Sunday 17 September 2017

کیا موجودہ انسان قدیم انسان سے زیادہ ترقی یافتہ ہے؟



کیا موجودہ انسان قدیم انسان سے زیادہ ترقی یافتہ ہے؟

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#107

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

آج یہ جاننا انتہائی ضروری ہے  کہ

۱۔ قدیم انسان حیوان نہیں  انسان ہی تھا ہمیشہ سے۔

۲۔  قدیم انسان یا ماضی کا انسان آج کے  ترقی یافتہ مہذب انسان سے  زیادہ ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ تھا۔

۳۔  قدیم انسان اپنے (انسان) بارے  میں  آج کے  انسان سے  زیادہ علم رکھتا تھا۔

جب کہ آج جدید دور میں  ماضی کے  انسان کو غیر مہذب اور غیر ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔ ماہرین نے  بڑے  اندازے  تخمینے  لگانے  کے  بعد یہ ثابت کیا ہے  کہ  ابتداء کا انسان تہذیب و تمدن سے  عاری، بے علم، بے  عقل، بے  لباس اور بے  ہنر تھا۔ اس کا معیشت، معاشرت اور سائنس سے  دور کا بھی واسطہ نہیں  تھا۔ ابتدا کا انسان جنگلوں  میں  جانوروں  کی سی زندگی بسر کر رہا تھا۔ جب کہ بعض تو اس سے  آگے  بڑھ کر انسان کو حیوان ہی قرار دے  دیتے  ہیں  یعنی ابتداء کا انسان حیوان ہی تھا اور رفتہ رفتہ بتدریج اس کی جسامت میں  تبدیلی آئی اور یوں  وہ آج انسانی روپ میں  ظاہر ہوا بتدریج اس کی عقل اور علم میں  اضافہ ہوا اور انسان تہذیب سے  آشنا ہوا۔

یہ سب انتہائی غیر سائنسی اور بے  بنیاد مفروضے ہیں  جن کی آج ہمیں  مسلسل سائنسی و غیر سائنسی شہادتیں  میسر آ رہی ہیں۔ جب کہ تاریخ اور مذاہب وحی ہمیں  یہی بتاتے  چلے  آ رہے  ہیں  کہ انسان ابتداء سے با شعور، با علم اور با لباس ہے۔ آج ہمیں  مسلسل سائنسی شہادتیں  میسر آ رہی ہیں جن کے  مطابق ماضی کے  انسان نے  آج کے  انسان سے  زیادہ سائنسی ترقی کی تھی اور ماضی کے  انسان جانور نہیں  تھے بلکہ آج کے  انسان سے  زیادہ ذہنی و جسمانی اعتبار سے  مضبوط انسان تھے۔ وہ آج کے  انسان سے  زیادہ اپنے  (انسان) بارے  میں  علم رکھتے  تھے۔ قدیم انسان نہ صرف اپنی باطنی، روحانی صلاحیتوں  میں  آج کے انسان سے  آگے  تھا بلکہ مادی ترقی میں  بھی آج کے انسان سے  زیادہ ترقی یافتہ تھا۔

آج جدید تحقیقات ماضی کے  قصوں  سے  آگے  نہیں بڑھیں  بلکہ ابھی تک ماضی کے  روحانی تجربات کو سمجھنے  کی کوشش میں  مصروف کار ہیں۔ مذہبی اور تاریخی قصوں  کی شہادت آج کی جدید تحقیقات فراہم کر رہی ہیں۔ نیز آج ہم اس قابل ہیں  کہ ان تاریخی تجربات کو تجرباتی کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں۔ آج کی جدید تحقیقات ماضی کے  روحانی تجربات کے  ثبوت تو فراہم کر رہی ہیں  لیکن ابھی ان سے  بہت پیچھے  ہیں۔ ماضی کی تاریخوں  میں  روحانی کمالات کے  جتنے  قصے  رقم ملتے  ہیں  ایسے  روحانی کمالات آج دیکھنے  میں  نہیں  آتے۔ چند نام نہاد جادوگر کیمیا گری کے  کچھ کرتب تو دکھاتے  نظر آتے  ہیں  لیکن یہ کچھ خاص قابلِ توجہ نہیں  ہیں۔ آئیے  ماضی کے انسان کی مادی و روحانی برتری کے  چند واقعات ملاحظہ کرتے ہیں ۔

