Saturday 30 September 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#110

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

جو شخص اپنے دین کے معاملے کو اہمیت دیتا ہو اور خواب غفلت سے بیدار ہوچکا ہو، اور یہ امید باندھ رکھی ہو کہ وہ کل قیامت کے دن نجات پانے والوں میں سے ہو جاۓ ، تو پھر وہ اپنے نفس(یعنی خود کو) کو تباہی اور ہلاکت کے اسباب سے بچانے کے بعد سب سے زیادہ اس بات کا حریص ہوگا کہ کس طرح وہ اپنے نفس کی سلامتی کے اسباب اور اس کے علاج کے طریقوں کی معرفت اور جانکاری حاصل کرے۔ ہم یہاں آپ کے لیے چند ایک غور طلب پہلو تجویز کرتے ہیں جو ان بری آفتوں اور عظیم بیماریوں سے نجات دینے میں آپ کے معاون اور مددگار ثابت ہوں گی۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ آپ نے صحابۂ کرام کے تزکیے کے لیے نفس کے ان سارے پہلووں کو بیک وقت پیش نظر رکھا۔
اگرچہ ان کی تفصیلات کافی وضاحت طلب ہے لیکن ہم نہایت اختصار کے ساتھ مختصر انداز میں چند پہلو آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

حیوانی وجود کا تزکیہ:

انسان کا حیوانی وجود، اپنی بقا کے لیے، خوراک کی احتیاج (ضرورت)رکھتا ہے۔ اس کی یہ خوراک اس کے وجود کے لیے صرف توانائی فراہم کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بنتی، اس کے نفس پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ثبوت کے لیے زیادہ دلائل کی ضرورت نہیں، مختلف مذہبی گروہوں، تہذیبوں اور معاشروں پر ان کی خوراک کے اثرات کا بآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کے پیغمبر اس معاملے میں غیر معمولی طور پر حساس ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے ماننے والوں کو چار طرح کی چیزیں کھانے سے روک دیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ انھیں وہ چار بنیادی اصول بتا دیتے ہیں، جن کی روشنی میں وہ یہ طے کر سکیں کہ انھیں کیا کھانا چاہیے اورکیا نہیں کھانا چاہیے۔

پہلا اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں ہرگز نہ کھائی جائیں، جن کے بارے میں انسان اپنی طبیعت میں کراہت محسوس کرتا ہے۔
چنانچہ قرآن مجید نے اسی کا ذکرببطور عنوان کیا ہے۔ اسی اصول پر بول و براز اور اسی نوع کی دوسری چیزیں حرام ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری فطرت میں غلاظت اور آلایش سے جو فطری کراہت رکھی ہے، مطلوب یہ ہے کہ وہ زندہ و بیدار رہے۔ لہٰذا اس نوع کی تمام چیزیں حرام قرار دے دی گئیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اپنے اندر فسق و فجور اور تعدی و عدوان کا رجحان رکھتا ہے، یہاں تک کہ درندگی پر اتر آتا ہے۔ کسی بے گناہ کومار ڈالنا اور کسی کی عزت برباد کر دینا، اسی رجحان کی قبیح ترین صورتیں ہیں۔ خون پینا اسی رجحان کی علامت ہے۔ اسی وجہ سے قرآن مجید نے دم مسفوح (بہتا ہوا خون) حرام قرار دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اصول کے تحت درندوں اور چنگال والے پرندوں کو حرام ٹھہرایا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ انسانی محاسن نمایاں اور غالب رہیں اور درندگی جیسی خوف ناک خو اور خصلت انسان کے اندر پیدا نہ ہو۔

تیسرے اصول سے وہ چیزیں حرام ہوتی ہیں جو کسی اخلاقی برائی پیدا کرنے کا سبب بنتی ہوں۔ سؤر کا گوشت اسی اصول کے تحت حرام ہے۔ جنسی آوارگی اس جانور کی سرشت ہے۔ چنانچہ وہ قومیں جو سؤر کا گوشت کھاتی ہیں، دیکھا گیا ہے کہ ان کے ہاں یہ مرض عام ہے۔ اسی ضمن میں، شراب اور دوسری نشہ آور چیزیں آتی ہیں، لہٰذا انھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے۔

