Saturday 2 September 2017

موت کی ماہیت(حقیقت حال)

موت کی ماہیت(حقیقت حال)

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#105

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

مادّیت کے اس دور میں انسان کے وجود پرمادّی حوالے سے بہت کچھ لکھا جارہا ہے لیکن 'انسان' پر روحانی پہلو سے توجہ نہیں دی جارہی، نہ اس ضمن میں وحی الٰہی سے فائدہ اُٹھایا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان مادّی طور پر کسی حد تک مطمئن ہوجانے کے باوجود روحانی حوالے سے بہت کھوکھلا اور تشنہ ہے۔

قرآن کریم نے موت کی ماہیت سے متعلق ایک خاص عبارت میں خصوصی جواب دیا ہے۔
قرآن کریم نے موت کے بارے میں لفظ توفیٰ استعمال کیا ہے اور موت کو "توفیٰ" قرار دیا ہے۔
توفیٰ اور استیفاء دونوں کا مادہ "وفاء" ہے۔
جب کوئی کسی چیز کو پورا پورا اور کامل طور پر بغیر کم و کاست کے حاصل کر لے‘ تو عربی میں اس کے لئے لفظ توفیٰ استعمال کیا جاتا ہے۔
عربی میں "توفیت المال" کا مطلب ہے کہ میں نے تمام مال بغیر کمی بیشی کے پا لیا۔
قرآن کریم کی چودہ آیات میں موت کے لئے لفظ توفیٰ استعمال ہوا ہے‘ ان تمام آیات سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ موت قرآن کی نظر میں قبضے میں لینا ہے‘ یعنی انسان موت کے وقت اپنی تمام شخصیت اور حقیقت سمیت اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں کی تحویل میں چلا جاتا ہے اور وہ انسان کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔
قرآن کے اس بیان سے ذیل کے مطالب اخذ ہوتے ہیں:
(الف) مرگ‘ نیستی‘ نابودی اور فنا نہیں بلکہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف انتقال ہے اور ایک زندگی سے دوسری زندگی کی طرف منتقلی ہے‘ جس سے حیات انسانی ایک اور شکل میں جاری رہتی ہے۔
(انتباہ:ہم جب بھی اپنے مضامین میں ایک زندگی سے دوسری زندگی کی طرف کا ذکر کریں تو اس سے ہماری مراد دنیا کی زندگی سے عالم برزخ مراد ہو گی۔)
(ب) وہ چیز جو انسان کی حقیقی شخصیت کو تشکیل دیتی ہے اور اس کی حقیقی "میں" (خودی) شمار ہوتی ہے‘ وہ بدن اور اس کے مختلف حصے وغیرہ نہیں کیونکہ بدن اور اس کے اعضاء کسی اور جگہ منتقل نہیں ہوتے بلکہ رفتہ رفتہ اسی دنیا میں گل سڑ جاتے ہیں۔ جو چیز ہماری حقیقی شخصیت کو بناتی ہے اور ہماری حقیقی "میں" سمجھی جاتی ہے‘ وہی ہے جسے قرآن میں کبھی نفس اور کبھی روح سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(نفس سے متعلقہ تفصیلی معلومات آئندہ اقساط میں آ رہی ہے )
(ج) روح یا نفس انسانی جسے انسان کی شخصیت کا حقیقی معیار قرار دیا گیا ہے اور جس کی جاودانی ہی سے انسان جاوداں ہے۔ مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے مادہ اور مادیات کے افق سے بہت بالا ہے۔ موت کی وجہ سے روح یا نفس عالم مادی سے عالم روح کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں موت کے وقت اس ماوراء مادہ حقیقت کو واپس اپنی تحویل میں لے لیا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی بعض ایسی آیتیں جن میں انسانی خلقت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور وہ معاد اور اخروی زندگی سے متعلق نہیں‘ اس چیز کی نشاندہی کی ہے کہ انسان میں آب و گل کی جنس سے ماوراء ایک اور حقیقت موجود ہے۔ آدم اول کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

ونفخت فیہ من روحی(سورئہ حجر‘ آیت ۲۹)
"ہم نے اپنی روح سے اس میں پھونکا۔"

