Sunday, 6 May 2018

عبقری کے وظائف کا تجزیہ

عبقری کے وظائف کا تجزیہ

(جمع و ترتیب:عمران شہزاد تارڑ )

محترم قارئین۔رسالہ عبقری، ویب سائٹ، فیس بک، پیجز اور یو ٹیوب چینل پر روز بروز نئے سے نیا وظیفہ دکھائی دیتا ہے۔ اس تحریر میں ان وظیفوں کا قرآن وسنت کی روشنی تجزیہ پیش کرنے کی کوشش جائے گی۔
عبقری میگزین ،ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر دیئے گئے وظیفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مستند مواد شائع کرنے کے لیے کوئی موثر چھان بین کا پیمانہ (Screening Criteria) نہیں ہے۔
مثلاً ہر شمارے میں یا ویڈیو میں بہت سے من گھڑت وظائف شائع کیے جاتے ہیں جن کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ہوتا۔
بطور مثال عبقری کے چند وظائف ملاحظہ فرمالیں:
ہر مشکل و پریشانی کے لیے اور ہر اس بیماری کے لئے جو لا علاج ہو چکی ہو۔اس سے نجات کے لیے خود ساختہ وظیفہ جس میں موصوف حکیم صاحب فرما رہے ہیں۔ ناخن کو کاٹ کر کسی سفید کپڑے یا ٹشو پیپر و کاغذ میں لپیٹ کر ایک تسبیح انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لے اس تصور کے ساتھ کہ فلاں بیماری جس کا شکار ہے وہ ختم ہو گئی اور اس کے بعد ان ناخنوں کو دفن کر دے اور چند بار ایسا کرنے سے بیماری و مشکل سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی۔اور پھر اسی وظیفہ پر بیسیوں مختلف مسائل کے حل کے لیے ویڈیو اپلوڈ کی گئی ہیں۔
مکمل تفصیلات اس لنک پر دیکھیں
https://youtu.be/U_RCvCRW4nE

" یَارَبِّ موسٰی یَا رَبِّ کَلِیْم بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
حکیم صاحب اس وظیفہ کے فوائدے بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کوئی اگر پیسے لے کر واپس نہ کرے،میاں بیوی کے جھگڑے ہوں یا کوئی چیز گم ہو جائے،روزگار کے لئے اور کاروبار میں ترقی وغیرہ  کے لئے اس کے علاوہ بھی اس وظیفہ کے کئی فوائد بتائے گے گویا کہ اس وظیفہ میں ہر مشکل کا حل موجود ہے۔ کیا ایسا کوئی وظیفہ تجویز کرنا درست ہے۔
حالانکہ ان تمام مشکلات و پریشانی کے لئے مسنون اذکار موجود ہیں۔
تفصیلات کے لئے ویڈیو لنک ملاحظہ کریں۔
https://youtu.be/BB-_lbHSN3c

"ہر قسم کی بیماری اور لڑائی جھگڑے کے لیے تعویز کے لئے ایک چھوٹے سے کاغذ پر " ب ، س ، م " تینوں حروف انیس انیس بار لکھیں اور اس کے اوپر اللہ لکھیں۔اور منہ میں رکھ کر چوستا رہے آخر پر کاغذ بھی نگل جائے۔۔ اس وظیفہ پر مبنی بھی کئی ویڈیو اپلوڈ کی گئی ہیں۔
تفصیلات کے لئے ویڈیو ملاحظہ کریں۔
https://youtu.be/-_9uNI7dTJs

اسی طرح ایک دوسری ویڈیو میں لفظ " ع ،م ، ر " عمر  کی بہت فضیلت بتائی گئی اس کو اپنے دل پر لکھ لیا جائے تو ہر قسم کے وسوسوں اور وہ لڑائی جھگڑا جو نہ ختم ہو رہا ہو تو اس عمل سے ختم ہو جائے گا ۔
۔ جس کی تفصیلات کے لئے یہ لنک ملاحظہ کریں https://youtu.be/11TgBn8TX60

یہ تو صرف چند مثالیں تھیں در حقیقت کسی بھی خواہش کی تکمیل کے لئے ایسے جعلی وظیفوں کا استعمال معمول بن چکا ہے جس کی قرآن وسنت تو دور کی بات بلکہ صحابہ کرام ،تابعین اور سلف صالحین کے دور میں بھی کوئی دلیل نہیں ملتی۔

