Saturday, 9 May 2020

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ
(تالیف عمران شہزاد تارڑ)
1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب میں یہ سال مکہ میں خانہ کعبہ پر کیے جانے والے حملے اور دو ہفتوں پر محیط محاصرے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے. حملہ آوروں کی قیادت کرنے والے کا نام
جہیمان عتیبی (جہیمان بن محمد بن سيف العتيبي)تھا ۔ جس نے اپنے چار سے پانچ سو ساتھیوں کے ساتھ بیت اللہ کا محاصرہ کر کے سینکڑوں افراد کو ہلاک اور  پچاس ہزار کے قریب لوگوں کو مسجد الحرام میں محصور کر دیا۔

نمازِ فجر کے وقت امامِ کعبہ شیخ محمد السبیل امامت کروانے کی تیاری کر رہے تھے۔
 ان کے پیچھے دائروی صفوں میں نصف لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔ امام نے معمول کے مطابق نماز ادا کروائی، اس کے بعد انہوں نے مصلے پر اپنا رخ موڑ کر مائیکروفون میں دعا شروع کی۔ اس دوران انہوں نے دیکھا کہ مسجد کی پ…

Saturday, 11 April 2020

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ


خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

(تالیف عمران شہزاد تارڑ)

1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب میں یہ سال مکہ میں خانہ کعبہ پر کیے جانے والے حملے اور دو ہفتوں پر محیط محاصرے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے. حملہ آوروں کی قیادت کرنے والے کا نام 
جہیمان عتیبی (جہیمان بن محمد بن سيف العتيبي)تھا ۔ جس نے اپنے چار سے پانچ سو ساتھیوں کے ساتھ بیت اللہ کا محاصرہ کر کے سینکڑوں افراد کو ہلاک اور  پچاس ہزار کے قریب لوگوں کو مسجد الحرام میں محصور کر دیا۔

نمازِ فجر کے وقت امامِ کعبہ شیخ محمد السبیل امامت کروانے کی تیاری کر رہے تھے۔
 ان کے پیچھے دائروی صفوں میں نصف لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔ امام نے معمول کے مطابق نماز ادا کروائی، اس کے بعد انہوں نے مصلے پر اپنا رخ موڑ کر مائیکروفون میں دعا شروع کی۔ اس دوران انہوں نے دیکھا کہ مسجد کی پچھلی صفوں سے کچھ لوگ کندھوں پر تابوت اٹھائے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ابھی لاکھوں حاجی مکہ میں موجود تھے۔ ان میں سے جو بھی فوت ہو جاتا اس کے لواحقین کی کوشش ہوتی تھی کہ نمازِ جنازہ مسجد الحرام میں امامِ کعبہ کی امامت ہی میں ادا ہو۔ شیخ السبیل نے دعا جاری رکھی لیکن  یہ لوگ انہی کی طرف بڑھتے گئے، حتیٰ کہ بالکل قریب پہنچ گئے۔ایک آدمی نے  امام کعبہ کو ایک طرف دھکیل کر ان سے مائیک چھین لیا اور مائیک اپنے منہ کے قریب لا کر بدوی عربی میں پوری طاقت سے چیخا، ’برادرانِ اسلام، اللہ اکبر، مہدی کا ظہور ہو گیا ہے۔ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﯾﮟ۔ کچھ حوالہ جات میں جہيمان نے ﺍﭘﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮭﯽ بعض حوالہ میں اپنے بہنوئی محمد بن عبداللہ القحطانی کو امام مہدی قرار دیا۔
اس دوران اس کے ساتھیوں نے اپنے تابوتوں میں چھپی کلاشنکوفیں نکال کر لہرانی اور جوابی نعرے لگانے شروع کر دیے۔ نمازی پھٹی آنکھوں اور کھلے منہ سے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ اسی دوران مسجد الحرام کے در و دیوار فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھے۔
اس وقت تک ریاض میں ہنگامی صورتِ حال کا آغاز ہو چکا تھا۔ شاہ خالد نے فوری طور پر مشیروں کو طلب کیا اور اس عجیب و غریب صورتِ حال سے نمٹنے کے طریقوں پر غور شروع ہو گیا۔ اسی اجلاس میں ہونے والے ایک فیصلے کے تحت سعودی عرب کی سرحدیں بند کر دی گئیں اور تمام ملک عملاً باقی دنیا سے کٹ کر رہ گیا۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اسلامی عقائد کی رو سے خانۂ کعبہ کی حدود میں کسی قسم کے تشدد کی شدید ممانعت ہے۔ حتیٰ کہ وہاں کسی جانور کو بھی نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔اس لیے نمازی بھی دہشت کے عالم میں اپنی اپنی جگہوں پر جمے باغیوں کی کارروائی دیکھتے رہے۔
مسجد میں عربوں کے علاوہ دسیوں ہزار غیر ملکی بھی موجود تھے، جن کی اکثریت کو عربی نہیں آتی تھی۔ انہوں نے سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔
اسی دوران باغیوں نے چند دوسری زبانیں بولنے والے مترجم اکٹھے کر لیے تھے اور ان کی مدد سے انہوں نے نمازیوں کو اپنا پیغام سنانا شروع کر دیا۔
مکہ کے باسیوں کو پہلے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ خانۂ کعبہ میں ہوا کیا ہے۔
حکمرانوں کو خدشہ تھا کہ اگر وہاں قتل و غارت ہوئی تو کہیں انہیں عوام اور مذہبی طبقے کے غیظ و غضب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔سپاہیوں کے ذہنوں میں غبار تھا۔ اگر وہ کعبہ پر قبضہ کرنے والوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے تو اس کے بدلے انہیں جنت ملے گی، یا کعبے کا تقدس پامال کرنے کے عوض جہنم؟
لیکن فوجیوں نے گرین سگنل ملنے کے بعد مختلف حکمتِ عملیوں پر کام شروع کر دیا۔ تین اطراف سے حملہ کیا لیکن جنگجوؤں کی عمدہ پوزیشن اور ڈسپلن کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھا کر پسپا ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
اسی دوران کسی کو بن لادن گروپ کا خیال آیا۔ وہ چونکہ مسجد کی توسیع کا کام کر رہے تھے، اس لیے ان کے پاس تفصیلی نقشے موجود تھے۔
اب معاملے کی سنگینی کھل کر سامنے آئی۔ مسجد الحرام کے اندر طویل راہداریوں، دالانوں، صحنوں، تہہ خانوں اور سرنگوں کا جال بچھا ہوا تھا، اس لیے براہِ راست کارروائی سے ہزاروں لوگوں کے نقصان کا اندیشہ تھا اور کامیابی پھر بھی مشکل دکھائی دیتی تھی۔
ادھر جہیمان اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے مسجد کے لاؤڈ سپیکروں سے تقریروں کا سلسلہ جاری تھا۔ اب انہوں نے اپنے مطالبات پیش کرنا شروع کر دیے تھے، جن کا لبِ لباب یہ تھا کہ مغربی ملکوں سے رابطے توڑ دیے جائیں، حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے، امریکہ کو تیل کی فراہمی روک دی جائے، اور تمام غیر ملکیوں کو ملک سے نکال دیا جائے اور ہمارے مقرر کردہ ساتھی کو امام مہدی مان لیا جائے وغیرہ وغیرہ 
ادھر فوجی دماغ سر جوڑے بیٹھے تھے کہ باغیوں سے خانہ کعبہ کو کس طرح آزاد کروایا جائے۔ کسی نے منصوبہ پیش کیا کہ سرنگوں میں پانی چھوڑ دیا جائے اور پھر اس پانی میں بجلی چھوڑ دی جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے پر عمل ہوا تھا اور اسی طریقے سے باغیوں پر قابو پایا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ منصوبہ رد ہو گیا تھا کیوں کہ ایک تو مکہ میں اتنا پانی ہی نہیں تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد کو بھر سکے، دوسرے اس میں یرغمالوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا اندیشہ تھا۔ 
بھر پور غورو فکر کے بعد جب سعودی حکام عاجز آ گئے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ بیرونی مدد حاصل کی جائے۔ اس وقت امریکی سی آئی اے کے کمانڈو سعودی سپاہیوں کو تربیت دے رہے تھے،
 امریکہ سے مدد لینے کی تجویز زیر بحث آئی
لیکن صورتِ حال کی نزاکت کے پیشِ نظر فیصلہ کیا گیا کہ اس موقعے پر امریکہ کے ملوث ہونے کے سیاسی اثرات پڑیں گے، اس لیے نگاہِ انتخاب نسبتاً نیوٹرل ملک فرانس پر پڑی۔
اس وقت فرانسیسی سیکرٹ سروس کے سربراہ کاؤنٹ کلاود الیکساندر  تھے۔ فرانسیسی حکومت کے ذریعے ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تجویز پیش کی کہ کعبہ کے اندر گیس چھوڑ دی جائے جس سے باغی بےہوش ہو جائیں گے۔
اس مقصد کی خاطر فرانسیسی خفیہ ادارے جی آئی جی این کے تین کمانڈوز کو ہنگامی بنیادوں پر سعودی عرب روانہ کیا گیا۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ درپیش تھا کہ سعودی قانون کی رو سے حِجَاز کی حدود میں کوئی غیر مسلم داخل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ پہلے ان تینوں کو عارضی طور پر کلمہ پڑھایا اور پھر مکہ پہنچا دیا گیا۔صحافی یاروسلاف ٹرافی موو نے اس واقعے پر مبنی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ فرانسیسی کمانڈوز نے سعودی فوج کو ہنگامی تربیت دی تاکہ وہ شدت پسندوں کا خاتمہ کر سکیں۔
انہوں نے اپنا کام فوراً شروع کر دیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مسجد اتنی بڑی تھی اور اس کے بہت سے حصے کھلے تھے اس لیے گیس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ لیکن اسی دوران سعودی حُکّام نے دوسرا آپریشن بھی شروع کر رکھا تھا کہ مسجد میں کس طرح داخل ہوا جائے جس میں سپاہی مسجد کی دیواروں 
 میں سوراخ کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے اس طرح ایک بہترین حکمت عملی سے باغیوں پر حملہ کیا گیا اور ساتھ ساتھ ان سوراخوں سے اندر گرینیڈ پھینکنا شروع کر دیے، جس سے بہت سے یرغمالی بھی ہلاک ہو گئے اور کچھ کو گرفتار کر لیا گیا جن میں جہیمان بھی شامل تھا اور ویسے بھی باغی ہمت ہار چکے کیونکہ اس وقت محاصرے کو 14 دن گزر چکے تھے۔
 4 دسمبر 1979 کو جہيمان سمیت 60 سے زیادہ شدت پسندوں کو حراست میں لے لیا گیا اور اس بغاوت کو ختم کرنے 
اس واقعے میں کتنی ہلاکتیں ہوئیں، یہ تعداد متنازع ہے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس کے 127 اہلکار مارے گئے ہیں، ایک درجن کے قریب نمازی، تاہم غیر سرکاری تعداد چار ہزار کے قریب بتائی گئی۔
جہيمان اور اس کے ساتھیوں کو جنوری 1980 میں سزائے موت سنا دی گئی۔ جہيمان نے جسے امام مہدی(القحطانی) قرار دیا گیا تھا، وہ دوران آپریشن ہی ہلاک ہو گیا تھا۔اس طرح مسجد الحرام کو باغیوں سے آزاد کروایا گیا۔
اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے ملک کے علما سے مشاورت کے بعد شریعہ قوانین کے اطلاق کا وعدہ کیا جس کے بعد سے ملک سے مخلوط نظام پر مکمل پابندی لگا دی گئی اور ملک میں سابق بادشاہ شاہ فیصل اور اس وقت کے بادشاہ شاہ خالد کی اعتدال پسند پالیسیوں کو ختم کر دیا گیا۔
اور ﺳﻌﻮﺩﯼ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻧﮯ ﺳﺨﺖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﻧﺎﻓﺬ ﮐﺌﮯ۔ 