روح‘ نفس اور موت کے بعد روح کی بقاء کا مسئلہ معارف اسلامی کے بنیادی مسائل سے ہے۔
ناقابل انکار معارف اسلامی کا تقریباً نصف حصہ‘ روح کی اصالت‘ بدن سے اس کا استقلال اور موت کے بعد روح کی بقاء پر ہے‘ جس طرح سے انسانیت اور حقیقی انسانی قدریں بھی اسی حقیقت پر استوار ہیں اور اس کے بغیر یہ سب چیزیں وہم محض ہی ہیں۔ تمام ایسی قرآنی آیات جو موت کے فوراً بعد زندگی پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں‘ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن روح کو بدن سے مستقل اور فناء بدن کے بعد اسے باقی تصور کرتا ہے۔ ان میں سے بعض آیات کا تذکرہ بعد میں کیا جائے گا۔
بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ قرآن کی رو سے روح یا نفس کچھ بھی نہیں‘ انسان مرنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے‘ یعنی موت کے بعد شعور‘ ادراک‘ خوشی و تکلیف نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی‘ البتہ جب قیامت کبریٰ کا وقوع ہو گا اور انسان کو نئی زندگی ملے گی‘ تب انسان اپنا اور دنیا کا شعور پائے گا۔
لیکن وہ آیات جو صراحتاً موت کے فوراً بعد کی زندگی کو بیان کرتی ہیں۔ اس نظریے کے باطل ہونے پر قطعی دلیل ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ روح کے قائلین کی دلیل صرف "قل الروح من امر ربی" والی آیت ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن میں کئی جگہ لفظ روح استعمال ہوا ہے‘ اس سے مراد کچھ اور ہے۔ یہ آیت بھی اسی معنی پر دلالت کر رہی ہے۔
یہ لوگ نہیں جانتے کہ قائلین روح کی دلیل یہ آیت نہیں بلکہ تقریباً ۲۰ دوسری آیات ہیں‘ البتہ یہ آیت دوسری آیات کی مدد سے جن میں روح کا ذکر مطلق آیا ہے یا روح کے ساتھ اور کوئی قید جیسے "روحنا"، "روح القدس"، "روحی"، "روح من امرنا" وغیرہ‘ لیکن اسی طرح سے انسان کے بارے میں نازل شدہ آیات "ونفخت فیہ من روحی" بھی نشاندہی کر رہی ہے کہ قرآن کی نظر میں ایک حقیقت ایسی موجود ہے جو ملائکہ اور انسان سے اعلیٰ و ارفع ہے‘ جسے روح کہتے ہیں۔ ملائکہ اور انسان کی واقفیت امری یعنی روح اسی کے فیض اور اذن کا نتیجہ ہے۔
روح سے متعلق تمام آیات اور آیت "و نفخت فیہ من روحی" جو انسان کے بارے میں نازل ہوئی ہیں‘ نشان دہی کر رہی ہیں کہ انسانی روح ایک غیر معمولی حقیقت ہے۔
فقط قرآن ہی متعدد آیات میں اصالت روح پر دلالت نہیں کرتا بلکہ کتب حدیث‘ دعا اور نہج البلاغہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محدثین علیہم السلام نے بھی متواتراً اس بات کی تائید کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ روح کا انکار مغرب کا ایک متعفن اور کثیف خیال ہے‘ جس کا سرچشمہ ان کی مادیت اور محسوسات کی طرف میلان ہے۔
افسوس ہے کہ قرآن کریم کے بعض حسن نیت رکھنے والے پیروکاروں کو بھی یہ خیال دامن گیر ہو چکا ہے۔
اب ہم نمونہ کے طور پر ان چند آیات کا ذکر کریں گے‘ جن میں موت کو توفیٰ سے تعبیر کیا گیا ہے‘ ان میں سے بعض آیات میں بلافاصلہ موت کے بعد کچھ بنیادی اعمال کو انساں سے نسبت دی گئی ہے (جیسے مکالمہ‘ تمنا اور تقاضے) ان چار آیات میں سے تین کا ہم ذکر کریں گے‘ جن میں "توفیٰ" استعمال کیا گیا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا۔((سورئہ نساء‘ آیت:97)