اس طرح کے من گھڑت سینکڑوں  وظائف عبقری رسالہ،عبقری ویب سائٹ اور یو ٹیوب چینل پر  موجود ہیں۔ہم ان سب کو یہاں رقم کر کے قارئین کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ثبوت کے لئے یہ چند مثالیں ہی کافی ہیں۔ورنہ ایک ایک وظیفہ کا رد پیش کیا جائے تو کئی جلدوں پر  محیط ایک کتاب بن جائے۔

ان وظائف کے عمل کا طریقہ کار ایک شخص کی اپنی سوچ تو ہو سکتی ہے لیکن دین ہر گز نہیں۔
راقم الحروف (عمران شہزاد تارڑ) کو ایسے وظائف پر کئی کتب و رسائل اور  دیگر ویب سائٹ کے مطالعہ کا اتفاق بھی ہوا ہے جس میں ہر شخص کا اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے یعنی ایک ہی مرض سے شفا کے لئے ہر شخص نے اپنے اپنے انداز میں عمل مرتب  کیے ہوئے ہیں، جس کی مکمل تفصیلات میری زیر تالیف کتاب" رزق میں فراخی اور مشکلات کا حل" میں پیش کی گئی ہے۔

حقیقت میں عوام بھی ایسے ٹوٹکوں کو پسند کرتی ہے جس کے لئے نہ ہی تو وقت دینا پڑے اور نہ محنت کرنی پڑھے۔۔۔۔۔
اور جو لوگ ان خود ساختہ وظیفوں کو آنکھیں بند کر کے قبول کر لیتے ہیں اس کا مطلب تو صاف ظاہر ہے کہ آپ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے نافذ کردہ احکامات پر اپنے بزرگان دین کے اعمال کو فوقیت دے رہے ہیں اور جو کھلی منافقت ہے۔

نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ صبح و شام کے اذکار بتائے ہیں۔ اور ان اذکار کو پڑھنے کا طریقہ اور تعداد بھی بتائی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کی مختلف سورتوں کے خاص فضائل بھی بتائے جیسے سورہ بقرہ جس گھر میں پڑھی جائے وہاں جادو اور جنات وغیرہ کا اثر نہیں ہوتا۔ اسکے علاوہ جمعہ کو سورہ کھف کی فضیلت، ہر رات سونے سے پہلے سورۃ سجدہ اور ملک کی فضیلت۔ ہر نماز کے بعد معوذتین یعنی سورۃاخلاص ،سورۃالفلق اور سورۃ الناس ایک ایک مرتبہ اور فجر اور مغرب کے بعد تین تین مرتبہ پڑھنے کی ترغیب دی۔ سونے کے اذکار بتائے۔ کھانے کے ، پینے کے، قضائے حاجت کیلیے جانے کی دعا، گھر سے نکلنے کی دعا، بازار میں داخل ہونے کی دعا۔ غرض کہ ہر وقت اور ہر کام میں اللہ کا ذکرسنت طریقےسے کرنے کاثبوت ملتا ہے تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے وظائف ہمیں کافی نہیں....۔ ؟ کہ ہم عام لوگوں کے خود ساختہ وظائف کا ورد تو کرتے ہیں لیکن جو طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا ہے اسے پس پشت ڈال رہیں ہیں ۔

اور اس طرح کے لاتعداد خود ساختہ من گھڑت وظائف جن کا کوئی ماخد اور دلیل کتاب و سنت میں نہیں ،نا ہی ایسے وظائف ہمیں محسن انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات سے ملتے ہیں۔
  اس سے بڑھ کر عبقری کا اسلام کی بنیادوں پر وار کیا ہوگا کہ وہ تمام مسائل جن کا حل ہمیں کتاب و سنت سے ملتا ہے ،عبقری نے نہایت ہی خطرناک طریقے سے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیا۔ قرآن و سنت سے دور کر دیا۔ گویا اب لوگوں کے ہر مسئلے کا حل عبقری کے پاس ہے  اور یہ جہالت کی فیکٹری دھڑا دھڑ اپنا زہر فروخت کر رہی ہے۔
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا دین نا مکمل تھا جو لوگوں کو ایسی شریعت سازی کی ضرورت پیش آ گئی؟