چوتھی چیز عقیدے کی نجاست ہے۔ یہ نجاست جس شے کے ساتھ لاحق ہو جاتی ہے، اسے حرام بنا دیتی ہے۔ قرآن مجید نے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے جانے والے جانور، اسی اصول کے تحت حرام کیے ہیں۔ پھر اسی اصول کی توسیع میں اسے بھی حرام ٹھہرایا، جو کسی خاص استھان سے منسوب کردیا جائے۔مثلا کسی دیوی دیوتا،روح، بزرگ،حیوان یا دیگر مخلوق وغیرہ سے ۔ 
ایک حلال چیز جو اوپر بیان کیے گئے تینوں اصولوں کے تحت تو حرام نہیں، صرف اس لیے حرام ہو جاتی ہے کہ اسے جس نام کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیے تھا، اس کے بجائے کسی دوسرے نام کے ساتھ وابستہ کر دی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ مال اور وہ دولت بھی حرام ہو جاتی ہے، جسے باطل طریقے سے حاصل کیا گیا ہو۔ اصل شے میں تو خرابی نہیں، لیکن ہمارے عمل کی نجاست اس میں شامل ہو گئی ہے، لہٰذا اس کا کھانا یا استعمال کرنا، اب جائز نہیں رہتا۔

جس طرح خوراک ہمارے حیوانی وجود کی ایک بنیادی ضرورت ہے، اسی طرح جنسی جذبے کی تسکین بھی اسی کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ چنانچہ اس پہلو سے حیوانی وجود کے تزکیے کے لیے بیوی کے ساتھ جائز تعلق بھی، طہارت کا ایک خاص تصور اور احساس پیدا کرنے کے لیے کچھ شرائط کا پابند بنا دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے ایام حیض میں بیوی سے مقاربت روک دی ہے اور کہا ہے کہ جب تک وہ نہا دھو کر پاک نہ ہو جائے، یہ تعلق قائم نہ کیا جائے۔ زن وشو کے اس تعلق میں نجاست کا احساس ایک طبعی چیز ہے۔ اسی لیے اس کے بعد غسل ضروری قرار دے دیا ہے تاکہ طہارت کا احساس زندہ وبیدار رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس باب میں یہاں تک ہدایت فرمائی ہے کہ مقاربت کے بعد کسی بھی کام، حتیٰ کہ سونے سے پہلے بھی اگر نہانا ممکن نہ ہو توکم از کم وضو کر لینا چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اہتمام کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا: یہ کیسے ممکن ہے کہ بندہ اپنے رب کے حضور بلا لیا جائے اور وہ پاک صاف نہ ہو۔
چنانچہ حالت جنابت میں عبادت ممنوع ہے، کیونکہ بندۂ مومن طہارت کے بارے میں غیر معمولی طور پر حساس ہوتا ہے۔ نماز کے لیے وضو لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاملے میں دین نے نجاست اور طہارت کے مابین ایک لطیف حد فاصل قائم کی ہے۔ جسم سے محض ہوا کا اخراج بھی آدمی کو اس قابل نہیں رہنے دیتاکہ وہ نماز کے لیے کھڑا ہو۔ وہی غسل جو جنابت کی صورت میں طہارت کا ذریعہ تھا اسے ایک عبادت کی حیثیت دے دی۔ نوزائیدہ بچے کو نہلایا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا آغاز طہارت کے ساتھ کرے۔ مردے کو بھی اسی لیے نہلاتے ہیں کہ اس کا بدن پاک صاف ہو اور پاک صاف لباس ہی میں اسے خدا کے سپرد کیا جائے۔ کسی غیر مسلم کا اسلام قبول کرنے کے بعد نہانا بھی اسی ذیل میں آتا ہے تاکہ اہل اسلام میں شامل ہونے کے لیے نہانا اور پاک صاف ہونا اسے طہارت کے خاص احساس سے سرشار کر دے۔ دین نے مختلف مواقع پر غسل اور وضو کے اہتمام کی اس طرح تعلیم دی ہے کہ طہارت، پاکیزگی اورصفائی نے حیوانی وجود کے شب و روز کا احاطہ کر لیا ہے۔
وہ پانچ چیزیں بھی اسی حیوانی وجود کے تزکیے سے متعلق ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت قرار دیا ہے۔ناخن کاٹنا،لبیں تراشنا،بغلوں اور زیرناف کے بال صاف کرنا اور ختنہ کرانا ایسی چیزیں ہیں جنھیں نبیوں کی امتوں میں شعائر کا مقام حاصل ہے،ان کی اہمیت کا انداز ہ کرنا ہو تو سکھ مذہب کے پیروکاروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔بالوں کے معاملے ہی میں جو صورت ان کے ہاں پیدا ہو جاتی ہے، اسے دیکھ کر آدمی پکار اٹھتا ہے کہ یہ پیغمبر ہی ہیں جو انسان کی صحیح رہنمائی کر سکتے اور اسے ایک متوازن راہ پر قائم رکھ سکتے ہیں۔
مزید ہمارا یہ حیوانی وجود لباس کا محتاج ہے۔شرم و حیا کے پہلو سے جسم کے کچھ اعضا چھپائے جاتے ہیں۔چنانچہ،لباس کے معاملے میں، دین نے پہلی چیز جسے ضروری قرار دیا ہے، وہ یہ ہے کہ لباس شرم گاہ کو چھپانے والا ہو تاکہ حفظ فروج کے معاملے میں آدمی غیر محتاط نہ ہو۔پھر یہ تلقین کی کہ لباس کو سادہ اور باوقار ہونا چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں یہ سنت قائم کی کہ ہمیشہ اپنے معاشرے کے شرفا کا لباس پہنا اور اسی طرح یہ سکھایا کہ یہی چیز ہر معاشرے کے مسلمانوں سے مطلوب ہے۔ رنگوں کے معاملے میں بھی دین ایک خاص ذوق پیدا کرتا ہے۔مردوں کے لیے سفید رنگ زیادہ پسندیدہ ہے۔ اگرچہ، دوسرے رنگ بھی وسعت کے پیش نظر ممنوع نہیں ہیں، مگر بہت شوخ سرخ اور زرد رنگ بھی بہر حال، پسندیدہ نہیں۔