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جو لوگ اپنی جانوں پر ﻇلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشاده نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وه پہنچنے کی بری جگہ ہے۔" 
بیشک ان لوگوں کو جو اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے‘ فرشتوں (خدا کے بھیجے ہوئے مامورین) نے کامل طور پر اپنے قبضے میں لیا۔ فرشتوں نے ان سے پوچھا: یہ تم کس حال میں مبتلا تھے‘ وہ کہیں گے کہ ہم زبوں حال لوگ محیط اور معاشرے کے زیردست اور محکوم تھے‘ فرشتوں نے ان سے پوچھا: کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم اور ان کا انجام برا ہے۔"
یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو کہ نامساعد حالات میں زندگی گذار رہے تھے۔ جب کہ کچھ لوگ ان حالات اور معاشرے کو اپنی مرضی سے چلا رہے تھے اور یہ کمزور لوگ اپنے محیط اور معاشرے کے محکوم تھے۔ اب اسی بات کو بطور عذر پیش کر رہے ہیں کہ حالات نامساعد تھے‘ معاشرہ فاسد تھا اور ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ یہ لوگ بجائے اس کے کہ اپنے معاشرے اور محیط کو تبدیل کریں اور اگر تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے‘ تو خود کو ایسے فاسد معاشرے کی دلدل سے بچانے کی کوشش کریں اور کسی بہتر اور اچھے محیط و معاشرہ میں چلے جائیں‘ جبکہ وہ اسی معاشرے میں رہے اور اپنے آپ کو اسی معاشرے کے حالات کے سپرد کر دیا اور معاشرے کی برائیوں میں غرق ہو گئے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ان کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد ان سے گفتگو کر رہے ہیں اور ان کے عذر کو ناقابل قبول قرار دے رہے ہیں‘ کیونکہ انہوں نے کم از کم وہ کام بھی انجام نہ دیا‘ جو ان کے بس میں تھا‘ یعنی کسی بہتر معاشرے کی طرف ہجرت نہیں کی‘ فرشتے انہیں سمجھا رہے ہیں کہ جو ظلم تم پر ہوا اس کے ذمہ دار خود تمہی ہو‘ یعنی اپنے گناہوں کے مسئول تم خود ہو۔
قرآن کریم اس آیت میں ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ (کسی معاشرے میں) بیچارگی اور ناتوانی قابل قبول عذر نہیں بن سکتی‘ مگر یہ کہ ہجرت اور کسی اور علاقے میں چلے جانے کے دروازے بھی بند ہوں‘ جیسا کہ نظر آ رہا ہے‘ اس آیت کریمہ میں موت کو کہ جو ظاہر میں نیستی‘ نابودی اور ختم ہونا ہے۔
توفیٰ یعنی تحویل میں لینے اور مکمل طور پر پا لینے سے تعبیر کیا گیا ہے اور نہ صرف یہ تعبیر بلکہ باقاعدہ طور پر موت کے فرشتوں اور انسان کے درمیان مکالمہ‘ گفتگو اور احتجاج کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ واضح ہے کہ اگر انسان کی حقیقت باقی نہ ہو اور انسان کی تمام تر حقیقت لاشہ بے حس و شعور سے عبارت ہو‘ تو مکالمہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
یہ آیت ہمیں سمجھا رہی ہے کہ انسان جب اس جہان اور اس عالم سے چلا جاتا ہے‘ تو ایک اور طرح کی آنکھ‘ کان اور زبان کے ذریعے سے(جس کیفیت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے) ایک نامرئی مخلوق یعنی فرشتوں سے گفت و شنید کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔

(۲) وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ بَلْ هُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ﴿10﴾ قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ﴿11﴾
(سورة السجدة:10،11)
"[ترجمہ محمد جوناگڑھی] انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں مل جائیں گے کیا پھر نئی پیدائش میں آجائیں گے؟ بلکہ [بات یہ ہے] کہ وه لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں۔ (10) کہہ دیجئے! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔(11)"

اس آیت میں قرآن کریم‘ معاد اور حیات اخروی کے منکرین کے ایک اعتراض اور اشکال کو ذکر کر کے اس کا جواب دے رہا ہے۔
اشکال یہ ہے کہ "موت کے بعد ہمارا ہر ذرہ نابود ہو گا اور ہمارا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا" تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم نئے سرے سے پیدا کئے جائیں۔
قرآن ان اعتراضات کو از روئے عناد اور انکار‘ بہانہ بازی قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہارے مدعا کے برعکس تمہاری حقیقت اور واقعیت وہ نہیں‘ جسے تم سمجھتے ہو کہ مٹ جاتا ہے‘ بلکہ تم تو اپنی تمام تر حقیقت اور واقعیت کے ساتھ اللہ کے فرشتے کی تحویل میں چلے جاتے ہو۔
معترضین کے "فنا اور نابود" ہونے سے مراد یہ ہے کہ ہمارے بدن کا ہر ذرہ اس طرح بکھر جاتا ہے کہ اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا‘ پھر ایسے بدن کو دوبارہ کیسے زندہ کیا جا سکتا ہے؟
عیناً یہی اعتراض یعنی اجزائے بدن کا متفرق اور گم ہو جانا قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی مذکور ہے اور اس کا دوسرا جواب بھی دیا گیا ہے‘ وہ یہ کہ اس طرح کا گم ہونا آپ کی نظر میں گم ہونا ہے‘ بشر کے لئے مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ ان ذرات کو جمع کر لے‘ مگر اللہ تعالی کے لئے مشکل نہیں‘ جس کا علم قدرت لامتناہی ہے۔
مذکورہ آیات میں منکرین کی گفتگو براہ راست اجزائے بدن کے بارے میں ہے کہ کیسے اور کہاں سے جمع ہو سکیں گے؟ لیکن یہاں اور جواب دیا ہے کیونکہ یہاں سوال صرف یہ نہیں کہ اجزائے بدن نابود ہوں گے اور ان کا کوئی نام و نشان نہیں ملے گا‘ بلکہ یہ بھی ہے کہ اجزائے بدن کے گم ہو جانے سے "ہم" گم ہو جائیں گے اور پھر "میں" اور "ہم" کا وجود کہیں نہیں رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں معترضین کا اشکال یہ ہے کہ اجزائے بدن کے نابود ہونے سے ہماری حقیقت واقعیہ معدوم ہو جائے گی۔
قرآن جواب میں یوں فرما رہا ہے "تمہارے گمان کے برخلاف" تمہاری حقیقی اور واقعی شخصیت کبھی گم ہی نہیں ہوتی‘ جو تلاش کی ضرورت پڑے‘ وہ تو پہلے ہی سے اللہ کے فرشتوں کے قبضے میں ہوتی ہے۔
اس آیت میں بھی کمال صراحت کے ساتھ انسان کے اجزائے بدن کے فنا ہونے کے باوجود اس کی حقیقت واقعیہ یعنی روح کی موت کے بعد بقاء کا تذکرہ ہے۔

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ۔ (سورئہ زمر‘ آیت 42) 
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے اور دوسری [روحوں] کو ایک مقرر وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ غور کرنے والوں کے لیے اس میں یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔"

یہ آیت نیند اور موت میں مشابہت کو بیان کر رہی ہے۔ ضمنی طور پر بیداری اور اخروی حیات میں مشابہت کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔
نیند‘ خفیف اور چھوٹی موت ہے اور موت‘ شدید اور بڑی موت ہے‘ دونوں مراحل میں انسانی روح اور نفس کا ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف انتقال ہے۔
اس فرق کے ساتھ کہ نیند کی حالت میں انسان غالباً غفلت میں ہوتا ہے اور بیداری کے بعد اسے نہیں معلوم ہوتا کہ حقیقتاً وہ ایک سفر سے لوٹا ہے‘ موت کی حالت کے برعکس کہ جس میں ہر چیز اس پر واضح ہوتی ہے۔
تینوں آیات میں سے کاملاً سمجھا جا سکتا ہے کہ موت کی حقیقت قرآن کی رو سے نیستی‘ نابودی اور فنا ہونا نہیں بلکہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف انتقال ہے۔ ضمنی طور پر نیند کی ماہیت اور حقیقت بھی قرآنی نکتہ نگاہ سے واضح ہو گئی ہے۔
موت کے بعد کی زندگی