اب ذرا بات کر لیتے ہیں پاکستان کی۔
خانہ کعبہ کے محاصرے کی پاکستان میں جب یہ خبر پہنچی تو لوگوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ پہلے پہلے تو کسی کو یقین ہی نہیں آیا کہ خانۂ خدا پر بھی کوئی قابض ہو سکتا ہے، پھر جب خبریں تسلسل سے آنے لگیں تو بےیقینی کی جگہ غم اور پھر غم کی جگہ غصے نے لے لی۔ 
شروع شروع میں تو یہ افواہیں بھی آئیں کہ شاید اس حملے میں ایران کا ہاتھ ہے۔ اس واقعے سے چند ماہ قبل ایران میں شاہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور آیت اللہ خمینی ملک کے سپریم لیڈر بن گئے تھے۔
لیکن آیت اللہ خمینی نے خانۂ کعبہ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے  اس کا الزام امریکہ اور صیہونی طاقتوں پر دھرنے میں دیر نہیں لگائی۔ اس سے مسلم دنیا کے بڑے حصے میں الزام کا پرنالہ امریکہ کی طرف مڑ گیا۔ پاکستان میں 21 نومبر کے اخباروں میں جو خبریں چھپیں ان میں بڑی حد تک اس واقعے کو امریکی سازش قرار دیا گیا۔
ملک بھر میں اس واقعے کے خلاف ہڑتال کی گئی اور جلوس نکالے گئے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے پر سینکڑوں مشتعل مظآہرین نے دھاوا بول دیا اور عمارت کے بڑے حصے کو آگ لگا دی۔لیکن بر وقت فوج نے محاصرہ چھڑوایا لیا۔
بعد میں دیگر مسلم ملکوں  میں بھی اسی قسم کی مظاہروں اور تشدد کی خبریں آئیں۔
 تو چند دنوں کے اندر اندر اس قسم کی اطلاعات گردش میں آ گئیں کہ پاکستانی کمانڈوز نے آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ جب جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو یہ بھی کہا جانے لگا کہ ان کمانڈوز میں وہ بھی شامل تھے۔ 2016 میں ایک نجی چینل کے اینکر جاوید چوھدری کے پروگرام میں پاکستانی سیاست دان احمد رضا قصوری نے بھی اسی قسم کا دعویٰ کیا کہ ’میجر پرویز مشرف نے کعبہ سے دہشت گردوں کو فلش آؤٹ کیا۔‘ لیکن اس دعوے کی تردید میں دیر نہیں لگی۔ چند منٹوں کے اندر اندر اسی پروگرام کے دوران  بریگیڈیئر جاوید حسین نے فون کر کے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور پاکستانی کمانڈوز اس کارروائی میں شامل نہیں تھے۔  
اور ویسے بھی اگر پرویز مشرف نے اس کارروائی میں حصہ لیا ہوتا تو وہ اس کا ذکر اپنی آپ بیتی ’ان دا لائن آف فائر‘ میں ضرور کرتے۔ اس کتاب میں انہوں نے 1979 کے متفرق واقعات تو لکھے ہیں لیکن  مکہ میں ہونے والے کسی آپریشن کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ لکھتے ہیں کہ 1978 میں وہ لیفٹیننٹ کرنل بن گئے تھے (’میجر‘ مشرف والی تھیوری تو یہیں غلط ثابت ہو گئی)۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ 1979 میں ان کی پوسٹنگ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں بطور انسٹرکٹر ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورتِ حال میں ان کی بطور ’میجر کمانڈو‘ مکہ میں تعیناتی خارج از بحث ہو جاتی ہے۔
اس آرٹیکل کو ویڈیو میں دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں

BEST FUTUR E TRAVEL & TOURS
WhatsApp/Call 03462115913/03005131329 
Land line:0514854234
 www.bestfuturetravel.com
www.facebook.com/bestfuturetravel
Blog:www.bestfutureconsultants.blogspot.com/
bestfuturetravel@gmail.com
 Office # 7, 2nd Floor United Centre Shamsabad, Murree Road, Rawalpindi
⛤your trust is our priority⛤

Wednesday, 8 April 2020

تاریخ میں حج کب کب معطل ہوا؟

تاریخ میں حج کب کب معطل ہوا؟


  (تالیف:عمران شہزاد تارڑ)

..‏وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ ..( سورہ آل عمران:97)
 اور لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا اللہ کا حق ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو 
کرونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس سے اہم اسلامی ملک سعودی عرب بھی متاثر ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے ہی سعودی عرب نے عمرہ ادا کرنے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے، اب سعودی عرب کے شہروں مکہ اور مدینہ منورہ میں چوبیس گھنٹے کے کرفیو کا اعلان کر دیا گیا ہے اور یہ غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔حج کے متعلق بھی سعودی عرب کے حج و عمرہ کے وزیر کا کہنا ہے کہ ابھی حج کے خواہشمند اپنی تیاریاں روک دیں اور ٹکٹس کی بکنگ بھی نہ کروائیں۔
حج کے حوالے سے ابھی تک غیر یقینی سی کیفیت ہے اور کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ حج ہو سکے گا یا نہیں۔ ایسے میں خلیج کے معروف جریدے مڈل ایسٹ آئی نے حج کے تاریخی حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر خدانخواستہ 2020ء میں حج بیت اللہ نہ ہوا تو یہ اسلامی تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں ہو گا بلکہ ماضی میں ایسا درجنوں بار ہو چکا ہے،

ہم ذیل میں چند ایک مواقع کا مختصراً ذکر کر رہے ہیں- 
مڈل ایسٹ آئی اور شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن برائے تحقیق و آرچیوز کی رپورٹ کے مطابق 865ء میں عباسی خلافت کے مخالف اسماعیل بن یوسف السفاک نے مکہ مکرمہ کے تقدس کو نظر انداز کرتے ہوئے عرفات کی پہاڑیوں پر موجود حاجیوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں کئی حاجی شہید ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے حج ملتوی کرنا پڑا تھا۔
 930ء میں بحرین پر قابض قرامطی (اسماعیلی) فرقے کے سردار ابو طاہر الجنبی نے مکّہ مکرمہ پر بڑے لشکر کے ساتھ حملہ کیا،اس فوجی حملے میں 30 ہزار معصوم حاجیوں کو شہید کیا گیا اور سینکڑوں حاجیوں کی نعشوں کو زمزم کے پاک کنوئیں میں پھینک کر اس کے تقدس کو پامال کیا گیا۔اس موقع پر ان لوگوں نے مسجد الحرام میں بھی لُوٹ مار کی اور واپس جاتے ہوئے خانہ کعبہ سے حجر اسود بھی اپنے ساتھ بحرین لے گئے۔ اس واقع کے کئی سال بعد تک حج کی ادائیگی نہ ہو سکی، لیکن جب بحرین سے حجر اسود واپس لا کر خانہ کعبہ میں نصب کیا گیا تو اس کے بعد اگلے سالوں میں دوبارہ حج کے مناسک کی ادائیگی کا آغاز ہو گیا۔
حج کی ادائیگی میں ایک خلل 968 عیسوی میں ہوا۔ اس رپورٹ میں ابن کثیر کی کتاب ’البدایہ والنھایہ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ مکہ میں ایک بیماری پھیل گئی جس نے بہت سے حجاج کرام کی جان لے لی تھی۔رپورٹ کے مطابق 983ء اور اس کے بعد کے کئی سال بھی ایسے تھے جب حج نہ ہو سکا، اس کی وجہ ایران و عراق اور دیگر اسلامی علاقوں پر قائم عباسی خلافت اور شام کی فاطمی خلافت کی آپس کی جنگیں تھیں، ان جنگوں کے دوران حاجیوں کو مکہ مکرمہ جانے سے روک لیا جاتا تھا۔مسلمانوں کی ان آپس کی جنگوں کی وجہ سے 983ء سے 990ء تک مسلسل آٹھ سالوں میں حج کی ادائیگی نہ ہو سکی۔ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے سربراہ ڈاکٹر عماد طاہر کے مطابق اس کی وجہ سیاسی بدامنی اور فرقہ وارانہ کشیدگی تھی۔
 991ء میں حج کے مناسک ادا کئے گئے۔جبکہ 1099 میں بھی جنگوں کے نتیجے میں پوری مسلم دنیا میں خوف اور عدم تحفظ کی وجہ سے حج کی ادائیگی نہ کی جا سکی۔ یعنی صلیبی جنگجوؤں کے یروشلم پر قبضے سے پانچ برس قبل، خطۂ عرب میں مسلمان رہنماؤں میں اتحاد کے فقدان کے باعث مسلمان حج ادا کرنے مکہ نہ آ سکے۔
اس کے بعد 1831ء میں برصغیر پاک و ہند میں طاعون کی وبا پھیلی،جب اس خطے کے افراد حج کی ادائیگی کے لئے مکہ پہنچے تو ان متاثرہ افراد سے دیگر ہزاروں افراد میں بھی یہ وباء پھیل گئی۔تاریخی حوالوں کے مطابق طاعون کے باعث حج کے آغاز میں ہی مکہ میں موجود تین چوتھائی حاجی جاں بحق ہو گئے۔ ان سنگین حالات کی وجہ سے مناسک حج منسوخ کر دیے گئے۔چھ سال بعد دوبارہ وباؤں نے سعودی عرب کا رخ کیا، مڈل ایسٹ آئی اور شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن برائے تحقیق و آرچیوز کی رپورٹ کے مطابق 1837ء سے 1858ء کے دو عشروں کے درمیان وقتاً فوقتاً وبائیں جنم لیتی رہیں، اس وجہ سے اس دوران سات بار حج کے مناسک ادا نہ ہو سکے۔ پہلے 1837ء میں مکہ میں طاعون کی وبا پھُوٹی جس کے باعث 1840ء تک حج ادا نہ ہو سکا۔ 1846ء دوسری روایت  میں 1858ء میں مکہ کے رہائشیوں کو ہیضہ کی وبا نے آن گھیرا،اس وباء سے دس سے پندرہ ہزار افراد جاں بحق ہو گئے، جس کی وجہ سے 1849ء تک حج کی ادائیگی روک دی گئی۔اس کے بعد 1850ء میں حج کے مناسک ادا کئے گئے۔
رپورٹ کے مطابق 1865ء اور 1883ء میں بھی وباء کی وجہ سے لوگ حج ادا نہ کر سکے۔
اس کے علاوہ کئی مواقع پر مختلف ملکوں پر حج نہ کرنے کی پانبدیاں لگتی رہی ہیں۔
ان واقعات پر غور کرنے کے بعد آپ بتائیں کہ ہم میں کس قدر غلط خبریں عقیدے کا درجہ حاصل کرچکی ہیں یہ کہنا کہ مکہ مدینہ پر کوئی وباء نہیں آ سکتی یا یہ عقیدہ رکھنا کہ طواف کا رک جانا قیامت کی نشانی ہے یہ سب اغلاط العوام ہیں اس بنیاد پر سعودی حکومت کے اقدام پر تنقید کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
اہل علم کا کہنہ ہے کہ اگر کورونا کا مرض دنیا میں یونہی بڑھتا رہا تو 2020ء  بھی حج کی ادائیگی روکنے کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہوگا۔
لہذا اگر صحت کے ذمہ دار حکام کو معلوم ہو کہ کوئی متعدی بیماری موت کا سبب بن سکتی ہے تو لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ مہیا کرنا قرآن و سنت اور موجودہ وقت کی ضرورت کے مطابق ہے-
)نوٹ: تحریر میں درج کردہ تاریخوں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔)
(حوالہ جات : الاخباریہ،مڈل ایسٹ آئی , شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن برائے تحقیق و آرچیوز اور دیگر پاکستانی, مصری اور سعودی نیوز پیپر)
اس آرٹیکل کی ویڈیو  دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں


BEST FUTURE STUDY CONSULTANT
WhatsApp/Call 03462115913/03005131329 
Land line:0514854234
 www.bestfuturetravel.com
www.facebook.com/bestfuturetravel
Blog:www.bestfutureconsultants.blogspot.com/
bestfuturetravel@gmail.com
 Office # 7, 2nd Floor United Centre Shamsabad, Murree Road, Rawalpindi
⛤your trust is our priority⛤

Sunday, 13 May 2018

*سوشل ویلفیئر*

*سوشل ویلفیئر* 

(تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈائریکٹر  فاطمہ اسلامک سنٹر )

رفاہ عامہ اور معاشرتی فلاح وبہبود کا مطلب، اجتماعی مسائل اور کوششوں کو اس طرح بروئے کار لانا ہے کہ سب کی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں۔
آج جب کہ پوری دُنیا، غربت و افلاس، جہالت و جاہلیت اور بدامنی و عدم سکون کا شکار ہے، مادیت کا غلبہ ہے جب کہ روحانیت مفقود ہے، ایسے حالات میں سماجی خدمت اور فاہِ عامہ کی بدولت انسانیت کی فلاح کے لئے کوشش کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ 
’’نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو .......۔(سورۃ مائدہ :آیت۲) 
اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں سے اس امر کا تقاضا کر تا ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت ضروری ہے۔ قرآن مجید نے ایسے نمازیوں کے لئے ہلاکت کی وعید سنائی ہے جو نماز کو رکوع وسجدہ تک محدود رکھتے ہیں اور انسانیت کو حاجات و دکھوں سے نجات دلانے میں تعاون نہیں کرتے۔ارشاد ہوتا ہے: ایسے نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں اور جوریا کاری کرتے ہیں اور اشیاء ضرورت کو روکتے ہیں‘‘۔(سورۃ ماعون: آیت ۷۔۴)
اسی طرح سورۃ البقر ہ کی آیت نمبر ۱۷۷، اسلامی عقائد ، عبادات، معاشرتی فلاح وبہبود اور رفاہِ عامہ کا عالمگیر چار ٹر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : 
’’نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق و مغرب کی طرف اپنا منہ کر لو بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اللہ پر، یوم آخرت پر، فرشتوں پر، کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، اور اس کی محبت پر اپنا مال عزیزوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیں اور گردنیں چھڑانے پر خرچ کریں‘‘۔(سورۃ البقرہ: آیت ۱۷۷) 
انسانی فلاح و بہبود کے اس چارٹر کے مطابق اصلی نیکی اور بھلائی یہ ہے کہ انسان ایمانیات کے نتیجے میں اپنے مال و دولت کے ساتھ محبت اورر غبت کے باوجودا سے معاشرتی بہبود اور رفاہی کاموں پر خرچ کرے۔ اسلام کے معاشرتی بہبود ورفاہِ عامہ کے نظام اور اسلام کی روحانی اور اخلاقی اقدار میں گہرا تعلق ہے۔ اسلام کی یہ اقدار انسان کو ایثار، قربانی اور بے لوث خدمت خلق پر آمادہ کرتی ہیں۔ نتیجتاً وہ اپنے ضرورت مند بھائیوں کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے پر روحانی خوشی محسوس کرتا ہے۔ اور اس کی واضح مثالیں عہد نبوی، عہد خلفاء راشدین اور اموی اور عباسی دور میں بکثرت موجود ہیں۔ 
معاشرتی فلاح و بہبود کے بنیادی اصول سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۷۷ میں بیان ہوئے ہیں۔ انہی اصولوں کو عہد رسالت ﷺ خلافت راشدہ ، عہد اموی و عباسی میں قانونی حیثیت دے کرحکومت اسلامیہ کی باضابطہ حکمتِ عملی قرار دیا گیا۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے کہ: 
’’صدقات (زکوٰۃ) تو فقر اء، مساکین ، کارکنانِ صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیفِ قلب منظور ہو، اور غلاموں کو آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے (قرض ادا کرنے میں) اور اللہ کی راہ میں مسافروں کی مدد میں (یہ مال خرچ کرنا چاہئے)‘‘۔(سورۃ توبہ: ۴۰) 
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر 
www.dawatetohid.blogspot.com
03462115913

ایمانداری

ایمانداری

(مصنف نا معلوم،انتخاب عمران شہزاد تارڑ )

اس دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے بہت سے اصول ہیں۔ان میں سے ایک ایمانداری ھے۔

ایک ایماندار شخص کو ہمیشہ کامیاب شخص سمجہا جاتا ھے۔ کیونکہ یہ اصول اسکی رہنمائ صحیح اور درست رستے کی طرف کرتا ھے۔ اور اسے دنیا کے غم و آلام سے محفوظ رکھتا ھے۔ اور اسی طرح اسے اخروی زندگی میں بھی سکھھ اور آرام پہنچاتا ھے۔

میں سمجھتا ھوں کہ ایمانداری کو اختیار کرکے انسان ایک محفوظ راستے کا انتخاب کرتا ھے۔ کیونکہ اگر ہم روزمرہ زندگی کی طرف دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ھے کہ ایمانداری کا ہمیشہ اچھا صلہ ملتا ھے۔ ایک ایماندار شخص کی ہمیشہ قدر کی جاتی ھے۔ اور اسے قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ھے۔ ارد گرد کے لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ اور ہمیشہ اسکے ساتھھ رابطے میں رہتے ہیں۔ کیونکہ ایک ایماندار شخص مینارہ نور کی طرح ھوتا ھے جو زندگی کے اندھیرے اور تنہائ میں رہنمائ کرتا ھے۔ لوگ اپنی مشکلات اور پریشانیاں اسکے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا شخص ہی انکی مشکلات حل کر سکتا ھے۔ اور وہ اس پوزیشن میں ھوتا ھےکہ انکی مشکلات اور پریشانیوں کا صحیح اور درست حل تجویز کر سکے۔

میں سمجھتا ھوں کہ ایمانداری نہ صرف اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے بہترین پالیسی ھے بلکہ آخرت کے لیے بھی ھے۔

ایک ایماندار آدمی کو آخرت میں عزت و احترام سے رکھا جائے گا۔ اللہ تعالٰی ایسے شخص کو جنت الفردوس میں داخل کرے گا۔ اور روز قیامت اسے اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا۔ اس خاص دن کسی بھی چیز، عمارت یا درخت کا سایہ نہ ھو گا۔ کیونکہ تمام عمارتیں اور پہاڑ ھوا میں اڑا دئے جائیں گے۔ اور زمین کو برابر کر دیا جائے گا۔ لوگ بہت عظیم تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ھوں گے۔ سورج عین سر پہ چمک رہا ھو گا۔ اس دن عرش کے سایہ کے سواء کوئی سایہ نہ ھو گا۔ ایماندار اور نیک آدم زاد اور آدم زادیاں، مرد جن اور جننیاں عرش کے سایہ تلے ھوں گے۔ وہ تمام کے تمام بے خوف اور بے غم ھوں گے۔ انکے علاوہ باقی تمام مخلوق روز قیامت بہت پریشان اور مفلوک الحال ھو گی۔ اللہ تعالٰی اس دن سب پر رحم فرمائے۔

اب ہم اس نقطے پہ بحث کرتے ہیں کہ اگر ایک شخص ایمانداری کو چھوڑ کے بے ایمانی اور بد دیانتی کو اختیار کرے تو کیا ھوگا۔

