Wednesday 8 April 2020

تاریخ میں حج کب کب معطل ہوا؟

تاریخ میں حج کب کب معطل ہوا؟


  (تالیف:عمران شہزاد تارڑ)

..‏وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ ..( سورہ آل عمران:97)
 اور لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا اللہ کا حق ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو 
کرونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس سے اہم اسلامی ملک سعودی عرب بھی متاثر ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے ہی سعودی عرب نے عمرہ ادا کرنے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے، اب سعودی عرب کے شہروں مکہ اور مدینہ منورہ میں چوبیس گھنٹے کے کرفیو کا اعلان کر دیا گیا ہے اور یہ غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔حج کے متعلق بھی سعودی عرب کے حج و عمرہ کے وزیر کا کہنا ہے کہ ابھی حج کے خواہشمند اپنی تیاریاں روک دیں اور ٹکٹس کی بکنگ بھی نہ کروائیں۔
حج کے حوالے سے ابھی تک غیر یقینی سی کیفیت ہے اور کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ حج ہو سکے گا یا نہیں۔ ایسے میں خلیج کے معروف جریدے مڈل ایسٹ آئی نے حج کے تاریخی حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر خدانخواستہ 2020ء میں حج بیت اللہ نہ ہوا تو یہ اسلامی تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں ہو گا بلکہ ماضی میں ایسا درجنوں بار ہو چکا ہے،

