Sunday 17 September 2017

نفس اور اس کی اقسام؟؟؟


نفس اور اس کی اقسام؟؟؟

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#108

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے شیطان اور نفس میں کیا فرق ہے۔ اکثر لوگ اس میں تردد کا شکار ہیں، شیطان کا کام انسان کے دل میں صرف وسوسے ڈالنا ہے لیکن اگر ایک گناہ پر بار بار دل میں کچھ وسوسے آ رہے ہوں تو وہ نفس ہے، مثلاً شیطان صرف دل میں وسوسہ ڈال دیتا ہےکہ فلاں کام کرو لیکن جب انسان زیادہ دھیان نہیں دیتا تو وہ فوراً ختم ہو جاتا ہے، لیکن اگر دل میں بار بار ہی وسوسہ ہو رہا ہو تو وہ نفس ہے۔ یعنی انسان کو دھوکہ شیطان بھی دیتا ہے اور نفس بھی،مگر دونوں کے طریقہ کار میں فرق ھے،شیطان کسی گناہ کی ترغیب اس طرح دیتا ھے،کہ اس کی تاویل سجھا
دیتا ھے،کہ یہ کام کرلو اس میں دنیاکا فلاں فائدہ اور فلاں مصلحت ھے،جب کسی کے تاویل و مصلحت دل میں آئے تو سمجھ لو کہ یہ شیطان کا دھوکہ ہے،اور نفس گناہ کی ترغیب لذت کی بنیاد پر دیتا ھے،کہتا ہے کہ یہ گناہ کرلو بڑا مزا آئے گاجب کسی گناہ کا خیال لذت حاصل کرنے کیلئے آئے تو سمجھ لو کہ یہ نفس کا دھوکہ ھے۔
لہذا ابلیس کی طرف سے وسوسه ، ظاہری شیطان کے عنوان سے اور نفس کے ذریعہ خواہشات کو ابهارنا باطنی شیطان کے عنوان سے انسان کو زوال سے دوچار کرتے هیں۔(واللہ اعلم)

اس پر تمام اہل الرائے متفق ہیں کہ نفس ایک ہی ہے مگر اس کی صفات مختلف ہیں ان صفات کا اظہار مختلف طریقوں سے ہوتا ہے اور نفس کی ہر ہر قسم الگ الگ خواص و صفات کی حامل ہوتی ہیں۔
اور یہ الگ اثرات انسانی طبعیت و مزاج، عادات و خصائل اور اخلاق و اعمال سے ظاہر ہوتے ہیں نفس بذات خود بھی انسان کے احوال و اخلاق کی تشکیل پر اثر انداز ہوتا ہے۔
نفس مختلف کرداروں میں ہمارے پورے وجود پر حاوی ہو جاتا ہے، اور ہمارے جسمانی وجود کو ان کرداروں کے ذریعے استعمال کرتا ہے،
نفس کے کرداروں میں تقریباً ،حرص ، حسد ، شہوت،غیبت،جھوٹ ،دھوکہ،تکبر،کینہ وغیرہ نمایاں ہیں۔اور جو باتیں شرعاً اور عقلاً ناپسندیدہ اور بری ہیں۔یہ نفس کے وہ کردار ہیں جو انسان کو تباہی کی دلدل میں گرا دیتے ہیں۔

بہت سے لوگوں کے بیانات کے مطابق انسان کے نفس کی تین بڑی اقسام ہیں۔ اور آگے اس کی کئی ذیلی تعریفات ہیں۔لیکن ہم اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے اور کسی بحث میں پڑے بغیر انہیں تین اہم اقسام پر بات کریں گے۔جو تقریبا تمام اہل الرائے کے ہاں متفقہ اور معروف ہیں۔

اِنسان کے جسدِ خاکی میں معصیت کا گہرا شعور رکھنے والی اور اُس سے بچنے(اِجتناب ) کے طریقوں سے بھی آگاہ رہنے والی ایک فعال ، متحرک اور خود مختار قوتِ حاکمہ ہوتی ہے؛ جو اِنسان کو بد اعمالی اور گُناہ پر اکساتی بھی ہے اور اس سے بچاؤ کے طریقے بھی سُجھاتی ہے ؛ نیز کبھی کسی بد کرداری کے ظہور پر لعنت و ملامت بھی کرتی ہے۔ وہ متضاد داخلی کیفیات کی حامل ہوتی ہے، کبھی معصیتوں اور بد اعمالیوں کا اصل منبع ہوا کرتی ہے اور کبھی حسنات و اعمالِ صالحہ کے لیے داعی و محرک ہو کر رُشدوخیر کے لیے بُنیادی سرچشمہ بن جاتی ہے۔ بالفاظِ دیگر وہ روح اور جسم کے درمیان ایک پل کا کام دیتی ہے، یہی قوتِ حاکمہ "نفس" (SELF)کہلاتی ہے۔ہ قرآنِ پاک میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا﴿7﴾ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا﴿8﴾ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا﴿9﴾(الشمس:7،8،9)

 " قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی۔ پھر سمجھ دی اس کو بدکاری کی اور بچ کر چلنے کی۔جس نے اسے پاک کیا وه کامیاب ہوا۔"

نفس کے معانی:

لغت میں نفس کے مختلف معنی وارد ہوئے ہیں مگر قابل ذکر چند یہ ہیں : جان ، روح ، ذات، شخصیت،ہوا،سانس وغیرہ۔
جبکہ فرہنگ آصفیہ میں ہے ۔دم کشی،سانس،تنفس،ناک سے قلب کی ترویج کے واسطے ہوا لینا،ناک کے رستے اندرونی ہوا نکالنا۔
مصباح الغات میں نفس کے معانی روح،خون،سانس،مہلت اور کشادگی بیان کی گئی ہے۔

لفظ نفس کے مختلف معنوں میں استعمال کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر نفس کا اصل مفہوم کیا ہے۔ چونکہ لفظ عربی ہے اور اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عربی کے قواعد کی رو سے ہی اس پر غور کیا جاۓ۔ اردو میں چونکہ عام طور پر بلا اعراب ہی لکھا جاتا ہے اس وجہ سے تلفظ کی حرکات واضح نہیں ہو پاتیں، لفظ نفس کے اعراب کے لحاظ سے تین تلفظ آتے ہیں

نَفُسَ جس کے معنی قیمتی، نادر اور بیش قیمت ہونے کے ہوتے ہیں۔
نَفس جس کے معنی باطن، ذات، روح اور انسان(شخصیت) کے آتے ہیں۔فرہنگ آصفیہ میں جان، روح،ذات ہستی،عین، وجود ،جوہر، اصلیت،لب لباب وغیرہ کے ہیں۔

نفس قرآن مجید میں اُن معنوں میں  بھی استعمال ہوا ہے جن کے لئے ہم 'جان' کا لفظ بولتے ہیں۔ یہ انسان کا اصل وجود ہے جو ہماری شخصیت کی نمائندگی کرتا ہے ۔اس مقصد کے لیے  عام طور پر 'روح' کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن روح کا لفظ قرآن مجید میں متعدد معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ حضرت جبرائیل کے لیے (دیکھئیے سورہ القدر:4 اور مریم:17)۔ یہ لفظ وحی کے معنوں میں( دیکھئیے سورہ غافر:15)اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اذنِ خصوصی(دیکھئیے سورہ حجر:29)کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ۔

نفس کی تین اہم  اقسام:

نفوس انسانیہ اپنی استعداد وفیضان کے لحاظ سے مختلف مراتب اور درجات پر ہوتے ہیں۔ نفس کا تعلق جسم سے ہوتا ہے۔ نفس اور روح کا کام علیحدا علیحدا ہوتا ہے۔ روح تو انتہائی پاکیزہ اور بلند درجہ رکھتی ہے مگر نفس کے تین درجے ہیں۔
جن کو ہم نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ کا نام دیتے ہیں۔البتہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ نفس کی الگ الگ تین قسمیں نہیں بلک ایک ہی نفس کی مختلف کیفیات وصفات ہیں ۔

حافظ ابن عبد البر (رح) نے التمہید میں ایک حدیث نقل کی ہے اسی کو امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں بھی تخریج فرمایا۔ان اللہ تعالیٰ خلق ادم وجعل فیہ نفسا وروحا فمن الروح عفافہ وفھمہ، وحلمہ وجودہ وسخاۂ ووفاۂ ۔ ومن النفس شھوتہ وغضبہ وسفھہ وطیشہ :کہ اللہ رب العزت نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور اس میں نفس بھی رکھا اور روح بھی تو روح سے انسان کی عفت و پاکدامنی اس کا علم وفہم اور اس کا وجودوکرم اور وفاء عہد ہے اور نفس سے اس کی شہوت اس کا غضب اور برافروختگی ہے۔حدیث کا مضمون نفس اور روح مختلف ہونے پر دلالت کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان میں اللہ تعالیٰ نے دو متضاد اور مختلف قوتیں پیدا کی ہیں ایک قوت اس کو خیر پر آمادہ کرنے والی ہے جس کا نام روح ہے اور دوسری قوت شر پر آمادہ کرنے والی ہے اس کو نفس کہتے ہیں۔