میں سمجھتا ھوں کہ دنیا کی بنیاد اللہ تعالٰی نے نیکی اور خیر پر رکھی ھے۔ کیونکہ بدی ہمیشہ دنیا سے مٹ جاتی ھے۔ یہ قانون قدرت ھے۔ اور اللہ تعالٰی کا اصول ھے۔  مختلف اقوام کے حالات ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نیکی اور خیر کو برقرار رکھتا ھے۔ اور بدی اور برآئی کو مٹا دیتا ھے۔ بے ایمان اور بد دیانت شخص کو ہمیشہ سزا ملتی ھے۔ ملکی قانون کے تحت یا قدرت کے اصول کے تحت۔ کیونکہ بنی نوع انسان کی اجتماعی دانش اس بات کا تقاضا کرتی ھے کہ انہیں برائی اور برے طور طریقوں کا خاتمہ کرنا چاہیئے تاکہ دنیا میں امن و آشتی کو فروغ حاصل ھو۔ اور امن پسند لوگ اطمینان سے زندگی گزار سکیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ معاشرے کے لیئے ٹھیک نہیں وہ بغیر کسی خوف کے کام کر رہے ہیں۔ انہیں کوئی نہیں پوچھتا کہ تم برے کام اور برے طور طریقے چھوڑ دو اور امن و اخوت سے رھو۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ روز بروز طاقتور اور مظبوط بھی ھوتے چلے جاتے ہیں۔

دراصل یہ صورتحال کا اصل رخ نہیں ھے۔ ایسے لوگ درحقیقت خوف اور غم میں مبتلا ھوتے ھیں۔ ان کا ضمیر ہمیشہ انکے برے طور طریقوں اور برے اعمال کی وجہ سے انہیں ہر وقت ملامت کرتا رہتا ھے۔ وہ اپنے برے کاموں کی وجہ سے ہمیشہ بےچین اوربے کیف رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھہ ساتھہ انکا اندرونی خلفشار اور پریشانی بڑھتی رہتی ھے۔ ایک وقت ایسا آتا ھے کہ  ملکی قانون اور قانون قدرت ان پر لاگو ھوتا ھے۔ اور بالآخر وہ قادر مطلق کے سامنے جھک جا تے ہیں۔ اور برے کاموں اور طور طریقوں سے توبہ کر لیتے ہیں۔ یا باز نہ آنے پر سزا پاتے ہیں۔

زندگی ایک آیئنے کی طرح ھے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ اسے صاف ستھرا اور شفاف رکھیں۔ ایمانداری

 کا ئنات کا حسن ھے۔ ہمیں اس حسن میں مزید نکھار اور خوبصورتی پیدا کرنا چاہئیے۔ ہمیں زندگی کے سنہری اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے۔ جو ہمیں ایک کامیاب اور خوشحال زندگی گزارنا سکھاتے ہیں۔

دوسری طرف اگر ہم قوانین قدرت اور اقدار پر عمل نہ کریں تو اس سے ہماری زندگی مشکل اور تکلیف دہ ھو جائے گی۔

ایمانداری کو ہم بعض اوقات ایمان سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ھے کہ اگر آپ میں ایمان ھے تو آپ ایماںدار ھوں گے۔ کیونکہ یہ ہمارا ایمان ہی ھے جو ہمیں زندگی میں ایمانداری اور دیانتداری سے رہنا سکھاتا ھے۔ اگر آپ ایک ایماندار شخص ہیں تو یہ بات آپکے شعوراور لاشعور میں ھو گی کہ خدا مجھے دیکھہ رہا ھے۔ اور میں ہر وقت اسکی نگاھوں کے سامنے ھوں۔ یہ عقیدہ آپکو ایک ایماندار شخص بنادے گا۔ آپ ہر وقت اسی عقیدے کو سامنے رکھیں گے۔ اور یہی عقیدہ آپکو بدی کی طاقتوں سے محفوظ رکھے گا۔ یہ آپکو نافرمانی ، سرکشی اور بےایمانی سے محفوظ رکھے گا۔

اب ہم ایمانداری کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔

پہلے پم انفرادی زندگی کو لیتے ہیں۔ ایک ایماندار شخص ہمیشہ خوش و خرم رہتا ھے۔ اسکے والدین، بیوی، بچے اور بہن بھائی اس سے خوش رہتے ہیں۔ اور اسکا احترام کرتے ہیں۔ وہ اسکی خوبیوں اور اسکی ایماندار فطرت کی تحسین کرتے ہیں۔ ایک ایماندار شخص اپنے خاندان اور تمام دنیا کی فلاح و بہبود کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتا ھے۔

اپنی انفرادی زندگی میں وہ اپنے بیوی بچوں کو زیادہ سے زیادہ سہولت اور آسانی بہم پہنچاتا ھے۔ وہ اپنے بچوں کو بہتر اور معیاری تعلیمی اداروں میں پڑھاتا ھے۔ تاکہ وہ اچھے اور کارآمد شہری بن سکیں۔ اورملک و قوم کی بہتر انداز میں خدمت کر سکیں۔ اور اسکا بھی بڑھاپے میں سہارا بنیں۔

اور اگر اسکے خاندان کا کوئی فرد بیمار پڑ جائے تو وہ فوراً اچھے ڈاکٹر سے اسکا علاج کراتا ھے۔ اسکے علاوہ وہ اپنے بچوں کے لیے وقت نکالتا ھے۔ اور ہوم ورک میں انکی مدد کرتا ھے۔ اپنی بیوی اور بچوں کا بھی خیال رکھتا ھے۔

ان تمام اقدامات سے اسکی زندگی خوشی اور آرام سے گزرتی ھے۔

اجتماعی حوالے سے وہ مقامی، ملکی اور پھر بین الاقوامی سطح پرتمام بنی نوع کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرتا ھے۔ مثلا" خیراتی کاموں اور اداروں کے ساتھہ وابستہ ھونا اور انکی مثبت سرگرمیوں میں شامل ھونا۔ وقت پڑنے پر رضاکارانہ طور پر کام کرنا وغیرہ جیسے امور شامل ہیں۔

یہ تمام امور اور سرگرمیاں اسکی اجتماعی زندگی کو بھی خوبصورت اور ہر کشش بنا دیتی ہیں۔

ایمانداری وقت میں۔ اسکا مطلب یہ ھے کہ ہمیں وقت کی پابندی کرنا چاہیئے۔ اور باقاعدگی سے اپنے دفتر یا کام پر جانا چاہیئے۔ اور وقت پر گھر واپس آنا چاہیئے۔ اسی طرح ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے بلکہ وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہیئے۔ بے شک فی زمانہ وقت ایک دولت ھے۔

ایمانداری روپے پیسے میں۔ اسکا مطلب یہ ھے کہ ہمیں روپیہ حلال اور جائز ذرائع سے کمانا چاہیئے۔ اور حلال اور جائز جگہ اور مواقع پر ہی خرچ کرنا چاہیئے۔ اسکے ساتھہ ساتھہ ہمیں بچت بھی کرنا چاہیئے تاکہ آڑے اور مشکل وقت میں کام آئے۔

ایمانداری کام میں۔ اسکا مطلب یہ ھے کہ ہمیں اپنا کام وقت پر اور درست طریقے سے کرنا چاہیئے۔ اور اس طرح سے کام کرنا چاہیئےکہ آجر ہم سے خوش اور ہمارے کام سے مطمئن ھو۔

میں سمجھتا ھوں کہ ایمانداری زندگی کا ایک بہترین طریقہ اور روشن راستہ ھے۔ ہمیں اسی روشن راستے پر چلنا چاہیئے۔ تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ھوں۔ 
Islamic services
www.dawatethid.blogspot.com

we provide the best visa services for all countries
www.bestfuturepk.blogspot.com
WhatsApp:+923462115913

Friday, 11 May 2018

وہ 5قربانیاں جو اپنا کاروبار چلانے والے افراد کو ہر صورت دینا پڑتی ہیں

وہ 5قربانیاں جو اپنا کاروبار چلانے والے افراد کو ہر صورت دینا پڑتی ہیں

(انتخاب و ترمیم:عمران شہزاد تارڑ )

ہر کاروبار کرنے والا شخص بڑے بڑے خوابوں کے ساتھ کاروبار کا آغاز کرتا ہے ۔کاروبار میں کامیابی ہم سب کی خواہش بھی ہوتی ہے لیکن اسے کامیاب بنانے کے لئے کئی طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔آئیے آپ کو ان پانچ قربانیوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو کاروبار چلانے والے افراد کو ضرور دینی پڑتی ہیں۔

 مستحکم اگر آپ ایک مستحکم نوکری کررہے ہیں لیکن آپ کو کاروبار کا شوق ہے تو پھر آپ کو اپنی اچھی نوکری کی قربانی ضرور دینی ہوگی۔یاد رکھیں کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ نوکری چھوڑ کر بھی آپ کا کاروبار کامیاب بھی ہوگا کہ نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ آپ کو یہ مستحکم نوکری چھڑنی پڑے گی ورنہ آپ کاروبار پر اچھے طریقے سے توجہ نہیں دے پائیں گے۔اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اگر آپ لگن کے ساتھ اپنے کام پر توجہ دیں گے تو کامیابی ضرور آپ کے قدم چومے گی۔
ذاتی زندگی جب آپ اپنا کاروبار شروع کریں گے تو آپ کو ایک مشکل یہ بھی پیش آئے گی کہ آپ کے دفتر اورگھر کے اوقات کار ایک ہوجائیں گے یعنی آپ کو اپنے وقت کی بہت زیادہ قربانی دینی ہوگی۔یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کاروبار چلانا چاہیں اور ساتھ ہی آپ اسے پورا وقت نہ دیں۔اگر کوئی اہم ای میل یا ٹیلی فون کال آگئی ہے تو آپ کو اس کا فوراً جواب دینا ہوگا لہذا اس بات کو بھول جائیں کہ آپ اپنی ذاتی زندگی کو کاروبار سے الگ کرسکیں گے۔آمدن جب تک آپ نوکری کرتے رہے تو آپ کو علم تھا کہ ہر ماہ آپ کو ایک رقم مل ہی جانی ہے لیکن جب کاروبار کا آغاز ہوتا ہے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ کو ایک مخصوص رقم ملے گی۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں آپ کو کوئی پیسہ ہی نہ ملے لیکن کٹھن دنوں کے بعد زندگی آسان بھی ہوجائے گی۔نیند چاہے آپ جتنی مرضی کوشش کریں کہ آپ کو اپنی نیند نہیں چھوڑنی لیکن کاروبار کے لئے آپ کو یہ قربانی تو ضرور دینی ہوتی ہے۔ہو سکتا ہے کہ آپ کو کوئی پرپوزل ایسا بنانا پڑے جس پر کام کرنے کے لئے راتوں کی بھی ضرورت ہو لیکن اس کی وجہ سے آپ کے کاروبار کو چار چاند لگ جائیں گے تو آپ یقیناًراتیں جاگنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔یعنی نیند کی قربانی تو کامیاب کاروبار کرنے والے افراد کو دینی ہی پڑتی ہے۔لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ اپنے کاروبار میں اتنی مدہوش ہو جائیں کہ آپ نہ تو عبادت کے لئے وقت نکال سکیں اور نہ ہی اپنے بیوی بچوں کے لیے۔۔بلکہ ایک کامیاب انسان کی یہ پہلی علامت ہوتی ہے   کہ عبادت الہی کے ساتھ ساتھ وہ اپنی فیملی سمیت دیگر عزیز و اقارب کو بھی وقت دیتا ہے۔۔۔

