Friday 1 September 2017

زندگی اور موت

زندگی اور موت

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#104

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

فالج:

﴿جسم کے  کسی حصے  میں  روح کی عدم موجودگی جسم کے  اس حصے  کی موت ہے  لیکن یہ جسم کی موت نہیں ﴾

یعنی جسم کے  کسی حصے  یا عضو سے  روح کے  خارج ہو جانے سے  اس حصے  کی موت واقع ہو جاتی ہے  لہذا وہ حصہ اپنا کام بند کر دیتا ہے۔
بے حرکت ہو جاتا ہے۔ مر جاتا ہے۔لہذا اس حصے  میں  روح تھی جس کی وجہ سے  وہ حصہ  یا عضو متحرک تھا۔ اپنا کام کر رہا تھا۔ زندہ تھا۔لہذا جسم کے  کسی حصے  میں  روح کی عدم موجودگی اس حصے  کی موت ہے۔
لیکن جسم کے  کسی حصے  کی موت بھی جسم کی موت نہیں  ہے۔

نیند:
شعور کو عملی طور پر معطل‘ اعصابی نظام کو نسبتاً غیر فعال اور آنکھوں کو بند کرکے جسم اور ذہن کو آرام پہنچانے کے فطری عمل کو نیند کہتے ہیں۔ نیند کے دوران انسان اپنے ماحول سے بے خبر رہتا ہے۔رات کو چند گھنٹوں کی نیند انسان کی فطری و بنیادی ضرورت ہے۔ کوئی انسان اس ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ 

جسم میں  روح کی عدم موجودگی کی ایک کیفیت نیند کی بھی ہے  حالت نیند میں  روح جسم سے علیحدہ ہوتی ہے  لیکن یہ روح کی جسم سے  وقتی علیحدگی کی کیفیت ہے اور روح کی اس وقتی علیحدگی سے  جسم موت کا شکار نہیں  ہوتا بلکہ جسم پہ نیند کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
نیند کی دو قسمیں ہیں:
(۱) طبعی (۲) غیر طبعی۔
(۱)طبعی نیند قوی نفسانی بے حس وحرکت ارادی سے تعبیر کرتے ہیں اس کا اپنے افعال سے رک جانا ہے جب یہ قوتیں تحریک بدن سے رک جاتی ہیں تو بدن ڈھیلا پڑجاتا ہے اور وہ رطوبات وبخارات جو حرکات وبیداری کی بناءپر تحلیل ومتفرق ہوتے رہتے اور مجتمع ہوجاتے ہیں اور دماغ جو ان قوتوں کا مرکز ہے وہاں پہنچ کر جسم پر بے حسی اور ڈھیلا پن پیدا کردیتے ہیں یہی طبعی نیند ہے۔
(۲)غیر طبعی نیند کسی خاص عارضہ یا بیماری کی بنا پر ہوتی ہے اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ رطوبات کا دماغ پر ایسا غلبہ ہوجائے کہ بیداری اس کے متفرق ومنتشر کرنے پر قادر نہ ہو یا بخارات رطبہ کی کثیر مقدار پر اٹھیں جیسا کہ کھانے پینے کے بعد پیدا ہونے والے امتلاء سے دیکھا جاتا ہے ان بخارات خام کی بناء پر دماغ میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے اور اس میں استر خائی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اس طرح بے حسی سی پیدا ہو جاتی ہے اور قویٰ نفسانی اپنے افعال کے انجام دینے پر قادر نہیں رہتے اور نیند آ جاتی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا ﴿47﴾ سورة الفرقان 
’’ اور وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پردہ پوش اور نیند کو راحت اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ﴿٦٧﴾ سورة يونس
’’ وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (تاکہ تم اس میں کام کاج کر سکو)۔ بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو (غور سے) سنتے ہیں‘

قرآن کی بہت ساری آیتوں میں نیند کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیند پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ نیند پر غور و فکر کرکے انسان کائنات کے بہت سارے رازوں کو جان سکتا ہے‘ کائنات کے خالق پر اور موت و حیات اور موت کے بعد کی زندگی یعنی آخرت کے بارے میں ایمان و یقین کا مل حاصل کرسکتا ہے‘ نیز نیند چونکہ موت کی ہی ایک شکل ہے لہذا انسان روزانہ سونے سے پہلے اپنا محاسبہ اور توبہ کرکے نفس و قلب کی اصلاح کرسکتا ہے۔

