Saturday 20 January 2018

میں نے تقلید کیوں چھوڑی

میں نے تقلید کیوں چھوڑی

(از عمران شہزاد تارڑ )

کچھ لوگ تقلید کو ضروری قرار دینے کے لئے عوام کے ذھن میں ایک خاص وسوسہ یہ بھی ڈالتے ھیں کہ ہر شخص خود قران و حدیث سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ھے۔اس لیے اسے کسی دوسرے امام کی تقلید کرنا ضروری ہوتا ہے۔

ہم کہتے ھیں بیشک ہر عام آدمی قران و حدیث خود سے نھیں سمجھ سکتا، لیکن یہ بتاؤ جناب کیا ھر شخص ائمہ کی کتب سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ھے ؟؟؟ جس امام کی تقلید کو آپ ضروری قرار دے رھے ھو کیا اُس کی فقہ کی طرف منسوب کتابوں کو پڑھنے کی ہر عام آدمی صلاحیت رکھتا ھے ؟؟؟
جواب : نھیں ہے۔بلکہ آپ کے ہر مدرسہ میں فقہ پڑھانے اور سمجھانے کے لئے اساتذہ کرام موجود ہوتے ہیں۔

تو جناب علماء سے پوچھ کر وہ اتباع کیوں نھیں کر سکتا ؟؟؟
آخر وہ علماء سے یہی کیوں پوچھے کہ " حنفی فقہ کے مطابق یہ مسئلہ کیسے ھے "
وہ یہ کیوں نھیں پوچھ سکتا کہ حدیث رسول کے مطابق یہ مسئلہ کیسے ھے ؟
اور مولوی اسے حنفی فقہ کے مطابق ھی کیوں مسئلہ بتائے ؟ اگر حنفی قول کے خلاف زیادہ صحیح دلیل موجود ھو تو وہ فقہ حنفی کے خلاف مسئلہ کیوں نھیں بتا سکتا ؟؟؟
اسی لئے ہم کہتے ھیں کہ یہ محض ایک وسوسہ ھے کہ کیا ہر شخص خود قرآن و حدیث خود پڑھ اور سمجھ سکتا ھے۔۔۔
حقیقت یہ ھے کہ وہ جس طرح علماء سے پوچھ کر امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتا ھے اُسی طرح علماء سے پوچھ کر حدیث رسول کی بھی اتباع کر سکتا ھے۔
ہم بھی تمام مسائل اپنے علماء سے ہی پوچھتے اور سمجھتے ہیں لیکن اندھی تقلید نہیں کرتے بلکہ اتباع کرتے ہیں ۔  
فقہ کے بھی ہم منکر نھیں ، فقہ کا اقرار ھے،فقہ کا احترام ھے،فقہ ہمارے ہر مدارس میں بھی  پڑھائی جاتی ہے۔
لیکن وہ فقہ جو قران و حدیث کے مطابق ھو۔
وہ فقہ نھیں کہ جس میں فقہ کے نام پر صحیح احادیث کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اور نہ وہ فقہ کہ جس کے بیشتر مسائل قرآن و صحیح حدیث سے ٹکراتے ھوں ۔
" متعصب لوگوں نے معاملے کو برعکس کر دیا اور جو حدیث اپنے ائمہ کے اقوال کے مطابق ملی، اسے لے لیا اور جو ان کے خلاف معلوم ہوئی، کسی نہ کسی حیلے سے اسے ردّ کر دیا، اس کا معنیٰ و مفہوم بدلنے کی کوشش کی، اس سے بہت کمزور سند والی اور کمزور دلالت والی حدیث اگر ان کے مذہب کے موافق معلوم ہوئی تو اسے قبول کر لیا، اس کو ردّ کرنے والوں کے سر ہو گئے اور اپنے مخالف کے سامنے اس پر ڈٹ گئے، اس کے لیے تمام جتن کر ڈالے، حالانکہ خود اپنے امام کے خلاف پا کر اس سے بہت واضح دلالت والی حدیث کو درخور اعتناء نہ سمجھتے ہوئے پورے زور سے اسے ٹھکرا دیا جاتا ہے۔

تمام محدثین کے نزدیک تقلید حرام ہے کسی مسلمان کے لیئے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے دین میں (کسی کی) تقلید کرے۔ 
"بلکہ یہ لوگ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بتائیں اسے (مضبوطی سے) پکڑ لو اور جو بات اپنی رائے سے کہیں اسے کوڑے کرکٹ میں پھینک دو۔"(مسندالدارمی۶۰۲ وسندہ صحیح)

جب مقلد قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی عالم کی بات کو مانے اور قرآن و حدیث سے یکسر اعراض کرے۔ قرآن مجید کو صرف تبرک کے لیے پڑھے لیکن عملاً اس کو’’ دستور حیات‘‘ ماننے سے انکار کرے اور یہ گمان کرے کہ ہمارے امام سے غلطی اور خطا ناممکن ہے اور اس کا ہر قول حق اور صواب ہے اور اپنے دل میں یہ بات جما رکھے کہ ہم اپنے امام کی تقلید ہرگز نہ چھوڑیں گے اگرچہ ہمارے مذہب کے خلاف قرآن وحدیث سے دلیل قائم بھی ہو جائے ۔
ایسی تقلید بعض اوقات اسلام سے انحراف کا سبب بن جاتی ہے ۔

وحی اور دین کے مقابلے میں انسانوں کی آراء کو عقائد و اعمال میں دلیل بنانا اہل ایمان کا شیوا نہیں۔ اہل علم و عقل کا اس بات پر اجماع ہے کہ تقلید حرام و ممنوع ہے۔ قرآن و حدیث سے اس کی مذمت ثابت ہے، نیز ضلالت و جہالت کا دوسرا نام تقلید ہے۔

مگر صد افسوس !ایسی تقلید کے اثرات ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔

نوٹ:تفصیلی مضمون "تقلید کیا ہے ؟ تقلید کی شرعی حیثیت"میں مطالعہ فرمائیں
www.dawatetohid.blogspot.blogspot.com
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان 

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...