آرام و سکون اگر کہا جائے کہ کاروبار کانٹوں کی سیج سے کم نہیں تو غلط نہ ہو گا۔کاروبار کرنے والے افراد کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جن لوگوں کو انہوں نے نوکری پر رکھا ہے ان کی تنخواہیں،بجلی کے بل، مہنگائی اور ہر طرح کے مسائل کی وجہ سے آرام وسکون غارت ہو کر رہ جاتا ہے لیکن ایک کامیاب کاروباری شخص ان تمام مسائل سے خوش اسلوبی سے نبردآزما ہوتا ہے۔
جب ان سب مسائل کا تندہی سے مقابلہ کر لیتا ہے تو پھر مستقبل میں سکون ہی سکون بشرطیکہ ایمانداری کو ملحوظ خاطر رکھا ہو گا۔۔۔۔

www.dawatethid.blogspot.com
we provide the best visa services for all countries
www.bestfuturepk.blogspot.com
WhatsApp:+923462115913

Wednesday, 9 May 2018

کاروبار کرنے کے قیمتی گُر

کاروبار کرنے کے قیمتی گُر

(تحریر طیب طارق:انتخاب شہزاد تارڑ )

تحریر طویل ہونے کی وجہ سے شروع کا مکالمہ حذف کیا گیا۔۔۔۔۔۔

‘‘طیّب بھائی میں کاروبار کرناچاہتا ہوں، مگر ڈرتا ہوں۔’’
‘‘کس بات کا ڈر؟’’ کہنے لگا ‘‘
مجھے کاروبار کا کوئی تجربہ نہیں۔ اگر میری رقم ڈوب گئی تو پھر کیا ہو گا؟ والد صاحب ساری عمر کی جمع پونجی مجھے دیں گے۔ اگر بینک سے لیتا ہوں اور کاروبار نہ چل سکا تو ساری عمر قرضہ اُتارتا رہوں گا۔ مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ کون سا کاروبار کرنا چاہیے، کس میں زیادہ منافع ہوگا اور جتنی رقم میرے پاس ہے اس میں کون سا کاروبار ہو سکتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں ماسٹرز کے بعد کاروبار ہی کرنا چاہتا تھا مگر یہ  تمام باتیں سوچ کے ڈر گیا۔ پھر ہمارے ہاں کوئی ایسا  ادارہ بھی نہیں جو اس حوالے سے راہنمائی دے سکے۔’’

میں نے کہا ‘‘دیکھو علی، تمہارے سارے خدشات ایسے شخص کے مانند ہیں جو کسی مقابلے میں شامل ہونے سے پہلے ہی یہ سوچنے لگے کہ میں ہار جاؤں گا۔ اگر سکندر اعظم دنیا فتح کرنے سے پہلے یہی سوچتا کہ اُسے شکست ہو جائے گی تو کبھی دنیا کا عظیم فاتح نہ بنتا۔ مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر ہندوستان آنے سے پہلے یہ سوچ لیتا کہ اُسے شکست ہو گی تو آج ہندوستان کی تاریخ کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ سٹیفن ہاکنگ اپنی معذوری کو حرز جاں بنالیتا تو اس صدی کا سب سے بڑا سائنس دان نہ بن پاتا۔ سب سے پہلے اپنے اوپر یقین کرنا سیکھو کہ ہاں میں کر سکتا ہوں، میں چاہوں تو دنیا بھی مسخر کر سکتا ہوں۔ علامہ اقبالؒ کا فلسفہ خودی اسی یقین کی طاقت اور اپنے اوپر اعتماد کا نام ہے۔

‘‘تم نے اپنے جو خدشات بتائے ان کا حل نکالنا ممکن ہے۔ دراصل کم و بیش ہر آدمی خطرے کے امکانات سے ڈرتا اور انھیں کم کرنا چاہتا ہے۔ کاروبار کے تناظر میں اگر ہم بات کریں تو اس میں بھی رقم ضائع ہونے کا خطرہ ہم کم سے کم کر سکتے ہیں۔ پہلا سیدھا سادہ فارمولا تو یہ ہے کہ آپ کے پاس جتنی رقم ہے اُس کے ایک تہائی حصے سے کاروبار شروع کرو۔ یعنی ایک انگریزی محاورے کے مطابق اپنے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں کبھی مت ڈالیں۔

‘‘دوسرا نکتہ یہ کہ اگر کاروبار کے لیے پیسے کم ہیں یا آپ نقصان سے ڈرتے ہیں تو اپنے کسی بااعتبار دوست یا عزیز رشتے دار کے ساتھ شراکت کر لیجیے۔ اگر آپ کے پاس بالکل معمولی رقم ہے، لیکن آئیڈیا ٹھوس ہے، تو اپنے کسی مالی طور پر مستحکم رشتے دار یا دوست سے بات کیجیے… یہ آئیڈیا میرا، محنت میری، پیسا تمہارا اور منافع ہم آپس میں خاص شرح سے بانٹ لیں گے جو آپس میں طے کیا جا سکتا ہے۔  ‘‘اب تو آئی ٹی سے متعلقہ کاروبار مثلاً آن لائن دکان، سافٹ وئیر، موبائل ایپ، آن لائن پبلشنگ یا کسی بھی طرح کی آن لائن خدمات کے لیے سرمائے کا حصول آسان ہو چکا۔ اس سلسلے میں حکومت کی وازارت  اسمال اسکیل انڈسٹریز  کے تحت کچھ منصوبے ہیں۔ اسٹارٹ اپ انڈیا پروگرام بھی نئے کاروباروں کو تعاون دینے کے لیے  شروع کیا گیا ہے۔ اگر تم چھوٹی سطح کا کاروبار کرنے کے لیے سرمایہ چاہتے ہو، تو اس کے لیےوزیر اعظم مدرا یوجنا اور متعدد فنانسینگ ادارے موجود ہیں۔ اہم بات یہ کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لیے درکار سرمائے کی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے اب ہندوستان میں بھی کراؤڈ فنڈنگ اور اینجل فنڈنگ جیسی عالمی سہولیات میسر ہیں۔ملک میں متعدد اینجل نیٹ ورکس، وینچر کیپیٹل انویسٹرز اور انکیوبیٹرز موجود ہیں جو کاروبار میں سرمایہ لگانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ کا آئیڈیا بہت شاندار ہو اور انھیں پسند آجائے۔  اس سرمائے کے حصول کے طریقوں اور متعلقہ کمپنیوں کے بارے میں تفصیل تمھیں پھر کبھی  بتاؤں گا۔

 ‘‘تیسرا نکتہ تم نے اٹھا یا کہ تمھیں کاروبار کا تجربہ نہیں ہے اور کون سا کاروبار کرنا چاہیے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح آپ امتحان میں کامیابی کے لیے تیاری کرتے ہیں، کاروبار میں کامیاب ہونے کے لیے بھی تیاری کرنی پڑے گی تاکہ ناکامی کا امکان کم سے کم ہو اور رقم بھی ضائع نہ ہو۔’’

علی نے حیران ہو کر پوچھا: ‘‘کاروبار کی تیاری سے کیا مراد ہے؟’’

میں نے جواب دیا: ‘‘جس طرح کسی بھی مقابلے میں آپ کے حریف ہوتے ہیں، اسی طرح کاروباری دنیا میں بھی حریف ملتے ہیں۔ لہٰذا مقابلے کے لیے متعلقہ کاروبار کے معیار اور مصنوعہ کی خصوصیات پر مکمل گرفت، بازار کے داموں سے آگاہی اور کاروبار میں منافع کی صلاحیت جانچنے کے لیے اس کی فزیبلٹی (feasibility) تیار کرنے کو کاروبار کی تیاری کہا جا سکتا ہے۔ ساتھ میں یہ بھی ضروری ہے کہ اگر آپ کو اس کاروبار کا بالکل تجربہ نہیں تو اسے شروع کرنے سے پہلے تین چار مہینے کسی متعلقہ فرم میں انٹرن شپ کر لیں یعنی تھوڑا عملی کام سیکھ لیا جائے تاکہ نقصان کا امکان کم ہو سکے۔ کاروباری خاندانوں میں اب بھی یہی رواج ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پہلے ملازمین کے ساتھ بٹھا کر کام سکھاتے ہیں، پھر کرسی پر بٹھاتے ہیں۔’’

علی کو اب میری باتوں میں دلچسپی محسوس ہو رہی تھی، کہنے لگا ‘‘طیّب بھائی اگر آپ برا نہ مانیں توآج رات کا کھانا ہم اکٹھے کھا لیں، میں آپ سے کاروبار کے سلسلے میں مزید راہنمائی چاہتا ہوں۔’’

میں نے کہا: ‘‘بھئی تم مجھے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز ہو، اگر کہو تو میں فجر تک تمہاری راہنمائی کرنے کے لیے تیار ہوں۔’’

ہم پھر ایک مقامی کافی شاپ کی جانب روانہ ہو گئے۔ راستے میں اس نے ایک میڈیکل اسٹور سے کھانسی کا سیرپ لیا۔ کھانے کا آرڈر دے کر جب دوبارہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تو میں نے اس سے کہا ‘‘علی اگر تم واقعی کاروبار کے بارے میں سنجیدہ ہو، تو ہمیں روزانہ ایک نشست رکھنی چاہیے جس میں کاروبار کے ایک موضوع پر سیر حاصل گفتگو کر سکیں۔  یہ موضوع بہت وسیع ہے اور ایک نشست میں اس پر تفصیلی بات چیت ممکن نہیں۔ ان نشستوں میں ہم کاروباری آئیڈیاز پر بات کریں گے۔ کاروبار کی ہر شکل مثلاً امپورٹ ، ایکسپورٹ ، آن لائن کاروبار وغیرہ کی عملی مشکلات اور اسے شروع کرنے کی حکمت عملی بھی  زیربحث آئے گی۔ ہم دیکھیں گے کہ عملی دنیا میں کاروبار کیسے ہو رہا ہے اور کیسے شروع ہو سکتا ہے ۔’’

