Monday 1 January 2018

حلالہ اور طلاق ثلاثہ

حلالہ اور طلاق ثلاثہ

(پروفیسر مسعود عالم فلاحی)

اسلام میں نکاح کی اہمیت:

شریعت کی نگاہ میں نکاح ایک پاکیزہ اور پائیدار عمل ہے،نکاح کے ذریعہ سے مقصد خداوندی یہ ہے کہ مردوعورت کے درمیان ہونے والا یہ رشتۂ نکاح سدا بہار او رخوشگوار رہے،باد خزاں کا کوئی جھونکا اسے نہ لگ سکے او رنہ ہی اختلاف و انتشار کی آلودگی اس رشتہ کی لطافت اور پاکیزگی کو گدلا کرسکے، اور اس کی بقاء کے لئے میاں بیوی کی ذمہ داری ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کرتے رہیں ، او ربہتر ین ازدواجی زندگی کے لیے ہر ممکن صبر و برداشت کرنے ، اور قربانی دینے کا جذبہ پیدا کریں۔

طلاق دراصل اسی رشتۂ نکاح کے توڑنے کا نام ہے، اسی لیے اسلام اسے پسند نہیں کرتا، حدیث میں ہے شیطان کو سب سے زیادہ خوشی اس بات سے ہوتی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر دی جائے۔[1]

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت بلاوجہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے س پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔[2]

ان سب احادیث کی وجہ سے حضرات فقہاء کرام نے بلا شدید ضرورت طلاق کو ناجائز قرار دیا ہے، اور شدید ضرورت کی تفسیر بھی بعض احادیث میں وارد ہوئی ہے ، جیسے عورت کا بد چلن ہونا وغیرہ۔

یہ امر واقعہ ہے کہ کبھی کبھی طلاق اور میاں بیوی کی جدائی ایک ضرورت بن جاتی ہے اور حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ شاہراہ زندگی پر میاں بیوی کا ساتھ چلنا ممکن نہیں رہتا، ان حالات میں ایک ضرورت کی چیز سمجھ کر اسلام نے طلاق کو جائز قرار دیا ہے۔

طلاق کو روکنے کے لیے اسلامی تدبیریں:

طلاق کے بارے میں اسلام کی پہلی کوشش یہ ہے کہ اس کا وقوع نہ ہو؛ لیکن اگر شدید ضرورت پیش آجائے تو پھر دوسری کوشش یہ ہے کہ اختلاف اور نزاع کے پہلے ہی مرحلے میں طلاق نہیں دینی چاہئے ، بلکہ ایسی تمام صورتوں کو عمل میں لانا چاہئے جن کے ذریعے زوجین کے درمیان کی کشیدگی ختم ہوجائے۔ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے منفی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے مثبت پہلو پر نظر رکھیں، کیونکہ ہر انسان کے اندر اچھائی اور برائی ہوتی ہے، کوئی بھی انسان صرف شرکا یا صرف خیر کا مرکز نہیں ہوتا ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا :

( ...وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ.( (البقرۃ:216)

’’...ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لئے بہتر ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہ ہی تمہارے لئے بُری ہو۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔‘‘

اگر ایسا ممکن ہوجائے تو پھر طلاق کی ضرورت نہیں ، اسلام نے طلاق سے قبل کی ابتدائی تدبیروں کا انتہائی جامع نقشہ کھینچا ہے، ارشاد باری ہے:

(وَاللاّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا . وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا۔ (النساء 34۔35)
’’اور جن عورتوں سے تمہیں سر کشی کا اندیشہ ہوا نہیں سمجھاؤ خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے۔ اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کااندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے رشتہ داروں میں سے ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرناچاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا ، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔‘‘

ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے وعظ ونصیحت اور سمجھانے بجھانے سے کام لینا چاہئے، کیونکہ پیار اور محبت کے دوبول میں جتنی تاثیر ہے اتنی سختی اور مار پیٹ میں نہیں، اگر اس سے کام نہ چلے تو اپنی ناراضگی کے اظہار کے لیے اپنی خواب گاہ اور بستر علیحدہ کرلو، پیار کرنے والی بے لوث بیوی کے لیے اس سے بڑی کوئی سزا نہیں ، پھر اگر اس سے کام نہ چلے اور عورت اپنی اصلاح نہ کرسکے، تو مناسب انداز میں ، اس کی فطری کمزوری کا لحاظ کرتے ہوئے تھوڑی سی سختی کی بھی اجازت ہے،اب اگر عورت اپنی اصلاح کر لے تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ بہترین رفیق زندگی کی طرح ساتھ رہے،ظلم و ستم کا کوئی راستہ نہ ڈھونڈے ۔

یہ تمام کارروائیاں شوہر کے ذریعے سے انجام پاتی ہیں،اگر یہ تمام کار روائیاں ناکام ہو جائیں اور ان کے باوجود بیوی کی اصلاح حال نہ ہو سکے، اور وہ بے جا زیادتی پر آمادہ ہو تو ایسی صورت میں اب اجتماعی کارروائی کوئی ضرورت ہے، اس کی تفصیل مذکورہ دوسری آیت میں کئی گئی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اب دوسرے ذمہ دار، معاملہ فہم او رہمدرد افراد خانہ کے ذریعہ معاملہ حل کرنے کی کوشش کی جائے او رباہمی مصالحت پر زوجین کو آمادہ کیا جائے، اگر یہ کوشش کامیاب ہوگئی تو دونوں میاں بیوی کی ذمہ داری ہے کہ ازدواجی زندگی میں در آنے والی خرابیوں کو آپسی الفت و محبت کے تیشے سے ختم کردیں۔

لیکن اگر ثالثی اور پنچوں کی کوشش بھی ناکام ہوجائے اور زوجین کے درمیان کسی بھی حال میں موافقت نہ ہو سکے اور عورت کی طرف سے نافرمانی اور حکم عدولی کا سلسلہ جاری رہے تو اب شریعت شوہر کو طلاق کی اجازت دیتی ہے۔

یہ مذکورہ بالادونوں آیتوں کا خلاصہ ہے، جو میاں بیوی کے درمیان ہونے والی نا اتفاقیوں کو ختم کرنے کا نسخۂ اکسیر ہے ، اور روئے زمین پر اس سے زیادہ معقول ، سریع الأثر کوئی دوسرا نسخہ موجود نہیں ۔

اسلامی طریقۂ طلاق:

مذکورہ صورتوں میں جب اتفاق اور میل ملاپ کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں تو عورت کی پاکی کی حالت میں (جس میں عورت سے مباشرت نہ کی ہو) لفظ طلاق کے ذریعہ صرف ایک طلاق دے، اس طلاق کو رجعی کہتے ہیں، اس طلاق میں شوہر کو یہ حق رہتا ہے کہ اگر اسے اپنے فیصلہ پر پشیمانی یا عورت کو اپنی غلطی پر ندامت کا احساس ہو تو عدت گذرنے سے پہلے پہلے تک بیوی کو اپنے نکاح میں لوٹا سکتا ہے، اس کو فقہ اسلامی کی اصطلاح میں ’’رجعت‘‘ کہتے ہیں، اور اگر وہ علیحدگی کے فیصلے پر قائم ہے تو یوں ہی چھوڑ دے، عدت گذرنے سے یہ رشتہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔

اگر اب بھی شوہر کو پشیمانی ہو اور وہ دونوں بہتر ازدواجی زندگی کی پھر سے شروعات کرنے کا عہد کرتے ہیں تو انہیں شریعت کی طرف سے اس کی اجازت ہے کہ از سر نو نکاح کرلیں، اور اگر اس کے بعد میاں بیوی کے درمیان پھر سے اختلاف پیدا ہو تو اختلاف دور کرنے کی مذکورہ بالاتمام صورتوں پر عمل کریں، اگر وہ تمام ناکام ہو جائیں تو پھر عورت کی پاکی کی حالت میں ایک طلاق دینے کی اجازت ہے،ان دو طلاق کے بعد بھی اسے پشیمانی ہے اور وہ دونوں ساتھ مل کر رہنے کا تیسری مرتبہ عہد کرتے ہیں تو بھی عدت کی اندر بیوی کو بغیر نکاح لوٹا سکتا ہے؛ لیکن اگر عدت ختم ہوجائے اور اس کے بعد انہیں ہوش آیا تو نکاح کرنا پڑے گا، اس نکاح کے بعد پھر دوبارہ نا اتفاقی ہوئی اور مصالحت کی ساری کوششیں ناکام ہوجائیں تو آخری چارہ کے طور پر تیسری طلاق دے سکتا ہے۔

اسلامی طریقۂ طلاق کی مذکورہ تفصیلات سے یہ بات مکمل واضح ہو جاتی ہے کہ طلاق ایک مذاق نہیں، بلکہ انتہائی مجبوری کی حالت میں اور صلح و صفائی کی تمام کوششوں کے باوجود صرف ایک وقت میں ایک طلاق کی اجازت ہے،اور ایک سے زیادہ طلاق ایک وقت میں شریعت اسلامیہ کا کھلا ہوا مذاق ہے۔ اسلام کا مقصد چونکہ رشتہ کو باقی رکھنا ہے اس لئے شوہر کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ طلاق دینے کے بعد بیوی کو اپنے گھر سے نہ نکالے بلکہ عدت اپنے گھر میں ہی گذارنے دے، ہوسکتا ہے کہ شوہر کواپنے فیصلے پر پشیمانی ہو یا عورت کواپنی غلطی کا احساس ہو اور دونوں آپس میں صلح کرلیں۔ قرآن نے ان تفصیلات کو چندلفظوں میں بیان کردیا ہے۔ اللہ نے فرمایا:
(الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آَتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَنْ يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ....... وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلا تَتَّخِذُوا آَيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ . وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔) (البقرة:229، 231-232.)

’’طلاق دوبار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے۔ اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الہٰی پر قائم نہ رہیں گے، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی]خلع[ حاصل کرلے۔ یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔ او رجو لوگ حدود الہٰی سے تجاوزکریں، وہی ظالم ہیں.... اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدّت پوری ہونے کو آجائے ، تو یا بھلے طریقے انہیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کردو۔ محض ستانے کی خاطر انہیں نہ روکے رکھنا کہ یہ زیادتی ہوگی او رجو ایسا کرے گا ، وہ درحقیقت اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمی سے تمہیں سرفراز کیا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اس نے تم پر نازل کی ہے، اس کا احترام ملحوظ رکھو۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے ۔ جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدّت پوری کرلیں ،تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہر گز نہ کرنا، اگر تم اللہ اورروز آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمہارے شائستہ او ر پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے تو نہیں جانتے۔‘‘

آیت 232میں جہاں عورت کے رشتہ داروں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ طلاق رجعی کی عدت کے بعد اگر عورت دوبارہ نئے نکاح کے ذریعہ معروف یعنی بھلے طریقے سے اپنے سابق شوہر کی طرف لوٹنا چاہے تو تم اسے ایسا کرنے سے نہ روکو ، وہیں دوسری طرف سابق شوہر کو حکم دیا جا رہا ہے کہ عدت کے بعد اگر عورت کسی اور شخص سے نکاح کرنا چاہے تو اس میں وہ مانع نہ ہو۔