قدیم انسان کی روحانی برتری

ماضی کا انسان روحانی طور پر آج کے  انسان سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ لہذا ماضی کا انسان اپنے روحانی تشخص یعنی باطن سے  آج کے  انسان سے زیادہ معلومات رکھتا تھا جس کی تصدیق آج کی جدید سائنس بھی کرنے  پر مجبور ہے۔ مثلاً  آج کے سائنسدانوں  نے  (۱۹۳۰ء) میں  AURA   کی تصویر کشی کی اہلیت حاصل کی ہے  جب کہ ہزاروں  برس قبل بھی AURA  کی تصویر کشی کی جاتی تھی۔ قدیم ادوار میں  یونانی، رومی، ہندو اور عیسائی اقوام میں  ان کی مذہبی شخصیات کی تصاویر اور مجسموں میں  ان کا ہیولا دکھایا جاتا تھا جسے  انگریزی میں "HALO"  اور قدیم یونانی اور لاطینی زبان میں  " اورا   " AURA اور ایرولا  (AUREOLA)  کہا جاتا تھا۔ جب کہ آج اسی تاریخی مناسبت سے  سائنسدانوں  نے انسان کے  باطنی رخ یا لطیف جسم کا نام  " AURA " رکھا ہے۔

ریمنڈی موڈی نے  اپنی کتاب ( Life after Life - 1975 )   کا موازنہ ایک تبتی کتاب  ( Tibetan Book of Dead )  سے  کیا ہے۔ یہ کتاب زمانہ قبل از تاریخ تبت کے  دانشوروں  کو زبانی پڑھائی جاتی تھی جو سینہ بہ سینہ چل کر آٹھویں  صدی عیسوی میں کتابی شکل میں  سامنے  آئی یہ قدیم کتاب ریمنڈی موڈی کی موجودہ دور کی جدید طبیعاتی تجربات پہ مشتمل کتاب سے  حد درجہ مماثلت رکھتی ہے۔ دونوں کتابوں  کے  تجربات و واقعات میں  مماثلت ہے۔

ْْْْْْْْْقدیم انسان کی سائنسی برتری

ماہرین ابھی تک اہرامِ مصر کی عجوبہ عمارتوں  کی ٹیکنیک میں  الجھے  ہوئے  تھے  کہ زیرِ سمندر ہزاروں برس پہلے  کے  شہر دریافت ہونے  لگے۔ ایسے  شہر جنہوں  نے  سائنس و ٹیکنالوجی میں موجودہ دور سے  زیادہ ترقی کی ہوئی تھی۔ ان زیر سمندر شہروں میں  گرینائٹ پتھر سے  تعمیر شدہ بلند و بالا عمارتیں، ڈامر  (Asphalt)  سے  بنی ہوئی طویل سڑکیں، جہازوں  کے  طویل رن وے، اہرام، مندر، رومی و مصر کی طرز کے  ستون، سیڑھیاں، اور گودام دریافت ہو رہے  ہیں۔

مصر میں  فیئجم (Fagium)   کے  مقام پر ایسی پینٹنگز ملی ہیں  جن کے  رنگ ہزاروں  برس گزر جانے کے  بعد آج بھی ہلکے  نہیں  پڑے  جب کہ ایسے  رنگ جدید دور میں  ابھی تک دریافت نہیں  ہو سکے۔

ولیم کونگ نے  نظریہ پیش کیا کہ  2500 قبل مسیح میں  عراق میں  طلائی الیکٹرو پلیٹنگ کے  ثبوت ملتے ہیں، امریکی ریاست کیلی فورنیا میں  کوسو ( Coso) پہاڑی سلسلہ کے  قریب لاکھوں  سال پرانا اسپارک پلگ (۱۳  فروری  ۱۹۶۱ کو) ملا ہے۔ جرمن ریسرچر ڈاکٹر کولن فنک کے  مطابق 4300 برس قبل مصر کے  لوگ بجلی کا استعمال جانتے  تھے۔ 1938 میں  بغداد کے قریب ڈھائی ہزار سال پرانی تہذیب کے  کھنڈرات سے ایک الیکٹرک بیٹری دریافت ہوئی۔