میرا یہ کہنا تھا کہ اس کی تو باچھیں کھل گئیں، کہنے لگا ‘‘نیکی اور پوچھ پوچھ، میں تو خود یہی چاہتا تھا، اچھا ہو گیا آپ نے یہ بات خود ہی کہہ دی۔’’ چنانچہ  فیصلہ یہ ہوا کہ ہم ہفتے میں تین دن نشست رکھیں گے اور کاروبار کے ایک موضوع پر تفصیلی بات چیت کیا کریں گے۔طے پایا آج ہم کاروبار کے متعلق بنیادی باتیں کریں گے مثلاً کاروبار کہاں سے اور کیسے شروع کیا جائے، کون سا کاروبار کیا جائے اور اس کی فزیبلٹی کیسے بنائی جائے ۔ میں نے علی کو جو کچھ بتایا، اس سے بیروزگار نوجوان اور اُن کے متوحش والدین بھی راہنمائی پا سکتے ہیں۔

‘‘انسان کاروبار رقم کمانے کے لیے کرتا ہے تا کہ اپنا معیار زندگی بہتر بنائے اور خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھ سکے۔ کاروبار میں آپ کچھ نہ کچھ بیچتے ہیں چاہے وہ کوئی خدمات ہوں(مثلاً اسکول، کمپیوٹر کالج، ڈاکٹر اور وکیل کی خدمات) کوئی تیار شدہ مال ہو یا غیر تیار شدہ مال یا چاہے کوئی تحریری یا آن لائن مال جیسے میگزین وغیرہ۔ اس میں سے خرچہ نکال کر جو بچے، وہ آپ کا منافع ہوتا ہے۔

دنیا میں اس وقت سرمایہ داری نظام مقبول ہے۔ سرمایہ داری نظام میں ہر چیز بکتی ہے۔ اس وقت تم نے جو جوتے پہنے ہوئے ہیں، ان سے لے کر تمھارے کپڑوں اور کھانے تک ہم مختلف اشیا خریدتے یعنی بیچنے والے کو پیسے دیتے ہیں۔ اسی طرح ہر چیز یا آئٹم کی  اپنی سپلائی چین ہوتی ہے۔سپلائی چین کو ہم سادہ زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی چیز کے بننے یا زمین سے نکلنے سے لے کر صارف کے ہاتھوں میں پہنچنے کا سفر۔

مثال کے طور پر تم نے ابھی کھانسی کا شربت خریدا۔ یورپ یا چین کی کسی کمپنی نے اس کا را مٹیریل یا خام مال بنایا۔ ہندوستان کے کسی امپورٹر نے اسے باہر سے منگوایا اور مقامی فارما کمپنی کو بیچا۔ فارما کمپنی نے اسے کھانسی کے شربت میں تبدیل کر کے ڈسٹری بیوٹر کو بیچا۔ ڈسٹری بیوٹر نے شربت فارمیسی والے کو بیچا۔ فارمیسی والے سے آخر وہ تم تک پہنچ گیا۔

اس سارے عمل میں مینوفیکچرر، امپورٹر، ہول سیلر، ڈسٹری بیوٹر، ریٹیلریا فارمیسی، ہر ایک نے اپنا منافع رکھا اور دوا کو آگے بیچا۔ اسی طرح ایک کھانسی کی دوائی کے ساتھ کئی کاروبار جڑے ہیں۔ اس بوتل پہ جو لیبل چپکا ہے، وہ اس کے مینوفیکچرر نے کہیں اور سے پرنٹ کروایا۔ شیشے کی بوتل کہیں اور سے لی اور اس کا ڈھکن کہیں اور سے خریدا۔ جس کارٹن میں یہ پیک ہو کے ڈسٹری بیوٹر اور فارمیسی کے پاس گئی، وہ اس نے کہیں اور سے خریدا ہو گا۔ شربت میں جو مرکبات استعمال ہوئے  مثلاً چینی وغیرہ وہ اس نے کہیں اور سے خریدی ہو گی۔ اس طرح کھانسی کی دوائی کے ایک برانڈ سے کم ازکم دس طرح کے کاروبار چل رہے ہیں۔

اب اس سپلائی چین کے کسی بھی حصے میں داخل ہو کر تم کاروبار شروع کر سکتے ہو۔ یہی حساب باقی تمام کاروباری شعبوں کا بھی ہے۔ اب یہ فیصلہ تمہیں کرنا ہے کہ اس سپلائی چین کے کس حصے میں داخل ہو کر  امپورٹر، ایکسپورٹر بننا ہے، ہول سیلر یا ریٹیلر یعنی دکان بنانی ہے۔ ریٹیل میں تم آن لائن شاپ یعنی دکان بھی بنا سکتے ہو جو اس وقت بشمول ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والا رجحان ہے۔ اس کے علاوہ خدمات کا شعبہ بھی تمھارے لیے کھلا ہے جس میں تم اکیڈمی سے لے کر کمپیوٹر کالج اور اسکول تک بنا سکتے ہو۔ پھر جدید رجحانات میں ڈے کیئر سنٹرز شامل ہیں۔

فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری

کون سا کاروبار شروع کرنا چاہیے یا کون سا تمہارے لیے بہتر رہے گا ؟اس بات کا فیصلہ تمھیں درج ذیل آٹھ عوامل کا سائنسی اور اعداد و شمار کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہوئے کرنا چاہیے۔ ۱۔ ذاتی دلچسپی۔ ۲۔ منافع کی شرح۔ ۳۔ کل  درکار سرمایہ کاری۔ ۴۔ کاروبار یا مصنوعہ کی مانگ ۵۔ کیش فلو (پیسے کا بہاؤ ) یعنی جن کو آپ نے سامان بیچنا ہے ان کے ساتھ کام اُدھار پر ہے یا نقد؟ اگر اُدھار پرہے، تو کتنے دن کا اور پیچھے سے یعنی جن سے آپ نے سامان خریدنا ہے، ان کے ساتھ آپ کا کام اُدھار پر ہے یا کیش اور اگر اُدھار پر ہے، تو کتنے دن کا اُدھار ہے اور رقم ٹوٹ کر یعنی قسطوں میں توواپس نہیں ملتی۔ ۶۔مارکیٹ میں مدمقابل کتنے ہیں۔ ۷۔ آنے  والے زمانے میں رجحان کس چیز کا بڑھ رہا ہے؟  کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کا کاروبار آنے والے وقت میں لوگوں کے بدلتے رجحان کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو بیٹھے۔ ۸۔ متعلقہ کاروبار کا تجربہ۔

انہی میں سے دلچسپی اور تجربے کا عنصر نکال کر باقی عناصر کا اعداد و شمار کی بنیاد پر سائنسی تجزیہ کاروبار کی فزیبلٹی رپورٹ کہلاتا ہے۔ بلکہ اگر ہم فزیبلٹی کی کتابی تعریف سے باہر نکل کر بات کریں، تو یہ دونوں عناصر بھی فزیبلٹی کی تعریف میں شامل ہیں کیونکہ کاروبار کی کامیابی میں اعدادوشمار کے علاوہ انسانی حوصلہ، کاروبار چلانے کی لگن، تجربہ اوراس سے سیکھے گئے سبق یہ سب انسانی رویے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

فزیبلٹی بنانے کا مقصد یہ ہے کہ کاروبار سے کمائی کی ممکنہ استعداد، مانگ میں اضافے اور منافع کا  حقیقت کے قریب ترین تخمینہ لگا لیا جائے تاکہ نقصان کا اندیشہ کم سے کم ہو۔ اب اگلا سوال یہ ہے کہ فزیبلٹی کیسے بنائی جائے؟ ہم انہی آٹھ عناصر کو تھوڑا تفصیل سے لیتے ہیں جس سے تمھیں فزیبلٹی کی بنیادی باتیں سمجھ آ جائیں گی۔

۱۔ کاروبار میں دلچسپی:

سب سے پہلے یہ دیکھو کہ جو کاروبار تم نے شروع کرنا ہے کیا تمھیں اس سے دلچسپی ہے بھی یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مشورہ تمھیں دکان کا دیا جا رہا ہو، لیکن تم دل میں سوچ رہے ہو کہ میں اب اتنا پڑھ لکھ کے دکانداری کروں گا؟ لہٰذا صرف کسی کے مشورے پر بغیر سوچے سمجھے کبھی کوئی کاروبار شروع مت کرنا۔ پہلے یہ دیکھو کہ تمہارا اپنا دل کیا چاہتا ہے؟ اور کاروبار کرنے کی خاطر تمہارے پاس کوئی آئیڈیا ہے؟ اگر آئیڈیا ہے، تو پہلے اس کی مکمل فزیبلٹی بناؤ۔ اس چیز ، مال یا خدمات کی ممکنہ مانگ کی عملی جانچ پڑتال کرو اور پھر اللہ پر بھروسا کر کے اسے شروع کرنا۔ ان شاءاللہ رب تعالیٰ کی مدد سے کامیابی تمہارا مقدر ہو گی۔

علی نے لقمہ دیا : ‘‘طیّب بھائی،میں نے ابّا جان سے ایک دکان شروع کرنے کا مشورہ کیا تھا، لیکن وہ اُسے سنجیدگی سے لینے کے بجائے الٹا میرا مذاق اُڑانے لگے کہ اب تم پڑھ لکھ کے دکان داری کرو گے۔’’

میں نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے جواب دیا: ‘‘دیکھو علی، یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم پڑھ لکھ کر کاروبار کرنے کو حقیر چیز سمجھتے ہیں۔ کاروبار جیسی اہم چیز کو ہم نے کم پڑھے لکھے لوگوں یا کارپوریٹ سیکٹرکے حوالے کیا ہوا ہے۔ یہی حال ہمارے زمیندار بھائیوں کا ہے کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ کھیتی کرنے کو گناہ کبیرہ سمجھنے لگتے ہیں۔افسوس کی بات یہ کہ والدین بھی ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔

دکانداری کوئی بری چیز نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پڑھ لکھ کر اسے آپ نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کر رہے ہیں یا نہیں؟ حقیقتاً پڑھ لکھ کر آپ دکانداری میں اس انداز سے جدّت لا سکتے ہیں کہ ایک ہی دکان کا نام آپ کو کروڑوں روپے دلوا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بیکانیر والا اور ہلدی رام مٹھائی کی دکانیں تھیں  جو چالیس پچاس سال قبل کھولی گئی تھیں۔آج یہ دونوں فاسٹ فوڈ کی بڑی چینز ہیں اور نامی برانڈ کے طور پر معروف ہیں۔ ان کی ماہانہ سیل کروڑوں روپوں تک جا پہنچی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ مٹھائی کی دکانداری کرناکوئی برا کام تو نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آپ اسے چلا کیسے رہے ہیں اور اسے آگے بڑھانے کے لیے آپ میں کتنا جذبہ اور حوصلہ موجود ہے۔

