Wednesday, 11 April 2018

بچوں کی تربیت پر مکمل گائیڈ

بچوں کی تربیت پر مکمل گائیڈ

(مصنفہ: بشری تسنیم)

گود سے کے کر جوانی تک مختلف عمر کے بچوں کی تربیت پر ایک مکمل مضمون جو ہر ذمہ دار والد اور والدہ کے لئے پڑھنا ضروری ہے۔

پہلا حصہ :تخلیق(حمل) کے عمل کے دوران والدین کا رویہ
عورت کے لئے بچے کی پیدائش سے پہلے کا زمانہ ایک سخت تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ وہ مختلف ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ ہر بچہ اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کے لئے ایک پیغام ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون سا بچہ والدین کے لئے باعث سعادت اور معاشرے کے لئے باعث رحمت ہو گا۔ ہر آنے والا بچہ دنیا میں اپنے حصے کا رزق اور مقدر لے کر آتا ہے۔ بچوں کی پیدائش پہ دل میں تنگی محسوس کرنا، چاہے وہ کسی بھی سوچ کے ساتھ ہو، نرم سے نرم الفاظ میں بھی اللہ سے بغاوت ہے۔

بچے کا تعلق ابتدائی دنوں سے ہی ماں کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ ننھا سیا خلیہ (Cell) محض ایک جرثومہ نہیں، بلکہ ایک مکمل شخصیت کا نقطہ آغاز ہوتا ہے، اور وہ اپنی ماں سے خاص نسبت رکھتا ہے۔ تخلیق کا عمل اللہ کا ایک کھلا کرشمہ ہے۔ ایک معمولی خلیے کا چھ سے دس پونڈ کے انسان میں تبدیل ہو جانا بلاشبہ ایک حیرت انگیز عمل ہے۔
تخلیق کے عمل سے گزرنے والی خاتون پر اللہ تعالی کی شکر گزاری لازم آتی ہے کہ خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کی تخلیق کے لئے اسے منتخب کیا ہے۔ حاملہ خاتون کو حسن نیت، اور خوش اسلوبی کے ساتھ اس ڈیوٹی کو انجام دینا چاہیے۔ ایک سچی مسلمان عورت یہ زمانہ مصیبت سمجھ کر نہ گزارے، بلکہ ان تکالیف کو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ اس زمانے میں وہ اللہ تعالی کی خصوصی نظر رحمت میں ہوتی ہے۔ اس شفیق ذات نے اس کے روزمرہ فرائض کو اجر کے حساب سے نفع بخش ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ایک حاملہ عورت کی نماز عام عورت کی نماز سے افضل ہے۔ حاملہ عورت اگر رب کریم کی فرماں بردار ہے اور اس کی لو اپنے رب سے لگی ہوئی ہے تو سارے زمانہ حمل میں اس کو رات اور دن میں بے پناہ ثواب ملتا ہے۔
باپ کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پاکیزہ اور صالح کردار پر اٹھانے کے لئے گھر میں ایسی کمائی لائے جو حلال اور طیب ہو۔ اپنی اولاد کو اگر حرام کمائی سے سینچا گیا تو اس کے کردار و اعمال میں شرافت کی سی تابندگی کیسے آئے گی؟۔۔۔۔
ہمہ وقت اللہ کا ذکر، نماز کی پابندی، باوضو رہنا، پاکیزہ گفتار ہونا، جسمانی، روحانی اور ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ ہر وہ غذا جو حاملہ عورت کھاتی ہے، اس میں اس ننھی سی جان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اگر جسمانی غذا معمول سے زیادہ درکار ہوتی ہے تو روحانی غذا کا تناسب بھی تو پہلے سے زیادہ چاہیے۔۔۔۔۔
ماہرین نفسیات سفارش کرتے ہیں کہ والدین اپنے آئندہ بچے کو جیسا کچھ بنانا چاہتے ہیں، ماں کو اسی کی طرف یکسو رہنا چاہیے۔ جن لائن پر لگانا چاہتے ہیں، جس مضمون یا فن کا ماہر بنانا چاہتے ہیں، ماں کو بھرپور اسی کی توجہ دینی چاہیے اور ویسے ہی ماحول میں رہنا چاہیے۔
ایک مسلمان ماں اپنے بچے کو "نمائندہ مسلمان” بنانا چاہتی ہو گی تو وہ ضرور ان سب امور کا خیال رکھے گی۔ بزرگان دین کی مائیں اکثر و بیشتر قرآن پاک کو ہر وقت ورد زبان رکھتی تھیں۔ آج بھی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ جب ماں نے مدت حمل میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت سنی، خود بھی ورد زبان بنایا اور ایک ہی قاری کی زبان، لب و لہجہ میں کثرت سے قرآن سنا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ نومولود قرآن کی تلاوت کو حیرت انگیز دلچسپی سے سنتا اور جب قرآن سیکھنے کی عمر ہوئی تو حیرت انگیز طور پر بہت جلد سیکھ گیا۔
ایک ذمہ دار اور حساس مسلمان ماں وہ ہے، جو زمانہ حمل میں متقی خواتین کی صحبت سے فیض یاب ہو، قرآن و حدیث کا بکثرت مطالعہ کرے، قرآن پر غور و فکر کرے اور درس و تدریس میں وقت گزارے۔ اپنی دیگر ذمہ داریوں کو بھی اللہ تعالی کی رضا کے لئے انجام دے۔ یہ آزمائی ہوئی بات ہے کہ مستقل بنیادوں پر منعقدہ قرآنی کلاسوں میں شامل ہونے والی خواتین نے اس بچے کی عادات میں نمایاں تبدیلی محسوس کی، جو قرآنی کلاسوں میں شریک ہونے کے زمانے میں رحم میں پرورش پا رہے تھے۔
ماں بننے والی خاتون کو شعوری کوشش کے ساتھ صبر و قناعت اور قوت برداشت کا اجاگر کرنا چاہیے۔ وہ بنیادی اخلاقی عیب جو انسانی زندگی کو بدصورت بناتے ہیں اور انسانیت کی توہین ہیں مثلاً بغض، کینہ، حسد، تکبر اور جھوٹ سے بچنے کی کوشش کرے۔ بے جا، لایعنی اور غیر ضروری بحث سے گریز کرے۔ ذکر و تسبیح کو اپنا معمول بنائے۔ یقیناً اس کی عبادت، ذکر، روزہ و دیگر حقوق و فرائض کی ادائیگی میں ایک معصوم روح بھی شریک ہوتی ہے اور وہ اللہ کے حضور اپنی ماں کے ہر نیک عمل کی گواہ بھی ہو گی۔
جسمانی غذا کے ساتھ روحانی غذا بھی اعلی اور زیادہ مقدار میں ہونی چاہیے۔ روشن کردار، اعلی ذہنی و فکری استعداد کی مالک ماں ہی اپنے بچے کے روشن مستقبل کی فکر کر سکتی ہے۔ کم ظرف، جھگڑالو، حاسد، احساس برتری یا کمتری کی ماری، ناشکری اور بے صبری عورت، اعلی کردار کا سپوت قوم و ملت کو کیسے دے سکتی ہے۔
جسمانی صحت و صفائی کے ساتھ ساتھ ماں کو روحانی صحت و صفائی کا خیال رکھنا لازمی امر ہے۔اور اپنے ہونے والے بچے کا دھیان بھی اس غذا کے ساتھ رکھنا کہ وہ اس غذا میں حصہ دار ہے۔ اسی طرح عورت اپنے ہر چھوٹے، بڑے کام میں زیر تخلیق معصوم ہستی کو شامل رکھے تو اس کی اپنی روحانی تربیت میں بے حد اضافہ ہو گا۔ گویا ماں بننے کے مراحل میں عورت خود اپنے لئے ایک ایسا ادارہ بن جاتی ہے، جس میں ہر لمحہ اس کو ایک بات سیکھنے اور سکھانے میں مدد ملتی ہے اور اللہ تعالی کی نظر رحمت میں رہتی ہے۔۔۔۔
اللہ تعالی سے محبت کرنے والی، روشن ضمیر، اللہ پر توکل کرنے والی خاتون روحانی طور پر مضبوط اور پرعزم ہوگی۔ اس زمانے میں عورت کے گھر کا ماحول اور خصوصا شوہر کا رویہ اور انداز فکر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس غیر معمولی صورت حال میں شوہر کی بھی ذمہ داریاں غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں۔ اس لئے خاتون کی ذہنی، جسمانی، روحانی طمانیت کے لئے شوہر کو بھرپور طریقہ سے اپنا کردار انجام دینا چاہیے۔ یہ شوہر کا فرض عین ہے جس کی اس سے باز پرس ہو گی۔ دیگر رشتہ دار اور شوہر ایک نئی ہستی کو دنیا میں لانے کے لئے عورت کو جتنی آسانیاں، آرام، ذہنی و جسمانی سکون مہیا کریں گے تو وہ بھی لازماً اس کا صلہ اللہ تعالی کے ہاں پائیں گے۔ دیکھا گیا ہے کہ تخلیق کے مراحل میں پورے نو ماہ جس خاتون کے شوہر نے بیوی کے آرام و سکون کے لئے خاطر خواہ انتظامات کئے، اپنی نفسانی اور عمومی خواہشوں کی تکمیل کے لئے قربانی اور ایثار کا راستہ اختیار کیا، ان کے بچے صحت مند، خوبصورت، ذہین اور پراعتماد نکلے۔