اسلام کا یہی تصور ہے کہ نیند کے بعد انسان بیدار بھی ہوسکتا ہے اور موت سے ہمکنار بھی ہو سکتا ہے۔ مسلمان اسی تصور کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اور نیند کی آغوش میں جاتے وقت نبی کریم ﷺ سِکھائی ہوئی دعاؤں کو پڑھ کر اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیتا ہے:
اَللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا۔ …بخاری: 6324۔
’’یا اللہ! میں تیرے نام سے مرتا اور زندہ ہوتا ہوں۔

نیند کا وجود کب سے ہے

مغربی مفکرین‘ محققین ‘ دانشور اور سائنسدان وغیرہ تعصب کی عینک اتار کر نیند اور موت پر غور کرتے تو قرآن کی حقانیت پر ایمان لے آتے لیکن اس جیسی بے شمار واضح نشانیوں کے باوجود دہریت کے ان پجاریوں کی ہٹ دھرمی یہ ہے کہ اب وہ اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ ’’ نیند کا وجود کب سے ہے ؟‘‘

دہریت کے ان پجاریوں کا خیال ہے کہ ’’ شروع میں نیند کا کوئی وجود نہیں تھا ۔ بندر سے انسان بننے کی ارتقائی عمل کے دوران یا انسان بننے کے بہت بعد انسان کو نیند کی ضرورت پیش آئی ‘‘۔۔ یوں وہ چارلس ڈارون کی ’ نظریہ ارتقاء ‘ کو مزید تقویت پہنچا کر انسان کو مزید گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ’’ نیند کا وجود کب سے ہے‘‘ اس کی تحقیق سے پہلے انہیں ’’رات دن کی ادل بدل کب سے ہے ‘‘ اس کی تحقیق کرنی چاہئے کیونکہ نیند کیلئے رات کی تاریکی لازم ہے۔ 
وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَاللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوافَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَوَالْحِسَابَ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا﴿١٢﴾ سورة الإسراء
’’ ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں، رات کی نشانی کو تو ہم نے تاریک کردیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور اس لئے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کرسکو اور ہر ہر چیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرما دیا ہے‘‘ ﴿١٢﴾ سورة الإسراء 
اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بالکل اسی حلیے میں بنایا ہے جس میں وہ آج موجود ہے اور دنیا میں پہلے دن سے ہی انسان کو نیند کی ضرورت پیش آئی۔
لیکن حضرت آدم و حوا ؑ جب جنت میں تھے تو وہاں نیند کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نیند کی ضرورت دنیا میں ہے۔ جنتی لوگ جنت میں نہیں سوئیں گے جیسا کہ حضرت جابر ؓراوی ہیں کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا :
’’نیند موت کا بھائی ہے،اور اہل جنت ،جنت میں نہیں سوئیں گے ‘‘۔۔(راوي: جابر بن عبدالله و عبدالله بن أبي أوفى المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1087 خلاصة حكم المحدث: صحيح بمجموع طرقه)​

 نیند کی کیفیات و مراحل اور اقسام: 

نیند مخلوق کی فطری ضرورت‘ کمزوری اور عیب ہے اور ہمارا خالق اس سے پاک ہے۔
عرف عام میں عربی میں لفظ ’ نَوْم ‘ نیند کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن مجید میں ’ نَوْم ‘ کے علاوہ مختلف عربی الفاظ نیند کے مختلف کیفیات و مراحل کو بیان کرنے کیلئے استعمال کئے گئے ہیں۔ آج کی جدید سائنس اپنی تمام تر تحقیقات کے باوجود نیند کے ان مرحلوں سے زیادہ کچھ جاننے سے قاصر ہے۔

قرآن کریم میں ’’ نیند‘‘ کی چار ( ۴ ) عمومی اور دو (۲) خصوصی )اسپیشل( کیفیات و اقسام بیان کی گئی ہے، جو درج ذیل ہیں:

نمبر1۔۔۔ اَلْسِنَةٌ یا اونگھ:
’ اَلْسِنَةٌ ‘ کے معنی غفلت یا اونگھ کے ہیں لیکن قرآن میں ’نیند‘ کی مناسبت سے لیا گیا ہے۔ اردو میں ’ سِنَةٌ ‘ کا ترجمہ اونگھ یا نیند کا خُمار ہے۔’ سِنَةٌ ‘ نیند کی پہلی کیفیت و قسم ہے جس میں پلکوں پر ہلکی سی نیند کا خُمار ظاہر ہوتا ہے یا نیند سے پلکیں جھپکنے لگتی ہیں یا بوجھل ہو جاتی ہیں لیکن انسان اپنے ماحول سے باخبر رہتا ہے۔
مخلوق ) انسان ) پر ’ سِنَةٌ ‘ کسی بھی وقت لاحق ہوسکتی ہے لیکن خالق (اللہ) ہر عیب کی طرح اس عیب سے بھی پاک ہے جیسا کہ آیت الکرسی میں ہے:
اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ ….. آیت الکرسی 
’’ اﷲ‘ اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند ‘‘….. آیت الکرسی
آیت الکرسی میں نیند کی پہلی اور آخری مرحلے کا ذکرکرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی ہر طرح کی نیند سے مکمل پاک ہے اور اللہ کیلئے یہی لائق ہے ۔

 نمبر 2۔۔۔ النُّعَاسَ یا غنودگی:
’ النُّعَاسَ‘ نیند کی دوسری کیفیت اور قسم ہے ۔ اس کا اثر ’ سِنَةٌ ‘ سے زیادہ ہے اور اسے آدھی نیند(half-sleep) بھی کہتے ہیں۔ اردو میں ہم اسے غنودگی کہہ سکتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ’ النُّعَاسَ‘ کو سونے اور جاگنے کی درمیانی کیفیت سے تعبیر کیا ہے۔ ’ النُّعَاسَ‘ کے دوران انسان آسانی سے بیدار ہو سکتا ہے۔
قرآن میں دو مقام پر’ النُّعَاسَ‘ کا ذکر ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر سے چند لمحے پہلے اہل ایمان پر ’ النُّعَاسَ‘ یعنی غنودگی طاری کردی۔ جس کے نتیجے میں جب وہ بیدار ہوئے تو تازہ دم ‘ پرسکون اور بے خوف تھے:
إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ ﴿١١﴾ سورة الأنفال
” جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں) راحت و سکون (فراہم کرنے) کے لئے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری و باطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں) کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو (قوتِ یقین) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دے ‘‘﴿١١﴾ سورة الأنفال
پھر اسی طرح جب جنگ احد میں صحابہ کرام جیتی ہوئی جنگ ہار کر حزن و ملال سے دوچار ہوئے تو اللہ تعالٰی نے دوبارہ ’ نُّعَاسَ ‘ یعنی غنودگی کے ذریعے انہیں غم سے نجات اور امان دے کر ان کے قلوب کو مضبوط کیا۔
ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ.... …..[3:154]
’’ پھر اس(اللہ) نے رنج و غم کے بعد تم پر (تسکین کے لئے) غنودگی کی صورت میں امان ( اطمینان و سکون اور تسلی) اتاری جو تم میں سے ایک جماعت پر چھا گئی ‘‘
اور صحیح بخاری میں ہے:
خلیفہ بن خیاط، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جن کو احد کے دن غنودگی (النُّعَاسُ) نے دبا لیا تھا مجھ پر ایسی غنودگی طاری ہوئی کہ کئی مرتبہ میرے ہاتھ سے میری تلوار گر پڑی وہ گرتی تھی اور میں اٹھاتا تھا۔۔ (صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ غزوات کا بیان ۔ حدیث 1292)
آج جدید تحقیق سے یہ ثابت ہو چکی ہے کہ ’ النُّعَاسَ‘ یا غنودگی کا ایک جھونکا ذہنی دباؤ stress / tension اور بلڈ پریشر (BP) کم کرکے انسان کو ہشاش بشاش کر دیتا ہے۔

نمبر 3۔۔۔ اَلْنَّوْمُ یا گہری اور بے خبری کی نیند:

یہ نیند کی تیسری کیفیت و قسم ہے اور عرف عام میں عربی کا یہی لفظ نیند کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو کر گہری نیند سونے کو ’ اَلْنَّوْمُ ‘کہتے ہیں۔ قرآن میں ’ اَلْنَّوْمُ ‘ کی تعریف ذیل کی آیتوں میں کی گئی ہے:
وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا ﴿٩﴾ سورة النبإ
’’ اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام کا سبب بنایا‘‘﴿٩﴾ سورة النبإ
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا ﴿٤٧﴾ سورة الفرقان
’’ اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پوشاک (کی طرح ڈھانک لینے والا) بنایا اور نیند کو (تمہارے لئے) آرام (کا باعث) بنایا اور دن کو (کام کاج کے لئے (اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا ‘‘﴿٤٧﴾ سورة الفرقان 