طلاق کا یہ اسلامی اور قرآنی طریقہ ہے، اس میں کہیں بھی تین طلاق ایک ساتھ دینے کی بات نہیں کہی گئی ہے؛لیکن سماج میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ جہالت کی وجہ سے ایک ساتھ تین طلاق دے دیتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بغیر تین طلاق دئے ہوئے طلاق واقع ہی نہیں ہوگی، حالاکہ ایک طلاق سے بھی طلاق ہوجائے گی اور جدائی اختیار کی جا سکتی ہے۔ اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ ایک ساتھ دی گئی تین طلاق ایک طلاق ہوگی یا تین۔ بہت سے علماء بشمول علمائے اہلحدیث اسے ایک مانتے ہیں تو فقہ حنفی اسے تین۔ ان کا اہم استدلال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل سے ہے جس میں انہوں نے حالات کے مدنظر ،فقہ الواقع پر عمل کرتے ہوئے مردوں کو سزا دینے کے لئے مجبوراً تین طلاق کو نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔ احناف بیک وقت دی گئی تین طلاق کوتین تو مانتے ہیں ؛ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اسے طلاق بدعت بھی کہتے ہیں، یعنی ان کے یہاں بھی طلاق کا طریقہ وہی ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے۔ مذکورہ بالا تفصیلات سے یہ توواضح ہے کہ ایک بیٹھک کی تین طلاق قرآنی تعلیمات کا مذاق ہے،جس پر اللہ نے تنبیہ کی ہے، فرمایا :)وَلا تَتَّخِذُوا آَيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا.( (البقرة: 231) ’’اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔‘‘

نکاح تحلیل (حلالہ)

مذکورہ بالا قرآنی طریقۂ طلاق سے تین طلاق دے دی جائے تو وہ طلاق مغلظہ کہلاتی ہے، اس کے بعد شوہر اپنی سابقہ بیوی سے نکاح نہیں کرسکتا ہے، اس کے بعد اگر وہ اپنی بیوی سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے درج ذیل امور کا لحاظ کرنا ضروری ہوتا ہے:

(1) پہلے شوہر کی عدت گزارنے کے بعد وہ عورت اپنی مرضی سے بغیر کسی سازش اور حیلہ کے دوسرے مرد سے نکاح کرے۔

(2) وہ دوسرا مرد اس عورت کے ساتھ ہمبستری بھی کرے۔

(3) اس کے بعد وہ مرد اپنی مرضی سے، اس عورت کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے ۔

(4) پھر طلاق یا وفات کی عدت گزار لے۔

اس کے بعد وہ بیوی اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال ہو سکتی ہے، سابق شوہر سے حلال ہونے کی اسی کارروائی کا نام ’’نکاح تحلیل (حلالہ)‘‘ہے۔ قرآن میں اللہ نے اس کی تفصیل اور طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :

)فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ . ((البقرة: 230)

’’پھر اگر(دوبار طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی ، تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہوگی ، اِلاّ یہ کہ ان کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دے۔ تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدود الہٰی پر قائم رہیں گے ، تو ان کے لئے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ اللہ کی مقرر کرد وہ حدیں ہیں، جنہیں وہ ان لوگوں کی ہدایت کے لئے واضح کر رہا ہے، جو (اس کی حدوں کو توڑنے کا انجام )جانتے ہیں۔‘‘

مروجہ نکاح تحلیل کی شرعی حیثیت:

آج کل مسلم معاشرہ میں ایک غلط رسم یہ چل پڑی ہے کہ لوگ اسی نیت سے نکاح کرتے یا کراتے ہیں کہ مباشرت کے بغیر یا مباشرت کے بعد طلاق دیدیں گے، اور عورت پھر اپنے سابق شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی۔ حلالہ کی مروجہ صورت شریعت کی نگاہ میں انتہائی غلط اور بے ضمیری کی علامت ہے،حدیث میں اسے ’’کرائے کا سانڈ تیسس مستعار‘‘ کہا گیا ہے اور اس پر لعنتیں بھیجی گئی ہیں۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تجھے کرایے کے سانڈکی خبر نہ دوں ؟ صحابہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اے اللہ کے رسول !ضرور بتائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ حلالہ کرنے والا ہے، اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ألا أخبر کم بالتیس المستعار؟ قالوا: بلی یا رسول اللہ ، قال: ’’ ھو المُحَلِّلُ لعن اللہ المحلِّلَ و المحلَّلَ لہ.‘‘[3]