ہندوستان میں  1800 قبل مسیح میں  لکھی گئی ایک قدیم کتاب آگستا سمہتا (Agasta Samhita)   میں الیکٹرک بیٹری کی تیاری کی تمام تفصیل موجود ہے۔ بائبل کتاب پیدائش باب 6   آیت  16  میں  تحریر ہے۔ تم (نوح علیہ السلام)  اپنی کشتی کے  لئے  ایک صہر (Tsohar)   بناؤ اور اوپر سے  ایک ہاتھ تک اسے مکمل کرو  صہر کا ترجمہ ایک ایسی روشنی ہے  جو سورج کی طرح روشن ہو۔ اسی طرح یہودیوں  کی مقدس کتاب (ملکہ سباح اور اس کا اکلوتا بیٹا مینلیک میں  بھی سلیمان کے  گھر میں  الیکٹرک بلب کا ذکر موجود ہے۔ اس کتاب کو کبیرا ناگست  (Kebra Nagast) بھی کہا جاتا ہے۔

سائنسدانوں  نے  1.5 Million  سال پرانا پتھر کا گھر دریافت کیا ہے۔ جب کہ ترکانا (Turkana Body)  لڑکے  کا فوسل سولہ لاکھ سال پرانا ہے۔

چین میں  ایک ایسی پر گوشت لاش ملی ہے  جیسے کچھ دیر قبل دفنائی گئی ہو لیکن یہ دو ہزار برس قبل کی ہے۔ مصریوں  کی لاشیں  بھی آج تک محفوظ ہیں۔ اور باوجود کوشش کے  جدید سائنسدان مادی جسم کو محفوظ کرنے  کا ایسا مسالہ تیار نہیں  کر سکے  جیسا ماضی کے  انسانوں  نے  تیار کر کے  اپنی لاشوں  کو محفوظ کیا تھا۔ ان اصل اور جدید فوسلز کی دریافت سے  یہ ثابت ہو رہا ہے  کہ انسان لاکھوں  سال پہلے  نہ صرف انسان تھا بلکہ جدید ترقی یافتہ انسان تھا۔

رومی عہد کے  شہر ٹائبرس (Tiberus)  کے  مقام پر ایسے  شیشے  دریافت ہوئے  ہیں  جو توڑے  نہیں  جا سکتے  جیسا کہ آج بلٹ پروف شیشے  استعمال کئے جاتے  ہیں۔

ساؤتھ امریکن جنگل میں  کولمبین تہذیب پر ریسرچ کرنے  والے  کولونل پی ایچ فاسٹ کے  مطابق امریکن مائن انجینئرز کی ایک ٹیم کو سیروڈل پاسکو(Serodel Pasco)   کے  قریب ایک قدیم مقبرے  میں  جانچ کے  دوران ایک سیل پیک بوتل ملی یہ حادثاتی طور پر گر کر ٹوٹ گئی اس بوتل میں موجود لیکوئڈ کے  چند قطرے  ایک پتھر پر گرے  وہ پتھر لمحہ بھر میں  نرم مٹی میں  تبدیل ہو گیا لیکن کچھ دیر میں  وہ دوبارہ عام پتھر کی طرح سخت ہو گیا۔ جب کہ آج کے  سائنسدان ایسے  کسی کیمیکل کی ایجاد نہیں  کر سکے۔