’ سُبَاتَ‘ کے معنی ہیں حرکت و عمل چھوڑ کر دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو کر آرام کرنا اور ایسا گہری نیند میں ہی ممکن ہے۔ 
لہذا ساری دنیا اسی ’ اَلْنَّوْمُ ‘ کی کیفیت میں یعنی دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو کر گہری نیند سوتی ہے سوائے اللہ کے متقی و پرہیزگار بندوں کے جنہیں رات کو عبادت کرنے کی فکر بے فکری کی نیند سونے نہیں دیتی ۔
آیت الکرسی میں اپنی صفاتِ عالیہ بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے نیند کی پہلی کیفیت ’ اَلْسِنَةٌ ‘ اور آخری کیفیت ’ اَلْنَّوْمُ ‘کو بیان کرکے اپنے آپ کو نیند کی ہر قسم سے پاک قرار دیا ہے اور خالق (اللہ ) کیلئے یہی لائق ہے: 
اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ ….. آیت الکرسی
’’ اﷲ‘ اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند ‘‘….. آیت الکرسی

نمبر 4۔۔۔ خواب دیکھنے والی نیند:

نیند کی چوتھی قسم اور کیفیت وہ ہے جس میں انسان خواب دیکھتا ہے۔ انسان کبھی نیند کی حالت میں بہت سی ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو بیداری اورجاگنے کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ عرف عام میں اس کو خواب کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔خواب میں کبھی پُر مسرت اور کبھی خوفناک حالات و کیفیات ذہن میں ابھرتی ہیں جس کی اکثر بیداری کے ساتھ ساتھ یکلخت مٹ جاتی ہیں لیکن بعض یاد بھی رہتی ہیں اور بعض خواب سچے بھی ثابت ہوتے ہیں۔
قرآن اور حدیث میں خوابوں کا تفصیلاً ذکر ہے۔
قرآن میں اللہ سبحانہ و تعالٰی نے حضرت ابراہیمؑ‘ حضرت یوسفؑ اور ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ کی خوابوں کا ذکر کیا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کے خواب کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:
قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿١٠٥﴾ سورة الصافات
’’ تم نے (اپنے) خواب کو سچ کر دکھایا بے شک ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ‘‘۔
اور اسی طرح ہمارے پیارے نبی ﷺ کے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
قَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ_﴿٢٧﴾سورة الفتح
’’ بے شک الله نے اپنے رسول کا خواب سچا کر دکھایا کہ اگر الله نے چاہا تو تم امن کے ساتھ مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے اپنے سر منڈاتے ہوئے اور بال کتراتے ہوئے بے خوف و خطرنڈر ہو کر‘‘_﴿٢٧﴾سورة الفتح
حضور نبی اکرمﷺ نے خواب کی اقسام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں، سچا و نیک خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتا ہے، دوسری قسم آدمی اپنے نفس سے ہی گفتگو کرے، تیسری قسم شیطان کی طرف سے ڈرانا ہے‘‘۔(حاکم، المستدرک)
اور آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا :’’ نیک خواب نبوت کے چھیالیسویں حصوں میں سے ایک ہے‘‘۔ بخاری
اور یہ بھی فرمایا : ’’ وہ خواب جو سحری کے وقت رات کے پچھلے پہر آتے ہیں وہ دیگر خوابوں کے مقابلے میں زیادہ سچے ہوتے ہیں‘‘۔ ترمذی

اب قرآن کے مطابق نیند کی خصوصی اقسام جاننے سے پہلے نیند پر جدید تحقیقی اقسام کا جائزہ لیتے ہیں۔

جدید سائنسدانوں نے نیند کو پہلے دو اقسام میں تقسیم کیا ہے 

پہلا: تیز حرکتِ چشم نیند (Rapid Eye Movement sleep -REM)
دوسرا: بغیر تیز حرکتِ چشم کے نیند (Non Rapid Eye Movement sleep -NREM) 

پھر بغیر تیز حرکتِ چشم کے نیند (NREM sleep) کے تین اقسام یا مرحلے ہیں:

اسٹیجN1 (NREM 1) ۔ ہلکی نیند ۔۔ بیداری سے نیند میں جانے کی عبوری عمل ہے۔ اس دوران انسان اونگھنے کے باوجود ماحول سے باخبر رہتا ہے۔
اسٹیجN2 (NREM 2) ۔ سست موج نیند ۔۔ اس مرحلے میں پٹھے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، دل آہستہ دھڑکتا ہے اور جسم کا درجہ حرارت اور فشارِخون (BP)کم ہو جاتا ہے۔ انسان آسانی سے بیدار ہو سکتا ہے۔
اسٹیجN3 (NREM 3) ۔ گہری سست موج نیند۔۔ نیند کی یہ کیفیت بہت گہری ہوتی ہے اور اس نیند سے کسی کو بیدار کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اگر جگایا جائے تو انسان کسی قدر بدحواس ہوتا ہے۔ اس نیند کے دوران جسم میں کچھ حرکت ہو سکتی ہے لیکن دماغ خا موش رہتا ہے۔ خون میں ہارمونز شامل ہوتے ہیں اور جسم دن بھر کی شکست و ریخت کے بعد اپنی مرمت کرتا ہے۔​

تیز حرکتِ چشم نیند (Rapid eye movement sleep) یہ رات بھرمیں کئی مرتبہ وقوع پزیر ہوتی ہے اور تقریباً انسان کی نیند کے دورانیے کا پانچھواں حصہ ہوتی ہے۔ آر ای ایم نیند کے دوران دماغ کافی مصروف ہوتا ہے ‘ پٹھے بالکل ڈھیلے پڑ جاتے ہیں‘ آنکھیں تیزی سے دایئں با یئں حرکت کرتی ہیں۔ آر ای ایم نیند کے دوران انسان کئی خواب دیکھتا ہے اور رات کے آخری حصے میں خوابوں کا تسلسل زیادہ ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار ہی اسے کوئی خواب یاد رہ جاتا ہے۔

قرآن اور جدید تحقیق کی بنیاد پر نیند میں مطابقت:

اسٹیج (NREM 1) N1 اَلْسِنَةٌ یا اونگھ سے مطابقت رکھتی ہے۔
اسٹیجN2 (NREM 2)لنُّعَاسَ یا غنودگی سے مطابقت رکھتی ہے۔
اسٹیجN3 (NREM 3)اَلْنَّوْمُ یا گہری نیند سے مطابقت رکھتی ہے۔
اسٹیج R (REM) خواب دیکھنے والی نیند سے مطابقت رکھتی ہے۔​

قرآن میں نیند کی دو خصوصی اقسام کا ذکر ہےجس کے بارے میں جدید سائنس کے پاس کوئی توضیح نہیں۔

​ نیند کی خصوصی اقسام درج ذیل ہیں:

 خصوصی نیند ۔۱ ۔۔۔ اَلْھُجُوْعُ یا رات کو عبادت کیلئے کم سونا:
’ اَلْھُجُوْعُ ۔۔۔ رات کو عبادت کیلئے کم سونا ‘ نیند کی ایک خصوصی (اسپیشل) قسم ہے جو اللہ کےمخصوص و محبوب ‘ متقی و پرہیزگار اور عبادت گزار بندوں کی رات کی نیند کی کیفیت ہے۔حب الٰہی اور خشیتِ الٰہی سے سرشار بندے ’اَلْھُجُوْعُ ‘ کی نیند سوتے ہیں یعنی بے خبری کی نیند نہیں سوتے بلکہ رات کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں‘ تہجد کا اہتمام کرتے ہیں‘ نمازِ فجر باجماعت ادا کرتے ہیں اور اللہ سے دعا و استغفار کرتے ہیں جن کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے فرماتے ہیں:

كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ﴿١٧﴾ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿١٨﴾ سورة الذاريات
’’ وہ (عبادت میں مشغول رہنے کے سبب) رات کو بہت کم سوتے تھے‘ اور سحر کے وقت استغفار کیا کرتے تھے ‘‘﴿١٨﴾ سورة الذاريات​

بے خبری کی نیند سونے کے بجائےرات کو اُٹھ کر سجود و قیام کرنے والوں کواللہ تعالٰی عباد الرحمٰن کہتے ہیں: ​

وَعِبَادُ الرَّحْمَـٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴿٦٣﴾ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا ﴿٦٤﴾ سورۃ الفرقان
’’ رحمان کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال (عاجزی سے)چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام ۔ اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں ‘‘﴿٦٤﴾ سورۃ الفرقان​