ہم ذیل میں چند ایک مواقع کا مختصراً ذکر کر رہے ہیں- 
مڈل ایسٹ آئی اور شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن برائے تحقیق و آرچیوز کی رپورٹ کے مطابق 865ء میں عباسی خلافت کے مخالف اسماعیل بن یوسف السفاک نے مکہ مکرمہ کے تقدس کو نظر انداز کرتے ہوئے عرفات کی پہاڑیوں پر موجود حاجیوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں کئی حاجی شہید ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے حج ملتوی کرنا پڑا تھا۔
 930ء میں بحرین پر قابض قرامطی (اسماعیلی) فرقے کے سردار ابو طاہر الجنبی نے مکّہ مکرمہ پر بڑے لشکر کے ساتھ حملہ کیا،اس فوجی حملے میں 30 ہزار معصوم حاجیوں کو شہید کیا گیا اور سینکڑوں حاجیوں کی نعشوں کو زمزم کے پاک کنوئیں میں پھینک کر اس کے تقدس کو پامال کیا گیا۔اس موقع پر ان لوگوں نے مسجد الحرام میں بھی لُوٹ مار کی اور واپس جاتے ہوئے خانہ کعبہ سے حجر اسود بھی اپنے ساتھ بحرین لے گئے۔ اس واقع کے کئی سال بعد تک حج کی ادائیگی نہ ہو سکی، لیکن جب بحرین سے حجر اسود واپس لا کر خانہ کعبہ میں نصب کیا گیا تو اس کے بعد اگلے سالوں میں دوبارہ حج کے مناسک کی ادائیگی کا آغاز ہو گیا۔
حج کی ادائیگی میں ایک خلل 968 عیسوی میں ہوا۔ اس رپورٹ میں ابن کثیر کی کتاب ’البدایہ والنھایہ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ مکہ میں ایک بیماری پھیل گئی جس نے بہت سے حجاج کرام کی جان لے لی تھی۔رپورٹ کے مطابق 983ء اور اس کے بعد کے کئی سال بھی ایسے تھے جب حج نہ ہو سکا، اس کی وجہ ایران و عراق اور دیگر اسلامی علاقوں پر قائم عباسی خلافت اور شام کی فاطمی خلافت کی آپس کی جنگیں تھیں، ان جنگوں کے دوران حاجیوں کو مکہ مکرمہ جانے سے روک لیا جاتا تھا۔مسلمانوں کی ان آپس کی جنگوں کی وجہ سے 983ء سے 990ء تک مسلسل آٹھ سالوں میں حج کی ادائیگی نہ ہو سکی۔ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے سربراہ ڈاکٹر عماد طاہر کے مطابق اس کی وجہ سیاسی بدامنی اور فرقہ وارانہ کشیدگی تھی۔
 991ء میں حج کے مناسک ادا کئے گئے۔جبکہ 1099 میں بھی جنگوں کے نتیجے میں پوری مسلم دنیا میں خوف اور عدم تحفظ کی وجہ سے حج کی ادائیگی نہ کی جا سکی۔ یعنی صلیبی جنگجوؤں کے یروشلم پر قبضے سے پانچ برس قبل، خطۂ عرب میں مسلمان رہنماؤں میں اتحاد کے فقدان کے باعث مسلمان حج ادا کرنے مکہ نہ آ سکے۔
اس کے بعد 1831ء میں برصغیر پاک و ہند میں طاعون کی وبا پھیلی،جب اس خطے کے افراد حج کی ادائیگی کے لئے مکہ پہنچے تو ان متاثرہ افراد سے دیگر ہزاروں افراد میں بھی یہ وباء پھیل گئی۔تاریخی حوالوں کے مطابق طاعون کے باعث حج کے آغاز میں ہی مکہ میں موجود تین چوتھائی حاجی جاں بحق ہو گئے۔ ان سنگین حالات کی وجہ سے مناسک حج منسوخ کر دیے گئے۔چھ سال بعد دوبارہ وباؤں نے سعودی عرب کا رخ کیا، مڈل ایسٹ آئی اور شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن برائے تحقیق و آرچیوز کی رپورٹ کے مطابق 1837ء سے 1858ء کے دو عشروں کے درمیان وقتاً فوقتاً وبائیں جنم لیتی رہیں، اس وجہ سے اس دوران سات بار حج کے مناسک ادا نہ ہو سکے۔ پہلے 1837ء میں مکہ میں طاعون کی وبا پھُوٹی جس کے باعث 1840ء تک حج ادا نہ ہو سکا۔ 1846ء دوسری روایت  میں 1858ء میں مکہ کے رہائشیوں کو ہیضہ کی وبا نے آن گھیرا،اس وباء سے دس سے پندرہ ہزار افراد جاں بحق ہو گئے، جس کی وجہ سے 1849ء تک حج کی ادائیگی روک دی گئی۔اس کے بعد 1850ء میں حج کے مناسک ادا کئے گئے۔
رپورٹ کے مطابق 1865ء اور 1883ء میں بھی وباء کی وجہ سے لوگ حج ادا نہ کر سکے۔
اس کے علاوہ کئی مواقع پر مختلف ملکوں پر حج نہ کرنے کی پانبدیاں لگتی رہی ہیں۔
ان واقعات پر غور کرنے کے بعد آپ بتائیں کہ ہم میں کس قدر غلط خبریں عقیدے کا درجہ حاصل کرچکی ہیں یہ کہنا کہ مکہ مدینہ پر کوئی وباء نہیں آ سکتی یا یہ عقیدہ رکھنا کہ طواف کا رک جانا قیامت کی نشانی ہے یہ سب اغلاط العوام ہیں اس بنیاد پر سعودی حکومت کے اقدام پر تنقید کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
اہل علم کا کہنہ ہے کہ اگر کورونا کا مرض دنیا میں یونہی بڑھتا رہا تو 2020ء  بھی حج کی ادائیگی روکنے کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہوگا۔
لہذا اگر صحت کے ذمہ دار حکام کو معلوم ہو کہ کوئی متعدی بیماری موت کا سبب بن سکتی ہے تو لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ مہیا کرنا قرآن و سنت اور موجودہ وقت کی ضرورت کے مطابق ہے-
)نوٹ: تحریر میں درج کردہ تاریخوں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔)
(حوالہ جات : الاخباریہ،مڈل ایسٹ آئی , شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن برائے تحقیق و آرچیوز اور دیگر پاکستانی, مصری اور سعودی نیوز پیپر)
اس آرٹیکل کی ویڈیو  دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں


BEST FUTURE STUDY CONSULTANT
WhatsApp/Call 03462115913/03005131329 
Land line:0514854234
 www.bestfuturetravel.com
www.facebook.com/bestfuturetravel
Blog:www.bestfutureconsultants.blogspot.com/
bestfuturetravel@gmail.com
 Office # 7, 2nd Floor United Centre Shamsabad, Murree Road, Rawalpindi
⛤your trust is our priority⛤

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...