ظاہر کا تزکیہ:

جہاں باطنی برائیوں کا تزکیہ ضروری ہے وہاں ظاہر (ظاہری اعمال)کا تزکیہ بھی ضروری ہے ۔
حالانکہ جب نفس کی اصلاح ہو جاتی ہے تو ظاہری جسمانی اعمال بھی درست ہو جاتے ہیں۔
مگر نفس کی اصلاح سے اعمال کی درستی کا مطلب یہ نہیں کہ اصلاح ہو جانے کے بعد اعمال کا ارادہ کرنے کی ضرورت بھی نہ رہے گی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نفس کی اصلاح کے بعد اعمال کرنا آسان ہو جائے گا۔ یعنی اصلاح سے پہلے جو اعمال کرنا مشکل ہوتا تھا وہ اصلاح کے بعد کرنا آسان ہو جائیں گے، مگر ارادے کی ضرورت پھر بھی رہے گی۔
اصلاح کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اصلاح نفس سے پہلے برے کاموں کا چھوڑنا ارادے کے باوجود نہایت مشکل تھا، اصلاح کے بعد آسان ہو گیا۔ جو لوگ اصلاح شدہ ہوتے ہیں، اور جو لوگ اصلاح شدہ نہیں ہوتے، ان میں بس یہی فرق ہے کہ اول الذکر کو دوسرے کے بعد عمل کرنا آسان ہوتا ہے․․․ ورنہ قصد تو سب کو کرنا پڑتا ہے۔

چنانچہ جن لوگوں کی اصلاح ہو چکی ہے، ان کا کام تو معمولی قصد (ارادہ) اور اشارہ ہی پر چلتا ہے۔ اور جنہوں نے اپنی اصلاح نہیں کی ہوتی، انہیں برے کاموں کو چھوڑنے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے اور بڑی دشواری ہوتی ہے۔ مثلاً، ایک عورت سامنے سے گزری۔ نفس کا تقاضا ہوا کہ اس کو دیکھ لو۔ اگر نفس کی اصلاح ہو چکی ہے ، تب بھی نفس کو روکنے کے لیے ارادے کی تو ضرورت ہو گی، مگر تھوڑے ارادے ہی سے نفس کو روک سکتے ہیں۔ اگر اصلاح نہیں ہوئی ہے تو ارادہ کرنے کے باوجود نفس کو روکنے میں سخت مشکل پیش آئے گی۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح ہو جانے کے بعد نفس میں گناہ کا تقاضا ہی نہیں رہتا، سو یہ بالکل غلط ہے۔ ہاں، یہ تقاضا کمزور ضرور ہو جاتا ہے کہ اگر دبایا جائے تو نہایت آسانی سے دب جاتا ہے۔ اور جس نے اصلاح نہیں کی ہوتی، اس کا گناہ کا تقاضا شدید ہوتا ہے، اسے روکنے میں بھی نہایت دشواری ہوتی ہے۔