یہ حدیث راویوں اور لفظوں کے فرق کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں صحیح اسناد کے ساتھ آئی ہے۔[4]

اسی وجہ سے صحابہ کرام، تابعین ، وتبع تابعین، فقہاء جیسے عمر، عثمان، علی، عبداللہ بن مسعود، عبدا للہ بن سلام ، أبی بن کعب، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم ، عائشہ رضی اللہ عنہا، انس بن مالک ، سعید بن مسیّب ، حسن بصری ، ابراہیم نخعی ، عطا ابی رباح، ابو الشعشا جابر بن زید، شعبی ، قتادہ ، بکر بن عبداللہ مزنی، مالک بن انس اور ان کے اصحاب ، اوزاعی ، لیث بن سعد، سفیان ثوری، احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، ابو عبید القاسم بن سلام، سلیمان بن داؤد ہاشمی، ابو خیثمہ زہیر بن حرب، ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسحاق جوز جانی، اور امام شافعی ، امام ابو یوسف ، امام محمد حنفی وغیرہ  حضرات کا خیال ہے کہ سازشی حلالہ سے بیوی اپنے سابقہ شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی ، اور یہ نکاح باطل ہوگا۔ امام احمد تو ایسے نکاح کو متعہ کے مانند کہتے ہیں جو ہر حال میں حرام ہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سازشی حلالہ کے بعد نکاح کرنے والا مرد اور عورت جب تک ساتھ رہیں گے ہمیشہ حالت زنا میں رہیں گے۔

اگر کوئی شخص عورت اور مرد کو بتائے بغیر ان کی بھلائی کی خاطر عورت سے نکاح کرکے طلاق دے دے تاکہ وہ اپنے سابق شوہر کے لئے حلال ہوجائے، تو ایسی صورت کوبعض علماء اس شرط پر جائز قرار دیتے ہیں کہ میاں بیوی میں سے کسی کو اس شخص کی نیت اور ارادہ کاعلم نہ وہ؛ لیکن بعض علماء کے نزدیک وہ نکاح بھی حرام ہوگا اور وہ اپنے سابق شوہر کے لئے جائز نہ ہوگی ، اس سے نکاح اسی صورت میں جائز ہوگا جب کسی نے بغیر کسی سازش کے اپنی اور عورت کی مرضی سے زندگی گزارنے کی خاطر نکاح کیا ہو؛لیکن بعد میں کسی وجہ سے ان کے درمیان طلاق ہوجائے ۔[5]

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: ’’لا أوتی بمُحَلِّل ولا مُحَلَّل لہ إلا رجمتھما.‘‘ ’’اگر حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا ہے وہ میرے پاس لائے جائیں تو میں دونوں کو رجم کردوں گا۔‘‘[6]

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ (1263۔1328ء) نے اس موضوع پر ۴۸۰ صفحات پر مشتمل ایک انتہائی محققانہ کتاب ’’بیان الدلیل علی بطلان التحلیل‘‘(حرمت حلالہ کےدلائل) لکھی ہے جس میں انہوں نے مدلل طور پر ثابت کیا ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے ۔سارے صحابہ سلف صالحین نے اسے حرام قرار دیا ہے۔[7]

مولانا سیدابوالاعلی مودودی (۱۹۰۳۔۱۹۷۹ء) کی بھی یہی رائے ہے، وہ لکھتے ہیں :