صحرائے  گوپی سے  1950  ء میں   20  لاکھ سال پرانا ایسا پتھر ملا ہے  جس پہ کسی جوتے  کے  فٹ پرنٹ ہیں۔ لاکھوں  برس قدیم اقوام (جنہیں  ماہرین ہتھیار استعمال کرنے  والے  دو ٹانگوں  والے  حیوان قرار دیتے  ہیں ) کے  پاس ایسا کونسا فارمولا تھا جس سے  وہ پتھر کو موم کر لیتے  تھے۔ جب کہ ایک مغربی فزیالوجسٹ کو سات سے  نو کروڑ برس قدیم ایک پتھر ملا ہے  جس کے  اندر سے  اسٹین لیس اسٹیل کی گیارہ کیلیں   Nails  برآمد ہوئی ہیں۔ پیرو (امریکہ) کے   شہر اکا (Ica)   سے  ملنے  والے  ہزاروں  برس قدیم منقش پتھروں  میں  ایک گول گیند نما پتھر ایسا ملا ہے  جس پر پوری دنیا کا نقشہ گلوب کی صورت میں  ابھرا ہوا ہے  اس میں  موجود تہذیبوں  کے  علاوہ ماضی کی گمشدہ تہذیبیں  بھی دکھائی گئی ہیں۔ مایا (Mayan)   تہذیب سے  دریافت ہونے  والی ڈھائی ہزار برس قدیم تختیوں  میں  ایسی تصاویر ملتی ہیں جیسے  کوئی شخص راکٹ یا ہوائی جہاز اڑا رہا ہو۔ مصر میں  عبیدوس کے  مقام پر سیتی اول  " Seti-1"  کا پانچ ہزار برس قدیم معبد موجودہے  جسے نومبر1988  میں  دریافت کیا گیا اس معبد کے  شہتیر پر نہ صرف ہیلی کاپٹر اور ہوائی جہاز بلکہ جیٹ طیارے، گلائیڈر اور اسپیس شپس کی بھی تصویر بنی ہوئی ہے۔ جب کہ بعض لوگ ان تصویروں  کو جھٹلاتے ہیں  جب کہ ان آثار کے  ثبوت ہمیں  تاریخی اور مذہبی کتابوں  سے  بھی ملتے  ہیں۔ مثلاً ہندوؤں  کی قدیم کتابوں (مہابھارت، رامائن اور پرانوں ) میں  لفظ ومان (Vimana)   یعنی اُڑنے  والی رتھ کہا گیا جب کہ بائبل کی کتاب حزقیل میں   انہیں کروبی "Cherub"  اور تبت کی قدیم کتابوں  میں  کنٹویا اور ٹنٹویا (Kentyua-, Tantyua)   میں  اڑنے  والی مشینیں کہا گیا جنہیں  تبت کے  لوگ پرلز (pearls)   کہتے تھے اور یونان کی دیومالائی داستانوں  میں  بھی اڑنے والی سواریوں  کا ذکر موجود ہے۔ جب کہ تاریخ طبری میں طوفان نوح کے  عہد کے  دو بادشاہوں  کے  ہوائی سفر کا تذکرہ ملتا ہے۔ قدیم بابل کی آشوری تہذیب کے کتبوں  میں  ایک طاقتور بادشاہ اتانا(Etana)   ایک پرندے  پر سفر کرتا ہے  جو جہاز سے  مشابہ ہے۔ ایسے ہی جہازی سفر کا ذکر قرآن نے  سلیمان علیہ اسلام کے حوالے  سے  کیا ہے۔ نینوا سے  برآمد ہونے  والی ماضی کی قدیم ترین رزمیہ داستان گلگامشن (Gilgamish) کی ساتویں  تختی میں  گلگامش کا دوست انیکدو اُسے  اپنے  خلائی سفر کا چشم دید واقعہ سناتا ہے۔

قدیم یونانی فلسفیوں  نے  کہا تھا کہ ایتھر ایٹم کی روح ایٹم کا لطیف ترین وجود ہے۔ یونانیوں  نے  اس تعریف میں ایٹم کے  حوالے  سے  دو انکشاف کئے  ہیں۔

(۲)۔  ایٹم کے  اندر مزید وجود

ہزاروں  برس بعد ج ایٹم کے  اندر مزید وجود (نیوکلیس، نیوٹران، پروٹون، الیکٹران، لپٹان اور کوراک) دریافت کر لئے  گئے  جب کہ ان دریافتوں  سے پہلے  تک سائنسدان ایٹم کو ہی ناقابل تقسیم ذرہ سمجھتے  تھے۔

جب کہ یونانیوں  نے  مزید وجودوں  کے  علاوہ ایٹم کی روح یا لطیف جسم کا بھی تذکرہ کیا تھا۔

فوٹان کی دریافت یا (Wave Pocket) کی دریافت سے  یہ ثابت ہو گیا کہ ایٹم میں  لطیف توانائی بھی موجود ہے۔

قدیم معبدوں  سے  ملنے  والی تصویروں  میں  DNA  کی تصویر بھی شامل ہے  یعنی وہ  DNA  سے  بھی متعارف تھے۔