رہا! گناہوں کی طرف میلان (خواہش) تو وہ دونوں کو ہوتا ہے۔ ایسا کوئی شخص نہیں کہ جسے گناہ کی خواہش ہی نہ ہو، البتہ ریاضت(اصلاح) سے قبل گناہ کا داعیہ قوی ہوتا ہے، اس لیے اس کا روکنا مشکل ہے۔ مگر طاقت سے باہر نہیں۔ دشواری ہوتی ہے اور نفس اس دشواری کو گوارا نہیں کرتا۔ مثلاً نامحرم کو دیکھ کر نگاہ نیچی کرنا نفس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ نفس اس بوجھ کو برداشت نہیں کرپاتا اور اس کی طرف نگاہ کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ پھر توجہ کر لیں گے۔ اس کے برخلاف، ریاضت کرنے والے میں گناہ کا داعیہ تو ہوتا ہے، مگر بہت کمزور ہوتا ہے۔ پھر ریاضت سے مدافعت کی بہت زیادہ قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے وہ بہت آسانی سے گناہ کے اس داعیہ کی مدافعت کر سکتا ہے کہ داعیہ کمزور ہے اور قوتِ دافعہ طاقت وَر۔ بس اس وجہ سے اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔

لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ صرف یہ تزکیہ ہی کافی ہے، ظاہری اعمال کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ فقط نفس کا درست کر لینا کافی ہے۔ جیسا کہ آج کل ایک گروہ کا کہنا ہے، کہ تزکیہٴ ظاہری ضروری نہیں۔جس کی بنا پر اس سے وابستہ حضرات کئی کئی مہینوں تک  نہ غسل کرتے اور نہ ہی لباس بدلتے ہیں۔
اس گروہ نے، اگرچہ تزکیۂ نفس کو اپنا موضوع بنایا، لیکن اس توازن کو برقرار نہ رکھ سکا، جو دین میں مطلوب ہے اور جس کی سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی تھی۔
یہ لوگ شریعت کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہیں، کیوں کہ تمام شریعت تو اصلاحِ ظاہر وباطن دونوں سے بھری ہے۔ ہم طوالت کے ڈر سے مختصر بیان کرتے ہیں کہ تعلیمات اسلام پر ایک غائر اور گہری نگاہ ڈالیں اور اسلامی عبادات پر غور کریں تو ہمیں ایک بہت واضح چیز جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام  باطنی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ ظاہری پاکیزگی ، طہارت و نظافت کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔
اور قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر لوگوں کو اس کی اہمیت پر متوجہ کیاگیاہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ بلا شبہ اللہ خوب توبہ کرنے والوں اور خوب پاک و صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (سورۂ بقرہ:222)
اس آیتِ کریمہ میں ان لوگوں کی دوصفات بیان کی گئی ہیں،جو اللہ کے محبوب ہیں،ایک تو یہ کہ وہ لوگ اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر توبہ کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ وہ لوگ پاک صاف رہتے ہیں۔

ایک دوسری جگہ نبی اکرم ﷺکے توسط سے  تمام انسانوں کو مخاطب کر کے فرمایا:

وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ۔(سورۂ مدثر: 4۔)
"(اے نبیﷺ) اور اپنے کپڑوں کوپاک رکھو۔"

ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے لباس کو نجاست سے پاک رکھو ، کیونکہ جسم و لباس کی پاگیزگی اور روح کی پاکیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔

ایک پاکیزہ روح گندے جسم اور ناپاک لباس میں نہیں رہ سکتی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تھے وہ صرف عقائد اور اخلاق کی خرابیوں ہی میں مبتلا نہ تھا بلکہ طہارت و نظافت کے بھی ابتدائی تصورات تک سے خالی تھا ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ان لوگوں کو ہر لحاظ سے پاکیزگی کا سبق سکھانا تھا ۔ اس لیے آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنی ظاہری زندگی میں طہارت کا ایک اعلی معیار قائم فرمائیں ۔ چنانچہ یہ اسی ہدایت کا ثمرہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نوع انسانی کو طہارت جسم و لباس کی وہ مفصل تعلیم دی ہے جو زمانہ جاہلیت کے اہل عرب تو درکنار ، آج اس زمانے کی مہذب ترین قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے ، حتیٰ کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایسا کوئی لفظ تک نہیں پایا جاتا جو طہارت کا ہم معنی ہو ۔