1'نفس مطمئنہ : جو انسان کو اطاعت الہی اور اللہ کے ذکر فکر میں مطمئن رکھتا ہے اور خواہشات کی کشمش اور گناہوں کے خطراب سے دور رکھتا ہے۔
 يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ﴿27﴾ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً،28﴿،27،28﴾
 "اے اطمینان والی روح۔ تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وه تجھ سے خوش۔"

یہ نفس کی وہ قسم ہے جو ایک کامل مومن میں ہونی چاہیے یہاں پرانسان اپنی ہر رضا اور مرضی اللہ کی رضا بنا لیتا ہے، یہ وہ نفس ہے جو ریاضت و مجاہدت کرکے اپنی بری عادات اور اخلاقِ رذیلہ کو دور کرتا ہے۔ اطاعت حق اور ذکرِ اللہ اس کا مزاج اور شریعت اس کی طبیعت بن جاتی ہے۔ ’’لوٹ جاؤ اپنے رب کی طرف‘‘یعنی نفس کا پہلا مقام بھی اپنے رب کے پاس تھا اور اب جب خود کو پوری طرح اللہ کے سپرد کر لیا تو اللہ نفس کو یاد دلاتا ہے کہ اپنے پہلے مقام کی طرف لوٹ جاؤ۔

امام ابن قیم فرماتے ہیں :
اللہ تعالی نفس مطمئنہ کی لشکروں سے مدد فرماتا ہے اس نے اس کا ساتھی ایک فرشتے کو بنا دیا ہے جو لگا تار اس کے ساتھ رہتا ہے ۔اسے سیدھا رکھتا ہے اس میں سچ ڈالتا رہتا ہے اور سچائی کی طرف مائل کرتا رہتا ہے اور اس کی حسین وجمیل صورت دکھاتا رہتا ہے اور غلطی پر ڈانتا رہتا  اس سے نفرت دلاتا رہتا ہے اور اس کی ڈراؤنی اور بری صورت دکھاتا رہتا ہے۔اور قرآن مجید کی تلاوت ،اذکار اور نیک اعمال پر مدد کرتا رہتا ہے۔اور ہر طرف سے نیکیوں کے وفد اور توفیق کے سپاہی اس کے پاس آتے رہتے ہیں۔اور انہیں قبول کرنے اور اللہ کا شکر ادا کرنے سے اس کی مدد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اب وہ امارہ سے ہمت کے ساتھ جنگ کر سکتا ہے ۔اس کے لشکروں اور ملک کا بادشاہ ایمان و یقین ہے اور تمام اسلامی لشکر اس کے جھنڈے تلے ہے اور اس کی طرف دیکھ رہا ہے اگر یہ ڈٹا رہا تو لشکر بھی ڈٹا رہے گا اور ورنہ بھاگ کھڑا ہو گا ۔پھر اس لشکر کے کمانڈر (سپاہی )اور مقدمہ الجیش ایمان کی شاخیں ہیں۔جس طرح  نماز،روزہ ،حج،زکوٰۃ،جہاد وعظ نصیحت اور عوام کے ساتھ ہمدردی اور اچھا برتاؤ وغیرہ اور اس کی اندرونی جڑیں جن کا واسطہ  دل سے ہے۔اخلاص،بھروسہ،قبولیت،استغفار،محاسبہ،صبر،بردباری،فروتنی ،مسکینی ،دل میں اللہ کی او ر اس کے رسول ﷺکی بے پناہ محبت اللہ کے احکام وحقوق کی بڑائی اللہ تعالیٰ کے لئے اور اللہ کے دین میں غیرت،بہادری،پاک،دامنی،سچائی اور شفقت ورحمت ہیں ۔اور ان سب کا سر اخلاص اور سچائی ہے۔مخلص وصادق سے  سیدھی راہ پر چلنے سے تھکتا  نہیں اور سوچ سوچ کر قدم اٹھاتا ہے۔
سب سے افضل نفس وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کی کوتاہی پر خود کو جھنکتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے کاموں میں برا کہنے والوں کی برائیاں برداشت کرتا رہتا ہے ۔اور کسی کی پرواہ نہیں کرتا ،بے شک یہ اللہ تعالیٰ کی ملامت سے نجات پا جائے گا۔لیکن جس کا نفس اپنے اعمال سے راضی سے راضی ہو اور کوتاہی پر پوچھ گچھ نہ کرے اور دوسروں کی نکتہ چینی سے گھبرائے وہ اللہ کی ملامت سے نجات نہ پائے گا۔
رحمتہ اللعالمین ﷺنے فرمایا :انسان پر شیطان بھی اترتا ہے اور فرشتہ بھی (برے خیالات بھی آتے ہیں اور اچھے بھی)شیطانی خیالات تو برائی پر اور حق جھٹلانے پر ابھارتے ہیں ۔اور نیک خیالات بھلائی پر اور تصدیق حق  پرابھارتے ہیں۔پھر جس کے دل میں نیک خیالات آئیں اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے۔اور یقین کر لینا چاہئیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور دوسری صورت میں شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ طلب کرنی چاہئے۔پھر آپ نے آیت:الشیطان یعد کم الفقراء الخ شیطان ایک طرف تو تمہیں محتاجی سے ڈراتا ہے ۔اور دوسری طرف تمہیں بے حیائیوں کی رغبت بھی دیتا ہے جس سے لازمی طور پر محتاجی آجاتی ہے ،پڑھ کر سنائی۔ (کتاب الروح)