ماضی کے  انسانوں  نے  جنیٹک میں  بھی ایسی ترقی کی تھی کہ انہوں  نے  انسانوں اور جانوروں  کے  جینز سے  ایسی مخلوق تیار کر لی تھی جو انسان اور حیوان کے  درمیانی مخلوق تھی جس کی تصویریں ہمیں  مقبروں  میں  نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ مخلوق ایسی وحشی تھی کہ اسی قوم کی تباہی کا سبب بن گئی اور خود ہی آپس میں  لڑ کر تباہ ہو گئی۔ ان مخلوقات کا نوعی تسلسل قائم نہیں  ہو سکتا تھا یہ مٹ گئیں۔  ایسے  شواہد بھی ملے  ہیں  کہ قدیم اقوام نے  کشش ثقل (Gravity) پہ بھی کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جب کہ آج کے  دور میں  یہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا۔

(ایک پاکستانی (شیخ سراج الدین )کشش ثقل پر کنٹرول کا دعویٰ کرتا ہے ، اُس کے  خیال میں  وہ سائیکل گاڑی سے  لے کر ٹربائن تک اس قوت سے  چلا سکتا ہے۔لیکن فی الحال اس کا کوئی کارنامہ منظر عام پر نہیں آیا۔

نینڈرتھل (Neanderthalensis) ڈھانچوں  کی باقیات اور جدید انسان کے  باہمی موازنے  سے  ثابت ہو چکا ہے  کہ نینڈتھل کی کھوپڑی میں  زیادہ بڑا دماغ سمانے  کی گنجائش تھی جب کہ وہ جسمانی اعتبار سے  بھی موجودہ انسان کے  مقابلے  میں  مضبوط اور توانا(مکمل انسان )تھے۔

کَانُواَشَدَّ منکُحہ قُوَۃًّ۔ ترجمہ:۔ وہ تم سے  زیادہ قوت والے  تھے  (سورہ توبہ ۶۹)  یعنی قدیم انسان ذہنی و جسمانی لحاظ سے  بھی آج کے  انسان سے  مضبوط تھے۔ ماضی کا انسان آج کے  انسان سے  زیادہ طویل العمر تھا۔ قدیم انسان ہزاروں  برس کی عمر رکھتے تھے  یا تو یہ قدرتی عمل تھا یا پھر ہو سکتا ہے  انہوں نے  طویل عمری کا راز دریافت کر لیا ہو جیسا کہ آج سائنسدان طویل عمری کا راز دریافت کرنے  کی سعی میں  لگے  ہوئے  ہیں۔لیکن یہ قدرتی عمل ہی تھا۔

ایک امریکی ماہر روحانیت ایڈگر کیسی کے  مطابق معدوم شہر اٹلانٹس کے  لوگ جدید دور سے  بھی زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ اہرام مصر، ا سٹون ہینج، ایسٹر آئی لینڈ کے  مجسمے  وغیرہ انہی کی تعمیرات تھے۔  یہ ہوائی جہاز کی ایجاد بھی کر چکے  تھے  جسے  وہ Vilixi کہتے  تھے۔

جب کہ قرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایسی بادشاہت کا ذکر ہے  جو کسی دور میں  کسی کو نہیں  ملی سلیمان علیہ السلام کے  قصے  میں  ان کی قوم ہر جدید ایجاد سے  لیس نظر آ رہی ہے  جن میں سر بہ فلک عمارتیں، اجرام فلکی کا مشاہدہ کرنے  والی رسد گاہیں اور دوربینیں ، بحری جہاز ،سول انجینئرنگ
وغیرہ کئی جدید ایجاد کی تفصیل اس قصے  میں  موجود ہے۔

اسی طرح قدیم انسان نے اور بھی کئی ایسی چیزیں ایجاد کی جن کا ہم خلاصہ پیش کر رہے ہیں 

افریقہ کے مقام سے 26 لاکھ سال قبل مسیح
کئی ایسے ہتھیار ملے ہیں۔جو پھتر اور دیگر دھات سے بنے ہوئے ہیں۔
14.2قبل مسیح قدیم انسانوں نے اپنی خوراک کو  بنایا، قدرتی تیار خوراک کے ختم ہونے کے خدشے کا حل نکالا اور اسٹور کرنے کے طریقے نکالے اس کے شواہد بھی افریقہ سے ملے ہیں۔