آج کل ہر فرقہ اپنے فرقے کے گرو کا دعوائے نبوت بھی تسلیم کرنے پر تیار بیٹھا ہوا ہے لیکن یہ سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا کہ یہ بات قرآن یا حدیث میں موجود بھی ہے یا نہیں ؟ کہیں ہم بدعت و خرافات کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ؟
بات دراصل یہ ہے کہ اس طرح کے کام صوفیت اورطریقت سے منسلک ہیں۔ طریقت کے ہرسلسلے کا ایک شیخ، مخصوص ورد اور وظائف اور رسم و رواج ہوتے ہیں، لیکن ان سب میں مشترک یہ ہے کہ یہ سب کچھ کتاب و سنت کے صحیح فہم سے کوسوں دور اور بدعات و خرافات سمیت خود ساختہ عبادات کی ترویج میں خوب مگن ہوتے ہیں اور کچھ غلو کرتے ہوئے اتنا آگے بڑھے ہوئے ہیں کہ نظریاتی یا عملی شرک میں مبتلا ہیں اور اس کی عجیب و غریب وظیفوں والی پوسٹیں اسلام سے استہزاء کے سوا کچھ نہیں۔ اس تناظر میں ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ عقیدۂ توحید مضبوط بنائے،کتاب و سنت کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھے، بدعات اور خود ساختہ امور سے بچے کیونکہ راہِ نجات یہی ہے۔ 
   
وظائف کے ماہر تو حکیم چغتائی صاحب ہیں مگر حیرت کی بات ہے کہ ہر شمارے میں قارئین کے وظائف اور نسخہ جات کے لیے ایک حصہ مختص ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ کس طرح کوئی بھی قاری حقیقی یا خود ساختہ وظیفہ یا نسخہ شائع کروا سکتا ہے۔اور کئی قارئین کے اپنے اپنے انداز میں کئی وظائف قلم بند بھی کیے گئے ہیں۔

عبقری کے ان خود ساختہ وظیفوں کا رَد اس واقعہ میں بھی ملتا ہے کہ ایک شخص مسجد نبویؐ میں قرآن کی مختلف سورتوں کے فضائل و خواص بیان کر رہا تھا۔سیدناعبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے اس کو پکڑ لیا اور فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تو یہ خواص نہیں بتائے جن کے سامنے قرآن نازل ہوا ہے ،تمہیں ان خواص کی اطلاع کس نے دی ہے ؟ اس کے بعد آپؓ نے اس کو زبردستی مسجد سے نکال دیا اور فرمایا کہ اگر میں نے آئندہ تمہیں مسجد میں یہ کام کرتے دیکھا تو سزا دوں گا۔
  دیکھا جائے تو عبقری کے عجیب وغریب وظیفوں کا سورس کیا ہے؟ کس وحی نے ان کو آیتوں کے خواص یا فضائل بتائے ہیں یا ان وظیفوں کے بانی حکیم طارق محمود مجذوبی چغتائی کے پاس فرشتہ آتا ہے اور ان کو یہ وظائف بتاتا ہے یا یہ سمجھتے ہیں کہ نبی علیہ السلام کو ان وظیفوں کو علم نہیں تھا اور انہیں پتہ چل گیا ہے اور باقاعدہ لکھا ہوتا ہے کہ فلاں فلاں وظیفہ کرنے کی حضرت حکیم صاحب کی طرف سے سب کو اجازت ہے۔ فلاں وظیفہ صرف تسبیح خانے میں کریں اور فلاں گھر میں نہ کریں وغیرہ وغیرہ۔ ان سے یہ پوچھیں کہ ان کو کس نے اختیار دیا اس طرح اجازتیں دینے کا اور اللہ کے ذکر سے روکنے کا؟

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اس وقت عوام میں وظائف کے سلسلے میں انوکھے پن ،تنوع اور ایجادیت کا رجحان ہے اور یہی بعض عاملوں اور پیروں کیMarket Driven Policy ہے۔

لوگ ایک انوکھے اور نامانوس وظیفے کے متلاشی ہوتے ہیں اور ایسے وظیفے رواج دئیے جا رہے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ۔ قرآن و حدیث میں موجود آسان، معروف ، موثر اور واضح الفاظ کو چھوڑ کر ہمیں نامانوس الفاظ وکلمات کی ہوس کیوں ہے؟تلاوت،نماز، مسنون اذکار کے ہوتے ہوئے اتنے بے تحاشہ شخصی وظائف کا رواج اسلام کی اصل روح سے لوگوں کو بعید کر دے گا۔ عجیب بات ہے اگر کوئی دم تعویذ کے طلب گار کو قرآن وحدیث کے الفاظ پر مشتمل کلمات کے علاوہ وظیفہ دیا جائے تو اسے زیادہ مقبولیت ملتی ہے۔اگر مستند اور غیر مستند ذریعےکی بحث سے صرفِ نظر کیا جائے تو پھر نعوذ باللہ شرکیہ الفاظ کا استعمال کیسے رکے گا؟