2-نفس لوامہ :  جو انسان کو گناہوں پر ملامت کرتا ہے کہ یہ کام بہت برا تھا تم نے کیوں کیا ؟

نفس لوّامہ۔ گناہ پر ملامت کرنے والا نفس۔
وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ (القیامہ:2)
"اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے واﻻ ہو۔"
نفس کی یہ قسم انسان کو بار بار ملامت کرتی ہے، پہلے یہ نفس کوگناہ کرنے پر راضی کرتا ہے لیکن گناہ کرنے کے بعد احساسِ جرم کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر وہ گناہ جو اس سے سرزد ہوا چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے ہر نفس کے درمیان جنگ لڑتا ہے۔ کبھی وہ گناہ کرتا ہے اور کبھی گناہ سے دور ہونے لگتا ہے۔

امام ابن قیم فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے نفس لوامہ کی قسم کھائی ہے "فلا اقسم بالنفس اللوامۃ"اس کی تعریف میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک نفس لوامہ ایک حالت پر قائم نہیں رہتا ۔یہ لفظ تلوم سے لیا گیا ہے جس کا مطلب تردد (تلون مزاجی )کا ہے۔نفس لوامہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نشانی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے۔ہر وقت نئے نئے رنگ بدلتا رہتا ہے کبھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے کبھی غافل ہو جاتا ہے ،کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹ جاتا ہے،کبھی لطیف بن جاتا ہے،کبھی  کثیف ،کبھی اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے کبھی پتھر بن جاتا ہے ،کبھی نیکیوں کو پسند کرتا ہے اور کبھی ناپسند ،کبھی ان سے خوش ہوتا اور کبھی ناخوش،کبھی ناراض ہوتا ہے اور کبھی راضی کبھی اچھے عمل کرتا ہے اور کبھی برے۔جبکہ لمحہ لمحہ ہزاروں رنگ بدلتا رہتا ہے۔کچھ کے نزدیک لوم (ملامت)سے لیا گیا ہے۔اس میں پھر اختلاف ہے کہ نفس لوامہ کس کا نفس ہے؟بعض کے نزدیک مومن کا نفس ہے اور لعن طعن اس کی صفات مجردہ میں سے ہے۔
کچھ کے نزدیک نفس لوامہ مومن کا نفس ہے جو مومن کو گناہ میں مبتلا کر دیتا ہے ،پھر اس پر ملامت کرتا ہے یہ لعن طعن ایمانی دلیل ہے کیونکہ بدبخت کا نفس گناہوں پر ملامت نہیں کرتا ۔بلکہ گناہ کرنے پر آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہیں۔
کچھ کے نزدیک نفس لوامہ دونوں (کافر ومومن)کا نفس ہے۔مومن گناہ کرتا ہے اور اطاعت نہ کرنے پر لعن طعن کرتا اور کافر خواہشات اور مزہ چھوڑنے پر ملامت کرتا ہے۔
کچھ کے نزدیک یہ ملامت قیامت کے دن پیش آئے گی۔ہر آدمی اپنے اپنے نفس پر ملامت کرے گا برا ہے تو برائی پر اور نیک ہے تو کوتاہی اعمال پر۔
یہ تمام اقوال درست ہیں اور ان میں کوئی ٹکراؤ نہیں کیونکہ نفس ان سب باتوں سے موصوف  ہے اور اسی لحاظ سے اسے لوامہ کہتے ہیں۔
(کتاب الروح،ص363)