عبادت کیلئے رات کم سونے والے بندے ہی علم و عقل والے اور دیگر افراد کے بالمقابل بلند مقام و مرتبہ والے ہیں: ​

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٩﴾ سورة الزمر
’’ بھلا جو شخص رات کی گھڑیوں میں کبھی سجدہ کرکے اور کبھی قیام کرکے اللہ کی عبادت کرتا ہے اور (اس کے باوجود) آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے؟ (تو کیا وہ شخص جو ایسا نہیں ہے یکساں ہو سکتے ہیں؟(کہیے کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ بے شک نصیحت تو صرف صاحبانِ عقل ہی حاصل کرتے ہیں‘‘ ..﴿٩﴾ سورة الزمر​

عرف عام میں رات میں بیدار رہ کر نماز پڑھنے کو ’ تہجد ‘ کہتے ہیں۔ لیکن ’ تہجد ‘ کے معنی بیدار ہونا اور رات میں سونا بھی ہے ۔ جیسا کہ ذیل کی قرآنی آیتوں سے ثابت ہے:​

وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾سورة الإسراء
’ اور رات کے کچھ حصہ (پچھلے پہر) میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیں (نمازِ تہجد پڑھیں) یہ آپ کے لئے اضافہ ہے۔ عنقریب آپ کا پروردگار آپ کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا ‘‘﴿٧٩﴾ سورة الإسراء​

بے شک ’ اَلْھُجُوْعُ ‘ ۔۔۔ عبادت کیلئے کم سونا ‘ نہایت مشقت طلب ہے اور نفس پر بہت گراں بھی ہے۔اسی لئے اللہ تعالٰی نے اپنے پیارے نبی ﷺ اور دیگر مومنیں کیلئے اس میں آسانی کیلئے فرمایا:​

يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ﴿١﴾ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٢﴾ نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا ﴿٣﴾ أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ﴿٤﴾ سورة المزمل
’’ اے میرے چادر لپیٹنے والے (رسولﷺ)‘ آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر (پوری رات نہیں بلکہ) تھوڑی رات‘ یعنی آدھی رات یا اس میں سے بھی کچھ کم کر دیں۔ یا اس پر کچھ زیادہ کر دیں اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں (سورة المزمل)

افسوس! آج مسلمانوں کی اکثریت لہو لعب‘ ڈرامے‘ فلم‘ کھیل کود اور نیٹ سرفنگ وغیرہ کیلئے رات جاگ سکتی ہے لیکن اللہ کی عبادت کیلئے وقت پر سونا اور رات کو جاگنا بھاری ہے۔ اب تو اکثریت پنجگانہ نماز ہی نہیں پڑھتی چہ جائکہ رات کو تہجد اور فجر باجماعت کا اہتمام کرے۔

خصوصی نیند ۔۲ ۔۔۔ اَلرُّقَادُ یا طویل مدت کی خوشگوار نیند:
’ اَلرُّقَادُ ‘ ۔۔۔ سے طویل نیند بھی مراد ہے اور خوشگوار ہلکی سی نیند بھی۔ اصل لفظ ’ رَقَدَ ‘ ہے۔ ’ رَاقِدٌ ‘ بہت سونے والا اور’ رَاقِدٌ ‘ کا جمع ’ رُقُودٌ ‘ ہے۔ 
سورہ کہف میں اصحابِ کہف کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: 
وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ ۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ …. ﴿١٨﴾ سورة الكهف
’’ آپ خیال کرتے کہ وه بیدار ہیں، حالانکہ وه سوئے ہوئے تھے، خود ہم ہی انہیں دائیں بائیں کروٹیں دلایا کرتے تھے ‘‘….﴿١٨﴾ سورة الكهف
اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اصحابِ کہف کو 309 سال کی لمبی اور گہری نیند سلانے کے باوجود ان پر ’ رُقُودٌ ‘ کی اصطلاح استعمال کرکے بتا دیا ہے کہ ان کی نیند لمبی اور گہری ہونے کے باوجود خوشگوار تھی۔