اسی طرح اگر ریٹیل اسٹور کی بات کریں تو کلکتہ میں باٹاکے نام سے ایک چھوٹی سی جوتوں کی دکان ۱۹۳۲ میں کھولی گئی تھی۔ اب اس کی کئی شاخیں ہیں۔ اگر ہم آن لائن دکان کی بات کریں تو فلپ کارٹ (flipkart.com) اس وقت ہندوستان کا سب سے بڑا آن لائن ریٹیل اسٹور بن چکا ہے جس کی سیل محتاط تخمینے کے مطابق ۵۰ بلین امریکی ڈالر سالانہ ہے ۔ اس کا ایک ای ریٹیلیر ڈبلیو ایس ریٹیل ہے جس کی ۲۰۱۴ کی سیل دس ہزار کروڑ رپوے تھی۔ ۔ زمینداری اور کاشت کاری سے متعلق نئے خیالات اور رجحانات پر بھی ہم ایک نشست میں بات کریں گے۔ ابھی ہماری توجہ اسی موضوع کی طرف مرکوز رہنی چاہیے۔

۲۔منافع کی شرح:

کسی بھی کاروبار میں سب سے اہم چیز اس کے منافع کی شرح اور سیل کا ممکنہ تخمینہ ہوتی ہے۔ کاروبار ہم منافع کمانے کے لیے کرتے ہیں اس لیے بے شک تھوڑی سرمایہ کاری کے ساتھ وہ کام شروع کر دیجیے جس میں منافع کی شرح بلند ہو اور ساتھ ساتھ سیل کا بھی مناسب بندوبست ہو سکے۔ تم کاروبار کے جس شعبے کی فزیبلٹی بنانا اور جن چیزوں کی خریدو فروخت کرنا چاہ رہے ہو، پہلے ان کے معیاراور تکنیکی خصوصیات کے حوالے سے مکمل معلومات حاصل کرلینا۔

مثلاً اگر تم ملبوسات کا کاروبار کرنے لگے ہو تو کپڑے کی اقسام، کوالٹی ان کی موٹائی اور چوڑائی وغیرہ کی معلومات حاصل کرنا ضروری ہے یعنی ایسی چیزیں جن کی بنیاد پر ان کے نرخ کا تعین ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان چیزوں کی تکنیکی معلومات کے ساتھ ہول سیل مارکیٹ/ڈسڑی بیوٹر/ ریٹیل سے یعنی جہاں سے تم نے اپنا مال بیچنے کے لیے خریدنا ہے، پوچھو کہ یہ چیزیں تمھیں کس قیمت پر ملیں گی؟ پوری مارکیٹ کا سروے کرو یا چار پانچ فیکٹریاں لازمی گھومو تاکہ تمھیں کم از کم ریٹ بہتر معیار کے ساتھ مل سکے اور تم اپنا منافع بڑھا سکو۔

اس کے بعد جس مارکیٹ میں تم نے اپنی چیزیں بیچنی ہیں وہاں خریدار بن کے جاؤ اور اپنی مطلوبہ چیزوں کا ان کی تکنیکی خصوصیات کے ساتھ نرخ معلوم کرو کہ فی الوقت ان کا کم از کم ریٹ کیا چل رہا ہے۔ قیمتیں معلوم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ شروع شروع میں مارکیٹ میں اپنے قدم جمانے کے لیے ہو سکتا ہے کہ تمھیں کم از کم ریٹ سے بھی نیچے ریٹ دینا پڑے تا کہ خریدار تمہاری طرف متوجہ ہوں اور مستقل طور پر تمہارا مال خریدیں۔

اب مصنوعہ بیچنے کا جو کم از کم ریٹ ہے، اس میں سے جس ریٹ پہ تم خریدو گے اسے نکال کے اپنا  بنیادی منافع نکال لو۔ اب اپنے کاروبار کرنے کے خرچ کا حساب نکالو۔مثال کے طور پر آپ کو کاروبار شروع کرنے کے لیے ایک کمرا بطور  دفتر (کرایہ + بجلی+ چائے وغیرہ : بائیس ہزارروپے) ایک آفس بوائے (آٹھ ہزار روپے) اور ایک سیلز مین(تنخواہ بیس ہزار روپے) کی ضرورت ہے تو آپ کا ماہانہ خرچہ ہوا پچاس ہزار روپے۔

اگر آپ کے کاروبار کی سیل۲۵ فیصد بنیادی منافع کے ساتھ دو لاکھ روپے ماہانہ ہے  توآپ پچاس ہزار روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔یہ کاروبار کے بنیادی خرچے پورے کرنے کے لیے کافی رقم ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ دو لاکھ روپے آپ کے کاروبار کا ‘‘بریک ایون پوائنٹ’’ (break-even point) ہوا یعنی سیل کا وہ مرحلہ جہاں آپ کی آمدنی خرچ کے برابر ہو گئی۔ اس مرحلے کے بعد آپ کی جتنی بھی سیل بڑھی اس کی بچت آپ کی اپنی ہو گی۔

اس مرحلے پر آ کر علی تھوڑا پریشان ہو گیا اور پوچھنے لگا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کاروبار سے مجھے فوری کمائی نہیں ہو گی۔ میں نے جواب دیا : ‘‘ارے نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ اس مسئلے کا حل یہ ہوتا ہے کہ جب آپ فزیبلٹی بنائیں تو تنخواہ کا ایک حصّہ چاہے تھوڑا ہی سہی منیجر کے لیے بھی رکھیں۔ چونکہ آپ سارا انتظام کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ تنخواہ آپ کے حصّے میں آئے گی۔ دوسری بات یہ کہ جہاں تنخواہ ایک جگہ مستقل رہتی یا برسوں بعد بڑھتی ہے وہیں کاروبار میں مسلسل محنت سے آپ ایک سال کے اندر اندر اپنی ممکنہ تنخواہ سے دگنا تگنا کما سکتے ہیں۔

۳۔ کل درکارسرمایہ کاری:

تیسری اور سب سے اہم چیز کاروبار شروع کرنے کے لیے درکار سرمایہ کاری ہے۔ متعلقہ مارکیٹ یا اس شعبے کے جان پہچان والے لوگوں سے رابطہ کر کے یہ معلوم کرو کہ اس کام میں سرمایہ کاری کتنی درکار ہو گی۔ اگرآپ ہول سیل کا کام کرنے یا دکان کھولنے کا سوچ رہے ہوتو اس میں بنیادی سرمایہ کاری آپ کے مال کی ہو گی۔ اگر مینوفیکچرنگ کا سوچ رہے ہو تو جو مشینیں آئیں گی ان کا خرچہ کتنا ہو گا۔ اس کے علاوہ آپ کو مزدوروں کی تنخواہ، بجلی، پانی اور دیگر اخراجات کا کم از کم چھے ماہ کا خرچہ اپنے ذہن میں رکھ کر تخمینہ لگانا ہو گا ۔

رہ گئی زمین تو اگر آپ چھوٹی سطح سے شروع کرنا چاہتے ہو تو وہ تمھیں کرائے پر بھی مل جائے گی۔ یا کرائے پہ کوئی جگہ لے کر اس میں مشینیں رکھ کر کام شروع کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس اتنی رقم نہیں کہ آپ امپورٹ یا مینوفیکچرنگ کاکام شروع کر سکیں تو سرمایہ کاری کم کرنے کے اور بھی حل ہیں۔ اِن پہ میں تب بات کروں گا جب ہم امپورٹ یا مینوفیکچرنگ کے موضوعات پر تفصیلی نشست کریں گے۔

۴۔ مانگ کا تخمینہ:

چوتھی اہم چیز جس کا فزیبلٹی میں حساب لگانا ضروری ہے وہ ہے مانگ کا تخمینہ! کچھ چیزوں کی مانگ زیادہ لیکن منافع تھوڑا ہوتا ہے۔ کچھ چیزوں کی مانگ کم اور منافع زیادہ ہوتا ہے۔ مینوفیکچرنگ، ریٹیل یا ہول سیل جس میں بھی آپ کاروبار کرنے جا رہے ہیں، اپنی مصنوعہ کی مانگ کا درست تخمینہ لگانا بہت ضروری ہے۔ زیادہ خریدنے یا پیداوار کی صورت میں آپ کا پیسا پھنس جائے گا اور کم پیداوار یا خریدنے کی صورت میں آپ کی سیل کم ہو گی۔

اگر آپ بالکل نیا کاروبار کرنے جا رہے ہیں جس کے مصنوعات کی مانگ کا آپ کو مکمل اندازہ نہیں تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ خریداروں کی مارکیٹ میں جا کر متعلقہ مصنوعات کی سیل کے متعلق سروے کریں کہ ان کی ماہانہ کھپت کتنی ہے۔ تقریباً  پندرہ بیس دکانوں کا سروے کر کے آپ کو اندازہ ہو سکتا ہے جس کا اطلاق آپ محتاط طریقے سے پوری مارکیٹ پر کر سکتے ہیں۔ نئی مصنوعات یا اپنا نیا آئیڈیا متعارف کراتے وقت یہ بات اصول کا درجہ رکھتی ہے۔

۵۔ پیسے /نقدی کا بہاؤ (کیش فلو):

کسی بھی کاروبار میں کیش فلو یعنی پیسے کا بہاؤ ایسے ہی اہمیت رکھتا ہے جیسے جسم میں خون۔ مالیات کی کتابوں میں درج ہے کہ نقد رقم کی مثال کاروباری دنیا میں ایسے ہی ہے جیسے کسی سلطنت میں کوئی بادشاہ ہو اور باقی سب غلام۔آپ کام رقم کمانے کے لیے کرتے ہیں لیکن کاروبار اُدھا ر پر چلتا ہے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہول سیل اور مینوفیکچرنگ کا کاروبار اُدھار پر ہوتا ہے۔ کچھ شعبوں میں اُدھار زیادہ دیر چلتا ہے کچھ میں کم دیر کا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں البتہ ایک اضافی تکلیف دہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ جب اپنے گاہک کو اُدھار دے دیں، تو وہ واپس بڑی مشکل سے کرتا ہے۔ مزیدبرآں وہ رقم توڑ کر یعنی قسطوں میں واپس کرتا ہے۔