3۔نفس امّارہ ۔ گناہ پر ابھارنے والا نفس۔

وَمَا أُبَرِّىءُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔(یوسف : 53)
"اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا،بے شک نفس تو برائی سکھاتا ہے مگر جس پر میرا رب مہربانی کرے،بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔"

اسے اگر حضرت یوسفؑ کا قول تسلیم کیا جائے تو بطورکسرنفی کے ہے،ورنہ صاف ظاہر ہے ان کی پاک دامنی ہر طرح سے ثابت ہو چکی تھی۔اوراگر یہ عزیزہ مصر کا قول ہے(جیسا کہ امام ابن کثیر کاخیال ہے)تو یہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اس نے اپنے گناہ کا اور یوسف ؑ کو بہلانے اور پھسلانے کا اعتراف کر لیا ۔
یہ اس نے اپنی کی توجیہ یا اس کی علت بیان کی کہ انسان کا نفس ہی ایسا ہے کہ اسے برائی پر ابھارتا اور اس پر آمادہ کرتا ہے۔
یعنی نفس کی شرارتوں سے وہی بچتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔جیسا کہ حضرت یوسف ؑ کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔(تفسیر آحسن البیان)

‘ یہ نفس کی وہ قسم ہے جس میں انسان گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا اور اس کو کوئی پروا نہیں ہوتی، پہلے یہ نفس انسان کو برائی کی دعوت دیتا ہے اور انسان اپنی مرضی اور خوشی سے یہ دعوت قبول کرتا ہے اور نفسانی کرداروں کو اپنے اوپر خود ہی حاوی کر لیتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو آج کل میں بہت لوگ نفس کی اس قسم کو بخوشی قبول کرتے ہیں اور نفس کی بجائے دل کا نام دیتے ہیں۔ بقول ان کے ہر وہ کام کرنا مناسب ہے جس سے آپ کے دل کی خواہش پوری ہو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انھیں اپنے وجود کو نفس الامارہ کی نگرامی دے دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نفس امارہ کی مخالفت کا حکم دیا ہے اور ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے نفس کے خلاف چلتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَویٰ۔ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْویٰ۔ (اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا، اس کا ٹھکانہ جنت ہے)۔

شیطان، لغت و اصطلاح میں ہر بغاوت برپا کر نے والی اور سرکش مخلوق کو شیطان کہا جاتا ہے خواه وه انسان ہو یا جنات یا حیوانات میں سے ہو-لفظ شیطان، ماده "شطن" سے ہے اور اس کے معنی مخالفت اور دوری هے، اور ہر باغی و سرکش مخلوق کو شیطان کہا جاتا هے، خواه وه انسانوں میں سے ہو یا جنات و حیوانات میں سے۔
ابلیس سے مراد ایک خاص شیطان ہے جو جنّات میں سے هے،یہ شیطان ، یعنی ابلیس کثرت عبادت کی وجہ سے ملائکه کے درجه پر پہنچ چکا تھا، لیکن نافرمانی اور بغاوت کے بعد اس مقدس مقام سے گر گیا-ـ چونکہ اس نے خدا کے حکم کی اطاعت نہیں کی اس لئے زوال سے دوچار ہو گیا۔
ابلیس، چونکہ ایک نافرمان ، سرکش اور تخریب کار مخلوق ہے اس لئے اسے شیطان کہا جاتا هے-

نتیجہ یہ کہ  نفس اماره ، حقیقت میں شیطان کے ہتهیاروں میں سے ایک ہتهیار اور انسان میں اس کے نفوذ کرنے کا ایک طریقہ ہے، یه جنات اور شیطان کے سپاہیوں میں شمار ہوتا ہے-
لہذا ابلیس کی طرف سے وسوسہ ، ظاہری شیطان کے عنوان سے اور نفس کے ذریعہ خواہشات کو ابهار نا باطنی شیطان کے عنوان سے انسان کو زوال سے دوچار کرتے ہیں۔