’’ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی مطلقہ بیوی کواپنے لیے حلال کرنے کی خاطر کسی سے سازش کے طور پر اس کا نکاح کرائے اور پہلے سے یہ طے کرلے کہ وہ نکاح کے بعد طلاق دے دے گا، تو یہ سراسر ایک ناجائز فعل ہے۔ ایسا نکاح ،نکاح نہ ہوگا، بلکہ محض ایک بدکاری ہوگی اور ایسے سازشی نکاح و طلاق سے عورت ہر گز اپنے شوہر کے لیے حلال نہ ہوگی۔‘‘[8]

تمام صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ ثلاثہ اور احناف کے نزدیک مروجہ یعنی سازشی نکاح تحلیل حرام ہے، صرف امام ابو حنیفہ کے یہاں یہ نکاح کراہت تحریمی کے ساتھ جائز ہے۔[9]
امام ابو حنیفہ کے یہاں اسے جائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے قرآنی شرط ’’حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ  یہاں تک اس کے علاوہ کسی اور سے شادی کرے‘‘ کو پوری کرلی، چاہے وہ جائز طریقہ سے پوری کی ہو یا ناجائز طریقہ سے۔ امام ابو حنیفہ اس حلالہ کے ذریعہ ہوئے نکاح کو صرف شرط پوری ہونے کی وجہ سے جائز قرار دیتے ہیں ، ورنہ ان کے یہاں بھی حلالہ کے لئے حیلہ کرنا گناہ اور باعث عذاب ہے اور ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں۔

حیلہ دو طرح کا ہوتا ہے، ایک شرعی جیسے جنگ وغیرہ میں حیلہ کرنا اور دوسرا غیر شرعی جیسے اپنے مقصد کے لئے قرآنی نص اور حکم الہٰی کی تاویل کرنا، دوسروں کو اپنے فائدہ کی خاطر دھوکہ دینے کیلئے حیلہ کرنا۔ قرآن نے دوسرے قسم کے حیلہ کو حرام قرار دیا ہے۔ چنانچہ اللہ منافقین کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آَمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ. يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آَمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ...وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آَمَنُوا قَالُوا آَمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ.اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ۔) (البقرة: 8-9، 14-15)
’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ  اللہ او رایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ کو ہی دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں... جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، اورجب علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کررہے ہیں۔‘‘

اللہ نے بنی اسرائیل کے لئے سنیچر کے دن مچھلیوں کاشکار کرنے کی ممانعت کی تھی؛ لیکن جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ اسی دن مچھلیاں آتی ہیں اور دوسرے دنوں میں نہیں آتیں ،تو انہوں نے یہ حیلہ کیا کہ سنیچر کو گڈھا کھود دیتے تھے تاکہ مچھلیاں آکر اس میں پھنس جائیں، او ردوسرے دن ان کا شکار کر لیتے تھے ۔ ان میں کچھ لوگوں نے ایسا کرنے سے منع کیا کہ یہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے؛ لیکن انہوں نے ا ن کی بات نہیں مانی اور نصیحت کوبھلا دیا۔ اللہ نے نصیحت کرنے والوں کو تو بچا لیا ، لیکن ان نا فرمانوں کو غیر شرعی حیلہ کے ذریعہ حکم الہٰی کو پامال کرنے کے جرم میں ذلیل بندر بنادیا۔(البقرۃ :163-166)