دوسرا حصہ :شیر خوار بچے کی تربیت کیسے کی جائے؟

پیدائش کے فوراً بعد ہر جاندار مخلوق کا نومولود اپنی ماں کی طرف کشش رکھتا ہے، چاہے اس کا انڈوں سے ظہور ہو یا رحم مادر سے۔ دودھ پلانے والے جانداروں میں مشاہدات کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بچہ اپنی ماں کو اور ماں اپنے بچے کو، ایک دوسرے کی بو سے پہچانتے ہیں۔۔۔۔۔
قدرت نے نوزائیدہ شیر خوار بچے کی ساری کائنات ماں کی گود اور ماں کے دودھ سے وابستہ کر دی ہے۔ بچے کو شروع سے ہی ماں کا قرب نصیب ہونا چاہیے۔ آج کل بچے کو ہسپتالوں میں ماں سے دور نرسری میں رکھا جاتا ہے جس سے ماں اور بچہ ایک دوسرے کی مخصوص بو اور تعلق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ماں کو دو سال تک دودھ پلانے کی ہدایت کی ہے۔ یہی دو سال کا عرصہ بچے میں تعلیم حاصل کرنے کی قوت اور ذہنی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے ماں اپنا دودھ نہ پلا رہی ہو تو فیڈر سے دودھ پلانے کے لئے بھی ماں اپنے بچے کو گود میں لے کر سینے سے لگا کر پلائے۔ اللہ تعالی نے دودھ پلانے والی ماں کو خصوصی اجر سے نوازا ہے۔۔۔۔
ہمارے لئے قابل تقلید بزرگوں کی مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہو کر دودھ پلاتی تھیں۔ ساتھ ساتھ کانوں میں کوئی بہترین پیغام اور آیات الہی، لوری(اسلامی تعلیمات پر مبنی کلمات) کی صورت میں سناتی تھیں۔۔۔۔ بعض لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ نوزائیدہ بچے کو چالیس دن کے اندر اندر قرآن پاک کی تلاوت سنا دی جائے تو اس کے بہت سے مثبت اثرات سامنے آتے ہیں۔۔۔۔ بچہ بولنے کی کوشش کرنے لگے تو سب سے پہلے "اللہ” کا نام سکھایا جائے۔ اذان کی آواز پر متوجہ کیا جائے۔ کلمہ طیبہ، بسم اللہ، الحمد للہ، السلام علیکم جیسے بابرکت کلمات سے بچے کی زبان کو تر کیا جائے۔۔۔ (بعد میں اسماء الحسنی حفظ کروائیں جائیں)
پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ: "صرف موروثی اثرات ہی مزاج بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔” مگر اب سائنس دان یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ "بچپن کا ماحول بھی بچہ کے مزاج کو ڈھالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔” اور عصبیاتی تحقیقات (Neurological Studies) کی روشنی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈیویلپمنٹ کے اسٹیفن سومی نے ثابت کیا ہے کہ: "نوزائیدہ بچے کے دماغ کے خلیات میں سائنافسز (Synapses) شروع کے چند ماہ میں بیس گنا بڑھ جاتا ہے اور دو سال کی عمر کے ایک بچے میں ایک بڑے آدمی کے مقابلے میں یہ سائنافسز دگنے ہو جاتے ہیں۔
بچے کا والدین سے تعلق، اس کے دماغ کے ان حصوں کی بناوٹ پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر شروع کے دو تین سال بچے کو والدین، خصوصاً ماں کی بھرپور توجہ، شفقت نہ ملے اور خصوصی باہمی تعلق پیدا نہ ہو تو ساری زندگی غیر معمولی جارحانہ پن، منفی انداز فکر، ذہنی پراگندگی پیدا ہو سکتی ہے۔ ماں اور بچے کے درمیان ہر عمر میں قربت قائم رہنی چاہیے۔
بچہ چند دن کا ہو، چند سال کا یا جوان، حتی کہ جوانی کی حد سے نکل جانے والے "بچے” بھی ماؤں کی گود میں سر رکھ کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ماں کی قربت میں ایک انمول کشش رکھ دی ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ جو مائیں اپنی سستی، کوتاہی یا کسی مجبوری کی بنا پر ہی سہی، اپنے بچوں کے ساتھ ایسا تعلق پیدا نہیں کر سکتیں، ان کے بچے ساری عمر ماں کی محبت میں کمی اور تشنگی کو محسوس کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔ مثبت اور خوشگوار مشاہدات، جذبات و احساسات کا حامل بچہ اپنے لاشعور سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس میں قوت اعتماد، قوت فیصلہ اور سمجھ بوجھ زیادہ پائی جاتی ہے۔
دماغ کے ماڈل کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ کے پہلے حصے (Primitive) شروع کے تین سال کی عمر میں مکمل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ نو سے گیارہ سال کی عمر میں دماغ میں تبدیلی آتی ہے۔ دماغ کوئی پتھر کا ٹکڑا نہیں ہے، بلکہ اس میں مستقل تبدیلی آتی رہتی ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت، ماحول، جذبات و احساسات، تجربات و مشاہدات اس کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دماغ کے پہلے سے بہتر مطالبات ہوتے ہیں۔ گویا انسانی مشینری ہمہ وقت اور بھرپور توجہ کی متقاضی ہے۔ یہ کوئی جامد چیز نہیں ہے کہ بس ایک لگے بندھے طریقے سے چلتی رہے گی۔
دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد بچے کو اچھا انسان اور بہترین مسلمان بننے کے لئے، بہترین ماحول چاہیے۔ شخصیت کی صحت مندانہ نشوونما کے لئے ایک صحت مند تصور ذات اسے والدین اور اہل خانہ ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر والدین بچے کی عزت نفس اور اس کی شخصیت کی نفی کا رویہ اختیار کریں گے، تو اس کے ذہن میں یہی نقوش ثبت ہو جائیں گے اور وہ کبھی اپنے والدین یا اہل خانہ کے بارے میں مثبت انداز فکر نہیں اپنا سکے گا، الا یہ کہ اس کی ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں اس منفی رویہ کو خود بدل لیا جائے۔
بہرحال جو اثرات ایک مرتبہ قائم ہو جائیں وہ ختم تو نہیں ہوتے، البتہ بعد کے حالات اس میں تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں۔۔۔۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ ایک پانی کا چشمہ اپنے فطری بہاؤ کے ساتھ فطری راستے پر بہہ رہا ہو۔ اگر اس راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کر دی جائے تو پانی فطری راستے کی بجائے مختلف اطراف میں بہنا شروع کر دے گا۔
بچے کے ذہن میں مثبت طرز فکر پہنچاتے رہنا چاہیے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا سا بچہ شاید ہماری بات نہیں سمجھ رہا، مگر وہ اس کے ذہن میں ریکارڈ ہوتی جاتی ہے اور جب، جہاں جس طرح وہ بات کارآمد ہو، ذہن وہاں منتقل کر دیتا ہے۔