بخلاف اس کے اسلام کا حال یہ ہے کہ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں اسلامی احکام کا آغاز ہی کتاب الطہارت سے ہوتا ہے جس میں پاکی اور ناپاکی کے فرق اور پاکیزگی کے طریقوں کو انتہائی تفصیلی جزئیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ دوسرا مفہوم ان الفاظ کا یہ ہے کہ اپنا لباس صاف ستھرا رکھو ۔ راہبانہ تصورات نے دنیا میں مذہبیت کا معیار یہ قرار دے رکھا تھا کہ آدمی جتنا زیاہ میلا کچیلا ہو اتنا ہی زیادہ مقدس ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ذرا اجلے کپڑے ہی پہن لیتا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ دنیادار انسان ہے ۔ حالانکہ انسانی فطرت میل کچیل سے نفرت کرتی ہے اور شائستگی کی معمولی حس بھی جس شخص کے اندر موجود ہو وہ صاف ستھرے انسان ہی سے مانوس ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی کہ اس کی ظاہری حالت بھی ایسی پاکیزہ اور نفیس ہونی چاہیے کہ لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کی شخصیت میں کوئی ایسی کثافت نہ پائی جائے جو طبائع کو اس سے متنفر کرنے والی ہو ۔ تیسرا مفہوم اس ارشاد کا یہ ہے کہ اپنے لباس کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھو ۔ تمہارا لباس ستھرا اور پاکیزہ تو ضرور ہو ، مگر اس میں فخر و غرور ، ریاء اور نمائش ، ٹھاٹھ اور شان و شوکت کا شائبہ تک نہ ہونا چاہیے ۔ لباس وہ اولین چیز ہے جو آدمی کی شخصیت کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے ۔ جس قسم کا لباس کوئی شخص پہنتا ہے اس کو دیکھ کر لوگ پہلی نگاہ ہی میں یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے ۔ ریئسوں اور نوابوں کے لباس ، بد قوارہ اور آوارہ منش لوگوں کے لباس ، سب اپنے پہننے والوں کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اللہ کی طرف بلانے والے کا مزاج ایسے سب لوگوں سے فطرۃً مختلف ہوتا ہے ، اس لیے اس کا لباس بھی ان سب سے لازماً مختلف ہونا چاہیے ۔ اس کو ایسا لباس پہننا چاہیے جسے دیکھ کر ہر شخص یہ محسوس کر لے کہ وہ ایک شریف اور شائستہ انسان ہے جو نفس کی کسی برائی میں مبتلا نہیں ہے ۔ چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ اپنا دامن پاک رکھو ۔ اردو زبان کی طرح عربی زبان میں بھی پاک دامنی کے ہم معنی الفاظ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونے اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کے لیے استعمال ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ابن عباس ، ابراہیم نخعی ، شعبی ، عطاء مجاہد ، قتادہ سعید بن جبیر ، حسن بصری اور دوسرے اکابر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اپنے اخلاق پاکیزہ رکھو اور ہر قسم کی برائیوں سے بچو ۔ عربی محاورے میں کہتے ہیں کہ فلان طاہر الثیاب و فلان طاہر الذیل ، فلاں شخص کے کپڑے پاک ہیں یا اس کا دامن پاک ہے ۔ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں ۔ اس کے برعکس کہتے ہیں فلان دنس الثیاب ، اس شخص کے کپڑے گندے ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بد معاملہ آدمی ہے ، اس کے قول قرار کا کوئی اعتبار نہیں ۔

نبیﷺنے صفائی اور نظافت کی خصوصی تاکید فرمائی اور اس ضمن میں لوگوں کوخاص توجہ دلانے کے لیے ارشاد فرمایا:’’ طہارت نصف ایمان ہے‘‘۔ (صحیح مسلم: 223)
اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ اسلام میں طہارت کا غیر معمولی مقام ہے اور ایک مومن کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہمیشہ پاک رہے،صاف رہے اورہر قسم کی گندگی سے پرہیز کرے۔اس سلسلے میں ہمیں عہدِ نبویﷺکے ایک واقعے سے بھی واضح تعلیم حاصل ہوتی ہے،حضرت عطاء بن یسارؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ کے رسول ﷺ مسجد میں تھے، اسی دوران ایک شخص داخل ہوا جس کے سر اور داڑھی کے بال پر اگندہ تھے، رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے اس شخص سے کہا کہ چلے جاؤ، گویا کہ رسول اللہ ﷺ اس کو سر اور داڑھی کے بال کی اصلاح کرنے کا حکم دے رہے تھے، اس شخص نے ایسا ہی کیا پھر واپس آیا ، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : کیا یہ بہتر نہیں ہے اس کے مقابلہ میں کہ تم میں سے کوئی شخص اس حال میں آئے کہ ا س کے بال پرا گندہ ہوں گویا کہ وہ شیطان لگ رہاہو‘‘۔ (موطأ مالک: 756)