امت کے غیرت مند افراد کی ذمہ داری ہے کہ مروجہ غیر شرعی طلاق وحلالہ کے سلسلے میں امت میں بیداری مہم چلائیں اور امت کواس مسئلہ کی نزاکت کا احساس دلائیں ، اور اس غلط رسم کے خاتمے کے لئے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کردیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حلالہ کا یہ حرام طریقہ وہ لوگ کرتے ہیں جو قرآنی طریقۂ طلاق کو نہیں اپناتے ہیں اور ایک ساتھ ہی تین طلاق دے دیتے ہیں اور دوسرے مسلک کی کشادگی سے فائدہ نہ اٹھاکر اپنے مسلک پر جمے رہتے ہیں ، حالانکہ ائمہ اربعہ نے کہا ہے کہ اگر ان کے اقوال و آراء کے برخلاف قرآنی آیات اور احادیث صحیح مل جائیں تو ان پر عمل کیا جائے اور ان کے اقوال کونظر انداز کردیا جائے۔ غیر شرعی طلاق دینے والے حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاق کو تین مانا ہے، اس لئے وہ بھی اسے تین ہی مانتے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فقہ الواقع یا ضرورت کے تحت تین طلاق کو تین نافذ کیا تھا اسے تو یہ حضرات مان لیتے ہیں ، لیکن سازشی حلالہ کے سلسلے میں ان کا قول جو اوپر گذرا ہے اسے نظر انداز کردیتے ہیں ۔ اگر وہ اسلامی طریقہ سے طلاق دیں تو پھر کبھی بھی موجودہ مروج حلالہ کا حرام طریقہ اپنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

حوالہ جات:

نوٹ:  قرآنی آیات کا ترجمہ مولانا سید ابولاعلی مودودی کے ترجمۂ قرآن سے لیا گیا ہے۔

[1] النیسابوري، أبو الحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیري : صحیح مسلم، مشمول في الکتب الستۃ، بإشراف ومراجعۃ:صالح بن عبد العزیز بن محمد بن إبراھیم آل الشیخ، (الریاض، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، دار السلام للنشر والتوزیع، الطبعۃ الثالثۃ 1421هـــ/2000م)، 50- کتاب صفات المنافقین وأحکامهم ،16-باب تحریش الشیطان، بعثه سرایاہ لفتنة الناس وأن مع کل إنسان قرینا، حدیث :2813، ص1168.

[2] الترمذي، أبوعیسی محمد بن عیسی بن سورۃ بن موسی: جامع الترمذي، مشمول في الکتب الستۃ، بإشراف ومراجعۃ:صالح بن عبد العزیز بن محمد بن إبراھیم آل الشیخ، (الریاض، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، دار السلام للنشر والتوزیع، الطبعۃ الثالثۃ 1421هـــ/2000م)، 11-أبواب الطلاق واللعان عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،11۔باب ما جاء في المختلعات، حدیث: 1187، ص 1769.

[3] ابن ماجة القزویني، أبو عبد اللہ محمد بن یزید الربعي: سنن ابن ماجۃ، مشمول في الکتب الستۃ، بإشراف ومراجعة: صالح بن عبد العزیز بن محمد بن إبراھیم آل الشیخ،(الریاض، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، دار السلام للنشر والتوزیع، الطبعۃ الثالثۃ 1421هـــ/2000م)،9-أبواب النکاح، 33- باب المُحَلِّل و المُحَلَّل لہ حدیث :1936، ص 2592-2593.

[4]جیسےالترمذي(119-120)،وابن أبي شیبہ (4/295-296)،والدارمي (2263)،أحمد (1/83، 87-88، 93، 107، 121، 133، 150،  158،  409،  430، 450-451، 2/323) النسائي (5102) عبد الرزاق (10793) أبوداؤد (2076) ، ابن ماجہ (1134) البزار (1442 کشف الأستار) ،وتمام في الفوائد (815) الحاکم، 2/198، البیھقي، 7/208، دیکھئے: ابن تیمیة، شیخ الإسلام : بیان الدلیل علی بطلان التحلیل، حققہ و خرج أحادیثہ : حمدي عبد المجید السلفي (المکتب الإسلامي)،ص 285-289.

[5] ابن تیمیة، شیخ الإسلام : بیان الدلیل علی بطلان التحلیل،op.cit.، ص18-34.

