Sunday 13 May 2018

*سوشل ویلفیئر*

*سوشل ویلفیئر* 

(تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈائریکٹر  فاطمہ اسلامک سنٹر )

رفاہ عامہ اور معاشرتی فلاح وبہبود کا مطلب، اجتماعی مسائل اور کوششوں کو اس طرح بروئے کار لانا ہے کہ سب کی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں۔
آج جب کہ پوری دُنیا، غربت و افلاس، جہالت و جاہلیت اور بدامنی و عدم سکون کا شکار ہے، مادیت کا غلبہ ہے جب کہ روحانیت مفقود ہے، ایسے حالات میں سماجی خدمت اور فاہِ عامہ کی بدولت انسانیت کی فلاح کے لئے کوشش کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ 
’’نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو .......۔(سورۃ مائدہ :آیت۲) 
اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں سے اس امر کا تقاضا کر تا ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت ضروری ہے۔ قرآن مجید نے ایسے نمازیوں کے لئے ہلاکت کی وعید سنائی ہے جو نماز کو رکوع وسجدہ تک محدود رکھتے ہیں اور انسانیت کو حاجات و دکھوں سے نجات دلانے میں تعاون نہیں کرتے۔ارشاد ہوتا ہے: ایسے نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں اور جوریا کاری کرتے ہیں اور اشیاء ضرورت کو روکتے ہیں‘‘۔(سورۃ ماعون: آیت ۷۔۴)
اسی طرح سورۃ البقر ہ کی آیت نمبر ۱۷۷، اسلامی عقائد ، عبادات، معاشرتی فلاح وبہبود اور رفاہِ عامہ کا عالمگیر چار ٹر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : 
’’نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق و مغرب کی طرف اپنا منہ کر لو بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اللہ پر، یوم آخرت پر، فرشتوں پر، کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، اور اس کی محبت پر اپنا مال عزیزوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیں اور گردنیں چھڑانے پر خرچ کریں‘‘۔(سورۃ البقرہ: آیت ۱۷۷) 
انسانی فلاح و بہبود کے اس چارٹر کے مطابق اصلی نیکی اور بھلائی یہ ہے کہ انسان ایمانیات کے نتیجے میں اپنے مال و دولت کے ساتھ محبت اورر غبت کے باوجودا سے معاشرتی بہبود اور رفاہی کاموں پر خرچ کرے۔ اسلام کے معاشرتی بہبود ورفاہِ عامہ کے نظام اور اسلام کی روحانی اور اخلاقی اقدار میں گہرا تعلق ہے۔ اسلام کی یہ اقدار انسان کو ایثار، قربانی اور بے لوث خدمت خلق پر آمادہ کرتی ہیں۔ نتیجتاً وہ اپنے ضرورت مند بھائیوں کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے پر روحانی خوشی محسوس کرتا ہے۔ اور اس کی واضح مثالیں عہد نبوی، عہد خلفاء راشدین اور اموی اور عباسی دور میں بکثرت موجود ہیں۔ 
معاشرتی فلاح و بہبود کے بنیادی اصول سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۷۷ میں بیان ہوئے ہیں۔ انہی اصولوں کو عہد رسالت ﷺ خلافت راشدہ ، عہد اموی و عباسی میں قانونی حیثیت دے کرحکومت اسلامیہ کی باضابطہ حکمتِ عملی قرار دیا گیا۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے کہ: 
’’صدقات (زکوٰۃ) تو فقر اء، مساکین ، کارکنانِ صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیفِ قلب منظور ہو، اور غلاموں کو آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے (قرض ادا کرنے میں) اور اللہ کی راہ میں مسافروں کی مدد میں (یہ مال خرچ کرنا چاہئے)‘‘۔(سورۃ توبہ: ۴۰) 
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر 
www.dawatetohid.blogspot.com
03462115913

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...