقائی عمل کی تصدیق نہیں کرتے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
(ماخوذ از: نظریہ ارتقاء- ایک دھوکہ)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...