صحیح غلط کی تمیز، مضامین اور عربی متن کی جانچ کا کام اہل علم کا ہے مگر میگزین یا ادارے کے پینل اور مجلس ِمشاورت میں کسی اہل علم کا نام نہیں ملا تبھی ہر میگزین میں غیر مستند مواد کی بھر مار ہے۔اگر میرا یہ اعتراض بے بنیاد ہے تو پھر اس بات کا جواب دیں کہ دنیا میں ہر اہم کام کے لیے لوگ پروفیشنل سے کیوں رہنمائی لیتے ہیں؟ تو جو آپ کا جواب وہ میرا جواب۔ اللہ کی قسم دین کا میدان کسی بھی شعبے سے کہیں زیادہ حساس اور نازک ہے اس لیے دین سے متعلق تحقیق اور تشریح کے لیے مستند اہلیت بھی ضروری ہے۔

عبقری کے پلیٹ فارم سے اتنے سارے وظائف شائع کئے جاتے ہیں کہ بندہ کنفیوژ ہو جاتا ہے کس پر عمل کروں کس کو چھوڑوں؟ میرے ایک قریبی رشتہ دار کچھ دن پہلے حضرت حکیم چغتائی صاحب سے خصوصی ملاقات کے لیے گئے انہیں ایک خاص وظیفہ دیا گیا کہ صرف یہ معمول بنا لیں اس کے علاوہ دیگر وظیفے نہ پڑھا کریں کیونکہ ہر وظیفہ دوسرے سے ٹکراتا ہے جس كا نتيجہ نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ میں نے ایک آہ بھر کے کہا کہ میگزین کے وظائف کے فوائد اور جادوئی اثرات پڑھ کر میرا تو بہ یک وقت دسیوں وظائف کا موڈ بن جاتا ہے۔ اب ان میں سے متعدد متصادم وظائف بھی تو ہوں گے۔مبالغہ آرائی یا ترغیب اتنی زیادہ کہ بعض وظیفوں کے نام تو ‘ایٹم بم’ بعض کے ‘دھماکہ ‘رکھے ہیں۔یہ غیرمناسب زبان ہے، 

اگر کوئی یہ کہیں کہ خامیوں کو رد کر کے ان کی مفید باتوں کی وجہ سے قبول کیا جائے یہ علماء کی حد تک تو درست ہے مگر عوام کیسے سمجھیں گے کہ کونسی بات درست اور کونسی غلط ہے؟ جب کہ قاری عبقری کو ایک معتبر ذریعہ سمجھ کر پڑھتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ رسالہ عبقری (حکیم صاحب)
کی طرف سے کچھ مسنون اذکار بھی بتائے جاتے ہوں لیکن زیادہ تر غیر مستند باتیں کثرت سے نشر کرتے ہیں، اس لئے ان کے رسالہ یا چینل پر پیش کئے جانے ایک ایک وظیفہ کی تحقیق و تصدیق کے بعد اس پر عمل کیا جائے۔جو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پورا اترے قبول اور جو نہ اترے رد کر دیا جائے۔

آخر میں دو احادیث بیان کرنا مناسب سمجھوں گا پہلی جو امام احمدرحمہ اللہ نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ایک سیدھا خط کھینچا، اور فرمایا: یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے۔ پھر اس خط کے دائیں اور بائیں خطوط کھینچے، اور فرمایا: یہ مختلف راستے ہیں، اور ان میں ہر راستے کی طرف دعوت دینے کیلئے شیطان بیٹھا ہوا ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
   وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًافَاتَّبِعُوہُ،وَلَا تَتَّبِعُواالسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلہٖ ۔
 ’’بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے چنانچہ تم اسی کی پیروی کرو اور کسی اور راستے کی پیروی مت کرو، ورنہ تم اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔‘‘(الانعام153)۔
  اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ’’تم میں سے جو بھی میرے بعد زندہ رہے گا تو وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا، پس تم میری اور خلفائے راشدین کی سنت پر کار بند رہنا، اسے انتہائی مضبوطی سے تھامنا اور اپنے آپ کو خود ساختہ امور سے بچانا کیونکہ دین میں ہر خود ساختہ بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
(سنن ابی داود: 4607حکم البانی صحيح،سنن ترمذی: 2676 حکم البانی صحيح)