کیا انسان موت کے بعد ایک دم عالم قیامت میں داخل ہو گا اور معاملہ ختم ہو جائے گا یا موت اور قیامت کے مابین ایک خاص عالم کو طے کرے گا اور جب قیامت کبریٰ برپا ہو گی‘ تو عالم قیامت میں داخل ہو گا؟

اس کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے کہ قیامت کبریٰ کب برپا ہو گی؟ انبیاء اور رسل نے بھی اس سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
قرآن کریم کے نصوص‘ حضرت رسول اعظم اور محدثین رحمہ اللہ سے منقول متواتر اور ناقابل انکار احادیث و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی موت کے فوراً بعد قیامت کبریٰ میں داخل نہیں ہو گا‘ کیونکہ قیامت کبریٰ تمام ذہنی‘ زمینی اور آسمانی موجودات جیسے پہاڑ‘ دریا‘ چاند‘ سورج‘ ستارے اور کہکشاں میں ایک کلی انقلاب اور مکمل تبدیلی کے ہمراہ ہو گی‘ یعنی قیامت کبریٰ کے موقع پر کوئی چیز بھی اپنی موجودہ حالت پر برقرار نہیں رہے گی۔ علاوہ ازیں قیامت کبریٰ میں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے‘ جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں‘ ابھی نظام عالم برقرار ہے اور شاید لاکھوں بلکہ کروڑوں سال قائم رہے اور اربوں انسان ایک دوسرے کے بعد اس دنیا میں آئیں۔ اسی طرح قرآن کریم کی رو سے (جیسے بعض آیات سے معلوم ہوا‘ جن کا ذکر بعد میں ہو گا) کوئی بھی شخص ایسا نہیں‘ جس کی عمر قیامت کبریٰ اور موت کے درمیانی فاصلے میں سکوت اور بے حسی میں گذر جائے۔ یعنی ایسا نہیں کہ مرنے کے بعد انسان نیم بے ہوشی کی حالت میں ہو‘ کسی چیز کو محسوس کرے اور نہ لذت ہو نہ الم نہ اسے سرور حاصل ہو سکے‘ نہ ہی غم و اندوہ بلکہ مرنے کے بعد انسان فوراً حیات(عالم برزخ) کے ایسے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے کہ کچھ چیزوں سے اسے لذت حاصل ہوتی ہے اور کچھ سے تکلیف‘ البتہ اس لذت و الم کا ربط اس کے دنیوی افکار‘ اعمال اور اخلاق سے ہے۔ قیامت کبریٰ تک یہ مرحلہ جاری رہتا ہے‘ لیکن جب آن واحد میں ایک کلی انقلاب اور تبدیلی تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور دور ترین ستاروں سے لے کر ہماری زمین تک ہر چیز اس انقلاب اور تبدیلی کی زد میں ہو گی‘ تب یہ مرحلہ یا یہ عالم جو سب کے لئے دنیا و قیامت کے درمیان حد فاصل کی حیثیت رکھتا تھا‘ اختتام پذیر ہو گا‘ لہٰذا قرآن کریم کی نظر میں موت کے بعد کے عالم میں دو مرحلے ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں مرنے کے بعد انسان دو مراحل طے کرے گا۔
ایک عالم برزخ جو عالم دنیا کی طرح ختم ہو جائے گا اور دوسرا عالم قیامت کبریٰ جو کبھی بھی ختم نہیں ہو گا۔یعنی حساب کتاب کے بعد ہمیشہ کی زندگی ۔

"حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ﴿99﴾ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ﴿100﴾(سورة المؤمنون:99،100)
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے۔ (99) کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر نیک اعمال کر لوں، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوباره جی اٹھنے کے دن تک۔ (100)"