نبی کریمﷺ نے طہارت و پاکی حاصل کرنے والوں کو خوشخبری سنائی ہے کہ ان کی طہارت قیامت کے روز ان کے حق میں گواہ بنے گی، آپ ﷺ کا فرمان ہے:’’ بلاشبہ میری امت کو قیامت کے دن اس حال میں بلایا جائے گا کہ ان کے اعضاء وضوء کے آثار کی وجہ سے چمک رہے ہوں گے، لہذا تم میں سے جو اپنی چمک کو بڑھا سکتا ہو اسے ضرور ایسا کرنا چاہئے‘‘۔ (صحیح بخاری: 136)

بہرحال، صرف اصلاحِ باطن کافی نہیں کہ ظاہر ترک کر دیا جائے۔بلکہ جس وقت باطن میں کوئی کیفیت ہوتی ہے تو ظاہر میں اس کا ظہور ضروری ہے۔ مثلاً، کسی کے دل میں غصے کی کیفیت ہوتی ہے تو چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے کہ چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور رگیں پھول جاتی ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ دل میں تو محبت ہو اور محبوب کی طرف ہاتھ بڑھے، نہ پاؤں چلے۔جب دنیا کی محبت کی یہ حالت ہے، جو نہایت ضعیف ہے تو پھر الله تعالیٰ کی محبت میں کہ جو نہایت قوی ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قلب میں تو حق تعالیٰ کی محبت ہو اور زبان پر اُس کی تعریف کے کلمات نہ آئے ہوں اور عجز ونیاز نہ ظاہر ہو ؟ اگر ظاہراً کوئی آثار پائے نہیں جائیں گے تو یہی کہا جائے گا کہ اسے اللہ تعالیٰ سے محبت ہی نہیں ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ قلب میں اللہ کی محبت ہواور ظاہر سے نظر نہ آئے۔
اس سے ثابت ہوا کہ باطن کے لیے ظاہر لازمی ہے۔ پس جب تزکیہٴ باطن ضروری ہوا تو تزکیہٴ ظاہری بھی لازم ہونے کی وجہ سے ضروری ہو گیا۔ لہٰذا، باطنی اور ظاہری دونوں تزکیے ضروری ہوئے ۔ گو ضروری دونوں تھے ،مگر چوں کہ اصل نفس کا تزکیہ تھا، اس لیے ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی﴾ میں اسے بیان کیاگیا کہ جو شخص عقائد واخلاق کے خبائث سے پاک ہو گیا، وہ کام یاب ہو گیا۔

عقلی وجود کا تزکیہ:

کائنات کی اہمیت ،وقعت اور عظمت عقل کے دم سے ہے ۔ صرف عقل کائنات کو دیکھتی ہے، سمجھتی اور اُس پر بات کرتی ہے۔ عقل کی عدم موجودگی میں کائنات کی اہمیت، وقعت اور ختم ہو جائے گی کیوں کہ اُس کو دیکھنے، سمجھنے اور اُس پر بات کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ 

عقل کی موجودگی کو ادراک کرنے کے لئے ضروری شرط اپنے آپ سے عدم غفلت ہے اور عقل سے دور ھونے کی وجہ اپنے آپ کو نہ پہچاننا اور اپنے بارے میں بیگانگی اور نفس کا بعض اندھی خواہشات کا غلام بننا ہے۔

انسان کے لیے سب سے زیادہ باعث شرف چیز اس کی عقل ہے۔ یہ فطرت کی ایک غیر معمولی نعمت ہے، جو انسان کو ودیعت کی گئی ہے۔ انسان کو جو چیزیں دوسرے جان داروں سے ممتاز کرتی ہیں، انھی میں سے ایک یہ عقل ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی تندرست ہے، صحیح الاعضا ہے، رعنا جوان ہے، اس میں کوئی کمی نہیں، لیکن اس کی عقل مفلوج ہو جائے تو ہم اسے پاگل ٹھہرا دیتے ہیں۔ وہ شکل و صورت سے تو ایک انسان ہی ہوتا ہے، مگر بسا اوقات، اس کی زندگی حیوانوں سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ آج نظر آنے والی انسان کی تہذیبی، تمدنی اور سائنسی ترقی اسی عقل کی منت کش ہے۔ پچھلی دو صدیوں میں مادی علوم کی کرشمہ سازیاں اور انسانی علوم کی دریافتیں اسی عقل کی عنایات ہیں۔ یہی عقل ہے جس کے بل پر انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ کائنات کا یہ عقدہ سلجھالے گا۔ اور اپنے تمام مسائل خود ہی حل کر لے گا۔