تیسرا حصہ :گفتگو کرنے والے بچے کی تربیت کیسے کی جائے؟

چند سال کا بچہ جب ذرا سمجھ دار ہو جاتا ہے تو وہ ایک چھوٹا سا سائنس دان ہوتا ہے۔ گھٹنوں کے بل چلنے کی عمر سے لے کر تین چار سال تک وہ ہر نئی شے تک پہنچنے اور پرکھنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق بہت کچھ خود ہی سیکھ اور سمجھ لیتا ہے۔ یہ وہ ذہنی استعداد ہے جو رحم مادر سے لے کر باہر کا ماحول اسے فراہم کرتا ہے۔ اس کا لاشعور جو تربیت پا چکا ہوتا ہے وہ شعوری طور پر اس کا اظہار کرنا چاہتا ہے، تاکہ اگلے مرحلے میں وہ مزید اپنے ذہن کی نشوونما کر سکے۔
بچے کی روحانی غذا شروع دن سے اسی طرح بڑھانی چاہیے، جیسے کہ جسمانی غذا بتدریج بڑھائی جاتی ہے۔ اگر جسمانی غذا شروع دن سے ناقص ہو گی، کم ہوگی، بروقت نہ ملے گی تو بچہ جسمانی طور پر کمزور ہوگا۔ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائے گا اور وہ معذور بھی ہو سکتا ہے، اگرچہ وہ صحت مند پیدا ہوا ہو۔
بالکل اسی طرح شروع دن سے روحانی غذا بروقت نہ ملے گی، نامکمل اور ناقص ہوگی تو بچہ روحانی طور پر کمزور، بیمار اور شاید معذور ہوگا۔ جس طرح حاملہ عورت کو کچھ بیماریوں سے بچاؤ کے لئے حفاظتی ٹیکے لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے، اسی طرح روحانی بیماریوں سے بچنے کے لئے بھی پیدائش سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے اور پیدائش کے بعد بھی ان کا علاج کرنا ہوگا۔ اور وہ نیت کی درستگی، فرائض کی ادائیگی میں پابندی، قلب و نگاہ کو شعور مسلمان بنانے کے علاوہ اور کیا ہے؟
ہم اپنے بچوں کی صحت کے بارے میں تو فکر مند رہتے ہیں کہ اس کا رنگ کیوں پیلا پڑ رہا ہے؟ اسے بھوک کیوں نہیں لگ رہی؟ اسے نید کیوں نہیں آتی؟ پھر ہم اپنی استطاعت کے مطابق اچھے اچھے ڈاکٹروں سے اس کا علاج معالجہ کراتے ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہم اپنے اسی بچے کی اخروی زندگی اور خود اس زندگی میں روحانی اور تہذیبی ترقی کے لئے ویسے فکرمند نہیں ہوتے۔ اس میں پائی جانے والی کمی کے لئے کسی اچھے دانش مند اور نیک سیرت انسان سے رجوع کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جس طرح اپنے بچے کی جسمانی صحت کے بارے میں لاپرواہی برا فعل ہے، اسی طرح بچے کی روحانی زندگی سے لاتعلقی بھی نہایت غلط اقدام ہے۔
دور جدید میں دعوت دین کا طریق کار۔ یہ تحریر دعوت دین کی اہمیت، دین کا کام کرنے والوں کی شخصیت، دعوت دین کی منصوبہ بندی اور دعوتی پیغام کی تیاری کے عملی طریق ہائے کار کی وضاحت کرتی ہے۔ ان افراد کے لئے مفید جو کہ دعوت دین میں دلچسپی رکھتے ہوں۔
جسمانی غذا اور روحانی غذا کے ساتھ ساتھ جسمانی و روحانی لباس کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ جسمانی لباس بچے کو عمر، موسم اور حالات کے لحاظ سے پہنایا جاتا ہے۔ چند دن کے بچے کو چند سال کے بچے کی خوراک اور چند سال کے بچے کو ایک جوان بچے کی خوراک دینا مناسب نہیں۔ جس طرح چند دن کے بچے کا لباس چند سال کے بچے کو اور کسی جوان کو چند سال کے بچے کا لباس زیب نہیں دیتا اور نہ عقل اس کو قبول کرتی ہے، اسی طرح روحانی لباس یعنی تقوی کا لباس بھی عمر، موسم، حالات اور ذہنی استعداد کے مطابق ساتھ ساتھ تیار کرتے رہنا ضروری ہے، بلکہ تقوی کا لباس و خوراک اس سے بھی زیادہ حکمت عملی اور احتیاط کا متقاضی ہے۔
بچہ بہت جلد اپنے والدین کی خوشی و ناراضی کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ ماں بھی بچے کو سمجھانے کی خاطر اسے باپ کی ناراضی کا احساس دلاتی ہے، یا اس کے خوش ہونے کی وجہ بتاتی ہے کہ کس کام سے ابو ناراض اور کس سے خوش ہوں گے۔ اسی طرح شروع ہی سے بچے کے دل اور دماغ میں اللہ تعالی کی محبت اور خوشی کا احساس دلانا چاہیے، کہ اللہ تعالی کس قدر مہربان ہے اور ہر چیز وہی عطا کرنے والا ہے۔