قرآن کریم کی یہ آیات: جس میں موت اور قیامت کے درمیانی فاصلہ کو برزخ سے تعبیر کیا گیا ہے‘ اسی آیت سے استفادہ کرتے ہوئے علماء اسلام نے دنیا اور قیامت کبریٰ کے درمیانی عالم کا نام برزخ رکھا ہے۔ اس آیت میں موت کے بعد زندگی کے دوام کا ذکر بس اتنا ہی ہے کہ کچھ انسان مرنے کے بعد اظہار پشیمانی کرتے ہوئے درخواست کریں گے کہ ایک دفعہ دنیا میں پھر لوٹائے جائیں‘ لیکن انکار کر دیا جائے گا۔
یہ آیت صراحتاً بتا رہی ہے کہ موت کے بعد انسان کی ایک خاص قسم کی زندگی ہوتی ہے‘ جس میں رہتے ہوئے وہ واپسی کی خواہش کرتا ہے‘ لیکن اسے رد کر دیا جاتا ہے۔
قرآن کریم میں ایسی آیتیں کافی ہیں‘ جو دلالت کرتی ہیں کہ موت اور قیامت کے درمیانی فاصلے میں انسان ایک خاص قسم کی زندگی رکھتا ہے۔
وہ گفت و شنید کرتا ہے‘ اسے لذت‘ رنج‘ سرور اور غم بھی ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اسے ایسی زندگی نصیب ہوتی ہے‘ جس میں سعادت کی آمیزش ہوتی ہے‘ قرآن کریم میں مجموعی طور پر تقریباً ۱۵ آیتیں ایسی ہیں‘ جو زندگی کی کسی نہ کسی صورت کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انسان قیامت اور موت کے درمیانی عرصے میں ایک مکمل زندگی رکھتا ہے۔جو عالم برزخ کی زندگی ہے۔
ان آیتوں کی کئی اقسام ہیں:
۱۔ وہ آیات جن میں صالح اور نیک انسانوں یا بدکار اور فاسد انسانوں کی اللہ کے فرشتوں سے بات چیت کا ذکر ہے‘ جو مرنے کے فوراً بعد ہو گی‘ اس قسم کی آیات کی تعداد کافی ہے‘ سورئہ نساء کی آیہ نمبر ۹۷ اور سورئہ مومنون کی آیت نمبر ۱۰۰ جن کا ذکر مع ترجمہ پہلے ہو چکا ہے‘ اسی قسم میں سے ہیں۔
۲۔ ایسی آیات جو مندرجہ بالا مفہوم کے علاوہ کہتی ہیں کہ فرشتے نیک اور صالح انسانوں سے اس گفتگو کے بعد کہیں گے کہ بعدازیں الٰہی نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ یعنی انہیں قیامت کبریٰ کی آمد تک منتظر نہیں رکھا جاتا‘ ذیل کی دو آیات اسی مطلب پر مشتمل ہیں:

الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴿32﴾
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] وه جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وه پاک صاف ہوں کہتے ہیں کہ تمہارے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے، جاؤ جنت میں اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے۔(سورئہ نحل‘ آیت:32) 

قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ﴿26﴾ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ﴿27﴾
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] [اس سے] کہا گیا کہ جنت میں چلا جا، کہنے لگا کاش! میری قوم کو بھی علم ہو جاتا۔ (26) کہ مجھے میرے رب نے بخش دیا اور مجھے باعزت لوگوں میں سے کر دیا۔ (27)(سورئہ یس‘ آیات ۲۶۔۲۷)"
اس سے پہلے کی آیات میں مومن آل یسن کی اپنی قوم کے ساتھ گفتگو کا ذکر ہے۔
جس میں وہ لوگوں کو شہر انطاکیہ میں ان انبیاءکا کہہ رہا ہے‘ جو عوام الناس کو غیر خدا کی عبادت سے منع کرتے اور خدا کی مخلصانہ عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے‘ اس کے بعد یہ مومن اپنے ایمان و اعتقاد کا اظہار کر کے کہہ رہا ہے کہ میری بات سنو اور میرے راستے پر عمل کرو۔ ان آیات میں ارشاد ہوتا ہے کہ لوگوں نے اس کی بات کو نہ سنا‘ حتیٰ کہ وہ اگلے جہان میں چلا گیا۔ اگلے جہاں میں اپنے بارے میں مغفرت و کرامات الٰہی کے مشاہدہ کے بعد اس نے آرزو کی کہ
"اے کاش! میری قوم جو اس وقت دار دنیا میں ہے‘ میری یہاں کی سعادت مند کیفیت کا مشاہدہ کر سکتی۔"