5 لاکھ سال قبل مسیح افریقہ کے مقام سے آگ کا استعمال جسم کی حفاظت، سترپوشی، موسم کی سختیوں کا حال اور سایہ دار رہائش بصورت شامیانہ حاصل ہوئے۔
اپنی ذاتی ضروریات خوراک لباس رہائش سے مطمئن ہونے کے بعد انسان نے فنون لطیفہ کی طرف توجہ دی۔ جس کے آثار یورپ وسطی کے غاروں میں بنی ہوئی تصویروں سے ملے۔جو کہ 28 ہزار سال قبل مسیح کے ہیں۔

یورپ فنون لطیفہ(مصوری وغیرہ)اجناس اور سبزیوں کو بطور خوراک استعمال کرنے کا آغاز ہوا۔
25 ہزار سال قبل مسیح یورپ کھانا پکانے کا چولہا یا تندورآبادی میں اضافے سے لین دین میں اضافہ ہوا اور میل جول میں وسعت آئی جس سے اعدادوشمار کا نظام وجود میں آیا۔

17 ہزار سال قبل مسیح جانوروں کی چربی جلا کر روشنی حاصل کی گئی اور رات کے اندھیرے کا تدارک کیا گیا نیز رات میں اپنی حفاظت کا بندوبست کیا گیا۔

12 ہزار سال قبل مسیح چین، میسو پوٹیمیا میں
کتوں کو اپنی املاک کی حفاظت اور شکار میں سہولت کے لئے استعمال کیا گیا نیز دشمنوں کے خلاف اضافی قوت فراہم کی گئی۔

کئی ہزار صدیاں قبل مسیح پہلا آلہء موسیقی جسے اہم مواقع پر استعمال کیا گیا۔ جنگ کے موقع پر بھی استعمال کیا جاتا تھا ۔

12 ہزار سال قبل مسیح افریقہ ڈھولآبی سفر کا آغاز ہوا اور آبی شکار کے لئے دور دراز علاقوں تک رسائی ممکن ہوئی۔

اس کے علاوہ وقت معلوم کرنے سفر کے دوران سفر سمت وغیرہ معلوم کرنے کے طریقے بھی بڑی وضاحت سے موجود ہیں۔جس کی تفصیلات راقم الحروف کی "کتاب رزق میں فراخی کے اسباب اور مشکلات کا حل/مولف عمران شہزاد تارڑ ۔ میں ملاحظہ کریں ۔
اسی طرح جڑی بوٹیوں سے علاج،سائنس،مختلف دھاتوں سے ہتھیار یا ضروریات زندگی کی اشیاء بنانا،کپڑا یا لباس بنانا وغیرہ ۔بھی شامل ہے۔

ان دریافتوں سے  یہ ثابت ہوتا ہے کہ ماضی کا  قدیم انسان ترقی یافتہ انسان تھا۔
قدیم انسانوں  کے  بارے  میں ابھی مزید حیرت انگیز دریافتیں مل رہی ہیں۔

مندرجہ ذیل تفصیل سے  اندازہ لگائیں  کہ وہ کونسا شعبہ ہے  جس میں  قدیم انسان پیچھے  ہے۔
  جب کہ وہ ہر میدان میں  آگے  ہی نظر آ رہا ہے۔ جب کہ ماہرین(ملحدین) کا (برسوں  کی تحقیقات کے  بعد) خیال ہے  کہ لاکھوں  برس پہلے  زمین پر ایک حیوان یعنی بندر بستے  تھے (اور یہی ابتدائی انسان تھے  جو رفتہ رفتہ انسانی صورت اختیار کر کے  مہذب اور تعلیم یافتہ ہو گئے )جو ایک دوسرے  کا خون بہانے  والے  بے  شعور انسان تھے  پہلے  تو وہ انہیں  ہی انسانوں  کی ابتدائی صورت کہتے  رہے  لیکن جدید تحقیقات نے  ان کی ان خرافات کی نفی کر دی تو پھر انہوں  نے  بڑی جدوجہد کے  بعد اندازہ لگایا کہ موجودہ انسان  50,000  سال پہلے  وجود میں  آیا اور کوئی 40,000   سال پہلے دجلہ و فرات کے  کنارے  اچانک وہ تہذیب یافتہ ہو گیا۔