بچے کو احساس دلایا جائے کہ وہ محبت کرنے والی ہستی باری تعالی ناراض ہو جائے تو پھر سب ناراض ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی ہی سب کے دلوں میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ بچے سے محبت کی جائے، پیار کیا جائے، اس کو اچھی اچھی چیزیں لا کر دی جائیں۔ بچے کے دل میں یہ یقین بٹھا دیا جائے کہ اگر اللہ تعالی کوئی چیز دینا چاہے تو وہ مل سکتی ہے۔ اس لئے اللہ کو ہمیشہ راضی اور خوش رکھنے کے لئے ہر اچھا کام کرنے کا جذبہ بچے کے ذہن، قلب اور سانسوں تک میں اتار دیا جائے۔ اللہ تعالی کی محبت کو خوشبو کی طرح بچے کے دل میں بٹھا دیا جائے۔ اللہ تعالی کی ذات کا تعارف: مہربان، شفیق، پیار کرنے والا، ہر چیز سے آگاہ اور وحدہ لاشریک کے طور پر کرایا جائے۔(اللہ تعالی سے مانگنے اور اللہ تعالی ہی سے ہونے یقین دلایا جائے۔)
بچے کی شخصیت کا خاکہ بن جانے کے لئے پہلے پانچ سال اہم ہیں۔ باقی عمر اس خاکے میں رنگ بھرتے رہنا ہے۔ کسی بھی عمارت میں بنیادوں کی جو اہمیت ہوتی ہے، عمر کے ابتدائی پانچ سال کی حیثیت بھی ویسی ہی ہے۔ سفید اور کورے کپڑے پر جو رنگ چڑھ جائے وہ ساری عمر باقی کے رنگوں میں اپنی جھلک دکھاتا رہے گا۔ خارجی ماحول اور عارضی حالات بچے کو کسی وقت بدل بھی دیں، اس تبدیلی میں یہ ابتدائی عمر کے احساسات ضرور اپنا حصہ محفوظ رکھیں گے۔ یہ عمر انسان کے عیوب و محاسن کی نشان دہی کر دیتی ہے۔ اس کے بعد تعلیم و تربیت، ماحول اور حالات یا تو عیوب کو اجاگر کرتے چلے جاتے ہیں یا محاسن کو، اور اسی کے مطابق دماغی نشوونما ہوتی چلی جاتی ہے۔
مسلمان ماؤں کے لئے بچے ہی ان کے امتحانی پرچے ہیں۔ جس کے جتنے بچے ہیں اس کے اتنے ہی پرچے ہیں اور انہی پرچوں کے نتیجے پر ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ ان پرچوں کا نتیجہ بھی خود اللہ تعالی نے تیار کرنا ہے۔ کامیاب ہونے پر انعام سے نوازنا ہے اور انعام بھی کیا ہے؟ جنت جیسی عظیم نعمت اور اپنی رضا کی بشارت اور رب سے ملاقات کی نوید۔
اسکول بھیجنے سے پہلے بچے میں اپنے مسلمان ہونے پر فخر کا جذبہ ضرور پیدا کر دینا چاہیے۔ اسکول کا ماحول گھر کے اور مسلمان والدین کے ذہن سے مطابقت رکھتا ہو تو بہت خوش نصیبی ہے ۔۔۔ ورنہ والدین کو بہت سمجھ بوجھ اور ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ دین داری کو احساس کمتری کا نشان نہ بنایا جائے۔ دین اسلام کے بارے میں کسی معذرت خواہانہ طرز عمل سے اسے بچایا جائے۔ بچے کے دل میں یہ جرأت پیدا کی جائے کہ وہ پورے یقین کے ساتھ جانے اور اظہار کرے کہ اس کا لباس اسلامی ہے اور یہی سب سے بہتر ہے۔ اس کا طریقہ سب سے اچھا ہے۔ والدین کے خود اپنے ایمان میں پختگی ہوگی تو وہ اپنے بچے کو بھی یہ چیز بہتر طریقہ سے منتقل کر سکیں گے۔ بچے کو اتنا طاقتور ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں کو دلیل اور شائستگی کے ساتھ بدل دینے کا اور خود کو بہتر راستے پر گامزن رکھنے کا احساس زندہ رکھ سکے۔
مسلمان ہونے پر احساس تشکر و مسرت پیدا کیا جائے۔ دوسرے مسلمان بچوں کو اپنے اوپر استہزاء کا موقع نہ دیا جائے۔ بچے کو یہ یقین دلایا جائے کہ جو آپ کا لباس ہے، جو آپ کا طریقہ ہے وہی اللہ تعالی نے بتایا ہے۔ اللہ تعالی سب سے اچھے ہیں تو ان کا بتایا ہوا طریقہ بھی سب سے اچھا ہے۔
بچے کے دل میں شیطان سے نفرت بٹھائی جائے۔ ساری گندی باتوں کا سکھانے والا شیطان ہے۔ وہ ہی اصل دشمن ہے۔ غصہ، نفرت، عداوت کے تمام احساسات اسی دشمن اور اس کا کہنا ماننے والوں کے خلاف ہوں۔
والدین کا اپنا طرز عمل بچوں کے لئے سب سے بڑا استاد ہے۔ بچے خاموشی سے اس طرز عمل کو دیکھتے اور اسی پر عمل کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے، یا آپس میں کھیلتے اور پلاننگ پر غور کرتے ہوئے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین، رشتہ داروں اور استادوں سے حقیقت میں کیا سیکھ رہے ہیں اور "کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا” کی حیثیت بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔

چوتھا حصہ :بچوں کو نماز کی عادت کیسے ڈالی جائے؟

۱ ۔ ایک مسلمان گھرانے کا ماحول بچے کو ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں رکوع و سجود، اذان اور نماز سے آشنا کر دیتا ہے۔ گھر کا ماحول نمازی ہوگا تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا ایک جزو سمجھے گا۔ پھر جس بچے کی تربیت کے لئے دعا اور دوا کا اہتمام نکاح کے رشتے میں جڑنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، لازماً اللہ تعالی ایسے ماں باپ کے لئے آسانیاں فراہم کر دے گا۔
نماز جتنی اہم عبادت ہے، شیطان کو اس کی پابندی اتنی ہی گراں گزرتی ہے۔ وہ نماز کو مشکل ترین کام بنا کر مسلمانوں کو رب سے دور کرنا چاہتا ہے، اسی لئے نفس پہ اس کی ادائیگی گراں گزرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔ "بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔” مرد حضرات خود باجماعت نماز کی پابندی کریں، لڑکوں کو مسجد میں محبت اور شفقت سے لے جائیں۔ ننھے لڑکے کو مسجد سے محبت، انس اور تعلق پیدا کروانا چاہیے۔ جس طرح بچہ باپ کے ساتھ باہر جانے اور کچھ حاصل کرنے کے شوق میں خوشی خوشی بازار جاتا ہے بالکل اسی طرح مسجد جا کر خوشیوں کے حصول اور کچھ پالینے کی آرزو پیدا کی جائے۔
اللہ تعالی سے محبت اور شکر گزاری کے جذبات پیدا کرنا والیدن کی ذمہ داری ہے۔ جو بچہ اپنے رب کا شکر گزار ہو کر آسودگی کی دولت پا لیتا ہے، اسی کے والدین کامیاب ہیں۔ نماز کو بچے کے ذہن میں اس حقیقت کا حصہ بنایا جائے کہ جو نعمتیں، خوشیاں ملی ہیں، اسے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے اور پھر مزید چیزیں بھی تو مانگنی ہیں۔ بچے کو روزمرہ کی ننھی منی آرزوئیں اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کا سلیقہ سکھایا جائے۔ ہر مشکل کام میں اسے اللہ سے مدد مانگنے کا، اللہ سے قربت کا احساس دلایا جائے۔
نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اسے ابتدا میں یعنی تین سال کی عمر ہی سے ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ دن میں پانچ مرتبہ نماز کی ادائیگی اس کی آنکھوں کے سامنے اور شعور کے اندر، رچ بس جائے۔ اسی عمر میں نماز کے کلمات یاد کروانے شروع کر دیے جائیں۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہو جائیں، انہی کے ساتھ نماز کی ادائیگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جا کر رکوع و سجود کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی گھر میں اس کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سو کر اٹھے، اسے معلوم ہو جائے کہ اٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشتہ۔۔۔۔ صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ پھر پوری نماز فجر کی فرض و سنت کے ساتھ پابندی کروائی جائے۔
دوسری نماز جس کی پابندی آسان ہے وہ مغرب کی نماز ہے۔ چند ماہ ان دو نمازوں کی پابندی ہو۔ پھر بتدریج باقی نمازیں اور رکعتوں کے لحاظ سے بھی پہلے صرف فرائض، پھر سنت موکدہ کی پابندی کروائی جائے۔ چار پانچ سال تک مکمل توجہ، شعور، اور دعا و یقین کے ساتھ کی جانے والی یہ محنت ان شاء اللہ کبھی رائیگاں نہ جائے گی۔