[6] أخرجہ عبد الرزاق في مصنفہ (6/265) حدیث 10777، وسعید بن منصور في سننہ (2/75): کتاب السنن: باب ما جاء في المُحَلِّل و المُحَلَّل لہ، حدیث (1992-1993) ٰو ذکرہ السیوطي في الدر المنثور (1/507) وعزاہ لابن أبي شیبہ، و عبد الرزاق و أبوبکر بن الأثرم في سننہ و البیھقي. قال الحافظ ابن حجر : أخرجہ عبد الرزاق وابن أبی شیبۃ من روایۃ المسیب بن رافع قبیصۃ بن جابر عن عمر فذکرہ. بحوالہ: الزمخشري، أبو القاسم محمود بن عمر: الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل في وجوہ التأویل، تحقیق و تعلیق و دراسۃ: عادل احمد عبد الموجود و علي محمد معوّض، وشارك في تحقیقۃ : فتحي عبد الرحمن أحمد حجازي، (مکتبۃ العبیكان، الریاض،ط.الأولی 1418هـــ/1998م)، 1/449-451، البقرۃ :230.

https://islamqa.info/ar/222367 (accessed on 31.10.2016)

[7] op.cit..، ص 17-18۔

[8] تفہیم القرآن ، (مرکزی مکتبہ اسلامی  پبلیشرز نئی دہلی ، اشاعت :2015ء) ، 1؍176-177، بقرہ:230.

[9] الزمخشري، أبو القاسم محمود بن عمر: الکشاف op.cit. 1،/449، البقرۃ :۲۳۰،

عثمانی،محمدتقی:درس ترمذی، ترتیب وتحقیق:رشید اشرف سیفی، (مکتبہ دار العلوم کراچی،طبع جدید ،1431هـــــــ/2010ء) باب ما جاء في المحلل و المحلل لہ،3/398-402.

 

مصادر و مراجع

1.       القرآن الكريم.

2.       ابن تیمیة، شیخ الإسلام : بیان الدلیل علی بطلان التحلیل، حققہ و خرج أحادیثہ : حمدي عبد المجید السلفي (المکتب الإسلامي).

3.       ابن ماجة القزویني، أبو عبد اللہ محمد بن یزید الربعي: سنن ابن ماجۃ، مشمول في الکتب الستۃ، بإشراف ومراجعة: صالح بن عبد العزیز بن محمد بن إبراھیم آل الشیخ،(الریاض، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، دار السلام للنشر والتوزیع، الطبعۃ الثالثۃ 1421هـــ/2000م).

4.       الترمذي، أبوعیسی محمد بن عیسی بن سورۃ بن موسی: جامع الترمذي، مشمول في الکتب الستة، بإشراف ومراجعۃ:صالح بن عبد العزیز بن محمد بن إبراھیم آل الشیخ، (الریاض، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، دار السلام للنشر والتوزیع، الطبعۃ الثالثۃ 1421هـــ/2000م).

5.       الزمخشري، أبو القاسم محمود بن عمر: الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل وعیون الأقاویل في وجوہ التأویل، تحقیق و تعلیق و دراسۃ: عادل احمد عبد الموجود و علي محمد معوّض، وشارك في تحقیقۃ: فتحي عبد الرحمن أحمد حجازي، (مکتبۃ العبیكان، الریاض،ط.الأولی 1418هـــ/1998م).

6.       عثمانی،محمدتقی:درس ترمذی، ترتیب وتحقیق:رشید اشرف سیفی، (مکتبہ دار العلوم کراچی،طبع جدید ،1431هـــــــ /2010ء).

7.       مودودی، سید ابولاعلی: تفہیم القرآن ، (مرکزی مکتبہ اسلامی  پبلیشرز نئی دہلی ، اشاعت :2015ء).

8.       النیسابوري، أبو الحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیري : صحیح مسلم، مشمول في الکتب الستۃ، بإشراف ومراجعۃ:صالح بن عبد العزیز بن محمد بن إبراھیم آل الشیخ، (الریاض، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، دار السلام للنشر والتوزیع، الطبعۃ الثالثۃ 1421هـــ/2000م).

9.       https://islamqa.info/ar/222367

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...