شیطان اور نفس اماره، دونوں انسان کے دشمن ہیں ، اسی لئے قرآن مجید نے بهی شیطان کو انسان کے کهلم کهلا دشمن کے عنوان سے معرفی کیا هے اور انسان کو تاکید کرتا ہے کہ اسے اپنا دشمن جان لے۔ارشاد باری تعالی ہے۔
إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴿6﴾
"یاد رکھو! شیطان تمہارا دشمن ہے، تم اسے دشمن جانو وه تو اپنے گروه کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وه سب جہنم واصل ہو جائیں۔ "

امام ابن قیم فرماتے ہیں
نفس امارہ برا نفس ہے۔کیونکہ یہ ہر برائی پر ابھارتا رہتا یہ اس کی طبیعت کا تقاضا ہے لیکن جسے اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماکر ثابت قدم اور مدد کرے۔کیونکہ کوئی اپنے نفس کی برائی سے سوائے اللہ تعالیٰ کی مدد سے بچ نہیں سکتا اللہ تعالیٰ نے عزیز کی عورت کی طرف سے نقل کر کے فرمایا:وما ابری نفسی ان النفس الا مارۃ الخمیں اپنے نفس کو بری نہیں سمجھتی واقعی نفس برائی کی طرف بہت ہی ابھارتا ہے۔لیکن میرا رب جس پر رحم فرمائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ولولا فضل اللہ علیکم الخ اگر تم پراللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک نہ ہوتا ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے زیادہ پیارے اور معزز بندے کے لئے فرمایا:ولولا ان ثبتناک الخ اگر ہم آپ کوثابت قدم نہ رکھتے تو آپ ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھک ہی جاتے۔
رحمتہ اللعالمین ﷺکے خطبہ کے ابتدائی الفاظ یہ ہوتے تھے ۔ترجمہ:الحمد للہ !ہم اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے ہیں اسی سے مدد مانگتے ہیں،اسی سے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور ہم اپنے نفسوں کی برائیوں سے اور برے اعمال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ،جسے وہ ہدیت دے ۔اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔
نفس کے اندر شر مخفی ہے جو برے عمل کرا دیتا ہے اگر اللہ بندے کو اس کے نفس پر چھوڑ دے تو بندہ اس کی برائی سے برے اعمال سے ہلاک ہو جائے اور اگر اسے توفیق دے اور اس کی مدد کرے تو نجات پا جائے۔آئیں ہم بھی اپنے معبود سے دعا کریں کہ اے رب ہمیں ہمارے نفسوں کی شرارتوں اور برے  اعمال سے بچا لے ۔آمین اللہ تعالیٰ ان دونوں نفسوں (امارہ ،لوامہ )سے لوگوں کو آزماتا ہے۔
نفس امارہ کا ساتھی شیطان ہوتا ہے جو اس سے جھوٹے وعدے کرتا ہے،پوری نہ ہونے والی امیدیں دلاتا رہتا ہے اسے جھوٹ میں ڈالتا رہتا ہے،برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے اور برائیوں کو خوبصورت شکلوں میں دکھاتا رہتا ہے،بڑی بڑی امیدیں دلاتا ہے اور جھوٹ ایسی شکلوں میں دکھلاتا ہے کہ اسے سوچے بغیر قبول کرے اور اس کی طرف متوجہ ہو جائے اور طرح طرح سے دھوکے دیتا رہتا ہے۔
خواہش و ارادے مدد کرتے ہیں اسی سے اس پر ہر بری بات کی راہ کھل جاتی ہے،خواہش اور ارادے سے بہتر کوئی شیطان کا مددگار نہیں ۔پھر اس کے بھائی انسانی شیطانوں کو بھی پتہ ہے کہ ممنوعہ چیزوں میں اسے جھونکنے پر خواہشات سے بہتر کوئی مددگار نہیں آخر وہ اس کی محبوب وپسندیدہ چیز کو ڈھونڈ نکالتے ہیں اور پوری کوشش سے اسے اس کے طلب کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔اور اسے گمراہ کر دیتے ہیں پھر جب نفس خواہشات کا دروازہ کھول دیتا ہے وہ اس دووازے سے اندر داخل ہو کر خوب فساد و اودھم مچاتے ہیں اور قتل وغارت گری کرتے ہیں ۔جیسے دشمن دشمن کے شہر فتح کر کے ان میں لوٹ مار مچاتے ہیں ۔اسی طرح یہ بھی ایمان کے تلاوت قرآن کے اور ذکر ونماز کے نشانات کو مٹاتے ہیں،مسجدیں بے آباد کر کے گرجوں اور آتش کدوں کو آباد کرتے ہیں اور شراب خانوں اور جوا خانوں میں چلے جاتے ہیں۔بادشاہ کو گرفتار کر کے اس کا ملک چھین لیتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے ہٹا کر رنڈیوں(بے حیائی) میں اور بتوں(شرک) کی پوجا میں لگا دیتے ہیں اور اطاعت کی عزت سے نکال کر گناہوں کی دلدل میں پھنسا دیتے ہیں اور رحمانی سماع سے دھکے دے کر شیطانی سماع کی طرف پہنچا دیتے ہیں اور رب العالمین سے ملنے کی توقع دور کر کے شیطانی بھائیوں سے ملنے کی غبت پیدا کر دیتے ہیں ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو پہلے اللہ کے حقوق کی نگرانی کیا کرتا تھا وہ اب جی چرانے لگتا ہے اور جسے عزیز ورحمٰن کی خدمت کا اعزاز حاصل تھا آج وہی شیطان رجیم کی خدمت کے لئے مستعدد ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