یہ عقل، بلاشبہ، ایک عظیم نعمت ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ آفات بھی لگی ہوئی ہیں۔ یہ شہوات کے پیچھے اندھی ہو جاتی، رغبات اسے لبھا لیتیں، جذبات اس پر غالب آجاتے اور تعصبات اسے معطل کر دیتے ہیں۔ یہ اپنے ہی وجود سے رشوت لے لیتی اور اپنے ہی بنائے ہوئے دام میں پھنس جاتی ہے۔ بسا اوقات، اس پر تساہل طاری ہو جاتا اور انفرادی ہی نہیں، اجتماعی سطح پر بھی کسل مندی کا شکار ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس کا تزکیہ ہو، اسے ان آلودگیوں سے پاک کیا جائے اور اس کے سامنے ایک برتر مقصد رکھا جائے تاکہ یہ اپنا عمل صحیح رخ پر انجام دے اور صحیح نتائج تک پہنچے۔

عقلی وجود کے تزکیے کا راستہ کیا ہے؟ عقل ان آفات سے کیسے نجات پا سکتی ہے؟ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے اور عقل سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ اس کا راستہ صرف ایک ہے۔اور وہ یہ ہے کہ عقل اپنے سامنے موجود سوالات کا صحیح جواب پا لے۔اس دنیا کے بارے میں،اس کائنات کے بارے میں اور خود اس کے اپنے بارے میں جو بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں، ان کا جواب اسے مل جائے۔ وہ جان لے کہ اس کا اپنا منبع کیا ہے، وہ کہاں سے آئی ہے، اسے کیا حیثیت حاصل ہے، اس کا مقصود کیا ہے، یہ کائنات کیسے وجود میں آئی ہے اور اس کی منزل کیا ہے؟اس کا خالق و مالک کون ہے ؟
قرآن مجید کے مطابق بھی انسان عقل رکھتے ہیں، لیکن ان کے دل کے اندھے پن کی وجہ سے اس سے استفادہ نہیں کر سکتے ہیں

وَإِذا قيلَ لَهُمُ اتَّبِعوا ما أَنزَلَ اللَّهُ قالوا بَل نَتَّبِعُ ما أَلفَينا عَلَيهِ ءاباءَنا ۗ أَوَلَو كانَ ءاباؤُهُملا يَعقِلونَ شَيـًٔا وَلا يَهتَدونَ {2:170}؛

اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) الله نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ 'کچھ سمجھتے' ہوں اورنہ سیدھے رستے پر ہوں (تب بھی وہ انہیں کی پیروی کئے جائیں گے)۔

مختصر یہ کہ عقل جہاں ایک عظیم نعمت ہے، وہاں اس کے ساتھ آفات بھی لگی ہوئی ہیں۔ اس کے تزکیے کے لیے اللہ تعالی کی سچی معرفت ضروری ہے اور اس معرفت کاراستہ ’تعقل‘، ’تفکر‘ اور ’تذکر‘ ہے۔ ’تعقل‘، ’تفکر‘ اور ’تذکر‘ کو بے راہ ہونے سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں تدبر کیا جائے، یعنی عقل اپنے یہ وظائف قرآن مجید کی روشنی میں انجام دے۔ تزکیۂ نفس کا راستہ بھی قرآن مجید سے معلوم کیا جائے۔ اس کے لیے جو کچھ بھی اعمال کیے جائیں، ان کی بنیاد قرآن مجید پر ہونی چاہیے۔ قرآن مجید کے بغیر اور قرآن مجید کی رہنمائی میں تعقل، تفکر اور تذکر، تینوں میں غیر معمولی فرق واقع ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید کی رہنمائی میں تعقل کی برکات کا مشاہدہ کرنا ہو تو ہمارے محدثین کی عزیمت، یقین اور اعتماد کی ایک جھلک تاریخ کے اوراق میں دیکھ لیں۔ قرآن مجید کے بغیر تعقل میں جو انتشار، بے جہتی اور عجز و درماندگی پائی جاتی ہے، اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو فلسفے کی بھول بھلیاں پر ایک نظر ڈال لیں۔ قرآن مجید ایک شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ہاتھ پکڑتا اور منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ اس کی رہنمائی ایک استاد کی رہنمائی ہے۔ یہ اس قابل بناتا ہے کہ انسان صحیح نتائج پر پہنچ سکے اور ان چیزوں پر متنبہ کر دیتا ہے، جن میں ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہو۔