گزشتہ چند دہائیوں سے نیند کے بارے میں کافی تحقیقات ہوئی ہیں اور نیند کی ضرورت‘ پُرسکون نیند‘ نیند کی کمی و زیادتی اور نیند نہیں آنا وغیرہ کے بارے خاطر خواہ معلومات فراہم کئے گئے ہیں۔ جبکہ اسلام آج کی جدید تحقیق سے 1438 سال پہلے ہی نیند کے بارے میں اہم معلومات فراہم کر چکا ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات بھی قرآن میں بیان کردہ نیند کے اقسام و کفیات سے مکمل ہم آہنگ ہیں۔ آج سے 1438 سال قبل ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اچھی صحت کیلئے نیند کی اہمیت پر زور دیا جبکہ قرآن رات و دن کی تبدیلی کی حکمت و اہمیت بیان کرتا ہے۔
مسلمان صدیوں سے نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے سونے کے مخصوص آداب و عادات اپنائے ہوئے ہیں۔ آج کی سائنسی تحقیقات بھی انسان کی پُرسکون نیند کیلئے ان ہی اسلامی طریقوں کو اپنانے کی تجاویز پیش کرتی ہیں۔نیند کے بارے میں فی الحال اتنا ہی کافی ہے کیونکہ ہمارا اصل موضوع نیند نہیں ہے۔

جمائی /جماہی یا اَلتثاؤُبَ

جمائی یا جماہی نيند کی کوئی قسم نہیں لیکن نیند ہی کی جیسی ایک ناپسندیدہ کیفیت ہے جو نیند کی کمی‘ تھکاوٹ‘ بوریت‘ حواس کی کدورت ‘ نفس کی بوجھل پن یا پیٹ کے بھرے ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں سوء فہم، سستی اور غفلت پیدا ہوتی ہے ۔ جمائی کے وقت جسم میں ذرا سا تناؤ آکر منہ کھل جاتا ہے اور شکل تبدیل ہو جاتی ہے۔ جمائی ایک قدرتی عمل ہونے کے باوجود اسلامی معاشرے میں ناپسندیدہ ہے‘اور اس ناپسندیدگی کی وجوہات وہی ہیں جس وجہ سے جمائی آتی ہے یعنی نیند کی کمی‘ تھکاوٹ‘ بوریت‘ حواس کی کدورت ‘ نفس کی بوجھل پن یا پیٹ کا زیادہ بھرا ہونا وغیرہ۔ اسلام انسان کو اعتدال میں رہنے کا درس دیتا ہے۔ اسلام نہیں چاہتا کہ کوئی بندہ نیند کی کمی کا شکار ہو‘ یا اپنے آپ کو حد سے زیادہ تھکا لے‘ یا کسی معاملے میں بوریت کا شکار ہو یا اتنا پیٹ بھر لے کہ اپنے نفس کو بوجھل کردے جس کی وجہ کر جمائی کا شکار ہو۔ 
اس لئے رسول اللہ ﷺ نے جمائی کو روکنے کا حکم دیا ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ​

’’ چھینک اللہ کی طرف سے اور جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔ اگر کسی کو جمائی آئے تو اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے ‘‘۔)جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ آداب اور اجازت لینے کا بیان ۔ حدیث 661( ​
ایک اور حدیث میں ہے:
’’ جب تم میں سے کسی کو نماز میں جماہی آئے تو جہاں تک ہوسکے اس کو روکے اس لیے کہ (اس وقت) شیطان اندر گھستا ہے ‘‘۔ )صحیح مسلم : ۷۴۹۳(۔

آج جدید سائنسی تحقیق کہتی ہے کہ جمائی کے دوران بڑا سا منہ کھلنے سے ہوا میں موجود جراثیم براہ راست پھپیھڑوں میں داخل ہوتے ہیں  جو بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں ۔ لہذا جمائی کو روکنے یا جمائی کے وقت میں منہ ڈھاک لینے سے انسان کئی بیماریوں سے بچ سکتا ہے۔

نیند اور بے  ہوشی کی کیفیات جسم میں  روح کی عدم موجودگی کی کیفیات ہیں۔ لیکن ان کیفیات میں  روح کی عدم موجودگی کے باوجود انسان زندہ ہوتا ہے  یعنی نیند یا بیہوشی کی تمام تر کیفیات موت کی کیفیات نہیں  ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے  کہ نیند یا بے  ہوشی کی حالت میں  اگرچہ روح اور نفس (AURA) جسم کو چھوڑ گئے  ہیں  لیکن مستقل طور پر نہیں۔ ان کیفیات میں  اگرچہ ایک مردہ انسان کی طرح انسان بے  حرکت و عمل ہوتا ہے اور روح اور (AURA) اگرچہ جسم سے  چلے  گئے  ہیں  لیکن جسم سے  براہ راست رابطے  میں  ہیں۔ اور اسی رابطے  کی وجہ سے  جسم میں زندگی موجود ہے۔