پانچواں حصہ :بچوں میں شرم و حیا کیسے پیدا کی جائے؟

حیا ایمان کا حصہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ: "جب تمہارے اندر حیا باقی نہ رہے تو پھر جو چاہے کرتے پھرو۔” سب سے پہلے تو والدین کو خود اس لفظ کا معنوی و حقیقی، اخلاقی و مذہبی لحاظ سے شعور ہونا چاہیے۔ شرم و حیا سے عاری گفتگو، انداز و اطوار، حرکات و سکنات اور لب و لہجہ باقی تمام محاسن پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اگر اس باب میں احتیاط اور شائستگی نہیں اختیار کی جاتی تو پھر بڑی دین داری اور عبادت گزاری کا بھی بچے پر کوئی تاثر نہیں جم سکتا۔۔۔۔۔
لڑکے اور لڑکیوں کو عمر کے ساتھ ساتھ لباس کا احساس دلایا جائے۔
اگرچہ سالگرہ منانا اسلامی تہذیب کا رواج نہیں ہے، تاہم سالگرہ کا دن بچے میں خود احتسابی کے تصور کے ساتھ متعارف کروا دیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ چھوٹے بچے کو سالگرہ کے دن اخلاقی نصاب کا کوئی ایک قرینہ سکھایا جائے۔ یہ نصاب کتاب و سنت نے مقرر کر دیا ہے۔ ہمارے معاشروں نے مغرب کی تقلید میں سالگرہ منانے کا رواج تو اپنا لیا، لیکن اب اس کو اپنے انداز فکر سے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔
اس کے ذریعے بچے میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جا سکتا ہے کہ عمر کا ایک سال بڑھا نہیں، بلکہ کم ہو گیا ہے۔ اچھے کام کرنے کی مدت اور تھوڑی رہ گئی ہے۔ قد بڑا ہو گیا ہے، لباس پہلے سے زیادہ بڑا آنے لگا ہے تو اس کے ساتھ اچھی باتوں میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ بتدریج ساتر لباس کی طرف ذہن راسخ کیا جائے۔
حیا ایمان کا حصہ ہے۔ جہاں پر گفتگو سے لے کر اعمال تک میں حیا نہ ہو، وہاں پر بچوں کے ناپختہ ذہنوں میں شرم و حیا کا تصور کیسے جڑ پکڑ سکتا ہے؟ جس معاشرے میں بچے، جوان اور بوڑھے ایک ہی جیسے فحش و عریاں ماحول میں سانس لیں اور حیا سے عاری ہو جائیں تو انہیں ذلت و رسوائی سے کون بچا سکتا ہے؟
محرم اور غیر محرم کا وہ شعور جو قرآن و سنت میں بتایا گیا ہے اس کو بتدریج اجاگر کیا جائے۔ بیماری کا خطرہ جس قدر بڑھ جاتا ہے، پرہیز اتنا ہی زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ عریانی، فحاشی، مرد و زن کا اختلاط، حیا سے عاری گفتگو، ستر سے بے نیاز لباس، بدکاری کو فیشن کے طور پر اپنانا ایسی بیماریوں کا ایک طومار ہے جس کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ ان بیماریوں کے خلاف جہاد کرنے کے لئے اپنے بچوں کو ایک اسلامی اسپرٹ کے ساتھ پرورش کرنا ہوگا۔ اس کو ایک مہم کے طور پر جاری رکھنا پڑے گا۔ معاشرہ ان برائیوں کا عادی ہوتا چلا جائے تو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔
گھروں میں نوعمری کے دوران ہی لڑکے لڑکیوں کی نشست و برخاست کا انتظام علیحدہ ہونا چاہیے۔ نرسری اور پرائمری اسکول عام طور پر مخلوط ہی ہوتے ہیں۔ انتہائی چھوٹی عمر میں بھی مخلوط تعلیم کے رواج کو ختم کیا جائے یا وہاں پر بچوں کو نہ بھیجا جائے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اسی عمر میں بچوں کو مخلوط اداروں میں بھیجنے سے پہلے یہ شعور دیا جائے کہ آنکھ اور دل کے بارے میں سخت حساب لیا جائے گا اور بدکاری کے سب کھلے اور چھپے کام اللہ تعالی نے حرام قرار دیے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی نے بدی کی شروعات کو بھی بدکاری ہی قرار دیا ہے۔
وہ بچے جن کو ابتدا ہی سے عمر کے ساتھ ساتھ فرائض کی پابندی کا سبق ملتا رہا ہو، ان کے لئے یہ پابندیاں بالکل دشوار نہیں ہوتیں۔ بچی کو تین سال کی عمر سے ساتر لباس اور پھر گھر میں اور گھر سے باہر محرم اور غیر محرم کی تمیز سکھائی جاتی رہے تو چودہ پندرہ سال کی عمر میں وہ گاؤن، اسکارف یا پردہ و حجاب کی کسی بھی شکل کو اپنی عمر کا تقاضا سمجھ کر قبول کر لے گی۔

چھٹا حصہ :برائی میں مبتلا بچوں سے کیسا رویہ رکھا جائے؟؟

بچوں کی تربیت میں بچوں کے درمیان عدل و انصاف کا برتاؤ اہم نکتہ ہے۔ والدین کی طرف سے بچوں کے درمیان بلاوجہ تفریق و امتیاز، نہایت قابل گرفت ہے۔ خصوصاً وہ والدین جو خود تو صالح ہیں اور اولاد کی طرف سے پریشان ہیں کہ وہ حق کو نہیں سمجھتی۔ ایسے بچوں کے ساتھ متشددانہ رویہ حالات کو مزید خراب کر دیتا ہے۔۔۔۔ ماں کی مصروفیات چاہے کتنی ہی صائب اور ضروری کیوں نہ ہوں، بچے سے دوری اور لاتعلقی اپنا اثر دکھا کر رہتی ہے۔ بعد میں اگر حالات درست ہو جائیں، تعلق بحال ہو جائے، کمی دور ہو جائے تو فبھا ورنہ یہ تعلق کی کمی اور تشنگی دور نہیں ہو پاتی۔ بعض اوقات تو منفی ردعمل سامنے آتا ہے۔
ایسے بچوں کو بیمار بچے سمجھ کر زیادہ قربت دی جانی چاہیے۔ بیماری میں جس طرح ماں اپنے بچے کی نگہداشت کرتی ہے، اسی طرح روحانی طور پر بیمار بچہ، والدین کی خصوصی توجہ کا مستحق ہوتا ہے۔ انہیں اپنی آئندہ زندگی میں رشتوں کے متعلق آگہی دی جائے۔

ساتواں حصہ :لڑکے اور لڑکی کی تربیت کا فرق

ا(ہمارے معاشرے میں) عموماً بچیوں کو تو مائیں بہترین بیوی بننے کے گر سکھاتی رہتی ہیں، مگر اس کے برعکس وہ بیٹوں کو ایک بہترین مسلمان شوہر بننے کی تلقین کبھی نہیں کرتیں۔ ہمارے معاشرے میں اس چیز کی بے حد کمی ہے۔ اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
والدین کو چاہیے کہ لڑکوں کو "قوام” کے درست معنی سمجھائیں اور بتائیں کہ وہ عورتوں کے آقا اور مالک نہیں بلکہ وہ ان آبگینوں کے نازک جذبات، احساسات، خواہشات و ضروریات کے نگہبان ہیں۔ ہمارے معاشرے نے بے جا طور پر، جو جھوٹی شان، تمکنت، رعونت، کرختگی اور آمرانہ روش لڑکوں اور بیٹوں کے ذہنوں میں بٹھا دی ہے، وہ اسلام اور اخلاق دونوں حوالوں سے غلط ہے۔ مردانگی تو یہ ہے کہ عورت کو بحیثیت ماں، بیٹی، بیوی اور بہن کے قدر و منزلت دی جائے۔
یاد رہے، ظلم کے کھیتوں میں کبھی محبت و شفقت کے پھول نہیں کھلتے۔ اگر ایک مرد اپنی بیوی، بہن اور بیٹی کے ساتھ ظلم یا خود پسندی کا رویہ اختیار کرے گا تو اس سے بیمار معاشرہ ہی پیدا ہوگا، جیسا ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ کیا ہمیں معاشرے کو نہیں بدلنا؟

آٹھواں حصہ :اپنی اولاد کے معاملے میں عدل و احسان سے کام لیجیے!