زھد کیاہے ؟(ایک غلط فہمی کا ازالہ)

زھد باطنی اخلاق سے ہے، جس کا مطلب دنیا سے بے رغبتی اور بے پرواہی ہے ۔ باطنی اخلاق سے مراد وہ خوبیاں اور اوصاف ہیں جنہیں انسان خود محسوس کر سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس انسان نے اپنی ذات پہ کتنی محنت کی ہے اور کس حد تک اپنا تزکیہ نفس کیا ہے۔ تزکیہ نفس کا ظہور اعلیٰ اخلاق سے ہوتا ہے۔ اگر انسان اپنے معاملات میں خدا خوفی ،عدل اور تقویٰ کو اختیار کرتا ہے گویا اس نے اپنا تزکیہ کیا ہے۔جو ان باتوں کا خیال نہیں کرتا ،بے خوفی، ظلم اور احساسِ جواب دہی کے بغیر معاملات زندگی لے کر چلتا ہے تو اس نے تزکیہ نفس نہیں کیا۔ زھد کا مفہوم صرف یہ ہے کہ اپنے دل کو دنیا کی محبت سے خالی کرنا، دنیاو آخرت کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینا ہے۔
انسان "محسوسات ”  کا قیدی ہے، وہ محسوسات کو ہی اپنا سب کچھ خیال کر بیٹھتا ہے، اس لئے اس کا دل دنیا اور اشیاء دنیا کے ساتھ زیادہ وابستہ ہوتا ہے۔ مال اور اولاد کو اللہ تعالیٰ نے آزمائش قرار دیا ہے کیونکہ ان کی محبت میں انسان سب کچھ کر گزرتا ہے۔ یہ دونوں انتہائیں ہیں کہ انسان دنیا کی محبت میں اتنا غرق ہو جائے کہ اسے دنیا کے علاوہ سب کچھ بھول جائے یا وہ اتنا  دیندار بن جائے کہ دنیا داری(زندگی کے معاملات ) کو معطل کردے۔ دوسرا راستہ غلوکا راستہ ہے جس کی شریعت میں بہت ہی تردید آئی ہے۔ دین کی تعلیم فقط یہ ہے کہ دنیا کو اندر سے نکال دو، دنیا کے اندر سے نہ نکلو۔

حدیث میں آتا ہے کہ تین حضرات (علی بن ابی طالب،عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون ؓ ) نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس آپﷺ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں نبی کریم ﷺ کا عمل بتایا گیا تو انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا نبی کریم ﷺ سے کیا مقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اورکبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا ۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا ۔ پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں ۔ « فمن رغب عن سنتي فليس مني » میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر: 5063)
یعنی وہی عمل قابل ثواب ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو ۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی بجائے اپنی مرضی سے زیادہ عمل کر کے زیادہ ثواب حاصل کرنے کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار ناراضگی فرمایا ۔ اگر یہ تین اعمال "زھد” کہلاتے تو رسول اللہ ﷺ اپنے تین صحابیوں کو اس پہ عمل جاری رکھنے کی تلقین فرماتے ، آپ نے ان کے سامنے اپنا اسوہ پیش کیا جس سے معلوم ہوا زھد دنیاسے "ظاہری علیحدگی” کا نام نہیں بلکہ "باطنی علیحدگی” کا نام ہے۔قرآن مجید کے مطابق یہ زندگی عارضی ہے اورانسان نے اس کے بعد ایک ایسے عالَم میں مستقل قیام اختیار کرنا ہے جو اس دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ اس لئے دنیا کی زندگی کو "لھوولعب”بھی کہا گیا۔
"زھد کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ انسان دنیا سے بے رغبت ہو جائے، والدین،بیوی ،بچوں اور دوست واحباب سے تعلقات منقطع کر دے،صحراءوجنگل میں بسیرا کرلے یا گوشہ نشیں ہو جائے۔ یا کئی کئی سال چلے و مراقبہ کرتا رہے۔زھد کا مفہوم صرف یہ ہے کہ اپنے دل کودنیا کی محبت سے خالی کرنا، دنیاو آخرت کے مقابلے میں آخرت کوترجیح دیناہے۔جاری ہے۔۔
اس سے متعلقہ سابقہ قسط کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_17.html?m=1

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_23.html

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...