لہٰذا آپ جو بھی کاروبار کرنے لگے ہیں، اس میں یہ دیکھیں کہ گاہک کے ساتھ آپ کا اُدھار کتنے دن کا ہے اور جہاں سے آپ اپنا سامان خریدتے ہیں، ان کے ساتھ اُدھار کتنے دن کا چلے گا۔کوشش کریں کہ کام ایسا شروع کریں جس میں آپ کا اپنے گاہک/خریدار کے ساتھ اُدھار کا دورانیہ ، آپ کی کمپنی سے یعنی جس سے آپ سامان خریدتے ہیں، ادھار کے دورانیے کے مقابلے میں مختصر ہو۔ یوں آپ کی نقدی کا چکراس طرح بنے کہ آپ اپنے خریدار سے پیسے پکڑیں اور اپنا منافع نکال کر اپنی کمپنی کو رقم دے دیں۔

اگر آپ کا اُدھار اپنے گاہک کے ساتھ ۳۰ دن کا ہے تو کمپنی کے ساتھ آپ کا اُدھار ۴۵ دن کا ہو۔ اگر اس کے الٹ ہوا، تو آپ کو مال اپنی جیب سے خریدنا پڑے گا۔ اکثر آپ کے کھاتے یا سافٹ وئیر تو منافع دکھا ئیں گے لیکن اصلاً آپ کے پاس نقد رقم نہیں ہو گی۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ آپ جو بھی چیز بیچ رہے ہیں، اس میں آپ برانڈنگ کریں یعنی اس مصنوعہ کا ایک نام بنا کے اسے اسی نام سے بیچیں اور اپنے معیار کو خراب نہ کریں۔ برانڈنگ کے فوائد اور اہمیت پر بھی ہم ایک نشست رکھیں گے۔

۶۔ کاروباری مقابلہ:

اگر آپ کوئی نیا کاروبار شروع کرنے جا رہے ہیں، تو یہ لازمی دیکھیں کہ اس شعبے یا مصنوعہ میں آپ کے کاروباری حریف کتنے ہیں؟ آپ کے مقابلے میں کتنے لوگ مارکیٹ میں اس چیز کو بیچ رہے ہیں؟ یہ دیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ میں سخت مقابلہ قیمتیں کم کر دیتا ہے۔ نتیجے میں منافع کی شرح کم ہو جاتی ہے اور جب آپ محنت ہی منافع کے لیے کر رہے ہیں تو پھر کیا فائدہ ایسے کام میں ہاتھ ڈالنے کا جس میں منافع کی شرح بہت کم ہو۔

ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی نیا شخص ایک مصنوعہ لے کے آئے تو وہ مارکیٹ میں اپنے قدم جمانے کے لیے خریدار سے کہتا ہے کہ مجھ سے تم ۱۰ روپے سستی چیز لے لو۔ چنانچہ آپ کے کچھ یا کافی خریدار آپ کو چھوڑ کے اس سے مال لینے لگتے ہیں۔ پھر جب کوئی نیا حریف آئے تو وہ ریٹ مزید کم کر دیتا ہے۔ اب پیچھے سے وہ چیز سب کو اتنی لاگت کی ہی پڑ تی ہے۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ منافع کی شرح انتہائی گر جاتی ہے۔

مثلاً جب مائکرو میکس موبائل مارکیٹ میں آیا تو اس نے چین کے بنے سیٹس کو برانڈ بنا کے انتہائی سستے داموں مارکیٹ میں بیچا۔ چونکہ چین کے برانڈڈ موبائل میں کوئی اور کاروباری حریف تھا ہی نہیں، لہٰذا اس نے اچھی مارکیٹنگ کے بل بوتے پر نہ صرف مارکیٹ کا اچھا خاصا شیئر حاصل کر لیا بلکہ ٹھیک ٹھاک منافع بھی کمایا۔ اب اس کے بعد بے شمار کمپنیاں مثلاً انٹیکس، لاوا، زولو وغیرہ مارکیٹ میں آ گئی ہیں، لیکن انھیں بھی قیمتیں کم رکھنی پڑ رہی ہیں۔ ساتھ میں مارکیٹ کا ویسا حصّہ بھی نہیں ملا جیسا مائیکرو میکس موبائل کو مل چکا جس کی وجہ سے اب منافع کی شرح بہت کم ہو چکی۔

نئے آئیڈیے یا نئی مصنوعہ کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ ایک تو منافع کی شرح بہت اچھی ہوتی ہے، دوسرے یہ کہ اگر وہ مصنوعہ خریداروں کو پسند آ جائے تو آپ اس کے مارکیٹ لیڈر بن جاتے ہیں۔ وہی مصنوعہ آپ کی کمپنی کو چلانے میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوتی ہے۔

۷۔ مارکیٹ کا رجحان:

دور اندیش لوگ آئندہ آنے والے بیس برس کا سوچتے ہیں،  کوتاہ نظر صرف آج کی سوچ رکھتے ہیں، جبکہ بیوقوف کوئی واقعہ گزرنے کے بعد اس پر غور کرتے ہیں۔ یہی مثال صد فیصد کاروبار پربھی لاگو ہوتی ہے۔ آپ جو کاروبار کرنے جا رہے ہیں اس کی فزیبلٹی میں یہ تجزیہ بھی شامل کریں کہ آج سے بیس سال بعد آپ کہاں کھڑے ہوں گے۔ آپ جو کاروبار شروع کرنے جا رہے ہیں کیا مارکیٹ کا رجحان اسی جانب چل رہا ہے یا آپ کی گنگا اُلٹی بہہ رہی ہے۔ کیا آپ کسی ایسے آئیڈیا یا مصنوعہ پر کام تو نہیں کر رہے جس کی مانگ مارکیٹ سے آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔

دوسری بات یہ دیکھیں کہ آپ کے کاروبار میں بڑھوتری کا امکان کتنا ہے۔ اگر آپ اسے آج شروع کرتے ہیں تو بیس سال بعد کہاں کھڑے ہوں گے۔ اگر آپ اس کام کی بلندیوں تک پہنچ جائیں تو تب آمدنی کتنی ہو گی اور اس کام میں کس طریقے اور کن مصنوعات کے اضافے سے آپ اپنی سیل اور آمدنی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں ماہانہ آمدنی کا جو ہدف ہے کیا وہ اس کاروبار سے بخوبی پورا ہو سکتا ہے ؟

یہ معلومات پانے کے لیے آپ انٹرنیٹ سے ڈیٹا ڈھونڈ سکتے ہیں۔ مثلاً آپ ہندوستان سے ایک مصنوعہ ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں، تو آپ انٹرنیٹ کی مدد سے یہ ڈھونڈیں کہ اس کی ایکسپورٹ ہندوستان سے بڑھ رہی ہے یا کم ہو چکی؟ اس مصنوعہ یا سیکٹر کی مجموعی ایکسپورٹ کتنی ہے؟ دوسرے اپنے مشاہدے کی طاقت تیز کر کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کا مشاہدہ کریں۔ باتوں باتوں میں ان سے معلومات پوچھیں تا کہ آپ درست تخمینہ لگا سکیں اور کسی طور پر بھی نقصان نہ اٹھائیں۔

۸۔ متعلقہ کاروبار کا تجربہ :

جب آپ کوئی نیا کاروبار شروع کرنے لگیں تو منافع کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ آپ کوبھائی یا آپ کے والد کو کس کام کا تجربہ ہے۔ اگر اس کاروبار میں منافع اور کیش فلو تحقیق کے مطابق مناسب ہے اور اس کام میں کاروباری حریف بھی کم ہیں تو آپ کو وہ کاروبار شروع کرنے کے متعلق لازمی سوچنا چاہیے۔ تجربہ ایسی چیز ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

تجربے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ تجربے کا ر ا ٓدمی مارکیٹ میں نیک نام رکھتا ہے۔ اس کو چیزیں بیچنے اور کمپنی سے اُدھار پر چیزیں لینے میں آسانی رہتی ہے۔ یعنی بالکل نئے کاروبار والی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور آپ کے لیے شروع ہی سے کچھ نہ کچھ آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔

اگر آپ کے پاس متعلقہ کاروبار کا تجربہ نہیں تو  اپنا کاروبار شروع کرنے سے پہلے کم از کم پانچ چھے ماہ کسی متعلقہ فرم میں انٹرن شپ کریں۔ اس کے دو فوائد ہیں: ایک یہ کہ آپ مارکیٹ میں دھوکا کھانے سے بچ جائیں گے۔ مارکیٹ چاہے ایکسپورٹ کی ہو ، امپورٹ  یا مقامی، اس میں دھوکا بہت زیادہ ہے۔ جو مال آپ نے خریدنا ہے، اگر آپ کو اس کی صحیح پہچان نہیں ہو گی تو کوئی نہ کوئی آپ کو دھوکا دے جائے گا۔ آپ کے پیسے ڈوبیں گے اور جن کو آپ آگے بیچیں گے، وہاں نام بھی خراب ہو گا۔

چھے مہینے انٹرن شپ کرنے سے فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کو چیزوں کے معیار کی صحیح پہچان ہو جائے گی۔ دوسری وجہ یہ کہ صرف فزیبلٹی بنانے سے اپنے شعبے سے متعلق کئی تکنیکی باتوں کا آپ کو علم نہیں ہو پاتا۔ وہ  انٹرن شپ کر کے کافی حد تک ہو جائے گا۔ مثلاً مارکیٹ میں کون سے لوگ اُدھار میں برے اور لوگ اچھے ہیں، کس کمپنی کا مال ٹھیک ہے ، کون سی کمپنی دھوکا دے سکتی ہے وغیرہ ۔

میری گفتگو ختم ہوئی تو میں نے گھڑی پہ وقت  دیکھا، رات کے بارہ بج رہے تھے۔ میں نے کہا ‘‘بھئی علی بہت دیر ہو چکی۔ باقی باتیں اب اگلی نشست میں کریں گے۔ اگلی نشست میں ہم کاروبار کے دیگر پہلوؤں پر بات کریں گے۔’’

علی کہنے لگا: ‘‘بالکل ٹھیک ہے طیّب بھائی، سوال تو اب بھی میرے ذہن میں بہت سے ہیں، لیکن انھیں ہم اگلی نشست کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں۔’’

( تحریر میں موجود پاکستانی مثالوں، مقامات اور کمپنیوں کے ناموں کو قارئین کی سہولت کی خاطر بدل دیا گیا ہے تاکہ وہ اس میں پیش کردہ خیالات کو ہندوستانی سیاق میں سمجھ سکیں۔پاکستانی سیاق میں پڑھنے کے لیے یہ لنک وزٹ کریں  http://dawatetohid.blogspot.com/2018/05/blog-post_9.html

Thanks: dawnnews.tv/
Post by:
اسلامی اصلاحی اور فلاحی ادارہ
www.dawatethid.blogspot.com
we provide the best visa services for all countries
www.bestfuturepk.blogspot.com
WhatsApp:+923462115913

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...