ا-ہمارے ہاں ایک المیہ یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد میں فرق کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جو بچہ زیادہ خوبصورت، ذہین، فرمانبردار اور محنتی ہو، وہ اس سے زیادہ محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس شکل و صورت میں ذرا کم نظر آنے والے، کم ذہین، سوال کرنے والے اور اطاعت نہ کرنے والے بچوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہی بچے عدم توجہی کا شکار ہو کر برائی کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔
"تبصرہ:
والدین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کی اولاد ان کے لئے برابر ہے۔ اگر وہ اولاد کے معاملے میں عدل سے کام نہیں لیں گے تو اللہ تعالی کے ہاں ان کی بازپرس ہو گی۔ اولاد میں عدل کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی پہلو سے کمزور بچے کی طرف زیادہ توجہ دی جائے۔ انسان فطری طور پر اچھے بچوں کو زیادہ محبت دیتا ہے۔ جب وہ شعوری طور پر کمزور بچے کی طرف زیادہ توجہ دے گا تو اس کے نتیجے میں اس کی محبت اور توجہ خود بخود بیلنس ہو جائے گی۔
جسمانی اعتبار سے معذور بچے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ والدین کو ان پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ ان کے لئے خصوصی کھیلوں اور خصوصی تعلیم کا انتظام کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔
اولاد کے بالغ ہونے کے بعد والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی تعلیم و تربیت، شادیوں اور کاروبار پر رقم اس انداز میں خرچ کریں کہ اولاد کو یہ احساس نہ ہو کہ والد نے مجھے کم اور بھائی یا بہن کو زیادہ دے دیا۔"(مصنف: محمد مبشر نذیر)

نواں حصہ :جوان ہوتے بچوں کی سیرت و کردار کی تعمیر

(جوان ہوتے) بچوں سے اپنا قلبی و ذہنی تعلق مضبوط کرنے کے لئے گھر میں قرآن و سنت کی ہفتہ وار مجلس رکھی جائے۔ ضروری نہیں کہ اس میں خشک اور یبوست زدہ ماحول ہی ہو۔ خوشگوار ماحول کے ساتھ علمی و ادبی گفتگو اور مسائل پر تبادلہ خیال ہو۔ بچوں کے آپس کے تنازعات پہ افہام و تفہیم ہو۔
بچوں کو دوسروں کی طرف سے صرف اپنی تعریف سننے کا عادی نہ بنایا جائے۔ وہ بچہ جو صرف اپنی تعریف سننا چاہتا ہو، تنقید، محاسبہ یا نصیحت سننا گوارا نہ کرتا ہو اور دوسروں کی اخلاقی برتری برداشت نہ کرتا ہو، وہ کبھی اپنے کردار کو خوب سے خوب تر نہیں بنا سکتا۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ عادت اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی باعث تکلیف و آزار بن جاتی ہے۔ بچوں میں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ غلطی کی سزا ملنا عدل ہے اور حوصلہ افزائی کے لئے اچھے کام پر انعام دینا بچوں کا حق ہے۔
والدین بچوں کی بہت سے عادات کو کھیل کود کی عمر کہہ کر نظر انداز کرتے رہتے ہیں، مگر بالغ ہو جانے پر ایک دم ان کو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو غلط رخ پر جا رہے ہیں۔ پھر وہ راتوں رات ان کو ہر لحاظ سے معیاری درجے پر دیکھنا چاہتے ہیں، یہی ناسمجھی کی بات ہے۔ بچے کی پرورش، تعلیم و تربیت ہر سال، ہر دن اور ہر لحظہ کی ختم نہ ہونے والی منصبی ذمہ داری ہے۔ مغربی تہذیب میں بلوغت کی عمر کے بعد (اور اب پہلے بھی) بچوں کو توجہ کے قابل تو کیا، گھروں میں رکھنے کے قابل تک نہیں سمجھا جاتا۔ اس غلطی کا خمیازہ وہ تہذیب بھگت رہی ہے۔ اسلام نے اولاد اور والدین کا تعلق دنیا سے لے کر آخرت تک قائم رکھا ہے۔ وہ دونوں جہانوں میں ایک دوسرے کا قرب پا کر ہی تکمیل پائیں گے۔
خود مختاری، اظہار رائے کی آزادی، معاشی طور پر خود کفیل ہونا، سماجی طور پر اپنا مقام بنانا، اپنے شریک زندگی کے بارے میں اپنی رائے رکھنے جیسے انفرادی حقوق اسلام نے عطا کئے ہیں، مگر اجتماعیت کا جو تصور اسلام نے دیا ہے، اس میں حسن بھی ہے، تکمیل بھی اور اعتدال بھی۔ حقیقت میں کسی بھی کام اور چیز میں اعتدال ہی اس کا حقیقی حسن ہے۔ 14 سے 16 اور 18 سے 22 سال تک کی عمر نئی جہتیں سامنے لاتی ہے۔ اس عمر میں والدین کی اپنے بچوں کے ساتھ دل وابستگی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
جس طرح زمین کے اندر بیج ہر قسم کے موسم اور مصائب و آلام سے گزر کر ایک پھل دار درخت بنتا ہے، اس درخت کو پہلے سے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ثمرات کو سمیٹنا اور آئندہ کی منصوبہ بندی کرنا ہی عقل مندی کی نشانی ہے، اسی طرح جوان اولاد، والدین کے لئے پھل دار باغ ہے۔ اس کو ضائع کرنا، اس سے لاپرواہ ہونا، غیروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دینا، ساری محنت اکارت کر دینے کے مترادف ہے۔
نفسیاتی، ذہنی، جسمانی و صنفی تبدیلیاں بچوں کو ایک نئے موڑ پہ لا کھڑا کرتی ہیں۔ اس وقت والدین کی شفقت، اعتماد اور گھر کے ماحول میں بچوں کی اہمیت انہیں سکون مہیا کرتی ہے۔ اس دور کے ذہنی، جسمانی اور ارتقائی مراحل، قابل اعتماد رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لڑکے کے لئے باپ کی بھرپور توجہ، رہنمائی اور محبت، بھٹکنے سے بچا لیتی ہے۔ صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنا، اس عمر کا ایک فطری مسئلہ ہے۔
الل ٹپ پرورش پانے والے بچے غلط انداز فکر میں کھو کر اپنا بہت کچھ ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے نوجوانوں کو انتہائی گھٹیا اور پست سوچ کا حامل بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، بلکہ بچے اور بوڑھے بھی اسی پستی کا شکار نظر آتے ہیں۔ صنفی جذبات میں اکساہٹ پیدا کرنے والے عوامل پیش کرنا شیطانی کام ہے۔ وہ سب لوگ جو فواحش کو پھیلاتے ہیں، لعنت کے مستحق ہیں۔
معاشرے میں جس بے راہ روی کو فروغ دیا جا رہا ہے، وہ ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو راہ راست پر لانے کے لئے خصوصی منصوبہ بندی اور فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اس کے متبادل چیزیں لا کر دینے میں دیر کرنا بہت بڑے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔
عموماً محرم رشتے دار، جوان اولاد کے بہت سے مسائل حل کرنے کے لئے باہم اعتماد کی فضا قائم نہیں کر پاتے۔ بے وجہ کی جھجک بڑی گہری دوریاں پیدا کرتی ہے جس سے شخصیت میں ایک خلا رہ جاتا ہے۔ محصنات اور محصن شخصیت پورے خاندان کی بھرپور توجہ، محبت، شفقت، نگہبانی و اعتماد کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ یہی "خاندانی” لوگ اخلاقی اقدار کی ایک محفوظ پناہ گاہ میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے ہوتے ہیں۔ اگر وہ مددگار و معاون اور مخلص رشتے بے جا گریز کی بند کوٹھڑیوں میں دبکے اور گونگے بنے رہیں تو پھر نوجوان بچوں کی زندگی میں ایک خوفناک خلا پیدا ہوتا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لئے ناقابل اعتماد اور اپنے جیسے کچے ذہنوں کی مشاورت انہیں بڑی غلط راہوں پہ لے جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عمر میں بچوں کو گھر کے ماحول سے سکون و طمانیت ملے۔ ننھیال، ددھیال میں ان کی شخصیت کو مانا اور تسلیم کیا جائے۔ لڑکے کو گھر کی خواتین والدہ، بہنیں، خالائیں، پھپھیاں غرض محرم خواتین شفقت و محبت دیں۔ والد اسے اپنا دست و بازو گردانے تو اس کی ایک پراعتماد شخصیت سامنے آتی ہے۔ اسی طرح لڑکی کو گھر کے مرد، والد، بھائی، ماموں، چچا اپنے دست شفقت سے نوازیں اور والدہ اور دیگر رشتہ دار خواتین اس کی شخصیت کو تسلیم کریں تو شائستہ اطور اور زیادہ نکھر کر سامنے آئیں گے۔