جب کہ جدید تحقیقات اور نت نئی دریافتوں  سے میسر آنے  والے  مسلسل شواہد کے  نتیجے  میں  ہمیں ہزاروں  برس قبل کا نہیں  بلکہ لاکھوں  برس قبل کا انسان بھی آج کے  انسان سے  زیادہ ترقی یافتہ نظر آ رہا ہے۔ آج کے  انسان نے  مادی ترقی تو کی ہے  لیکن اپنی ہی روح پہ مادیت کی صدیوں  کی تہہ چڑھا دی ہے اور آج صدیوں  کا انسان خود کو شناخت کرنے  سے انکاری ہے۔ کچھ ماہرین روحانیت کا خیال ہے  کہ ترقی محض آج کے  دور کا کارنامہ نہیں  ہے  بلکہ ہر دور میں  ہر قوم تقریباً دس ہزار برس میں  ترقی کی اوج پر پہنچ جاتی ہے اور پھر ختم ہو جاتی ہے  آثار تو ایسی ہی خبروں  کی نشاندہی کرتے  نظر آتے  ہیں۔

اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے  کہ ہر قسم کی سائنسی، مذہبی اور تاریخی شہادتوں  سے  یہ ثابت ہو چکا ہے  کہ ہر دور کا انسان نہ صرف انسان تھا بلکہ روحانی و مادی ترقی میں  بھی آج کے  انسان سے بڑھا ہوا تھا۔ جب کہ آج کچھ نام نہاد ملحدین ان تمام تر حقائق کی طرف سے  آنکھیں  بند کئے  اپنے  کچھ ذاتی تعصبات کی بنیاد پر انسان کو حیوان ثابت کرنے  کی جدوجہد میں  مصروف ہیں۔ ان کے  غیر سائنسی مفروضوں اور بے  بنیاد دعووں  کی کلی اگرچہ کھل چکی ہے اور انہی کی بے  کار کی جد جہد سے  کارآمد ثبوت مل رہے  ہیں اور اس حقیقت سے  پردہ اُٹھ رہا ہے  کہ ابتداء کا انسان کیسا با کمال با شعور اور ترقی میں  اتنا بڑھا ہوا تھا کہ آج کا انسان اس کمال کو نہیں  پہنچ سکا۔ جو ماہرین ابتدا کے  انسان کو غیر مہذب حیوان قرار دیتے  ہیں  ان کے  ان غیر سائنسی مفروضوں  کی کوئی بنیاد نہیں  ہے۔ جب کہ انسان کے عظیم الشان ماضی کی گواہی تاریخ، مذاہب اور خود سائنس فراہم کر رہی ہے۔ بہر حال ان ٹھوس شواہد کی روشنی میں  یہاں  ہم نے  قدیم انسان کے  بارے  میں سائنسی، تاریخی اور مذہبی شہادتیں  پیش کی ہیں لہذا اس تمام بحث سے  درج ذیل نتائج سامنے  آ رہے ہیں۔

۱۔ ماضی کا انسان جانور نہیں  تھا بلکہ( آج کے  انسان سے  زیادہ تہذیب یافتہ )انسان تھا۔  

۲۔ ماضی کا انسان آج کے  انسان سے  زیادہ ذہنی و جسمانی اعتبار سے  مضبوط انسان تھا۔

۳۔  ماضی کا انسان موجودہ دور کے  انسان سے  زیادہ ترقی یافتہ تھا۔

۴۔  وہ محض مادی ترقی ہی نہیں  بلکہ روحانیت میں بھی درجہ کمال کو پہنچا ہوا تھا۔

۵۔ ماضی کا انسان اپنے  (انسان) بارے  میں  آج کے انسان سے  زیادہ علم رکھتا تھا۔

 ۶۔ قدیم انسان موجودہ انسان سے  زیادہ طویل العمر اور صحت مند تھا۔

اگرچہ ماضی کے دور کا انسان اپنے خالق و مالک(اللہ سبحانہ وتعالی)کو پہنچاننے میں غلط فہمی کا شکار رہا ہے۔جیسے موجود دور کے غیر ابراہیمی مذاہب یا ملحدین وغیرہ ۔ لیکن اس مضمون میں ہم نے قدیم انسان کی ترقی و تعلیم کا ذکر کیا ہے۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...