انبیاء کرام علیہم السلام اور علماء نے نفس امارہ سے اور اس کے ساتھی شیطان سے جو اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے اسی لئے دیا ہے کہ یہ دونوں ہر برائی کی جڑ ہیں اور دونوں اکھٹے مل جل کر کام کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جب تم قرآن پاک پڑھنے کا ارادہ کرو تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔اگر شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کوئی خدشہ پیدا ہو تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔کیونکہ وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔
آپ فرمادیں کہ اے رب میں شیطان کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔اور اے رب!اس سے بھی کہ وہ میرے پاس آئے ۔آپ فرما دیں کہ میں مخلوق کی برائی سے صبح کے رب کی پناہ مانگتا ہوں اور اندھیرے کی برائی سے بھی،جبکہ وہ پھیل جائے ۔اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کی برائی سے بھی اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وہ حسد کرے۔آپ فرمادیں کہ میں وسوسہ ڈالنے والے اورچھپ جانے والے انسانوں اورجنوں کی برائی سے جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتے رہتے ہیں۔لوگوں کے رب کی ان کے بادشاہ کی اور ان کے معبود کی پناہ مانگتا ہوں یہ استعاذہ نفس امارہ سے اور اس کے ساتھی سے ہے ،کیونکہ یہ نفس کا بدترین ساتھی ہے۔ (کتاب الروح)

انسان کا نفس ،لذتوں کا خوگر ہے:

ہمارا نفس یعنی وہ قوت جو انسان کو کسی کام کے کرنے کی طرف ابھارتی ہے ،وہ نفس دنیاوی لذتوں کا عادی بنا ہوا ہے،لہذا جس کام میں اس کو ظاہری اور مزہ آتا ہے،اس کی طرف یہ دوڑتا ہے،یہ اس کی جبلت اور خصلت ہے کہ ایسے کاموں کی طرف انسان کو مائل کرے ،اور اس سے کہتا ہے کہ یہ کام کر لے تو مزہ آجائے گا،یہ کام کر لے تو لذت حاصل ہو جائے گی،لہذا یہ نفس انسان کے دل میں خواہشات کے تقاضے پیدا کرتا رہتا ہے،اب اگر انسان اپنے نفس کو بےلگام اور بےمہار چھوڑ دے،اور جو بھی لذت کے حصول کا تقاضہ پیدا ہو،اس پر عمل کرتا جائے،اور نفس کی ہر بات مانتا جائے ،تو اس کے نتیجے میں پھر وہ انسان انسان نہیں رہتا بلکہ جانور بن جاتا ہے۔
نفسانی خواہشات کا اصول یہ ہے کہ اگر ان کی پیروی کرتے جاؤ گے،اور ان کے پیچھے چلتے جاؤ گے،اور اس کی باتیں مانتے جاؤ گے ،تو پھر کسی حد پر جا کر قرار نہیں آئے گا،انسان کا نفس کبھی یہ نہیں کہے گا کہ اب ساری خواہشات پوری ہو گئیں ،اب مجھے کچھ نہیں چاہئے ،اس لئے کسی انسان کی ساری خواہشات اس زندگی میں پوری نہیں ہو سکتیں ،اور اس کے ذریعہ کبھی قرار اور سکون نصیب نہیں ہوگا ۔یہ قاعدہ کہ اگر  کوئی شخص یہ چاہئے کہ میں نفس کے ہر تقاضے پر عمل کرتا جاؤں ،اور ہر خواہش پوری کرتا جاؤں تو کبھی اس کو قرار نہیں آئے گا،کیوں؟اس لئے کہ اس نفس کی خاصیت یہ ہے کہ ایک لطف اٹھانے کے بعد اور ایک مرتبہ لذت حاصل کر لینے کے بعد یہ فوراً دوسری لذت کی طرف بڑھتا ہے،لہذا اگر تم چاہتے ہو کہ نفسانی خواہشات کے پیچھے چل چل کر سکون حاصل کرلیں،توساری عمر کبھی سکون نہیں ملے گا تجربہ کر کے دیکھ لو۔
آج جن کو ترقی یافتہ اقوام کہا جاتا ہے انہوں نے یہ ہی کہا ہے کہ انسان کی پرائیویٹ زندگی میں کوئی دخل اندازی نہ کرو،جس کی مرضی میں جو کچھ آ رہا ہے ،وہ اس کو کرنے دو،اور جس شخص کو جس کام میں مزہ آ رہا ہے ،وہ اسے کرنے دو،نہ اس کا ہاتھ روکو،اور نہ اس پر کوئی پابندی لگاؤ،اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرو،چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ آج انسان کو لطف حاصل کرنے اور مزہ حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں،نہ قانون کی رکاوٹ نہ مذہب کی رکاوٹ ۔نہ اخلاق کی رکاوٹ ۔نہ معاشرے کی رکاوٹ ہے،کوئی پابندی نہیں ہے ،اور ہر شخص وہ کام کر رہا ہے جو اس کی مرضی میں آ رہا ہے اور اگر اس شخص سے کوئی پوچھے کہ کیا تمہارا مقصد حاصل ہو گیا ؟تم جتنا لطف اسے دنیا سے حاصل کرنا چاہتے تھے ،کیا لطف کی وہ آخری منزل اور مزے کا وہ آخری درجہ تمہیں حاصل ہو گیا،جس کے بعد تمہیں اور کچھ نہیں چاہئے ؟کوئی شخص بھی اس سوال کا "ہاں"میں جواب نہیں دے گا،بلکہ ہر شخص یہی کہے گا کہ مجھے اور مل جائے ،مجھے اور مل جائے ،آگے بڑھتا چلا جاؤں ،اس لئے کہ ایک خواہش دوسری خواہش کو ابھارتی رہتی ہے۔
آپ نے ایک بیماری کا نام سنا ہو گا جس کو "جوع البقر"کہتے ہیں،اس بیماری کی خاصیت یہ ہے کہ انسان کو بھوک لگتی رہتی ہے،جو دل چاہے ،کھا لے،جتنا چاہے کھا لے،مگر بھوک نہیں مٹتی ۔اسی طرح ایک اور بیماری ہے،جس کو "استسقاء"کہا جاتا ہے اس  بیماری میں انسان کو پیاس لگتی رہتی ہے،گھڑے کے گھڑے پی جائے ،کنویں بھی ختم کر جائے،مگرپیاس نہیں بجھتی ۔یہی حال انسان کی خواہشات کا ہے،اگر ان کو قابو نہ کیا جائے،اور ان پر کنٹرول نہ کیا جائے،اور جب تک ان کو شریعت اور اخلاق کے بندھن میں نہ باندھا جائے ،اس وقت تک اس کو "استسقاء"کی بیماری کی طرح لطف ولذت کے کسی بھی مرحلے پر جا کر قرار نصیب نہیں ہوتا،بلکہ لذت کی وہ ہوس بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔فرمان رسول ﷺہے :کہ نفسانی خواہشات کے پیچھے مت چلو،ان کا اتباع مت کرو،اس لئے کہ یہ تمہیں ہلاکت کے گڑھے میں لے جا کر ڈال دے گی۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...