دوسری احادیث میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف فرما نہیں تھے کہ تین صحابی آپ ﷺ کے گھر آئے اور انہوں نے پردے کے پیچھے سے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عبادت کے بارے میں پوچھا ، ان کی خواہش تھی کہ ہماری رات کی عبادت اس کا طریقہ اور اس کا وقت بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ اور وقت کے مطابق ہو ، بالکل ویسے کریں جیسے اللہ کے پیغمبر کیا کرتے تھے ۔ جب انہیں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبادت کے بارے میں بتلایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو تھوڑا سمجھا ۔ پھر خود ہی کہا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام تو وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ معاف کر دئیے ہیں اور ہم چونکہ گناہ گار ہیں لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے ۔ چنانچہ تینوں نے کھڑے کھڑے عزم کر لیا ۔ ایک نے کہا میں آج کے بعد رات کو کبھی نہیں سوؤں گا بلکہ پوری رات اللہ کی عبادت کرنے میں گزاروں گا ۔ دوسرے نے کہا میں آج کے بعد ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا ۔ تیسرے نے کہا میں آج کے بعد اپنے گھر نہیں جاؤنگا اپنے گھر بار اور اہل و عیال سے علیحدہ ہو جاؤں گا تا کہ ہمہ وقت مسجد میں رہوں ۔ چنانچہ تینوں یہ بات کہہ کر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ تین افراد آئے تھے اور انہوں نے یوں عزم ظاہر کیا ۔ یہ سن کر نبی علیہ السلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا یوں لگتا تھا گویا سرخ انار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نچوڑ دیا گیا ہے اتنے غصے کا اظہار فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے یہ کیا بات کی ؟ کیا کرنے کا ارادہ کیا ؟ پھر نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنا عمل بتایا کہ میں تو رات کو سوتا بھی ہوں اور جاگتا بھی ہوں ، نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میرا گھر بار ہے اور میری بیویاں ہیں ۔ میں انہیں وقت بھی دیتا ہوں اور اللہ کے گھر میں بھی آتا ہوں ۔ یہ میرا طریقہ اور سنت ہے جس نے میرے اس طریقے سے اعراض کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔
یعنی جس نے اپنے طریقے پر چلتے ہوئے پوری پوری رات قیام کیا ۔ زمانے بھر کے روزے رکھے اور پوری عمر مسجد میں گزار دی اس کا میرے دین سے میری جماعت سے میری امت سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ وہ دین اسلام سے خارج ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی محنت کا نام نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام نیکی ہے ۔ ایک عمل اس وقت تک عمل صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تائید اور تصدیق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا ۔ کیونکہ وہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور منہج کے خلاف تھا ۔

یاد رہے کہ کوئی راستہ بظاہر کتنا ہی اچھا لگتا ہو اس وقت تک اس کو اپنانا جائز نہیں جب تک اس کی تصدیق و تائید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرما دیں ۔ اس حدیث مبارکہ میں جو اعمال بیان کے گئے ہیں جن کا عزم صحابہ کرام نے کیا تھا -یعنی رات کی عبادت، روزہ رکھنا اور نکاح کرنا وغیرہ - یہ سب سنّت رسول صل الله علیہ وسلم ہیں - لیکن چوں کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے اپنی طرف سے ان کی تعداد کا تعین کرلیا تھا - تو اس پر بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار فرمایا ۔ تو پھر اپنی طرف سے مخصوص الفاظ کے مخصوص تعداد میں وظیفے کرنا اور مخصوص آیات پڑھنا اور ایسے خود ساختہ وظیفوں کو شہرت دینا کیسے درست اور جائز ہو سکتا ہے۔

ہم بہت عزت و احترام سے حکیم طارق محمود صاحب کو اور ان کے پیروکاروں کو میسج دینا چاہتے ہیں کہ حکیم صاحب بے شک آپ ایک اچھے اور درد دل رکھنے والے انسان ہیں۔آپ نے حکمت میں امریکہ سے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے اور کوئی شک نہیں کہ آپ اپنے حکمت کے اس شعبے میں ماہر ہیں۔ آپ کے حکمت کے نسخے اور دوائیاں بہت فائدہ مند اور کامیاب ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن خدارا دین کے بارے میں کچھ کہنے سے احتیاط کیجیے اور لوگوں کوان خود ساختہ وظیفوں اور ٹوٹکوں پر لگانے کی بجائے قرآن وسنت کی طرف لگائیے اور دین کا حلیہ مت بگاڑیے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے محبوب ﷺ کی سنت پر چلنے والا بنائے ۔ آمین ۔
نوٹ: یہ مضمون عثمان حبیب,شفیع اللہ خان ابو عبیداللہ, کی نگارشات سے استفادہ حاصل کر کے ترمیم کے ساتھ ایک جامع مضمون مرتب کیا گیا ہے۔
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...