اگر روح اور نفس(AURA) جسم سے  یہ رابطہ منقطع کر لیں  تو نیند یا بے  ہوشی موت میں  تبدیل ہو جائیں  گی۔ اگر یہ روح اور نفس کا رابطہ جسم سے  جڑا رہے  تو چاہے  برسوں  جسم کوما یا بے  ہوشی میں  رہے  وہ زندہ ہی رہے  گا۔

لہذا جسم میں  روح کی صرف عدم موجودگی موت نہیں  کیونکہ روح تو نیند بے  ہوشی،کوما وغیرہ کی صورت جسم میں  آتی جاتی رہتی ہے  لہذا فالج نیند، بیہوشی یا کوما، حادثہ یا بیماری موت کے اسباب نہیں۔ نہ ہی خلیاتی تخریب سے  موت واقع ہوتی ہے۔

جب روح جسم سے  مستقل طور پر علیحدہ ہو جاتی ہے  تب جسم پر موت واقع ہو جاتی ہے۔
جب کہ بے  ہوشی ،کوما یا نیند کی حالت میں  روح اگرچہ جسم سے علیحدہ ہوتی ہے  لیکن مستقلاً نہیں  بلکہ یہ جسم سے  اپنا رابطہ برقرار رکھتی ہے  یہی وجہ ہے  کہ ان حالات میں  روح کی عدم موجودگی کے  باوجود اگرچہ جسم بظاہر بے  حرکت نظر آتا ہے لیکن وہ نہ صرف زندہ ہوتا ہے  بلکہ اس میں  حرکت بھی موجود ہوتی ہے۔ روح کی جسم سے  وقتی علیحدگی کی وضاحت تو ہو گئی لیکن موت یعنی روح کی جسم سے  مستقل علیحدگی کو جاننے  کے  لئے  ہمیں  یہ سمجھنا ہو گا کہ روح جسم سے کیسے  مربوط ہے۔ اور یہ رابطہ موت کی صورت میں  مستقل طور پر کب اور کیسے  ٹوٹتا ہے۔

موت کا وقت

﴿ مسودۂ زندگی (تقدیر) کا اختتام موت کا وقت ہے۔ ﴾

یعنی موت پہلے  سے  طے  شدہ پروگرام کے  مطابق اپنے  وقت پر واقع ہوتی ہے۔

جب ہم یہ کہتے  ہیں  کہ کل یہ انسان ٹھیک ٹھاک تھا اور آج یہ اچانک دل کا دورہ پڑنے  سے  یا حادثے  میں  مرگیا تو موت کے بارے  میں  ہمارا یہ تصور ٹھیک نہیں  ہے۔

کسی بھی حادثے  یا بیماری سے  انسان اچانک نہیں  مرتا بلکہ اس کی موت تو پہلے  سے  طے  شدہ پروگرام ہے۔ انسانی زندگی کی ابتداء سے  انتہا یعنی انسان کی زندگی کے  پہلے  دن سے  موت تک کا پروگرام اس کی تقدیر میں  لکھا ہوا تھا اور روح تقدیر کا یہ ریکارڈ پروگرام جسم کو بھیج رہی تھی اور روح کے  اسی پروگرام پہ انسان اپنے  (نفس) ارادے  سے  رد و بدل کر کے  حرکت و عمل کر رہا تھا۔ انسان کو روح کی طرف سے  جو حرکت و عمل کا پروگرام مل رہا تھا جب وہ تحریر شدہ پروگرام(تقدیر) مکمل ہو گیا، ختم ہو گیا لہذا اب روح کی طرف سے  جسم کو حرکت و عمل کے  لیے  کوئی پروگرام کوئی اطلاع نہی ملے  گی لہذا جسم میں نہ تو کوئی حرکت نمودار ہو گی نہ ہی انسان اپنے  ذاتی ارادے کے  استعمال کے  قابل رہا ہے۔
لہذا روح کے  مرتب پروگرام (تقدیر) کا اختتام دراصل زندگی کا اختتام ہے۔ اور زندگی کی کتاب ختم ہوئی۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...