واضح رہے کہ یہ تمام حالات قیامت کبریٰ سے قبل کے ہیں کیونکہ قیامت کبریٰ میں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے اور روئے زمین پر کوئی بھی باقی نہیں ہو گا۔
ضمناً اس نکتہ کو سمجھ لیں کہ مرنے کے بعد نیک اور باسعادت لوگوں کے لئے بہشتیں مہیا ہیں نہ ایک بہشت‘ یعنی مختلف اقسام کی بہشتیں۔
عالم آخرت میں بہشت کے مدارج قرب الٰہی کے مدارج و مراتب کے لحاظ سے مختلف ہوں گے‘ جیسا کہ احادیث سے استفادہ ہوتا ہے۔ ان بہشتوں میں سے بعض عالم برزخ سے مربوط ہیں نہ کہ عالم قیامت سے‘ بنابرایں اوپر والی دو آیات میں بہشت کے ذکر سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ عالم قیامت سے مربوط ہیں۔
۳۔ تیسری قسم ان آیات کی ہے‘ جن میں فرشتوں کی انسانوں کے ساتھ گفتگو کا کوئی ذکر نہیں بلکہ سعادت مند اور نیک انسانوں یا بے سعادت اور بدکار انسانوں کی زندگی کا ذکر ہے‘ پہلی قسم کے لئے موت کے فوراً بعد نعمات الٰہی اور دوسری صنف کے لئے عذاب و رنج ہو گا۔

ذیل کی دو آیتیں اسی قسم سے متعلق ہیں:
تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ﴿169﴾ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴿170﴾(سورئہ آل عمران‘ آیات ۱۲۹۔۱۷۰) 
"[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جو لوگ اللہ کی راه میں شہید کئے گئے ہیں ان کو ہرگز مرده نہ سمجھیں، بلکہ وه زنده ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں۔(169) اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں، اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے۔"

"وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ 46۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ۔)[غافر:45-46]، 
"اور فرعون والوں پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا۔ (45) آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام ﻻئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی [فرمان ہوگا کہ] فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔46"

اس آیت میں آل فرعون کے لئے دو قسم کے عذاب کا ذکر ہے۔ ایک قیامت سے پہلے جس کو سوء العذاب سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ہر روز دو بار آگ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں‘ بغیر اس کے کہ اس میں ڈال دیئے جائیں۔ دوسرا بعد از قیامت جس کو اشدالعذاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حکم ہو گا انہیں جہنم میں داخل کیا جائے۔ پہلے عذاب کے بارے میں صبح و شام کا تذکرہ ہے‘ دوسرے عذاب میں نہیں۔
پہلا عذاب چونکہ عالم برزخ سے مربوط ہے‘ اسی لئے صبح و شام کا ذکر ہے کیونکہ عالم برزخ میں عالم دنیا کی طرح صبح و شام‘ ہفتہ‘ ماہ اور سال ہیں۔ اس کے برعکس دوسرا عذاب عالم قیامت سے متعلق ہے اور وہاں صبح و شام اور ہفتہ وغیرہ کا وجود نہیں۔
یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی کہ عالم برزخ میں یعنی قبروں میں عذاب ہوتا ہے بہت بڑی دلیل ہے، ہاں یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے۔ کہ بعض احادیث میں کچھ ایسے مضامین وارد ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب برزخ کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے شریف کی ہجرت کے بعد ہوا اور یہ آیت مکہ شریف میں نازل ہوئی ہے۔ تو جواب اس کا یہ ہے کہ آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں کی روحیں صبح شام جہنم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ باقی رہی بات کہ یہ عذاب ہر وقت جاری اور باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اور یہ بھی کہ آیا یہ عذاب صرف روح کو ہی ہوتا ہے یا جسم کو بھی اس کا علم اللہ کی طرف سے آپ کو مدینے شریف میں کرایا گیا۔ اور آپ نے اسے بیان فرما دیا۔ پس حدیث و قرآن ملا کر مسئلہ یہ ہوا کہ عذاب و ثواب قبر، روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے اور یہی حق ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...