دسواں حصہ :حصہ۔۔۔رشتوں کی تلاش

والدین کی یہ زمہ داری ہےکہ بچوں کی مناسب وقت پر شادی کردیں۔اس میں کسی قسم کی طمع،حرص اور انا کا دخل نہ ہو نیک نیتی سے اسی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے شادی کریں۔جو معیار اللہ اور اس کے رسول نے قائم کیا ہے۔یہ سراسر زیادتی ہے کہ والدین اپنے بیٹے کے لیے تو پسند وناپسند کا پیمانہ دوسرا رکھیں اور اپنی بیٹی کے لیے کوئی اور۔۔۔۔۔۔۔اس طرح جو بلند معیار اپنی بیٹی کے لیے ہے آنے والی بیٹی کے لیے قائم نہ رکھا جائے ایسا ہوا تو یہ سراسر منافقت اور کھلی بد نیتی ہے
والدین کو چاہیے کہ تعلیم۔خاندان۔اور معاش میں کفو کو نظر انداز نہ کریں جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ شعور۔اندازفکر۔اور نظریات میں بھی کفو کا خیال رکھا جائے۔ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو ازدواجی زندگی اور تربیت اولاد کے سلسلے میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے رشتے قائم کرنے کے لیے جو ترتیب بتائی ہے اس کو مد نظر رکھا جائے سب سے پہلے دین پھر حسب نسب شکل و صورت ہمارا معیار اس ترتیب سے بالکل الٹ ہوتا ہے یعنی جس چیز کو سب سے آخر میں رکھا گیا وہ ہی پہلا معیار جب کام کی فطری ترتیب کو الٹ دیا جاتا ہے تومعاشرہ ابتری کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس ضمن میں چند تجاویز پیش خدمت ہیں جو انتہائی اہمیت کی حامل ہیں (محمد مبشر نذیر)
والدین اور دیگر رشتے داروں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ہمیشہ شرمندگی سے بچائیں۔ بعض والدین بچوں کی نافرمانیوں سے تنگ آ کر انہیں ہر مہمان کے سامنے رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا کہ بچے اور والدین میں فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ بچوں کو تنہائی میں مناسب تنبیہ کیجیے اور ان کی اصلاح کی کوشش جاری رکھیے۔
والدین اور دیگر رشتہ داروں کا تعلق بچے سے اعتماد کا ہونا چاہیے۔ اگر بچہ کبھی کوئی غلطی کر بیٹھے تو وہ محض بڑوں کی مار یا ڈانٹ سے بچنے کے لئے اسے چھپانے کی کوشش نہ کرے۔ اگر بچہ خود اپنی غلطی کا اعتراف کر رہا ہو تو والدین کو چاہیے کہ وہ اسے کھلے ظرف کے ساتھ معاف کر دیں۔ اس سے باہمی اعتماد میں اضافہ ہو گا۔
والدین اور دیگر بزرگوں کو چاہیے کہ وہ سیکس سے متعلق موضوعات پر جوان ہوتے بچوں سے گفتگو کرتے ہوئے کبھی نہ ہچکچائیں بلکہ ان کے ہر سوال کا معقول اور تسلی بخش جواب دیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو وہ بچہ دوستوں یا انٹرنیٹ سے غلط سلط معلومات لے کر گمراہ ہو جائے گا۔
بہت سے والدین اور اساتذہ زیادہ سوالات اٹھانے والے بچوں کو پسند نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذہن پر جواب دینے کی مشقت لادنا نہیں چاہ رہے ہوتے۔ یاد رکھیے! کہ زیادہ سوال وہی بچہ کرتا ہے جو ذہین ہوتا ہے۔ زیادہ سوالات اٹھانے پر بچوں کی حوصلہ افزائی ان کی تخلیقی قوتوں کو جلا بخشتی ہے۔

یہ تحریر پروفیسر عقیل کا بلاگ سے لی گئی ہے۔اور اس تحریر کو آپ تک عمران شہزاد تارڑ کی طرف سے پوسٹ کیا جا رہا ہے۔
www.dawatetohid.blogspot.com/
www.bestfuturepk.blogspot.com
* * * * *

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...